الجمعة، مارس 06، 2020


شيخ محمد فضل الرحمن المدني

گزشتہ کل جامعۃ الأزھر الہندیۃ ، نئی دہلی کے تیمی اساتذہ کے ذریعہ علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہﷲ کے انتقال پرملال کی خبر ملی ، زبان پر آیت إنا للہ وإنا إلیہ راجعون جاری ہوگئی ، تھوڑی دیر کے لئے ماضی کے دریچے میں گم ہوگیا ، ۱۹۹۸ سے ۲۰۱۰ کا وہ زمانہ یاد آگیا جب علامہ موصوف کے قائم کردہ عظیم الشان علمی وتعلیمی مرکز جامعۃ إمام ابن تیمیۃ ، مرکز علامہ ابن باز للدرسات  الاسلامیۃ اور کلیۃ خدیجۃ الکبری للبنات میں علمی وتدریسی خدمت انجام دینے کا موقع ملا 

شیخ موصوف کے قائم کردہ مذکورہ بالا اداروں سے میری بارہ سالہ وابستگی نہایت سنہری دور تھا جسے میں نے بہت کچھ سیکھنے اور سکھانے میں گزارا -
اس مدت قیام کے دوران علامہ ابن قیم رحمہﷲ کی جلاء الافھام فی فضل الصلاۃ والسلام علی محمد خیر الانام کا  اردو ترجمہ " رسول اکرم پر درورد وسلام " کے نام سے اور علامہ موصوف کی جمع کردہ صحیحین کی احادیث کے مجموعہ ھدی الثقلین کا اردو ترجمہ " مشعل راہ " کے نام سے علامہ موصوف کی رہنمائی و نگرانی میں مرکز علامہ ابن باز سے شائع ہوا ، علاوہ ازیں علامہ موصوف کے جاری کردہ جامعہ کے ترجمان مجلہ طوبی میں دس سال تک تقریبا بلا ناغہ ہرماہ " ریشہ دوانیاں" کے کالم کے تحت اردو مضامین لکھنے کا بھی سلسلہ رہا اور مجلۃ الفرقان کے لئے عربی زبان میں مضامین و مقالات لکھے گئے ، یہ سب علامہ موصوف کی تحریک اور ہمت افزائی کی وجہ سے ممکن ہو سکا ، شیخ مرحوم ہرسال ایک یا دو مرتبہ ریاض سعودی عرب سے مشرقی چمپارن بہار میں واقع جامعہ ابن تیمیۃ تشریف لاتے تھے اور اپنی جواں سال علمی ٹیم کی ہمت افزائی کرتے تھے ، اسی کا نتیجہ تھا کہ نہایت قلیل مدت میں علامہ موصوف کے قلم سے اور ان کی سرپرستی میں ان کی ٹیم کے اہل علم کے قلم سے متعدد وقیع کتابیں منظر عام پر آئیں جس نے علمی حلقوں میں ایک ہلچل سی پیدا کردی تھی -

علامہ رحمہﷲ کے اندر ﷲ نے بے پناہ علمی ، تعلیمی و تربیتی خوبیاں ودیعت کی تھی ، جس میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم کے ہر فرد کی قدرو قیمت کو سمجھتے تھے اور اس کی صلاحیت کے بقدر اسے کسی علمی کام کا مکلف بنا تے تھے ، وہ نہایت باشعور اور علم دوست انسان تھے ، انھوں نے تاکید کر رکھی تھی ان کے ہر باحث کے ٹیبل پر عربی زبان کی مشہور لغت المنجد ہونی چاہیے ، مجھے حیرت ہوتی تھی کہ انہوں نے نہایت پسماندہ علاقہ میں قائم جامعہ کے اندر ہند و عالم عربی سے شائع ہونے والے عربی و اردو زبان کے معیاری و مشہور رسائل و جرائد کی فراہمی کو کیسے یقینی بنا رکھا تھا ؟ نیز جامعہ کی لائبریری میں ہر سال نئی اور اہم عربی و اردو مطبوعات کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا تھا ، جس کی وجہ مجھ جیسے انسان کو یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ لکھنؤ اور دہلی کی جامعات کے ترقی یافتہ علمی ماحول سے نکلنے کے بعد میں کسی پسماندہ علاقہ کے معمولی ادارہ میں آگیا ہوں - یہ سب ان کے اعلی علمی ذوق اور مربیانہ صلاحیت کی روشن دلیلیں ہیں
جامعہ میں قیام کے دوران طلباء و طالبات کو عربی زبان و ادب اور انشاء وغیرہ پڑھانے کا بھی سلسلہ رہا جس سے میں سمجھتا ہوں کہ میرے شاگردوں کو علمی فوائد حاصل ہوئے ، الحمد للہ ان میں سے میرے کئی لائق و فائق شاگرد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے پی ایچ ڈی و ماجستر کر چکے ہیں ، ﷲ پاک ان سب کو مزید علمی ترقیات سے نوازے اور میرے لئے ذخیرۃ آخرت بنائے 

جامعہ امام ابن تیمیہ ، مرکز علامہ ابن باز اور کلیۃ خدیجۃ الکبری کی تاسیس بلاشبہ علامہ موصوف کا عظیم کارنامہ ہے ، امید ہے ان تمام علمی مراکز سے آنے والی نسلیں مستفید ہوتی رہیں گی اور علامہ موصوف کے لئے صدقہ جاریہ بنیں گی ، میری دعا ہے ﷲ ان کے حسنات کو قبول فرمائے ان کی کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کے قائم کردہ تمام علمی و تعلیمی مراکز کی حفاظت فرمائے اور اسے ایسے افراد مہیا فرمائے جو علم و صلاحیت ، شکل و صورت اور کردار و عمل ہر اعتبار سے ان کے سچے جانشین ہوں ، آمین یا رب العالمین والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین-

ليست هناك تعليقات: