الخميس، مايو 28، 2015

مسکراتا چہرا
ساگر تیمی
افسر : ہاں تو تم یہ بتاؤکہ دہشت گردوں کے کس کس گروہ سے تمہارا تعلق ہے ؟
ملزم : سر ! کسی سے نہیں ۔  
افسر: جھوٹ مت بولو ۔ اب تم ہمارے چنگل میں ہو تمہیں تو سچ بولنا ہی پڑے گا ۔
ملزم : سر ! جھوٹ بولنا ایسے بھی ہمارے دین میں حرام اور بڑا گناہ ہے ۔
افسر: کیا مطلب ؟
ملزم : سر! اگر ہم جھوٹ بولینگے تو ہمیں اللہ کے یہاں سزا ملے گی جو یہاں کی سزا سے زيادہ بڑی اور خطرناک ہوگی ۔
افسر : اچھا ! تم نے ہمیں بے وقوف سمجھ رکھا ہے ۔ پھر تمہارے لوگ اتنا جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ لوگوں کی جانیں کیوں لیتے ہیں ؟
ملزم :  سر! اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کو صحیح دین کا پتہ نہیں ہے یا پھر وہ اپنے مفاد کے لیے دین کا غلط استعمال کررہے ہیں ۔
افسر : تو تمہارا دین کیا کہتا ہے ؟
ملزم : سر ! ہمارا دین تو ایک اللہ کی عبادت کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور سارے انسانوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کو کہتا ہے اور ساتھ ہی یہ حکم دیتا ہے اللہ کی جو سچائی ہمارے پاس ہے وہ ہم تمام انسانوں تک پیار ، محبت اور حکمت سے پہنچائیں ،
افسر : پھرتم لوگ جہاد کس لیے کرتے ہو ؟ تم جہاد کو مانتے ہو کہ نہیں ؟
ملزم : سر ! جو جہاد کو نہ مانے وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ۔ ظلم کے خلاف لڑنا ، مظلوم کی مدد کرنا اور ظالم کے خلاف مورچہ سنبھالنے کو کون غلط کہہ سکتا ہے ۔ کیا آپ غلط کہتے ہیں ؟
افسر : اگرایسا ہے تو تم لوگ بم پھوڑ کر معصوموں کی جانیں کیوں لیتے ہو؟
ملزم : سر ! اسلام میں جہاد کا مطلب یہ ہےکہ ہم اپنے دین کی دعوت محبت سے آپ کو دیں ۔ آپ قبول کریں یا نہ کریں یہ آپ کی مرضی لیکن اگر کوي تیسرا فرد بیچ میں آکر یہ کہے کہ ہم تمہیں دین کی دعوت نہیں دینے دینگے ،وہ راستہ روکے تو ایسی صورت میں اگر طاقت ہوگی تو ہم اس سے لڑینگے اور اس رکاوٹ کو دور کرینگے اور طاقت نہيں ہوگی تو صبر کرینگے اور دعا کرینگے اور یہی جہاد ہے ۔ اور ہاں سر یہ فیصلہ عام آدمی نہيں کرے گا بلکہ اگر مسلم حکومت ہوگی تو وہ کرے گی ۔
افسر : اوراگر عام مسلمان جان لینے پر اتارو ہو جائے تو ؟
ملزم : سر! اسے اسلامی اعتبار سے غلط سمجھا جائے گا ، یہ فساد ہے  اور آپ چاہیں تو اسے دہشت گردی بھی کہہ سکتے ہیں ۔
افسر : اچھا ! تو آپ کے حساب سے ہندوستان میں جہاد ہے کہ نہيں ؟
ملزم : سر! یہاں تو ہمیں عبادت اور دعوت دونوں کی آزادی حاصل ہے ۔ ہماری جانیں محفوظ ، مال محفوظ اور ہم محفوظ ہیں بھلا یہاں جہاد کیسے صحیح ہو سکتا ہے ۔ یہاں تو رکاوٹ ہے ہی نہیں !
افسر : یعنی اگر روکاٹ ہوگی تو آپ جہاد کرینگے ؟
ملزم : سر ! ہمارے یہاں طاقت نہ ہونے کی صورت میں صبر ہے فساد نہیں اور اگر طاقت ہو تو جنگ ہے دہشت گردانہ کاروائیاں نہیں ۔
افسر : کمال ہے ۔ تم تو بالکل انوکھی تشریح کررہے ہو ۔ تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو ؟
ملزم : سر! میں اسلام کا عالم ہوں ۔ میں نے قرآن و حدیث پڑھا ہے اور ہم تمام مسلمانوں کو مدرسوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے ۔
افسر : اچھا تو یہ بتلاؤ کہ ہم نے جب سے تمہیں پکڑا ہے ۔ تم لگاتار مسکرائے جارہے ہو ۔ ہمارے یہاں تو اچھے اچھوں کی حالت خراب ہو جاتی ہے ۔
ملزم : سر ! میں غلط نہیں ہوں ۔ اس کے باوجود مجھ پر زیادتی ہوگی تو میں صبر کرونگا اور مجھے پتہ ہے کہ اس پر صبر کرنے کی وجہ سے مجھے اللہ کے یہاں اجر ملے گا ۔ میں غلط ہوتا تو پریشان ہوتا ۔
افسر : اور تم جہاد اس لیے کروگے کہ جنت میں تمہیں حور ملے ؟
ملزم : سر! حور کے حصول کے لیے جہاد ضروری نہیں ہے جو کوئی مسلمان جنت میں جائےگا اسے حور ملے گی ۔
افسر : لیکن تم اب بھی کیوں مسکرارہے ہو ؟
ملزم : سر ! مسکرانا میرے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی اچھا ہے ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا بھی ہے کہ جب کسی سے ملو تو مسکراکر ملو ۔
افسر : یار ایسا ہے کہ تم یہاں سے جاؤ ۔ میں سمجھ نہیں پارہا کہ تمہارے ساتھ کیا کروں ؟ تم پہلے آدمی ہوجو ہماری کسٹڈی میں ہمیں ہی سوچنے پر مجبور کررہے ہو ۔ اگر تمہارا دین ایسا ہی ہے تو پھر یہ سب کیوں ہورہا ہے ؟ دیکھو۔ ابھی تم جاؤ ۔ جب ضرورت پڑےگی ہم تم سے بات کرینگے اور ہاں اسی طرح مسکراتے رہنا ۔ مسکراتے ہوئے تم بہت اچھے لگتے ہو ۔
    انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور میں اپنے ڈیرے پر آگیا ۔ عبدل اپنی پوری داستان سنارہاتھا اور میں اخبار کے سب سے پہلے صفحے پہ چھپی اس کی تصویر نہارے جارہا تھا ۔ وہی تصویر جس کے نیچے " دہشت گردانہ کاروائیوں کا ملزم " لکھا ہوا تھا ۔ سچ مچ عبدل تصویر میں بھی مسکرارہا تھا اور اس مسکراہٹ میں بلا کی معصومیت اور کشش تھی ۔





الخميس، مايو 14، 2015

مسلمانوں کی تاریخ معجزوں سے بھری ہوئي ہے
ثناءاللہ صادق تیمی ، الرئاسۃ العامۃ لشؤون المسجد الحرام و المسجد النبوی
قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب ایسا لگتا ہے کہ جیسے اب ان قوموں کا مٹ جانا طے ہے ۔ کتاب حیات سے ان کے صفحات ہمیشہ کے لیے کھرچ کر الگ کردیے جائیگے اور روئے زمین پر ان کا نام لیوا کوئی نہ رہ جائے گا ۔ بہت سی قوموں اور تہذیبوں کے نام و نشان مٹے بھی ہیں اوروہ صحیح معنوں میں نسیا منسیا کی مثال بھی بنے ہیں ۔ امت مسلمہ کی تاریخ پر نظر دوڑائیے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تاریخ میں کئی موڑ ایسے آئے جب لگنے لگا کہ اس امت کی بساط لپیٹ دی جائے گی ۔ لیکن ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ کا سب سے روشن تجربہ یہ ہے کہ سورج کی مانند یہ امت کبھی غروب نہ ہوسکی ۔ اقبال نے کہا ہے ۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
