الخميس، يناير 23، 2014

تقدیر پر ایمان : معنی ، مفہوم اور تقاضے

ثناءاللہ صادق تیمی
ایمان کا چھٹا رکن تقدیر پر ایمان لانا ہے ۔ بالعموم ہم تقدیر کے بارے میں گفتگو کرنا نہیں چاہتے ۔ بہت زیادہ قیل قال کرنا یا بال کی کھال نکالنا تو بلاشبہ غلط ہے اور اس سے نقصان ہی ہوتا ہے لیکن سرے سے اسے چھوڑ بھی دینا غلط ہے ۔ اگر تقدیر کو جانا نہ جائے تو پھر اس پر ایمان کیسے لایا جائے گا ۔
        بہت سے لوگوں کو تقدیر کے سلسلے میں پریشانیاں ہوتی ہیں اور وہ کافی کنفیوژن کے شکار رہتے ہیں ۔ ان کو لگتا ہے کہ جب سب کچھ اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے تو پھر انسان تو مجبور محض ہے ۔ وہ چاہے کچھ بھی کرلے ہوگا تو وہی جو لکھا ہوا ہے ۔ وہیں کچھ لوگ اس کے بالکل بر خلاف یہ سوچتے ہیں کہ یہ تقدیر کوئی چیز نہيں ہے بلکہ انسان مختار اور آزاد ہے جو چاہے گا وہی ہوگا ۔ اصطلاح میں ایک زمانے میں پہلے کو جبریہ اور دوسرے کو قدریہ کہا گیا ۔ لیکن یہ جبریے اور قدریے آج بھی موجود ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ حق ان دونوں کے بیچ ہے ۔
       تقدیر کا مطلب ہے اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالی کے علم ازلی کے مطابق یہ کائنات چل رہی ہے ۔ جو کچھ ہونے والا ہے اسے اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے اور جو فیصلے اس نے کردیے ہیں اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔ ساری کائنات اس کی مخلوق ہے اور سب کچھ اس کی مشیئت کے مطابق ہی چل رہا ہے ۔
     لیکن تقدیر پر ایمان لانے سے پہلے چند بنیادی باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے ۔
1۔ اللہ تعالی اس کائنات کا خالق و مالک ہے ۔ اللہ خالق کل شیء
2۔ کائنات کا سارا کاروبار اسی کی مشیئت کے مطابق چلتا ہے ۔
3۔ اس کا علم کائنات کے ذرے ذرے کو محیط ہے ۔ احاط بکل شیء علما
4۔ وہ عادل ہے اور ظلم کو اس نے اپنے اوپر حرام کرلیا ہے ۔ یا عبادی انی حرمت الظلم علی نفسی فلا تظالموا علی انفسکم ۔
5۔ اسی نے انسان کے اعمال کو بھی پیدا کیا ۔ خلقکم و ما تعملون
6۔ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے ۔ اسے یہ پسند نہیں کہ بندے نافرمان ہوجائیں ۔ لایرضی من عبادہ الکفر
7۔ اللہ اپنے بندوں سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اس سے بھی زیادہ جتنی ایک ماں اپنے بچے سے کرسکتی ہے ۔
8۔ اللہ رحیم ہے اور اس کی صفت رحمت اس کی صفت غضب پر حاوی ہے ۔ ان رحمتی وسعت غضبی ۔
       ان تمام امور پر اگر غور کیا جائے اور ایمان لایا جائے تو پھر انسان کو تقدیر کے بارے میں وہ کنفیوژن نہیں ہوگا جس میں بالعموم پڑ کر وہ پریشان ہوتا ہے اور بسا اوقات اپنا ایمان ہی ضائع کرلیتا ہے ۔  اور ان تمام امور کو ماننا اس لیے ضروری ہے کہ ان کا تعلق اللہ پر ایمان لانے سے ہے ۔ اب اگر اللہ پر ایمان ہی مکمل اور صحیح نہ ہو تو بھلا تقدیر پر ایمان کیسے صحیح ہو سکتا ہے ۔
   مختلف صحیح احادیث کے اندر اس بات کی وضاحت آئی ہے کہ ایک انسان نیکی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کےدرمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس پر اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ گناہ کے کاموں میں لگ جاتا ہے اور وہ جہنمیوں میں سے ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ایک بندہ گنا ہ کا کام کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ نیک کام کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جنتیوں میں سے ہو جاتا ہے ۔ اس قسم کی احادیث سے بالعموم لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ تب عمل کا کیا فائدہ ہے ؟  بالکل یہی سوال صحابہ کرام نے رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور آپ نے کہا تھا کہ عمل کرتے رہو اس لیے کہ جو جس کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے وہ کام اس کے لیے آسان کردیا جاتا ہے ۔
