الخميس، فبراير 19، 2015


صوت باك وقلب قاس:

سيف الرحمن حفظ الرحمن التيمي
الجامعة الإسلامية، المدينة النبوية
استشعرت بالأمس ما أظهر لنا أستاذنا اليوم، والحقيقة هكذا وإن اختلفت الألسن و تشتت العبارات؛ فذكر لنا استاذ الفقه لا أريد الكشف عن اسمه احتفاظا بكرامته وإخلاصه، أنه لقي امرأة في المسجد النبوي وهي تسأله عما تسد به جوعها، وذكرت له أنها مسلمة فلسطينية هاجرت منها إلى المملكة حينما سيطر الاحتلال الإسرائيلي على بقاع الفلسطين وضاق بهم ذرعا، حتى وضعت البراميل المتفجرة على سقوف بيوتهم وهم يشاهدون الموت بأعينهم، وصاروا من الضنكة بمقام كأنهم ينتظرون البراميل كي تنفجر وتبتلع حياتهم، فما وجدت هذه الفلسطينية إلى الخلاص سبيلا إلا أن تأوي إلى مامن في بلدة آمنة، فاتصلت بقريب له في مكة وهو مسؤول في فندق ما، واستمرت في الاتصال معه إلى أن وعدها بأن يوفر لها الأمان ويقدم لها المساعدة حسب ما يسعه، فلما وصلت هي إلى المملكة اختفى هذا المحسن الواعد ولم يجب الاتصال ولم يرد عليه،فسقطت في يديها، وصارت وحيدة طريدة لا عون لها إلا الله،وبلغها من الألم والأسى ما بلغها، وسهرت من الليالي ما سهرت وهي مضطجعة على بطنها، وقضت من الأيام ما قضت وهي عاكفة على وجهها، ثم اضطرت إلى ما اضطرت من أن تمد يديها إلى من لم تقدم قدمها إليه من قبل، وابتل وجهها ببلة التسول، وأصابها من الحزن ما لا نقدر على تقديره، وهي أم حنون لها أيتام يشبعون من حنونها ويشربون من قرير عينها، فيا لجبل من الألم فاق جبالا من الحجر، والآن حينما نستمع قصتها نظن كأننا نسمع مسجلة سجلها التاريخ وهي تسجل بين أيدينا وعلى مرأى منا، فاللسان عند حكايتها تلكن، والصوت عند بيانها يلثغ، والجلود عند استماعها تقشعر، لكن من أين آتي بقلب يبكي وبعين تذرف..... حينما استمعت لقصة الأم الفلسطينية تجدد ذكرى الأم الحنون العطوف، وأنشدت شفتي:
أمي كم أهواها
أشتاق لمرآها
وأحب للقياها
وأقبل يمناها
و كم تمنيت أن أبكي فلم أستطع... فهل من مهد يهديني قلبا باكيا أفديه بحبي كله...!
فزعت إلى الدموع فلم تجبني
وفقد الدمع عند الحزن داء
وما قصرت في حزن ولكن
إذا عظم الأسى فقد البكاء

الأربعاء، فبراير 18، 2015

وزیر اعظم کے بیان کا خیر مقدم لیکن ...


ثناء اللہ صادق تیمی
 اسسٹنٹ پروفیسر، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض

  ایک مدت کے بعد آخر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم نے فرقہ واریت پر اپنی خاموشی توڑ ہی دی ۔ وزیر اعظم نے اپنے بیان میں ہر قسم کی مذہبی منافرت اور دینی انتہا پسندی کو غلط قرار دیتے ہوے کہا کہ ان کی حکومت نہ تو اکثریت کی مذہبی انتہا پسندی کو برداشت کرے گی اور نہ اقلیت کے دینی تشدد کوقبول کرے گی ۔ محترم وزیر اعظم نے اس سلسلے میں ہندوستان کی پرانی تہذیب اور ہندوستانی آئين کا حوالہ بھی دیا ۔

    قابل غور یہ بھی ہے کہ مودی حکومت بننے کے بعد پچھلے کچھ مہینوں میں جس طرح سے ہندو انتہا پسندوں نے پورے دیش میں غنڈا گردی پھیلائی ہے اس کی وجہ سے پورا دیش اور بطور خاص موجودہ حکومت عالمی سطح پر تنقیدوں کی زد میں رہی ہے ۔ جہاں ملک کے سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقے کے اندر اضطراب و بے چینی کی کیفیت پائی جارہی تھی وہیں اقلیتوں کا ہوش ہی اڑا ہوا تھا ۔ گرجا گھروں پر حملوں سے لے کر دوسری اقلیتوں اور ان میں بھی مسلمانوں کو جس طرح سے ٹارگیٹ کیا جارہا تھا اس نے پورے سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اس پوری صورت حال سے اندرون و بیرون ملک سب کے سب پریشان تھے البتہ پریشانی نہيں تھی تو حکومت کے کارکنان اور ملک کے دگج وزیر اعظم  کو ۔ پورا دیش آگ اور خون کی چپیٹ میں تھا اور ملک کے سربراہ چپی سادھے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے ۔ لیکن قدرت بھی کچھ عجیب رنگ میں ظاہر ہوتی ہے ۔ مضبوط وزیراعظم نے پوری دنیا کے فرمانروا سمجھے جانے والے امریکی صدر براک اوباما کو بلایا اور یہ ثابت کرنا چاہا کہ یہ بھی بھارت کی اپلبھدی (حصولیابی ) ہے لیکن یہ سارا کھیل اس وقت بڑا ہی الٹا پڑ گیا جب امریکی صدر نے ہندوستان کو کڑی نکتہ چینیوں کا نشانہ بنایا اور ہندوستان کے اندر ہی پریس کانفرنس کرکے یہ تک کہ دیا کہ جس طرح کی مذہبی منافرت اس دیش میں پھیلائی جارہی ہے اس سے اس دیش کی ترقی نہیں ہو پائے گی اور یہ کہ اگر مہاتما گاندھی زندہ ہوتے تو انہيں ہندوستان کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر بڑی شرمندگی اور تکلیف ہوتی ۔ اوباما جب امریکہ لوٹے تو انہوں نے وائٹ ہاؤس کے باہر بھی اپنے اسی بیان کو ذرا اور شدت سے دہرا دیا ۔ کمال یہ ہوا کہ اسی بیچ نیو یارک ٹائمز نے مودی جی کی اس طویل خاموشی پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس پر باضابطہ ایک اداریہ ہی تحریر کردیا ۔ صورت حال یہ ہو گئی کہ وزیر داخلہ جناب راج ناتھ سنگھ کو بیان دینا پڑا لیکن کسی کے خلاف تردیدی بیان دے دینا اور بات ہے اور سچ کو جھٹلادینا اور بات ہے ۔ جب پوری دنیا میں دور چھیا ہونے لگی تو ہمارے وزیر اعظم کو اپنی خاموشی توڑنی ہی پڑی ۔ ہم اس بیان کا استقبال کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ انہوں نے جو کہا ہے اس کے مطابق عمل بھی کرینگے اور دیش میں جمہوری اور سیکولر فضا بحال ہوگی اور دیش ترقی کے نئے ہفت اقسام طے کرےگا ۔

لیکن جو بات ہم جیسے ہندوستانیوں کو پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب، جو بزعم خویش سمجھدار بھی کم نہیں ہیں ، انہیں آخر اتنی موٹی سی بات سمجھنے میں اتنی دیر لگی ۔ جب پوری دنیا نے تھوکنا شروع کردیا اور پیارے دیش کی جب چاروں طرف بدنامی ہوگئی تب جاکر ہمارے وزیراعظم کو یہ لگا کہ یہ منافرت اور فرقہ واریت صحیح نہیں ہے ۔ کہيں ایسا تو نہيں کہ محترم وزیر اعظم سمجھ تو بہت پہلے سے رہے تھے لیکن بول سکنے کی پوزیشن میں نہیں تھے کیونکہ کبھی کبھی اپنے ہاتھوں پالے پوسے گئے کتے خود اپنے اوپر بھی بھوکنے لگتے ہیں ۔

   محترم وزیراعظم آرایس ایس کے باضابطہ ممبر رہ چکے ہیں ۔ دیش کو مذہبی خطوط پر بانٹنے کا جو پروگرام آرایس ایس کا رہا ہے اس سے وہ ناواقف ہو بھی نہيں سکتے ۔ ان کو وزیر اعظم بنانے میں انہيں کے بقول آرایس ایس کے لوگوں کا بڑا رول رہا ہے پھر بھلا وزیر اعظم کو یہ نہیں پتہ کے ایسے لوگوں کو اگر ضرورت سے زیادہ وقعت دی گئی تو کیا کچھ رزلٹ آئے گا ۔ آپ نے وزارت سے لے کر بیروکریسی تک میں جس طرح سے متعصب ذہن ہندؤں کو بھرنا شروع کیا ہے اس سے کسی متوازن نتیجے کی توقع کرنا فضول ہی ہوگا ۔ محترم وزیر اعظم آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو بہر حال دیش کے دستور کے مطابق ہی چلنا پڑےگا ۔ فیس بوک کا استعمال کرکے آپ وزیر اعظم بنے ہیں تو آپ کو یہ بات تو یاد رکھنی ہی پڑےگی کہ یہی فیس بوک والے  آپ کی نیا ڈبو بھی سکتے ہیں ۔ دہلی کے اسمبلی انتخابات سے تو آپ کو اس کا تجربہ ہو بھی گیا ہوگا ۔ یوں بھی مذہبی منافرت کے خلاف آپ کے اس بیان کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ آپ عام لوگوں اور اقلیتوں کو خود سے قریب کرنا چاہ رہے ہيں اور بھی اس ڈر سے کہ کہیں اور دوسری جگہوں پر بھی آپ کا حشر دہلی جیسا نہ ہو جائے ۔

    آپ نے اپنے بیان میں ہندوستان کی پرانی تہذیب اور آئین کا حوالہ دیا ہے ۔ اس موقع سے ہم آپ کو بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دیش کی مٹی ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ منافرت اور انتہا پسندی کو بڑھا دینے والوں کا ساتھ نہيں نبھا سکتی ۔ آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم ہیں اوردیا رکھیے کہ اگر جمہویت اور سیکولرزم کو چھوڑ کر آپ نے کوئی اور خفیہ ایجنڈہ چلانے کی کوشش کی ، جس کا بہت سے لوگوں کو خدشہ بھی  ہے ، تو یہ خود آپ کے لیے بھی اور پورے دیش کے لیے بھی کافی گھاتک ثابت ہوگا ۔ اس موقع سے آپ کو یہ بھی یاد رکھنے کی زضرورت ہے کہ صرف بیان دینے سے کام نہيں چلے گا ان بدقماشوں اور غنڈوں پر رسہ بھی کسنا پڑے گا جو پورے دیش کے بھائی چارے کے خلاف ماحول تیار کررہے ہیں اور جو اتفاق سے آپ کے کافی قریب آپ کی اپنی پارٹی لوگ ہیں ورنہ یہ دیش نہ تو آپ کو اور نہ ایسے غنڈوں کو بخشنے کے لیے تیار ہوگا ۔

 سمجھدار اور سیکولر ذہن ہندوستانیوں کو انتظار رہے گا کہ ملک کے وزیراعظم اس سلسلے میں کیا رویہ اپناتے ہيں ۔ 

ہم سا بھی کوئي درد کا مارا نہيں ہوگا __ کلیم عاجز


ثناءاللہ صادق تیمی
 اسسٹنٹ پروفیسر ، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض

   ٹھیک سے یاد نہيں کہ پہلے پہل کلیم عاجز کا نام کس کی زبانی اور کب سنا تھا ۔ لیکن ایک شعر تھا جو زبان پر جاری رہتا تھا اور وقتا فوقتا  دوستوں کی محفلوں میں اس کا استعمال میں بڑی ہوشیاری سے کیا کرتا تھا ۔ شعر کچھ یوں تھا
ان کی وہ بات کہ دوں اگر سب کے سامنے
سر میرے مہرباں سے اٹھایا نہ جائے گا
یہ راز بعد میں منکشف ہوا کہ اتنے معروف اور زبان زد خاص و عام شعر کے خالق جناب کلیم عاجز ہيں ۔ جامعۃ الامام ابن تیمیہ کے اندر میں ثالثہ فضیلہ کا طالب علم تھا ۔ شعر وادب سے دلچسپی تھی ۔ تھوڑی بہت جانکاری بھی تھی لیکن جونئیر طلبہ تھوڑا زیادہ ہی سمجھتے تھے ۔ ان دنوں متوسطہ ثانویہ میں کچھ طلبہ خاص طور سے غیر دینی  کتابوں ، مناقشوں اور ادبی چھیڑ چھاڑ میں روچی رکھتے تھے ۔ ان میں خاص طور سے اخلاص احمد ابو طلحہ ، مناظر ارشد امواوی ، جمیل اختر شفیق ، جاوید اکرام اور صھیب صدری کے نام یاد آتے ہيں ۔ وہ ادبی کتابوں پربحثيں کرتے ، لڑتے جھگڑتے اور بعض سیدھے سادھے ان  اساتذہ پر اپنی دھونس جمانے کی بھی کوشش کرتے تھے جن کے اندر ادبی دلچسپی نہيں کے برابر تھی ۔ فراغت کے بعد جب تدریسی مصروفیت کی وجہ  جامعہ امام ابن تیمیہ ہی میں رہنا پڑا تو اس ماحول کو اور بھی آگے بڑھنے کا موقع ملا ۔ ان دنوں حلقہ ادب جامعہ امام ابن تیمیہ کی ماہانہ نشستیں بھی بڑی پابندی سے منعقد ہوا کرتی تھیں ۔ لوگوں کا ماننا تھا کہ اس میں ہماری بھی حصہ داری تھی ۔ جے این یو میں داخلہ پانے کے لیے جب ہم دہلی آگئے کہ تو حلقہ ادب کے سرگرم رکن استاذ محترم جناب امحد جوہر سلفی نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سر ایک خون کا الزام ہے اور اس سے پہلے کہ میں گبھراتا انہوں نے جامعہ چھوڑ کر حلقہ ادب کو مار دینے کا قصہ چھیڑ دیا ۔ الغرض بڑے ادبی معرکے رہا کرتے تھے ۔ ان دنوں جامعہ میں  جن ادباء شعرا کا زیادہ ہی چرچا تھا ان میں پروین شاکر ، قرۃ العین حیدر یعنی عینی آپا ‌ اورکلیم احمد عاجز  سب سے آگے تھے ۔ مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہيں کہ اس پورے ہوڑ ہنگامے سے طلبہ کا فائدہ ہوا ہو یا نہيں ، یہ تو وہی بتائینگے  لیکن میں نے اس موقع سے ان تینوں ادباء کو اپنے طور پر پڑھنے کی کوشش ضرور کی ۔ ایک مدت تک ان کا مجموعہ  " وہ جو شاعری کا سبب ہوا " میرے سرہانے رہا کیا ۔ کئی غزلیں یاد کرڈالیں ۔ اچھے اشعار کو نشان زد کیا اور یادداشت کے صندوقچے کے حوالے کردیا ۔
    اسی بیچ غالبا 2007 میں دربھنگہ میں ایک مشاعرہ ہوا ۔ ہمیں خبر ہوئي کہ کلیم عاجز آنے والے ہیں اور ہم جمیل اختر شفیق کے ہمراہ روانہ ہو گئے ۔ وہاں گئے تو حفظ الرحمن سے بھی ملاقات ہوگئی ۔ مشاعرے میں انہوں نے اپنی پر سوز آواز میں اپنی دو غزلیں سنائیں ۔کچھ اشعار یاد آرہے ہیں
عاجز یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو
تم ہو بھی تو ایسا نہیں لگتا ہے کہ تم ہو
یہ پچھلے پہر کس کے کہکنے کی صدا ہے
کوئل ہے ، کبوتر ہے ، پپہیا ہے کہ تم ہو
گوکل کی ہے  کوئی بانسری یا اردو غزل ہے
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا کوئی کرشن کنہیا ہے کہ تم ہو 
کلام میں معنویت کے ساتھ آوازمیں وہ سوز تھا کہ کنہیا لال کپور کی بات ذہن میں سچائی کی پوری روح کے ساتھ سرایت کرگئی کہ " کلیم جب پڑھتے ہیں کہ تو ایسا لگتا ہے کہ کوئي زخمی فرشتہ فریاد کررہا ہے " ۔
    مشاعرے کے بعد ہم نے بھائی حفظ الرحمن کی مدد سے ان سے آٹو گراف لیا ۔ انہوں نے اپنا ایک شعر لکھا اور نیچے اپنے دستخط ثبت کردیے ۔
  دہلی آکر ان کی کئی نثری کتابیں پڑھنے کو ملیں ۔ معلوم ہوا کہ ان کی شاعری سے کہیں زیادہ دم تو ان کی نثرمیں ہے ۔ ہم اپنے محدود مطالعے کی روشنی میں یہ بات کہ سکتے ہیں کہ اس طرف اتنی البیلی ، شوخ اور کلاسیکی روح سے مالامال اور کسی ادیب کی نثر نہيں ہے ۔ اس کا اندازہ تو " وہ جو شاعری کا سبب ہوا " کے طول طویل مقدمے سے بھی ہو تا ہے لیکن یہ قضیہ اس وقت اور متحقق ہو جاتا ہے جب آدمی ان کی دوسری نثریں کتابیں پڑھتا ہے ۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ ان کی تنقید میں ایک قسم کا غصہ اور جھنجھلاہٹ کا احساس ہوتا ہے ۔
  کلیم صاحب کی شاعری کو میر کی بازگشت اور درد و الم کی تصویر کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ خود انہوں نے بھی کہا ہے
کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے
  اور ایک خاص واقعے کو جس طرح انہوں نے اپنی شاعری کا محور بنا لیا اس نے بھی اس تاثر کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ ایسے بہر حال کلیم صاحب کا یہ کمال ضرور ہے کہ وہ غم ذات کو غم کائنات بنانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ان کی شاعری کو ان کی زندگی سے الگ کرکے بھی پڑھا جائے تو بھی لطف کم نہيں ہوتا ۔ غم کو آفاقیت کی اس سطح سے انہوں نے برتا ہے کہ غم شخصی ہونے کی بجائے انسانی احساسات کا ایسا حصہ بن جاتا ہے جو دلآویز نہ بھی ہو تو مانوس ضرور ہے ۔ عام انسانی برتا‎ؤ اور مجلسی زندگی کے لیے جتنے بر محل اشعار کلیم کے یہاں ملینگے اور کسی شاعر کے یہاں مشکل سے مل پائینگے ۔ شاید اسی لیے ان کے بہت سے اشعار ضرب المثل کی حیثيت اختیار کرگئے ۔ طنزکی شدت اور تجربات کی گہرائی کی وجہ سے ان کی شاعری جیسے ہر انسان کی اپنی ہی حکایت ہو ۔   میں یہاں کلیم  کے وہ اشعار نقل کرنا چاہونگا جو مجھے پسند ہيں اور جو ضرورت کے وقت بہت کام آتے ہیں ۔
اپنا یہ کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھرملے
بات گرچہ بے سلیقہ ہو کلیم
بات کرنے کا سلیقہ چاہیے
لپٹ لپٹ کے گلے مل رہے تھے خنجر سے
بڑے غضب کا کلیجہ تھا مرنے والوں کا
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
کلیجہ تھام کے سنتے ہیں لیکن سن ہی لیتے ہیں
میرے یاروں کو میرے غم کی تلخی بھی مزہ دے ہے
بڑی ہی چالبازي آئے ہے اس آفت جاں کو
شرارت خود کرے ہے اور ہمیں تہمت لگادے ہے
تمہاری انجمن ہے جس کو چاہو بے وفا کہ لو
تمہاری انجمن میں تم کو جھوٹا کون سمجھے گا
پہلو نہ دکھے گا تو گوارہ نہیں ہوگا
ہم سا بھی کوئی درد کا مارا نہيں ہوگا