ہماری شروعات ہی ایسی ہوئی کہ جیسے ایک چراغ مسلسل آندھی کی زد میں ہے ۔ لیکن مکہ کی پوری کافر برادری اپنے سارے سازو سامان ، آن و بان اور قوت وشہامت کے باوجود اس سراج منیر کا کچھ بھی بگاڑ پانے میں ناکام رہی ۔ اسے رسول الامۃ کا معجزہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ جس دعوت کی شروعات ایک فرد نے کی تھی ، جسے ستایا گیا تھا ، جان لینے کی کوشش کی گئی تھی ، جس کے نادار ماننے والوں پر ظلم و عذاب کی ساری سنتیں تازہ کر دی گئی تھیں ، جسے خود اپنے شہر سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا تھا وہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ سال کی مختصر مدت میں بحیثيت فاتح لوٹتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اس کے سامنے اس کے سارے دشمن سرنیچا کیے عفوو درگذر کے سوالی بنے کھڑے ہیں ۔ غور سے دیکھیے تو مسلمانوں کی تاریخ ہی معجزوں کی تاریخ ہے ورنہ مضبوط پٹھوں والے نوجوانوں کے بیچ سے سورۃ یس کی ابتدائی آیتیں پڑھ کر نکل جانا آسان تھا کیا ۔ در اصل یہ اللہ کی خاص مہربانی تھی ۔ تین سو تیرہ کے نہتھے جتھے کا ایک ہزار کے مسلح لشکرکو چت کردینا اور غزوہ احزاب میں باد باد صر صر کے ذریعہ دشمنان اسلام کے خیمے میں ہلچل پیدا کرکے مسلمانوں کی حفاظت ہم سے کیا کہتی ہے ؟
    رسول کائنات کی وفات کے بعد ارتداد اور مانعین زکوۃ کے فتنے نے جس طرح سر اٹھایا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد مسلمان جس طرح سے ٹوٹے ہوئے تھے لگ تو ایسا رہا تھا کہ بس اب اس قافلے کے بکھر کر مٹ جانے کا وقت آگیا ہے لیکن صرف ایک آدمی کی بصیرت اور ایمان نے ایسا سماں پیدا کردیا کہ چاروں طرف مسلمانوں کی قوت کی دھاک بیٹھ گئی ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جس طرح سے گھیر کر بلوائیوں نے ظلم و تعدی کے سارے حدود پار کرتے ہوئے شہید کردیا ، سوچا جا سکتا ہے کہ مظلومیت اور حق کی کسمپرسی کی کیا کیفیت رہی ہوگی کہ لمبی چوڑی اسلامی حکومت کے فرمانروا کو یوں قتل کردیا جائے ۔ جنگ جمل اور جنگ صفین کے وہ لمحات کیسے رہے ہونگے جب ایک مسلمان کے مد مقابل دوسرا مسلمان رہا ہوگا ۔ تاریخ کے تجربات نے تاریخ سے یہی کہا ہوگا کہ اب اس قوم کا آخری وقت آرہا ہے لیکن یہ دیکھیے کہ امت بنو امیہ کی خلافت میں کس قوت سے ابھر رہی ہے !!
 تاتاریوں نے قتل و خون کا جو ننگا ناچ ناچا ہے اور امت کے اوپر جس قسم کا عذاب مہین نازل ہوا ہے کس کے گمان میں تھا کہ اللہ تبارک وتعالی اسی خونریز قوم کو کہ ایمان والوں کو مٹانے کے لیے اٹھی ہے ، ایمان کی حفاظت کا ذریعہ بنا دے گا ۔ یہ اس امت کا کیسا معجزہ ہے !!
