الأربعاء، يناير 03، 2024

 

عظیم علمی و دینی شخصیات اور علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

ثناءاللہ صادق تیمی

آج سے کئی سال قبل مؤقر عربی رسالہ " ثقافۃ الھند " کے مولانا آزاد نمبر کے لیے میں نے ایک مقالہ لکھا تھا ۔ اس میں  امام الھند کی کتاب " تذکرہ " کی روشنی میں ان کی زندگی کا جائزہ لیا گيا تھا ۔ میں نےاس میں لکھا تھا کہ امام الھند بزرگوں کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں جیسے انہیں تذکروں میں  ان کا بھی تذکرہ موجود ہو، وہ انہيں کے ساتھ خود کو پاتے ہوں اور انہیں کے جیسے بننا چاہتے ہوں ۔

حسن اتفاق یہ ہے کہ ہمارے محسن ومربی علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کے خود نوشت سوانح حیات  کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی کچھ یہی احساس دامنگیر رہا ۔ آپ نے محدثین کا تذکرہ جس محبت اور جوش سے لکھا ہے اس سے خود آپ کی شخصیت بھی جلوہ گر ہوتی ہے ۔ یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ ہمارے مربی جن بزرگوں سے بہت متاثر رہے ہیں ان میں ایک نام اما م الھند مولانا ابوالکلام آزاد کا بھی ہے ۔

علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی کو جاننے والے اور ان کے خود نوشت سوانح " کاروان حیات " سے استفادہ کرنے والے یقینا جانتے ہوں گے کہ انہوں نے بھرپور علمی اور عملی زندگی جی ہے ۔ جامعہ امام ابن تیمیہ ، کلیۃ خدیجہ الکبری لتعلیم البنات اور ڈی ایم ایل پبلک اسکول کو دیکھ کر سوائے اندھے متعصب کے کوئی بھی ان کا قائل ہوجائے گا اور اگر اوپر سے اس کے سامنے آپ کی علمی و ادبی تصنیفات بھی ہوں تو رشک کیے بنا نہ رہ سکے گا ۔

ہر بڑے انسان کی کوئی نہ کوئی ایسی مابہ الامتیاز چيز ہوتی ہے جو اس کی شخصیت کا بنیادی فیچر بن جاتی ہے جس کے ذریعے اسے دور سے پہچانا جاسکتا ہے اور اس کی شناخت کی جاسکتی ہے ۔علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کی زندگی کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ آپ کی شخصیت کا سب سے نمایاں اور قابل ذکر فیچر کتاب وسنت سے محبت اور دین اسلام کی سربلندی کی چاہت ہے اور جیسے ہر ایک کام کے پیچھے یہی بنیادی سبب کارفرما ہے ۔ آپ اگر ان کے ذریعے کیے گئے کاموں پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد ان کی تصنیفات و تالیفات پر ایک اچٹتی نگاہ ڈال لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی اور اگر آپ کو الصادق الامین ، اھتمام المحدثین ، تیسیر الرحمن لبیان القرآن اور کاروان حیات کے مطالعہ کا موقع مل جائے توآپ کا رواں رواں اس کی گواہی دینے لگے گا ۔

علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کی شخصیت کا بنیادی محور یہی ہے ۔ یہیں سے کسی کے ساتھ ان کے تعلقات کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے ۔ کاروان حیات شروع سے اخیر تک پڑھ جائیے آپ کو قدم قدم پر اس کی شہادیتیں بکھری ہوئی ملیں گی ۔ چنانچہ جب وہ اپنے خاندان کے افراد کا ذکر تے ہیں تو ان بزرگوں کو یاد کرتے ہیں جو کتاب وسنت پر عمل کرنے والے اور اللہ کی عبادت میں زندگی کھپانے والے تھے ۔اپنے دادا کا بار بار ذکر خیر کرتے ہیں کہ وہ تحریک شہیدین کا حصہ تھے اور اٹھارہ سال کا عرصہ اسی راہ میں لگایا تھا ، دارالعلوم احمد یہ سلفیہ کے اپنے اساتذہ کا محبت وعقیدت کے ساتھ تذکرہ چھیڑتے ہیں اور اپنی ممنوینت کا اظہار کرتے ہيں کہ انہوں نے آپ کے اندر کتاب وسنت کی محبت اندر تک اتاردی ۔کتاب وسنت سے محبت اور شوکت اسلام کا یہی جذبہ ہے کہ وہ ہر اس آدمی سے محبت کرتے ہیں جو انہیں اس راہ کا راہی نظر آتا ہے ، شاہ فیصل کے بارے میں کاروان حیات میں جس جوش عقیدت سے آپ نے لکھا ہے اس سے یہ حقیقت اور بھی مترشح ہوتی ہے کیوں کہ شاہ فیصل ایک طرح سے  شوکت اسلام اور غلبہ دین کی علامت بن گئے تھے ۔

آپ لکھتے ہیں " لو‏گوں نے انہيں گولی مارے جانے کے کئی اسباب ووجوہ بیان کیے ہیں لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ انہوں نے امت اسلامیہ کو جگانا شروع کردیا تھا اور خلافت راشدہ کے پیٹرن پر خلافت اسلامیہ یا اتحاد المسلمین کی آواز اٹھائی تھی اور اس کی پہلی کانفرنس پاکستان میں ہوئی تھی جس میں یوغنڈا کے صدر عیدی امین نے شاہ فیصل کا ہاتھ پکڑ کر نہایت عزت واحترام کے ساتھ اٹھایا تھا اور کانفرنس میں شریک تمام زعمائے اسلام کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ آئيے ، ہم سب مل کر انہیں اپنا خلیفہ بنالیں اور جواب میں شاہ فیصل نے کہا تھا کہ ابھی وقت نہيں آيا۔ یعنی ہمیں یہی کچھ کرنا ہے لیکن ابھی ایسا کرنا قبل از وقت ہوگا "

 " کاروان حیات " میں علامہ نے اپنے بہت سے اساتذہ کو یاد کیا ہے لیکن جن کا تعلق کتاب وسنت اور توحید و اتباع سے رہا ہے ان کے بارے میں لکھتے ہوئے آپ کے قلم کی جولانی دیدنی ہے ، محبت و مودت اور احترام و عقیدت کے پھول نچھاور کرتے چلے جاتے ہیں اور جن کے یہاں تقلید و جمود کے جراثیم پائے جاتے ہیں ان کے ذکر میں احترام و ادب کے باوجود وہ کیفیت آہی جاتی ہے جو کتاب وسنت اور توحید و اتباع کا جذبہ رکھنے والوں کے یہاں آجائے گی ۔

جن عظیم علمی و دینی شخصیات سےآپ کا رشتہ رہا ان میں ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی ، مولانا مختار احمد ندوی ، مولانا حفیظ الرحمن عمری اور  علامہ احسان الہی ظہیر بطور خاص قابل ذکر ہیں ۔ آپ ان تمام شخصیات کو جاننے کی کوشش کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ سب کے سب مختلف حیثیتوں سے کتاب وسنت کی اطاعت کے داعی اور شوکت اسلام کے لیے کام کرنے والے ہیں ۔ کاروان حیات میں علامہ نے ان تما م سے  اپنی محبت کا ذکر جس طرح سے کیا ہے اس سے خود ان کی شخصیت کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوجاتی ہے ۔ ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی تو خیر سے ان کے محسن تھے اور مولانا مختار احمد ندوی ان کے بزرگ لیکن شیخ حفیظ الرحمن عمری اور علامہ احسان الہی ظہیر تو ساتھی تھے لیکن جس انداز میں ان کی خوبیوں اور علمی فتوحات کا اعتراف کیا ہے وہ یقینا بہت خاصے کی چيز ہے ۔

ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی  رحمہ اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں " ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ ایک ممتاز سلفی عالم اور ماہر وموثر خطیب بھی تھے ، اپنی تقریروں کے ذریعہ مجلس پر چھاجاتے تھے ۔ توحید باری تعالی اور اتباع قرآن وسنت پر ان کی ساحرانہ تقریریں بہت مشہور ہیں ۔ مطب اور دارالعلوم کی گوناگوں مشغولیتوں کے باجود علاقے میں گھوم گھو م کر دعوت و ارشاد کا کام کرنا انہی کا خاصہ تھا "کاروان حیات ص 43

امام الھند اور شیخ حفیظ الرحمن عمری کو دیکھیے کس طرح یاد کرتے ہيں " اسی سرزمین مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم پر میں برادر گرامی قدر جناب شیخ حفیظ الرحمن عمری حفظہ اللہ کے ساتھ رشتہ اخوت و محبت میں بندھ گیا اور انہوں نے ہی امام الھند کی کتابوں کے مطالعہ کی رغبت دلائی ، چنانچہ میں امام الھند  کی کتابیں ہندوپاک سے منگاکر اور احباب سے حاصل کرکے پڑھنے لگا اور روزانہ ڈیرھ دوبجے رات تک ان کا مطالعہ کرنے لگا اور امام الھند کے انقلابی اور تجدیدی افکار مجھ میں اثر کرنے لگے اور جب ہندوستان جاتا تو انہی کے لب ولہجہ اور اسلوب خاص میں اپنی گفتگو اور تقریروں کو ڈھالنے لگا اور غیر شعوری طور پر امام الھند میرے آئڈیل بن گئے ۔ ان کی سلفیت ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے غایت درجہ ان کی محبت اور اپنے خاندان کی قبرپرستی ، پیر پرستی اور سلفیوں سے ان لوگوں کی انتہا درجہ کی نفرت کے باوجود ان کا برملا اعلان حق پرستی اور قرآن وسنت کو اپنی تالیفات میں سب کچھ پر مقدم رکھنے کا شیوہ انقلاب انگیز میرے اور ان کے درمیان قدر مشترک بن گیا " کاروان حیات ص 73

علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ کی ایک تقریر پر اپنا تاثریوں رقم کرتے ہیں "  ۔۔۔ پھر اس اللہ کے شیر کی تقریر شروع ہوگئی اور مسلک اہل حدیث کی حقانیت پر قرآن وسنت سےدلائل کا ایک انبار لگانے لگے اور ان سے استدلال واقامت حجت کے ایسے ایسے محیرالعقول اور اچھوتے اطوار واسالیب بیان کرنے لگے کہ مجھے لگا یہ دلائل و براہین میں آج اپنی زندگی میں پہلی بار سن رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ علامہ رحمہ اللہ کی اس تقریر کو سننے کے بعد ان کے رعب و جلال کا ایک ملا جلا تاثر میرے قلب و نظر کی گہرائیوں میں ثبت ہوچکا تھا اور ل نے گواہی دے دی کہ علامہ  رحمہ اللہ ایک تاریخ ساز شخصیت کے مالک ہو چکے ہیں اور میدان خطابت میں ان کا اس زمانہ میں کوئی ثانی نہیں " کاروان حیات ص 93- 94

علامہ قرآن وسنت کے عالم بھی ہیں اور ان کے شیدائی بھی ۔ زندگی کے تمام مسائل کا حل انہيں قرآن وسنت میں موجود نظر آتا ہے ۔ وہ ان تمام فقہا محدثين سے محبت کرتے ہیں جنہوں نے قرآن وسنت سے مسائل مستنبط کیے ، ہر معاملے میں قرآن وسنت کو رواج دیا ، منطق وفلسفہ کی بجائے آيات و احادیث کو محور بنایا اور تقلید و آرائے رجال کی پروا نہیں کی   بلکہ ہر ہر معاملے میں قرآن وسنت کو عام کرنے کا کام کیا ۔

مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں " مولانا جیسا باغیرت سلفی میں نےبہت کم  دیکھا ہے ۔ قرآن وسنت کی رفعت وبلندی کے سلسلہ میں وہ کبھی کسی مدارات و مجاملت کو گوارہ نہیں کرتے تھے ۔ ان کے تعلقات بہت سے غیر سلفی علماء اور مفکرین ودعاۃ سے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارے بزرگوں کی زندگیوں سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے لیکن ان حضرات کی مجلسوں میں بھی موقع پاکر ضرور قرآن وسنت اور فکر سلفیت کی بات کرتے اور چوں کہ نہایت ہی ذہین آدمی تھے اس لیے اپنی بات مختلف انداز میں پیش کرنے کی پوری استعداد و صلاحیت رکھتے تھے اور کبھی کسی سے مرعوب نہيں ہوتے تھے اور نہ اپنی بات  کہنے میں ہچکچاتے تھے " کاروان حیات ص 510-511

مولانا مختار احمد ندوی کے بارے میں ہی  گفتگو کرتے ہوئے دعائیہ کلمات میں لکھتے ہیں  " رب العالمین ! تیرے حبیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی تیرا و عدہ ہے کہ تو ان دو آدمیوں کو بھی اپنے عرش کے سایہ میں قیامت کے دن جگہ دے گا جنہوں نے دنیا میں ایک دوسرے سے تیری خاطر محبت کی ہوگی ۔ اے اللہ ! اگر جانتا ہے کہ ہم دونوں کی محبت تیری خاطر تھی تو ہم دونوں کو قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے دینا " کاروان حیات ص 512-513

آپ نے امام الانبیاء محمد بن عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حقیقی آئیڈیل ماننے کے بعد جن بزرگوں کو بطور آئيڈیل پیش کیا ہے اور جن سے اپنی محبت کو ذریعہ نجات سمجھتے ہیں ان میں امام اہل السنۃ والجماعہ احمد بن حنبل ، امام المحدثین والفقہاء محمد بن اسماعیل بخاری ، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ، آپ کے استاذ اور مرشد سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ، محدث عصر حاضر محمد ناصرالدین البانی اور امام الھند ابوالکلام آزاد ہيں ۔اور ان تمام عظمائے اسلام کے یہاں قدر مشترک اگر کوئی چیز ہے تو وہ جذبہ محبت رسول اور اتباع قرآن وسنت ہی ہے ۔ آپ نے ان تمام شخصیات پر لکھتے ہوئے دل نکال کر رکھ دیا ہے ، ایک ایک لفظ سے محبت ٹپکی پڑتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تذکرہ لکھتے ہوئے وہ بالکل کسی اور دنیا میں چلے گئے ہیں ۔آپ نے بصراحت لکھا بھی ہے کہ آپ کی محبت کی بنیاد یہی ہے کہ یہ تمام کے تمام اعاظم قرآن وسنت کو ہی ہر ایک مسئلے کا حل سمجھتے ہیں ، سنت رسول کو ہی عام کرنے کا کام کرتے ہیں اور کسی بھی محاذ پر قرآن وسنت سے سر مو انحرا ف نہیں کرتے ۔اپنے خود نوشت سوانح میں اگر کوئی شخص اپنے آئيڈیل بزرگوں پر دوسو صفحات لکھے اور وہ بھی انتہائی درجے کی محبت اور ولولہ کے ساتھ تو سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کے یہاں عقیدہ و عمل اور فکر ونظر کی ترویج و اشاعت کتنا زیادہ معنی رکھتی ہے ۔

عظیم دینی اور علمی شخصیات سے علامہ کے تعلقات کی گیرائی و گہرائی اور کتاب وسنت کے علمبرادروں سے آپ کی محبت و الفت کا مشاہدہ کرنا ہو تو آپ جامعہ امام ابن تیمیہ کا ایک مرتبہ دورہ کرلیجیے ۔ یہ دیکھیے اصل ادارہ جامعہ امام ابن تیمیہ  ہے ۔ کلیہ کا نام کلیۃ السید نذیر حسین لاصول الدین ہے۔ بنات کا نام کلیۃ خدیجۃ الکبری لتعلیم البنات ہے ۔شعبہ حفظ کا نام زیدبن ثابت لتحفیظ القرآن ہے ۔ لائبریری کا نام مولانا ابوالکلام آزاد سنٹرل لائبریری ہے ۔ بحث و تحقیق کے ادارے کا نام علامہ ابن باز للدرسات الاسلامیہ ہے ، کانفرنس ہال کا نام علامہ البانی ہال ہے اور جامع مسجد کا نام جامع احمد بن حنبل ہے ۔

