الأربعاء، يناير 30، 2013

دنیا مسلمان ہور ہی ہے


 ثناء اللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی 
سرخی دیکھ کر تعجب کا پیدا ہو جانا بہت فطری ہے ۔جہاں ایک طرف پوری دنیا اسلام کو بدنام کرنے کی انتھک کوشش کر رہی ہو ،قدم قدم پر اسلام کی راہ میں روڑ ے اٹکا ئے جارہے ہوں ، اسلام کے نام لیواؤں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے سارے جتن کیے جارہے ہوں ،اسلام اور مسلمانوں سے جڑی ہوئی ہر ایک چیز بے وقعت یا خطرناک سمجھی جارہی ہو اور اللہ کے آخری دین کے نمائندے بظاہر ہر سطح پر پسپائی اختیار کر رہے ہوں ۔وہاں دوسری طرف کسی شخص کا یہ کہنا کہ دنیا مسلمان ہو رہی ہے دیوانے کا بر یا شیخ چلی کا خواب ہی نظر آتا ہے ۔لیکن یہ اتنا غیر متعلق بھی نہیں ہے ۔
یہاں یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ دنیا کے مسلمان ہو نے کا مطلب یہاں پر یہ نہیں ہے کہ لوگ دین اسلام قبول کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ۔ہر چند کہ یہ ایک بہت بڑی سچائی بھی ہے اور بڑی تیزی سے خاص طور سے پڑھے لکھے لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور اللہ کا کلمہ بلند ہو رہا ہے ۔کفر و شرک کی غلاظتیں لوگوں پر ظاہر ہورہی ہیں ، خدا بیزار نظام حیات کا کھوکھلاپن سامنے آرہاہے اور امن و سکو ن اور مسائل حیات کا واقعی حل ڈھونڈنے والے اللہ کے دین کوقبول کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔اور اہالیان کفر وشرک اور شیطنت کے خیمے میں ہلچل مچی ہوئی ہے کہ آنے والے وقت میں خود یوروپ کے اندر اسلام کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہو جائیگی ۔ہندوستان کے تناظر میں دیکھیے تو آر۔ایس ۔ ایس اور اس جیسی ہندو انتہا پسندتنظیموں کو بھی یہ ڈر ستاتاہے کہ آنے والے وقت میں مسلمان ہندوستان کی اکثریت میں آجائیگا۔ہاں ہندوستان کی یہ انتہاپسند تنظیمیں اس کا سبب مسلمانوں کی کثرت تولید اور انجاب کو بتلاتی ہیں ۔جو بلا شبہ ایک لغو بات ہے ۔ یہاں پر یہ کہنے کا مطلب کہ دنیا مسلمان ہو رہی ہے یہ ہے کہ دنیا چار و ناچار اسلام کی سچائیوں کو تسلیم کررہی ہے ۔وہ زبان سے بھلے قبول نہ کرے لیکن تسلیم کررہی ہے کہ اسلام ہی میں نجات ہے ۔اس دعوے کو کئی سطحوں پر دلائل و براہین سے ثابت کیا جاسکتاہے ۔
پچھلے دنوں دہلی میں گینگ ریپ(اجتماعی عصمت دری ) کا ایک واقعہ پیش آیا ۔اس پر مختلف قسم کی آراء سامنے آئیں ۔ لیکن جو رائے سب سے مضبوط تھی وہ یہ تھی کہ خواتین پردے کا التزام کریں اور زانی کو سعودی عرب کی طرح پھانسی کی سزادی جائے بلکہ یہ بات بھی کہی گئی کہ نصاب تعلیم میں اخلاقیات کو باضابطہ طور پر داخل کیا جا ئے ۔تبھی جاکر اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے ۔یہاں یہ بتلانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کا اس سلسلے میں موقف کیا ہے ؟بلکہ بہت سے مفکرین اور سماجی خدمت گاروں نے تو باضابطہ طور سے اس معاملے میں اسلامی شریعت کےنفاذ کا مطالبہ تک کیا۔خواتین کی بہبودی سے جڑی خواتین کے ہمراہ بہت سے سوامی حضرات کا ماننا یہی ہے کہ اس معاملے میں اسلام ہی بہتر اپائے (حل) پیش کرتا ہے ۔
THE HINDU میں چھپی رپورٹ کے مطابق دلی ہائی کورٹ کے ججوں کا ماننا ہے کہ زنا بالجبر سمیت اور دوسری سماجی اور اخلاقی برائیوں کی بنیادی وجہ شراب نوشی ہے ۔اس لیے قانون کو اس سلسلے میں بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔اسلام کا مانناہے کہ شراب نوشی برائیوں کی ماں ہے ۔ہندوستانی سنیماکے مشہور ادا کار عامر خان کے ٹی وی پروگرام SATYA MEV JAYATE'سچ ہی کی جیت ہوگی ' کو بڑا شہرہ ملا اورظاہر ہے کہ ایک فلم اسٹار کا کچھ اس قسم کےپروگرام کا پیش کرنا اپنے آپ میں ایک قابل ذکر واقعہ ہے ہی۔اس کے اندر جہاں بہت سی سماجی برائیوں سے پردہ اٹھایا گیا اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی وہیں شراب کی تباہ کاریوں کی تفصیلات بھی بتلائی گئیں اور ایک دن کا پورا پروگرا م اسی موضوع پر رکھا گیا ۔فلم جگت کی ایک دوسری مشہور شخصیت جاوید اختر بھی اس پروگرام میں شریک تھے ۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ زندگی کی ہر بڑی غلطی ان سے شراب کی حالت میں سرزد ہوئی۔ا سلام شراب کو ام الخبائث کہتاہے ۔ اور سمجھا جاسکتاہے کہ آج دنیا بہ شکل دگر ہی سہی یہ تسلیم کر رہی ہے ۔
ابھی تین چار سالوں قبل دنیا ایک بڑے مالی بحران سے دوچار ہوئی ۔ امریکی معیشت کی کمر ٹوٹ سی گئی ۔ عالمی سطح پر بے روزگاری کے سنگین مسائل نے جنم لینا شروع کردیا ۔ معیشت کی دنیا کے بڑے بڑے دماغ پھسڈی ثابت ہوگئے۔اب اس کے اسباب کا پتہ لگایا جانے لگا تو بنیادی طورسے دو باتیں ابھر کر سامنے آئیں ۔ ایک تو یہ کہ سودی نظام کی وجہ سے یہ سارے مسائل پیدا ہوئے اور دوسرے یہ کہ مال کے احتکار و ادخار اور صرف چند افراد کے پاس سرمایے کے جمع ہو جانے کے سبب یہ خطرناک منظر سامنے آیا ۔اسلام نے سود کو حرام قراردیا اور مال صرف مالداروں کے پاس نہ رہ جائے اس کے لیے زکوۃ کا نظام دیا ۔ اور یہ معلوم ہے کہ جب بیت المال کا مکمل نظام خلیفہ خامس عمر بن عبد العزیز کے زمانےمیں نافذ کیا گیا تو خوشحالی کا یہ حال تھا کہ کوئی بھی آدمی زکوۃ لینے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔ معیشت کی اس صورت حال کے فورا بعد اسلامی بینکنگ اور اسلامی نظام اقتصاد کی معنویت پر چرچا بڑھنے لگا اور دیکھتے دیکھتے امریکہ اور یورپ میں کئی ایک اسلامی بینک کھل گئے ۔
غم دیا جو بتوں نے تو خدا یاد آیا
چین کو ایک انسان ایک بچے کی پالیسی والے ملک کے طور بڑی شہرت حاصل ہے اور ایک زمانے تک آبادی کنٹرول کرنے کے معاملے میں اس کی مثال دی جاتی رہی ہے ۔آج کی صورت حال یہ ہے کہ وہاں اس پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ بڑھتا جارہا ہے ۔ وہاں نوجوا نوں کی بجائے معیشت کا دارومدار بوڑھوں پر ہے اور یہ ا س کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ تبدیلی کے آثار بہت واضح ہیں ۔اور یہ طے ہے کہ یہ تبدیلی آکر رہے گی جس کی شروعات ہو بھی چکی ہے ۔ تازہ رپورٹوں کے مطابق اگر کسی کی پہلی اولاد بچی ہے تو وہ دوسری اولاد پیدا کرنے کا مجاز ہوگا۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا 
خاص طور سے یورپ اور امریکہ کے اندر لوگوں نے مادیت سے بیزاری کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے ۔اب وہ تھک چکے ہیں ۔ وہ سکون کی تلاش میں کبھی تصوف تو کبھی اور دوسری روحانی قدروں کی طرف مائل ہونے لگے ہیں ۔اور یہ اس بات کا اشاریہ ضرور ہے کہ وہ اپنی شکست کے معترف ہیں ۔ایسے لوگوں کا اصل اسلام تک پہنچ جانا کافی فطری ہے اور ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب وہ وہاں ضرور پہنچ جائینگے ۔ یورپی خواتین کے اندر حجاب کی طرف بڑھتا ہوا رجحان اور عصمت و عفت کے احساس میں آئی تیزی سے اس بات کا اندازہ لگانا قطعا مشکل نہیں کہ عملا ان خواتین نے اسلام کی حقانیت کو قبول کرلیا ہے ہر چند کہ وہ باضابطہ اس کا اعلان واعتراف نہ کررہی ہوں ۔
THE HINDU کے OPEN PAGE پر نوکری پیشہ خواتین سے متعلق کچھ مہینوں پہلے جس قسم کی ڈیبیٹ چلی اور جس طرح WORKING WOMEN کی اچھی خاصی تعداد نے خواتین کے خاتون خانہ ہونے کو اس کا اچھا اور قابل فخر نصیب قراردیا وہ کس طرف اشارہ کر رہا ہے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ۔
ان تمام حقائق کو سامنے رکھا جائے تو کیا یہ کہنا غلط ہے دنیا مسلمان ہورہی ہے ۔ اے کاش وہ دنیا جو مجبورا اس نعمت کو قبول کررہی ہے اپنی چاہت سے بھی قبول کر لیتی تو دین و دنیا کی ساری بھلائی اس کا مقدر ہو جاتی ۔ یہ انسان فطری تقاضوں کے مطابق تو ایسے بھی اللہ کے قوانین کا پابند ہے پھر وہ کیوں نہ اختیاری طور پر اس کو اپنا تاہے کہ سرخرو ہو جائے ۔ ساتھ ہی علماے اسلام کو کیا اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ اللہ نے اتنے سارے مواقع فراہم کردیے ہیں پھربھی وہ اپنی دعوتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا سامان نہیں کرتے ۔





السبت، يناير 26، 2013

مونس دہلوی کی شاعری – مہذب افکار کا گلدستہ


ثناءاللہ صادق تیمی 
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 
ایک ایسے وقت میں جبکہ شاعری پورے طور سے گمراہ کن نظریات و احساسات کی ترجمانی کا وسیلہ بنی ہوئی نظر آرہی ہو اور ہر چہار سو ایک فکری دیوالیہ پن کی کیفیت طاری ہو ۔ اہل علم و دانش اور صاحبان فضل اسے بے کار کا مشغلہ مان کر اپنی الگ دنیا بسانے کی کوشش کررہے ہوں اور باطل آب و تاب کے ساتھ اسے اپنی اشاعت کاذریعہ بنا کر اپنی کامرانی پر اترا رہا ہو تو سوچا جاسکتا ہے کہ ایسے میں کوئی ایسا شعری سرمایہ کا ہاتھ لگ جانا کتنا سکون بخش اور راحت افزا ہو سکتا ہے جو نہ صرف یہ کہ آپ کے ذوق جمال کی تسکین کرے بلکہ بیک وقت آپ کے جمالیاتی حس کی تہذیب کا فريضہ بھی انجام دینے کی دولت سے مالا مال ہو ۔
بڑے بھائی اور صاحب قلم سیال جناب رفیع اللہ مسعود تیمی کی ترتیب دی ہوئی مونس دہلوی کی' کلیات مونس دہلوی ' کچھ اسی قسم کی شاعری کے نمونوں سے مزین ہے ۔ پہلے پہل جب کلیات پر نظر پڑی تو تعجب بھری خوشی ہوئی کہ جناب خواجہ قطب الدین شاعر بھی ہیں اور جب مجموعہ کلام کا مطالعہ شروع کیا تو اس بات کا افسوس کھانے لگا کہ آخر اس بات سے میں اب تک ناواقف کیو ں رہا ۔سچ پوچھیے تو میں جناب قطب الدین مونس دہلوی کو بس اتنا جانتا ہوں کہ ایک آک دفعہ ان کے محلے میں واقع مسجد میں خطبہ جمعہ دینے کی سعادت نصیب ہوئی تو محبت و اپنائیت کے ساتھ ظہرانہ کا نظم انہوں نے اپنے ہی دولت کدے پر کیا اور تھوڑی دیر دینی مسائل پر بات چیت ہوئی لیکن مجموعہ کلام کو پڑھ کر اور لوگوں کی آراء سے واقفیت کے بعد اس بات کا یقین ہو گیا کہ آپ واقعۃ صاحب خلق ہیں اور بیباک بھی ۔ اور حق کے معاملے میں کسی قیل قال اور شش و پنج کے شکار نہیں ہوتے ۔ 
ان کی شاعری در اصل ان کی شخصیت کا اظہاریہ ہے ۔ وہ جن خوبیوں سے متصف ہیں شاعری کے سارے ساز بھی اسی آہنگ میں بجتے ہیں اور دیرپا اثر چھوڑجاتے ہیں ۔ عقیدہ وایمان ، سماجی معاملات، عشقیہ مضامین سب کے سب کا محور ان کا اپنا سرمیایہ تہذیب و شائستگی ہی ہے ۔وہ سلفی الفکر مسلمان ہیں ۔ اخلاق کی نعمت سے سرفراز ہیں ۔ بہتر سماج کی تشکیل کے متمنی ہیں ۔حق کے علمبردار اور باطل کے خلاف صف آرا ہیں اور ان کی شاعری در حقیقت انہیں کاوشوں کی بازگشت ہے ۔
تیرا عروج اسی پر ہے منحصر مونس 
ہو تیرے فکر کی حد لا الہ الا اللہ 
احمد مرسل کا ثانی کوئی ہو سکتا نہیں 
دست قدرت نے تراشا ہے کچھ ایسا آئینہ 
آپ کو قرآن ناطق اس لیے کہتے ہیں سب 
ہے وہی حکم خدا جو کچھ کہ فرماے رسول 
یہاں حق بات کہ کر سوئے مقتل کون جائیگا 
روایت ہے یہ ہم جیسے ہی دیوانوں سے وابستہ 
رہ دین خالص میں ہم سلفیوں کے 
نمایاں نقوش قدم دیکھتے ہیں 
عام طور سے وہ شعراء جو گردش ایام کا رونا روتے ہیں اور حالات کی مار پر شکوہ کناں ہوتے ہیں وہ دانستہ یا نادانستہ طور سے قنوطیت اور ناامیدی کے شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی پوری کی پوری شاعری ایک طرح کا نوحہ یا ایک قسم کا مرثیہ ہو جاتی ہے اسے مونس دہلوی کا امتیاز ماننا پڑیگا کہ وہ ایک طرف شہر آشوب لکھتے ہیں اور دوسری طرف بڑے اعتماد و یقین کے ساتھ بہتر تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور کسی قسم کی یاسیت کو اپنے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتے ۔
ہاں جہد مسلسل سے بدل جاتی ہے قسمت 
ناکامی کو اے دوست مقدر نہیں کہتے 
لاتقنطوا پہ مجھکو مکمل ہے اعتماد 
میری نجات کی یہی بس اک دلیل ہے 
میں تیرگی وقت سے مایوس نہیں ہوں 
امید ہے سینے میں مرے یاس نہیں ہے 
بہت سارے اشعار پڑھتےہوئے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر نے قرآن حکیم یا حدیث رسول کا ترجمہ کردیا ہو۔کہیں کہیں پر یہ ترجمہ پن بھی جھلک جاتا ہے لیکن بیشتر مقام پر فن کی تازگی متاثر نہیں ہوتی اور اچھے اشعار کا تحفہ بھی ہاتھ آجا تاہے ۔
آلام و مصائب کی جو ہم پہ گھٹا چھائی 
خود اپنے گناہوں کی یہ ہم نے سزاپائی 
مجھے لینا ہے کیا غیروں کے در سے 
مرا داتا مرا معبود تو ہے 
دین پسند شعراء و ادباء بالعموم ایک قسم کی خشکی کی زد میں رہتے ہیں اور بدلتے حالات اور تغیر پذیر روایات کی انہیں معرفت نہیں رہتی ، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ادبی حلقوں میں ان کی پہچان بھی نہیں بن پاتی اور گمنامی کے اندھیروں میں ہی ان کا سارا فن مدفون ہوجاتا ہے ۔ مونس دہلوی اپنی انتہائی دین پسندی کے باوجود فکری خشکی کے شکار نہیں ہیں اور یہ بلا شبہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے چہرے پر سجی ہوئی آنکھیں بصارت ہی نہیں بصیرت کی دولت سے بھی مالا مال ہیں ۔ان کے یہاں عصری شعور کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ فکری جہات میں رنگا رنگی کے ساتھ ہی بے حیا اور ایمان سوز اقدارو روایات پر ان کے تیر و نشتر صرف شکوہ یا غصہ کی کیفیت نہیں اجالتے بلکہ فکر و خیال اور شعور کی کئی راہیں وا کرتے ہیں ۔ اور ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یہاں آکر ان کا فنی کمال زیادہ جلوہ گر نظر آتا ہے ۔
بھٹک رہا ہے خیالوں میں آج کا انساں 
اسے بھی فکر کی آوارگی کہا جائے 
چشم ظاہر تجھے کب نظر آئیگا 
وہ اندھیرا جو دن کے اجالے میں ہے 
رات اپنی ظلمتوں کے پنکھ پھیلاتی رہی 
ہم چراغوں کو لہو دے کر سحر کرتے رہے 
اے اہل حرم شمع حرم لےکے تو آؤ
اک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن 
ساری پرانی قدریں زوال آشنا ہوئیں 
اب زاویے نظر کے بدل کر تو دیکھیے 
ماضی کے خرابے میں تا دیر بھٹکتا ہوں 
احساس کو ڈستی ہے جب حال کی تنہائی 
یہ ارتقائے خرد کی تجلیاں توبہ 
کہ ظلمتوں نے ہر اک سو پڑاؤ ڈالا ہے 
قدروں کے اس زوال کا ادراک کر سکے 
اتنا بلند وقت کا معیار بھی نہیں 
شاعری اور وہ بھی اردو کی غزلیہ شاعری اگر عشق اور واردات عشق سے یکسر خالی ہو تو اسے معجزہ ہی سمجھنا چاہیے ۔ کم از کم اس معجزے کا الزام تو مونس دہلوی پر نہیں ڈالاجا سکتا ۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کے یہاں بھی عشق اور واردات عشق کے افسانے عام شعراء کے جیسے ہی ہیں ۔ ہر چند کے عشق کا یہ تصور ان کے یہاں متصوفانہ نہیں لیکن ایک حد تک مومنانہ ضرور ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی اس پہ دوسرے رنگ بھی نظر آجاتے ہیں ۔ لیکن کم از کم حیاسوزی اور اخلاق باختگی کا تو کوئی سان گمان ان کی شاعری پر نہیں گزرتا ۔
آؤ صلاے عام ہے یاران میکدہ 
ساغر جھلک رہے ہیں کسی کی نگاہ سے 
یہ درد عشق کی شعلہ گدازیا ں مونس 
سلگ رہاہوں مگر آنکھ تر ہے کیا کہیے 
مہک اٹھیں گی فضائیں لہک اٹھیں گے چمن 
لپٹ کے تیرے بدن سے جدھر صبا جائے
مصحف رخ کے تصدق مست آنکھوں کے نثار 
کردیا دنیا و ما فیھا سے بیگانہ مجھے 
نہیں اتنے بھی ہم آداب میخانہ سے ناواقف 
بہ انداز دگر شغل مے و مینا ب ھی آتا ہے 
شاعر پند ونصائح سے بھی نوازتا ہے لیکن زیادہ تر اس میں ملائیت کی کارفرمائی نہیں بلکہ ایک درد مند دل کی صدا ہے اور ایک مشفق انسان کا خلوص جھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے اورقابل ذکر یہ ہے کہ فن کے دیے یہاں بھی مدھم نہیں پڑتے ۔
ایمان کی ضیا سے نکھرتی ہے زندگی 
اس مشعل یقیں کو سدا اپنے پاس رکھ
تیری رفاقتوں کا زمانہ ہو معترف 
تو اپنے حسن خلق کی ایسی اساس رکھ
آزار جسم و جاں بھی اٹھانا پڑے اگر 
پھربھی نہ آپ حرف صداقت چھپائیے 
پاکیزہ افکار وخیالات کے اس گلستاں میں پھولوں کے اوپر رعنائیوں کی کوئی باضابطہ کمی تو نہیں البتہ پروف کی غلطیاں در آئی ہیں جو بسااوقات حسن و جمال کی جلوہ گری میں حائل ہو جاتی ہیں ۔خالص فنی نقطہ نظرسے دیکھا جائے تو شاعری کلاسیکل روایات کی امین نظرآتی ہے البتہ جہاں ا س گلدستے کے زیادہ تر پھول زینت چمن ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگرنہ ہوتے تو حسن کی تمازت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ کہیں کہیں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے تھوڑی اور توجہ دی ہوتی تو فنی زاویہ اور بھی بلند ہو جاتا ۔متقدمین اور ہم عصر شعراء سے استفادے کا احساس بھی کہیں کہیں پر گہرائی سے ہو تا ہے لیکن سرقہ یا نقل کی کیفیت کہیں نہیں ۔
اخیر میں اگر مدون و مرتب کو مبارکباد نہ دیا جاے تو ایک طرح کی ناانصافی ہوگی ۔اس مجموعہ کلام کی تدوین وترتیب کے ذریعہ مدون نے بلا شبہ ایک اہم دینی اور ادبی فریضہ انجام دیا ہے ۔ اس سے جناب رفیع اللہ مسعود تیمی کے ادبی ذوق اور مسلک کا بھی پتہ چلتا ہے ۔البتہ یہ امید تو کی ہی جاسکتی ہے کہ مدون اگر اس کے دوسرے ایڈیشن میں کچھ ضروری ترمیم سے کام لینگے تو مجموعےکا حسن اور بھی بڑھ جائیگا ۔
میری نظر میں صاف ستھرے ادبی اور دین کا کارآمد شعور رکھنےوالوں کو اس مجموعے سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے ۔ اور اہل حدیثوں کو تو بطور خاص اسے ہاتھوں ہاتھ لینا چاہیے ۔


حکومت منہ بھرائی کے ہنر سے خوب واقف ہے!



رحمت کلیم امواوی
حساس ذہنیت کے حامل افراد اس باریک بیں حقیقت سے با لکلیہ آشنا ہونگے کہ گذشتہ دنوں راجستھان کی راجدھانی جئے پور میں کانگریس نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ دو روزہ چنتن شیور کے نام سے جو پروگرام منعقدکیا گیا تھا اس کا کیا مقصد تھا۔پروگرام کے دوران جہاں راہل گاندھی کی تاجپوشی کا حسین منظر دیکھنے کو ملا وہیں وزیر داخلہ ،کانگریس کے قد آور ،دور اندیش نیتا مسٹر ششیل کمارشنڈے کی زبان سے ایک ناقابل فراموش حقیقت کو الفاظ کا جامہ پہنا کر مسلمانوں کے دلوں کو جیتنے کا عجیب و غریب کارنامہ بھی سننے کو ملا ۔جب مرکزی وزیر داخلہ شنڈے نے اپنی زبان سے ببانگ دہل یہ کہا کہ ”آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے تربیتی کیمپوں میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے اور پھر ملک کے طول وعرض میں دہشت گردانہ کارنامہ انجام دیا جاتا ہے،اور پھر ایک مخصوص طبقہ کے اشارے پر مسلم نوجوانوں کو پھنسایا جاتا ہے“ان کا یہ بیان کیا آیا کہ پورے ملک میں جیسے طوفان آگیا ہو ،بی جے پی الگ چراغ پا ہے اور آر ایس ایس کے خرمن میں الگ دھواں ،وشو ہندو پریشد میں کھلبلی الگ ہے اور دوسری فسطائی طاقتوں نے الگ آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے ،وہ مرکزی حکومت پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہوئے وزیر داخلہ کی معزولی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کوئی شنڈے جی کو معافی مانگنے کیلئے آواز لگا رہا ہے،الغرض ایک عجیب وغریب خلفشار پیدا ہو چکا ہے،فسطائی طاقتیں آپے سے باہر آچکی ہیں ،اور حقیقی دہشت گردوں کے ہوش ٹھکانے لگ گئے ہیں۔لیکن کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا کہ ششیل کمار نے ایسا بیان کیوں دیا ؟کیا وہ اس سے پہلے نہیں جانتے تھے کہ آر ایس ایس ،وشو ہندو پریشد،بجرنگ دل دہشت گرد تنظیموں کے نام ہیں؟کیا یہ حقیقت اب تک ان کے سامنے نہیں کھلی تھی کہ دہشت گردی کو مسلمانوں سے جوڑاجانا دراصل مظلوم کو ظالم کہا جاناہے؟کیا وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ واقعتا مسلمان دہشت گرد اور مدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے ہیں ؟کیا وہ اب تک اس بات کو قبول کرتے تھے کہ ’ہر مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہیں‘؟؟؟نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ شنڈے جی کا یہ تجاہل عارفانہ تھا جو کہ ضرورت کے پیش نظر اقبال کرنا تھا اور آج اس کی ضرورت کانگریس کو آن پڑی ہے کہ وہ اپنے پایہ ثبات میں آئے تذلذل کو استحکا م بخشنے کیلئے کوئی مظبوط ہتھیار اپنائے۔آپ بخوبی جانتے ہیں کہ 2014بہت قریب ہے،اور پارلیمانی انتخاب کا بگل بھی بج چکاہے،ہر پارٹی اپنی بساط بھر 2014کے انتخاب کیلئے کمر کس رہی ہے ،اور ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مسلمانوں کو اب تک ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے،اور آج ملک عزیز میں مسلمانوں کے نزدیک دونوں بڑی پارٹیوں (کانگریس ،بی جے پی)کی شبیہ خراب ہو چکی ہے،لیکن پیمانے میں فرق ہے۔کانگریس کا چہرہ مسلمانوں کے نزدیک کسی اور اعتبار سے خراب ہے اور بی جے پی کا کسی اور اعتبار سے۔آپ جانتے ہیں کہ مسلمان آج کانگریس سے صرف اس بنیاد پر نالاں ہیں کہ اس نے مہنگائی اور بے روزگاری کو آسمان تک پہونچا دی ہے ،مسلمانوں کیلئے جب ریزرویشن کی بات ہوتی ہے تو کانگریس چپی سادھ لیتی ہے،مسلم نوجوانوں کو مسلسل دہشت گردی کے الزام میں پھاند کر جیل رسید کرتی رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ان چیزوں کو لیکر مسلمان یہ سوچنے لگے ہیں کہ کانگریس کے پاس مسلمانوں کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے لیکن لینے کیلئے ہے اور وہ ہے ہمارا ووٹ جس کے سہارے وہ ملک عزیز کے اقتدار پر قابض ہوتی رہی ہیں ۔آپ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہونگے کہ چنتن شیور میں سونیا گاندھی نے چنتا جتاتے ہوئے اپنے خطاب میں اس طرح گویا ہوئیں تھیںکہ ہمارا روایتی ووٹ کھسک رہاہے،جس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ سونیا گاندھی کے نزدیک روایتی ووٹ سے مراد مسلمان ،دلتوںاور پسماندہ طبقات کا ووٹ ہے۔ اب ظاہر ہے مسلمانوں کا ووٹ محفوظ رکھنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو انہیں کرنا ہی ہوگا،ششیل کمارشنڈے نے اس مسئلے پر پہلا قدم اٹھایا اور بی جے پی اور آرایس ایس پر ایسے وار کیا کہ مسلمانوں کے خیمے میں کانگریس کی مدح سرائی شروع ہوگئی،پسماندہ طبقات کے اندر تحفظ و انصاف کا احساس جاگ اٹھا ،اور ان کے منہ سے خوشی کے کانگریسی لڈو پھوٹنے لگے،اور پھر سے کانگریس کا کلمہ پڑھنا شروع کردیا ،جو کہ شنڈے جی کے خطا ب کا مقصود تھا۔اب ہم یہ جان لیں کہ مسلمانون کے نظر میں بی جے پی کس قدر خراب ہے اور اس کے کیا کیا کارنامے ہیں ۔ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں خالص ہندوتواد کا کوئی اگر علم بلند کرنے والا ہے تو وہ بی جے پی جیسی پارٹی ہے،جنہوں نے مسلسل مسلمانوں کو ہندوستان سے پاکستان بھگانے کی ناپاک و ناکام کوشش کی ہے،اور جس نے ہٹلر ثانی مسٹر مودی کو ہندوستان کا وزیر اعظم بنانے کا سپنا سزا رکھا ہے، اس ملک سے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے اور اس جمہوری ملک کو خالص ہندو استھان بنانے کی سعی میں جٹی ہوئی ہے جو کہ کبھی ہونے والا نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اگر کسی کو ہندوستان میںاپنا کھلا دشمن مانا ہے تو وہ بی جے پی ہی ہے،جس کے پاس مسلمانوں کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے لیکن لینے کیلئے خون ووطن دونوں ہے۔ مسلمانوں کے خون سے ہولیاں کھیلنا ان کی پرانی عادت ہے،اور ہندوستان سے مسلمانوں کو بے دخل کرنا ان کے منشور میں اول اول سے شامل ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمان جائیں تا کہا ں جائیں ؟دونوں پارٹیاں ایک ہی سکہ کے دو پٹ ہیں ،اور تیسرا کوئی متبادل و مقابل ہے بھی نہیں جس کو سہارا دیکر اقتدار تک پہونچا سکے۔ کانگریس نے تو اب تک مسلمانوں کو اپنائیت کا احساس دلا کر بے رحمی سے مارا ہے ،نوجوانوں کے خوشنما ءخواب کو خا ک و راکھ بنا دیا ہے،بابری مسجد کو چھین لیا،بٹلہ ہاوس انکاونٹر کرایا ،آسام میں مسلمانوں کی شام کرادی،دھولیہ کے مسلمانوں کے آنکھوں میں فرقہ وارانہ دھول پھینکا گیااور کانگریس اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب منظر دیکھتی رہی لیکن پاور ان کے ہاتھ ہونے کے باوجود مسلمانوں کی حفاظت کیلئے ایک قدم بھی نہ بڑھا سکی۔تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی ایسا دن نہیں ہے جب اجتماعی عصمت دری نہ ہوتی ہو لیکن ایک کے ساتھ اس گناہ کو کرنے والوںنے شدت برتی جس کے پاداش میں اس کی جان چلی گئی تو اس کیلئے فوراً فاسٹ ٹریک کورٹ کا قیام عمل میں آیا لیکن وہیں سالہا سال سے بے شماربے گناہ مسلم نوجوان جیلوں کے اندر قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں تو ان کیلئے کوئی فاسٹ ٹریک کی ضرورت کا احساس نہیں ہوتا ،اپنی زندگی کے سب سے کارگر لمحات جیل میںبرباد کرکے باعزت رہا ہوتے ہیں تو ان کو بھی دیکھ کر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلم نوجوان بے وجہ جیلوں میں اپنی زندگی خراب کر رہے ہیں ان کیلئے بھی کوئی فاسٹ ٹریک کورٹ کا قیام ہونا چاہیئے تاکہ معاملات کاجلد خلاصہ ہوجائے کہ یہ لوگ مجرم ہیں یا معصوم؟پھر ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ کانگریس مسلمانوں کے مفاد کی بات کرتی ہے۔مسلمانوں کو کچھ دینا بھی چاہتی ہے ،ہمارا عالم تو یہ ہے کہ ہم اس ملک میں ایک باعزت شہری بن کر جیناچاہتے ہیں لیکن حکومت اس کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہورہی ہے۔پھر ہم کیسے اس پارٹی سے مستقبل کیلئے اچھی امید رکھ سکتے ہیں ؟
                                                                ہم کھلے لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ ششل کمارشنڈے کا بیان در اصل2014کی تیاری کا آغاز ہے،جس میں کانگریس کامیاب ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے،کانگریس کو جب جب اس بات کا احساس ہوا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ ہم سے روٹھ رہا ہے تب تب اس نے ایسا جال بچھایا کہ سارے سادہ لوح مسلمان با آسانی پھنس گئے،اگر ششیل کمارشنڈے واقعتا اس ارادے سے حقیقت کا اعتراف کرتے کہ ان تنظیموں کو کیفر کردار تک پہونچانا ہے تو پھر وہ اپنے خطاب میں یہ ضرور کہ دیتے کہ دہشت گردی کو فروغ دینے والی آر ایس ایس ،شیو سینا،بجرنگ دل،وشو ہندو پریشدجیسے تنظیموں پر بہت جلد یا بدیر کاروائی کی جائیگی لیکن ششیل جی نے ایسا کچھ کہا نہیں جو کہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی اور ایک ایسا سیاسی تیر انہوں نے چلایا جو کہ پوری کامیابی کے ساتھ نشانے پر لگی،اور کانگریس سانپ مار کر لاٹھی بچانے میں کامیاب ہو گئی،مسلمانوں کا ووٹ پھر سے کانگریس کی طرف لوٹ رہا ہے،اور مسلمان اس بات پر بہت خوش ہیں کہ ایک حقیقت کا کھلے عام کانگریس نے اعتراف کیاہے لیکن یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ یہ صرف بیان بازی تھی جس پر کاروائی کرنے کی طاقت ناہی کانگریس میں ہے اور ناہی کسی اور میں ۔ضرورت ہے کہ مسلمان ہوش کے ناخن لیں اور اپنی دانشمندی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے آنے والے پارلیمانی انتخاب کیلئے خود کا کوئی مضبوط اورکامیاب فیصلہ لیں اور اب تک جو ہمیں کھلونے دے کے بہلایا جاتا رہا ہے ہم اس سے بچیں اور شعور و آگہی کا بھر پور استعمال کریں۔
rahmatkalim91@gmail.com

الاعتداء على المراءة واغتصابها في المجتمع الهندي


ثناء الله صادق التيمي 
الباحث في مركزالدراسات العربية والإفريقية
جامعة جواهر لال نهرو نيو دلهي


شهدت عاصمة الهند حادثة مؤلمة للاغتصاب الجماعي في سيارة متحركة وذهبت ضحيتها طالبة في العلاج الطبيعي. هذه الحادثة هزت البلاد بل العالم وحركت من ساكن أهالي البلاد ودفعت بأصحاب الفكر والرأي إلى إعمال أفكارهم حول قضية الاغتصاب الجماعي والاعتداء على النساء وتطبيق الحدود والمعاقبات الشديدة ضدها ، وليست الحادثة بدعة من أمرها ، فإن الهند الديمقراطية تجرب مثل هذه الحوادث كل يوم لمرات عديدة ، والحادثة التي وقعت في عاصمة الهند ، أحدثت ضجة وغوغاء بخلاف الحوادث الأخرى التي يتراكم حدوثها في المجتمع الهندي الديمقراطي ولكن لا يلتفت إليها أحد.
وما إن حدثت هذه الفاجعة المؤلمة الخطيرة حتى وأسرع المفكرون ورجال السياسة وأصحاب المنظمات غير السياسية التي تعمل لتحسين أحوال المرأة وتحريرها من براثن الأسرة والحياة العادية الطاهرة إلى الإدانة الشديدة لها ، وقاموا بمطالبة العواقب الوخيمة للمجرمين ، وكانت الآراء بهذا الخصوص متفاوتة متباينة ، فقد طالب كثير منهم بإعدام المغتصبين كما ذهب الآخرون إلى أن الإعدام ليس حلا مناسبا ، فلا بدمن اتخاذ وسائل أخرى للقضاء على هذه الأوبئة الاجتماعية ، كما عدها بعض الناس نتيجة حتمية لسلوكيات المرأة وعدم ستر أجسامها بشكل مناسب ، وفي مثل هذه الأحوال قام بعض عباد الله الساذجين برفع أصواتهم لتطبيق الحد الإسلامي على المغتصبين بغض النظر عن المجتمع الهندي و ما فيه من عادات غير إسلامية.
هذا وقد انتهز المؤيدون والدعاة إلى تحرير المرأة هذه الفرصة لبيان آرائهم المنحرفة الضالة ، إذ خرجوا في الطريق ، كتبوا المقالات وشاركوا في المناقشات واستدلوا بهذه الواقعة لتحرير المرأة في الاقتصاد وفي التعليم وفي اللباس وتحسين وسائل الأمن في البلاد وما إليها ولكن الحق الذي ظهر جليا ، أنه لم يكن هناك أحد يحب الأمن والسعادة للمرأة حقاً.
هذا صحيح إلى حد ، أن المرأة كانت ولاتزال تواجه مشاكل مختلفة وأنها لا تتمتع بما تستحقها من الحقوق والتسهيلات الأساسية وأنها غير مامونة فلا تعرف متى سيغصب عرضها وتتعرض للاغتصاب ، وهذا يسخر من العالم المتطور ويقهقه عليه ولكن أين الحل وما هو؟؟؟
يؤكد الشيوعيون و مؤيدو الحضارة الجديدة بأن الرجل والمرأة متساويان ، ولا فرق فيما بين حقوقهما وأن الرجل يكيد بتوريط المرأة في السلوكيات الخلقية الخاصة ولاسيما حينما يرسخ في صدرها عن أهمية عفافتها وعرضها ، والمرأة تستحق الحرية الكاملة وتتأهل لها ، وأنه لا يجوز لأحد أن ينكر عليها فيما تلبس ، وفيما تتفكر ، وفيما تحبه وتجعله خليلا ، وفميا تعيش ، ولا تسلط عليها وظيفة الأم والأخت والزوجة بل يحترمها الإنسان لأنها إنسان ولا شيئ بعد ذلك ، ولو ظلمها أحد أو اعتدى عليها أو اغتصبها ، يعاقب معاقبة شديدة دون الإعدام ، ويسعى الجميع لدرء المخافة ، مخافة العرض والعفاف من أذهان المرأة ، حتى تستطيع أن تجسد حقوقها وتحصل عليها بكرامة ، كما يجب على الرجال أن يمهدوا الطريق للمرأة على أساس الانتصاف لمشاركتها في كل مجال وبالأخص في البرلمان.
تتجلى هذه الأفكار فيما كتبه 
The Hindu 
الصحيفة اليومية باللغة الإنجليزية التي تنشر من مختلف ولايات الهند بتاريخ 30 ديسمبر 2012م على الصفحة الأولى : 
But when if the six are hanged, and even if our legislators, in a fit of conveniently misplaced concern, prescribe the death penalty for rape, the pathology we are dealing with will not be easily remedied …….. it is this leader less vacuum that ordinary citizens must step into in order to affirm the right of women. The right to be born and fed the right to dress and travel and love as they please.
وهناك فكر آخر عكس هذا الفكر ولكنه ليس فكرا ، بل هو انحراف فكري ، وخلل في الدماغ واضطراب في الخلق ، وهذا الفكر يبري الرجل كل ما يقوم به من الظلم والجور على المرأة ، ويحمل على المرأة مسؤولية كل شنيع ، وهذا إن لم يكن فكرا ،غير أنه يتوافر في المجتمع الهندي الراهن.
وعلى عكس هذه الأفكار الضالة والعمليات المنحرفة ، هناك فكر وعقيدة تتأهل كل التأهل للحفاظ على المرأة وكرامتها ألا وهي نظرية الإسلام المنجية المنقذة من الضلال ، وفي نظر الإسلام ، الإنسان بما فيه الرجل والمرأة من خلق الله تبارك وتعالى ، أرسلهما إلى هذه الدنيا ليستحقا بالأعمال الحسنة الجنة في الأخرة ، إن هذه الدنيا فانية والحياة حياة الآخرة ، يجب على الرجل والمرأة أن يركز جهودهما لإقامة العدل والإنصاف في الأرض بدل الظلم والتعسف. إن الرجل يقضي ضرورة المرأة كما تقضي المرأة ضرورة الرجل وهما ذرائع مهمة لسكون الآخر والسعادة وهما سواء في كونهما انسانا غير أن واجباتهما تختلف حسب فطرتهما ومتطلبات الجسد. فالمرأة تتحمل مسؤولية البيت وتربية الأولاد وإدارة الشؤون المنزلية والرجل يتولى مسؤولية توفير الرزق وفضل الله ولا يعنى هذا أن المرأة إذا اجتهدت للحصول على العلم أو اشتغلت بالتجارة ، أخطأت ، اللهم إلا أنها من الضروري أن تلتزم بالحجاب كلما تذهب خارج البيت ولا تتبرج تبرج الجاهلية الأولى ، وكذلك يرشد الإسلام الرجل أن ينكح إذا بلغ واستطاع الباءة ، ويوجب على أولياء المرأة نكاحها إذا بلغت من سن البلوغ بمن يرضون دينه وخلقه ،كما يكلف الإنسان الرجل والمرأة سواء بسواء لغض النظر والحفاظ على الفروج ، والعفاف ليس مطلوبا من المرأة فقط بل هو للرجل أيضا متاع كريم لا يستهان به.
ويجدر بالذكر أن التوجيهات الإسلامية وهداياته السمحة ليست منحصرة على الأمور الاجتماعية فقط ، فإن الإسلام دين منزل من الله وليس نظرية أو فكرا تأسس على أيدي الرجال أو النساء ، ولأجل ذلك يقدم حلا مقنعا لجميع معضلات الحياة وألغازها ، فالإسلام أولا وقبل كل شيء يدعو إلى الاعتقاد بالله القادر القوي المتصرف في الكون ، القابض على حياة الإنسان ، يفعل ما يريد ، والدنيا مزرعة الآخرة ، والإنسان يثاب على كل عمل قام به ، إن خيرا فخير ، وإن شرا فشر ، فإما الجنة دار القرار وإما النار دار العذاب ، وهذا معلوم بالضرورة بأن الإيمان بالله واليوم الآخر أهم الوسائل لمنع الإنسان من التورط في الآثام والفساد ، ثم إن الإسلام يغلق كل باب ينفتح على الإثم والعدوان كالاختلاط بين الرجل والمرأة وما إلى ذلك ، وبعد هذه المراحل كلها يدعو إلى تطبيق الحد الإسلامي المتمثل في رجم الزانية المحصنة والزاني المحصن ومئة جلد للزاني غير المحصن وتغريب عام ومئة جلدة للزانية غير المحصنة.
ومن هنا يتضح خطأ أولئك الذين يطالبون بتطبيق الحد الإسلامي على الزنا في الهند ، لأن للحد الإسلامي خلفيته وبيئته الإسلامية ، فلو أننا قمنا بتكوين مجتمع إسلامي يعيش المرأ في حده والمرأة تعيش في دائرتها ، إذن تأتي الحدود الإسلامية بالنتائج المطلوبة وإلا فلا.
وأغرب ما في هذه القضية، عدم قيام أحد بالإنكار على الحضارة الماجنة ورفض التبرج والسفور والفاحشة الفاشية الغالبة في كل شئي ، فإن شبكة الانترنت والتليفزيون والأفلام وما إليها كل هذه الوسائل مسخرة لنشر الفوضى والفاحشة في المجتمع.
وهذه الحضارة تقدم المرأة كمتاع يباع ويشتري ، فليس هناك إنتاج تكنولوجي أو زراعي أو متعلق بالشؤون الأخرى إلا وهناك امرأة خلابة في لباس غير ساترة ، فهذه المناظر الداعية إلى الفاحشة وتقديم النساء كالزينة ومتاع يتمتع بها ، إذن فلماذا هذه الغوغاء والضجة والصراخ على ما وقع ويقع من الحوادث ؟؟ على ما أيها الإنسان على ما ؟؟؟
فلو أن الإنسان يحب الأمن والحل للمستجدات والقضايا فعليه أن يستعرض هذه القضية لمرة أخرى ويقلب النظر على النظر ويمعن في الحل لأن المرأة الموظفة تواجه الاستبداد الجنسي والنساء خارج البيوت غير محفوظة وسلوكيات الرجل وميوله مع المرأة غير عادلة ، فإنه من الحق أن الحل لا يكمن في الاحتجاجات ولا في رمي التهم إلى الحكومة ولافي الإصرار على تحرير المرأة الكامل اللامتناهي ، إن هؤلاء الذين يدعون إلى تحرير المرأة ويريدون أن يندفعن إلى التكاتف مع الرجال في كل ميدان ، إنهم ينسون أن المرأة تختلف في مقتضياتها الفطرية وأن لها ميولا نفسانية أخرى وأنها لا تساوي الرجل لافي بنيتها الجسدية ولا في شعورها وذهنها.
فلو استقر في الانسان خوف من الله ورغبته في الحصول على الجنة وتنفر عن نار جهنم ، وتم تحليه بالتربية الإسلامية الخلقية فلا يصعب تكوين مجتمع صالح متوازن يعيش كل إنسان في دائرته ويتمتع بالسعادة الغامرة وليس هناك أي نظام يوفر الحل المقنع العادل المستقل لهذه المشاكل والقضايا ما سوى الإسلام الذي يضمن للإنسانية السعادة كلها ، ومع أن المجتمع الهندي ليس مجتمعا إسلاميا ، غير أن الحد الإسلامي لو تم تطبيقه ليأتي بالخير الكثير بالنسبة إلى القوانين الأخرى ، ولا يُنسى أن الحد الإسلامي ليأتي بالأثر المرجو المتوقع ، إذا كانت المساعي تبذل لتكوين البيئة الإسلامية والمجتمع الإسلامي المثيل أيضا.
وأما الفكر الشيوعي والنظرية الإلحادية فهي نظرية مهلكة وغير عملية أيضا. إن الفكر الشيوعي يؤمن بأن الإنسان إنتاج المجتمع وأن ميوله الجنسية الجامحة بدون أي قيد خلقي أوديني ضرورة له ، لابد أن يكون له اختيار في شرب الخمر ، إنه من المستبعد أن يفهم إلى أين يريد هذا الفكر أن يدفع بالإنسان ويكون المجتمع من أي طراز ، إنه يريد أن يجعل مجتمعا لا يعتقد في عفاف المرأة وعصمتها ، يبذل المجهود لنشر الفاحشة والتبرج ويحافظ على حرية الرجل والمرأة في عملية الزنا إذا كانت بالرضا وعلاوة على ذلك لا يؤمن بالله ولا يعتقد في الآخرة وبعد ذلك يتفكر الإنسان بأن المجتمع سيكون مصونا محفوظا. إن الفكر الإنساني ممتلئ بالتباينات وهناك أمثلة كثيرة للتضاد غير أن هذا تضاد لا يكاد الرجل يعثر على مثله.