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
دور کیوں جائیے اپنے ہندوستان ہی کی تاریخ کو ذہن میں رکھ لیجیے ۔ اور اس میں بھی مغلوں کی شاندار سلطنت کی نہیں بلکہ آزادی کے بعد تقسیم کی کوکھ سے جنم لینے والی اس صورت حال کو ذہن میں رکھ لیجیے جب پوری قوم بحیثيت قوم خوف کی نفسیات میں جی رہی تھی ۔ جب آئے دن فسادات کے نہ جانے کتنے گولے داغے گئے ، باضابطہ پلاننگ کرکے ان شہروں کو فسادات کی آگ میں جھونکا گیا جہاں ہماری معیشت مضبوط تھی ۔ فسطائی ذہنیت نے وہ ہنگامہ کھڑا کیا کہ 1992 میں بابری مسجد ڈھائی گئی اور ملک کے چاروں طرف الٹے ہمیں ہی نشانہ بنایا گیا ۔ ہمارے خلاف تعصب کے سارے بچھو آزمائے گئے اور نفرت کے سانپ کو ہمارے پیچھے چھوڑ دیا گیا لیکن انجام کار کیا ہوا ؟ کیا ہم مٹ گئے ؟ کیا ہماری بساط الٹ دی گئی ؟ کیا ہمارا ایمان اور ہمارے اعمال صالحہ کی روشنی مدھم پڑ گئی ؟ کیا حق و صداقت کے حاملین نے صبروشکیبائي کے ساتھ آگے کا سفر جاری نہيں رکھا ؟
اللہ کی قسم ہمارے دشمن کی یہ ذلت ہی ہے کہ انہوں نے درندگی اور سبعیت کے ایک پر ایک ریکارڈ بنا ڈالے لیکن انہيں کامیابی نہ مل سکی ۔ ہم نے ایمان ، عمل صالح اورمضبوط قوت دفاع کے ذریعہ ہر طرح کی صورت حال کا مقابلہ کیا اور الحمد للہ سرخرو ہوئے ۔ ایسا نہیں کہ اس بیچ ہمارا نقصان نہيں ہوا ، جانیں ضائع نہ گئیں ، عصمتیں تارتار نہ ہوئيں ، ہمارے جگرگوشوں پر آرے نہ چلائے گئے اور ہماری نگاہوں میں سلائیاں نہ پھیری گئیں لیکن یہ سچ ضرور ہے کہ ہم ڈوبے نہیں ، ہم نے پسپائي اختیار نہ کی اوربحیثیت ایک قوم کے ہمارا سفربہر حال جاری رہا ۔
    قوموں کی زندگی میں برے وقت آتے ہیں ۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ آج ان کی حکومت ہے جن کے ہاتھ معصوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہيں ، جن کی پہچان نفرت اور شعار تعصب ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ یہ وقت سدا کے لیے باقی رہنے والا نہیں ہے ۔ دیکھ لیجیے کہ چہرے پر جو غازہ لیپا گیا تھا اب وہ پگھلنےلگا ہے ، نفرت کے سوداگروں کو عوام پھر سے دھتکاررہے ہیں اور کوئي بعید نہیں کہ مشرق سے ابھرنے والا سورج کوئي اور ہی پیغام لے کر نمودار ہو ۔ ہمارا علاج نہ تو ہمت شکن خوف میں ہے اور نہ ایمان فروش بزدلی میں اور نہ حماقت آمیز جوش میں ۔ ہمارے مسائل کا حل ایمان ، عمل صالح ، ٹھوس حکمت عملی ، بصیرت افروز پالیسی اورصبر وشکیبائی کے اس نور میں ہے جسے تقوی و پرہیزگاری قوت فراہم کرتی ہے ۔ اللہ کا ارشاد ہے ( وان تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدھم شیئا )
   یاد رہے کہ ہمارا مخالف چال چل رہا ہے کہ خوف کا ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ پوری قوم ترقی کے راستے سے ہٹ جائے لیکن یہ دشمن کو بھی پتہ ہے کہ اب یہ قوم بیدار ہے ، نگاہیں کھل چکیں ہیں ، عقلوں نے تقلید کی بندشیں توڑ دی ہیں ، ایمان میں قرار اور قوت ہے اور آگے بڑھنے کی امنگ اندھیروں سے پریشان ہونے والی نہیں ہے ۔ بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی سے مالامال یہ قوم شب دیجور کے شکم سے صبح تازہ نکال کر ہی دم لے گی ۔ بقول شاعر غلام ربانی تاباں ۔
یہ رات بہت تاریک سہی ، یہ رات بھیانک رات سہی
اس رات کے سینے سے پیدا اک صبح درخشاں کرنا ہے
اور علامہ اقبال کی زبانی
میں ظلمت شب میں لے کے نکلونگا اب درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس میرا شعلہ بار ہوگا
  بعض افراد ایسے ہیں جن کے ایمان کی کمزوری اور تجربے کی کمی نے انہیں شاہراہ حق وصداقت سے منحرف کردیا ہے ، جنہوں نے دشمنوں کے خیمے میں جاکر پناہ ڈھونڈنا شروع کردیا ہے اور نفاق و تملق کی سیڑھی چڑھ کر نام نہاد ترقی کے راستے پر چلنے کی کوشش شروع کردی ہے، ہمیں ان کی طرف رشک بھری نگاہوں سے دیکھنے کی بجائے اس بھیانک نتیجے کا انتظار کرنا چاہیے جسے اللہ نے منافقوں اور ابن الوقتوں کے لیے مقرر کررکھا ہے ۔ اللہ کی سنت ان کے لیے بدلنے والی نہیں ہے اور یہ اپنے سیاہ اعمال کے منطقی نتیجے تک اب تب پہنچنے ہی والے ہیں ۔ بس ہمارا یہ یقین اور ایمان تازہ رہے کہ سچ کا مقدر شکست نہیں ہے اور تاریکی چاہے جتنی گہری ہو روشنی کی ہلکی سی کرن بھی اسے شکست فاش سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔
اپنی صفوں میں علم ہے ،جرائت ہے، وقت ہے
ایسا نہیں کہ سچ کا مقدر شکست ہے
ایمان تازہ رہے ۔ دشمن مکر کررہا ہے اور ہماری جانب سے اللہ کا مکر جاری ہے ۔ (ویمکرون و یمکر اللہ و اللہ خیر الماکرین ) وہ بھی مکرکررہے ہیں اور اللہ بھی مکرکررہا ہے اور اللہ سب سے بہتر مکر رکرنے والا ہے ۔ پھر یہ خوف کی نفسیات کیوں ؟ آگے بڑھنےمیں پریشانی کیوں ؟ لوٹے جانے کا ڈر کیوں ؟ اسے نکال پھینکیے کہ یہ ایمان کی کمزوری ہے ! اوربرملا کہ دیجیے !
لو ہم پھر جلا رہے ہیں چراغ
اے ہوا حوصلہ نکال اپنا









مدارس نہيں ، کالج کی ضرورت ہے ؟؟؟
(آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے )
ثناءاللہ صادق تیمی ، اسسٹنٹ پروفیسر ، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض ، سعودی عرب
برصغیر ہندو پاک کی حد تک یہ بات پوری طرح درست ہے کہ اسلام کی روح ، مسلم شناخت اور دین کا جو کچھ بھی تصور و مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے اس میں مداراس اسلامیہ کا سب سے اہم کردارہے ۔  ہمارے اسلاف واقعۃ بڑے سمجھدار اور بصیرتوں کے مالک تھے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد امت مسلمہ کے دینی تشخص کی حفاظت مشکل ہو جائے گی تو انہوں نے مدارس اسلامیہ کا جال پھیلا دیا ۔ سادگی ، قناعت اور جفاکشی کی بنیاد پر دینی تعلیم کا بندو بست کیا گيا اور دیکھتے دیکھتے یہ جال ایک ایک بستی میں مکتب کی شکل میں پھیل گیا ۔ پوری دنیا میں یہ بات مانی جاتی ہے کہ برصغیر کے اندر مسلمانوں میں اپنے دین کا شعور بہت ہوتا ہے اور یہ بات ہمیں تسلیم کرنی ہی پڑےگی کہ بہرحال یہ کریڈٹ مدارس ومکاتب اور اس کے اندر اپنی جاں سوزی اور جگرکاوی سے روشنی بکھیرنے والے علماء کو ہی جاتا ہے ۔ مدارس کا بنیادی مقصد دین کی تعلیم ، اسلامی دعوت کا فروغ اور اسلامی تربیت سے لیس مسلم نوجوانوں کی کھیپ تیار کرنا ہے ۔ آج سے بیس پچیس سال قبل تک مدارس میں تعلیم کا مطلب اللہ کے دین کی خدمت اور دعوت اسلامی کی اشاعت کا جذبہ ہوا کرتا تھا ۔ بہت سے صاحب حیثيت لوگ بھی اپنے بچوں کو اسی جذبے کے تحت مدارس کے اندر داخل کرتے تھے اور مدارس سے فارغ ہونے والے علماء بھی دعوت و خدمت سے جڑے معاملات سے خود کووابستہ رکھا کرتے تھے ۔ لیکن جب مغربی افکار کے زیر اثر مادیت کا طوفان اٹھا تو اس کی زد میں مدارس بھی آئے ۔ طلبہ مدارس کو خود کفیل کرنے کے لیے سائنس و ٹکنالوجی ، انگریزی اور عصری علوم پڑھانے کی پرزور وکالت کی گئی اور دیکھتے دیکھتے جہاں بہت سے مدارس نے اپنے نصاب میں ترمیم و تبدیل سے کام لیا وہیں بہت سے مدارس نے یونیورسٹیز سے اپنے ادارے کا الحاق بھی کرایا ۔ پھر دیکھنے میں یہ آیا کہ زیادہ تر بالیاقت اور ذہین طلبہ نے عصری جامعات کا رخ کرلیا۔ ایسے فارغین مدارس دعوت و تعلیم کے سوا دوسرے میدانوں میں اپنی حیثيت منوارہے ہیں ۔ خاص طور سے کارپوریٹ میں تو خوب کھپ رہے ہیں ۔ اتنا ہی پر شاید یہ معاملہ رک جاتا تو چل بھی جاتا لیکن ہوا یہ کہ اسی بیچ جب خلیج کے اندر دولت ظاہر ہوئی اور وہاں کے مسلمانوں نے مسلمانان عالم کو اپنے عطیات سے نوازنا شروع کیا تو برصغیر کے ارباب مدارس اس میں آگے آگے رہے ۔ بلڈنگیں بنیں ، بڑے بڑے مدارس وجود میں آئے ، بہت سا کام ہوا ، سعودی عرب نے اساتذہ کو تنخواہیں دینی شروع کی ، بہت سے اداروں کے اندر مدنی علماء مبعوث ہوئے اور یوں مدارس سے جڑا ہوا مفلسی کا تصور آہستہ آہستہ محو ہوتا گیا ۔ عوامی سطح پر یہ بات عام ہوئی کہ اب مدارس کے اندرتعلیم پانا دنیاوی زندگی کی آشائش کی قربانی پر نہیں ہے بلکہ صورت حال دونوں ہاتھ میں لڈو کی ہے یعنی دینی تعلیم سے حاصل ہونے والی عزت و وقار بھی ہے اور عصری علوم سے بہرور ہونے کے امکانات بھی اورنہیں تو ابتعاث کی دولت سے مالا مال ہونے پر خوشحال اور الجھنوں سے دور زندگی گزارنے کی سعادت بھی ۔ ایک خاص دائرے تک اس میں کوئي بڑا مضایقہ بھی نہیں تھا لیکن ہوا یوں کہ ارباب مدارس ، اساتذہ مدارس اور مدارس سے جڑے ہوئے لوگوں کے ذہن سے دعوت و خدمت کا تصور آہستہ آہستہ اگر ختم نہیں ہوا تو مدھم ضرور پڑا اور قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرنے والے ادارے لاموجود الا البطن کی پکار لگانے لگے ۔ اس پر ایک دوسرا ظاہرہ یہ پیدا ہوا کہ پینٹ کو ٹ والے عصری علوم سے مالا مال حضرات اپنے طور پر دینی علوم حاصل کرکے دعوت کے میدان میں کود پڑے ۔ ان کے پاس دین کا علم تو کم تھا لیکن حالات پرنظر اچھی تھی ۔ ٹیکنالوجی کے استعمال سے واقف تھے ۔ میڈیا میں رہنے کا ہنر آتا تھا چنانچہ رہا سہا کسر اس ظاہرے سے ٹوٹ گیا اور مرعوبیت کا مہیب سایہ گہرا سے گہرا ہوتا گیا ۔  اور نتیجہ اب اس طرح نکل رہا ہے کہ ارباب مدارس اب اپنی توجہ مدارس پر مرکوز کرنے کی بجائے مختلف قسم کے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ ، بی ایڈ کالج اور جونئیر اسکولز وغیرہ پرصرف کرنے لگے ہيں ۔ اس سلسلے میں چند باتیں پیش کرنی ہیں ۔
1 ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اتنے زیادہ مدارس ہونے کے باجود ابھی بھی سماج میں علماء کی کمی ہے ۔ ایسا نہیں کہ سماج کے اندر علماء اتنے زيادہ ہوگئے ہيں کہ اب ان کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے ۔
2 ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کو صحیح مانیں تو مسلمانوں کا صرف چار فیصد طبقہ مدارس میں تعلیم حاصل کرتا ہے ۔ یعنی چھیانوے فیصد مدارس کے باہر ہے ۔
3 ۔ بڑے بڑے دینی مدارس اس بات کا رونا رورہے ہيں کہ انہیں بالیاقت اساتذہ نہیں مل رہے ہیں ۔ اس کا اندازہ اخبارات میں ارباب مدارس کی جانب سے دیے جانے والے اشتہارات سے لگایا جاسکتا ہے ۔
4 ۔ اگر ہم نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلے کہ اب ہمارے اداروں سے ماہرین حدیث ، فقہ ، تفسیر ، تاریخ وغیرہ نہیں نکل رہے ہیں ۔ زیادہ تر ایسے افراد نکل کر آرہے ہيں جو تفقہ فی الدین کی صفت سے متصف نہیں ہیں ۔
5 ۔ بالعموم مدارس کے اندر وہ لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی ہوتی ہے اورجو دوسری دنیاوی علوم کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوتے ۔
        ان حقائق کو سامنے رکھیے ، مدارس کے اہداف ومقاصد کو ذہن میں رکھیے اور پھر ذرا اس رجحان کے بارے میں سوچیے ۔ وہ صاحبان مدارس جن کے پاس پیسے ہیں وہ تیزی سے بی ایڈ کالج ، اسکول اور ٹکنیکل انسٹیٹیوٹ کھولنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں ۔ یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ اہل خیر حضرات کے وہ پیسے جو کمزور اور غریب طلبہ کی کفالت کے لیے دیے جاتے ہیں ان سے ایسے ادارے کھولے جارہے ہیں جن کے اندر غریبوں کے لیے کوئي جگہ نہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ بعض ارباب مدارس نے تو اپنے مدرسوں کے اندر داخلہ پانے کی فیس بھی اتنی بڑھادی ہے کہ ایک غریب آدمی اپنے بچے کو دینی تعلیم دلانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ ہمارے حساب سے ایسے ذمہ داران مدارس کو اپنے مین گیٹ پر جلی حروف میں لکھ دینا چاہیے کہ ہمارا مدرسہ غریبوں کی تعلیم کے لیے نہیں ہے ۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ دینی تعلیم اس وقت مہنگی کی جارہی ہے جب لگ بھگ پوری دنیا میں بنیادی تعلیم کو بچے کا حق بتایا جارہا ہے اور حکومتیں مفت تعلیم کا نظم کررہی ہیں ۔ بعض احباب کے واسطے سے یہ بات بھی معلوم ہوئي کہ گلف وغیرہ میں لوگ مشروع کے نام پر ہی پیسے دیتے ہیں وہ دینی تعلیم کے نام پر پیسہ نہيں دیتے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ارباب حل وعقد جو خلیجی ممالک میں ما شاءاللہ اپنی اچھی خاصی پہچان رکھتے ہیں ۔ ان میں سے بعض کی امراء اور ملوک تک رسائی ہے کیا وہ انہیں یہ نہیں سمجھا سکتے کہ ہمارے یہاں کس چیز کی ضرورت ہے ؟
بہت سے ادارے کی صورت حال یہ ہے کہ مدرسہ بے چارا کسمپرسی میں مبتلا ہے ، اساتذہ لائق فائق نہیں ہیں ، طلبہ گھٹتے گھٹتے نہ کے برابر رہ گئے ہيں لیکن ہاں یونانی کالج اور اسکول کی دنیا پوری طرح آباد ہے ۔
   آپ کو یہ جان کر کیا معلوم کیسا لگے لیکن یہ سچ ہے کہ بہت سے روشن خیالان ارباب مدارس نے اپنے مدارس کو کالج میں بدل دیا ہے ۔ اب ان کے یہاں مدرسہ نہیں کہ اس سے تو آمدنی کی بھی توقع نہیں ہوتی اور چندے کی ذلت بھی اٹھانی پڑتی ہے اس لیے اسی چندے کے مال سے بنائے گئے مدرسے کو اسکول بنادیا ۔ ہماری ملاقات ایک طالب علم سے ہوئی ، عربی اور انگلش بچے کی اس کے اپنے مستوی کے حساب سے اچھی تھی ہم نے پوچھا کہاں پڑھتے ہو بابو؟ طالب علم کا جواب تھا : شیخ! ناظم صاحب نے تو مدرسہ کو اسکول میں بدل دیا ہے ۔ کسی اچھے مدرسے کی تلاش میں ہوں ۔۔۔۔۔ ۔
