الأربعاء، أكتوبر 29، 2014

غزل
ساگر تیمی
وہ جو کہدے وہی ایمان نہیں ہو سکتا
کوئي قول نبی قرآن نہیں ہو سکتا
تیرے چہرے پہ تعجب کی لکیریں ہیں غلط
تو بھی اس بات سے انجان نہیں ہو سکتا
اتنی خوبی سے اجالے کو اندھیرا لکھا
ہوگا انسان وہ شیطان نہیں ہو سکتا
اور اک بات کی چاہیں  تو ضمانت لے لیں
لینے والا کبھی ذیشان نہيں ہو سکتا
 چاند کے بن بھی یہ  رات چمک سکتی ہے
ہاں مگر صبح کا امکان  نہيں  ہو سکتا  
بس اسی آس میں برسات کا موسم گزرا
مینہ برس جائے گا نقصان نہیں ہو سکتا
اور اک بات ہے ساگر کہ دعا لگ جائے
ہاں مگر ہر کوئي دھنوان نہیں ہو سکتا


غزل
ساگر تیمی
جتنی سوچی تھی نہیں اتنی یہ دنیا کم ہے
  آپ یہ سمجھیں کہ  اس میں میرا حصہ کم ہے
اور بھی روپ ہیں آنکھوں کا دریچہ کھولو
تم نے یہ جھوٹ سمجھ رکھا ہے جلوہ کم ہے
تیرا کہنا ہے  کہ عالم ہے فسادوں سے بھرا
میں یہ کہتا ہوں بھلا ہے مگر ایسا کم ہے
آ بھی جاؤ کہ اندھیروں کا مقدر چمکے
 کیونکہ ان آنکھوں میں جینے کو اجالا کم ہے
اور اک بات ہے جینے کی تمنا لیکن
اور اک بات ہے مرنے کا ارادہ کم ہے
خواب تو یہ ہے تجھے سونے کی دنیا دے دوں
اور اک جیب ہے کم بخت کہ پیسہ کم ہے
ایک تو دل ہے اور اس پر بھی بلا کا غرہ
بات یہ بھی ہے کہ  سینے  میں وہ رہتا کم ہے
میں بھی اک بار تجھے چھوڑ کر جانا چاہوں
پھر یہ کہنا کہ" یہ ساگر ہے اور اچھا کم" ہے