الجمعة، يناير 11، 2013

کیا ہے دہشت گردی کا معیار؟


رحمت کلیم امواوی


اجمل قصاب کو پھانسی دیے جانے کا واقعہ ابھی پرانا نہیں ہوا ہے وہ نیا ہی ہے ہم اس پر ہندوستانی عدلیہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور مبارک باد دیتے ہیں کہ معصوموں کی جان لینے کے پاداش میں ہماری عدالت نے بھی اس سے جینے کا حق چھین لیا جو کہ بر حق ہے،اس پیمانے پر ہر کوئی یہاں تک بآسانی پہونچ جاتا ہے کہ قتل و غارت گری کے ملزمین سولی جیسی سزا کے مستحق ہیں ۔لیکن ایک وسوسہ جو میرے ذہن میںاس پیمانے اور قانون کو لیکر پیدا ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے کہ آخر یہ سزا جو قتل وخونریزی جیسا جرم کرنے والوں کیلئے مقرر کی گئی ہے کیا صرف انہیں لوگوں کیلئے ہے جو غیر ملکی ہیں ،یعنی دوسرے ملک سے آکر اس ملک میں دہشت بپا کرتے ہیں ان لوگوں کیلئے یہ سزا مختص ہے کہ انہیںسولی پرچڑھا دیا جائے ؟میرے حساب سے جمہوری ملک میں ایک ہی جرم پر ایک کیلئے الگ اور دوسرے کیلئے الگ سزا نہیں ہوگی۔پھر ایک دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جمہوری ملک میں ایسا قانون نہیں ہوسکتا تو پھر گجرات میں نہ دیکھی جانے والی قتل و غارت گری کرنے والوںکو یہ سزا کیوں نہیں دی جا رہی ہے،مرادآباد کے ملزمین کیوں آزاد ہیں،بابری مسجد شہید کرنے کے جرم میں چالیس لوگوں کا نام بحیثیت مجرم لبراہن کمیشن کی رپورٹ میں درج ہے جس میں اڈوانی،اوما بھارتی،مرلی وجئے،اشوک سنگل جیسے لو گ بھی شامل ہیں لیکن حکومت و عدالت کی نظر میں صرف یہ لوگ معصوم ہی نہیں محبوب بھی ہیں اور انہیںزنداںمیں دھکیلنے کی بجائے وزارت کی کرسی پر بیٹھایا جاتا ہے، مسلمانوں کی معروف عبادت گاہ بابری مسجد کی شہادت بھی ریاستی حکومت کے زیر اثر نہیں بلکہ مرکزی حکومت کے اشارے پر ہوئی ،نرسمہا راو اپنے بنگلے سے سارا نظارہ دیکھتے رہے لیکن دفاعی قدم اٹھانے کی زحمت نہ کی جس کی وجہ سے یہ جگ ظاہر ہوگیا کہ ان کا بھی ہاتھ مسجد کے انہدام میں تھا،گجرات میں نریندر مودی ہندوں کو کھل کر پیاس بجھانے کااشارہ کرکے انسانیت سوز کھیل دیکھ رہے تھے لیکن مسلمانوں پر ترس نہیں کھایا ،لاتعداد مسلمان ہمیشہ کیلئے موت کی گود میں سو گئے ،لیکن ہندوستانی عدلیہ انہیں مجرم ثابت کرنے سے قاصر رہی ،اب یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آخر اس ملک میں دہشت گردی کا معیار کیاہے؟کیونکہ جب ایک مسلمان اپنے بیتے ہوئے درد کو الفاظ کا جامہ پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور اپنے ساتھ ہو رہی نا انصافی کو آواز دیتا ہے تو اسے مشتعل اور منافرت پھیلانے والا فرد ثابت کرکے گرفتارکر لیا جاتا ہے اور وہیںدوسری طرف مسلمانوں کو کھلے لفظوں میں گالی دیتا ہے اور پاکستان جانے کی دہائی دے کر مسلمانوں کی قربانیوں کو ٹھیس پہونچاتا ہے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتا، جب ایک مسلمان اپنی مذہبی آزادی کا پورا استعمال کرتے ہوئے دعوتی سفر پر نکلتا ہے تو اسے طالبان کا ایجنٹ بتا کر دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہیں ببانگ دہل آسام میں فساد کرنے والے حکومت کی نظر میں محبوب گردانے جاتے ہیں،اب ہر کوئی یہاں آکر پھنس جاتا ہے کہ آخر اس ملک میں دہشت گردی کا معیار ہے کیا؟کس بنیاد پر کس کو دہشت گرد کہا جاسکتا ہے یہ ایک معمہ ہے جو سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔لیکن پھر بھی ایک محاورہ ہے جو شاید یہ بتانے میں معاون ہورہا ہے کہ اس ملک میں دہشت گردی کا معیار کیا ہے ،محاورہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘ہمیں کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کوئی مستقل رائج الوقت سبھوں کیلئے ایسا معیار نہیں ہے جس پر اگر آپ پورا اترتے ہیں تو آپ دہشت گرد،اگر کوئی دوسرا اس پر پورا اترتا ہے تو پھر وہ دہشت گرد۔بلکہ یہاں مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسرے کیلئے دہشت گردی کا لفظ جرم ہے ہی نہیں ،اگر کوئی دہشت گرد ہے تو وہ مسلمان ہے اور اگر کوئی دہشت گردی پھیلاتا ہے تو مسلمان ہے۔بلکہ ایک سیاسی رہنما کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہے لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہے۔اب سوچنے سمجھنے کی بات یہی رہ جاتی ہے کہ ہم خود سے اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ پھر ہم ہی لاٹھی اور بھینس کے مالک ہوجائیں تبھی یہ نعرہ ختم ہوگا کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہردہشت گر دمسلمان ہے۔اور اس کیلئے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مذہبی دائرے میں رہ کر تعلیمی،سیاسی،سماجی،اخلاقی سطح پر خود کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں ،پھر کوئی ہمیں اقتدار سے روکنے والا نہیں ہوگا ،چونکہ قیادت و سیادت ہماری خمیر کا عنصر ہے، اب فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ اپنے آپ کو اب اس قابل بنا رہے ہیں یا یونہی مردہ دل زندہ رہنے پر اکتفا کریں گے!
  لا پھر ایک بار وہی بادہ و جام ائے ساقی

   ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام ائے ساقی





الأربعاء، يناير 09، 2013

کیا یہ گاندھی جی کا ہندوستان ہے؟



رحمت کلیم امواوی

جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی

یہ میری خوش نصیبی تھی کہ میں ایک بار ایسے مشاعرے میں پہونچ گیا جہاں بین الاقوامی سطح پر اپنی الگ شناخت رکھنے والے شاعر ندا فاضلی کی شخصیت بھی تشریف فرما تھی ،میں بڑی شدت سے ان کی باری کا انتظار کررہا تھا جب ان کی باری آئی تو انہوں نے غزل سنانے سے پہلے ایک بہت بڑی بات کہ دی جو میرے دل کو بھا گئی،انہوں نے پنڈت نہرو اور باپو جی کو دو الگ دنیا کی مخلوق ثابت کردیا اور جس طرح سے انہوں نے گاندھی اور نہرو کے درمیان امتیاز پیدا کیا میں بھی اس فکر کا قائل ہو گیا پھر کیا تھا اس کے بعدسے اکثر میں اپنے ساتھیوں سے اس مسئلے پر لمبی بحث کر جاتا ہوں کہ ہندوستان کو گاندی جی کے نام سے موسوم کرنا چاہیے یا نہرو جی کے ۔گرچہ یہ ایک خیالی بات ہے لیکن سوچنے کا متقاضی ہے ،ہم یہ جانتے ہیں کہ ملک عزیز کو فرنگیوںکے آہنی پنجوں اور طوق غلامی سے نجات دلانے میںگاندھی جی کے ساتھ ساتھ پنڈت جی کا بھی اہم رول رہا ہے ،لیکن ایک دوسری بات جو گاندھی اور نہروجی کے مابین امتیاز پیدا کرنے والی ہے وہ دلوں میں انسانیت کا دردہونا ہے۔جواہر لال نہرو بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے وہ گاندھی کی طرح زمین سے پیدا نہیں ہوئے تھے اسی لیے ان کے دلوں میں زمین کا درد نہیں تھا ۔انہوں نے ایک کتاب ڈسکووری آف انڈیا کے نام سے لکھی جس کا اردو میں ہندوستان کی کھوج نام سے ترجمہ ہوا ،نہرو جی نے اپنی کھوج کا سلسلہ ریلوے اسٹیشن پر ختم کیا لیکن وہیں اسٹیشن پر مسلسل صبح سے شام تک اپنے کاندھوں پر بوجھ ڈھونے والے کولیوں کے سرکادرد اور کاندھے کا بوجھ نہیں لکھ سکے،چونکہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس میں کیا تکلیف ہے وہیں دوسری طرف جب سرزمین ہند ۷۴۹۱ءمیں انگریزوں سے آزادی کا پروانہ حاصل کرتی ہے تو ہر طرف افراتفری کا ماحول ہوتا ہے ،ہر کوئی جشن میں ڈوبا ہوتا ہے لیکن موہن داس کرم چندر گاندھی جی ناہی کسی جشن کی محفل میں ہوتے ہیں اور ناہی کسی پارلمینٹ میں ۔بلکہ ایک غریب ولاچار مسلمان کے کٹیہ میں بیٹھ کر ان کے درد و غم کا بٹوارا کر رہے تھے۔انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ مسلمان ہیں،یا یہ غریب ہیں یا کمتر لوگ ہیں،بلکہ انہیں ایک درد کا احساس تھا اوریہ سمجھتے تھے کہ ہم سب انسانیت اور وطنیت کے ناطے ایک ہیں اس لیے سب پر نظر رکھنا ہمارا انسانی فریضہ ہے اور میں سمجھتا ہوں اسی انسانیت ساز فکر وعمل کی بنیا د پر ہندوستان کو گاندھی جی کا ہندوستا ن کہنا کوئی غلط نہ ہوگا اور ہوگا بھی تو کیوں ؟ ملک عزیز کو گاندھی جی نے کیا نہیں دیا،آزادی کاپروانہ اور ایک جمہوری ملک دیاکیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی کارنامہ کسی ملک کیلئے ہوسکتا ہے کیا؟اس ملک میں ہندو ،مسلم ،سکھ،عیسائی سبھوں کے درمیان ایک ساز پیدا کیا ،سبھوں کو جیو اور جینے دو کا پیغام دیا ،کیا یہ کوئی فلمی ڈائلگ تھا کیا ؟ نہیں ۔بلکہ گاندھی جی نے اس ملک میںایک حسین و دلکش فضا قائم کرکے اس میںپر سکون باد صبا چلائی،جس پر زمانہ عش عش کرتا رہا ۔لیکن آج اسی فضا میںباد مسموم کا زور ہے،انسانیت ساز تہذیب وثقافت کو انسانیت سوز تہذیب کا لبادہ اوڑھا دیا گیاہے ،مغربی افکار و نظریات کو اپنے افکار پرترجیح دے دی گئی ہے ،ہر چیز کیلئے ہم ان ہی کے مرہون منت بنے ہوئے ہیںجس کی وجہ کر نام نہاد ترقی اور کامیابی کا نعرہ دیکر فحاشی وعریانیت ،خیانت و دھوکہ دری کا بازار گرم کردیا گیا،جس میں خسارہ صرف ہمارا ہی ہورہا ہے لیکن احساس مردہ ہو چکا ہے کریں تو کیا کریں؟جب ایک غیور و باشعور فرد ان چیزوں اور موجودہ طرز ہائے زندگی وانداز حکومت کو دیکھتا ہے تو ناطقہ سر بہ گریباں ہوجاتا ہے اور دل ہی دل میں بول اٹھتا ہے کہ یہ گاندھی جی کا ملک نہیں ہوسکتا ،یہ وہ ہندوستان نہیں جس کیلئے ہمارے باپ داداں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔بلکہ یہ ملک تو امریکہ کا بھکاری اور اسرائیل کا چمچہ معلوم پرتا ہے،ا پنے ہاتھو ں اپنے ملک کے وقار کو پامال کرنے والا ایک ایسا ملک ہے جس کو ہندوستا ن کہا جاتا ہے لیکن گاندھی جی کا وہ ہندوستان جو بے شمار قربانیوں کے ثمرے کے طور پر ہمیں ملا تھاوہ ملک نہیں ہے ،بلکہ یہ تو خودداری کے سودا کا نتیجہ ہے کہ ایسا ملک دیکھنے کو مل رہا ہے اگر ہم اس ملک کو گاندھی جی کا ہندوستان کہینگے تو یقینا باپو جی کے روح کو تکلیف پہونچے گی ۔یہ ہندوستان نہیں بلکہ حیوانستان ہے،جہاں لوگ بھوکے ،بے روزگار،بے آثرا و بے اماں ہیں اور نام رکھا ہے جمہوری ملک ہندوستان۔خبروں،رپورٹوں اور تبصروں کی بیساخیوں پر چلنے والے یہ دانشوران کیا یہ نہیں جانتے کہ جمہوریت کی یہ چند گھروں کی محدود رخیل نے نہ جانے کتنے گھر اجاڑ دیے،اور کیا ہندوستان جیسا عظیم ملک ہمیں اسی لیے دیا گیا تھا کہ ہم یہ دیکھیں کہ لاقانونیت اور معاشرے کی جڑوں میں آگ کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن اپنی آخری حدوود سے بھی تجاوز کرچکی ہے،سماج ایک سفاک منڈی میں تبدیل ہوچکا ہے،یہاں قانون ساز قانون کی بوٹیاں نوچنے میں فخر محسوس کرتے ہیں،اور جہاں عوام و اقتدار دومختلف اور متضاد قوتوں کا نام ہے۔جس دیش کے کوچے کوچے میں افلاس آوارہ پھرتا ہو  جو دھرتی بھوک اگلتی ہو جہاں دکھ فلک سے گرتا ہو،جہاں بھوکے ننگے بچے بھی آہوں پر پالے جاتے ہوں  جہاں سچائی کے مجرم بھی زنداںمیں ڈالے جاتے ہوں

