الثلاثاء، مارس 10، 2020

ایک جہاندیدہ روشن ضمیر مفکر , ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ


عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی   
  
دس رجب بروزجمعرات عجم وعرب کے معروف محقق ومصنف ماہرعلوم دینیہ بانی جامعہ امام ابن تییمہ ومرکزالامام ابن بازللدراسات الاسلامیہ ہم سب کے محترم ومشفق ڈاکٹر محمد لقمان سلفی (رحمہ اللہ ) کی وفات کی خبرملی ، زبان پہ “انا للہ وانا الیہ راجعون ” کا وردجاری ہوگیا۔

بلا شبہ موصوف کی وفات سے علمی دنیا میں ایک بڑا خلاء پیداہوگیاہے ، جسے پر کرنا بڑا ہی مشکل ہے ، آپ نے پوری دنیامیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں سوگوار چھوڑاہے، امام حسن بصری کے بقول: كانوا يقولون: موت العالم ثُلْمَة في الإسلام لا يسدُّها شيء ما اختلف الليل والنهار”(رواہ الدارمی واحمد فی الزھد) “اسلاف کہاکرتےتھے کہ ایک عالم کی موت اسلام میں ایک خلاء ہے جسے رہتی دنیاتک کوئی چیز پر نہیں کرسکتی “۔ 
یوں تو دکتور موصوف عرصہ سے بیمار چل رہے تھے اور کئی بار ہاسپیٹل میں داخل کئے گئے ، لیکن موت جو ایک حقیقت ہے وقت مقرپہ آنی ہی تھی ۔ نعلّل بالدّواء إذا مرضنا – فهل يشفي من الموت الدّواء
(بیماری میں تو ہم دوائیں لیتےہیں ، مگر دواموت سے شفاء کہاں دیتی ہے )

صوبہ بہارکے ضلع چمپارن کی مردم خیز سرزمین پہ علم وادب اور دعوت وارشاد کا وہ عظیم منارہ آج ڈاکٹرموصوف کی محنت ، لگن، جستجو، علم وادب سے شغف اور دعوت دین سے بےپناہ محبت والفت کا جیتاجاگتا ثبوت ہے ۔ ہزاروں کی تعداد میں علماء ومشائخ اور طلباء وطالبات جنہوں نے ان کے سرچشمہ علم وعرفان سے فیض پایاہے ، ان پر یہ نہایت ہی مشکل گھڑی ہے ، ان پہ جوگذرتی ہوگی ‏ بیان سے باہر ہے ، لیکن چونکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اس لئے صبروتواصی بالصبر اور قضاء وقدرپہ ایمان ایک مومن کا فريضہ ہے ۔

سچ پوچھو توآپ کی طرف سے بہار خصوصا چمپارن کی سرزمین پہ جامعہ اور مرکزکا قیام امت پہ فرض کفایہ کی مکمل ادائیگی ہے۔
ہزاروں علماء ومشائخ اور طلباء کی ٹیم تیارکرنا، سیکڑو ں کتابوں کی تصنیف ، تالیف ، تحقیق اور طباعت اور امت میں صحیح دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ رفاہ عامہ کا بے لوث کام وہی آدمی کرسکتاہے جو اللہ رب العزت کی خصوصی توفیق سے نوازہ گیاہو ۔

موصوف سے میری پہلی ملاقات جامعہ سلفیہ میں اس وقت ہوئی تھی جب میں متوسطہ کا طالب تھا اور آپ ایک کانفرنس میں خصوصی مدعوکی حیثیت سے تشریف لائے تھے اور ایک مجلس کی صدارت بھی کی تھی ، جامعہ کے دارالضیافہ کے پاس میری ملاقات ہوئی دعاء وسلام کے بعد میں نے اپنا تعارف کرایا یہ جان کر کہ میں انہیں کے علاقے کا ہوں بہت خوش ہوئے ، اور دعائیں دیں ۔ اور پھر ان سے دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب میں انہیں کے جامعہ کے شعبہ تالیف وتصنیف ” مرکزالامام ابن بازللدراسات الاسلامیہ” میں بحیثیت رسرچ فیلو انہیں کی طرف سے متعین کیاجاچکاتھا ۔

غالبا سنہ 1996 – 1997 ء کی بات ہے جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت کے بعد مدرسہ احیاء السنہ بنارس میں بحیثیت مدرس کام کررہا تھا ، اس وقت کئی اداروں سے تدریس کی آفرآئی تھی ، لیکن ہمارے شیخ ومربی شیخ احمد مجتبی سلفی جودکتور محترم کے نہایت ہی قدردانوں میں سے ایک ہیں ایک اشتہار کی طرف رہنمائی کی جو مرکزالامام ابن بازللدراسات الاسلامیہ میں باحث کی ضرورت سے متعلق تھی اور یہ تاکید کیاکہ یہیں کے لئے اپلائی کروں ، حسن اتفاق کہ اسی موقع سے مرکزکے مشرف شیخ محمدارشد فہیم مدنی صاحب جامعہ کی ایک کانفرس میں شرکت کی غرض سے جامعہ سلفیہ تشریف لائے ہوئے تھے ، جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی ڈاکٹر موصوف کو اپنے کاغذات بھیجنے کی تاکیدکی ۔ بہر کیف میں نے ڈاک سے کاغذات روانہ کردئے ، بعض احباب کے مطابق جب آپ نے میرے کاغذات دیکھے تویہ جان کرکہ میں چمپارن کی ہی ایک ہندو اکثریت بستی کا رہنے والا ہوں بہت خوش ہوئے اور بلا تردد میری تقرری کا لیٹر تیار کرکے بھیج دیا ۔فجزا ہ اللہ احسن الجزاء علی حسن ظنہ ۔

مرکز وجامعہ میں تقرری کے بعد میں نے تقریبا سات سالوں تک مختلف بلکہ اس وقت کے اکثر شعبوں میں کام کیا جن میں مرکزالامام ابن باز، (بنین وبنات میں) تدریس ، دعوت وارشاد، ادار‏ّۃ الامتحانات، اور ندوۃ الطلبہ والطالبات خاص ہیں ۔
مختلف موقعوں سے دکتور محترم مختلف کتابوں پر کام کرنے کا مکلف کرتے رہے ، آپ کی محبت اور رہنمائی کے سایے میں نے ان سات سالو ں میں بہت کچھ حاصل کیا جن کا احاطہ ناممکن ہے ، مجلہ طوبی (اردو) اور مجلہ الفرقان (عربی ) میں مضامین لکھنے کے ساتھ میں نے بہت ساری کتابوں پر کام کیا جن میں کچھ تودارالداعی ریاض سے مطبوع ہے اورکچھ کی بعض وجوہات کی بناء پر طباعت نہ ہوسکی ، موصوف سے جب اس سلسلے میں بات ہوتی تو فرماتے کہ یہ مشروع لمبا اور وقت طلب ہے اس لئے ابھی اس پر کام رکا ہواہے ۔

سلف کی کتابوں کو نئی ترتیب و تنسیق کے ساتھ طبع کرنے کا جذبہ علم کی نشراشاعت کے ساتھ بے پناہ شغف اور آپ کی اسلاف سے محبت اور علم دوستی کا جیتاجاگتا ثبوت ہے ، دارالداعی اور مرکزالعلامہ ابن باز کی مطبوعات پر نظر دوڑانے سے منہج سلف سے آپ کے لگاؤ کا بخوبی پتہ چلتاہے ، خود مجھے جن کتابوں پر کام کرنے کے لئے مکلف کیا وہ اس کی بین دلیل ہے ، میں نے آپ کے حکم سے جن کتابو ںپر کام کیاہے ان میں سے چندیہ ہیں :
اھتمام المحدّثین بنقدالحدیث کے اردوترجمہ(شیخ فضل اللہ سلفی ) کا مراجعہ
تکمیل مرعاۃ المفاتیح للمبارکفوری
تخریج وتعلیق علی فتاوی الامام صدیق حسن خان البوفالی
تخریج احادیث وآثار سنن ابن ماجہ
تخریج احادیث وآثار سنن ابی داوود
تلخیص تحفۃ الاحوذي شرح سنن الترمذي (شیخ محمد ارشد مدنی کے اشراف میں )
ان میں سے صرف فتاوی الامام صدیق حسن خان ہی زیور طبع سے آراستہ ہوسکی ہے ۔
یوں تو جامعہ ومرکزچھوڑنے کے بعد میری آپ سے کئی مرتبہ ٹیلی فو ن پربات ہوئی ، اور جب بھی بات ہوتی یہ ضرور پوچھتے کہ بچوں کو سعودی عرب لائے یا نہیں ؟ آخری مرتبہ ان سے چند سالوں قبل ایک کتاب کی طباعت اور اس کی معیار طباعت پر بات ہو‏ئی تھی ۔

آج جب آپ ہمارے درمیان نہیں ہیں ، میں جامعہ امام ابن تیمیہ کی بلند وبالا عمارتوں کو تصورکی نگاہ سے دیکھ رہاہو ں اور سوچ کر عجیب سی کیفیت طاری ہورہی ہے کہ یہ وہی عمارت ہے جس کی مناریں کچھ دنوں پہلے تک نور لقمانی سے منور تھیں آج وہاں روشنی تو ہوگی مگر سب پر اضمحلال طاری ہوگا ، اور درودیوارسے یہ صدائیں آتی ہوں گی :
يا صاحبي لا تلمني إذا ما ذرفت عيني دمعاً – ففي القلب ألم من حسرة وحزنا
يالها من ساعة قد مضت .. ليتها لم تكن – وعندها ذاك الحبيب وذا الحبيب افترقا
(میرے ہمدم میري آنکھوں سے آنسواورغم چھلکے تو مجھے ملامت نہ کرنا کیونکہ دل میں حسرت کا دردہے ۔ اے کاش کہ کوئی وقت نہ گذرےکہ تم (ساتھ ) نہ رہو،اور اس وقت یہ حبیب اور وہ حبیب دونوں ایک دوسرے سے بچھڑجائیں ۔)
اللہ رب العزت آپ کو آپ کی خدمات بہترین بدلہ عطافرمائے ، اورآپ کے قائم کردہ دین کے قلعوں کو قیامت تک سلامت رکھے اور امت مسلمہ کو اس سے فیض پہونچاتا رہے، آل واولاد، اعزہ واقارب کے ساتھ ساتھ علماء ومشائخ ، طلباء وطالبات کے ساتھ ساتھ تمام محبین کو صبر کی توفیق عطافرمائے۔

اللَّهُمَّ، اغْفِرْ له وَارْحَمْهُ، وَاعْفُ عنْه وَعَافِهِ، وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ، وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ، وَاغْسِلْهُ بمَاءٍ وَثَلْجٍ وَبَرَدٍ، وَنَقِّهِ مِنَ الخَطَايَا كما يُنَقَّى الثَّوْبُ الأبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِن دَارِهِ، وَأَهْلًا خَيْرًا مِن أَهْلِهِ، وَزَوْجًا خَيْرًا مِن زَوْجِهِ، وَقِهِ فِتْنَةَ القَبْرِ وَعَذَابَ النَّارِ. آمين يا رب العالمين                         


ليست هناك تعليقات: