الأحد، مارس 08، 2020

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے


     
             شمشیر داؤد تیمی، مدنی

یہ سچ ہے کہ زندگی موت کا پیغام لے کر آتی ہے، انسان جس دن پیدا ہوتا ہے اسی دن سے اس کی زندگی کم ہونی شروع ہوجاتی ہے، بظاہر وہ خوش ہوتا ہے کہ اس کی زندگی بڑھ رہی ہے، لیکن حقیقت میں اس کی زندگی کے لمحات میں کمی واقع ہورہی ہوتی ہے ، شاعر کہتا ہے:
          جس قدر یہ بڑھتی ہے اس قدر یہ گھٹتی ہے 
          اس   زندگی کا  بھی  عجب  الٹا  حساب   ہے 
 موت ایک ایسا پیالہ ہے جسے ہر نفس کو پینا ہے اور قبر ایک ایسا دروازہ ہے جس میں ہر نفس کو داخل ہونا ہے ، عربی شاعر کہتا ہے :
                     الموت قدح کل نفس شاربه      والقبر باب كل  نفس داخله
پانچ جنوری کی شام میں سوشل میڈیا کے توسط سے جب یہ خبر موصول ہوئی کہ ہم سب کے مربی بانی جامعہ امام ابن تیمیہ علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ اب ہمارے بیچ نہیں رہے تو دل غم و اندوہ میں ڈوب گیا، آنکھیں بھر آئیں ، بدن میں ایک بے چینی سی ہونے لگی ، لیکن قضا و قدر پر ایمان رکھتے ہوئے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور زباں پہ دعائیہ کلمات جاری ہوگیے .

موت برحق ہے لیکن بعض موت ایسی ہوتی ہے جس سے امت کو کافی خسارہ ہوتا ہے، آپ ایک عہد ساز شخصیت کے مالک تھے، آپ کے جانے سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا،آپ کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی بھرپائی مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ، آپ اپنے آپ  میں ایک انجمن تھے ، اپ گوناگوں شخصیت کے مالک تھے ،قیمتی تصانیف، بے شمارعلمی خدمات، تدریسی خصوصیات، اعتدال فکر، علوم حدیث و قرآن اور ان سے متعلقہ مضامین کے علاوہ عصری معلومات اور دورِ حاضر کی علمی تحقیقات کے حوالے سے آپ کا مقام کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا، آپ بیک وقت محقق ، محدث ، مفسر ، مؤرخ، فقیہ اور بے مثال ادیب تھے ، یہ تما چیزیں آپ کی شبانہ روز کی محنت، حسن عمل اور اخلاص نیت کی منہ بولتی تصویر تھی، جو ہم جیسے ہزاروں انسانوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی تھی ، آپ کئی زبانوں کے مالک تھے عربی اور اردو میں آپ کی بہت ساری تصنیفات ہیں، آپ جب لکھتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ آپ خود اس زبان کے خالق تھے ،مذکورہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر آپ کے حوالے سے یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ آپ کا ادبی کارنامہ ہی آپ کی شخصیت کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ جہاں آپ کی تحریر علوم ومعارف کی آئینہ دار ہوا کرتی تھی، وہیں اس میں ادب کے ستھرے ذوق کا بھی پتہ چلتاتھا ۔ آپ قلم کی روانی اور ذہن وفکر کی بلند پروازی میں یگانہ روزگار تھے ، جس موضوع اور عنوان پر قلم اٹھاتے تھے ،ایسا معلوم ہوتا کہ سمندر ہے، جوش ماررہا ہے۔ اس کی تازہ مثال آپ کی خود نوشت " کاروان حیات " میں دیکھی جاسکتی ہے، آپ کی ہر تحریر میں بے ساختگی، زور استدلال اور سوز وگداز کچھ ایسا موجود ہوتا تھا کہ ربطِ کتاب ٹوٹنے پر بھی کتاب چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا تھا، آپ کی تحریر میں گلشنِ ادب کی جہت بندی اور سحرآفرینی کا اظہار ہوتا تھا ، تحریر کا مخصوص لب ولہجہ خود آپ کا ہوتا تھا،آپ ایک خاص طرز وانشا کے مالک تھے ، اس میں آپ کسی کے مقلد نہیں تھے ، بلکہ خود اس کے موجد تھے، وضاحتِ عبارت، متانتِ فکر نے آپ کی تحریروں کو ادبی وعلمی دونوں حلقوں میں اعتبار بخشا تھا ۔ 

عربی اور دوسری زبانوں کے علاوہ اردو زبان میں آپ کی درجنوں کتابیں ہیں ،جن میں آپ کے ادبی کمالات دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں ،تیسیر الرحمان لبیان القرآن , جو کہ قرآن مجید کی ایک تفسیر ہے، لیکن جس خوش اسلوبی سے اس میں آپ نے اردو زبان و ادب کا استعمال کیا ہے وہ صرف آپ ہی کا خاصہ تھا ، یہی وجہ ہے کہ اس تفسیر نے قلیل مدت میں عرب و عجم کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے.

 جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی زندگی میں علامہ رحمہ اللہ کی خود نوشت "کاروان حیات " جب شیخ رحمہ اللہ کی جانب سے ہم تیمی اخوان کو ہدیہ کے طور پر دی گئی ، تو میں اس کتاب کو شروع سے اخیر تک پڑھ گیا ، پڑھنے کے بعد میں نے اپنے احساسات و جذبات کو اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھ کر شیخ رحمہ اللہ کو پرسنل واٹس ایپ کیا ، جس پر انہوں نے خوب ساری دعاؤں سے نوازا ، اور لکھتے رہنے کا مشورہ دیا ، جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ اردو زبان میں ایک میگزین کو میں ایڈٹ بھی کرتا ہوں تو خوش ہوئے اور بڑے تیمی اخوان کی مثالیں دینے لگے جن سرفہرست ڈاکٹر خالد انور ، ڈاکٹر ظل الرحمان اور شیخ ثناء اللہ صادق تیمی وغیرہ کا آپ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ، جس سے تیمی بیٹوں کے تئیں آپ رحمہ اللہ محبت صاف جھلک رہی تھی .

آپ اپنے تیمی بیٹوں سے بہت محبت کرتے تھے ، آپ جب بھی جامعہ تشریف لاتے اپنے بچوں سے ملنے کی کوشش کرتے، ان کی تعلیم و تعلم کو جاننے کے لیے درسگاہ تک پہنچ جاتے، ایک مرتبہ ہم لوگ شیخ الحدیث وکیل مدنی حفظہ اللہ سے بخاری کا درس لے رہے تھے کہ آپ ہمارے کلاس میں آدھمکے اور پوری گھنٹی بیٹھ کر ہم لوگوں کو بخاری پڑھاتے رہے ، اس ناحیے سے آپ رحمہ اللہ ہمارے باضابطہ استاذ بھی تھے ، درس کے بعد ہم لوگوں نے مزید کلاسوں کا مطالبہ کیا جس پر آپ نے ان شاءاللہ کہا ، لیکن اس کے بعد وقت نے ساتھ نہ دیا. 

آپ بلند ہمت اور باحوصلہ انسان تھے ،  حصول مقصد کے لیے اپنے مشن میں کس طرح لگے رہناچاہیے وہ ہمیں آپ رحمہ اللہ کی شخصیت سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے فاصلوں کی پرواہ کیے بغیر اللہ کی توفیق اور جہد مسلسل سے اپنے خواب کو شرمندہء تعبیر کیا.  کیوں کہ آپ کو معلوم تھا کہ..... 
         اسے کیا ملے گی منزل رہ زندگی میں رزمی 
         جو قدم قدم پہ پوچھے ابھی کتنا فاصلہ ہے 
اللہ ہم سب کے روحانی والد کے بشری لغزشوں کو معاف فرمائے ، ان کے سیئات کو حسنات میں تبدیل کردے، حملہ لواحقین کو صبر کی توفیق بخشے اور آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین.

ليست هناك تعليقات: