الثلاثاء، مارس 10، 2020

ڈاکٹر محمد لقمان السلفی: اپنی چند خصوصیات کے آئینے میں


فيصل عزيز مدني

بانی جامعہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رحلت سے جہاں علمی دنیا میں ایک عظیم خلا پیدا ہوا ہے وہیں جامعہ نے اپنے سرپرست کو بھی کھویا ہے
بانی جامعہ رحمہ اللہ کی رحلت سے پسماندگان کے ساتھ تمام متعلقین جامعہ دکھی ہیں،اور ان کی کمی کو شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔وہ جامعہ کے سرپرست، پالیسی میکر کے ساتھ،جامعہ کے ڈیسیزن میکر بھی تھے ،ہر چھوٹے بڑے کام میں ان کا پدرانہ مشورہ اور آخری فیصلہ ہوتا تھا جس کی وجہ سے ذمہ داران جامعہ اطمئنان قلب کے ساتھ بے خوف ہوکر بڑا سے بڑا اور پیچیدہ مرحلہ بھی طے کرلیتے تھے،کیونکہ ان کے پیچھے بانی جامعہ ؒ کی شکل میں ایک تجربہ کار مضبوط شخصیت ہر وقت کھڑی رہتی تھی جن کی پوری زندگی جامعہ کیلئے وقف تھی۔ اب جب کہ یہ مضبوط دیوار گر چکی ہے ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ آپ کے ہونہار فرزند دکتور عبداللہ حفظہ اللہ کو اپنے والد کا صحیح وارث اور جامعہ کیلئے نعم البدل بنائے۔آمین۔

دنیا میں اللہ جس کو شہرت وغلبہ دیتا ہے اس کی وجہ یا تو اس کی ذاتی کمالات ہوتی ہیں یا ایمانی قوت ۔بانی جامعہ ؒ میں یہ دونوں اوصاف بدرجہ اتم موجود تھے۔وہ عالم باکمال بھی تھے اور عابد و زاہد بھی۔صالحیت وصالحیت دونوں سے یکساں متصف تھے۔آ پ کی درجنوں تصانیف جو علمی حلقوں میں پہونچ کر مقبولیت عام حاصل کرچکی ہیں، وہ آپ کی اعلی علمی قابلیتوں کی بین ثبوت ہیں ۔مگر آپ کی علمی مشغولیات و انتظامی ذمہ داریاں کبھی بھی آپ کی عبادت وریاضت اور دینی روٹین میں حائل نہیں ہوئیں۔آپ تہجد وفرائض کے پابند تو تھے ہی نماز باجماعت کا شدید اھتمام کرتے تھے۔حتی کہ اگر آپ کسی پروگرام میں ہوتے تو نماز کا وقت ہوتے ہی پروگرام تک روکوا دیتے تھے۔
پورے بر صغیر میں بانی جامعہ کو یہ انفرادی خصوصیت حاصل ہے کہ آپ نے اپنی درسگاہ کے نصاب تعلیم کی تجدید کاری کی اور چند سالوں کے اندر ہی نصاب تعلیم کا پورا خاکہ بدل بدل کر رکھ دیا۔یہ وہ عظیم کام تھا جس کیلئے ملکی و بین الاقوامی سطح پر کئی تعلیمی اداروں کی اجتماعی کوششیں درکار تھیں۔آپ نے یہ عظیم کام صرف انفرادی کوشش کے تحت کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا جس کی مثال مدارس کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

آپ نے جامعہ امام ابن تیمیہ کے پلیٹ فارم سے شعبہء ترجمہ و تالیف کو ایک قلیل مدت میں بلندی کی انتہا تک پہونچا دیا گویا یہ درسگاہ نہیں کوئی بہت بڑا تصنیفی ادارہ ہو۔ مدارس کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
بانی جامعہ نہ صرف خود وہ بہترین مصنف،محقق،مترجم اور صحافی تھے بلکہ وہ اس میدان کے ماہر افراد ساز بھی تھے جن کی تربیت سے دیکھتے ہی دیکھتے اس میدان کیلئے ایک بہت بڑی کھیپ تیار ہوگئی

آپ ایسے انوکھے مربی اور ماہر ٹرینر تھے کہ بہت سے بے بضاعت اور کم مایہ اشخاص کو بھی مؤلف،مترجم،محقق اور بہترین لکھاری بنا گئے۔کم علم لوگ بھی دکتور ؒ کی رہنمائی سے ہمت وحوصلہ لے کر بڑا کام کر گئے اور اور بڑی نیک نامی حاصل کی۔دکتور ؒ کی زیر نگرانی کام کرنے والے بہت سے لوگوں نے اس کا کھلے اعتراف بھی کیا۔ مجھ جیسے کم مایہ نووارد شخص اگر اس راہ کی مشاقی کا تھوڑا بہت چسکا رکھتا ہے تو وہ آپ کی ہی دین ہے ۔تقرری کے وقت ہی آپ سے جو اہم باتیں ہوئیں ان میں ایک یہ تھا کہ مضمون نگاری کا تجربہ ہے کہ نہیں۔میرا جواب نفی میں تھا مگر میرے حوصلے سے خوش ہوئے اور جامعہ میں آنے کے بعد شروع سے ہی خصوصی طور پر ان کی عنایت میرے اوپر رہی ۔ابتدائی چند کاموں سے خوش ہوکر ترجمہ وتالیف کی بہت ساری ذمہ داریاں بھی سپرد کردئے۔کاش کہ وہ پروجیکٹ چلتا رہتا تو ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ و اصلاح کا موقع مل پاتا۔

جامعہ ابن تیمیہ کے فارغین تحریری میدان میں سب سے زیادہ نمایاں مقام رکھتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ جامعہ میں دکتور ؒ کا پیدا کیاہوا تحریری ماحول ہے۔

بانی جامعہ کی سب سے بڑی خدمت جامعہ امام ابن تیمیہ کا قیام ہے۔ جو شرک وبدعت کے قلب میں واقع ہے۔ اور آغاز سے ہی ہزار ہا مخالفتوں اور نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ نے جامعہ کے چراغ کو بجھنے نہیں دیا ۔یقینا اس کے پیچھے خصوصی توفیق الہی کے ساتھ آپ کی مضبوط شخصیت ،آپ کی قوت ارادی اور بر وقت مناسب فیصلہ کرنے اعلی صلاحیت کار فرما تھی۔ آپ وقت و حالات کے سامنے نہ کبھی جھکے نہ کبھی سمجھوتہ کیے۔ آپ اللہ پر توکل وبھرسہ کی اعلی مثال تھے۔

بانی جامعہ ؒ کے تعلق سے کچھ لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں کہ وہ تکبر کے شکار تھے حالانکہ جو لوگ انہیں قریب سے جانتے ہیں اور جن سے ان کی براہ راست گفتگو ہوتی رہی ہے وہ جانتے ہیں کہ دکتور ؒ انتہائی متواضع انسان تھے یہ الگ بات ہے کہ وہ احساس کمتری کے شکار بھی نہیں تھے ۔ ایک ادنی سے ادنی شخص سے بھی تواضع ومحبت سے پیش آتے تھے۔مجھ جیسے چھوٹے اساتذہ سے بھی جب فون پر گفتگو کرتے تو اتنی نیچی سطح پر آکر گفتگو کرتے کہ جیسے کسی بے تکلف ساتھی سے بات ہو رہی ہو ۔نہ صرف بے تکلف بات کرتے تھے بلکہ دیر تک گفتگو کرنے کی کوشش کرتے اور بات سے بات نکالتے جاتے۔
؏،،، خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

کس کس خوبی کو گناووں اور کہاں تک گناووں ؟!!!
؏،،،سمندر چاہئے اس بحر بیکراں کیلئے
اللہ سے دعا ہیکہ اللہ ہمیں ان کی خوبیوں کے سچے وارث اور امین بنادے ،ہمیں ان کی مغفرت کا ذریعہ بنادے۔ان کی ایک ایک خدمت کو ان کی بلندی درجات کا سبب بنادے۔آمین

ليست هناك تعليقات: