الأحد، فبراير 26، 2012

برصغير كے معروف عالم دين بقية السلف حافظ عبدالمنان نور پوری اب نہ رہے

 آج بروز اتوار تقریبا دس بجے صبح برصغير كے معروف عالم دين بقية السلف حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب کی وفات کی جانكاه خبر ملی، إنا لله وإنا إليه راجعون . مولانا محمد انور محمد قاسم السلفی صاحب اور مولانا حافظ ابو بکر صاحب دونوں کا يكے بعد ديگرے فون آیا اور یہ اطلاع دی کہ بعد نماز مغرب مسجد فرحان عباسيہ (كويت) میں تعزیتی نشست کے ساتھ غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا كى جائے گی .
چنانچہ نمازمغرب کے بعد محترم مولانا عارف جاويد محمدی صاحب نے غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی، معا بعد تعزیتی نشست رکھی گئی جس میں مختلف سلفی علماء نے مرحوم كے تئيں اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور ان كے ليے دعائے مغفرت کی.
حافظ ابو بکر صاحب نے فرمایا کہ آپ میرے اور والد محترم رحمه الله  دونوں کے استاد تھے، ہم نے آپ کو بڑا سادگی پسند اور بےتکلف زندگی گزارنے والا انسان پایا، آپ بڑےخاموش طبع انسان تھے، آپ کو علم کے ہر فن پر عبور حاصل تھا ،
مولانا عارف جاويد محمدی صاحب نے فرمایا که حافظ صاحب بڑے قناعت پسند انسان تھے ، ایک بار اساتذہ کی تنخواہ بڑھانے کی بات چلی تو سب سے رائے لی گئی، حافظ صاحب  سے پوچها گیا تو آپ نے فرمایا كہ مجھے جتنی تنخواہ ملتی ہے وہ ميرے ليے کافی ہے -
مولانا محمد انور محمد قاسم سلفي صاحب نے فرمايا كه ميں نےمرحوم كو ان كى تاليفات كے ذريعہ جانا ہے كيونكه انسان كى تحرير بهي اس كى شخصيت كى عكاس ہوتى ہے، آپ  نے مزيد فرمايا كہ مولانا كے فتوے بڑے علمى ہوتے تهے ، بيع التقسيط كےتعلق سے ان كے فتوے نے ميرى سارى الجهن دور كردى، ان كى وجه سے علم كا جو نقصان ہواہے الله پاك اس كى تلافى فرمائے.
شيخ صلاح الدين مقبول احمد حفظه الله نے قرآن كريم كى يه آيت تلاوت كى " إنما يخشى الله من عباده العلماء" اور فرمايا كه يه خبر متواتر ہے كہ مولانا علم كے مطابق عمل بهى كرتے تهے، آپ  سلف كے نمونہ تهے، آپ چوٹی کے عالم دین تھے، آپ نے صاحب فیض الباری کے بخارى پركيے گيے اعتراضات کے عربى زبان ميں مدلل جوابات ديئے ہيں-
آپ نے مزید فرمایا که حافظ صاحب نے اپنے علم کے ذریعہ دين کی خدمت کی ہے، آپ کی تقویٰ شعاری كا ایسا چرچہ  تھا کہ علاقے میں جو لوگ مرتے تھے وہ وصیت کرجاتے تھے که حافظ صاحب ہى ان کی نمازجنازہ پڑھائیں گے، آپ نے مزید فرمایا کہ "جو وہ کام کر رہے تھے شاید برصغير میں کوئی عالم دين نہیں جو ان کے جیسے كام كر رہے ہوں-"

مرحوم کی حالات زندگی کے متعلق جب نیٹ پر سرچ کیا تو اردو مجلس پر کچھ معلومات دستیاب ہوئیں جو پیش خدمت ہیں،
حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ  لکھتے ہیں کہ :
فضیلتہ الشیخ حافظ عبدالمنان نور پوری حفظ اللہ تعالیٰ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ، آپ زہد و روع اور علم و فضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران واماثل میں ممتاز ہیں ـ اللہ تعالٰی نے جہاں آپ کو علم و فضل کے ذروہ علیا پر فائز کیا ہے ، وہاں آپ کو عمل و تقوٰی کی خوبیوں اور اخلاق و کردار کی رفعتوں سے بھی نوازا ہے ـ علاو ہ ازیں اوائل عمری ہی سے سند تدریس پرجلوہ افروز ہونے کی وجہ سے آپ کو علوم و فنون میں بھی جامعیت یعنی معقول او رمنقول دونوں علوم میں یکسان عبور و دسترس ہے ـ زادہ اللہ علما و شرفا و بارک فی حیاتہ و جھودہ و کثراللہ امثالہ فینا ـ

تدریس و تحقیقی ذوق ، خلوص و للہیت اور مطالعہ کی وسعت کہرائی کی وجہ سے آپ کے اندر جو علمی رسوخ ، محدثانہ فقاہت اور استدلال و استنباط کی قوت پائی جاتی ہے ـ اس نے آپ کو مجع خلائق بنایا ہوا ہے ـ چنانچہ عوام ہیں نہیں خواص بھی ـ ان پڑھ ہی نہیں ـ علماء فضلاء بھی ـ اصحاب منبر و محراب ہی نہیں ـ اہل تحقیق و اہل فتوٰی بھی مسائل کی تحقیق کے لے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آپ تدریسی و تصنیفی مصروفیات کے باوصف سب کو اپنے علم کے چشمہ صافی سیراب فرماتے ہیں ـ جزاہ اللہ عن الاسلام والمسلمین خیر الجزاء ـ '' آمین 

حافظ صاحب علم وعمل کے پہاڑ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک غیر متنازعہ شخصیت بھی تھے۔۔۔۔عام طور پر آج کل کے معاشرہ میں علماء کو اچھے نظروں سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔۔۔اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ جب میں پڑتا تھا تو ایک استاد محترم نے مجھے بینک میں کسی کام کے لئے بھجا۔۔وہاں پر لوگوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔۔اور ہر طبقہ کے لوگ یقینا موجود تھے۔۔۔اور لوگ آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔۔۔اور علماء کے خلاف باتیں بھی کر رہے تھے ۔۔کہ ایک آدمی بول پڑا۔۔۔وہ کہتا ہے ۔۔کہ میں ہوں شیعہ لیکن علماء کو برا کہتے ہوئے سوچا کریں وہابیوں کا عبدالمنان بھی عالم ہے۔۔اور بے داغ ہے۔۔واللہ اس دن اس شیعہ کی زبان سے جب میں نے حضرت حافظ صاحب کی تعریف سنی تو مجھے انتہائی خوشی ہوئی ۔۔اور مجھے اپنے آپ پر فخر ہونے لگا کہ میں اس عظیم ہستی کا شاگرد ہوں جس کے اپنے تو اپنے بیگانے بھی تعریف کرتے ہیں۔۔۔اللہ اس عظیم ہستی کو جس طرح کا عظیم مقام دنیا میں عطا کیا تھا ۔۔۔اس سے کہیں بڑھ کر دوسری جہاں میں مقام عطا فرما آمین ثم آمین

اسی طرح مولانا محمّد اسحاق بهٹی صاحب نے اپنی تالیف "دبستان حدیث" کے صفحه 538 سے 553 تک میں بڑی تفصیل سے آپ کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے جس میں انہوں نے لكها هے كه آپ  پاكستان كے ضلع گوجراں والا كے ايك قصبه نور بور ميں بيدا هوئے- سات سال کی عمر کو پہنچے تو والدہ بھی وفات پا گئیں، گاؤں کے پرائمری سکول میں ابتدائی تعليم حاصل کرنے کے بعد مولانا محمّد اسماعیل سلفی کے حلقہ درس سے وابستہ ہو گيے،حافظ صاحب ہمیشہ مصروف کار رہے، کبھی وقت ضائع نہیں کیا.
"حافظ صاحب نام ونمود سے پاك بالكل ساده زندگى بسر كرتے تهے، نہ كسى سے كوئى جهگڑا نه كسى قسم كى ہنگامه آرائى كا شوق، تمام وقت پڑهنے پڑهانے اور لكهنے لكهانے ميں گذرتاہے، عام جلسون ميں جانے سے گريزاں اور بڑے بڑے القاب سے نفور،ان كى تصانيف كو علوم كے خزانے اور مسائل كے گنجينے سے تعبير كرنا جاهيے، اسلوب تحرير ايسا آسان كه ہربات ہر شخص كو بآسانى سمجه ميں آ جاتى ہے." مزيد يه كه بهٹی صاحب نے اپنی اس كتاب ميں آپ کی 42 مؤلفات کا تعارف بهى كرايا ہے،تفصیل کے لیے مذکورہ کتاب کا مطالعه کیا جا سکتا ہے.  
اللهم اغفر له وارحمه , وعافه , واعف عنه , وأكرم نزله , ووسع مدخله , واغسله بالماء والثلج والبرد , ونقه من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس , وأبدله دارا خيرا من داره , وأهلا خيرا من أهله , وزوجا خيرا من زوجه , وأدخله الجنة , وأعذه من عذاب القبر وعذاب النار.
اللهم اغفر لحينا ، وميتنا , وشاهدنا, وغائبنا , وصغيرنا وكبيرنا , وذكرنا وأنثانا , اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام , ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان , اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده .
اللهم إن عبد المنان بن عبد الحق في ذمتك , وحبل جوارك , فَقِهِ من فتنة القبر وعذاب النار , وأنت أهل الوفاء والحق ، فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم
اللهم عبدك وابن أمتك احتاج إلى رحمتك , وأنت غني عن عذابه , إن كان محسنا فزد في حسناته , وإن كان مسيئا فتجاوز عنه

"بلدة طیبة ورب غفور"

صفات عالم محمد زبيرالتيمي


يوم آزادي كى مناسبت سے آج کی شام  ریڈیو کویت اردو سروس  پر نشر ہونے والے میرے تأثرات جو گفتگو پر مبنی تھے سپرد قلم کر ديئے  گئے ہیں


25 ، 26 فروری کویت کے قومی تہوار اور آزادی کا پرمسرت اورتاریخی دن ہے ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں کویت کی  ثروت پر قبضہ جمانے کی کوششیں کی گئیں، اپنوں اور بیگانوں دونوں نے دست درازیاں کیں ، جس میں اہل کویت نے بے پناہ قربانیاں پیش کیں، جان ومال کی ہلاکتیں بھی ہوئیں بالآخر دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑی اور اللہ کا شکر ہے کہ آج یہ ملک آزاد اور خود مختارہے-
کویت گرچہ ہمارا وطن نہیں ہے ، جائے پیدائش نہیں ہے ، لیکن اس سرزمین پر ہم نے ایک اچھا خاصا وقت بتایا ہے ، یہاں پر ہمیں ملازمت ملی ہے ، یہاں پر آنے کے بعد اپنی مالی حالت ٹھیک کی ہے ، یہاں کی سرزمین پر آکر ہمارے بال بچے خوشحال ہوئے ہیں ۔

پھر یہ ملک عام ملکوں کے جیسے نہیں بلکہ اسے دینی ناحیہ سےخصوصی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ ملک آزادی کے بعد سے اب تک خیر کا ہراول دستہ ر ہا ہے، رفاہی کاموں میں آگے آگے رہا ہے ، آج بھی آپ دیکھ  سکتے ہیں کہ کویت کے چپے چپے میں رفاہی کمیٹیاں پائی جاتی ہیں۔ جن کا کام دنیا کے کونے کونے میں پھیلا ہوا ہے ۔ کتنے جامعات ، کتنے یتیم خانے ، کتنے شفاخانے اور کتنی مساجد کویت نے بنوائی ہيں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اوران شاءاللہ جاری رہے گا ۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے اورہمارا کویت میں آٹھ سالہ تجربہ ہے کہ اہل کویت دین کا درد رکھتے ہیں ۔ نیکی کے کاموں میں آگے آگے رہتے ہیں ۔ دعوت کا جذبہ رکھتے ہیں،اپنے مالوں کی زکاة پہلی فرصت میں نکالتے ہیں۔ یہ خوبی عام کویتیوں ہی کی نہیں بلکہ امیری گھرانوں تک کی ہے ۔ ہمارے پاس اس قبیل کے کتنے واقعات ہیں جو سننے کے قابل ہیں ۔ جنہیں سن کر آپ کا ایمان تازہ ہوگا ۔اگرموقع ہوتا تو ہم انہیں بیان کرتے ۔ بات آئی تو ایک واقعہ سن لیں

ایک مرتبہ امیری گھرانہ سے ایک فون آیا،کہ میرے پاس ایک خادم ہے جس کو اسلام بتانا چاہتی ہوں۔ میں جب اس کے ساتھ بیٹھا تو گھر کی ایک باپردہ عمردراز خاتون بھی آکر ہمارے پا س آکر بیٹھیں ۔ کہنے لگیں ! شیخ ! میں چاہتی ہوں کہ میرا یہ خادم آگ میں جلنے سے بچ جائے ،اگر مان لیتا ہے تو ٹھیک اگر نہیں مانتا ہے تواس کے ساتھ میرے معاملے میں کوئی کمی نہیں آئے گی ۔ میں جب تک اس کے ساتھ بیٹھا رہا وہ تسبیح گنتی رہیں، اخیر میں وہ اسلام قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوا .... میں نے دیکھا کہ اس امیری گھرانے کی خاتون کی آنکھوں سے آنسوؤں كے قطرے گررہے تھے ۔

یہی وہ خوبیاں ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ان کو نواز بھی رکھا ہے ۔ اس مناسبت سے ہمیں اللہ پاک کا وہ فرمان یاد آرہا ہے کہ "بلدة طیبة ورب غفور" (ملک پاکیزہ ہے اور بخشنے والا رب ہے) ۔ تو پھر اس کی عنایتيں آخر کیوں نہ ہوں گی ۔   

 اس حسین موقع سے سابق امیر کویت الشیخ جابر الاحمدالجابر الصباح رحمہ اللہ کویادنہ کریں تو بے ناانصافی ہوگی جس عظیم قائد نے تاراج کویت کوآبادکیا ، ایسی خدمات انجام دیں کہ امیرالقلوب یعنی دلوں کے بادشاہ بن گئے اور اپنے دینی، رفاہی، سماجی اور دعوتی کارناموں کی بنیادپر آج بھی زندہ ہیں،آپ نے علمی وثقافتی میدان میں 45جلدوں پرمشتمل فقہی انسائیکلوپیڈیا تیار کرائی ۔ ذاتی خرچ پر لاکھوں کی تعداد میں قرآن کریم کوچھپوایا اورتقسیم کیا۔ حفظ قرآن کے مقابلے رکھے جو اب تک جاری ہیں ۔ جہاں بھی سفر کرتے تھے وزیروں ،خدمت گزاروں اور میڈیا کے لوگوں کے ساتھ ایک امام بھی رکھتے تھے تاکہ سفر اور سرکاری اجتماعات کے دوران بھی باجماعت نماز اداکی جاسکے ۔ اللہ پاک ان کی قبر کو نور سے بھردے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم كے فرمان: من لایشکر الناس لا یشکر اللہ "جو لوگوں کا شکرگزار نہیں ہوتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا" ۔ (سنن ابی داؤد) كے مطابق آئیے اہل کویت کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے رب العالمین سے دعا کرتے ہیں کہ بارالہا تو کویت کی حفاظت فرما، اسے آباد ، شاداب اور خوشحال رکھ ، اس سرزمین کو امن وامان کا گہوارہ بنا ، دین کا ہرکارہ بنا ،

الہ العالمین امیر کویت عزت مآب شیخ صباح الاحمد جابر الصباح حفظہ اللہ کی دانشمندانہ قیادت میں کویت کو ترقی عطا فرما۔ ان کو اورانکے سارے معاونین کو امن وامان میں رکھ ۔

 اللهم احفظ دولة الكويت أميرها وولي عهدها وشعبها من كل مكروه، اللهم اجعل شعب الكويت مجتمعين معتصمين غير متفرقين بما فيه خير للكويت وازدهارها وصلاحها يا ذا الجلال والإكرام – اللهم متع ولي دولة الكويت و ولى عهدها بالصحة والعافية ، اللهم احفظهم بحفظك يا رحمن يا رحيم . وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبة أجمعين .

السبت، فبراير 11، 2012

"آپ بہت عمدہ اخلاق پر ہیں"