  آج صبح جب کلیم صاحب کی موت کی خبر ملی ۔ بہت افسوس ہوا ۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ اناللہ و انا الیہ راجعون 

صحراؤں کا حسن


ثناءاللہ صادق تیمی
 اسسٹنٹ پروفیسر امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی ، ریاض ، سعودی عرب

   سعودی عرب کے دارالسلطنت ریاض آئے ہمیں کئی دن ہوگئے تھے لیکن ابھی شہر سے باہر نکلنا نصیب  نہيں ہوا تھا ۔ ہم ، عزیزم حفظ الرحمن تیمی اور مامو جناب عاصم سلفی صاحبان فیس بک پر ایک متنازع ایشو پر چل رہے مناقشات پر باتیں کررہے تھے کہ حفظ الرحمن صاحب نے جناب ندیم اختر سلفی کی ایک تحریربآواز بلند پڑھ کر سنایا اور ہم سب نے کمال دلچسپی سے  اسے سنا بھی ۔ حفظ الرحمن صاحب اپنی پسندیدگی کا اظہار کررہے تھے کہ مامو نے کہا کہ لائیے آپ کی ان سے بات کراتے ہیں ۔ اور انہوں نے کال لگادی ۔ ہماری باتيں ہوئیں ۔ خوشی ہوئی ، اچھا لگا اور انہوں نے اپنے یہاں آنے کی یہ کہتے ہوئے دعوت دے دی کہ ٹیلی فون پر کیا بات ہوگی ۔ آئیں کچھ باتيں واتیں ہوں ۔ تبادلہ خیال ہو ، تو مزہ آئے ۔ پتہ چلا کہ مامو اور ان کے مابین گہرے رشتے ہيں اور دونوں مدرسے کے زمانے میں کلاس میٹ رہ چکے ہیں ۔

   دوسرے دن ہم ابھی دن کا کھانا کھانے کی تیاری کررہے تھے کہ مامو نے اپنی آفس سے فون کیا کہ آپ لوگ تیار رہیں ندیم کے یہاں چلنا ہے ۔ رات کا کھانا وہيں ہوگا ۔ ہم نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی ، حفظ الرحمن تیمی ، میں (ثناءاللہ صادق تیمی ) اور مامو جناب عاصم سلفی مامو کی گاڑی سے حوطہ سدیر کے لیے روانہ ہوگئے ۔ شہر میں کافی بھیڑ تھی ۔ مامو کے مطابق دس منٹ کا راستہ پورے پونا گھنٹے میں طے ہوا ۔ شہر سے گاڑی نکلی تو 120 کے رفتار سے بھاگنے لگی ۔ مامو نے کہا کہ صحراؤں کو دیکھیے اور ہم دور تک پھیلے صحرائی خلا کے حسن میں کھو گئے ۔ آج پہلی مرتبہ یہ منظر دیھکنے کو ملا تھا ۔ چلتی گاڑی میں یہ کچھ اور بھی حسین لگ رہا تھا ۔ جہاں تہاں چرتی ہوئی بکریاں اور  راعی کے کیمپ کے ساتھ ساتھ اونٹوں کا جھنڈ ہمیں اس زندگی سے روشناس کرارہا تھا جس کی بابت ہم نے کتابوں میں بہت پڑھ رکھا تھا ۔ اردو داستانوں میں دلچسپی رکھنے والوں کو ہماری باتوں کی صداقت سمجھ میں آئےگی ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سیرت کی کتابوں کے بعض صفحے پھر سے کھل گئے ہیں ۔

  راستہ بھی تو ایکدم صاف صاف ستھرا اور ساری اہم ٹیکنالوجی سے ہمکنارتھا  ۔ دوسو کیلو میٹردور کا راستہ طے کرکے بھی کوئی تھکاوٹ نہيں ہوئی ۔ حوطہ سدیر گاؤں ہے لیکن کیا کوئی شہر اس کا مقابلہ کرے ۔ صفائی ستھرائی سے لے کر مینٹیننس کے ہر ایک معاملے میں ۔ کہیں کوئي ندی نالہ نہيں ، کوئی بدبو کا گزر بسر نہيں ۔ بالکل ہی مزہ آگیا ۔ اوپر سے مولانا ندیم اختر سلفی کے حسن استقبال اور ضیافت نے سونے پر سہاگا کا کام کیا ۔ جاتے ہی انہوں نے بالکل ہندوستانی( آپ چاہيں تو بہاری بھی پڑھ سکتے ہيں ) طرز کے شام والے ناشتے سے تواضع کیا ۔ چنا، چورا ، دھنیا پتا ، کھیرے کے سلاد کے ساتھ آلو کے سموسے ، مٹھائی اور اوپر سے چائے ۔ اور اس سب کے اوپر میزبان کا خلوص اور محبتوں بھرا اصرار ۔ طبیعت مست ہوگئی۔ اپنا ایک مطلع یاد آگیا
طشتری میں چائے چہرے پر تبسم رکھ دیا
میزباں نے موج الفت میں تلاطم رکھ دیا
 معا بعد ہم نے نمازیں ادا کيں اور پھر اپنے میزبان جناب ندیم اختر سلفی کی گاڑی سے قابل تفریح مقامات کی سیر کو نکل گئے ۔ اب جو شام کے وقت نکلے ہیں تو ہائے اللہ کیا ہوا ہے ۔ کیا فضا ہے ۔ کیا حسن ہے اور کیا دلکشی ہے ۔ ڈاکٹر لقمان السلفی کا جملہ یاد آگیا کہ کسی کو جنت دیکھنی ہو تو سعودی عرب آجائے ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بقول ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی  ہم کسی پہاڑی علاقے  میں آگئے ہوں ۔ تروتازہ اور غیر ملوث ہوا جس میں اتنی خنکی کہ آپ کو ایسی ٹھنڈک سے مالا مال کرے جو آپ کی روح تک کو سرشار کردے ۔ ڈیم پر پہنچے تو وہاں کے منظر نے ہمیں جیسے خیرہ ہی کردیا ۔ عرب کو بدو کہنے والے آکر دیکھیں کہ اللہ کی مہربانی اور حسن تنظیم نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے ۔ ہم نے فطری حسن کا بھرپور آنند لیا ۔ عزیزم حفظ الرحمن تیمی نے اس حسین  پل کو ضائع نہيں جانے دیا اور کئی خوب صورت تصویریں کیمرے میں قید کرلی گئیں ۔ وہاں سے لوٹ کر ہم عزاب (غیر شادی شدہ حضرات ) کے لیے مختص پارک میں آئے ۔ ہم سب نے خوب تفریح کی ، جھولے ٹنگے تھے سو موقع کا فائدہ اٹھایا خوب جھولے ، دلچسپ باتیں کیں ، ایک دوسرے سے لطف لیا اور پھراپنے میزبان کے ہاں لوٹ آئے ۔
    ہاں اس سے پہلے شاپنگ کمپلیکس گئے ۔ وہاں ایک سوڈانی شاپ کیپر سے باتیں ہوئیں ۔ ہم ( حفظ الرحن ، ثناءاللہ )نے جب انہيں طیب صالح کے ناول موسم الھجرۃ الی الشمال کی بابت بتلایا تو خوب خوش ہوئے ۔ ہمارا تجربہ رہا کہ بالعموم سوڈانی نیک طبیعت کے اچھے لوگ ہوتے ہیں ۔ اپنے میزبان کے یہاں لوٹے تو پر تکلف کھانے کا نظم رہا اور بالکل روایتی شمالی بہار کے مسلمانوں کی مانند مولانا نے ہمیں اصرار کرکے خوب خوب کھلایا ۔ اللہ انہيں بہتر بدلہ دے ۔ مولانا ندیم اختر سلفی کی بابت اپنی بستی کے صاحب ذوق چچا جناب آصف حسین کیفی سے سنا کرتا تھا اور ان سے ملے تو حسن اتفاق دیکھیے اسی بیچ ان کے بھائی جناب کاشف حسین کا ٹیلی فون آگیا اور وہ بول پڑے کہ وہ تو آصف کے دوست ہيں ۔ اور یوں میرے سامنے ماضی کی کئی تصویریں پھر گئیں ۔ ان کی بابت آصف صاحب نے کئي بار ہمارے گاؤں کے اس سالانہ پروگرام کے مواقع سے بتایا تھا جو نئے فارغین کو نوازنے اور تعلیم کو پروان چڑھانے کے لیے منعقد کیا جاتا ہے اور جس کی شروعات میں دوستوں کے ہمراہ اس خاکسار کی اپنی حصہ داری رہی ہے ۔ مولانا یہاں جالیات سے جڑے ہیں ۔ دعوتی کام کرتے ہیں اور اس معاملے میں کافی متحمس اور سرگرم ہيں ۔   آنے لگے تو انہوں نے اپنے دوست جناب عاصم سلفی صاحب کو پانیوں کے دو کارٹون سے بھی نوازا ۔ واضح رہے کہ یہاں پٹرول سے کہیں زیادہ پانی مہنگا ہے ۔
  شاہراہ عام سے پہلے بھی چاروں طرف کا حسن دیدہ زیب تھا ۔ لیکن چاندنی رات نے تو جیسے صحرا کو باغیچہ میں بدل دیا تھا ۔ دور دور چل رہی گاڑیاں کیا منظر خلق کررہی تھیں، بیان سے باہر ہے اور کہیں کہيں پر بسی ہوئی بستیوں میں قمقوں سے پیدا ہونے والی روشنی اس طرح کی صورت گری کررہی تھی جیسے نیلے آسمان میں بہت سارے ستارے اپنے اپنے انداز میں سلیقے سے جمع ہوکر بات چیت کررہے ہوں ۔ راستے میں تعاون علی غیر الخیر کی بڑی اچھی صورت دیکھنے کو ملی ۔ شاہراہ عام پر 120 کی رفتار میکسیمم اسپیڈ ہے ۔ آٹومیٹک کیمرے لگے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی اس کی مخالفت کرے تو جرمانہ لگادیا جائے ۔ اب لوگ کرتے یہ ہيں کہ اس سے کہیں زیادہ رفتار سے چلتے ہیں اور جب کیمرا یا پولیس چیک پوسٹ آنے والا ہوتا ہے رفتار کو میکسیمم اسپیڈ کے مطابق کرلیتے ہیں اور اس معاملے میں ہر آگے والا اپنے پیچھے والے کو انڈیکیٹ ( اشارہ ) کردیتا ہے اور یوں پیچھے والا ہوشیار ہو جاتا ہے ۔