ایک صاحب کے اوپر سماجی خدمت اوررفاہ عام کا وہ بھوت سوار ہوا کہ انہوں نے اپنے تعلیمی ادارے کی ساری توجہ رفاہ عام پر لگادی ۔ حضرت تو اتنے چمکے کہ کیا سماج اور کیا سیاست ہر جگہ ان کی چاندی ہوگئی ۔ ہاں البتہ وہ بیچارا مرکز علم و آگہی کہیں کا نہ بچا ۔ جہاں سے باصلاحیت علماء اور دعاۃ نکلا کرتے تھے اب صورت حال یہ ہے کہ بس نام کی دینی تعلیم ہورہی ہے اور ساری توجہ کہیں اور ہے ۔
      ہم نے خود جے این یو میں اعلا تعلیم حاصل کی ہے ۔ ہم عصری علوم کے خلاف ہو بھی نہیں سکتے ۔ لیکن جس طرح سے ارباب مدارس عصری علوم کی خدمت کرنا چاہ رہے ہيں وہ بلا شبہ خطرنا ک ہے ۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ جب مدرسے کے ساتھ اسکول کھولا جاتا ہے تو مدرسہ کی بجائے ذمہ دارکی ساری توجہ اسکول پر ہوتی ہے ۔ مدرسہ کے طلبہ کے بالمقابل اسکول کے طلبہ کو اہمیت حاصل ہوتی ہے اور یوں مدرسہ کے طالب علم کے اندر ایک قسم کا احساس کمتری پیدا ہونے لگتا ہے ۔ مدرسے کے مؤسس کا اخلاص اپنی جگہ لیکن ان کے وارثین مدرسہ کو بس نام کے لیے چلاتے ہيں ۔ ان کی محنت و لگن کا سارا مرکز اسکول ، کالج یا انسٹیٹیوٹ ہوتا ہے ۔ عام طور سے کہا جاتا ہے کہ ہم عصری تعلیم دینی ماحول میں دینگے اورصورت حال کیا ہوتی ہے وہ اتنی بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔
    ذاتی طور پر جب جب میں عزیز وطن ہندوستان کے اندر مدارس کے بارے میں سوچتا ہوں نہ جانے کیوں ایک عجیب وغریب خوف چھاجاتا ہے ۔ میرے بعض احباب کو لگتا ہے کہ میں پیچھے کی طرف ڈھکیلنے کی کوشش کررہا ہوں جبکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر وقت پر ہی دھیان نہيں دیا گیا توبساط الٹی بھی جاچکی ہوگی اور احساس بھی نہ ہوگا ۔
ایک طرف فرقہ پرست ذہن لوگ ہیں جن کی نظر میں یہ دینی ادارے کانٹوں کی مانند چبھ رہے ہیں اور وہ مختلف حربے اختیار کرکے ان پر روک لگانے کی کوشش میں ہیں اور دوسری طرف ہماری دینی قیادت ہے جو خود ہی اس سے دست برداری کی کیفیت میں ہے ۔ اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اسکول ، کالج اور انسٹیٹیوٹ اور لوگ بھی کھول سکتے ہيں اور چلا سکتے ہیں (بہت سے لوگ کامیابی سے چلا بھی رہے ہیں ) لیکن مدرسہ تو ہم علماء کی وراثت ہے ۔ مرعوبیت یا مادہ پرستی کا یہ کون سا اندھیرا ہے جس میں روشنی سے دست برداری کی کیفیت دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ لکھ لیجیے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو آنے والی نسل کتابوں میں مدارس کا تذکرہ سنےگی اور دین کے نام پر چند رسوم و رواج کی پابند ہوگی اور شاید وقت گزرتے گزرتے وہ بھی ناپید ہوتے جائینگے ۔ اللہ نہ کرے ایسا ہو لیکن سچائی سے آنکھیں موندی بھی کیسے جائیں ؟
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
حالات اور وقت کا ساتھ دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا آدمی اپنی اساس ہی بدل دے ۔ مدارس پر جب زيادہ توجہ کی ضرورت ہے ارباب مدارس ان سے اعراض برت کر کسی اور طرف رخ کررہے ہیں ۔ انسان کو غلطیوں سے سیکھنا چاہیے ۔ تجربات بھی برے نہیں ہوتے لیکن ایسے تجربات جن سے بنیاد متاثر ہوتی ہو ان سے توبہ ہی بھلی ہوتی ہے ۔
 اللہ ہمیں نیک توفیق سے نوازے ۔ آمین