الأحد، مارس 08، 2020

آہ! ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ


شفاء اللہ الیاس تیمی  

ایک شخص غیر معروف بستی میں اپنی زندگی کی آنکھیں کھولتا ہے، وہاں کی کھیت اور ریتلی زمین میں  اپنے شب وروز کے لمحے گذارتا ہے،اسی کے کھلی اور صحرائی ماحول میں اپنی تعلیم کا آغاز کرتا ہے،شوق علم سے سرشار ہوکر اپنی اس بستی سے دور کسی معروف ادارہ کی طرف رختے سفر باندھتا ہے،اوروہاں ایک لمبی مدت تک علم سے فیضیاب ہوتا ہے، انکی یہ علمی تشنگی یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ان کا خواب تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کی ایک ایسی عظیم  شخصیت ہو،جس کا نام تا قیامت لیا جائے،اسی خواب کی تعبیر کے لئے وہ مدینة الرسول کا سفر کرتا ہے،اس علمی سفر میں وہ کبار علمی شخصیات سے تلمذ حاصل کرتا ہے ،وہ ان اصحاب خیر کی عملی سرچشموں سے اپنی علمی پیاس کو سیراب کرتا ہے،علمی استحکام پیدا کرتا ہے، شریعت کے اسرار و رموز میں غوطہ زنی کرتا ہے،احادیث رسول میں چھپے موتی کو اپنے دامن مراد میں سمیٹتا ہے، فقہی  گتھیوں کو سلجھاتا ہے اور دیگر علمی مواد کی روشنی سے اپنے دل کو منور کرتا ہے،یہاں تک وہ اپنے آپ میں ایک انجمن بن جاتا ہے،علم کے میدان کا ایک عظیم شہسوار ہوجاتا ہے،،پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کی شخصیت ایک رول ماڈل بن کر نمودار ہوتی ہے،وہ جو فکرہ پیش کرتا ہے،اسے مستند قرار دیا جاتا ہے،وہ جو لکھتا ہے،اسے نصاب تعلیم کی حیثیت ملتی ہے،،،ان تمام خوبیوں کے ساتھ وہ اپنے خواب کی تعبیر میں (اپنے ہی غیر معروف بستی میں)  علمی چمن بساتا ہے،جس کی وجہ سے اس بستی کی پہچان ہوتی ہے،جہاں حصول علم کے متلاشی علمی چشموں سے سیراب ہوتا ہے،شرعی علوم سے بہروہ ہوتا ہے،اورقرآن و حدیث کی تعلیمات سے اپنے دل کی دنیا کو منور کرتا ہے،،،

یقینا یہ تمام خوبیاں ایک ایسے شخص کے اندر ہی ہوسکتی ہیں، جو علم کا شوقین ہو،عزم کا جواں ہو، حوصلہ بلند رکھتا  ہو،جس کے اندر اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہو،،جس کے اندر نسل نو کےمستقبل کی فکر ہو،اور دنیا میں ایسے نقوش چھوڑ کر جانا چاہتا ہو،جن کے اثرات گردش زمانہ کے ساتھ بھی نہ مٹ سکیں،بلکہ دنیا کی بقاء کے ساتھ ان نقوش کے اثرات باقی رہیں۔۔۔

گذشتہ جمعرات کو اس عظیم شخص کی موت کی خبر آتی ہے،جس سے علمی دنیا میں ایک سناٹا سا چھا جاتا ہے،۔۔۔درد والم اور مایوسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے،ایسا ہو بھی کیوں نہیں۔۔۔وہ تو کسی چمن کے باغبان تھے،بہت سے تشنگان علم کے سروں پر انکا دست شفقت تھا،اور علمی دینا کے لئے فخر انجمن تھے،۔۔۔لیکن وہ نہیں رہے چلئے گئے اس باغ و گل کو چھوڑ کر۔۔۔۔۔۔۔
نم آنکھ،دھرکتے دل اورلزرتے ہاتھوں سے  انہیں مٹی کے  گھر میں  دفن کردیا گیا،اور جسد خاکی کو سپرد خاک کردیا گیا۔۔۔
یہ روداد کسی اور کی نہیں بلکہ مادر علمی جامعہ امام ابن تیمیہ کے موسس،ہم سب کے مربی ومشفق اور  روحانی باپ،ڈاکٹر علامہ محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ کی ہے۔

اللہ شیخ محترم کی مغفرت فرمائے، بشری لغزشون پر بخشش کا قلم پھیردے،ان کے حسنات کے طفیل جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے،،اور ان کے لگائے ہوئے چمن کو ہمیشہ شاداب رکھے ۔۔۔آمین۔۔

شریک غم: شفاءاللہ الیاس تیمی ۔۔


ليست هناك تعليقات: