السبت، أغسطس 04، 2012

اخلاق نبوى صلى الله عليه وسلم


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

یہ حلقہ سیرت طیبہ کی جھلکیوں کا آخری حلقہ ہوگا،ہم نے اب تک 28 حلقے آپ تک پیش کئے ،کتنے حسین لمحات تھے وہ جو ہم نے اپنے حبیب کے ساتھ گذارے ،اُن کی ولات سے پہلے کی زندگی کے بارے میں سنا ،اُن کی ولادت کے بعد کی زندگی کے بارے میں گفتگوکی ،اُن کی نبوت کے بارے میں بات کی ،اُن کی دعوت پر روشنی ڈالی ،رسول اللہ اور مسلمانوں کے ساتھ قریش کی زیادتیوں کا تذکرہ کیا،اسلام اورکفرکے بیچ ہونے والے غزوات کی جھلکیاں پیش کیں ۔پھر فتح مکہ اوراُس کے مابعد کے احوال بیان کئے ....جی ہاں ! یہ ساری گفتگو اُس انسان کے متعلق ہوئی جو رحمة للعالمین تھے ،جو محسن انسانیت تھے ،جو سارے جہاں کا درد اپنے سینے میں رکھے ہوئے تھے -

توآئیے یہ آخری حلقہ ہم اپنے حبیب کے اخلاق کے ساتھ بتاتے ہیں ....ظاہر ہے کہ جس نبی کی دعوت عالمگیر اورآفاقی تھی اُس کے اخلاق بھی عالمگیر اورآفاقی ہی ہوں گے ۔ خوداللہ نے اِس کی گواہی دی ،وانک لعلی خلق عظیم اوربیشک آپ بہت عمدہ اخلاق پر ہیں ۔ انہوں نے خود فرمایا: بعثت لاتمم مکارم الاخلاق مجھے اس لیے بھیجا گیاہے تاکہ مکارم اخلاق کی تکمیل کردوں۔ اوراللہ پاک نے ہم سب کو اپنے حبیب کا اسوہ اختیار کرنے کی تاکید کی :ولکم فی رسول اللہ اسوة حسنة تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں عمدہ نمونہ ہے ۔
آپ کے اندر ایسی سچائی اور امانت داری تھی کہ جانی دشمن بھی آپ کی سچائی اورامانت کا اقرار کرتے تھے ،بچپن سے ہی آپ کو سارا ملک صادق یعنی سچا اورامین یعنی امانت دار کہہ کر پکارا کرتا تھا ۔ ہمارے حبیب نہایت نرم مزاج اور سادگی پسندتھے ،مجلس میں کبھی پاوں پھیلاکر نہ بیٹھتے ،کوئی ملتا تو اُسے سلام کرنے میں پیش قدمی کرتے ،یہاں تک کہ بچوں کے پاس سے بھی آپ کا گذرہوتا تو انہیں سلام کرتے ،مصافحہ کے لیے بھی خودہی پہلے ہاتھ بڑھاتے ،اوراپنا ہاتھ اُس وقت تک نہ کھینچتے ،جب تک کہ وہ خود نہ کھینچ لے ،لوگوں سے مل جل کر رہتے ،کوئی دعوت دیتا تو اُس کی دعوت قبول فرماتے ،ساتھ میں بیٹھنے والوں کے ساتھ نہایت خوش اسلوبی اوراعلی ظرفی سے پیش آتے ۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : آپ اپنے جوتے خود ٹانکتے ،اپنے کپڑے خود سیتے ،اپنی بکری خود دوہتے اوراپنا کام خود کرتے تھے ۔
خاکساری کا یہ عالم تھا کہ کبھی خادم کو اُف تک نہ کہا بلکہ خادم کا کام خودکردیتے تھے ،انس ؓ فرماتے ہیں :میں نے دس سال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی رسول اللہ ﷺ نے ہم سے کہا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور ایسا کیوں نہیں کیا ۔
آپ بردباری اورقوت برداشت کے نمونہ تھے ،آپ کی بردباری کا ہی اثر تھا کہ قریش کی اذیتوں کوبرداشت کیا،پتھرمارنے والوں کو دعائیں دیں ،21سال تک لگاتار مشق ستم بنانے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ایک روز کی بات ہے ، ایک گنوا رنے پیچھے سے آکر زور سے آپ کی چادر کھینچی ،گردن سرخ ہوگئی ،نبی ﷺ نے پیچھے لوٹ کر دیکھا تو اُس نے کہا : اے محمد !میری مدد کرومیں غریب ہوں۔آپ اُس کی طرف متوجہ ہوئے ،مسکرائے ، پھرآپ نے اُس کے لیے کچھ عطیہ کا حکم دیا ۔ غرضیکہ آپ ہمیشہ صبر کے پیکر بنے رہے ،ظالموںاورخون کے پیاسوں کو معاف کرتے رہے ....گویاکہ بزبان حاک کہہ رہے ہوں  ہم تو وفا کے عادی ہیں ظلم تیرا دستورسہی ....
 آپ کے انصاف کی ایسی شہرت تھی کہ یہودی تک آپ کے پاس اپنے مقدمات پیش کرتے اورآپ اُن کی کتاب کی شریعت کے مطابق اُن کے لیے فیصلے فرماتے ،اونچے خاندان کی ایک عورت نے چوری کی تھی ،جب کچھ لوگوں نے اُس کے تئیں سفارش کرنی چاہی توآپ نے فرمایا:اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمدنے بھی چوری کی ہوتی تو میں اُس کا ہاتھ کاٹ دیتا ۔
آپ عیب جوئی ،بدگمانی اورچغل خوری سے سخت نفرت کرتے تھے،آپ فرماتے :کوئی کسی کے بارے میں ہمارے پاس کوئی بات نہ پہنچائے ،میری خواہش ہوتی ہے کہ جب میں تمہارے پاس سے نکلوںتو میرا سینہ بالکل صاف ہو۔ راتوںمیں اس کثرت سے عبادت کرتے کہ پاوں مبارک سوج جاتے۔سجدہ میں اتنی دیر تک رہتے کہ دیکھنے والے کو انتقال کرجانے کا وہم ہوتا ، نماز میں سینہ مبارک دیگ کی طر جوش مارتا ہوا معلوم ہوا کرتا ۔لیکن اُس کے باوجودآپ نے کبھی رہبانیت اورجوگی پن کو پسند نہیں کیا،بیوی بچوں کے حقوق ادا کرتے اور کہتے کہ خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی تم میں کا بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہواورمیں تم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔
انسانوں کا ایسا دردآپ کے سینے میں تھا کہ گمراہ انسانوں کو دیکھ کر آپ کے ضمیرمیں چبھن محسوس ہوتی تھی ،یہاں تک کہ اللہ پاک نے اُس پر رحم کھائی فلعلک باخع نفسک علی آثارھم ان لم یونوا بھذا الحدیث اسفا اگر یہ لوگ اِس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیاآپ اُن کے پیچھے اسی غم میں اپنی جان ہلاک کرلیں گے ؟ ۔
آپ کے اندر سخاوت ایسی تھی کہ کسی سائل کو ”نا“میں جواب نہ دیا ،اگر کچھ نہ ہوتا تو قرض لے کربھی اُس کی ضرورت پوری کردیتے ،پورے عرب پر آپ کی حکمرانی تھی ،بحرین سے حبش تک آپ کا بول بالا تھا ، عیش وآرام کی زندگی گذار سکتے تھے لیکن آپ نے زہد کو ترجیح دیا،آپ کے گھر کی تنگی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ نمازادا فرمارہے ہوتے اورعائشہ ؓ اُس میں سوئی ہوتیں تو سجدہ کرتے وقت اُن کو اپنا پیر موڑنے کی ضرورت ہوتی تھی تاکہ سجدہ کرسکیں ۔بستر کیاتھا ؟کھال کابستر تھا جس میں کھجور کی چھال بھر دی گئی تھی ۔عائشہ ؓ فرماتی ہیں : نبی اکرم ﷺ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانانہیں کھایا،اورنہ کبھی فاقہ کا شکوہ کیا،کبھی ایسا ہوتا کہ بھوک کی وجہ سے آپ کو رات بھر نیند نہیں آتی ،مگر اگلے دن کا پھر روزہ رکھ لیتے ۔ مہینوںگذرجاتا اورآپ کے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی ،آپ کی بیوی عائشہ ؓ کہتی ہیں : ہم پر مہینہ گذرجاتا اورہمارے چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی ،ہم لوگوںکا اکثر کھانا کھجوراورپانی ہواکرتا تھا ۔ ۔نبی پاک ﷺ نے جو آخری رات دنیامیں کاٹی ،اُس رات صدیقہ ؓ نے چرا غ کے لیے تیل ایک پڑوسن سے اُدھارلیاتھا ۔جیسا زہد خود اختیار کرتے ویسی ہی نصیحت کنبہ والوں کو بھی کرتے ،ایک دن آپ کی لاڈلی بیٹی فاطمہ ؓ نے اپنے ہاتھ دکھائے ،تنور کی آگ سے جھلس گئے تھے ،چکی پیسنے سے چھالے پڑ گئے تھے ،بیت المال سے ایک خادمہ مانگی ، آپ نے فرمایا: بیٹا ! سونے جاو تو 34مرتبہ اللہ اکبر کہہ لو 33مرتبہ سبحان اللہ کہہ لو اور33مرتبہ الحمدللہ کہہ لو یہ خادمہ سے بہتر ہے ۔
محترم قارئین ! یہ تو آپ کے اخلاق کی ایک جھلک تھی، آئیے ہم آپ کے حسن وجمال کی ایک جھلک بھی دیکھتے چلیں ....آپ ﷺ کا چہرہ انورچاند جیسا تھا ،آپ کا رنگ سفیدروشن تھا ،جابر بن سمرہ ؓ کہتے ہیں : چاندی رات تھی ،نبی پاک ﷺ بدن پر سرخ حلہ ڈالے لیٹے ہوئے تھے ،میں کبھی چاند کو دیکھتا اورکبھی آپ پر نگاہ ڈالتا تھا فاذا ھو احسن عندی من القمر بالآخرمیں نے یہی سمجھا کہ پیارے نبی ﷺ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں ۔ پسینہ کی بوند آپ کے چہرہ پر ایسی نظر آتی جیسے موتی ۔ آپ کی ہتھیلی ریشم سے بھی زیادہ نرم تھی ،آپ کا پسینہ عطر اور کستوری سے بھی زیادہ خوشبودار تھا ،انس ؓ کی والدہ ام سلیم آپ کے پسینے کو جمع کرتیں ،سبب پوچھا گیاتو فرمائیں :آپ کا پسینہ اپنے عطر میں ملاتے ہیں کہ یہ سارے عطروں سے بہتر عطر ہے ۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں : من راہ بدیھة ھابہ ومن خالطہ معرفة احبہ یقول ناعتہ لم ار قبلہ ولابعدہ مثلہ جو کوئی یکایک آپ کے سامنے آجاتا وہ دہل جاتا ،جو پہچان کر آپ کے پاس بیٹھتا وہ آپ کا عقیدت مند بن جاتا،کہنے والا کہا کرتا : میں کبھی بھی حضور کے جیسا اُس سے پہلے یابعد میں نہیں دیکھا ۔