 ہرقوم اورمذہب میں اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ ہرمذہب اپنے ماننے والوں کو اچھے اخلاق کا پیکر بنانا چاہتا ہے ۔ قوموں اورملکوں کی ترقی میں بھی اخلا ق کا بنیادی رول ہے ۔ قومیں اپنے اخلاق کی بنیاد پر باقی رہتی ہیں اگران کا اخلاق جاتا رہا تو وہ خودبخود مٹ جاتی ہیں ۔ آج ہم اسی اخلاق کے بارے میں بات کریں گے ....لیکن یہ اخلاق ہوںگے ایک نبی کے .... اورایسے نبی کے جن کو صرف عربوں کے لیے نہیں....صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ....بلکہ پوری انسانیت کے لیے بھیجا گیا تھا ۔ ....جن کو حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے ہی بھیجا گیا ۔جن کے اخلاق کی گواہی خود اللہ پاک نے دی وانک لعلی خلق عظیم "آپ بہت عمدہ اخلاق پر ہیں" ۔
چنانچہ آپ جب اس نبی کے اخلاق کا مطالعہ کریں گے تو واقعی پائیں گے کہ ان کے جیسا اخلاق کامالک انسان نہ پیدا ہوا اورنہ ہوسکتا ہے ۔ آپ کی نشونما یتیمی کے سایے میں ہوئی اس کے باوجود آپ ہوش سنبھالتے ہیں اعلی اقدار کے دلدادہ ہوگئے ۔ صلہ رحمی کرتے ، غریبوں کی مدد کرتے ، بیکسوں کی دست گیری کرتے ۔ نیکی ، پاکبازی ، امانت داری اور سچائی میں مشہور تھے ۔ لوگوں نے آپ کو صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا۔
آپ کے اندرحد درجہ کی خاکساری اور انکساری تھی ، آپ اپنے جوتے خود ٹانکتے، اپنے کپڑے خود سیتے، اپنی بکری خود دوہتے اور اپنا کام خود کرلیا کرتے تھے ۔ کوئی ملتا تو اسے سلام کرنے میں پیش قدمی کرتے، یہاں تک کہ بچوں کے پاس سے بھی آپ کا گذرہوتا تو آپ ان کو سلام کرتے، مصافحہ کے لیے بھی پہلے ہاتھ بڑھاتے، اوراپنا ہاتھ اس وقت تک نہ کھیچتے جب تک کہ وہ خود کھینچ لے ۔ کوئی دعوت دیتا تو اس کی دعوت قبول کرتے ، آپ کی خاکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنے خادم کو کبھی اُف تک نہ کہا ۔ نہ کسی کو اپنے ہاتھ سے کبھی مارا ۔ نہ بیوی کو نہ نوکر کو .... آپ کی ذات عفو ودرگذر کا نمونہ تھی ۔ آپ نے کبھی بھی اپنے نفس کے لیے کسی سے بدلہ نہیں لیا .... یہاں تک کہ مکہ پر فتح پانے کے بعد ان دشمنوں کی بھی عام معافی کا اعلان کردیا جنہوں نے مسلسل اکیس سال تک ستایا ،پریشان کیا،جانیں لیں،اورجینا دوبھر کردیاتھا ۔
آپ نہایت حیادار اورپست نگاہ تھے ۔ پردہ نشین کنواری دوشیزاؤں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ آپ اس کثرت سے عبادت کرتے کہ پاؤں مبارک میں ورم آجاتا لیکن اس کے باوجود رہبانیت اور جوگی پن کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو ناپسند کرتے تھے لیکن جب آپ کی خدمت میں سائل آجاتا تو اسے کبھی نہ میں جواب نہ دیتے تھے ۔
زہدواستغنا اس قدر کہ آپ کا گھر نہایت تنگ ہے ۔ بستر ایسا ہے کہ جس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی ہے ۔عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بھوک کی وجہ سے آپ کو رات بھر نیند نہ آتی ۔ یہ زہد کوئی اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا ۔ مسند احمد اورترمذی کی روایت ہے آپ ا نے فرمایا: ترے رب نے میرے لیے یہ پیش کیا کہ مکہ کے پہاڑوں کو سونے کا پہاڑ بنادے ۔ میں نے کہا: لایا رب ولکن أشبع یوما وأجوع یوما " نہیں میرے رب میری خواہش یہ ہے کہ ایک دن کھانے کو ملے اورایک دن بھوکا رہوں۔"  لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ خشک مزاج اور رہبانیت پسند تھے ۔ آپ دنیا سے بے پرواہ ضرور تھے لیکن تارک دنیا نہیں تھے ۔ اپنی بیویوں کے حقوق بھی ادا کرتے اورفرماتے خیرکم خیرکم لأھلہ وأنا خیرکم لأھلی ۔ " تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہواور میں اپنے اہل خانہ کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔"
اس مختصر سی تمہید کے بعد اب ہم چلتے ہیں اپنے سامعین کی کالز کی طرف اورلیتے ہیں ایک کال ....

الثلاثاء، فبراير 07، 2012

کیا ہم نے موسم گرما کے پیغام پرغورکیا؟

ہمیں اپنی زندگی کے سارے معاملات کوشرعی نقطہ نظرسے دیکھنا چاہےے اور ملکوںاورقوموںکے حالات میںجو تبدیلیاںواقع ہو رہی ہیں شریعت کی روشنی میں اُن کا جائزہ لیناچاہےے کیونکہ اس سے انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور انسان کو جس مقصد کے تحت اس دنیا  میں بسایا گیا ہے اُس کی یا دہانی ہوتی رہتی ہے ۔ اس طرح کی کچھ تبدیلیاں تو فطری ہوتی  ہیں جیسے رات ودن کا تغیراورموسموں کی تبدیلی وغیرہ اور کچھ انسانوں کے کرتوت کے نتیجے میں الٹی میٹم کے طور پر نمایاں ہوتی ہیں جیسے اقتصادی بحران ، سوائن(خنزیر) فلو ، برڈ فلو ، زلزلے اور ایڈس وغیرہ ، تاکہ انسان سدھر جائے ، سنبھل جائے اور اپنے مقصدحیات کی تکمیل میں لگ جائے۔
ابھی ہم موسم گرما سے گزر رہے ہیں، یہ بھی ہمارے لےے ایک پیغام لے کر آیا ہے ،گرچہ آج ہماراذہن اُس کی طرف نہیں جاتا، اِس کی واضح مثال یہ ہے کہ اگر میں یہ سوال کروں کہ گرمی میں شدت کیوںکر آتی ہے ؟ تواکثر لوگ یہی کہیں گے کہ یہ موسموں کی تبدیلی ، ملک کے محل وقوع اور آسمانی برجوں کا نتیجہ ہے لیکن جب ہم اِس مسئلے پر شرعی نقطہ نظر سے غور کرتے ہیں تو ایک دوسری حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ وہ حقیقت کیا ہے....؟ آج سے چودہ سوسال پہلے صادق ومصدوق انے فرمایاتھا :
جہنم نے اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے کہا : میرے رب ! میرا ایک حصہ دوسرے حصہ کو کھا رہا ہے ، اس لےے تو مجھے سانس لینے کی اجازت عطا فرما ، چنانچہ اللہ تعالی نے جہنم کو دو سانس لینے کی اجازت دے دی ۔ایک سانس موسم سرما میں لینے کی اور ایک سانس موسم گرما میں چھوڑنے کی۔ لہذا (موسم گرما میں ) تم جو سخت گرمی پاتے ہو( اس کے سانس چھوڑنے کی وجہ سے ہے ) اور موسم سرما میں جو سخت ٹھنڈی پاتے ہو، اس کے سانس (لینے ) کے اثر سے ہے“ ۔ (بخاری ومسلم)
بخاری ومسلم کی ایک دوسری روایت کے مطابق نبی امی ا نے فرمایا :” جب گرمی کی شدت ہو تو اُس وقت ٹھنڈے وقت میں نماز ادا کرو ( یعنی انتظار کرلیا کرو کہ وقت ذرا ٹھنڈا ہوجائے ) کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی سانس کی لپیٹ سے پیدا ہوتی ہے “ ۔
شاید آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ گرمی میںشدت کیوںکر آتی ہے ؟ یعنی جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے .... آج ہم جس گرمی کی شدت اور تپش کا احساس کرتے ہیں اس کا مصدر اور سر چشمہ در اصل جہنم ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم سائنسی تحقیقات کا انکار کرتے ہیں ، سائنس اپنی جگہ پرمسلم ہے ‘ اگر سائنسی معلومات تحقیق اور تجربے سے سامنے آتی ہیں تو شرعی اسباب قرآن وسنت سے ثابت ہوتے ہیں اور یہ اُن سے زیادہ قوی ہيں ۔
عرض مدعا یہ ہے کہ جب گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے توہم موسمِ گرما کی آمدپرجہنم کو یا دکریں۔ آج ہر شخص اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آرام وراحت سے رکھنے کی کوشش کرتاہے، انکے لےے ٹھنڈی اور گرمی سے بچا کے وسائل کا بند وبست کرتاہے، کوئی ایر کنڈیشن روم میں رہتاہے،کوئی دنیا کے ٹھنڈے مقامات کی طرف منتقل ہوجاتاہے، کوئی کولر اور بجلی پنکھا کے ذریعہ گرمی سے بچا اختیار کرتاہے جبکہ کچھ لوگ ہاتھ کے پنکھا سے ہی گرمی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ انہیں لوگوں کو آتش جہنم سے بچنے کی کوئی فکر نہیں، اپنے آپکو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ اللہ تعالی نے بندئہ مومن کو جہنم سے ڈرایا ہے اور اس سے بچنے کی ان لفظوں میں تاکید کی ہے ۔”اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوںکو اس آگ سے بچا جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل فرشتے مقرر ہیں، جنہیں جو حکم اللہ تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیاجائے بجا لاتے ہیں“۔
آج ہم معمولی گرمی کی شدت سے پریشان ہوجاتے ہیں لیکن جہنم میں کیا حال ہوگا جہاں آگ کا بستر ہوگا، آگ کا لباس ہوگا ،پیپ کا کھانا ہوگا، اور آگ میں جلنا ہوگا، جو آگ گوشت، رگوں،پٹھوں اور چمڑے تک کو کھاجائے گی، پھر ان جلے ہوے اعضاءکے بدلے نئے اعضاءدیے جائیںگے اور یہ سلسلہ ہمیشہ کے لےے چلتا رہے گا ، وہاں کبھی موت نہیں آسکتی۔
لہذا اگر ہم آتشِ جہنم سے بچنا چاہتے ہیں اورجنت کی پرکیف نعمتوں کے متمنی ہیں توہمیں محاسبہ نفس اور فکرآخرت کے لےے شب وروز کی مشغولیات میںسے ذرا وقت نکالنا ہوگا، طبیعت پر شاق گزرنے والے اعمال انجام دینے ہوں گے اور شہوات کو قابو میں رکھنا ہوگا کیونکہ حضورپاک ا کا فرمان ہے ”جنت کو طبیعت پر گراں گزرنے والی چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جہنم کو شہوات سے ڈھانپ دیا گیا ہے “ ۔
اللہ تعالی ہم سب کو دین پر ثابت قدم رکھے۔ آمین


السبت، فبراير 04، 2012

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


ہماری اکثریت دوسروں کی خدمات کا اعتراف بہت کم کرتی ہے، ہمارے بیچ مثبت سوچ کے حامل افراد خال خال نظرآتے ہیں، جبکہ منفی ذہن رکھنے والے بکثرت پائے جاتے ہیں، اگر اعتراض کرنے، بیجا نقدوتبصرہ کرنے اوربال کی کھال نکالنے کا معاملہ آئےتواس میں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد مل جائے گی۔ لیکن جب خدما ت کے اعتراف اور کارناموں کی تحسین وستائش کا معاملہ آئے تو اکثر لوگوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔
آج ہم اپنے معاشرے میں رول ماڈل کے فقدان کا رونا روتے ہیں، ہمیشہ ہماری یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے والے عنقا ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری نئی نسل کے سامنےعملی پیکر اورکردار کے غازی دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ شکایت صد فیصد بجا ہے لیکن کیا ہم نے اپنے معاشرے کے باہمت اوراعلی سوچ کی حامل شخصیات سے کم ازکم اپنی نئی نسل کو متعارف کرایا، کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہمارے بیچ سے کتنے اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افرادچلے گئے لیکن ان کی زندگی کے روشن پہلو ہماری نئی نسل کے سامنے نہ آ سکے ۔
انہیں باہمت اوراعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیات میں سرزمین کویت کی ایک گمنام شخصیت ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط کی ہے، جو تقریباً گذشتہ ایک ماہ سے صاحبِ فراش ہیں، آپ عالم اسلام کے معروف داعی اورجمعیة العون المباشر کے مؤسس ہیں، آپ کی زندگی میں سارے مسلمانوں کے لیے بالعموم اور عصری تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لیے بالخصوص بہت بڑاپیغام ہےکہ وہ جہاں اورجس میدان میں رہیں اسلام کے سپوت بن کر رہیں، اسلام کے غلبہ کے لیے فکرمند رہیں، اوراسلام کی خدمت کے لیے ایک لمحہ بھی فروگذاشت نہ کریں۔
ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط نے سن 1947ء میں کویت کی سرزمین پرایک خوشحال گھرانے میں آنکھیں کھولیں، بچپن سے خدمتِ خلق ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی، سیکنڈری میں زیرتعلیم تھے تواپنے دوستوں کے ساتھ مل کر یومیہ اخراجات میں سے کٹوتی کرکے کچھ رقم جمع کیا اوراس سے ایک گاڑی خریدی ، اوراپنے ایک ساتھی کواس خدمت پر مامورکیا کہ معمولی تنخواہ پانے والے تارکین وطن کو مفت میں ڈیوٹی کے مقامات اوران کی رہائش گاہوں تک پہنچا دیا کریں۔ بغداد یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے زمانہ میں اپنے اخراجات سے ایک خطیررقم نکالتے اوران سے اسلامی کتابیں خرید کر مساجد میں تقسیم کردیتے ۔ گھرکی مالی حالت اچھی تھی اوراسکولرشب بھی ملتا تھا پھربھی شب وروزمیں ایک مرتبہ ہی کھانا کھاتے، بیڈ پرسونے کوآرام پسندی اورآسائش خیال کرتے اور زمین پر سونے کوترجیح دیتے تھے، میڈیکل کی اعلی تعلیم کے لیے یورپ کا سفرکیا تو وہاں بھی ہرمسلم طالب علم سے ایک ڈالر ماہانہ جمع کرتے اوراسلامی کتابیں شائع کرکے جنوب مشرقی ایشیا اورافریقہ کے ممالک میں بھیج دیا کرتے تھے ۔