قارئین:ہم یہ پورے یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں اور یہ میرا دعوی ہے کہ موجودہ ہندوستان باپو جی کا ہندوستان نہیں ہے۔یہ حقائق روز روشن کی طرح ہر باشعور و سمجھدار اور دردمند دل رکھنے والوں پر عیاں ہے کہ آج ملک کی معیشت کہاں کھڑی ہے ،مہنگائی کس قدر آسمان چھو رہی ہے ،بے روزگاری کس طرح بام عروج پر ہے ،ایک طرف وزرا کی عیاشیاں ہے تو دوسری طرف عوام کی خودکشیاں،مائیں اپنے حمل اور باپ اپنے ہاتھوں سے اپنی نسل ضائع کر رہے ہیں ،جس باپ نے بھوک اور بے روزگاری کے ہاتھوںپاگل ہوکر اپنے ہی بچے دریائے گنگا و جمنا میں پھینک دیا لیکن حکومت ایک کفن کی قیمت نہ دے سکی،جس بوڑھے نے پینشن نہ ملنے کے ٹینشن میں اپنے بدن میں آگ لگالیا لیکن حکومت ان کو ایک لمحے کا خراج نہ دے سکی،اور جو نوجوانوں دگڑیا ں لیکر بھی حکومت کی نظر میں کامل نہ گردانے جانے کے کارن خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے اور حکومت کو ذرا برابر بھی درد نہ ہوا۔کیا ایسے ہی ملک کو گاندھی جی کا ملک کہینگے ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک کو جمہوری ملک کہنا بھی جمہوریت کے مفہوم پر آنچ اٹھانا ہے،پھر باپو کی طرف کیسے موسوم کیا جا سکتا ہے۔آج حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ اندازہ کرنا بھی دشوار کن معلوم پڑتاہے۔چونکہ

عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے
                                                لیکن پھر بھی ڈنکے کی چوٹ پے ظالم کو برا کہتا ہوں  مجھکو سولی سے نہ زندانوں سے ڈرلگتا ہے
جہاں ایک طرف آج ہندوستان کے ہر گلیوں اور کوچوں میںبھوک سے بلکتے معصوموں کی صدائیںبازگشت کرتی ہیںتو دوسری طرف وزرا کے متملق کتوں کو سیر ہوتے ہوئے بھی دیکھا جاتا ہے۔کہیں بازار میں بکتی آدم کی بیٹی دیکھنے کو ملتی ہے تو کہیں بسوں اور پارکوں میں بنت حوا کی عصمت کو تار تار ہوتے سنا جاتا ہے،کہیں اولاد برائے فروخت کے نعرے بلند ہورہے ہیں تو کہیں فرقہ وارانہ فساد کے ذریعے ایک صالح معاشرے میں نفرت کا بیج ڈالا جاتا ہے،کہیں غریب شہر کے بچے صبح سے شام ایک نوالے کیلئے ترستے رہتے ہیں تو کہیںامیر شہر کے کتے کے سامنے کھانے کا انبار لگا ہوتا ہے،کہیں صدائے حق بلند کرنے والوں کو لاٹھی کھانی پڑتی ہے تو کہیںمسلم نام کو دہشت گردی سے جوڑ کر اپنے ہی ملک میں اجنبی بتایا جارہا ہے ،کہیں نیک ،شریف ،کمزور مسلمانوںکو پیٹ پیٹ کردہشت گرد ہونے کا اقرار کرایا جارہا ہے تو کہیں مخالفت کرنے والوں کو جیل کے سلاخوںکے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے اور زندگی کا بینڈ بجا کر باعزت خالی ہاتھ گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
                                جب ملک عزیز فرنگی پنجوں سے آزاد ہوا اس وقت یہاں مختلف اقوام کے لوگ ہونے کے باوجود ایک قوم کی شکل تھی ور ضرورت صرف اور صرف ایک ملک کی تھی جو کہ گاندھی ،نہرو،آزاد،پٹیل،امبیڈکر،جوہروغیرہ کی جانفشانیوںسے ایک عمدہ پیکر میں ملک کا قیام ہوگیااور جمہوریت کا دسترخوان پورے ملک میں پھیلا کر سارے اقوام کے لوگوں کو ایک ساتھ بیٹھادیا۔لیکن آج اسی گاندھی نہرو کے مداحوں نے ان کے بچھائے ہوئے دسترخوان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ملک کاخاتمہ کرکے مختلف اقوام میں بانٹ دیااور اقتدار والی قوم اپنے علاوہ کسی کو دیکھنا پسند نہیں کرتی اوراپنے پیٹ کا خیال کرتے ملک کے دوسرے اقوام کے لوگوں کو بھوک وبے روزگاری کا تحفہ دیتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج باپو کے جمہوری ملک کا خاتمہ ہوچکاہے ، سربراہان وطن نے پھر سے طوق غلامی کو پھول کا مالا سمجھ کر پہن لیا ،اور آج آزادی کا پروانہ مل جانے کے باوجود اسی کے غلامی کے زنجیر میں جکڑا معلوم پڑتا ہے جس سے آزادی حاصل کرنے کیلئے ہمارے آبا واجداد نے اپنے سر سے مقتل گاہوں کو سجایا تھا ،کئی آدم کی بیٹیوں نے اپنی عفت کو سر بازار نیلام کیاتھا اور کئی شہیدوںنے اپنے خون سے اس سرزمین کو سیراب کیا تھا۔
                                                                لیکن ہائے افسوس موجودہ حکومت جمہوریت کا خون ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے مگر اس کی بقا کیلئے قدم اٹھانے سے قاصر ہے،لوٹ گھسوٹ کا بازار گرم ہے،بدعنوانی کے جال میں از ادنی تا اعلی گرفتا ر ہیں،انصاف ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے،عدالت دستور کے پابند ہونے کے بجائے صاحب ثروت کا عین بن چکی ہے۔پھر ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ یہ ملک اسی گاندھی جی کا ملک ہے جنہوں نے ہمیشہ بیدار مغزی کے عالم میں رہتے ہوئے انصاف کا علم بلند کیا اورایک اعلی وارفع ملک کاقیام کیا ،سب کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا۔آج اس ملک کو جمہوری ملک کہنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسے باپو جی کا ملک بنایا جائے اور باپو جی کا ملک بنانے کیلئے ضروری ہے کہ جمہوریت کا حقیقی دسترخوان پھر سے بچھایا جائے ورنہ اس طرح کی باتیں کرنا شعور و آگہی پر خود سے انگلی اٹھانے کا موقع دینا ہوگا،اور اگر اسی طرح ہمارے ملک کا شب و روز مستقل رہا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے ملک کو گاندھی جی کے نام سے موسوم کرنا باپو جی کے روح کو ٹھیس پہونچانا ہوگا،اور پھر ایسے ملک کو ملک کہنا ناہی میرا عقیدہ ہے اور ناہی اس پر انگشت نمائی سے خوف کھاتاہوں۔حبیب جالبی نے بہت پہلے کہا تھا جسے میں اپنے طرف سے پھر سے کہتا ہوں کہ 
دیپ جنکے صرف محلات میں جلے
چند لوگوں کے خواہشات لے کے چلے
جو کہ مسندوں کے سانچوں میں ڈھلے
ایسے دستور کو،صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ،میں نہیں جانتا
میں بھی خائف ہوں تختہ دار سے
میں بھی منشور ہوں کہ دو یہ اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زندان کے دیوار سے
ظلم کی رات کو،جہل کی بات کو
میں نہیں مانتا ،میں نہیں جانتا