انہیں چند کلمات کے ساتھ سیرت طیبہ کا یہ پروگرام ختم ہوتا ہے ،دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اپنے حبیب کی شفاعت نصیب فرمائے ،ہم نے جوکچھ سنا اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،جو لوگ اِس پروگرام کو آپ تک پہنچانے میں سبب نبے ہیں اللہ پاک اُن سب کی دنیاوآخرت سنواردے ۔اے مالک ! بہتری اورنیکی کی ساری قسمیں تیرے ہی ہاتھ میں ہے ،ہمیں دنیا وآخرت کی ہر طرح کی بھلائیاں نصیب فرما ۔ بارالہا ! ہمیں اپنے کاروبارمیں استقلال عطا فرما،ہمیں رزق دے جو پاک ہو ،علم دے جس کا نفع ہو ،اورایسے عمل کی توفیق دے جسے تو قبول کرلے-
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ،وتب علینا انک انت التواب الرحیم ۔ وصل اللھم علی نبینامحمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین

حيات طيبہ كے آخرى ايام


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

جب دین کی تبلیغ کا کام پورا ہوگیا ،جزیرہ عرب میں اسلام کا بول بالا ہوگیا اور ایسے افراد تیار ہوگئے جو اس عالمی دین کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا ئیں تو اب اللہ تعالی نے چاہا کہ اپنے نبی کو اس کی محنت کا ثمرہ دکھادے ،جس کے راستے میں اُنہوں نے بیس برس سے زیادہ ہرطرح کی تکلیفیں جھیلیں تھیں،اور اس کی صورت یہ ہوکہ عرب کے سارے قبائل حج کے موقع پر جمع ہوں جو آپ کی آخری باتیں سنیں اور یہ شہادت لیں کہ انہوں نے امانت اداکردی ۔دین کی تبلیغ فرمادی اورامت کی خیرخواہی کا حق ادا کردیا ۔....آپ کوہم بتاتے چلیں کے سن 9ہجری میں حج فرض ہوچکاتھا،اُسی سال اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ  کواپنے چند صحابہ کے ساتھ مکہ روانہ فرمایااور یہ اعلان کرادیاتھا کہ آئندہ سے کوئی مشرک کعبہ کا حج نہیں کرسکتا اور نہ کوئی ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف کرسکتا ہے ۔چنانچہ اُس کے دوسرے سال سن 10ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک لاکھ چوالیس ہزارصحابہ کے ساتھ حج کیا، یہ آپ کی زندگی کا پہلا اور آخری حج تھا ، چونکہ اُس حج کے صرف تین ماہ بعد رسول اﷲاکا انتقال ہوگیا ، اس لئے اس حج کو ” حجة الوداع “کہتے ہیں ، اِس حج میں اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کے ساتھ سارے مناسک اداکئے ،10ذی الحجہ کو عرفہ کے میدان میں ایک لاکھ چوالیس ہزار صحابہ کے سامنے ایک جامع خطبہ دیاجس میں، آپ نے فرمایا:
لوگو! میری بات سن لو ! کیونکہ میں نہیں جانتا ، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی نہ مل سکوں ۔لوگو ! یاد رکھو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ، اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ، لہٰذا اپنے رب کی عبادت کرنا ، پانچ وقت کی نماز اداکرنا، رمضان کے روزے رکھنا ، اور خوشی خوشی اپنے مال کی زکاة دینا ، اپنے رب کے گھر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا ، ایسا کروگے تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوگے ۔
اُسی طرح آپ ﷺ نے اِس خطبے میں رنگ ونسل کی تفریق مٹائی ،جان ومال اورعزت وآبروکے احترام کی تاکید کی ،سودکی حرمت پر گفتگوکی ،معاشرتی زندگی کے استحکام کی طرف توجہ دلائی ،امانت کی ادائیگی پرزوردیا،اورکتاب وسنت کو تھامے رہنے کی تاکید کی ....خطبہ کے بعد آپ نے فرمایا: تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے ، تو تم لوگ کیا کہوگے ؟ صحابہ رضى الله عنهم نے کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے تبلیغ کردی ، پیغام پہنچادیا اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا :اللھم اشھد،اللھم اشھد،اللھم اشھد ” اے اﷲ ! گواہ رہ “،” اے اﷲ ! گواہ رہ “،” اے اﷲ ! گواہ رہ “۔( مسلم )جب خطبے سے فارغ ہوئے تو آپ پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی :الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی ، اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا “۔( مائدہ :3) عمرفاروق رضى الله عنه نے یہ آیت سنی تو رونے لگے ،پوچھا گیا : آپ کیو ں رورہے ہیں : فرمایا....: اس لیے کہ کمال کے بعد زوال ہی تو ہے ۔ ....حجة الوداع سے واپسی کے بعد سورة النصر نازل ہوئی ، جس میں یہ اشارہ بھی کردیا گیا کہ اب دنیا سے آپ کے رخصت ہونے کا وقت قریب آچکا ہے ، اُسی طرح آپ  ﷺ نے سن 10ہجری کے رمضان میں بیس دن اعتکاف فرمایاجبکہ ہمیشہ دس دن ہی اعتکاف فرماتے تھے ،پھر جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو اس سال دومرتبہ قرآن کا دورہ کرایاجبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دورہ کرایاکرتے تھے ۔کیوں؟ یہ اشارہ تھا اِس بات کا کہ آپ کی رحلت کا وقت قریب آچکا ہے ....
وفات سے تیرہ دن پہلے 29 صفر ، بدھ کے دن سے بیماری شروع ہوئی ، اس وقت آپ ام المومنین سیدہ میمونہ ؓکے گھر میں تھے ، ہردن یہ پوچھتے رہتے کہ میں کل کہاں رہوں گا ؟ امھات المومنین نے سمجھ لیا کہ آپ ام المومنین سیدہ عائشہؓ کے پاس رہنا چاہتے ہیں ، وفات سے ایک ہفتہ پہلے سیدہ عائشہؓ کے گھر منتقل ہوگئے ، کمزوری سے چلا نہیں جارہا تھا ، سیدنا علیؓ اور سیدنا عباسؓ کے کندھوں کے سہارے داخل ہوئے ، حال یہ تھا کہ آپ کے دونوں ہاتھ ان دونوں بزرگوں کے کندھوں پر تھے اور پیر زمین پر گھسیٹتے ہوئے چل رہے تھے ۔ وفات سے چار دن پہلے تک امت کو پانچوں نمازیں بیٹھ کر پڑھاتے رہے ، جمعرات کے دن بعد نماز ظہر آپ انے اپنے آپ کو امت کے سامنے یہ فرماتے ہوئے قصاص کے لئے پیش کیا کہ جس شخص کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو ، وہ مجھ سے اپنا بدلہ لے لے۔اس دن آپ انے مغرب کی نماز پڑھائی ، جب نماز عشاءکے لئے باہر نکلے تو آپ پر غشی کی کیفیت طاری ہوئی ، جب یہ کیفیت دور ہوئی تو سیدنا ابوبکر صدیق صکو حکم دیا کہ وہ امت کو نماز پڑھائیں ۔
وفات سے دو دن پہلے آپ ﷺ نے اپنی طبیعت میں کچھ بہتری محسوس فرمائی ، تو آدمیوں کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے ، اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بائیں جانب بیٹھ کر نماز ظہر کی امامت فرمائی ، عالم یہ تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضى الله عنه کھڑے ہوکر آپ  ﷺ کی اقتداءکررہے تھے اورلوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضى الله عنه کی اقتدا کررہے تھے
وفات سے ایک دن پہلے دنیا نام کی کوئی چیز گھر میں رہنے نہ دی ، جتنے غلام تھے سارے کے سارے آزاد کردئے ، جو ہتھیار پاس تھے وہ امت کے لئے ہبہ کردیا ، ام المومنین سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ گھر میں کہیں کوئی دینار ودرہم تو نہیں ہیں ، تلاشنے کے بعد چھ یا سات دینار نکلے جنہیں وہ کہیں رکھ کر بھول گئی تھیں ، آپ ﷺ نے فورا انہیں صدقہ وخیرات کردینے کا حکم دیا ، زندگی کی آخری رات جو اس دنیا میں بسر کی وہ اس طرح کہ اُس رات گھر میں دیا جلانے کے لئے تیل تک میسر نہیں تھا،سیدہ عائشہؓ پڑوسی سے تیل ادھار لائیں تب اس رات نبی پاک اکے گھرکا چراغ جلا ۔
سموار کے دن کی صبح....جو وفات کا دن تھا .... طبیعت ہلکی محسوس ہوئی، حجرہءمبارکہ مسجد سے ملا ہوا تھا، پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضى الله عنه کی اقتداءمیں نماز ادا کررہے تھے ، دیکھ کر مسکرائے ، لوگوں نے آہٹ پاکر خیال کیا کہ آپ امسجد میں آنا چاہتے ہیں ، خوشی سے لوگ بے قابو ہوگئے ، قریب تھا کہ نمازیں ٹوٹ جائیں ،سیدنا ابوبکر صدیق رضى الله عنهجو امام تھے ،انہوں نے چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں ، لیکن آپ ﷺ نے اشارہ سے روکا اور حجرے میں داخل ہوکر پردے گرالئے....یہ وہ الوداعی نظر تھی جو آپ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے امت پر ڈالی
اس دن رسول اکرمﷺ کا جسم اطہر بخار سے ِتپ رہا تھا اور آپ بے چینی کی کیفیت میں.... اپنا ہاتھ مبارک ساتھ رکھے ہوئے ایک پتھر کے برتن میں ڈبورہے تھے اور اپنے چہرے اور پیشانی کو پونچھ رہے تھے ، سیدہ فاطمہ اپنے والد محترم کی اس تکلیف کو دیکھ کر بے چین ہو گئیں ، کہنے لگیں :"واکرب اباہ " ہائے میرے باپ کی تکلیف ۔ آپ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ”لیس علی ابیک کرب بعد الیوم یا بنیة ،، میری بچی ! آج کے بعد تیرے باپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔(بخاری ) پھر آپ نے حسن حسین کوچومااور ازواج مطہرات کوبلاکروعظ ونصیحت کی ۔
آپ نے چہرے پر ایک چادر ڈال رکھی تھی ،جب سانس پھولنے لگتا تو چہرے سے ہٹا دیتے ،اسی حالت میں آپ نے فرمایا: لعنة اﷲ علی الیھود و النصاری اتّخذوا قبور انبیائھم مساجد ” یہود اور نصاری پر اﷲکی لعنت ہو ‘ جنہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو مسجد بنالیا “ ۔مقصود....اُن کے جیسے کام سے روکنا تھا ....پھر فرمایا: سرزمین عرب میں دو دین باقی نہ رہنے دئیے جائیں ۔ اُس کے بعد کئی بار فرمایا:الصلاة الصلاة وماملکت ایمانکم ”نماز کا خیال رکھنا ،نماز کی پابندی کرنا،اوراپنے ماتحت غلاموں کے ساتھ اچھا برتاو کرنا“۔
پھر نزع کی حالت شروع ہوگئی ،حضرت عائشہ ؓ نے آپ کو اپنے سینے اور گلے کے درمیان سہارا لے کر ٹیک لیا، پانی سے بھرا ہوا پیالہ پاس رکھوالیا ، اس پر ہاتھ ڈالتے اور تر ہاتھ چہرہءمبارکہ پر پھیرلیتے، زبان مبارکہ پر آہستہ آہستہ یہ الفاظ جاری تھے : "لااله الاّ اﷲ انّ للموت سکرات " اﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور موت کے لیے سختیاں ہیں ۔کبھی چادر چہرہ مبارک پر ڈال لیتے اور کبھی اتار دیتے،اسی دوران حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضى الله عنه مزاج پرسی کے لئے آئے ، ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی ، آپ اکی نگاہیں مسواک پر جم گئیں ،سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپ ﷺ کو مسواک کی خواہش ہے انہوں نے مسواک کا سر چبایا اور اسے کچل کر نرم کیا ، پھر آپ ا کو دے دیں، آپ نے اس سے مسواک کیا ، یہاں تک کہ وہ آپکے ہاتھ سے گرگئی ۔سہ پہر کو سینہءمبارک میں سانس کی گڑگڑاہٹ محسوس ہونے لگی، سیدہ عائشہ رضى الله عنها فرماتی ہیں:قبض روح کا وقت آیاتو آپ  ﷺ کا سر مبارک میرے سینے پر ٹکا ہوا تھا ، اس حالت میں آپ پر بیہوشی طاری ہوگئی ، جب افاقہ ہوا تو آپ اکی نگاہ مبارک چھت کی طرف اٹھی اور فرمایا : اے اﷲ ! مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچادے ،اے اﷲ ! رفیق اعلیٰ“ ۔ یہ فقرہ تین بار دہرایااورروح پرواز کرگئی ۔یہ سموار کا دن ،ربیع الاول کی 12تاریخ اورہجرت کا گیارھواں سال تھا ۔اُس وقت آپ کی عمر شریف 63سا ل پوری ہوچکی تھی ۔اناللہ وانا الیہ راجعون ۔یہ تھا کائنات کا سب سے عظیم سانحہ ،....نہایت تاریک ، المناک اور افسردہ دن ....

محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، سیرت طیبہ کی جھلکیوں کے آخری حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

غزوه حنين - غزوه تبوك


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

جب مکہ فتح ہوگیا اورخانہ کعبہ 360 بتوں کی گندگیوں سے پاک وصاف ہوگیا،تواب لوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہونے لگے ،یہ دراصل اللہ رب العالمین کے اِس فرمان کی تعبیر تھی : اذا جاءنصر اللہ والفتح و را یت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا ”جب اللہ کی مدد آئے گی اورمکہ فتح ہوجائے گا توآپ لوگوںکو دیکھیں گے کہ وہ اللہ کے دین میں جوق درجوق درفوج داخل ہورہے ہیں “۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ہوسکا ؟کیابات ہوئی کہ فتح مکہ کے بعد قبائل اسلام قبول کرنے لگے ؟ اِس سلسلے میں ہم ابھی گفتگو کریں گے لیکن اِس سے پہلے فتح مکہ کے بعد واقع ہونے والے دواہم غزوات کاتذکرہ کرنامناسب سمجھتے ہیں ۔
غزوہ حنین :پہلاغزوہ:غزوہ حنین ہے ،جوشوال سن آٹھ ہجری میں واقع ہوا ،جب مکہ فتح ہوچکا تو ثقیف اور ہوازِن کے قبائل نے اپنی ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہا ،اورمسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے لیے وادی حنین میں اکٹھاہوگئے ،اللہ کے رسول ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ بارہ ہزار کا لشکر لے کر حنین پہنچے ،بنوہوازِن عورتوں، بچوں،اوراونٹ ،بکریوںسمیت نکلے تھے،...جانتے ہیں کیوں؟تاکہ وہ اُن کی حفاظت کے جذبہ کے ساتھ جنگ کریں ....ادھرصحابہ کو اپنی کثرت تعداد پر غرورہونے لگا،اللہ تعالی کویہ اداپسندنہ آئی ،مقابلہ ہواتومسلمانوںکی صفوںمیں اضطراب پیدا ہوگیا،بھگڈرمچ گیا،اورکیوںنہ مچتا کہ اُن کو اپنی تعداد پر ناز ہونے لگاتھا ۔ لیکن اللہ کے رسول ﷺ....اُس وقت بھی دشمنوںکاسامناکر رہے تھے اورفرمارہے تھے انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب ۔پھر مسلمان اکٹھا ہوگئے اوردشمن پریکبارگی حملہ کیاتودشمن میدان سے بھاگنے لگے ،کچھ طائف کی طرف بھاگے ،کچھ نخلہ کی طرف بھاگے اور کچھ نے اوطاس میں پناہ لی ۔ جان کے ڈرسے اپنی عورتوں، بچوں اورجانوروں کو چھوڑچھاڑکر بھاگے تھے ،....مال غنیمت اور قیدیوں کو جمع کیاگیا ....اونٹ چوبیس ہزار تھا،بکریاں چالیس ہزار سے زیادہ ،چاندی چارہزار اوقیہ ،عورتیں اور بچے چھ ہزار،....اُس کے بعد اللہ کے رسول ﷺنے طائف کا محاصرہ کیا ،یہ محاصرہ بیس دن تک جاری رہا لیکن وہ قلعہ بند ہوچکے تھے ،اس لیے اللہ کے رسول ﷺنے اُن کے لیے دعا کی ”اے اللہ !ثقیف کو ہدایت دے اورانہیں مسلمان بناکر لے آ“پھرآپ نے کوچ کا اعلان فرمایا،طائف سے جعرانہ آئے اوردس دن تک ٹھہرے رہے ،مال غنیمت تقسیم نہ فرمایا،کیوں کہ آپ کو انتظار تھا کہ ہوازِن توبہ کرکے آجائیں اوراپنے مال اور قیدی لے جائیں ،لیکن جب کوئی نہ آیا تو تالیف قبل کے لیے کمزورمسلمانوں کو اِس میں سے خوب خوب دیا،ایک ایک آدمی کو سو سو اونٹ دئیے ۔اِس میں اللہ کے رسول ﷺ کی دوراندیشی تھی کہ اسلام اُن کے دل میں بیٹھ جائے کہ کچھ لوگ عقل کے راستے نہیں بلکہ پیٹ کے راستے اسلام میں آتے ہیں، انصارمدینہ یہ سب دیکھ رہے تھے ،کسی کو سو سو اونٹ مل رہا ہے اورکسی کو کچھ بھی نہیں۔فطری بات تھی.... انصار میں چہ میگوئیاں ہوئیں،....بعض نے شکایت کالہجہ اپنایاکہ وہ حقیقت کو سمجھ نہ سکے تھے ،....جب اللہ کے رسول ﷺ کو پتہ چلا تو انصارکے پاس آئے اوراُن سے کہا:
انصار کے لوگو!تم اپنے جی میں دنیا کی حقیر سی دولت کے لیے ناراض ہوگئے ،جس کے ذریعہ میں نے لوگوںکا دل جیتا تاکہ وہ مسلمان ہوجائیں ،اورتم کو تمہارے اسلام کے حوالے کردیاتھا،اے انصار!کیا تم اِس سے راضی نہیں کہ لوگ اونٹ اوربکریاں لے کر جائیں اورتم رسول اللہ ﷺ کولے کر اپنے ڈیروںمیں پلٹو،اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ،اگرہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا ،اگر سارے لوگ ایک راہ چلیں اورانصار دوسری راہ چلیں تو میں بھی انصار ہی کی راہ چلوں گا ۔ اے اللہ رحم فرماانصار پر اوراُن کے بیٹوں پر اوراُن کے پوتوں پر ۔ اللہ کے رسول کا یہ خطاب سن کر لوگ اس قدر روئے کہ اُن کی داڑھیاں تر ہوگئیں ،....کہنے لگے ....”ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اورنصیب میں رسول اللہ ﷺ ہوں“۔ اُس کے بعد رسول اللہ ﷺ واپس ہوگئے اورلوگ بھی بکھر گئے ۔
مال غنیمت تقسیم ہونے کے بعد ہوازِ ن کا وفدبالآخر آہی گیا،انہوں نے اسلام قبول کیااور بیعت کی۔ اللہ کے رسول ﷺنے اُس وقت ان کو اختیاردیاکہ قیدی اورمال میں سے جو پسند ہو....ایک چن لو ، انہوں نے کہا : ہماری عورتیں اورہمارے بچے ہمیں واپس کردیجئے ،چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے ایسا ہی کیا۔
غزوہ تبوک :محترم سامعین ! ایک دوسرا غزوہ جو فتح مکہ کے بعد سن 9 ہجری میں ہوا ....وہ ہے غزوہ تبوک ....جو رومیوں اورمسلمانوں کے بیچ پیش آیاتھا ....اللہ کے رسو ل ﷺکو جب پتہ چلا کہ رومی ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاری کررہے ہیں تو آپ ﷺ نے بھی تیاری شروع کردی ،صحابہ میں اعلان کیاگیا کہ اِس کے لیے جس سے جتنا بن سکتا ہو لے کر آئے ،ابوبکر ؓ نے اپناسارا مال لاکرخدمت اقدس میں پیش کردیا،عمرفاروق ؓ آدھا مال لائے ،عثمان ؓ نے دس ہزار دینار،....پالان اور کجاوے سمیت تین سو اونٹ ....اورپچاس گھوڑے دئیے ،یہ دیکھ کر نبی پاک ﷺ نے فرمایا: ماضر عثمان مافعل بعدالیوم ”آج کے بعد عثمان جوبھی کریں انہیں نقصان نہ ہوگا۔ اِس طرح دوسرے صحابہ نے بھی دل کھول کرتیاری میں حصہ لیا،جب تیاری ہوچکی تو اللہ کے رسول ﷺ تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک روانہ ہوئے ،سواری اور توشے کی سخت کمی تھی ،اٹھارہ اٹھارہ آدمی ایک اونٹ پر باری باری سوارہوتے تھے ،لوگ درخت کے پتے کھانے پر مجبورہوئے ،اپنے اونٹوں کو ذبح کردیا کہ ان کے معدے اورآنتوں کا پانی پی سکیں ۔ اللہ اکبر کیسی قحط سالی تھی اورکیسے حالات پیش آگئے تھے مسلمانوں کے سامنے ....جب رومیوں کو تبوک میں اللہ کے رسول ﷺکے آنے کی خبرملی تو اُن کے حوصلے ٹوٹ گئے ،مقابلے کی ہمت نہ رہی ،اوراپنے ملک میں ہی بکھر گئے .... وہاں اللہ کے رسول ﷺ نے بیس روز قیام فرمایااوروفود سے ملاقاتیں کیں ۔ بیس دن کے بعد رسول اللہ ﷺ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ،مدینہ پہنچنے کے بعد مسجد میں داخل ہوئے ،دورکعت نماز ادا کی   ا ورلوگوں کے لیے بیٹھ گئے ۔ جو منافقین اِس غزوے سے پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے آکر معذرت کی ،اورقسمیں کھائیں،آپ نے اُن کاظاہر قبول کرلیااورباطن اللہ کے سپرد کردی ۔تین مومن بھی آئے جو اِس غزوے سے پیچھے رہ گئے تھے ،وہ ہیں کعب بن مالک ،مرارہ بن ربیع اورہلال بن امیہ ....اُن تینوں نے سچ سچ بتادیا ،اورکوئی عذرنہیں بنایا،اللہ کے رسولﷺنے اُن تینوں سے کہا کہ اللہ کے فیصلے کا انتظار کریں....اورمسلمانوںکوحکم دیاکہ اُن سے بات نہ کریں ،اِس طرح اُن کے لیے جانے انجانے بن گئے ،زمین تنگ ہوگئی ،اوردنیا....اندھیر ہوگئی ،....چالیس دن کے بعد حکم آیاکہ اپنی عورتوں کے قریب نہ جائیں ۔ جب پچاس دن پورے ہوئے تو اللہ نے اُن کی توبہ ناز ل فرمائی : وعلی الثلاثة الذین خلفوا حتی اذا ضاقت علیہم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسھم وظنوا ان لا ملجامن اللہ الا الیہ ثم تاب علیھم لیتوبوا ،ان اللہ ھو التواب الرحیم (التوبة 118) ”اوراللہ نے اُن تین آدمیوں کی بھی توبہ قبول کی جن کا معاملہ مؤخر کردیاگیاتھا ،یہاں تک کہ زمین اپنی کشادگی کے باوجود اُن پر تنگ آگئی ،اوراُن کی جان بھی اُن پر تنگ ہوگئی ،اورانہوں نے یقین کرلیاکہ اللہ سے بھاگ کر کوئی جائے پناہ نہیں ہے ،پھر اللہ نے اُن پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کریں ۔یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا رحیم ہے-