میڈیکل کی تعلیم سے فراغت کے بعد کویت کے صباح ہاسپیٹل میں بحیثیت ڈاکٹر بحال کئے گئے ، جہاں آپ مریضوں کے معالجہ کے ساتھ ان کی عیادت کرتے، ان کے خانگی، اجتماعی اوراقتصادی حالات کی جانکاری لیتے اوران کی امداد بھی کرتے تھے ۔ کمزوروں اور بدحالوں کے ساتھ آپ کی یہی حالت رہی یہاں تک کہ ایک مرتبہ افریقی ممالک کے دورہ کا موقع ملا جہاں آپ نے دیکھا کہ ایک طرف افریقہ کے مسلمان بری طرح سے قحط سالی اوربھوک مری کا شکار ہیں تو دوسری طرف عیسائی مشینریز ارتدادی مہم میں سرگرم اورپرجوش ہیں، اس نازک صورت حال کے سامنے ان کی غیرت ایمانی بیدار ہوئی،چنانچہ جسمانی علاج کی بجائے روحانی علاج کے لیے خود کووقف کردیا ۔ کویت کی آرام پسند زندگی کو خیرباد کہہ کر افریقی ممالک میں30سال کی طویل مدت گذاری ، اس عرصہ میں8500000 لوگ ان کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے، 590 مساجد تعمیر کیں، 860 مدرسے قائم کئے ، 4 یونیورسیٹیاں قائم کیں، 7ریڈیواسٹیشن لانچ کیے اور168ہاسپیٹلزبنائے ۔ دعوت کے لیے کسی بستی میں پہنچنا ہوتا تو سوسوکیلومیٹر تک پیدل چلتے، پیرکے جوتے ٹوٹ جاتے ۔ گاڑی خراب ہوجاتی، لیکن ہمت نہ ہارتے ۔
متعدد بار آپ پر جان لیوا حملے کیے گئے ، دومرتبہ آپ کو پابندسلاسل کیاگیا، پہلی بار قریب تھا کہ جان سے ہاتھ دھوناپڑے ۔ دوسری بارعراقی خفیہ ایجنسیوں نے غوا کرکے ان کے چہرے ، ہاتھ اورقدم سے گوشت تک نوچ ڈالا ۔ ذیابطيس کے مسلسل مریض تھے، تین بارسر اور دل کا دورہ پڑا لیکن یہ ستم سامانیاں اورجسمانی عارضے ان کے پائے استقلال میں کبھی جنبش نہ لاسکے، دین کی خدمت کے لیے گویا اپنی زندگی وقف کردی تھی، دعوت اور رفاہی خدمت کے لیے دوڑدھوپ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، یہ ساری کاوشیںجنت کی طلب میں تھیں۔ اسی لیے جب ان سے ایک مرتبہ ایک انٹرویومیں پوچھا گیا کہ آپ سفرکے مشاغل سے کب فرصت پائیں گے ؟ تو آپ کا جواب تھا :
”جس دن آپ مجھے جنت کی ضمانت دے دیں.... اورظاہرہے کہ جب جنت کی ضمانت نہیں دے سکتے تو پھرموت کے آنے تک عمل کرنے سے کسی کو چارہ کارنہیں، کہ حساب وکتاب کا مرحلہ بڑا سخت ہے۔ اورکیوں کرمیں بیٹھ جاؤں جب کہ لاکھوں لوگ اس بات کے ضرورتمند ہیں کہ کوئی ان کو ہدایت کا راستہ دکھائے، میں کیسے آرام پسند زندگی گزاروں جب کہ ہرہفتہ لوگ ایک کثیر تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ “
ڈاکٹرعبدالرحمن السمیط کو ان کی گرانقدر رفاہی خدمات کے اعتراف میں ملک وبیرون ملک کی مختلف حکومتوں اور تنظیموںکی طرف سے بے شمار ایوارڈز سے نوازاگیا جن میں شاہ فیصل ایوارڈ قابل ذکرہے۔ آپ نے ایوارڈ میں ملنے والی خطیررقم کو افریقی بچوں کی تعلیم  پروقف کردیا جس سے کتنے افریقی بچے اعلی تعلیم سے بہرہ ورہوئے ۔
عزیزقاری! جب ہم اس بے مثال شخصیت کی دعوتی اوررفاہی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں تو لگتا ہے کہ انہوں نے صدیوں کا سفردنوں میں طے کیا ہے، ایک حکومت اورجماعت کے کرنے کا کام تنِ تنہا کیا ہے ، آپ صحیح معنوں میں اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ علامہ اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
 آئیے !عرش عظیم کے رب سے دعا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر موصوف کو شفائے عاجلہ کاملہ نصیب فرما ئے اور ان کی خدمات کو اپنی رضا کا ذریعہ بنائے۔ آمین ۔ پھرموجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم ڈاکٹرموصوف کو ان کی گرانقدردعوتی اور رفاہی خدمات میں نمونہ بنائیں اور اپنی نئی نسل کی انہیں خطوط پرتربیت کریں تاکہ وہ جس میدان اورجس شعبہ میں رہیں اسلام کے علمبردار بن کر رہیں۔

                                                                    صفات عالم محمدزبیرتیمی
                                                                 safatalam12@yahoo.co.in