ان عظیم دینی و علمی شخصیات سے تعلق کی بنیاد جہاں دعوت قرآن وسنت اور  توحید و اتباع کا جذبہ فراواں ہے وہیں معاصر شخصیات سے  خود علامہ کو بھی بہت محبت والفت اور وقار و احترام ملا ہے اور اس کی مثالیں ہمیں  ڈاکٹر سید عبدالحفیظ سلفی ، علامہ احسان الہی ظہیر ، مولانا حفیظ الرحمن عمری اور مولانا مختار احمد ندوی سے لے کر علامہ البانی ، سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ اورسماحۃ الشیخ  ابن باز ہر ایک کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ آپ نے جہاں ان بزرگوں اور دوستوں سے قرآن وسنت کی محبت کی بنیاد پر محبت کی ہے وہیں ان لوگوں نے بھی آپ کو اسی محبت کا مستحق سمجھا ہے ۔

قرآن وسنت اور دعوت توحید کی اشاعت کا یہی جذبہ ہے جو آپ کو ان تمام لوگوں کے ذکر خیر پر ابھارتا ہے جن کے اندر یہ خوبی کسی درجے میں پائی جاتی ہے ۔ اس مضمون میں مذکور علما و دعاۃ اور اساطین کے علاوہ آپ نے اپنے جن اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ، ان سے بھی یہی کچھ مترشح ہوتا ہے بلکہ سچائی یہ ہے کہ اس راہ میں جن لوگوں سے آپ کو تعاون ملا ان کو بھی آپ اسی طرح یاد کرتے ہیں ۔ یہاں بطور خاص اخلاق الرحمن قدوائی صاحب کا ذکر مناسب ہوگا جن کو آپ نے بڑی محبتوں سے یاد کیا ہے ۔ ہم او رآپ اس تعلق کو پڑھ کر یقینا دونوں شخصیات کی عظمت کے قائل ہوجاتے ہیں ۔ ان کے بارے میں آپ لکھتے ہیں " ایک بار دہلی میں انہوں نے میری دعوت کی ، میں ڈاکٹر خالد انور تیمی کے ساتھ ان کے گھر پہنچا ۔وہاں سے ہم دونوں کو اپنی گاڑی میں بیٹھا کر ایک ایسے بڑے ہائی کلاس ریسٹورنٹ میں لے گئے جہاں ہم غریبوں کی تکریم کی خاطر پہلے سے انہوں نے ایک بڑی دعوت کا انتظام کررکھا تھا ، ہم اپنی ذرہ نوازی پر جھینپتے رہے اور وہ ایک کریم النفس میزبان کی طرح ہماری خاطر مدارات میں لگے رہے اور جب ان کی گاڑی رکی تو فورا باہر نکل کر میری طرف کا دروازہ کھول کر ایک خانساما کی طرح کھڑے ہوگئے اور میں شرم سے پانی پانی ہوگيا اور ان سے کہا کہ آپ میرے حال پر رحم کیجیے اور ایسا نہ کیجیے تو کہنے لگے کہ اللہ کے جس ایک بندہ نے اتنی بڑی اسلامک یونیورسٹی بنائی ہے وہ میری ہر تکریم کے مستحق ہیں " کاروان حیات ص 506-507 

دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی ہمارے محسن ومربی علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کو جنت الفردوس میں اعلا مقام دے اور جن بزرگوں سے آپ نے اللہ کے لیے محبت کی ان کے ساتھ آپ کو جنت میں رفاقت نصیب ہو۔ آمین