      

چوری اس پر سینہ زوری !!


ثناء اللہ صادق تیمی 
اسسٹنٹ پروفیسر ، امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی ، ریاض ، سعودی عرب

ہمارے دوست کا بھی کچھ عجب حال ہے ۔ وہ وقتا فوقتا کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کر جاتے ہیں کہ ہمیں الجھن سی ہونے لگتی ہے ۔ اب جیسے ہی ہم نے نماز کی اہمیت اور اللہ اور بندے کے رشتے کی معنویت انہيں سمجھائی وہ نماز چھوڑنے کا فلسفہ ہمہیں سسمجھانے لگے ۔ انہوں نے کہا کہ بھائی ایسا نہيں ہے کہ نماز چھوڑنا صرف کوتاہی یا بے عملی ہے ۔ یہ تو در اصل ایک فلسفہ ہے ۔ میرا منہ حیرت کے مارے کھلا کا کھلا رہ گیا ۔ میں نے کہا کہ وہ کیسے ؟ ہمارے دوست بے نام خاں گویا ہوئے دیکھو ہم سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے ۔ بنایا ہے اور وہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے ۔ بھلا جو رب اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے ۔ اس نے انہيں اتنی بڑی کائنات میں نائب بنا کر بھیج دیا ہے اس اللہ کو آخر کیا حاجت ہوگئی کہ لوگ اس کے آگے ماتھے ٹیکیں ، سجدے کريں اور رورو کر گڑگڑائیں ۔ وہ تو چاہے گا کہ اس کے بندے خوش رہيں ، آباد رہیں اور دی ہوئی زندگی پوری طرح جیئیں ۔ یہ تو مولویوں کے ڈھکوسکے ہیں کہ نماز کو اتنی اہمیت مل گئی ہوئي ہے ۔ بھائی ہمارا رب کیا انسانوں جیسا بادشاہ ہے کہ جب بندہ اس کے آگے جھکےگا وہ خوش ہو جائےگا ؟ سوچو دماغ لگاؤ ۔

    پتہ ہے یہ مولوی ان سوالوں کا کوئی جواب دینے کی بجائے کیا کہینگے کہ نماز چھوڑنے والے کافرہيں ۔ اللہ کے باغی ہیں اور رحمت الہی سے دور ہیں ۔ اور دیکھنا اکثر مولوی ہی اللہ کی رحمت سے دور نظر آئینگے ۔ چہرہ بجھا ہوا ، مسکینی اور محرومی کی تصویر ! ایک مرتبہ عبد الرزاق ملیح آبادی کی ملاقات علامہ تقی الدین ہلالی سے ہوئی ۔ تقی الدین ہلالی مولانا ابو الکلام آزاد  سے ملنے گئے تھے ۔ باتوں باتوں میں ملیح آبادی اور ان سے نماز کے مسئلے پر بات ہونے لگی ۔ ملیح آبادی نے تارک نماز کے کافر نہ ہونے کی انہيں ایسی دلیل دی کہ وہ بس دیکھتے رہ گئے ۔ ملیح آبادی نے کہا کہ بھائی میں نماز نہيں پڑھتا اور ایک لمحے کے لیے بھی  میرے دل میں یہ بات نہيں آتی کہ میں مسلمان نہيں ہوں ! یوں بھی نماز پڑھنے والے لوگ اپنی نماز کا دھونس جما کر لوگوں کو وہ وہ دھوکہ دیتے ہیں کہ غیر نمازی دے ہی نہیں سکتے ۔ آپ تجربہ کرلینا نمازی لوگوں میں عجیب و غریب قسم کا غرور دیکھنے کو ملے گا ۔ وہ بقیہ مسلمانوں کو ہر طرح سے اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں ۔ یہ اتنے بد اخلاق ہوتے ہیں کہ سوچا بھی نہيں جا سکتا ۔

     بھائی ہم اللہ کے بندے ہيں ۔ اس کی زمین پر رہتے ہیں ۔ اس کی دی ہوئي ساری نمعتیں ہيں تو ہم اسے یاد کرلیں یہ کیا کم ہے ۔ اور ہم تو الحمد للہ اللہ کو یاد کرتے ہی رہتے ہيں ۔ ان مولویوں نے تو سارے اسلام کو داڑھی اور نمازمیں سمیٹ دیا ہے ۔ نماز کے علاوہ اخلاق بھی ہے جس کی تکمیل کے لیے رسول بھیجے گئے تھے ۔ لوگوں کی مدد ہے جو انسانیت کا بنیادی تقاضہ ہے ۔ ایسے دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ نماز چھوڑنے کے معاملے میں مولوی طبقہ سب سے آگے ملےگا ۔ اگر صلاۃ واقعی دخول جنت کے لیے ضروری ہے تو ان مولویوں سے پوچھیے یہ مولویانہ پیشوں سے نکلنے کے بعد نماز کو بالعموم طلاق بتہ کیوں دے دیتے ہيں ۔ یہ جب تک مولوی ہیں تب تک نماز ہے اور جیسے ہی دنیا کے راستے کھلے کہاں داڑھی اور کہاں نماز ! ایک اور بات بتاؤں یہ جب لوگوں کے بیچ ہونگے نماز پڑھینگے اور جب تنہا ہونگے انہیں نماز سے کوئی مطلب نہيں ہوگا ۔ میرے بھائی اصل انسانیت یہ ہے کہ لوگوں کی مدد کیجیے ۔ غریبوں کا خیال رکھیے اور کسی کو اپنی  ذات 
سے تکلیف مت دیجیے ۔ دھوکہ فریب مت کیجیے ۔ حالی نے کہا ہے

یہی ہے عباد ت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
نماز وغیرہ در اصل انسان کو انسانیت سے دور لے جانی والی چیز ہے ۔ اسی لیے اکثر زیادہ پڑھے لکھے ، سمجھدار اور انسانیت کا درد رکھنے والے لوگوں کو دیکھوگے وہ مسلمان ہونگے لیکن نمازی نہيں ۔

    میں نے اپنے دوست سے دو تین باتيں عرض کرنی چاہی ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نماز اسی اللہ کا حکم ہے جس اللہ نے انسانوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی نمازی آدمی اخلاق کا برا ہے تو اس میں نماز کا کیا کردار ہے کہ غیر نمازی تو زیادہ تر بھونڈے اخلاق کے مالک ہوتے ہیں اور کیا ایک بد اخلاق نمازی کی بجائے ایک با اخلاق نمازی کو مثال نہيں بنایا جا سکتا ۔ تیسری بات یہ کہ کیا یہ سارے فلسفے انسان کو قیامت  کے دن اللہ کے قہر سے بچالینگے ۔ ہمارے دوست نے ہمیں مسکراکر دیکھا اور کہا کہ بھائی ناراض مت ہونا ۔ یہ باتیں ہماری کب تھیں یہ تو ہم تمہیں بے  نمازی متفلسفین کے افکار عالیہ سے روشناس کرارہے تھے !


پہلی بار


ثناءاللہ صادق تیمی 
اسسٹنٹ پروفیسر ، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض

ہم جناب عاصم سلفی کے کمرے میں ریاض کے اندر بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ باتوں باتوں میں  ہم  نے کسی کام کے بارے میں کہا کہ یہ تو ہم  پہلی بار کررہے ہيں  ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں آپ کو ایک اچھا موضوع دیتا ہوں " پہلی بار" ۔ اور بے نام خاں نے مجھے دزدیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ بیٹا سوچتا کیا ہے ۔ یوں بھی موضوعات کا اکال پڑا رہتا ہے ۔ سوچتے رہتے ہو ۔ کیا موضوع منتخـب کروں ! مامو کا شکریہ ادا کرو اور قلم توڑ دو ۔ میں بھلا بے نام خاں کی بات ٹال کب سکتا تھا اور یوں بھی اس کی بات غلط کب تھی کہ ٹال دیتا !

   اس موقع سے ہمیں یاد آئے ہمارے دوست جناب انظر حسین سلفی جو جے این یو میں پی ایچ ڈی  اسکالر ہيں ۔ ہم راجدھانی سے پہلی مرتبہ سفر کررہے تھے ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ ہم سے پہلے کرچکے تھے اور ہم نے ایک دوسرے سے خوب لطف لیا ۔ جس دن ہم ریاض پہہنچے ہماری اور ان کی فیس بک کے واسطے سے باتیں ہوئیں اور انہوں نے پوچھا تو کہیے ہوائی جہاز میں کیا گیا " پہلی بار" کا سفر کیسا رہا اور ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے ۔ بات اصل میں یہ ہے کہ راجدھانی کی مانند ہی یہ ہوائی جہاز سے ہمارا پہلا سفر تھا ۔

   ہمارے والد صاحب مٹھائی کی تجارت کرتے ہيں ۔ انہوں نے ایسا سسٹم بنایا ہوا تھا کہ ہمیں کبھی کوئی چیز خود سے نہيں خریدنی پڑتی تھی ۔ دوا اور راشن سے لے کر کپڑے اور جوتے چپل تک ہم ابو کے کھاتے پر بغیر پیسہ دیے اور بغیر دام معلوم کیے لے کر آتے تھے ۔ جب ہم دہلی پہنچے تو کئی چیزیں خود سے خریدنی پڑیں ۔ اس چکر میں اک آدھ بار بری طرح ٹھگے بھی گئے ۔ ہم نے اس موقع سے اپنے دوست بے نام خاں سے کہا کہ یار ہم  نے کبھی کچھ خریدا نہيں ہے ۔ بے نام خاں کو جیسے یقین نہ آیا ہو اور بولے بیٹا تو کوئي بات نہيں ۔ زندگی میں بہت کچھ پہلی بار کرنا پڑتا ہے ۔ تم پیدا ہونے سے پہلے پیدا ہوئے تھے کیا ؟  مدرسہ جانے سے پہلے مدرسہ گئے تھے کیا ؟ ماسٹر سے پہلی مرتبہ پٹنے سے پہلے پٹے تھے کیا ؟ ماں کی جیب سے پیسہ چرانے سے پہلے چرائے تھے کیا ؟  مولوی صاحب سے بہانہ بنانے سے پہلے بنائے تھے کیا ؟  پہلی مرتبہ تھوڑی دنیا کمانےکے لیے جھوٹ بولنے سے پہلے جھوٹ بولے تھے کیا ؟ جامعہ الامام ابن تیمیہ میں  داخلہ پانے سے پہلے داخلہ پائے تھے کیا ؟  فارغ ہونے سے پہلے فار‏غ ہوئے تھے کیا ؟  فلم دیکھنے سے پہلے دیکھے تھے کیا ؟ غزل لکھنے سے پہلے لکھے تھے کیا ؟  مضمون نگاری کرنے سے پہلے کیے تھے کیا ؟ تقریر کرنے سے پہلے تقریر کیے تھے کیا ؟ ایڈيٹر بننے سے پہلے بنے تھے کیا ؟ رشوت دینے سے پہلے اور اپنی جھوٹی تعریف کرنے سے پہلے کیے تھے کیا ؟ بیٹا ہر آدمی ہر کام ایک اسٹیج پر پہلی مرتبہ ہی کرتا ہے ۔ اس میں بات کا بتنگڑ بنانے کی کیا ضرورت ہے ۔ ابھی ماں کا دودھ نہيں پی رہے ہو ۔ کوئی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوا ہے ۔ جس طرح بقیہ سارے کاموں جیسے جھوٹ فریب ، سیاست ، مکاری ، دغا بازی ، ذوالوجھینی وغیرہ  میں اکسپرٹ ہو چکے ہو اس میں بھی ہو جاؤگے اور میں بے نام خاں کو بس دیکھتا ہی رہ گیا تھا ۔

    تھوڑی دیر بعد بے نام خاں پھر شروع ہو گئے ۔ بیٹا شادی بھی پہلی ہی بار ہوتی ہے ۔ امتحان بھی آدمی پہلی ہی بار دیتا ہے ۔ مرتا بھی پہلی ہی بار ہے ۔ اس لیے اب سے یہ پہلی بار پہلی بار کی رٹ لگانا بالکل بند کرو  ۔ تمہارے والد صاحب نے تمہیں " بوا" بنا کر رکھا ہوا تھا تو اس میں بھلا ہمارا کیا قصور؟  وہ تو بیٹے پڑھنے میں کچھ اچھے ہو کہ سارا نخرہ برداشت کرکے تمہارا ساتھ نبھاتے ہیں ورنہ تمہیں پوچھتا کون؟
  ایسے ہمارے دوست نے باتوں کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے یا شاید ہمیں ذرا خوش کرنے کے لیے یہ بھی کہا کہ زندگی میں  " پہلی بار" کی معنویت کم نہيں ہے ۔ اب جیسے دیکھو انگریزی میں کہا جاتا ہے
The first impression is the last impression.
اور یہ بھی کہ
Love at first sight.
اس لیے آدمی کو"  پہلی بار " بھی کافی ہوشیار رہنا چاہیے ۔ ایسے یہ فرسٹ امپریشن از لاسٹ امپریشن کا معاملہ کبھی کبھار الٹا بھی پڑ جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی حمکراں ذوالفقار علی بھٹو نے سوچا کہ فوج کی کمان کسی ایسے بے وقوف کو سونپتے ہیں جو ہمارے انگھوٹے تلے رہ کر کام کرسکے ۔ بھٹو نے فوجی سربراہوں کی میٹنگ بلائی ۔ جائزہ لیا ، دیکھا کہ سب سے بے ہنگم ضیاءالحق ہے جس کا ازار بند باہر طرف لٹک رہا ہے ۔ اس نے فیصلہ لیا کہ اسے ہی فوج کی سربراہی سونپ دیتے ہیں اور اسی ضیاءالحق نے بھٹو کو پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا ۔

   پہلی بار سے ہمارے گاؤں میں ہونے والا وہ جلسہ عید میلاد النبی یاد آگیا ۔ ہم چھوٹے بچے شیرینی کےلالچ میں ان محفلوں میں شریک ہونے جاتے تھے ، جو ہمارے گھر میں کبھی منعقد نہيں ہوئیں ۔ وہابی گھرانہ جو ٹھہرا تھا ! خیر مولانا کی تقریر کافی دلچسپ تھی ۔ مولانا بچوں کی تربیت پر تقریر کررہے تھے ۔ انہوں نے واقعہ سنایا کہ سلطانہ ڈاکو بہت بڑا ڈاکو تھا ۔ اس کی ہیبت سے لوگ کانپ کانپ جاتے تھے ۔ اس نے بہت سے لوگوں کو پریشان کیا ۔ حکومت نے اس کے پکڑنے پر بڑا انعام رکھا ۔ آخر کار جب وہ پکڑا گیا اور اس کے واسطے پھانسی کا حکم آيا تو حسب دستور اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی ۔ اس نے کہا کہ وہ اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہے ۔ اس کی ماں کو حاضرکیا گیا ۔ اس نے اپنی ماں کو قریب بلایا ۔ اپنا منہ اس کے کانوں کے قریب لے گیا ۔ لوگوں کو لگا کہ وہ ضرور کوئي راز کی بات کہنا چاہ رہا ہوگا ۔ لیکن یکایک لوگوں نے اس کی ماں کی دردنا ک چیخ سنی ۔ پتہ چلا کہ اس نے اپنی ماں کے کان کاٹ لیے ہيں ۔ پوچھے جانے پر اس نے کہا کہ اگراس نے ماں ہونے کا کردار ادا کیا ہوتا اور جس دن میں نے پہلی بار پڑوسی کے گھر سے مرغی کا انڈا چرایا تھا ، منع کردیا ہوتا تو آج دنیا مجھے سلطانہ ڈاکو کی حیثيت سے نہ جانتی ۔ مجھے پھانسی اس بڑھیا کی وجہ سے مل رہی ہے ۔ اس لیے کم سے کم اسے اتنی سزا تو ملنی ہی چاہیے ۔

   ہم اپنے پڑھنے کے شروعاتی زمانے میں کرکٹ اور فلم میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے ۔ ہمارے ایک بڑے اللہ والے صوفی ساتھی تھے ۔ ہم نے سازش رچ کر ان کو اپنے پیسوں سے ٹکٹ دلا کر ایک فلم دکھادی ۔ انہوں نے ہمارے کہنے اور ہمارے خرچ پر پہلی بار فلم دیکھا تھا ۔ آنے والے چھ مہینے میں وہ ہم سے کئی گنا زیادہ فلمیں دیکھ چکے تھے !! ہم نے پان ، کھینی اور سگریٹ کو کبھی منہ نہيں لگایا ۔ ہمارے اکثر دوست کہتے ہيں کہ پہلے پہل تو انہوں نے بس شوقیہ شروع کیا تھا ۔ دوستوں نے ہنسی مذاق میں شروع کروا دیا اور اب عالم یہ ہے کہ
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئي

   اچھے کام کی شروعات اگر نہیں ہو پائی ہے تو جتنی جلد ہوسکے آدمی کو" پہلی بار" کے مرحلے سے گزر جانا چاہیے لیکن اگر کام برا ہے تو اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ"  پہلی بار " کا وہ منحوس لمحہ کبھی نہ آئے کہ اس کے بعد آخری بار کا لمحہ تب تک نہيں آپاتا جب تک آدمی دوسرے کے کاندھوں پر قبرستان نہ پہنچ جائے !! 

بطحا ہر بیماری کا علاج ہے !!


ثناءاللہ صادق تیمی 
 استاذ جامعی بکلیۃ اللغات والترجمۃ ، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض

ہمیں سب سے پہلے شہر کے فائیو اسٹار ہوٹل مداریم کراؤن میں ٹھہرایا گیا تھا ۔ تین دن تک یونیورسٹی کی طرف سے ہم اس سہولتوں سے بھرے ہوٹل کے مہمان رہے ۔ اسی درمیان جناب عاصم سلفی نے ہمیں ریاض کے بعض علاقوں میں گھمایا ۔ ہمیں اپنے ڈوکومینٹس کا ترجمہ سرکار سے منظور شدہ کسی ادارے سے کرانا تھا ۔  ٹیلی فونک گفتگو کے لیے سیم لینا تھا اور ہندوستانی روپیوں کو سعودی ریال میں اکسچینچ کرناتھا ۔ باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ بطحا ہر بیماری کا علاج ہے ۔ تب ہم نے نہیں سوچا تھا کہ ہوٹل کی مدت ختم ہونے کے بعد ہمیں عاصم صاحب  کے  ہمراہ  ان کے ہی ذریعہ حاصل کیے گئے کمرے میں بطحا ہی کے اندر رہنا ہوگا ۔  اللہ انہيں بہتر بدلہ دے کہ اس اجنبی دیار میں ان کا تعاون بڑا ہی زبردست اور مسرت انگیز رہا ۔ سچی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مہمان نوازی کا وہ نمونہ پیش کیا کہ ہم نہال ہوگئے ۔ کھانے پینے کے انتظام سے زیاد ہ نئے جگہوں پر کسی آدمی کا آپ کے لیے ٹائم صرف کرنا بہت معنی رکھتا ہے ۔ اللہ کریم ان کی مرادوں کو پورا کرے کہ انہوں نے دامے درمے قدمے سخنے ہر سطح پر ہمارا ساتھ دیا ۔ ان کے ررم پارٹنر اور فواد بھائی کے والد محترم جو ہمارے مربی علامہ ڈاکٹر لقمان السلفی کے چچازاد  بھائی بھی ہيں ، ان کا سلوک بھی  یادگار رہا ۔ انہوں نے اپنے ایک ایک عمل سے بتلایا کہ پرانے لوگوں میں تہذیب ، اپنائیت اور خلوص کس طرح رچا بسا ہوتا ہے ۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ان دونوں حضرات کا کمرہ جمعرات  کی شام سے لے کر جمعہ کے دن کے ختم ہونے اور لگ بھگ  آدھی رات بیتنے تک ان کے علاقے کے لوگوں کے لیے مرجع خلائق کی حیثيت رکھتا ہے ۔ اس لیے  ہماری ملاقات جامعہ امام ابن تیمیہ سے متصل  علاقہ کے لوگوں سے خوب ہوئی ۔ اور محسوس یوں ہوا جیسے کہ ہم ایک بار پھر چندنبارہ (جامعہ امام بن تیمیہ ) پہنچ گئے ہيں ۔  اس بیچ بڑے بھائی جناب مطیع اللہ تیمی ، جناب امان اللہ تیمی  اور جناب  ماہتاب عالم تیمی کا تعامل بھی کافی والہانہ اور مشفقانہ رہا ۔سچی بات یہ ہے کہ ان حضرات کی بے پناہ محبتوں نے کسی بھی قسم کی اجنبیت کو ہم تک پھٹکنے نہيں دیا ۔

 ہمیں بتایا گیاتھا کہ ریاض میں ایک پرانی دلی بسی ہوئی ہے ۔ آنے کے بعد جب ہم نے ادھر ادھر نکلنا شروع کیا تو ہمیں لگا ہی نہيں کہ ہم دہلی سے باہر ریاض آگئے ہيں ۔ اسی طرح کی گلیاں اور اسی طرح کے لوگ ۔  ہاں صفائی ستھرائی کے معاملے میں دلی بیچاری زیادہ مسکین واقع ہوئي ہے ۔ ہم نے ایک آک جگہ عربی میں گفتگو شروع کی اور سامنے والے نے ہم سے اردو میں باتیں کرنی شروع کردی ۔ پتہ چلاکہ بڑے بڑے ہوٹلوں اور دکانوں میں بیٹھے زیادہ تر سیلس مین  ہندوستانی ، پاکستانی ، بنگلہ دیشی اور نیپالی ہی ہيں ۔  یہاں کیرالہ والوں کی مارکیٹ ہے ، بنگالیوں کی مارکیٹ ہے اور یوپی ہوٹل ہے ۔ دلی دربار ہے ۔  لوگ ہمیں دیکھتے ہی اردو میں شروع ہو جاتے ہیں ۔ دکانوں کے اشتہارات اردو میں ہیں ۔ ایک جگہ گنے کے رس کی دکان پر اشتہار اردو میں تھا ۔ لکھا تھا " یہاں گنے کا رس دستیاب ہے " ہم نے اپنے عزیز حفظ الرحمن تیمی سے کہا کہ یہ دکان کسی پاکستانی کی ہے ۔ انہوں نے کہا وہ کیسے اور ہم نے کہا کہ اگر کسی ہندوستانی کی ہوتی تو لکھا ہوتا " یہاں گنے کا رس ملتا ہے " ۔

    نماز پڑھنے کے لیے ہم اپنے کمرے سے باہر نکلے ۔ نماز ادا کرکے ہم جب لوٹے تو ایک آدمی نے ہم سے پان کے لیے پوچھا ۔ " پان چاہیے پان ؟" ۔ ہم نے کو‏ئی جواب نہيں دیا تو وہ کسی اور کی طرف متوجہ ہوئے ۔ بظاہر پان کی دکان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا ۔ پتہ چلا کہ پان اسی طرح بیچا جاتا ہے ۔ یہاں ہمارے کمرے کے بالکل نیچے مغرب کی طرف نیسٹو مارکیٹ ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ گوشت کے خانے میں انڈین مٹن اور سبزی کے خانے میں انڈین اونین کے ٹيگ لگے ہوئے ہيں ۔ نیسٹو میں ہم کچھ خریدنے کے لیے سوچ رہے تھے ۔ بسکٹ والے حصے کی طرف گئے تو ایک بھائی نے بڑی محبت سے کہا " لیجیے ، اکسپائری ڈیٹ ابھی نہیں آئی ہے ، صحت کے لیے مفید ہے اور قیمت مناسب ہے " باتیں ہوئيں  پتہ چلاکہ جناب ہندوستان میں مہاراشٹرا سے ہیں اور جے این یو سے اچھی طرح واقف ہيں ۔ ہم نے بتایا کہ ہم امام حرم کے اردو مترجم کے طور پر آئے ہيں تو بہت خوش ہوئے اور دعائیں  دیں ۔

  ہمیں ہمارے مربی علامہ ڈاکٹرمحمد  لقمان السلفی نے  توب سلوانے اور غطرہ باندھنے کا مشورہ دیا تھا ۔ عاصم صاحب نے سالم صاحب کے یہاں اپنی گاڑی سے لے جاکر سلوایا بھی اور ہمیں لے جاکر تین دن کے بعد توب لے کر آئے بھی ۔  ہمیں غطرہ خریدنا تھا ۔ اس موقع بڑے بھائی ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی کی صلاحیتوں کا لوہا ماننا پڑا ۔ آپ نے بڑی خوبصورتی سے مناسب قیمت میں پائجامہ ، گنجی اور غطرہ خرید لیا  اور دکاندار کو پریشانی بھی نہیں ہوئی ۔

    ہمارے بار ے میں پتہ چلا تو کافی لوگوں نے ٹیلی فون سے رابطہ کیا اور بہت سے لوگ ملنے بھی آئے ۔ ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی اور حفظ الرحمن تیمی کے گاؤں کے کافی لوگ یہاں رہتے ہیں ۔ ان میں کئی لوگ ملنے آئے ۔ ان کے ساتھ بھی ہمارا ٹائم بڑا اچھا گزرا ۔ ہمارے دوست جناب آفتاب احمد منیری کے بڑے  بھائی  جناب اشتیاق  احمدعرف مونا آدم بھی تین تین بار ملنے آئے ۔ ہمارے دوست ہی کی مانند نیک اور دینی حمیت سے سرشار ۔ اللہ انہیں بہتر بدلہ دے ۔ اور ان کے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔  جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں زیر تعلیم تیمی اخوان نے فیس بک اور ٹیلی فون رابطہ کے ذریعہ اپنی خوشیوں کا اظہار کیا اور ہم تیمی اخوان سے ملنے کی خواہش   کا اعادہ کیا ۔ اللہ انہيں بھی بہتر بدلوں سے نوازے ۔

    زیادہ تر بھائیوں نے دہلی میں ہونے والےاسمبلی الیکشن پر  اپنی توجہ دکھلائی ۔ پتہ چلا کہ زیادہ تر لوگ" آپ "کے فیور میں ہیں لیکن بی جے پی کی جیت کو خارج از امکان نہيں سمجھتے ۔ ہمیں لگا کہ اس اعتبار سے بھی ہم دہلی ہی میں ہيں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ دہلی پر اسی کی حکومت بنے جو پورے طور پر اہالیان دہلی اور ملک کے جملہ باشندگان کے لیے  بہتر ہو ۔ آمین ۔ 

شخصیت کی تعمیر ، مغرب اور ہم


ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی موبائل : 9560878759

اس طرف آکر مغرب میں خاص طور سے شخصیت کی تعمیر، طریقے اور وسائل  پر کافی کچھ لکھا گیا ہے ۔ اس طرح کی کتابوں کو بالعموم لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور نئي نسل کے درمیان ایسے لوگوں کو بڑی مقبولیت ملی ۔ مغرب میں تو کچھ پڑھے لکھے لوگوں نے اسے باضابطہ اپنا پیشہ بنا لیا اور انسپریشنل اسپیکر ( ہمت بڑھانے والے مقررین ) کے طور پر انہیں بڑی کامیابی بھی ملی ۔ اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کو نئی نسل نے بڑی توجہ سے پڑھا اور یہ کتابیں عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ بکنے والی کتابوں کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب رہيں ۔ ایسے مصنفین میں شیو کھیرا اور ڈیل کارنیگی کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے ۔

      ہندوستان میں اروندم چودھری نے
Count your chicken before they hatch
کے زیر عنوان پوری کتاب ہی لکھ دی ۔ اس کتاب کو بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئي ۔ حالیہ دنوں میں انگریزی ناول نگار اور پاپولر لیٹیریچر میں کافی اہم نام کی حیثيت رکھنے والے چیتن بھگت بھی اس موضوع پر لگاتار لکھ رہے ہیں اور بول رہے ہیں ۔ اس طرح کی کتابیں بالعموم ان ناموں سے بک اسٹالوں پر مل جائينگیں ۔
You can win, power of positive thinking, how to stop worrying and start living, how to make friends and Influence people.