محترم قارئین ! فتح مکہ اوراس کے بعد پھرحنین وتبوک کی جنگوںمیں ....مسلمانوں کی بالادستی نے کفر کی طاقتوںکو جہاں کمزور کیا وہیں اسلام کے لیے اُن کی ذہن سازی بھی کی ،جس کااثر تھا کہ وفود آنے لگے ، اِن وفود کی تعداد سترسے زائد بتائی جاتی ہے ،بعض اہل علم نے یہ تعدادسو تک پہنچائی ہے ۔ قریش اور نبی پاک کے بیچ میں جو اختلاف تھا عرب اِسی کے نتیجہ کا انتظارکررہے تھے ،وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مکہ پر باطل کا قبضہ نہیں ہوسکتا ،چنانچہ جب اللہ کے رسول کو مکہ پرفتح حاصل ہوگئی تو اب اُن کو یقین ہوگیاکہ یہ رسول برحق ہیں ،اس لیے فتح مکہ کے بعد ہر طرف سے وفود آنے لگے ،وہ آتے ،اسلام کو سنتے ،اسلام قبو ل کرتے اور داعی کی حیثیت سے اپنی قوم میں چلے جاتے تھے ۔چنانچہ آپ دیکھیں کہ کچھ ہی دنوںمیں اسلامی حکومت کا رقبہ بحراحمر کے ساحل سے خلیج عربی کے ساحل تک،اورجنوب اردن اوراطراف شام کے علاقے سے یمن اورعمان کے ساحل تک پھیل گیا،اِس طرح اسلام قبول کرنے والوںکی تعداد میں برابراضافہ ہوتا رہا،....جب مکہ فتح ہوا تھا تو اُس میں مسلمانوںکی تعداد 10 ہزار تھی....لیکن صرف دو سال کے بعد جب اللہ کے رسول ﷺ آخری حج کے لیے نکلتے ہیں تو حج میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ چوالیس ہزار ہوجاتی ہے ۔ جی ہاں!جو آپ کے خون کے پیاسے تھے آپ کے جانثار بن گئے ، جو کفر کے سرخیل تھے اسلام کے سرخیل بن گئے ،جنہوں نے اپنی زندگی کفرکی تائیدمیں لگائی تھی اسلام کے فروغ میں لگانے لگے ۔ کیانظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔

محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

فتح مكه


 الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

حدیبیہ میں مسلمانوں اور قریش کے مشرکین کے بیچ صلح ہوئی کہ دس سال تک دونوں کے بیچ جنگ بند رہے گی ،یہ بھی اتفاق ہوا کہ دوسرے قبیلے بھی فریقین میں سے کسی کے حلیف بن سکتے ہیں ،چنانچہ قبیلہ خزاعہ مسلمانوں کے حلیف بن گئے اورقبیلہ بنوبکر قریش کے حلیف بن گئے ،دونوں قبیلوں کے بیچ زمانہ جاہلیت سے دشمنی چلی آرہی تھی ،ایک روز ایسا ہوا کہ بنو بکر نے خزاعہ پر حملہ کردیا،قریش نے بھی بنوبکر کی چپکے سے ہتھیاروں اورآدمیوں سے مددکی ،یہا ںتک کہ بنوبکر نے اُن کے بیس سے زیادہ آدمی قتل کردئیے ،اِس طرح اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ قریش نے خیانت کی اور دھوکہ دیا،بنو خزاعہ چونکہ رسول ﷺ اللہ کے ساتھ صلح میں شامل ہوگئے تھے ،اس لیے انہوں نے اللہ کے رسول ﷺکو واقعے سے باخبرکیا،اللہ کے رسول ﷺ نے اُن کویقین دلایاکہ تمہاری پوری طرح مددکی جائے گی۔اِدھر قریش کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً ابوسفیان کو نبی پاک ﷺ کی خدمت میں بھیجاکہ مدینہ جاکرصلح کے معاہدے کو پختہ کرلو۔ابوسفیان مدینہ پہنچا تو سب سے پہلے اپنی بیٹی ام المومنین ام حبیبہ ؓ کے پاس آیا،ایک عرصہ بیت گیاتھا بیٹی کو دیکھے ہوئے ، سوچا رہا ہوگا ،خوب آوبھگت کرے گی ،جب گھر میں داخل ہوا اور رسول اللہ ﷺ کے بستر پر بیٹھنا چاہا تو انہوں نے بستر لپیٹ دیا،ابوسفیان نے کہا: بیٹی ! کیاتم نے اس بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا یامجھے اِس بستر کے لائق نہیں سمجھا ؟۔ مومنہ بیٹی نے بے ساختہ جواب دیا: یہ رسول اللہ ﷺ کا بسترہے اورآپ ناپاک مشرک ہیں ۔ابوسفیان نے کہا: واللہ میرے بعد تجھے شرلاحق ہوگیاہے ۔ پھر وہ نبی رحمت کے پاس آیا اور گفتگو کی ،آپ نے کچھ جواب نہ دیا،تو ابوبکر کے پاس آیاکہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں بات کریں ،انہوں نے کہا کہ میں نہیں کرسکتا ۔ تب عمر فارو ق کے پاس گیا ،انہوں نے سخت لہجے میںجواب دیا،تو حضرت علی ؓ کے پاس آیا،حضرت علی نے اُسے سمجھایا کہ تم جیسے آئے ہو ویسے ہی مکہ چلے جاو۔ اس طرح ناامید ہوکر ابوسفیان مکہ پہنچا ،مکہ کے لوگوںمیں خوف پیدا ہوگیاتھا،اورگھبراہٹ سماگئی تھی ۔اِدھر اللہ کے رسول ﷺ قریش پر حملہ کرنے کی تیاری کرنے لگے ،اورمعاملے کو بالکل راز میں رکھا ،لیکن اُسی بیچ حاطب بن ابی بلتعہ نے ایک خط لکھ کر قریش کو بھیج دیاکہ رسول اللہ تم پر حملہ کرنے والے ہیں ،انہوں نے یہ خط ایک عورت کو دیا اور پہنچانے پر معاوضہ رکھاتھا،اللہ کے رسول ﷺکو وحی کے ذریعہ حاطب بن ابی بلتعہ کے عمل سے باخبر کردیاگیا،فوراً اللہ کے رسول ﷺ نے علی بن ابی طالب اور زبیر بن عوام ؓ کو اس کے پیچھے لگایا،صحابہ گئے اور عورت سے وہ خط طلب کیا،بولی : میرے پاس کوئی خط نہیں ہے ،لوگوںنے کہا: یاتو خط نکالو یاپھر تمہیں ننگا کردیں گے ۔ ڈر سے فوراً اُس نے خط نکال کر صحابہ کے حوالے کردیا،خط لے کر آئے اوراللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا،اللہ کے رسول ﷺنے حاطب بن ابی بلتعہ کو بلایااورکہا: حاطب ! یہ کیا ہے ؟ حاطب نے معذرت کی کہ میں اللہ اوراسکے رسول پر ایمان رکھتا ہوں،میں بالکل بدلا نہیں ہوں،لیکن مکہ میں میرے اہل عیال اور بال بچے تھے ،اورقریش میں میرا کوئی قرابتدار نہیں جو ان کی حفاظت کریں ،اس لیے میں نے چاہا کہ کوئی احسان کردیں جس کے بدلے وہ ہمارے بال بچوں کی حفاظت کریں ۔عمر فاروق نے جوش میں کہا:یارسول اللہ مجھے حکم دیجئے اس کی گردن ماردوںکہ اس نے اللہ اوراُس کے رسول کی خیانت کی ہے ،منافق ہوگیاہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: یہ جنگ بدرمیں حاضر ہوچکا ہے اور تمہیں کیاپتہ ؟ہوسکتا ہے اللہ نے اہل بدرپر جھانک کر کہا ہو ،تم لوگ جوچاہو کرو،میں نے تمہیں بخش دیا ۔ یہ سن کر عمرفاروق ؓ آبدیدہ ہوگئے اورکہا : اللہ اوراس کے رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں ۔
10 رمضان سن 8 ہجری کو رسول اللہ ﷺ اپنے دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ کے لیے روانہ ہوئے ،جحفہ پہنچے تو حضرت عباس ؓ ملے جو مسلمان ہوکر اپنے بال بچوںسمیت مدینہ آرہے تھے ،جب رسول اللہ ﷺکدید پہنچے تووہاں ٹھہرے ،ابوسفیان ڈرکے مارے نکل آیا تھا کہ چل کر معافی مانگ لیں،حسن اتفاق عباسؓ سے ملاقات ہوگئی ،اُس وقت عباس ؓ رسول اللہ کے خچر پر سوار تھے ،عباس نے اُسے بٹھا لیا،اور لے جاکر اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کی،آپ ﷺ نے فرمایا:ابوسفیان ! تم پر افسوس کیااب بھی وقت نہیں آیا کہ تم جان سکو کہ اللہ کے سواکوئی معبود برحق نہیں ۔بہرکیف اُسی جگہ ابوسفیان نے اسلام قبول کرلیا ۔
اس طرح د س ہزار فوج کے ساتھ رسول اللہ مکہ میں داخل ہوئے ،سورہ فتح کی تلاوت کرتے ہوئے انصارومہاجرین کے بیچ مسجد حرام میں آئے ،حجراسود کو چوما ،بیت اللہ کا طواف کیا،اُس وقت بیت اللہ کے اردگرد ۰۶۳بت تھے ،آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے انہیں گراتے جارہے تھے اور فرمارہے تھے جاءالحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا ”حق آگیااورباطل چلا گیا،یقیباً باطل جانے ہی والا ہے “۔ ....جب طواف سے فارغ ہوگئے تو عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا،جن کے پاس کعبے کی کنجی تھی ،اُن سے دروازہ کھلوایا،اُن میں جو بت تھے انہیں نکلواکر باہر پھینک دیا۔جو تصویریں تھیں انہیں مٹوایا۔اُس کے بعداسامہ بن زید اور بلال کو ساتھ لے کراندر داخل ہوئے ،اوردروازہ بندکرلیا،دو رکعت نماز ادا فرمائی اوراُس کے چاروں طرف گھوم گھوم کر تکبیر وتوحید کے کلمات کہے ۔ پھر آپ نے کعبہ کا دروازہ کھولا ،قریش مسجد حرام میں صفیں لگائے بھرے تھے ،سب کو اِسی کا انتظار تھا کہ پتہ نہیں ۱۲ سال کی لگاتار زیادتیوںکی کیاسزاملتی ہے ،جی ہاں !یہ وہی قریش تھے جن کی زیادیاں اب تک آپ سنتے آئے ہیں ،مکہ کی دھرتی گواہی دے رہی تھیں اُن سارے ظلم وستم کی جو قریش نے محسن انسانیت اور کمزور مسلمانوںپر ڈھائے تھے ۔کتنے پیٹھوںکو چھیدا ،تپایااور داغا تھا،یہ وہی قریش تھے جنہوںنے مسلمانوںکو گھر سے بے گھر کیاتھا،اپنے ہمدرد کے قتل کے درپے ہوئے تھے ، مدینہ میںپناہ لے لی تھی لیکن وہاں بھی کسی دن چین سے بیٹھنے نہ دیاتھا، آپ نے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر قریش سے فرمایا: لاتثریب علیکم الیوم.... اذھبوافانتم الطلقاء”آج تم پر کوئی سرزنش نہیں ،جاو!تم سب آزاد ہو “۔ سبحان اللہ ....انسانیت کی پوری تاریخ ایسے عفو ودرگذرسے خالی ہے ۔
سلام اُس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاںسن کر دعائیں دیں
سلام اُس پر کہ دشمن کو حیات جاوداں دے دی
سلام اُس پر ابوسفیان کو جس نے اماں دے دی
سلام اُس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اُس پر کہ جس نے زخم کھاکرپھول برسائے
سلام اُس پر کہ جس کے گھر میں چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اُس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
دروداُس پر کہ جس کانام تسکین دل وجاں ہے
دردو اُس پر کہ جس کے خلق کی تفسیر قرآن ہے ۔
بہرکیف اُسی دن اللہ کے رسول ﷺ نے مردوں سے اسلام پر بیعت لی اور عورتوں سے بھی اسلام پر بیعت لیا ،اُسی دن ابوبکر ؓ کے والد ابوقحافہ مسلمان ہوئے ،جن کے اسلام سے اللہ کے رسول ﷺ کو بیحد خوشی ہوئی ۔ نمازظہر کا وقت ہوا تو اللہ کے رسول ﷺنے بلال ؓ  کو حکم دیا اورانہوں نے کعبہ کی چھت پراذان دی ۔ جو اعلان تھا غلبہ اسلام کا ....اعلان تھا اسلام کی شوکت ،قوت اور طاقت کا ....
اللہ کے رسول ﷺ نے مکہ میں انیس روز تک قیام فرمایا ،اِس دوران آثار اسلام کی تجدید کی ،مکہ کو جاہلیت کی گندگیوں سے پاک کیا،پورے مکہ میں اعلان کرایاکہ ”جو شخص اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے گھر میں کوئی بت نہ رہنے دے ،بلکہ اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دے “۔

محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

غزوه خيبر


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

 صلح حدیبیہ کے بعد قریش کی حرکت ٹوٹ چکی تھی ،اورمسلمان ان کے شر سے محفوظ ہوچکے تھے ،رہے غطفان جو خندق میں چھ ہزار کی فوج لے کرآئے تھے تو یہ بھی اصل میں خیبر کے یہودیوں کے بہکانے کی وجہ سے تھا ،خیبرکے یہودیوں نے ہی قریش کو ،غطفان کو اور سارے عرب قبائل کو اسلام کے خلاف متحد کرکے خندق میں جمع کیا تھا، یہ اہل خیبر ہی تھے جنہوں نے بنوقریظہ کو خیانت پر آمادہ کیاتھا،یہ اہل خیبر ہی تھے جو سارے اسلام دشمنوں کو اکساتے رہتے تھے ،اور خودبھی جنگ کی تیاریاں کررہے تھے ،بلکہ اللہ کے رسول ﷺ کو بھی شہید کرنے کا پلان بنالیاتھا ،یہ مسلمانوں کے لیے خطرہ کی گھنٹی بنے تھے ، خیبر میں اکٹھا ہوکر انڈے بچے دے رہے تھے ،اس لیے ضرورت تھی کہ اہل خیبر کی سرکوبی کی جائے تاکہ پورے عرب میں امن وامان قائم ہوسکے ۔
چنانچہ اہل خیبر کی سرکوبی کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے تیاری شروع کردی ،انہیں صحابہ کو ساتھ لیاجو صلح حدیبیہ میں شریک تھے اورواقعی مخلص تھے جن کی تعداد چودہ سو تھی ،
اللہ کے رسول ﷺنے رات بالکل خیبر کے قریب گذاری ،اور صبح علی الصباح خیبر میں داخل ہوئے تو اُس وقت خیبر والے کھیت میں کام کرنے کے لیے نکل رہے تھے ،اسلامی لشکر کو دیکھا تو بھاگتے ہوئے آئے ،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ اکبر خربت خیبر اللہ اکبر خربت خیبر انا اذا نزلنا بساحة قوم فساءصباح المنذرین ” اللہ اکبر خیبر تباہ ہوا ، اللہ اکبر خیبر تباہ ہوا ،جب ہم کسی قوم کے میدان میں اُترتے ہیں تو اُن ڈرائے ہوئے لوگوںکی صبح بُری ہوجاتی ہے “۔
محترم قارئین ! جس رات اللہ کے رسول ﷺ خیبر کی حدود میں داخل ہوئے آپ نے فرمایا: ”میں کل جھنڈاایک ایسے آدمی کو دوںگا جو اللہ اوراس کے رسول سے محب کرتا ہے او راللہ اور اسکے رسول اُس سے محبت کرتے ہیں ،رات بھر لوگ اسی فکر میں رہے کہ پتہ نہیں کون خوش نصیب ہے جس کو یہ شرف حاصل ہوتا ہے، صبح صبح جب لوگ اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں اکٹھا ہوئے تو آپ ﷺ نے پکارا: علی کہا ں ہیں ؟لوگوںنے کہا: یارسول اللہ ! اُن کی تو آنکھ آئی ہوئی ہے ۔ آپ نے فرمایا: اُنہیں بلاو،وہ آئے ،آپ ﷺ نے اُن کی آنکھ میں اپنے منہ کا لعاب لگایااور دعا فرمائی ،اللہ کی شان کہ اُسی وقت ٹھیک ہوگئے ،گویا انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی ،پھرنبی پاک ﷺ نے اُن کو جھنڈا عطافرمایااورکہا : اطمینان سے جاو،یہاں تک کہ اُن کے میدان میں اُتر و،پھر انہیں اسلام کی دعوت دو ،فواللہ لان یھدی اللہ بک رجلا واحدا خیرلک من حمر النعم اللہ کی قسم ! تمہارے ذریعہ اللہ تعالی ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تویہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے “۔ ........ خیبر کی آبادی دو علاقوںمیں بٹی ہوئی تھی اور ہر علاقے میں کئی قلعے تھے ،حضرت علی ؓ سب سے پہلے قلعہ ناعم کے پاس گئے ، اور یہود کو اسلام کی دعوت دی ،انہوں نے اسلام کی دعوت کو رد کردیا اور اپنے بادشاہ مرحب کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار ہوگئے ،سب سے پہلے خیبرکابادشاہ مرحب میدان میں آیا جس کا مقابلہ کرنے کے لیے عامر ؓ نکلے ،دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا ، لیکن عامر ؓ زخمی ہوگئے تو مرحب کے مقابلے کے لیے حضرت علی ؓ تشریف لے گئے ،آپ یہ شعر کہہ رہے تھے
 انا الذی سمتنی امی حیدرہ
کلیث غابات کریہ المنظرة
”میں وہ شخص ہوں کے میری ماں نے میرا نام حیدریعنی شیر رکھا ہے ،جنگل کے شیر کی طرح خوفناک “۔
اُس کے بعد مرحب کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا اور حضرت علی ؓ کے ہاتھو ںقلعہ ناعم فتح ہوا ۔ اُس کے بعد مسلمانوں نے دوسرے قلعہ صعب بن معاذ کا رخ کیاجس پر زور وں کے رن کے بعدقابض ہوئے ۔ پھر قلعہ زبیر کو فتح کیا ،اس کے بعد قلعہ ابی کو فتح کیا ، سارے قلعوں میں سخت ترین قلعہ ’قلعہ نزار‘ تھا لیکن وہ بھی فتح ہوگیا،
اب تک خیبر کا آدھا حصہ فتح ہوچکا تھا ،اب مسلمانوں نے دوسرے حصہ کا رخ کیا ،بات یہ تھی کہ جو قلعہ فتح ہوتا تھا یہود اُس سے نکل کر دوسرے قلعوںمیں چلے جاتے تھے ،جب اللہ کے رسول ﷺ نے کتیبہ علاقے کا محاصرہ کیا تو چودہ روز تک محاصرہ جاری رہا،جب یہودکو تباہی کا یقین ہوگیاتو صلح کے لیے قلعہ سے نکلے ۔اللہ کے رسول ﷺ نے صلح اِس شرط پر منظور کرلی کہ سب خیبرسے نکل جائیں گے ،اُن کی جان بخشی کردی جائے گی ،اُن کے بال بچے اُن کے ہی پاس رہیں گے ۔....خیبر کے یہودیوں کے تئیں معاہدہ تو یہی تھا کہ انہیں خیبر سے نکل جانا ہے ،لیکن پھر انہوں نے اللہ کے رسول ﷺسے گذارش کی کہ انہیں اسی سرزمین میں رہنے دیاجائے ،چانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے اُن کا رہنا منظورکرلیااور خیبر کی زمین اِس شرط پر اُن کے حوالے کردی کہ ساری کھیتی اور تمام پھلوں کی پیداوار کا آدھا حصہ یہودکا ہوگا ۔
اسی غزوہ میں خیبر کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی صفیہ قید یوںمیں لائی گئیں،اللہ کے رسول ﷺ نے اُن پر اسلام پیش کیا انہوںنے اسلام قبول کرلیا ،چنانچہ صحابہ کرام کے مشورے سے آپ نے انہیں آزاد کرکے اُن سے شادی کرلی ۔اس طرح صفیہ رضى الله عنها ام المومنین بن گئیں ۔