الاثنين، يناير 07، 2013

مذہبی تعلیمات عام کرنے کی اشد ضرورت



محمد فیصل اقبا ل تیمی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی

ہم میں سے ہرکس وناکس اس خبرسے پوری طرح آگاہ ہے کہ ابھی چند دنوں پہلے راجدھانی دہلی میں چلتی ہوئی بس کے اندر ایک لڑکی کی اجتماعی آبروریزی کی گئی ۔اس کے بعد پورے ہندستان میں مظاہروں ،احتجاجات اور تحریکات کا سیلاب امنڈ پڑا، مختلف قسم کی مانگیں کی جانے لگیں،کسی نے حکومت کو غیر ذمہ دار ٹھہرایا ،کسی نے پولس کو لاپرواہ کہا ۔لیکن حقیقت کیا ہے ؟عصمت دری کا یہ معاملہ کوئی نیا نہیں ہے ،تقریباً ہر روز عصمت دری کے واقعات اخبارات کی زینت بنتی ہیں پھر بھی لیکن اس واقعہ میں ایسا کیا خاص تھا کہ لوگوں نے سر پے پہاڑ اٹھالیا ؟اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ میڈیا نے اس میں بہت زیادہ دلچسپی لی اور اسے صوبائی سطح سے بلند کرکے عالمی سطح کا مسئلہ بنا دیا ،بہر حال اس سانحہ کے بعد جو بھی رد عمل سامنے آیا اس سے یہ بات تو ثابت ہوہی گئی کہ ہمارے دلوں میں ابھی بھی انسانیت کی بقاءکے لیے حرارت باقی ہے ۔
لیکن ان ساری باتوں کے علاوہ سنجیدگی سے اس کے اسباب و علل پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسے قوانین وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ آئندہ اس طرح کا دلدوز سانحہ رونما نہ ہوسکے۔اس کیلئے حکومت خواہ کوئی بھی پالیسی اختیار کرلے اور مجرمین کیلئے جتنی بڑی اور بری سزا مقرر کرلے وہ صحیح ہی ہوگاکیونکہ بغیر عبر ت آموز سزا مفید نہی ہوتی،لیکن اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی خطرہ لاحق رہتا ہے کیونکہ جسے خدا کا خوف نہی ہوتا اسے دنیا کے کسی قانون کا ڈر بھی نہی ہوتا ،اس کیلئے ضروری ہے کہ لوگوں کے دلوں میں خوف الہی پیدا کی جائے اور ااس کیلئے ہندوستان کے مذہبی علماءکرام کو آگے آنا ہوگا چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ میرا ماننا ہے کہ ہندوستان میں جتنے بھی مذاہب ہیں ہر ایک کے اندر خوف خدا کی تلقین کی گئی ہے ۔فی الوقت سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی تعلیمات کو عام کریں ،افراد کی اصلاح کی جانب توجہ دیں ،کیونکہ قانون خواہ کتنا ہی پاور فل ہو اس وقت تک جرائم پر قابو نہیں کیا جاسکتا جب تک جزا وسزا پر ایمان نہ ہوں ۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف قسم کے مظاہروں ،جلسوں اور تحریکوں کے ساتھ ساتھ مذہبی پیشوااور دانشوران قوم وملت بھی اپنی ذمہ داری پر غور کریں اور پوری ایمانداری کے ساتھ اصلاح معاشرہ کا کام کریں ۔

اسلام اور مغربی تعلیمات کا فرق سمجھیں!



رحمت کلیم امواوی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی

آج چہار دانگ عالم میں ہندوستان کی سرزمین پرہونے والے اس انسانیت سوز سانحے کو بری نظر سے دیکھا جارہا ہے اور ہر کوئی یہ دوہائی دے رہا ہے کہ ہندوستان میں خواتین محفوظ نہیں ہیں،ان کی عزت و عصمت کو نیلام کیا جارہا ہے ،روز افزوں عصمت دری کے معاملات میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے ،اور حکومت کچھ کرنے کے بجائے پس پردہ اس میں تعاون بھی کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔میں سمجھتا ہون قائلین کی یہ رائے تقریباً صد فی صد حقیقت پر مبنی ہے لیکن یہ ہماری کوتاہ نظری اور کج فہمی ہے کہ ہم اس کے ذرائع اور بنیادی اسباب پر غور کرنے کے بجائے حکومت پر نشانہ لگانے میں تیزی کرتے ہیں۔کیا ہم نے کبھی یہ غور کیاہے کہ ہندوستانی تہذیب میں موجودہ رواج شامل ہے یا نہیں؟کیا ہم نے کبھی یہ غور کیا کی ہندوستانی مذاہب کی تعلیمات میں اس طرح کی بے پردگی اور آزادی کا کہیں ذکر ہے یا نہیں ؟کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کیلئے وقت نکالا کہ آزادی نسواںاور عریانیت ہمارے ملک و سماج ومعاشرہ کیلئے مفید ہے یا مضر؟کیا ہم نے مغربی تعلیمات کا تجزیہ کیا ہے کہ ان کی تعلیمات انسانیت کے حق میں ہے یا حیوانیت کے ؟ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا ،اور کبھی یہ نہی سوچا کہ ہمارا مذہب کیا کہتا ہے اور مغربی تعلیمات کا کیا رد عمل سامنے آتا رہا ہے ؟میں یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہماری تہذیب اور ہمار ی مذہبی تعلیمات میں ہماری عزت و عفت کی کل تک حفاظت کی ہے چونکہ ہم اپنی تہذیب اور دینی تعلیمات کے دائرے میں رہ کر کل تک زندگی گزار رہے تھے۔جب سے ہم نے اپنی تہذیب و تعلیم کو پس پشت ڈال کر مغربی تعلیمات کو اپنایا تب سے ہماری عزت کی نیلامی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب تک ہم اپنے حقیقی اصول زندگی پر گامزن تھے کبھی کوئی شکوہ کا دنیا کو موقع نہیں ملا ،لیکن جب ہم نے مغرب کو اختیار کیا اور آزادی نسواں علم بلند کرکے محرمو غیر محرم کی تمیز کو بھلا دیا ،پردہ و بے پردگی کی اہمیت کو دل سے نکال دیا تب سے ایسے انسانیت سوز حرکات رونما ہونے لگے۔یہ بات حق ہے مذب اسلام نے عورتوں کو دنیا کا سب سے قیمتی شئے گردانا ہے اور اسی واسطے اسے پردے میں رکھنے کی تلقین کی ہے ۔پوری دنیا میں کہیں بھی آپ دیکھ جائیے کہیں ایسی مثال نہیں مل پائیگی کے جس نے اسلامی تعلیمات کو گلے لگایا ہواور اس کے ساتھ اس طرح کی گھناونی حرکت کی گئی ہو۔ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات اور مغربی فرمان کے ردعمل کا فرق سمجھیں ۔اور جب ہم سمجھ لیں گے تو پھر اس طرح کے واردات دیکھنے اور سننے کو نہیں ملیں گے۔