اسی طرح انہیں موضوعات پر ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ اور نامور سائنسداں اے پی جے عبدالکلام کی کتابیں بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں ان میں ان کی آپ بیتی ونگس آف فائر اور اگنائیٹیڈ مائنڈس کافی اہم ہیں ۔

      شخصیت کی تعمیر کے اوپر لکھی گئی کتابوں میں عرب عالم دین اور اسکالر عائض القرنی کی کتاب "لاتحزن " (غم نہ کریں) اور عبدالرحمن العریفی کی کتاب " استمتع بحیاتک "( زندگی کا لطف لیجیے ) بطور خاص کافی د لچسپ اور مفید ہیں ۔ یہاں اس بات کا ذکر شاید فائدے سے خالی نہ ہو کہ لگ بھگ ان تمام مذکورہ کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ کتابیں مختلف ٹائٹل کے ساتھ مارکیٹ میں اویلیبل بھی ہيں ۔

   پہلے پہل تعمیر شخصیت سے متعلق ان کتابوں سے ہمارا رابطہ اس وقت ہوا جب ہم اعلا تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ امام ابن تیمیہ کی تدریسی مشغولیت سے مستعفی ہوکر جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں داخل ہوئے ۔ ہمارا داخلہ گریجویشن کے سال دوم میں ہوا تھا ۔ عربی تو ہمیں آتی بھی تھی لیکن انگریزی میں ہم بہت حد تک کمزور تھے ۔ ہمارے چند سینیئرز نے جہاں انگريزی اخـبارات کے مطالعے پر زور دیا وہیں شخصیت کی تعمیر سے متعلق لکھی گئی ان کتابوں سے بھی استفادے کی بات کہی ۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس سے ہماری سوچ کو وسعت بھی ملے گی اور انگریزی بھی اچھی ہو جائے گی ۔ ہم نے اپنے سینیئر دوستوں کی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا اور ہمیں اس اعتراف میں کوئی جھجھک نہيں کہ واقعی ان کتابوں نے انگریزی ٹھیک کرنے میں بڑی مدد دی ، فکری سطح پر بھی ان کتابوں نے بڑا ساتھ دیا لیکن ان کتابوں کے پڑھنے کے بعد اسلام کی واقعیت اور حقانیت پر ہمارا ایمان اور بھی مضبوط ہوگیا ۔ ہمیں  ایسا لگا جیسے شیو کھیرا ، ڈیل کارنيگی اور تمام دوسرے مصنفین نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو سامنے رکھ کر اور احادیث کے اندر کتاب الآداب کے ابواب پڑھ کر بس نئے حالات اور اپنے یہاں کے واقعات کی روشنی میں انہیں لکھ دیا ہے ۔ ان تمام احساسات کو اس وقت اور بھی تقویت ملی جب عبدالرحمن العریفی کی " استمتع بحیاتک " اور عائض القرنی کی " لاتحزن " نگاہوں سے گزری ۔ ان کتابوں میں بالعموم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی شخصیات کی زندگی سے حوالے لیے گئے ہيں ۔  ملک کی ایک مایہ ناز یونیورسٹی کے اندر مجھے قوم و ملت کی تعمیر میں مسلم نوجوانوں کے کردار پر بولنا تھا ۔ میں نے سیرت رسول کی روشنی میں ان کا کردار طے کرنا چاہا ۔ بیچ بیچ میں میں نے اپنی باتوں کو مضبوط اور مؤثر بنانے کی غرض سے انگریزی مصنفین اور ان کے اقوال کا حوالہ بھی دیا ۔ میں نے پایا کہ لوگ انگریزی مصنفین کے اقوال پر زيادہ دھیان دے رہے ہيں ۔ در اصل ہم علماء نے دین کو جس طرح ماورائی بنا کر پیش کیا ہے اس سے عام مسلمان یہی سمجھتا ہے کہ یہ تو بس عبادتوں کا مجموعہ ہے اور سیرت رسول کا مطلب ہے کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے ہاتھ چوم لو اور زیادہ سے زیادہ درود پڑھ لو ۔  اسے اگر فکری زوال سے تعبیر نہ بھی کیا جائے تو بھی یہ ہماری مرعوبیت کا اشاریہ ضرور ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ یورپ بہت سارے معاملات میں ہم سے بہتر ہے اور ان سے استفادہ کرنا بھی ضروری ہے لیکن جو چیزیں ہمارے پاس ہیں اور زيادہ بہتر صورت میں موجود ہیں اگر ہم ان کو پانے کے لیے بھی یورپ کی طرف نگاہ دوڑائیں تو بہرحال اسے بہت اچھی صورت حال سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ۔
   شخصیت کی تعمیر سے متعلق یورپ کے اندر ان کتابوں کی مانگ اس لیے بھی زيادہ بڑھی کہ وہاں کے سماجی اور تمدنی حالات اس کا تقاضہ کررہے تھے ۔ نئی نسل شراب نوشی ، عیاشی ، بد مستی اور بے مطلب کی مٹرگشتی سے تنگ آکر تنہائیوں کا اسیر ہورہی تھی اور مختلف قسم کے امراض ان کا مقدر تھے ایسے میں ان کتابوں نے جیسے انہیں امید کی کرن دکھائی اور جینے پر ابھارا ۔ اس لیے وہ بہت تیزي سے ان کتابوں کی طرف لپکے ۔ دراصل یہ امراض بھی یورپ کے پیدا کردہ تھے اور دوا کی تلاش بھی انہیں ہی کرنی تھی سو انہوں نے کیا ۔ آج پوری دنیا میں یورپ اپنے انہیں امراض کو پھیلانے کی کوشش کررہا ہے ۔ اس کی بھرپور کوشش ہے کہ ہر جگہ کے تمدنی اور معاشرتی حالات ویسے ہی ہو جائيں جیسے ان کے یہاں کے ہيں تاکہ ان کے ذریعہ تیار کردہ یہ سارے نسخے کارآمد ہو سکیں اور ان کے مفاد کی دکان کساد بازاری کا شکار نہ ہو ۔ ہم مسلمانوں کے لیے سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ الحمد للہ ہمارے دین نے ہمیں جو اصول دیئے ہيں ، جو تعلیمات دی ہيں اور جس طرح سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اسوہ چھوڑا ہے ان تمام پر اگر ہم عمل پیراں ہو جائیں تو خود ہماری معاشرتی زندگی لوگوں کے لیے نسخہ شفا ہو جائے ۔

   یہ بات جان کر آپ کو تعجب ہو تو ہو لیکن یہ سچ ہےکہ ان کتابوں کے اندر وہی باتیں بتلائی گئی ہیں جو خود ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور ان کی تعلیمات کا خلاصہ ہے جیسے اچھی نیت ، سچ پر اصرار ، مثبت فکر ، صبر ، مسکراہٹ ، ایمانداری ، ایثار، نفع رسانی  اور اس طرح کے دوسرے اوصاف حمیدہ ۔ اب پوری دنیا ان تمام باتوں کو اس لیے قبول کرنے کو بے قابو ہے کہ ان باتوں کو کامیابی کی ضمانت کے طور پر دلکش انداز میں پیش کیا جارہا ہے ورنہ بھلا ہم میں کون ایسا آدمی ہوگا جو ان تمام حقائق کو اسلامی اصول و اخلاقیات کا باضابطہ حصہ نہ سمجھتا ہو ۔ ہم نے جب انہیں خیالات کا اظہار اپنے ایک تعلیم یافتہ دوست سے کیا تو ان کی آنکھوں میں چمک آگئی اور وہ بھی میری ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولے کہ خود میرا ذاتی تجزیہ یہی ہے ۔ ایسے میں کیا ضرورت اس بات کی نہيں ہے کہ سیرت ، قرآن حکیم اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں باضابطہ پلاننگ کے تحت اس طرح کی کتابوں کی سیريز تیار کی جائے ۔ محمد الغزالی کی فقہ السیرۃ اس سلسلے میں ایک قابل ذکر کتاب ہے ۔ ہر چند کہ ان کے بعض نتائج سے اختلاف کی بھر پور گنجائش ہے لیکن صحیح الفکر علماء کے کرنے کا کام یہ ضرور ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر کتاب وسنت کی روشنی میں خامہ فرسائی کریں ۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں بہتر توفیق سے نوازے آمین ۔

   

یہ سعودی عرب کا دارالسلطنت ریاض ہے !