محترم قارئین ! آپ نے دیکھا کہ نبی رحمت ﷺ نے یہود کی اِتنی غداری اور بے وفائی کے باجود کیسے اُن پرحسان کیا ،اور خیبر میں رہنے کا موقع عنایت فرمایا،ان سارے احسانات کے باوجود چند ہی دنوںمیں جبکہ اللہ کے رسول خیبر ہی میں تھے کہ اُن کی بے وفائی لوٹ آئی،اپنے محسن کے قتل کے درپے ہوگئے ، پلان کے مطابق ایک یہودیہ جس کا نام زینب بنت حارث تھا ،اُس نے اللہ کے رسول کی خدمت میں زہرآلود گوشت پیش کیا،اُسے معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو بازو زیادہ پسند ہے ،اِس لیے اُس نے بازومیں زیادہ زہر ملایا،اُس کے بعداللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا ،اللہ کے رسولﷺ نے اُس کا ایک ٹکڑا چبایالیکن نگلنے کی بجائے تھوک دیااورفرمایا: یہ ہڈی مجھے بتارہی ہے کہ اِس میں زہر ملایاگیاہے ۔ فوراً زینب کو بلایاگیااور اُس سے پوچھا گیا :کہ کیاتم نے ایسی حرکت کی ہے؟ اُس نے اقرار کرلیا ،کہ ہاں میں نے ایسا کیا ہے ۔پوچھاگیا: تونے ایسا کیوں کیا؟ اُس نے کہا : میں نے سوچا کہ اگر یہ بادشاہ ہے تو ہمیں اُس سے راحت مل جائے گی اوراگر نبی ہے تو اُسے خبر دے دی جائے گی ۔ اِ س پر آپ نے اُسے معاف کردیا ۔ لیکن آپ کے ساتھ کھانے والوںمیں بشر بن براءؓ بھی تھے جنہوں نے ایک ٹکڑا نگل لیا تھا اوراسی سے اُن کی موت ہوگئی،چنانچہ قصاص کے طور پر اللہ کے رسولﷺ نے اُس عور ت کو قتل کرادیا ۔

محترم قارئين ! جب اللہ کے رسول ﷺ یہود کے شر کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اب تیسرے بازوبنو غطفان کی طرف دھیان دیا،یہ اصل میں بدّولوگ تھے جو نجد کے علاقے میں خیموںمیں رہتے تھے اورلوٹ مار کرتے تھے ،اِن سے مقابلہ کیا کرتے ،بس اِن کو ڈرانا دھمکانا مقصود تھا ،اِسی ارادے سے سن ۷ ہجری میں چارسو یا سات سو صحابہ کو لے کر نجد کے علاقے میں گئے ،مقام نخل پہنچے تو بنوغطفان کی ایک جماعت سے سامناہوا ،پر جنگ نہیں ہوئی ۔اِس غزوے کو ذات الرقاع کہتے ہیں : اِسی غزوے سے لوٹتے وقت ایک واقعہ پیش آیا جو سیرت کا بہت مشہور واقعہ ہے :
صحیح بخاری کی روایت ہے ، اِ س غزوے سے واپسی پر اللہ کے رسول ﷺ نے ایک جگہ قیام فرمایا، سارے لوگ درخت کے سائے میں آرام کرنے کے لیے ادھر اُدھر منتشر ہوگئے ،نبی پاک ﷺ بھی ایک درخت کے پاس گئے اور اُسی درخت پر اپنی تلوار لٹکادی اور آرام سے سوگئے ،ایک دیہاتی آیا اور آپ کی تلوار سونت لی ،اور بولا : تم مجھ سے ڈرتے ہو ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ۔ اس نے کہا : فمن یمنعک منی ؟ تب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے بے ساختہ فرمایا: اللہ ،نہ جانے اِس لفظ میں کونسی طاقت تھی کہ تلوار اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرگئی ،اب اللہ کے رسول ﷺ نے تلوار اُٹھا لی ،اور پوچھا : اب بتاوتجھے مجھ سے کون بچائے گا ؟ کہا : آپ کا احسان ۔ یعنی اگر آپ احسان کریں تو بچ سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیاتم شہادت دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورمیں اللہ کا رسول ہوں۔ اُس نے کہا: میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ نہ آپ سے جنگ کروں گا اورنہ جنگ کرنے والوں کا ساتھ دوں گا ۔اللہ کے رسول ﷺنے اُسے معاف کردیا ۔ اب جو اپنی قوم میں گیا تو کہنے لگا : میں تمہارے یہاں سب سے اچھے انسان کے پاس سے آرہا ہوں ۔

محترم قارئین !ہم نے صلح حدیبیہ کے اتفاق میں سنا تھا کہ مسلمانوں کو اُس وقت عمرہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ،لیکن کہا گیاتھا کہ اگلے سال آپ لوگ آئیں ،تین روز مکہ میں قیام کریں اوراس بیچ عمرہ کرلیں، چنانچہ جب سن سات ہجری کے محرم میں خیبر فتح ہوگیاتو اُسی سال ذی القعدہ میں اللہ کے رسول ﷺاپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ کے لیے نکلے ،ذوالحلیفہ آئے ،احرام باندھا ،لبیک پکارا،اورسوئے مکہ ہوئے ،مسجد حرا م میں پہنچے تو چھڑی سے حجر اسود کوچھوا،پھر سواری ہی پر طواف کیا،مسلمانوں نے بھی داہنے کندھے کو کھولے خانہ کعبہ کا طواف کیا،مشرکین پہاڑ پر بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ دیکھو ! یثرب کے لوگوں کو بخار نے کمزور کر رکھاہے ۔چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے حکم دیاتھاکہ پہلے تین چکروںمیں دوڑ لگائیں تاکہ مشرکین پر تمہاری طاقت ظاہر ہوسکے ۔پھر آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ صفا ومروہ کی سعی کی او رسرمٹڈوایا۔ اس طرح عمرہ مکمل کیا اور تین روزمکہ میں قیام فرمانے کے بعد مدینہ لوٹ آئے ۔

محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

صلح حديبيہ


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

 ذوالقعدہ سن 6ہجری کی بات ہے،ایک رات اللہ کے رسول ﷺ سورہے تھے ،خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ پرامن طریقے سے بیت اللہ میں داخل ہوئے،طواف کیا ،سرمنڈوایا اورقصرکرایا،....ویسے بھی اللہ کے رسول ﷺ کو مکہ سے نکلے 6 سا ل کاعرصہ ہوچکاتھا ،خواہش بھی تھی کہ عمرہ کا موقع ملتا ....صحابہ سے بتایاکہ ہم عمرہ کا ارادہ رکھتے ہیں ،لوگوںمیں اعلان کردیاگیا ،اِس طرح اللہ کے رسول ﷺ چودہ سوصحابہ کو لے کر مکہ کے لیے روانہ ہوئے ،اپنے ساتھ قربانی کے جانور بھی لے لیے ،تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ آپ جنگ کے لیے نہیں بلکہ عمرہ کے لیے جارہے ہیں ،ذوالحلیفہ آئے ،احرام باندھا اور آگے چلے ،عسفان پہنچے تو آپ کے کسی جاسوس نے خبر دی کہ قریش آپ سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں ۔اللہ کے رسول ﷺنے صحابہ سے مشورہ کیا،ابوبکر صدیق ؓ نے کہا : ہم تو عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں کسی سے الجھنے نہیں آئے ....اورجو الجھنے کی کوشش کرے گا اُس کی خیریت پوچھیں گے “۔ بہرکیف اللہ کے رسول ﷺ حدیبیہ میں پہنچے ،وہاں پر ٹھہرے ،وہیں پر قریش کے کئی نمائندے آئے بات کرنے کے لیے ....لیکن کسی سے بات نہ بن سکی ....اللہ کے رسول ﷺنے خود طے کیا کہ اپنا سفیر بھیجیں قریش کے پاس.... اور اُن کو یقین دلائیں کہ ہم صرف عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں ہمارا دوسرا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو قریش کے پاس بھیجا ،آپ نے مکہ جاکر قریش کے لیڈروں سے بات کی ،انہوں نے کہا کہ آپ چاہیں تو عمرہ کرلیں لیکن ہم ....سب کو اجازت نہیں دے سکتے ،عثمان ؓ نے کہا کہ ہم عمرہ کریں گے تو ایک ہی ساتھ، اکیلے نہیں کرسکتے ،یہ سن کر قریش نے حضرت عثمان ؓ کو اپنے پاس روک لیا ،ادھر صحابہ کے بیچ یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان ؓ قتل کردئیے گئے اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کو خطاب کرکے فرمایا: اگر یہ بات صحیح ہے تو ہم اِس جگہ سے ٹل نہیں سکتے یہاں تک کہ عثمان ؓ کے خون کا بدلہ نہ لے لیں ۔ اِسی کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرام سے ایک درخت کے نیچے بیعت کی جسے بیعت رضوان کہاجاتاہے۔ جب بیعت مکمل ہوچکی تو حضرت عثمان ؓ آگئے ،اِسی پس منظر میں اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی : لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرة ۔اللہ مومنین سے راضی ہوا جبکہ وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ قریش کو جب اِس کی خبر ملی تو اُن پر رعب طاری ہوگیااورانہوں نے صلح کے لیے سہیل بن عمرو کو بھیجا ۔ لمبی گفتگو ہوئی اوراخیرمیں چار باتوں پر اتفاق ہوا :
پہلی بات : اِس سال آپ لوگ مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں ،اگلے سال مکہ آئیں،تین روز قیام کریں،اس دوران آپکے ساتھ کوئی ہتھیانہ ہوگا ،تلوار بھی ہوگی تو میان میں ۔
دوسری بات : دونوں فریق میں دس سال کے لیے جنگ بند رہے گی ۔تیسری بات: جو محمدﷺ کے عہد میں داخل ہوناچاہتا ہے ہو سکتا ہے اور جو قریش کے عہد میں داخل ہونا چاہتا ہے ہوسکتا ہے ۔ چوتھی بات : قریش کا جوآدمی مسلمانوںکی پناہ میں جائے گا اُسے قریش کے حوالے کرناہوگا لیکن مسلمانوںکا جو آدمی قریش کی پناہ میں جائے گا قریش اُسے مسلمانوں کے حوالے نہیں کرسکتے ۔
ابھی صلح نامہ لکھا ہی جارہا تھا کہ قریش کے نمائندے سہیل بن عمروکے بیٹے ابوجندل بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے پہنچے ،قریش اُن کو اسلام لانے کے جرم میں یہ سزا دے رے تھے ،اللہ کے رسول سے منت سماجت کرنے لگے کہ ہمیں قریش کے ظلم سے بچایاجائے ،اللہ کے رسول ﷺ نے کہا کہ ابھی صلح نامہ لکھا ہی نہیں گیا ہے ۔ ابوجندل کو ہمارے حوالے کرو۔ اِس پر سہیل تُل گیا کہ تب تو ہم صلح ہی نہیں کرتے ۔ تب اللہ کے رسول ﷺ نے ابوجندل سے کہا : صبر کرو،ثواب کی امید رکھو،اللہ تمہارے لیے اور دوسرے تمام کمزور مسلمانوں کے لیے جلدہی آسانی پیدا فرمائے گا “۔
صلح کا معاہدہ طے ہونے کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے سارے صحابہ سے کہا کہ اُپ لوگ اُٹھیں اور اپنے اپنے جانور ذبح کرلیں اور بال منڈوالیں ،مگر کوئی نہ اُٹھا کہ چوتھی شرط بہت سخت تھی مسلمانوں کے لیے .... آپ نے تین بار کہا ،پھربھی سب کے سب اپنی جگے بیٹھے رہے،اُس وقت ام سلمہ ؓ نے مشورہ دیاکہ آپ اٹھیںاپنا جانور ذبح کریں اور بال حلق کرالیں،اورکسی سے کچھ مت کہیں ۔آپ نے ایسا ہی کیا ،چانچہ آپ کو دیکھ کر سارے صحابہ نے اپنے جانور ذبح کئے اور بال حلق کرایا ۔
محترم قارئین !اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے غم کی دو وجہیں تھیں....ایک تو یہ کہ ہمیں عمرہ کرنے کا موقع نہیں دیاجارہا ہے ،دوسری بات یہ کہ صلح میں برابر ی نہیں تھی ،عمر فاروق کو اِس کا اتنا احساس ہوا کہ آکر رسول اللہ ﷺ سے بحث کرنے لگے : یارسول اللہ کیاہم حق پر نہیں اور وہ باطل پر نہیں ،آپ نے فرمایا: کیوںنہیں ۔ کہا: کیاہمارے مقتولین جنت میں اوران کے مقتولین جہنم میں نہیں ۔ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں ۔ کہا: تو پھر ہم کیوں اپنے دین کے بارے میں دباوقبول کریں ۔آپ نے واضح لفظوںمیں کہا : خطاب کے صاحبزادے ! میں اللہ کا رسول ہوں،اُس کی نافرمانی نہیں کرسکتا وہ ہماری مدد کرے گا اورمجھے ضائع نہ کرے گا ۔ اُسی کے بعد اللہ پاک نے یہ آیت ناز ل فرمائی : انا فتحنا لک فتحا مبینا کہ ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا فرمائی ہے ۔ اِس صلح کو اللہ پاک نے فتح مبین قرار دیاتھا ۔چنانچہ عمرفاروق کواللہ کے رسول ﷺنے بلاکریہ آیت سنائی اور کہا کہ اللہ نے اِس صلح کو فتح مبین قرار دیا ہے ۔ اس سے اُس کے دل کو سکون ملا اور وہ واپس چلے گئے ۔

معزز قارئین ! آئیے ذرا غور کرتے ہیں کہ حدیبیہ کی صلح آخر فتح کیسے ثابت ہوئی ؟ جی ہاں ! صلح کے بعد دعوت کو پھیلنے اور پھولنے کا موقع ملا ۔ اب تک جنگ کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے بالکل دور تھے ،صلح ہونے کے بعد ایک دوسرے سے ملنے لگے ، قریش کے لوگوںنے مدینہ کے مسلمانوں کوقریب سے دیکھا ،اُن کی باتیں سنیں،اُن کے اخلاق سے متاثر ہوئے ،پھرانہیں اسلام کی تعلیمات سننے کا موقع ملا ،چنانچہ خالد بن ولید،عمروبن عاص ،اور عثمان بن طلحہ جیسے قریش کے لیڈران ایسے ہی وقت اسلام لائے ،....تب اللہ کے رسول ﷺ نے کہا : مکہ نے اپنے جگرگوشوںکو ہمارے حوالے کردیا ہے ۔
اُسی طرح یہ نکتہ بھی قابل غورہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ صلح کے بعدقریش کے فتنے سے مطمئن ہوگئے تو آپ کو موقع ملا کہ اِس دین کی عالمیت کا اعلان کریں ،اب تک محدود پیمانے پر دین کی تبلیغ ہوسکی تھی ،لیکن صلح حدیبیہ کے بعد آپ نے بادشاہوں اور امراوں کو مخاطب کیا ۔حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو دعوتی خط لکھا اوراپنی دوہری ذمہ داری یاد دلائی،جب اُس کے پاس خط پہنچا تو اُس نے خط کو اپنی آنکھوں پر رکھا،تخت کے نیچے اُترآیااوراسی پر بس نہیں بلکہ جعفر بن ابی طالب کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا ۔اللہ کے رسول ﷺنے دوسرا خط اسکندریہ اور مصرکے بادشاہ مقوقس کو لکھا : جس میں لکھا تھا ”میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں....اسلم تسلم ....اسلام لاوسلامت رہو گے “۔ جب یہ خط مقوقس کو ملا تو اُس نے خط کی عزت کی اور اُسے ہاتھی کے دانت کے ڈبے میں رکھ کر اُس پر مہر لگائی ،لیکن وہ مسلمان نہ ہوا ،تحفے میں ماریہ اور سیرین دو لونڈیاںبیج دیں ۔ تیسرا خط فارس کے بادشاہ خسروپرویز کے نام لکھا : جب یہ خط کسری کے سامنے پڑھاگیا تو اُس نے اُسے چاک کردیااورکہا میرے رعایامیں سے ایک حقیر غلام اپنا نام مجھ سے پہلے لکھتا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺکو اِس کی خبرملی تو فرمایا: اللہ اُس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کرے ۔ اورہوا بھی ویسا ہی ،اُسی کے بیٹے نے اُس کو قتل کردیا اور بادشاہت پر قبضہ کرلیا ۔ چوتھا خط روم کے بادشاہ قیصر کے پاس بھیجا ،قیصر کو جب خط ملا تو اُس نے اپنے ہرکارے بھیجے کہ کسی عرب کو بلاوجس سے اِس نبی کی تحقیق کی جاسکے ،اتفاق سے ابوسفیان کی سربراہی میںقریش کا ایک قافلہ اُدھر گیاتھا ، ابوسفیان کودربارمیںحاضر کیاگیا،ہرقل نے اُس سے چند سوالات کئے ،جواب سن کر نتیجہ نکالا کہ یہ واقعی نبی برحق ہیں چنانچہ اُس نے اخیر میں کہا : اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اُس کے پاس پہنچ سکوں گا ،تواُس سے ملاقات کی زحمت اٹھاتا، اوراگر اُس کے پاس ہوتا تو اُس کے دونوں پاوں دھوتا ۔ ابوسفیان نے جب یہ جواب سنا تو باہر آکر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا : ”ابوکبشہ کے بیٹے کا معاملہ بہت آگے جاچکاہے ،اِس سے تو بنواصفریعنی رومیوں کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے ۔....اُس کے علاوہ بھی آپ ﷺ نے کئی دوسرے بادشاہوںاورحاکموں کے نام خط لکھے جیسے دمشق کے امیر کے نام ،امیربصری کے نام ، یمامہ کے حاکم کے نام ،بحرین کے حاکم کے نام ،شاہان عمان جیفراوراُس کے بھائی کے نام ،جن میں سے کچھ نے اسلام قبول کیا،اورکچھ اسلام کو سراہنے کے باوجود رعایاکے ڈراورحکومت کی محبت میں اسلام سے محروم رہے۔ صرف امیر بصری نے اللہ کے رسول ﷺ کے قاصد حضرت حارث بن عمیرازدی کو ....جو خط لے کر گئے تھے ،قتل کردیا، یہ نہایت گھٹیاحرکت تھی ،اللہ کے رسول ﷺنے اِس پر سخت غصے کا اظہار فرمایااور یہی واقعہ جنگ موتہ کا سبب بنا ، جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔

محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

غزوه بنو المصطلق


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال ایک غزوہ پیش آیا جوجنگی اعتبار سے کوئی بھاری بھرکم غزوہ نہیں ہے ،لیکن اُس میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ،جس نے اسلامی معاشرے میں اضطراب پیدا کردیا،وہ غزوہ جس میں پہلی بار منافقین نے شرکت کی تھی ، وہ غزوہ جس میں منافقین نے حرم رسول پرتہمت لگائی تھی ،وہ غزوہ جس میں منافقین کا پردہ فاش ہواتھا،جی ہاں! یہی وہ غزوہ ہے جسے ہم غزوہ مریسیع ،یا غزوہ بنی المصطلق کے نام سے جانتے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کو خبر ملی کہ بنوالمصطلق کا سردار حارث بن ضرار مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کرہا ہے ،تحقیق کی گئی تو بات صحیح نکلی ،تب اللہ کے رسول ﷺ اُس کی سرکوبی کے لیے اپنے صحابہ کو لے کر نکلے ،یہاں تک کہ ایک چشمہ کے پاس پہنچے جسے مریسیع کہاجاتا ہے ،وہیں پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا ،اللہ پاک نے بنوالمصطلق کو شکست دی ،کچھ مارے گئے ، اُن کی عورتوں کوقیدکرلیاگیا،جن میں حارث کی بیٹی جویریہ بھی تھیں ،وہ ثابت بن قیس کے حصے میں آئیں،ثابت نے انہیں مکاتب بنالیا،پھر رسول اللہ ﷺ نے اُن کی جانب سے مقررہ رقم ادا کرکے اُن سے شادی کرلی ،یہ شادی اس قدربابرکت ثابت ہوئی کہ مسلمانوں نے بنوالمصطلق کے ایک سو گھرانوں کو جو مسلمان ہوچکے تھے آزاد کردیا کہنے لگے :”یہ لوگ تورسول اللہ ﷺ کے سسرال کے لوگ ہیں“ ۔
یہ ہے اِس غزوے کامختصر قصہ ... لیکن اِس میں جو واقعات پیش آئے اُس کی بنیاد ہے منافقوں کا سردارعبداللہ بن ابی ....عبداللہ بن ابی کا کردار ہم نے کئی جگہ پچھلے حلقوںمیں بیان کیاہے ،اُسے اسلام اورمسلمانوں سے کافی جلن تھی لیکن ظاہر میں وہ خو دکو مسلمان ثابت کرتاتھا،یہاں بھی اُس نے دوجگہ نہایت گھٹیااورگندہ کردار اداکیا:
ایک تو اُس وقت جبکہ غزوہ خندق سے فراغت کے بعد اللہ کے رسول ﷺ اورصحابہ کرام مریسیع کے چشمہ پر ہی تھے کہ ایک انصاری اورمہاجر کے بیچ تو تو میں میں ہوگیا ،یہاں تک کہ مہاجرنے انصاری کی پٹائی بھی کردی ،اِس پر انصاری نے آواز لگائی ہائے انصارکے لوگو!مہاجر نے آواز لگائی ہائے مہاجرو ۔ یہ سن کر دونوں طرف کے لوگ اکٹھا ہوئے ،اللہ کے رسول ﷺ بھی پہنچے آپ نے فرمایا:ابدعوی الجاھلیة وانا بین اظہرکم دعوھا فانھا منتة ”میں ابھی تمہارے اندر موجود ہوں اور جاہلیت کی پکار پکاری جارہی ہے ،یہ چھوڑ دو یہ بدبودار ہے “۔ جب منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کو اِس کی خبر ملی تو اُس نے اِس موقع سے فائدہ اٹھایا: کہنے لگا: اچھا ....تو اِن کی اتنی ہمت ہوگئی ہے ،ابھی کل ہم نے اِن کو مدینہ میں بسایا ،رہنے کے لیے گھر دیا اورآج ہمارے مقابل بن گئے ،اِن کی مثال تو یہی ہے جو پہلو نے کہی ہے کہ سمن کلبک یاکلک اپنے کتے کو پال پوس کر موٹا کرو اوروہ ....تم ہی کو کاٹ کھائے ،....سنو ! واللہ ، اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو ہم میں سے عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا ۔
منافق کی یہ بات ایک نوجوان زیدبن ارقم نے سن لی، جاکر اپنے چچا کو بتایا،چچانے اللہ کے رسولﷺ کوباخبرکیا ،آپ نے عبداللہ بن ابی کو بلاکر اِس کی تحقیق کی تو وہ قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا : واللہ میں نے ایسی بات کہی ہی نہیں ہے اور میں کیسے ایسی بات کہہ بھی سکتا ہوں یا رسول اللہ ....،لیکن اُسی وقت اللہ پاک نے سورہ منافقون نازل کردی اوراُسے قیامت تک کے لیے رسوا کردیا ۔ اِس منافق کے بیٹے جن کا نام بھی عبداللہ تھا وہ مومن تھے ،جب سب لوگ مدینہ میں داخل ہورہے تھے تو غیرت ایمانی میں مدینہ کے دروازے پر تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اورعبداللہ بن ابی کو روک لیا ....کہا کہ تم ذلیل ہو اوراللہ کے رسول عزیز ہیں ،تمہیں مدینہ میں اُس وقت تک داخل نہیں ہونے دوںگا جب تک رسول اللہﷺ اجازت نہ دے دیں ۔ رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی تو آپ نے کہلا بھیجا کہ اجازت دے دو ۔

محترم قارئین ! اِس خبیث منافق نے دوسرا جو گھٹیاکردار انجام دیا اِس غزوے میں ....وہ ہے صدیقہ بنت صدیقؓ پر الزام اور تہمت ....جس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کا معمول تھا کہ جب کسی غزوے میں جاتے بیویوںکے بیچ قرعہ اندازی کرتے،جس کانام آتا اُسے ساتھ لے کرجاتے ،اِس غزوے میں سیدہ عائشہ ؓ آپ کے ساتھ تھیں،واپسی پر ایک جگہ پڑاوڈالا،حضرت عائشہ ہودج سے نکلیں اور قضاءحاجت کے لیے چلی گئیں ،جب واپس آئیں تو اُن کا ہارکہیں گرگیاتھا،جہاں غائب ہوا تھا وہیں گئیں،کچھ دیرتلاش کیایہاں تک کہ ہار پالیا....لیکن اُن کے آنے سے پہلے لشکروہاں سے کوچ کرگیا،لوگوں کو سمجھ میں آیا کہ آپ ہودج میں بیٹھی ہیں ،آپ ہلکی پھلکی تھیں،اور ہودج اٹھانے والے کئی لوگ تھے ،اِس لیے کسی کو اندازہ نہیں ہوا ....اس طرح سب چلتے بنے ۔واپس آئیں تو یہ دیکھ کر گھبراگئیں کہ سب جاچکے ہیں ،وہیں بیٹھ گئیں کہ جب ہمیں نہ پائیں گے تو تلاش کرنے تو ضرور آئیں گے ، اِس طرح اُن کی آنکھ لگ گئی ،اِسی بیچ حضرت صفوان بن معطل ؓ آگئے جو پیچھے پیچھے چل رہے تھے ،زیادہ سونے کے عادی تھے ،اس لیے دیر سے اٹھے تھے ،دیکھاکہ عائشہ ؓ اکیلے یہاں سورہی ہیں ، وہ پردے کا حکم آنے سے پہلے اُن کو دیکھ چکے تھے ،دیکھ کر کہا : انا للہ وانا الیہ راجعون ....رسول اللہ کی بیوی ....اُس کے سوا کچھ نہ کہا ۔ حضرت عائشہ اُن کی آواز سن کر بیدار ہوگئیں ،حضرت صفوان نے سواری اُن کے قریب کیااوروہ سوار ہوگئیں ،حضرت صفوان سواری کی نکیل تھامے آگے آگے پیدل چلتے رہے ....یہاں تک کہ لشکر میں آگئے ،....یہ دیکھ کر کمبخت عبداللہ بن ابی نے الٹی سیدھی باتیں پھیلانی شروع کردیں ، رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ بیوی پر تہمت لگادیا،مدینہ آنے کے بعد جس سے ملتا اُس کا کان میں بھرتا ،یہ سب سن سن کررسول اللہ ﷺ بھی پریشان ہوگئے ، کمبخت نے اِسے اس اندازمیںپیش کیاتھاکہ کچھ مومن بھی اُسکی باتوںمیں آگئے،اِدھر عائشہ ؓ وہاں سے آئیں تو بیمارہوگئیںاورایک مہینہ تک مسلسل بیمار رہیں ،پورے مدینہ میں یہ بات پھیل چکی تھی ،لیکن عائشہ ؓ کو اب تک کچھ خبر نہ تھی ،بس اللہ کے رسول کا جو معاملہ پہلے ہوتاتھا ویسا معاملہ نہ دیکھ رہی تھیں ۔ ادھر عائشہ ؓ بیماری سے اٹھیں تو ایک دن قضائے حاجب کے لیے گئیں ،ساتھ میں مسطح ؓ کی ماں تھیں ....مسطح ابوبکر کے خالہ زاد بھائی تھے جو منافقین کے بہکاوے میں آگئے تھے ،ام مسطح کا پاوں پھسلا تو اپنے بیٹے کو بد دعا دی ، عائشہ ؓ نے ٹوکا .... تو ساراقصہ کہہ سنایااوربولیں: کہ مسطح بھی یہی کہتا ہے ۔ یہ خبر کیاتھی گویا بجلی کا شاٹ لگاہو سیدہ عائشہ ؓ کو ....اللہ کے رسول ﷺ کے پاس گئیں اجازت لیں اور والدین کے ہاں آگئیں ،جب بات کی تحقیق ہوگئی تو رونے لگیں ،اورخوب روئیں ،روتے روتے دوراتیں اور ایک دن گذر گئے محسوس ہوتا تھا کہ کلیجہ پھٹ جائے گا ....دوسری رات کی صبح رسول اللہ ﷺ تشریف لائے :اور پہلی بار بات کی سیدہ عائشہ ؓ سے ....اِس موضوع پر ....کہا : عائشہ ! مجھے تمہارے بارے میں ایسا ویسا معلوم ہوا ہے ،اگر تم پاک ہو تو اللہ تعالی تمہاری برات ظاہر کردے گا اور اگر غلطی ہوئی ہے تو توبہ کرلو اللہ مہربان ہے ۔ یہ سننا تھا کہ عائشہ ؓ کے آنسو بالکل تھم گئے ،والدین سے بولیں، آپ : رسول اللہ کو جواب دیں .... والدین کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیاجواب دیں ۔ تب عائشہ ؓ نے خود سے کہا :
”واللہ میں جانتی ہوں کہ یہ بات سنتے سنتے آپ کے دلوںمیں اچھی طرح بیٹھ گئی ہے یہاں تک کہ آپ لوگوں نے اِسے سچ سمجھ لیاہے ،اگرمیں کہوں کہ میں پاک ہو ں اوراللہ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں تو آپ میری بات نہ مانیں گے ،اوراگر میں اعتراف کرلوں حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں تو آپ اُسے صحیح مان لیں گے ،اس لیے میں وہی کہوں گی جو یوسف علیہ السلام کے والد نے کہا تھا : فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون ۔ (یوسف 18) 
اُس کے بعد عائشہ ؓ پلٹ کر لیٹ گئیں ،اُسی وقت اللہ کے رسولﷺ پر وحی اُتری ،وحی کی کیفیت ختم ہوگئی تو اللہ کے رسول ﷺنے مسکراتے ہوئے فرمایا: اے عائشہ ! اللہ نے تمہیں پاک قرار دیا ہے ۔ اِس طرح اِس تہمت سے دامن عائشہ پاک ہوگیا ،اورہمیشہ ہمیش کے لیے اللہ پاک نے عائشہ ؓ کی برات نازل کردی ....جو صحابہ منافقین کی باتوںمیں آگئے تھے جیسے حسان بن ثابت ،مسطح بن اثاثہ ،اورحمنہ بنت جحش اِن سب کو اسی اسی کوڑے مارے گئے ۔لیکن جھوٹ کے قائد عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو سزا نہ دی گئی کہ اُسے دنیاوی سزا کچھ فائدہ نہ دے سکتی تھی- ....