الأربعاء، أكتوبر 22، 2014

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم: ہندو دانشوروں کی نظر میں


محمد ابراهيم سجاد التيمي 

کائنات انسانی کا وہ مقدس ترین گروہ جس کا انتخاب، رب کائنات نے اپنے پسندیدہ دین ومذہب اسلام کی تبلیغ وتشہیر کے لئے فرش گیتی پر بودوباش کرنے والے تمام انسانوں کے دلوں میں نظر ڈالنے کے بعد کیا، وہ بے شک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہی گروہ تھا۔ وہ پاکیزہ ترین انسانی جماعت جس کو خالقِ کائنات نے دنیا کے بتکدوں میں توحید الٰہی کی شمعیں روشن کرنے کے لئے چنا، وہ جماعت یقینا صحابہ کرام کی تھی۔ وہ تقدس مآب کاروانِ حق جس نے مخلوق کا رشتہ خالق سے استوار کیا، جہالت ونادانی کی کمین گاہوں کو علم وفن کے گل کدوں میں تبدیل کردیا، شرک وبت پرستی کی آماجگاہوں کو وحدانیت باری تعالی کی قرارگاہوں میں بدل دیا، مظلوم ومقہور انسانیت کے خارزاروں کو عدل وانصاف کا گلستاں بنادیا اورپہلی بار عالمی سطح پر رب کریم کی معرفت ووجدان کا پیغام عام کیا، وہ صحابہ کرام کے کاروانِ حق کے علاوہ بھلا اور کون تھا؟ وہ قافلہ انسانی جس نے فساد وبدامنی کے آتش کدوں کو امن وآشتی کا چمن زار بنادیا، اوہام پرستی کے طوفان بلا خیز کا رخ موڑدیا، کاشغر،سے لے کر اقصائے چین تک کلیساں، ہیکلوں، آتش کدوں اوربت گاہوں میں اذانیں دیں اور جس نے صحرائے افریقہ اورمرغزارِ یورپ وآسٹریلیا میں نمازیں پڑھیں، وہ بے شک صحابہ کرام ہی کا قافلہ تھا۔ انسانوں کی وہ ٹولی جس نے نفرتوںکی جگہ محبتیں تقسیم کیں، عداوت ودشمنی کے خاروں کو الفت کے پھولوں کی ادائیں دیں، بغض وحسد کے جوالا لکھی کو رافت ورحمت کی گھٹاوں سے ٹھنڈاکیا، تکلف وتصنع اور بے مروتی کو حق گوئی وبے باکی اور صدق مقالی ومروت کا بانکپن دیا اوراپنی بے پناہ تواضع و خاکساری، صبر وشکیبائی، حق پرستی وامانت داری، شجاعت وبہادری، زہد ورع، حُب الٰہی وحب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنائیت، اخلاقِ فاضلانہ وکردارِ کریمانہ میں یکتائی، راہِ حق میں فدائیت اور رب کریم سے کامل وفاداری جیسے اوصافِ حمیدہ کی قیمت پر”رضی اللہ عنہم“ کی دستارِ فضیلت حاصل کی، وہ صحابہ کرام کی ٹولی کے علاوہ کوئی اورانسانی ٹولی بلاشبہ نہیں تھی اورنہ ہوسکتی تھی۔بہ الفاظِ دیگر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بے مثال اوربرترمعاشرہ کی تشکیل فرمائی تھی، اس کا اولین نمونہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی تھے۔ یہ ایسے افراد تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صحبت سے شرفِ انسانی کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ جن کا ہرفرد تقوی وطہارتِ قلبی، عدل ودیانت اوراحسان وخوفِ الٰہی کا پیکر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خود رب کائنات نے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر متعدد پیرایوں میں ان کی مدح سرائی فرمائی بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ قرآن کریم کی جس بھی آیت کریمہ میں مومنین کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے، اس کا مخاطب اول اور جہاں کہیں بھی جزاءحسن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، اس کا حقدارِ اولین وہی صحابہ کرام ہی تھے۔
یہ اور بات کہ اغیار توخیر سے اغیار تھے اور ہیں لیکن خود مسلم امت کی آستینوں میں ہر دور اور ہر زمانہ میں ایسے سانپ پلتے رہے اورآج بھی پل رہے ہیں جنہوں نے، انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد کائنات ہستی کے پاکباز ترین گروہِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جسدِ عدالت وثقاہت اورجسم عفت وپاکبازی میں ڈنک مارتے رہے اورماررہے ہیں۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے موجود ہ دور میں بھی یہ دھرتی ایسے حق پرستوں سے خالی نہیں ہے جن کے دلوں میں صحابہ کرام کی محبت والفت اورعقیدت کی جوتی روشن ہے۔ وہ سیدنا ومولانا محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کی لائی ہوئی شریعت کے پیروکار نہ ہونے کے باوجود، ان کی عظمت ورفعت کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرتے اوران کی اتباع وپیروی کو وقت کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیتے ہیں۔ ذیل کی سطور میں ہم چند ایسے ہی ہندو دانشوروں کے خیالات واقوال بغیر کسی توضیح اورتبصرہ کے نقل کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں جن کی روشنی میں صحابہ کرام کی رفعت مقامی واضح ہوکر سامنے آجائے گی:
-1ہفتہ واری ہندی اخبار”چوتھی دنیا“ کے مدیر مسل اورسابق ممبرپارلیامنٹ سنتوش بھارتیہ کہتے ہیں: آج ہم مشکلات و مسائل سے چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہیں، کسی پر یقین واعتماد کے لئے مصیبت کی گھڑی ہے، کسی کا کسی پر بھی بھروسہ نہیں ہے تو ہم کیسے جانیں کہ اچھے دن آئیں گے؟ سماج ومعاشرہ میں بزرگوں کی قدر وعزت نہیں، نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا ہے اور عورت اپنا حصہ نہیں پارہی ہے جس کی وجہ سے انسانیت کے بنیادی اصول وقوانین بھی خواب جیسے لگنے لگے ہیں۔ ایسے وقت میں جن لوگوں کی سیرت وتعلیمات یاد آتی ہےں، ان میں پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ وسلم سب سے اہم ہیں۔ میں مسلمان نہیں ہوں لیکن مجھے اسلام سے انسانیت کی خوشبو نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔ جب ہم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اوران کے عظیم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کو دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ انہوںنے اوران کے ساتھیوں نے نوجوانوں کو اس بات کی ٹریننگ دی کہ وہ مذہبی اوردیندار بنیں، انسانیت کے خیر خواہ بنیں، اپنے فرائض ایمانداری کے ساتھ ادا کریں، ذمہ دار بنیں اور سماج کی فلاح وبہبود میں مشغول رہیں۔
2- شوبھت یونیورسٹی کے پروچانسلر جناب کنور شیکھر وجیندر لکھتے ہیں کہ پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اوران کے صحابہ کرام نے تعلیم کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کرنے پر خصوصی توجہ صرف کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی اسلامی مملکت کے حکمراں کے طور پر انہوں نے تمام لوگوں -بلااختلافِ مرد وزن-پر تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ تعلیم کو عام کرنے کے لئے انہوںنے مدینہ میں دنیا کی پہلی مخلوط حکومت قائم کرنے کے بعد یہ اہم اعلان کیا اورمدینہ میں ان کی حکمرانی کے دوسرے سال ہی سے اس اعلان پر عمل در آمد شروع ہوگیا۔
پیغمبر محمدصاحب(صلی اللہ علیہ وسلم) کے انتقال کے بعد ان کے عظیم صحابہ کرام نے تعلیمی امور پر خصوصی توجہ صرف کرنے کے معاملے میں ان کی پوری طرح اتباع وپیروی کی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبر محمد صاحب کے کچھ عظیم ساتھی ہندوستان کے مالابار کے علاقہ میں پیغمبر صاحب کی زندگی ہی میں آئے اوروہاں تعلیم کی روشنی پھیلانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ابتدائی تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم کے معاملے میں بھی کوششیں کیں اورکچھ عالمی سطح کے تعلیمی مراکز بھی قائم کئے۔ کیرل کے پُنانی اوردوسرے مقامات پران کے کھنڈرات اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
پیغمبر محمدصاحب اوران کے ساتھیوں کے لئے تعلیم، انسانی سماج کی نجات اورجہالت ونادانی اوردوسری سماجی برائیوں میں ملوث انسانی سماج کو بچانے کا ایک اثردار ذریعہ ووسیلہ تھی۔ پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اصحاب نے جس تعلیم کو عام کرنے کی کوششیں کیں، اس کا مقصد اولین ایک آدمی کو مکمل طور پر مثالی انسان بنانا تھا۔ ان کی نظرمیں تعلیم کی غایت شرفِ انسانی کی بنیاد پر ذاتی اخلاق وخصائص کو بلند وبالا کرنا تھی، ان کی تعلیم جس چیز سے عطر بیز ہوتی اورسمت وجہت حاصل کرتی تھی، وہ مکمل طور پراصولِ تعلیم ہی تھا۔ کاملیت کا یہ اصول، ان کی تعلیمات کا اہم ترین مقصد تھا جس سے ایک مثالی انسان کی تعمیر ہوتی تھی۔ پیغمبر محمد صاحب کے عظیم صحابیوں کی اتباع وپیروی کرتے ہوئے پورے انسانی معاشرہ کو صحیح طریقے سے ایسے تعلیم دی جائے جو مکمل ہو، ایسا کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
3- تنظیم ” ایودھیا کی آواز “کے منتظم کار جناب یُگل کشور شاستری کہتے ہیں کہ اسلام دھرم کے پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے اصحاب کی اچھائیوں اور حسنِ اخلاق کا مطالعہ کریں تو ہمیں تمام طرح کی اچھی ترغیب ملتی ہے۔ محمدصاحب تختِ نبوت ورسالت پر متمکن ہونے سے پہلے ہی اچھے، نیک اوردریادل عظیم انسانوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ ان کی نظر میں نہ کوئی بلند وبالاتھا اور نہ نیچ۔ بچپن سے ہی ان کا اخلاق سب کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔ انہوںنے تجارت میں بھی نیکی اورسچائی کی راہ نہیں چھوڑی، وہ لین دین کے معاملات میں بھی نہایت کھرے تھے۔ ان کی اوران کے عظیم صحابیوں کی سیرت ہمیں خوش مزاج اورانسانیت پر مبنی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ان کے تئیں محبت وعقیدت رکھنے اور ان کی اتباع وپیروی کرنے سے زندگی کی ساری برائیاں ختم ہوجائیں گی۔
4- مشہور ومعروف آریہ سماجی جناب سوامی اگنی ویش جی کہتے ہیں کہ میں اسلام کے پیغمبر اوران کے ہرصحابی کا معتقد ومرید ہوں۔ میں محمد صاحب کو اس لئے یاد کرتاہوں کہ انہوںنے توحید کی دعوت دی جو دینا کی تمام برائیوں کو ختم کرسکتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اسلام کے قوانین اوراصولوں پر عمل کرنے کے لئے پوری دنیا بے قرار وبے تاب ہے۔ اصحاب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسی توحید کی دعوت پوری دنیا کودی اورپورے انسانی معاشرہ کے عروج وترقی کے لئے اپنی بیش قیمت زندگیاں کھپادیں۔ آج انہیں عظیم انسانوں کے خلاف دوہرے پن کا کھیل کھیلا جارہا ہے جسے ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔
5- جین دھرم کے گرو جناب پروفیسر انیاکانت جی کہتے ہیں کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ عدمِ تشدد کا سبق دنیا والوں کو صرف جین دھرم نے ہی پڑھایا ہے لیکن جب میں نے قرآن اورحدیث کا مطالعہ کیا تو میری یہ رائے ختم ہوگئی۔ محمدصاحب(صلی اللہ علیہ وسلم) کے اقوال وارشادات کو پڑھنے کے بعد مجھے معلوم ہو اکہ اسلام دھرم سراپا عدمِ تشدد کا دھرم ہے بلکہ عدم تشدد کا سب سے بڑا مبلغ یہی اسلام ہے۔ اسی عدم تشدد کے عقیدہ کو لے کر محمدصاحب کے عظیم صحابہ اٹھے اورپوری دنیا کو عدم تشدد کا سبق پڑھایا۔
6- سوامی اومکارانند شنکر اچاریہ جی کہتے ہیں کہ اسلام دھرم لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتا بلکہ جوڑتا ہے۔ قرآن کسی مخصوص ذات برادری یاکسی مخصوص مذہب کے لوگوں کا نہیں بلکہ دنیا کے ہرانسان کا مقدس گرنتھ ہے۔ جو بھی قرآن کا گہرا مطالعہ کرکے اس کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا زیور بنائے گا، وہ دیکھ لے گا کہ اسلام جوڑتا ہے توڑتا نہیں۔ اسلام میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم) کے عظیم صحابیوں نے اسی مقدس قرآن کی روشنی میں پوری دنیا کو عدمِ تشدد کا پیغام دیاتھا جو موجودہ دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
7- پنڈت این کے شرما صاحب کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ ویدویاس میں بھی موجود ہے۔ کس طرح صحابہ کرام انسانیت کے عروج وترقی کے لئے اپنی جانیں قربان کریںگے، کس طرح انسانی سماج ومعاشرہ کو تباہ وبرباد ہونے سے بچائیں گے اوربرائیوں کی طاقتوں کو ختم کریں گے، ان سب چیزوں کا تفصیلی ذکر، وید ویاس میں ۰۰۲۴سال پہلے ہی کردیا گیاتھا جو آج بھی موجود ہے۔ ویدوں کی رِچاوںمیں، شری مَدبھگوت گیتا کے شلوکوں اورچھندوں میں اورہندودھرم کے دیگر گرنتھوں میں انسانیت کی ترقی، عروج اورفلاح وبہبود کے لئے ان کے ذریعہ انجام دیئے گئے کاموں کا ذکر ملتا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے اعمال کے ذریعہ ایک ایسی تہذیب وثقافت کی بنیاد رکھی، اپنی سیرت وکردار کی صورت میں ایسا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوںنے انسانی معاشرے کی خدمت میں اپنی بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بڑے بے وقوف ہیں وہ لوگ جو صحابہ کرام جیسی پاک روحوں پر تشدد پھیلانے کا الزام لگاتے ہیں۔ میں تو پورے وثوق واعتماد کے ساتھ کہتا ہوں کہ جمہوریت کا وردان دنیا والوں کوانہیں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے دیا ہے۔
8- سرودھرم سمبھاوتنظیم کے صدر جناب ایم ایم ورما صاحب رِگ وید کے ایک شلوک''The truth is one, devided into many faces''”سچ ایک ہے جو مختلف صورتوں میں منقسم ہے“ کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذہبِ اسلام ہی نے توحید کی حقیقی شکل وصورت پیش کی ہے اور اسلام کے پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اور ان کے عظیم صحابہ کرام نے یہی پیغام پوری دنیا کو دیا ہے، توحید کا یہ مقدس نظریہ سرودھرم سمبھا وکا اصلی سرچشمہ ہے۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلمکی عزت وتوقیر کرو بلکہ کہتا ہے کہ سب کو قدر وعزت دو۔
9- جناب جے کے جین کہتے ہیں کہ تمام ہندوستانیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ شانتی کے پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے صحابیوں کو یاد کریں اوران کے نقوشِ قدم پر چل کر اپنے وطن عزیز کو ترقی کے بام عروج پرلے جائیں۔ صحابہ کرام نے بالخصوص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلفاءاربعہ ابوبکر، عمر، عثمان اورعلی رضی اللہ عنہم نے پوری دنیا کو انسانیت کا درس دیا۔ انہوںنے اپنے اعمالِ خیر کے ذریعہ یہ ثابت کردیاکہ اسلام کے معنی واقعی امن اورشانتی کے ہیں اور اسلام میں صبر، مساوات اورکثرت میں وحدت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
 -10مشہور دانشور جناب ہرش راوت جی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام انسانی دنیا کے لئے بہترین اسوہ ونمونہ تھے۔ انہوںنے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نقوشِ قدم پر چل کر ایسی تہذیب وثقافت کی بنیاد رکھی جس کا سرچشمہ قرآن وحدیث کی مقدس تعلیمات تھیں۔ انہوںنے انسانی سماج کی خدمت اورتعلیم کو عام کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں، اس کے علاوہ ،صحت، ماحولیات، صفائی ستھرائی اوردوسرے سماجی میدانوں کو ترقی دینے میں قابلِ ذکر حصہ داری نبھائی۔ حقیقت میں ان کی عظمت ورفعت لاثانی ہے۔
یہ ہیںچند اقوال وآراءجوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میںہندو دانشوروں کی فکرورائے کا مظہر وآئینہ دار ہیں، ایسے تمام مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں جنہیں صحابہ کرام کی عظمت ورفعت کا صحیح ادراک نہیں اور ان نام نہاد مسلمانوں کے گال پر زناٹے دار طمانچہ ہیں جو نہایت بے شرمی وبے حیائی کامظاہرہ کرتے ہوئے ان پر زبان طعن ودشنام طرازی دراز

 کرتے اور ان کی عدالت وثقاہت اورعفت وپاکبازی کی رداءکو تار تار کرنے کی ناروا کوشش کرتے ہیں:

دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو!

الثلاثاء، أكتوبر 21، 2014

مولانا ادیب


ثناءاللہ صادق تیمی 
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئي دہلی

 آپ شاید نہ مانیں لیکن ہمارے دوست بے نام خان ہمیں جب چڑھانا چاہتے ہیں تو اسی طرح پکارتے ہیں ۔ اور میرے ناراض ہونے پر بڑے اعتماد اور سنجیدگی سے کہتے ہیں کہ بھائی ٹھیک ہے تم ادیب نہيں ہو کہ کوئي مولانا ادیب ہو بھی نہیں سکتا لیکن مولانا تو ہو نا! اس میں اس قدر برہم ہونے کی کوئي ضرورت نہیں ہے ۔ اور اس کے بعد ہمارے اور ان کے درمیان ادیب اور مولانا کے موضوع پر پوری بحث چل پڑتی ہے ۔ ہمارے دوست کے حساب سے مولانا ہونے کا مطلب ہی یہ ہوا کہ اس کے اندر ادیبوں والی فراخدلی ، اعلا ظرفی ، وسعت نظر اور تحمل نہیں ہوگا اور ادیب ہونے کا مطلب ہی ہے کہ اس کے اندر مولاناؤں والی کج فکری ، ضد ، جوش اور اشتعال انگیزی نہیں ہوگي ۔ پھر بھلا ایک ہی آدمی ادیب اور مولانا کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ صفات ایک ساتھ جمع کیسے ہو سکتے ہیں ؟ یہ تو آپس میں ضدین ہیں ؟
   آپ ہوں تو نہ معلوم کیا کریں لیکن میں انہیں اپنی طرف سے مثالیں دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی تو مولانا تھے اور عربی کے ادیب بھی تھے ۔ مولانا عبدالماجد دریابادی مولانا تھے اور صاحب انشاپرداز اور  صاحب طرز خاص ادیب بھی تھے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد مفسر قرآن بھی تھے اور باضابطہ ادیب بھی تھے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی مولانا بھی تھے اور ماہر لسانیات ادیب بھی تھے اور میں مثالیں پورے جوش و ولولے کے ساتھ دیتا چلا جاتا ہوں ۔ اس درمیان وہ اس طرح سنتے ہيں جیسے اب وہ قائل ہوگئے ہیں اور جب میں سامنے والی میز پہ جوش و اعتماد کے عالم میں اپنی ہتھیلی مارتا ہوں تو ہولے ہولے مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں تو انہيں دلائل کے سہارے آپ اتنی لمبی چوڑی ہانک رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ آپ  مجھے چت کردینگے ۔
   جناب!  مولانا ابوالحسن علی ندوی کو اردو والے تو خیر ادیب سوچنے کی بھی غلطی نہیں کرتے اور عربی والے انہيں ہندوستانیوں میں ایسا عالم مانتے ہیں جنہیں عربی بھی لکھنے بولنے آتی ہے ۔ اور لکھنے کی بھی صلاحیت دوسرے ہندوستانیوں کے بالمقابل اچھی مانتے ہیں عربوں کے بالمقابل نہیں ۔ ایسے ان کے اندر خود ایک خوبی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو کبھی ادیب نہیں سمجھا ۔ یوں بھی تخلیقی ادب میں ان کی کوئي حصہ داری ہے بھی نہیں ۔
   مولانا عبدالماجد دریابادی بے چارے ادیب ضرور تھے اور صاحب طرز ادیب لیکن آپ کو دھوکہ نہ کھانا چاہیے وہ مولانا نہیں تھے ۔ در اصل ان کے اوپر مولانا لوگوں نے جال پھینک دیا اور بے چارے سیدھے آدمی پھنس گئے اور خود کو مولانا سمجھ بیٹھے اور اس غلطی میں پڑنے کی وجہ سے ایسی ایسی ادیبانہ غلطیاں ان سے ہوئیں کہ آج بھی ادب کا سنجیدہ طالب علم ان سے نالاں ہی رہتا ہے ۔' انگارے' کے بارے میں ان کے مولویانہ خیالات بتلاتے ہیں کہ آدمی اگر مولوی نہ بھی ہو اور اس کے اندر مولانائیت آگئی تو وہ کس قدر ذہنی طور پر سکڑ جاتا ہے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی مولانا سے زیادہ عالم تھے البتہ ادیب انہیں نہیں کہا جاسکتا ۔ اردو کی ابتداء اور نشو و نما کے بارے میں ایسے بھی ان کی رائے کمزور ہی مانی گئی ہے ۔ ان کی زبان میں رچاؤ تو ہے لیکن تخلیقی ادب میں ان کی کوئی حصہ داری نہیں ۔ شاعری کی تو وہ بھی بہر حال قابل ذکر نہیں ہے ۔ مولانا ابو الکلام آزاد بلاشبہ بڑے اچھے صحافی اور سیاست داں مانے گئے ہیں لیکن ان کی ادیبانہ اور مولویانہ دونوں حیثيت تسلیم شدہ حقیقت نہيں ہے ۔ مولانا کو مولوی لوگ ادیب اور ادیب لوگ مولوی سمجھتے ہیں ۔ ہاں البتہ یہ دونوں انہیں صحافی اور سیاستداں ضرور مانتے ہیں ۔ اور ایسے بھی میری نظر سے دیکھیے تو تذکرہ جیسی کتاب لکھنے والا آدمی ادیب ہو بھی کیسے سکتا ہے ۔ اللہ ہی جانے وہ کتاب انہیں خود بھی سمجھ میں آئی تھی یا نہیں ۔ میں آپ کو صحیح صحیح بتارہا ہوں کہ آج کے ننانوے فیصد ادیب کو تذکرہ دیکھ کر پڑھنے میں اچھی خاصی دشواری کا سامنا ہوتا ہے سمجھنے کا مرحلہ تو بعد کا ہے ۔
    مولانا ! یہ سب بڑے بودے دلائل ہیں ۔ سچی بات یہی ہے کہ کوئي مولانا مولانا رہتے ہوئے ادیب نہیں ہو سکتا اور کوئي ادیب ادیب رہتے ہوئے مولانا نہیں ہو سکتا ۔ آپ خود کو دونوں سمجھتے ہو اس لیے دیکھو کہیں نہيں ہو ۔
      میں نے پھر بھی ان سے کہا کہ ادیب ہونے کی خوبی تسلیم لیکن مولوی ہونے کے جو خصائل آپ نے گنوائے ہيں وہ آپ کو نہيں لگتا کہ آپ کی جھلاہٹ کے  آئینہ دار ہیں ۔ بھئي مولانا لوگ تو سادگی ، بے ریائی اور خدمت خلق سے بھرپور زندگی بسر کرتے ہیں اور آپ ان کے اوپر کیا کیا الزام دھر رہے ہیں ۔ ان کی تو پوری زندگی عبادت ، صبر وتوکل اور زہدو ورع سے عبارت ہوتی ہے ۔
ابھی میری بات پوری بھی نہیں ہوئي تھی کہ میرے دوست نے مجھے خاموش کرتے ہوئے کہا : شاید کبھی یہ باتیں درست رہی ہونگیں ۔ لیکن اب اللہ کے واسطے ان الفاظ کو مولانا لوگوں سے جوڑ کر ان کا تقدس پامال مت کرو ۔ دنیا میں دو بدنام پیشے ہیں سیاست اور مولویت ۔ اور یاد رہے کہ سیاست بھی اتنی چوکھی نہیں ہوتی جتنی مولانائيت ہوتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ اللہ کے بندے آج بھی اجداد کی وراثت سنبھالے ہوئے ہونگے اور بہت ممکن ہے کہ مولانا لوگوں میں بھی کچھ اللہ والے ہوںگے لیکن یہ ہونگے بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ۔ تم میرا منہ نہ ہی کھلواؤ تو اچھا ہو ورنہ خود تمہیں سر چھپانے کو جگہ نہیں ملیگی ۔ اور دیکھو اس موضوع کو یہیں بند کرو تو بھلا ہو ۔ مجھے تاریخ کا بھی علم ہے اور آج کی صورت حال سے بھی واقف ہوں ۔ تم مولویوں کا دکھڑا یہی ہے کہ تم کل کی عظمتوں کا گنگان کرتے نہيں تھکتے اور آج کی غلاظتوں پر نظر ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ بھائی میں ان باتوں میں جانا اچھا نہیں سمجھتا ۔ البتہ ادیب ہونے کے لیے مولانائيت سے توبہ کرنا ضروری ہے ۔ جب نیاز فتح پوری نے مولانا لوگوں سے پیچھا چھڑایا ہے تب کہیں جاکر اتنے بڑے ادیب بنے ہیں ۔ مثالیں تو اور بھی ہیں ۔ لیکن چھوڑو اور تم مولویوں کا حال کیا ہے ۔ اردو لکھتے ہو تو لگتا ہے جیسے سارے بھاری بھرکم الفاظ ایک ہی جملے میں استعمال کرلینے ہیں ۔ قومہ ، فل اسٹاپ اور دوسرے علامات کی کیا معلوم کوئي خبر ہوتی بھی ہے یا نہيں ۔ عربی اور فارسی کے ایسے ایسے الفاظ کہ توبہ بھلی ۔ 'ھلم جرا' اور' وقس علی ھذا' لکھ کر سوچتے ہو شیر مار گرایا ہے ۔ اب تم لوگوں کو کون بتلائے کہ بھائی صاف ستھری اور سادہ زبان میں پیغام پہنچ جائے تو اسے ہی ادب کہتے ہیں لیکن تمہیں  تو اپنی علمیت ، ادبیت اور نہ جانے کیا کیا تیت کی دھونس جھاڑنی ہوتی ہے ۔ ارے مولانا ! مسئلہ یہ بھی ہے کہ تم مولانا لوگ ادیبوں کو تو اس قابل سمجھتے نہیں کہ انہيں پڑھا جائے اور پھر جب تمہارے لکھے ہوئے ' اعلا مقالات ' لوگوں کو پسند نہیں آتے تو الٹے کہتے ہو کہ نام نہاد ادیبوں نے لوگوں کا ذوق بگاڑ دیا ہے ۔ مجال جو خود احتسابی کا جذبہ ابھر جائے ۔ مولانا مودودی ، سلیمان ندوی ، شبلی نعمانی ، ابوالکلام آزاد اور عبدالماجد دریابادی کا نام لے کر اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش تو کرتے ہو لیکن کبھی ان کی طرح لکھنے کی اور انہیں کی طرح محنت کرنے کے بارے میں سوچتے ہو ؟ شاعری میں علامہ اقبال پر خوب فخر کرتے رہو لیکن کبھی تو یہ کوشش بھی کرو کہ کچھ اچھی شاعری کے نمونے تمہارے دم سے بھی معرض وجود میں آئیں ۔ کبھی شاعری کرتے ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے بوڑھا آدمی سکرات الموت میں مبتلا ہے ۔
میں نے دیکھا کہ میرے دوست بالکل میرے (مولویانہ ) انداز میں نصیحت کرنے لگے ہیں اس لیے میں نے بحث تمام کیے بغیر بھاگ لینے کو اچھا سمجھا ۔ آپ کیا کرتے آپ سوچیے ۔

الاثنين، أكتوبر 20، 2014

غزل


ساگر تیمی
بجھی ہوئي ہے تو کتنی اداس لگتی ہے
مری گڑیا کسی وحشی کے پاس لگتی ہے
 یہ زندگی کہ جسے میں حیات کہتا ہوں
یہ نک چڑھی مجھے جھگڑالو ساس لگتی ہے
کسی نے کیا دیا باتیں! دعا کے لہجے میں
تمام عمر ہی نذر سپاس لگتی ہے
بہت ہی دور ہے نزدیک جاکے دیکھو تو
وہی وفا جو یہيں آس پاس لگتی ہے
اسی کو کہتے ہیں شاید وفا کی مضبوطی
وہ ڈانٹتی ہے مگر بے ہراس لگتی ہے
نقاب اچھا ہے فتنوں کو روکتا ہے مگر
حیا نہ ہو تو نظر بے لباس لگتی ہے
مزہ تو ویسے بہت ہے کلاس لینے میں 
مزہ بھی آئے جب اپنی کلاس لگتی ہے
یہی ہے زندگی ساگر مرے تجربے میں
حسین ہے مگر اکثر اداس لگتی ہے


السبت، أكتوبر 18، 2014

نمائندگان ملک و ملت کے نام ایک پیغام


رحمت کلیم امواوی
(جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی)

انسانی سماج و معاشرے کا یہ اپنا اصول ہے کہ اگر وہ کسی شخص کو اپنے درمیان بہت ہی معتبر اور باعزت گردانتا ہے،ہر قسم کے امتیازات سے انہیں نوازتا ہے تو واضح رہے کہ یہی سماج ان محبتوں کی ناقدری کرنے پر اسی شخص کو اس انداز میں ذلیل و خوار کرتا ہے کہ اس کا تصور کبھی خواب خیال میں بھی نہیں کرتا۔معاشرے کی تشکیل و تعمیر بڑے اچھوتے اور انوکھے انداز میں ہوتی ہے ۔ ہمیشہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرے کی خوش رنگ آب و ہوا کبھی بدلنے نہ پائے اور معاشرے کی فطرت کا یہ ایک مضبوط حصہ ہے کہ وہ ہر مجال میں اپنا ایک ترجمان یا نمائندہ چاہتا ہے،چاہے وہ سیاسی ہو،ثقافتی ہو،تعلیمی ہو یا صحافتی وغیرہ اور پھر اس چاہت کے پیچھے جو حکمت عملی کار فرما ہوتی ہے اور معاشرے کے جو مطالبات ہوتے ہیںوہ یہ کہ سماجی فلاح و بہبودی کیلئے ہر وہ کام کیے جائیںجو امکان کے دائرے میں آتے ہیں۔بجائے یہ کہ اپنا وقت غیر ضروری چیزوں کی نذر کریں ہمیشہ اس بات کی کوشش ہو نی چاہیے کہ سماج اور ملک وملت کو مستحکم کرنے کیلئے پوری توانائی کے ساتھ قدم بڑھائیں۔اب یہ سوال بر محل معلوم ہو تاہے کہ بنیای طور پر کن نمائندگان یا رہنماں سے اس قسم کی امید رکھتے ہیں؟میں یہ واضح کر دوں کہ سماج ایک چھوٹا سا حصہ ہو تا ہے کسی بھی ملک کا اور کئی معاشرے کے انسلاک کے بعد ایک ملک کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔لیکن سماجی سطح سے لیکر ملکی پیمانے تک ہر ان حضرات سے معاشرے کی یہ توقع ہوتی ہے جو ان کے سماج اور ملک کی نمائندگی سرکاری یا غیر سرکاری طور پر کر رہے ہوتے ہیں ۔چاہے وہ سیاسی میدان میں ہوں،مذہبی میدان میں ہو ں یا تعلیمی و ثقافتی وغیرہایک سوال اور یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے نمائندگان کا کردار اس حوالے سے کیا ہے؟میں تاریخ کے پیچ و خم میں الجھنے کے بجائے حالیہ دنوں جو پاسبان ملک وملت کا رول دیکھنے کو مل رہا ہے اس حوالے سے اس سوال کا جواب دینا مناسب سمجھتا ہوں۔عہد حاضر میں سماجی سطح سے لیکر ملکی پیمانے تک ہمارے نمائندگان کا جو رول رہا ہے اس کے مشاہدے کے بعد یہ فیصلہ کرنے میں بڑی آسانی ہو جاتی ہے کہ ہمارے بیشتر نام نہاد رہنماں کے پاس معاملے کے تئیں فہم و ادراک کا شعور نہیں ہے۔واضح لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں دخل اندازی کی تمیز نہیں ہے اور کونسی چیز غیر ضروری ہے ،کس معاملے میں ان کی مداخلت غیر ضروری ہے وغیرہ وغیرہ ان چیزوں کی تفریق کے ملکہ سے ہمارے بیشتر سیاسی ،مذہبی اور صحافتی ترجمان ناآشنا ہیں۔ البتہ ایک بات تو صاف ہے کہ ان تمام نمائندگان پر شہرت کا بھوت زبردست انداز میں سوار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اس فراق میں رہتے ہیں کہ کب موقع ملے جب ہم عوام کے درمیان سرخرو ہو جائیں اور راتوں رات شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچ جائیں۔
مذکورہ تمام باتیں (الزامات) کسی بھی ناحیہ سے غلط اور بے بنیاد نہیں ہیں بلکہ یہ تمام بڑی مضبوط سچائی ہے جن کی تائید و توثیق کیلئے ہمارے پاس ڈھیروں دلائل ہیں۔آئیے ماضی قریب کا سہارا لیتے ہوئے اس حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔آج سے تقریباًآٹھ دس سال قبل ہندوستان کی مشہور و معروف ٹینس اسٹار کھلاڑی ثانیہ مرزا کے لباس پر بڑے عجیب و غریب انداز میں علمائے کرام کی ایک جماعت وایلا مچانے لگی اور طرح طرح کی بیان بازیاں بھی ہوئیں۔جس پر ان حضرات کو ثانیہ مرزا نے یہ کہہ کر خاموش کر دیا تھا کہ’دیکھنا ہے تو میرے کھیل کو دیکھیں میرے اسکاٹ اور پاں کو نہ دیکھیں‘۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ کھیل تنگ لباس کے بغیر نہایت ہی مشکل ہے اور پھریہ کہ ثانیہ مرزا کونسا ہمارے اسلام کو ملک و بیرون ملک (Represnt)پیش کرتی ہے کہ علمائے کرام برہم ہوکر سیدھے میڈیا کے سامنے آگئے۔ ثانیہ مرزا نام رکھ لینا کیا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پوری طرح مسلمان ہے؟ تھوری دیر کیلئے اگر ہم اسے مان بھی لیں کہ وہ مسلمان کے زمرے میں ہے تو پھر ہمیں یہ یاد رکھنی چاہیے کہ اس کا گھر خاندان دور دور تک اسلامی نہیں، مغرب زدہ ہے۔اس کے باوجود بھی علمائے کرام کی یہ کوشش تھی کہ مرزا کو اسلامیات کا جامہ پہنائیں تو پھر یہ طریقہ کہ ڈائریکٹ میڈیا کے سامنے آکر ثانیہ کے خلاف بولنا شروع کر دیں غلط تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دو چند لوگ ثانیہ کے پاس جاتے اور اسے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے تو پھر یہ ایک مہذبانہ طریقہ ہو سکتا تھا اور بہت حد تک اس میں کامیابی ملنے کی امید بھی کی جا سکتی تھی۔شاہ رخ خان جو کہ ہندوستانی فلمی جگت کا بادشاہ کہلاتا ہے ایک مرتبہ کسی شخص نے خان کے حوالے سے سوال کیا کہ آیا شاہ رخ خان مسلم ہیں یا نہیں؟ اس پر بھی علمائے کرام نے مستقل فتوے صادر کرکے انہیں کافر گردانا۔ اسی طرح سے جب شاہ رخ خان سروگیٹ(Surrogate) کی مدد سے ایک بچے کے باپ بنے تو پھر علمائے امت فتوی در فتوی اس انداز میں دینے لگے کہ خان بھی ایک وقت کیلئے گھبرا گئے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔علاوہ ازیں ایک اور فتوی آیا ہے کہ شاہ رخ خان یا سلمان خان نام رکھنا صحیح نہیں ہے۔اس فتوی کی وجہ جو بتائی جا رہی ہے وہ یہ کہ شاہ رخ خان اور سلمان خان دونوں خاص طور پر اپنی فلمیں عید و بقرعید کے موقع پر ریلیز کرواتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کا رجحان ان کی فلموں کی طرف زیادہ بڑھتا جا رہا ہے، مذہبیات سے دور کرنے میں ان کی فلمیں اہم رول اداکررہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا سلمان یا شاہ رخ خان نام رکھنے سے یہ رجحان کم ہو جائے گا؟کیا ان کی فلمیں دیکھنے والوں کا نام شاہ رخ یا سلمان ہی ہوتا؟اور پھر اب تک کیا کسی کے شاہ رخ یا سلمان نام رکھنے پر ان دونوں اداکار پر کوئی اثر ہوا ہے جو نام نہ رکھنے کی صورت گمان کیا جا رہا ہے؟معمولی سی بات ہے کہ آپ اپنی اصلاح خود کریںبجائے یہ کہ نام ،بال ،لباس کا سہارا لیکر مخالفت کا جھوٹا ڈھنڈوڑاپیٹیں۔مذہبی رہنماں کے علاوہ سیاسی ،سماجی نمائندگان کا بھی اگر آپ جائزہ لیں گے تو معلوم ہو گا کہ معاملہ ’نہلے پے دہلہ‘کے مانندہے۔یہ لوگ بھی کم نہیں ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال بالی ووڈ دبنگ سلمان خان کے خلاف احتجاج و مظاہرہ ہے۔ٹیلی ویژن کا مشہور شو’بگ باس‘کے سیزن آٹھ کا افتتاح ہو رہا تھا۔سلمان خان بطور ہوسٹ(Host) موجود تھے۔ ماڈل(Model)مختلف قسم کی لباس میں ریمپ(Ramp)پر اتر رہی تھی۔اسی میں ایک ماڈل ایسے تنگ لباس میں تھی جس پر عربی میں’اللہ‘لکھا ہوا تھا۔اب یہ خبر موقع پرست نام نہاد مسلم رہنماں اور قلم کاروں کو لگ گئی ۔پھر کیا تھا سیاسی لیڈران نے تو باضابطہ طور پر چند مسلم نوجوانوں کو مذہبی جذبات کا حوالہ دے کر احتجاجی اکھاڑے میں اتر آئے اور جم کر مظاہرے کیے،کیس درج کیا گیا،معافی کا مطالبہ کیا گیا،کفر کا فتوی صادر کرنے کی دھمکی دی گئی وغیرہ وغیرہساتھ ہی ساتھ کچھ شہرت پسند قلم کاروں نے بھی اس کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوششیں کی اور سلمان خان کے خلاف قرطاس در قرطاس سیاہ کرتے چلے گئے۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ سلمان خان جو عربی اور اردو کے ایک لفظ سے واقف نہیں وہ کیا جا نتا ہے کہ عربی میں اللہ اور خدا کیسے لکھا جاتا ہے اور پھر سلمان خان یا شاہ رخ خان یہ تو گانے بجانے والے لوگ ہیں ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،یہ لوگ دیوی دیتاں کے سامنے بھی ہاتھ جوڑتے ہیں ،گرجا گھر کی سیر کرتے ہیں،پھر مسجد بھی آتے ہیں ،ان کا تو کبھی کوئی مذہب رہا ہی نہیں۔پھر سلمان خان بگ باس کا مالک تو نہیں اسے پیسہ دیا جاتا تو وہ اس پروگرام کو ہوسٹ کرتا ہے۔تو یہ ہنگامہ بے معنی کیوں؟میں سلمان یا شاہ رخ کسی شخصیت (Personality)کا فین(Fan)نہیں ہوںاور ناہی کسی خاص شخص کو پسند کرتا ہوں البتہ ہر کسی کی اچھائیوں کو ضرور قبول کرتا ہوں چاہے وہ دوست ہو یا دشمن،مسلم ہو یاغیر مسلم۔لیکن بات یہ ہے کہ ہمیں ان کے خلاف ایسے موضوع پر بولنا جس کا وہ خود گمان نہیں کر سکتا ہو کیا معنی رکھتا ہے؟ مشہور شاعر وسیم بریلوی نے بہت خوب کہا ہے کہ
                        کونسی بات کہاں ،کیسے ،کہی جاتی ہے
                         یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
جموں کشمیر میں جب سیلاب کی وجہ سے نفسی نفسی کا عالم تھا ،کھانے پینے اور دیگر راحتی اشیاءکی انہیں سخت ضرورت تھی تب ہمارے نام نہاد رہنماءبجائے یہ کہ ان متاثرین کی امداد کیلئے مضبوطی سے آگے آئیں اور تن من دھن سے ان کی معاونت کریں یہ لوگ سلمان خان کے خلاف میڈیا میں شہرت بٹورنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔جس وقت ہندوستان میں صفائی مہم کی مدد سے گندگیوں کے خاتمے کیلئے ایک خوشگوار پہل کی جارہی تھی اس وقت چند نام نہاد سیاسی رہبران اور کچھ سماجی تنظیم اس کی تاریخ کو موضوع بنا کر اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گاندھی جینتی اب تک ہر سال نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جا تا رہا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس حوالے سب باشندگان ہند کو اب تک ملا کیا؟اگراب اسی بہانے صفائی کا پیغام عام کیا جا رہا ہے تو پھر اس میں مضائقہ کیا ہے۔یہ تو اچھی بات ہے کہ اس گاندھی جینتی پر ہندوستانی عوام کو ’سووچھ بھارت ابھیان‘کی تحریک ملی۔پھر اس پر چہ می گوئیاں کہ یہ گاندھی جینتی ہے ،اس دن صفائی مہم کا آغاز گاندھی کی شان میں گستاخی ہے،گاندھی کو جھارو لگانے کے جیسا ہے وغیرہ وغیرہ بالکل بے بنیاد اور غیر ضروری ہے۔گاندھی جو خود صفائی ستھرائی کے تئیں ہمیشہ بیدار رہے اور اس کو ہمیشہ ترجیح دیا،اور اس کی اپیل بھی کی ،ایسے میں بجائے نکتہ چینی کے اگریہ کہا جاتا تو کیا خوب ہوتا کہ گاندھی جینتی کی مناسبت سے گاندھی جی کے ایک پیغام کو عام کر نا خوشگوار عمل ہے ۔

خلاصہ کلام یہ کہ ہمارے پاسبان قوم و ملت کیلئے وقت آگیا ہے کہ اپنی اہمیت آپ سمجھیں اور کس مقام پر ان کی پیش قدمی کی ضرورت ہے اس احساس کو زیادہ سے زیادہ پنپنے دیں۔وقت وحالات کب کس چیز کے متقاضی ہیں اس تمیز کو ضرور بروئے کار لائیں۔عوام کی امید اور ان کی تمناں کوٹھیس پہنچانے ،غیر ضروری کاموں کو بغرض تشہیر کرنے کے بجائے ملک و ملت ،سماج و معاشرہ کو مستحکم کرنے کیلئے مضبو ط قدم اٹھائیں قبل اس سے کہ معاشرہ آپ کا قدم اکھاڑ دے۔اللہ ہمارے رہنماں کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے:آمین

الخميس، أكتوبر 02، 2014

معصوم فلسطینی کا معصوم سوال


ڈاکٹرعبد المعطي الدالاتي 
اردو تعبیر: سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی

                                               الكُلُّ – غيري - قد أتى في الليلِ دارَهْ  
کیا میری ہی طرح ہر بچہ دیر رات اپنے گھر لوٹتا ہے
وأنا المشرَّدُ .. لم أذقْ غيرَ المرارهْ
                 میں تو بے گھر ہوں...میری زندگی کا حاصل توصرف تلخی اور تلخی ہے
                                             بَدِّلْ سلاحَك – يا أبي – وَدَعِ الحجارَهْ 
اے میرے ابا جان! آپ ہتھیار ڈال دیں,اور سنگ سارے پھینک دیں
لا شكَّ أخصبُ سُنبلَهْ * كفٌّ تفجّرُ قنبلهْ
بے شک سب سے ہری بھری ڈالی وہ ہاتھ ہے جس میں بسفوٹنگ بم ہو
هلْ كلُّ طفلٍ – ياأبي – قد جاعَ مِثلي ؟!
بابا!کیا ہر بچہ میری ہی طرح رات رات بھر بھوکا پیٹ رہتا ہے؟!
وأتى الحياة كمجرمٍ يحيا بُذُلِّ ؟! 
اور آنکھیں کھولتے ہی مجرم کی سی ذلت آمیز زندگی جینے لگتا ہے؟!
أَ تُراهُ قد فَقد الطفولةَ كلُّ طفلِ ؟!
کبا ہر ایک بچہ اپنا بچپن کھو چکا ہے ؟!
إنْ أعجزتكَ المسأَلَهْ * فازرعْ بكفي قُنبلَهْ 
اگر میرے ان سوالوں سے آپ زچ ہورہے ہیں تو میرے ہاتھوں میں آپ ایک بم کیوں نہیں ڈال دیتے؟!
القبرُ أوسعُ – يا أبي – من كوخنا  
 ابا! ہماری جھوپڑی سے زیادہ کشادہ تو قبر کی پہنائی ہے       
هيّا نعودُ إلى حديقةِ بيتنا
                                آئیں ہم اپنے گھر کے باغیچے کو لوٹ چلیں
                                                  هيّا إلى جلاّدِنا .. هيّا بنا 
                       آئیں ہم خود کو وقت کے جلاد کے سپرد کردیں...چلیں !  
                                 إن الحديقـةَ مُقبلهْ  ***  مِفتـاحُها في قُنبـلهْ
         یہ باغ تو ہماری آنکھوں میں ہے....اس کی کنجی ہمارے ہاتھ کے بم بلاخیزمیں ہے 
                                                      * * *