ثناءاللہ صادق تیمی 
 اسسٹنٹ پروفیسر ، امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی ریاض ، سعودی عرب

امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی ریاض کے اندر کلیۃ اللغات والترجمۃ میں  بحیثيت اسسٹنٹ پروفیسر جوائننگ لینے کے بعد ابھی ہم نے اس شہر کے اندر چند ایام ہی بتائے ہيں ۔ ہمارا اصل کام تو ائمہ حرم مکی یا مدنی  کے اردر مترجم کی حیثيت سے خدمات انجام دینا ہے لیکن ہمارا تعاقد امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے تحت عمل میں آیا ہے ۔ جس کی وجہ سے ابھی ہم ریاض ہی میں ہیں ۔ ان چند ایام میں کچھ ایسے مشاہدات ہوئے ہيں جنہيں شیئر کرنے کی طبعیت ہورہی ہے ۔

    پہلے دن سے ہی جب ہم نے ریاض میں قدم رکھا ہمیں جتنے ٹیکسی والے ملے وہ سب کے سب پاکستانی ملے ۔ سن رکھا تھا کہ پاکستانی بڑے بد اخلاق اور ترش ہوتے ہيں ۔ ہمارا تجربہ اس کے بالکل برعکس یہ رہا کہ وہ سب کے سب نارمل انسان اور مسلمان کی مانند اچھے ، سلجھے ہوئے اور شریف انسان نظر آئے ۔ بلکہ آج تو ایک بزرگ پاکستانی ٹیکسی ڈرایور سے مل کر ہم اخوان ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی ، جناب حفظ الرحمن تیمی اور میں (ثناءاللہ صادق تیمی ) بالکل باغ باغ ہوگئے ۔ اس تجربے سے ہمارے اس بھائی کی بات کی صداقت سمجھ میں آئی جس نے جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ کے اندر ہم سے عربوں کے بارے میں پوچھا تھا اور جب ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی نے انہيں بتایا تھا کہ عرب بڑے اچھے انسان ہيں تو انہوں نے کہا تھا کہ ہر جگہ اچھے اور برے انسان ہوتے ہيں ۔

   ہم نے ریاض کے اندر ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور نیپال کے لوگوں کو بڑی تعداد میں پایا ۔ برصغیر ہندو پاک سے تعلق رکھنے والے یہ حضرات مختلف قسم کی نوکریوں سے منسلک ہيں ۔ یہاں کی عام زندگی پرسکون ، مطمئن اور فارغ البال ہے ۔ خوشحالی کے اثرات کھانے پینے کی اشیاء پر بالکل واضح ہیں  ۔ ہمارے قلم کار دوست جناب انظار احمد صادق کے مامو اور اس نسبت سے ہمارے مامو جناب عاصم سلفی نے بتایا کہ یہاں کے عام لوگوں  کا لیونگ اسٹینڈرڈ بھی ہندوستان کے امراء کے لیونگ اسٹینڈرڈ سے کم نہيں ہے ۔ عام لوگ بھی اچھا کھاتے پیتے اور بہتر رہائش اختیار کرنے کی سکت رکھتے ہیں ۔  زیادہ تر جگہوں پر گفتگو میں پریشانی محسوس نہيں ہوئي کہ ایک تو ہمیں الحمد للہ عربی آتی ہے اور دوسری یہ کہ یہاں اردو آبادی بہت ہے اور تیسری یہ کہ خود عرب بھی بعض اردو الفاظ کے استعمال کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ہم نے پچھلے ایک ہفتہ میں فائیو اسٹار ہوٹل سے لے کر عام بازاروں اور شاپنگ مول تک میں کسی خاتون کو بے پردہ نہيں دیکھا ۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ خواتین ضروریات زندگی زندگی کے لیے باہر نہيں نکلتیں ۔ وہ باہر نکلتی ہیں لیکن مکمل اسلامی لباس میں ۔

    ایک چیز جس نے دل کے اندر خوشیوں کی پوری دنیا آباد کردی ، وہ ہے آذان ہوتے ہی ساری دکانوں کا بند ہو جانا اور زیادہ تر لوگوں کا مسجد کی طرف چل پڑنا ۔ ایک دوسری چیز جس کا ذکر فائدے سے خالی نہ ہو یہ نظر آئی کہ یہاں لوگ جماعت اولی کے چھوٹنے کے بعد تنہا تنہا نماز نہيں ادا کرلیتے بلکہ وہ جماعت ثانیہ کا اہتمام کرتے ہیں ۔ نماز سے متعلق تھوڑی بہت کوتاہی کا مشاہدہ اجانب کے اندر ہی ہوا ۔ عرب بالعموم نماز کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اجانب یہاں غیر عرب کو کہتے ہیں ۔ نماز کی بات چل رہی ہے تو بتاؤں کہ یہاں آج ایک بڑا عجیب منظر دیکھنے کو ملا ۔ ہم عشاء کی نماز کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکل کر مین سیڑھی تک پہنچے تو دیکھا کہ لوگ بے تحاشا بالکل لتے پتے لے کر اندر بلڈنگ کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہيں آیا اور ہم بھی ان کے ہمراہ بھاگ کھڑے ہوئے لیکن اپنے روم کے دروازے پر کھڑے لوگوں سے ہم نے استفسار کیا کہ آخر باہر ایسا کیا ہوا کہ آپ لوگ یوں سرپٹ بھاگ رہے ہیں ۔ اور ہمیں جواب ملا کہ باہر مطوع آگئے ہيں ۔ اول وہلہ میں تو ہماری سمجھ میں کچھ نہيں آیا لیکن پھر فورا ہی ہمیں اپنے بعض دوستوں کی وہ باتیں یاد آئيں کہ یہاں ھیئۃ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کافی سرگرم ہے ۔ خیر ہم نے ان بھائیوں سے اللہ سے ڈرنے ، قیامت کے دن کے حساب کا خیال کرنے اور اپنا جائزہ لینے کی تلقین کی اور ہم نماز کے لیے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے ۔ باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سارے کے سارے لوگ مسجد کی طرف رواں دواں ہیں اور جیسے پورے بازار پر سناٹے نے پہرہ دے دیا ہے ۔

   آج ہی خادم الحرمین الشریفین ملک عبداللہ بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی موت پر تعزیت کے لیے امریکی صدر براک اوباما ہندوستان سے سیدھے ریاض آئے ہيں ۔ ہم نے ان کی آمد پر سیکوریٹی کا اعلا اور زبردست انتظام دیکھا ۔ قدم قدم پر سیکوریٹی کی گاڑیاں چم چم کررہی تھیں ۔ لیکن حیرت میں ڈالنے والی بات ہمارے لیے یہ تھی کہ اتنی سخت سیکوریٹی فراہم ضرور کی گئی لیکن عام آدمی کے لیے راستہ بند نہیں کیا گیا ۔ جس راستے سے اوباما کو آنا تھا اس سے صرف دس پندرہ منٹ پہلے  ہم کرایے کی ٹیکسی سے گزرے اور ہمیں کوئي پریشانی نہیں ہوئی ۔ ہمارے لیے یہ حیرت نا ک ہونے کے ساتھ ساتھ کافی مسرت انگیز تجربہ بھی تھا کہ ہمیں اپنے ملک میں معمولی وزیروں کی آمد پرروڈ بلاک کیے جانے کی وجہ سے ہونے والی اذیتوں کا احساس ہے ۔

    ہمارے ریاض آنے کے دو تین  دن کے بعد ہی خادم الحرمین الشریفین ملک عبداللہ کا انتقال ہوگیا ۔ ہمارے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اتنی سنجیدگی ، سادگی اور آسانیوں سے ان کی تجہیز و تکفین عمل میں آئے گی ۔ جمعہ کے خطبے میں امام جمعہ نے صرف دو سے تین جملے کے اندر ان کی موت کی خبر دی ، ان کے حسنات قبول کرنے اور سئیات سے درگزر کرنے کی اللہ سے دعا کی اور عام لوگوں کو آخرت کی تیاری پر ابھارا ۔ جس امن و شانتی کے ماحول میں نئے بادشاہ کے لیے بیعت لی گئی اور سارا معاملہ طے پاگیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہی ہے ۔ دار السلطنت کے اندر ہم نے جن جن علاقوں کا دورہ کیا ان میں  کہیں کہیں پر نئے بادشاہ کی تصویر کے ساتھ بس یہ جملہ لکھا نظر آیا کہ نبایعکم علی کتاب اللہ وسنۃ رسولہ ۔


   از راہ تذکرہ یہ بھی بتاؤں کہ آج جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے اندر ہمیں دو ہندوستانی علماء سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ ایک جہاں محبت ، تواضع اور وقار کی تصویر نظر آئے وہیں دوسرے کا انداز ، طرز خطاب اور احساس ترفع ہم دوستوں کو ایک آنکھ نہ بھایا ۔ چائے خانے میں باتیں کرتے ہوئے ہم نے جہاں متواضع عالم کی بابت دعائیہ کلمات کا استعمال کیا وہيں احساس ترفع کے بوجھ تلے دبے حضرت کے لیے ہم دوستوں کی زبان پر اگر دعائیہ کلمات تھے تو یہ کہ اللہ یھدیہ ۔ ہم نے سوچا کہ بس ایک مختصر ملاقات میں ایک آدمی نے دعا کا خود کو مستحق بنا لیا اور دوسرے نے ناراضگیوں کا ۔ سوچیے تو انسان کا ایک ایک لمحہ لمحہ کتنا معنی رکھتا ہے اور جب ہم انسانوں کی نظر میں اس کی اتنی اہمیت ہے تواس اللہ کی نظر میں اس کی کیا اہمیت ہوگی جو وقت کی قسم تک کھاتا ہے ۔ فاعتبروا یا اولی الابصار !!!