          تقدیر کے سلسلے میں لوگ بات کرتے ہوئے بالعموم اس بات کو فراموش کردیتے ہیں کہ تقدیر اللہ کے محیط علم کا حصہ ہے اور ہمیں اس کی کوئی خبر نہيں ۔ دنیا کے کسی بھی میدان سے متعلق اگر آپ ایسی چیز کے بارے میں بولیں جسے آپ نہيں جانتے تو لوگ آپ کو بیوقوف ہی کہینگے ۔ پھر بھلا کس قدر تعجب کی بات ہے کہ لوگ تقدیر میں کیا ہے اس کو نہيں جانتے اور بے مطلب اٹکل پچو مارتے رہتے ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انسان جان بھی نہیں سکتا تبھی تو اس کی ذمہ داری کرتے رہنے کی ہے ۔ اللہ فرماتا ہے۔ سیقول الذین اشرکوا لوشاءاللہ ما اشرکنا ولا آباؤنا ولا حرمنا من شیء کذلک کذب الذین من قبلھم حتی ذاقوا باسنا قل ھل عندکم من علم فتخرجوہ لنا ان تتبعون الا الظن و ان انتم الا تخرصون، سورۃ الانعام    
دیکھیں یہاں بھی کافروں اور مشرکوں کا استدلال یہی ہے کہ اگر اللہ نے چاہا ہوتا تو ہم ایسا بالکل بھی نہیں کرتے ۔ اللہ نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس ایسا کوئي علم ہے تو بولو ۔ سچی بات یہ ہے کہ تم صرف گمانوں سے کام لیتے ہو ۔
         یہاں اس بات کو سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ اللہ نے انسان کو محدود اختیار دیا ہے ۔ یعنی انسان نہ تو پورے طور پر مجبور ہے اور نہ پورے طور پر مقید ۔ اسے پروردگار نے اس کائنات میں بھیجا ہے اور اسے اتنی صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے مطابق جو چاہے کرسکے لیکن اس کا یہ اختیار بہر حال کلی نہیں جس طرح وزیر بہت سارے معاملات میں آزاد ہوتا ہے لیکن بہرحال اسے وزیر اعظم کے اندر ہونا ہوتا ہے ۔ جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ کو اصل طاقت مانا جاتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزراء کچھ نہيں کرسکتے لیکن کسی نہ کسی کو تو بہر حال سب سے اوپر ماننا ہوگا ۔ یہی حیثيت سب سے بڑے ہونے کی کائنات کے معاملے میں اللہ کو حاصل ہے ۔ و للہ المثل الاعلی ۔ اللہ نے اسی لیے انسان کو ان معاملات میں جوابدہ بتایا ہے جن میں اس کا اختیار کام کرتا ہے اور ان معاملات میں اس سے پوچھ گچھ بھی ہوگی ۔ بقیہ جہاں اس کے اختیارات معدوم اس کی جوابدہی بھی ختم ۔ پاگل سے، بچے سے اور بھول کر کچھ کرنے والے سے نہیں پوچھا جائے گا ۔ کسی معاملے میں ایک دم مجبور انسان سے نہیں پوچھا جائیگا ۔ یہاں تک کہ کلمہ  کفر بھی اگر محبوری کی وجہ سے ہے تو وہ بھی معاف ۔ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان ۔ انسان کی جوابدہی اس کے اختیار کے مطابق ہے ۔ اللہ نے انسان کو شعور دی ۔ اس کے پاس نبیوں اور رسولوں کو بھیج کر یہ مطالبہ کیا کہ ان اچھی تعلیمات پر چلو اور دنیا آخرت سنوار لو ۔ انا ھدیناہ السبیل  اما شاکراو اما کفورا۔ وہیں اس نے اس بات کی بھی وضاحت کردی کہ اتنا ڈرو جتنا ڈر سکتے ہو ۔ فاتقواللہ استعطتم ۔
 جو لوگ تقدیر کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ اگر کوئی آدمی ان کو نقصان پہنچائے اور کہے کہ تقدیر میں ایسا ہی لکھا ہوا تھا تو کیا وہ مان لے گا یا پھر اس آدمی کو مورد الزام ٹھہرائے گا ۔ اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو کیا وہ جیسی تیسی چیز کو قبول کرلے گا یا پھر اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اچھی سے اچھی چیز حاصل کرے ۔ تو پھر اللہ اور اس کے حکم کے معاملے میں تقدیر کو بہانا بنانا کہاں کا انصاف ہے ؟
     تقدیر پر ایمان در اصل ایک بڑا ہتھیار ہے کہ انسان کسی قسم کی ناامیدی کا شکار نہ ہو ۔ پریشانی لاحق ہوتو صبر کرے اور اگر خوشی حاصل ہو تو شکر بجالائے اور ہر دو صورت میں راضی بہ رضا رہے ۔ تقدیر در اصل آپ کے لیے قوت ہے لیکن یہ تب جب آپ اسے قوت بنا کر دیکھیں ۔ ایک ہی انسان ذمہ داری کو ذمہ داری سمجھ کر کیا سے کیا کارنامے انجام دیتا ہے اور ایک انسان ذمہ داری کو بوجھ سمجھ کر کیا کیا پریشانیاں کماتا ہے ۔ ذمہ داری تو ذمہ داری ہی رہتی ہے ۔ اس ایمان سے انسان کا اللہ پر ایمان مضبوط ہو تا ہے ۔ اس کے اندر کبر وغرور کی نفسیات جنم نہیں لیتی اور وہ صبر وشکر کے جذبے کے تحت جیتا ہے ۔ اسے یک گونہ سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ مااصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبراھا ان ذلک علی اللہ یسیر۔ لکیلا تاسوا علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما اتاکم واللہ لا یحب کل  مختال فخور ۔

تقدیر اللہ تبارک وتعالی کا راز ہے ۔ ہمیں ان باتوں پر ایمان لانا ہے جو بتلائی گئی ہیں اور جو نہیں بتلائی گئيں ان کے پیچھے پڑنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ۔ ایمان والے تقدیر کو اپنی سستی اور کاہلی کا ذریعہ نہيں بناتے وہ اسے اپنی قوت کا ذریعہ اور اپنی سعادت کا زینہ سمجھتے ہیں اور وہ کارہا ئے نمایاں انجام دیتے ہیں جن پر دنیا رشک کرتی ہے ۔ یاد رہے کہ تقدیر کا پتہ ہمیں اس وقت چلتا ہے جب وہ چیز وقوع پذیر ہو چکی ہوتی ہے ۔ واقع ہونے سے پہلے ہنگامہ کرنا حماقت کہ بغیر علم کی دعویداری اور وقوع پذیر ہونے کے بعد ہنگامہ غلط کہ جس پروردگار نے یہ تقدیر لکھی اسی نے صبر وشکر کی بھی تلقین کی ۔ ایک کو پکڑنا  اور ایک چھوڑنا صحیح نہیں ۔ اللہ ہمیں بہتر توفیق دے ۔ آمین ۔

الاثنين، يناير 20، 2014

غزل

ساگر تیمی

سفر کی بات ہے موت و حیات مت کیجیے
تمام عمر تو رونے کی  بات مت کیجیے
چلی ہے بات جب کردار کے بلندی کی
تو بیچ بیچ میں صوم و صلوۃ مت کجیے
خدا کی ذات کے جب آپ ٹھہرے انکاری
تو بات بات میں پھر اس کی بات مت کیجیے
تمام دن تو  یوں ہی ضائع کردیا بے کار
اسی کی نذر تو اب پوری رات مت کیجیے
کبھی کبھار تو کچھ  اپنے دم ہو سے آخر
ہر ایک کام میں " تیرا ہی ساتھ " مت کیجیے
اسے بڑھائيے لیکن حدود میں رہیے
وہ آنکھ ہے تو اسے کائنات مت کیجیے
اسے غرور ہے ساگر امیر ہونے پر

فقیر آپ ہیں تو التفات مت کیجیے 

الأحد، يناير 19، 2014

آپ کس کے ساتھ ہیں؟

ثناءاللہ صادق تیمی
میرے دوست جناب بے نام خاں نے آتے ہی یہ سوال پوچھا کہ آپ کس کے ساتھ ہيں اور میں بالکل ہی ہڑبڑا گیا کہ آخر انہيں کیا جواب دوں ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا انہوں نے کہا بھائی آخر آپ کسی کے ساتھ تو ہوں گے ۔  اس لیے کہ ہر صورت میں آدمی کسی نہ کسی کے ساتھ تو ہوتا ہی ہے ۔ پھر بتلائیے کہ آپ کس کے ساتھ ہيں ؟ میں نے جلدی جلدی میں کہا میں تو آپ کے ساتھ ہوں ! اس پر ہمارے دوست ناراض ہوگئے ۔ جناب آپ مولویوں کو ہمیشہ مذاق کیوں سوجھتی رہتی ہے ۔ میں بالکل سنجیدہ ہوں ۔ آج کی زبان میں کہوں تو میں بالکل سیریس ہوں ۔ میں نے کہا اگر آپ سیریس ہیں تو بھائی ہاسپیٹل جائیے ۔ میرا دماغ کیوں کھا رہے ہیں  ۔  اگر اکیلے نہيں جا سکتے تو چلیے  بھائی میں ہی پہنچا دیتا ہوں ۔ اس پر بے نام خاں اپنی بتیسیوں کے ساتھ ہنسنے لگے اور بولے دیکھو تم کتنے سیدھے ہو ۔  میں سنجیدہ ہوں ۔ سیریس نہيں ۔ اگر سیریس ہوتا تو تم سے اس طرح کیسے بات کررہا ہوتا ۔ میں نے کہا تو پھر جھوٹ بولنے کی ضرورت کیا تھی ۔ اور ہمارے دوست سر پکڑ کر بیٹھ گيے ۔  تھوڑی دیر بعد پھر گویا ہوئے چلو اچھا بتاؤ تم کس کے ساتھ ہو ؟ بھائی میں تو کسی کے ساتھ نہیں ہوں ۔ تم پوچھنا کیا چاہتے ہو؟ اگر تم سیریس نہيں ہو تو مجھے لگتا ہے کہ میں ضرور سیریس ہوجاؤںگا ۔ ایسے میں مسلمان ہوں اور ہر اس چیز کے ساتھ ہوں جو مسلمان ہے اور ہر اس چیز سے الگ جو مسلمان نہيں ہے ۔ یعنی کہ تم پورے طور پر ایک انتہا پرست مسلمان ہو ۔ ہاں وہ تو ہوں اور نہ بھی رہوں تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ چہرا کچھ ایسا ہے کہ لوگ خواہ مخواہ ایک انتہا پسند مسلمان سمجھ لیتے ہیں ۔ خیر چلو اب بتاؤ کہ تم کس کے ساتھ ہو ؟  یعنی تمہيں یہ بات ابھی سمجھ میں نہيں آئی کہ میں کس کے ساتھ ہوں ۔ تم میرا دماغ مت خراب کرو ، میں کسی کے ساتھ نہيں ہوں۔  بے نام خاں اب میری ناراضگی سے پریشان ہورہے تھے ۔ انہوں نے پیار کے ساتھ میرے گال کو چھوا ، داڑھی پر تقدس آمیز نگاہ ڈالی اور کہا کہ میرے دوست ناراض ہونے کی کوئی بات نہيں بس اتنا ہی تو بتانا ہے کہ تم کس کے ساتھ ہو ؟ مجھے اس بار واقعی بہت غصہ آیا ۔ وہ تو اسلام میں غصہ حرام ہے سو میں نے برداشت کرتے ہوئے کہا کہ دیکھ دوست میں نہ کسی کے ساتھ تھا نہ کسی کے ساتھ ہوں۔ میں ایک عام سا انسان اور ایک بے عمل سا مسلمان ہوں ۔ لوگ میری داڑھی اور شکل و شباہت سے بالعموم دھوکہ کھا جاتے ہيں ۔ اس لیے جہاں کچھ لوگ مجھے خدارسیدہ ، بزرگ اور مستجاب الدعوات سمجھتے ہيں وہيں پڑھے لکھے سمجھدار لوگ جاہل ، احمق اور بے وقوف ہی نہیں دقیانوس بھی سمجھ لیتے ہیں اور میں تمہیں صحیح بتاتا ہوں کہ جہاں مجھے پہلے گروہ کی سادہ لوحی پر ترس آتا ہے اور ان سے محبت ہو جاتی ہے وہيں دوسرے گروہ کی حماقت پر ہنسی بھی آتی ہے اور میں اپنی ہنسی روک نہیں پاتا ۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ مجھے مولانا سمجھتے ہیں وہ میری اس لیے زیادہ عزت کرتے ہیں کہ میں انگلش میں بھی یس نو کر لیتا ہوں ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ یس اور نو بھی میں ان سادہ لوحوں کے سامنے ہی کرتا ہوں ۔ کبھی کسی انگریزی تعلیم یافتہ انسان کے سامنے ایسا بالکل بھی نہیں کرتا ۔ بعض جو سیدھے اور تعلیم یافتہ حضرات ہیں وہ اس لیے مجھ سے مرعوب رہتے ہيں کہ میں ان کے سامنے ہمیشہ بھاری بھرکم اردو میں بولتا ہوں ۔ وہ بیچارے سمجھتے ہیں کہ میری صلاحیت بہت زیادہ ہے تبھی تو اتنی بھاری زبان استعمال کرتا ہوں ۔ میں بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتا ہوں اور کبھی کبھار عربی کے ایک دو جملے بول کر  اپنی قابلیت کا جھنڈا گاڑ دیتا ہوں ۔ بس یہی تو میں کرتا ہوں ۔
میرے دوست نے میری ان باتوں کو اتنی غور سے سنا تھا کہ میں نے سمجھا کہ ان کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ میں کیا ہوں اور کیا کرتا ہوں ۔ لیکن جب انہوں نے زبان کھولی تو پہلا سوال یہی کیا کہ اچھا  یہ تو سب تو ٹھیک ہے یہ بتلائیے کہ آپ کس کے ساتھ ہيں ؟ اب میرے لیے غصہ پر قابو پانا آسان نہيں تھا ۔ میرے اضطراب کی شدت بڑھ رہی تھی اور میں بہت بری طرح پریشان ہو رہا تھا۔ میں نے ایسے ہی  بغیر کچھ سمجھے بول دیا کہ میں لالو پرساد یادو کے ساتھ ہوں ۔ بے نام خاں اچھل پڑے۔ ارے تو اس ميں اتنی دیر لگانے کی کیا ضرورت تھی ۔ پہلے بھی تو بول سکتے تھے ۔ چلیے مولانا ہیں کچھ تو گھما پھرا کر ہی بولیں گے ۔ تو آپ لالو پرساد کے ساتھ ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ سیکولر پارٹی کے ساتھ ہيں ؟ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نتیش کے ساتھ کیوں نہيں ہیں ؟  سونیا جی سے آپ کو کیا پرابلم ہے ؟ اور کیجریوال نے آپ کیا بگاڑا ہے ؟ آپ عام آدمی کے ساتھ کیوں نہيں ہیں ؟؟؟
پے درپے سوالات نے مجھے بالکل ہی پریشان کردیا ۔ مجھے تو سمجھ میں آہی نہيں رہا تھا کہ کیا بولوں ۔ کوئی بات نہیں مولانا ! آپ کوئی اکیلے بے وقوف نہیں ہیں جو لالو پرساد کے آج بھی ساتھ ہيں ۔ بہت سے لوگ ہيں ۔ دنیا لالو سے ہو کر نتیش اور ان سے بھی بڑھ کر کیجریوال تک آگئي اور آپ ہيں کہ لالو تک ہی ہیں ۔ جواب ہی نہيں آپ کا تو ؟ واہ کیا پچھڑاپن ہے ! واہ واہ! سبحان اللہ !!  اچھا تو یہ بتلائیے کہ آپ خاندانی لالوئی ہیں یا پھر صرف آپ لالوئي ہیں اور آپ کے گھر کے دوسرے افراد نتیشی ہیں اور کچھ کانگریسی اور کچھ مودیائی ۔ معاف کیجیے گا آپ لوگ مودیائي تو نہيں ہو سکتے ؟  نہیں نہيں ہو بھی سکتے ہیں ۔ آپ لوگوں نے ہی تو اسے ٹوپی پہنایا تھا ۔ کبھی کھبی تو آپ لوگ بیان بھی دیتے ہیں اس کے حق میں ؟ بولیے بھی بھائي ؟  میں نے بے نام خاں سے پوچھا کہ کیا بولوں ؟  اس پر وہ ناراض ہو کر کرخت لہجے میں بولے یہی کہ لالوئی ہی کیوں ہیں آپ ؟  اور خدارا اب یہ مت بولیے گا کہ آپ مسلمان ہيں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ پھر میں آپ سے پوچھونگا کہ آپ کون سے مسلمان کے ساتھ ہيں ؟ شیعہ مسلمان یا سنی مسلمان ؟  شیعہ مسلمان تو پھر زیدی شیعہ مسلمان یا اثناعشری شیعہ مسلمان ۔ رافضی شیعہ مسلمان یا رضوی شیعہ مسلمان ؟ سنی مسلمان تو پھر حنفی سنی مسلمان یا پھر شافعی سنی مسلمان ۔ حنبلی سنی مسلمان یا مالکی سنی مسلمان یا پھرا ہل حدیث سنی مسلمان ۔ حنفی سنی مسلمان تو پھر تبلیغی مسلمان یا خانخاہی مسلمان یا پھر جماعت اسلامی والا مسلمان ۔ اہل حدیث مسلمان تو سیدھا والا اہل حدیث مسلمان یا پھر غرباء والا اہل حدیث مسلمان ؟؟؟
 میں اس سے پہلے کہ بے نام خاں کے سوالات کے حصار کو توڑتا ، بے نام خاں گویا ہوئے ۔ تو بتاؤ کہ تم لالوئی کیوں ہو ؟ اور دوسرے کیوں نہیں ؟ میں نے بھی اب غصے کو موقع دیا اور کہا کہ بھائي کس کانگریس کے ساتھ رہوں ۔ سیکولر کانگریس کے ساتھ یا فاسسٹ کانگریس کے ساتھ ۔ کس نتیش کے ساتھ رہوں وہ جو مودی کے ساتھ تقریر کرتا ہے اور بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بناتا ہے یا اس نتیش کے ساتھ جو ان سے دوری بنا کر اپنے آپ کو سیکولر ثابت کرتا ہے اور اسکولوں ميں سورج نمسکار لاگو کرواتا ہے ۔ اس کیجریوال کے ساتھ جو انا ہزارے کے ساتھ تھا یا اس کیجریوال کے ساتھ جو ان سے الگ ہے اور ابھی دہلی کا وزیر اعلی ہے ۔ اس مودی کے ساتھ جو مسلمانوں کا باضابطہ قاتل ہے یا اس مودی کے ساتھ جو اب صرف اور صرف وکاس کی بات کرتا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کی ریلی میں ٹوپی لگا کر آئيں ۔ بتاؤ کس کے ساتھ جاؤں ؟  اس لیفٹ کے ساتھ جو اعتدال پسند ہے اور سیکولزم میں وشواس رکھتا ہے یا اس لیفٹ کے ساتھ جو انتہا پسند ہے اور سیکولر حکومتوں کے بھی خلاف ہے ۔ کہاں جاؤں اور کس کے ساتھ رہوں ۔ ان ماڈرن لوگوں کے ساتھ جو دین کا مذاق اڑاتے ہیں ، مولویوں کوگالی دیتے ہیں اور اپنے آپ کو برہنہ کرکے روشن خیالی پر اتراتے ہیں یا ان روشن خیالوں اور ماڈرن لوگوں کے ساتھ جو گالی تو نہيں دیتے ، مذاق تو نہیں اڑاتے لیکن بےوقوف ضرور سمجھتے ہیں اور جو ہمیشہ لپیٹ کر بات کرتے ہیں اور گھما پھرا کر کہ کوئی مطلب ہی نہیں چھوڑتے ؟؟؟ اب تم بتلاؤ کہ میں کدھرجاؤں اور کس کے ساتھ رہوں ؟؟؟

       اب اتفاق سے پریشان ہونے کی باری بے نام خاں کی تھی ۔ اس لیے انہوں نے کہا : چھوڑو بھی یا ر کہاں ہم لوگ بے مطلب سیاست ویاست کے چکر میں پڑ گيے ۔ یہ بتاؤ کہ تمہاری شادی کب ہورہی ہے ؟؟؟ اور میں مسکرائے بغیر رہ نہيں پایا ۔