الخميس، فبراير 28، 2013


غزل
ساگر تیمی

ہمیں نہیں تو خود ہی کو سوار رہنے دے

کسی کو شہر میں تو با وقار رہنے دے

ہمارے واسطے یہ شہر بے اماں بھی بہشت

میری بلا سے مجھے بے دیار رہنے دے

یہی کرم ہو اگر رکھ مجھے دوا سے الگ

مریض عشق ہوں بس بیقرار رہنے دے

ہمارے پاس جو آے تو دل کے ساتھ آے

اور اپنے گھر میں سبھی کار و بار رہنے دے

تمہاری یاد ہو پر یہ بھی کیا ضروری ہے

خزاں کو رہنے دے اور نہ بہار رہنے دے

شہر سے گاؤں میں آکر وہ کہا کرتا ہے

خدایا یوں ہی فضا خوشگوار رہنے دے

بہت وفا بھی یہاں منہ کی کھائیگی ساگر

چھپا وفا میں تھوڑا کاروبار رہنے دے

الأربعاء، فبراير 27، 2013

مولانا ابوالکلام آزاد کی ادبی بصیرت


ثناء اللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی

              مولانا آزاد اپنی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔ علم و سیاست کی جس وادی میں آپ نے قدم رکھا اپنے انمٹ نقوش ثبت کردیے ۔قدرت نے آپ کو خلاقانہ ذہن سے نوازاتھا ۔ شعور و فکر کے جتنے گوشے آپ کے افکار عالیہ سے روشن ہوئے وہ آپ ہی کا حصہ ہیں ۔ ایسے بالعموم آپ کو اپنی سیاسی بالغ نظری ، علمی وقار اور دینی خدمات کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن آپ کی ادبی بصیرت اور ادبی خدمات کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے ۔
        مولانا آزاد کی ادبی بصیرت کو سمجھنے کی راہ میں  مولانا آزاد کی زندگی کے کئی سارے پہلو ہماری مدد کرتے ہیں۔ یہ معلوم بات ہے کہ مولانا آزاد نے سب سے پہلے نہایت کم عمری میں ایک ادبی گلدستہ جاری کیا۔ خدنگ نظر کی اہمیت سے اس لیے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہمیں مولانا کے ذہنی اپروچ سے باخبر کرتا ہے ۔ اس سے بڑی ادبی بصیرت کیا ہوسکتی ہے کہ شاعری ایک انسان کے بچپن کا شوق ہو اور تھوڑا بڑا ہوکر وہ اس سے کنارہ کشی اختیار کرلے یہ سوچ کرکہ  اس کے لیے نثر زیادہ بہتر پیرایہ اظہار ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ ہر کوئی مولانا کے اس اقدام کی ستائش کرگا ۔
        مولانا کے رسالے لسان الصدق پر اگر نظر ڈالی جائے تو مولانا کی ادبی بصیرت اور بھی واشگاف ہوکرہمارے سامنے آتی ہے ۔ مولانا نے جس طرح ترجمہ کے مسائل پر اظہار خیال کیا ہے ، اصطلاحات کے اسرار و رموز سے  پردے ہٹائے ہیں اور لسانیاتی گتھیاں جس طرح سے آپ نے سلجھانے کی کوشش  کی ہے  اس سے آپ کی علمیت و گیرائی کے ساتھ ہی آپ کی ادبی بصیرت اور ذوق کا پتہ چلتا ہے ۔
          ارباب علم ودانش کو پتہ ہوگا کہ  مولانا عبد الماجد دریا بادی کے ساتھ حظ و کرب اور درد والم کی  بحث کتنی دلچسپ رہی تھی اور اس معاملے میں مولانا کے کٹر نکتہ چیں ماہر القادری نے  بھی مولانا کے موقف کی ہی تائید کی تھی ۔ مولانا کی ادبی بصیرت کے بہیترے  دلکش نمونے   ان کی کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں ۔ الھلال اور البلاغ سے لے کر تذکرہ ، ترجمان القرآن اور غبار خاطرکی  ایک ایک سطر آپ کے ادبی ذوق اور لسانی شعور کی غمازی کرتی ہے ۔ بر محل اشعار کے استعمال کا معاملہ ہو ، سجے سجائے نک سک سے درست جملوں کو نگینے کی مانند جڑنے کا معاملہ ہو ، اسلوب کی گرمی اور جذبے کی صداقت کا معاملہ ہو ، یا زبان و بیان کے تجدیدی اور خلاقانہ استعمال کا معاملہ ہو ہر جگہ آپ کی یہ بصیرت جلوہ گر ہے ایسےنہیں کہا گیا کہ اگر قرآن کریم نہ نازل ہو چکا ہو تا تو اس کے لیے ابوالکلام کی نثر یا اقبال کی نظم کا انتخاب عمل میں آتا ۔
            یہاں اس بات کا ذکر فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ مولانا نے اپنے گہر بار قلم سے جہاں علم و دانش کے کئی گوشے روشن کیے وہیں زبان وادب کے گلشن بھی آپ کی نظر عنایت سے محروم نہ رہے ۔ آزادیات کے ماہر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی تحقیق کے مطابق مولانا نے اردو کے اندر تین سو سے زیادہ الفاظ رائج کیے ۔ بادی النظر میں یہ بات بڑی معمولی نظر آتی ہے لیکن غور کرنے پر  اس کی اہمیت و عظمت کا احساس ہوتا جاتا ہے ۔
       زبان وادب کا یہی شعور اور یہی بصیرت تھی جس نے قرآن حکیم کی لازوال تفسیر ترجمان القرآ ن سے ہمیں نوازا ۔ یوں تو قرآن کے  بہت سے ترجمے ہوئے لیکن وہ جو کہتے ہیں  نا
وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
رشید احمد صدیقی نے بجاطور پر یہ بات کہی ہے کہ قرآن کے اسلوب و آہنگ کو اگر اردو میں کسی نے منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد ہیں ۔ اور سوچا جاسکتا ہے کہ اس کے لیے کس قدر ادبی بصیرت کی ضرورت ہوگي۔
        مولانا پر عام طور سے مشکل پسندی کا الزام لگایا جاتا ہے اور عربی فارسی کے الفاظ کے بے جا استعمال کا شکوہ کیا جاتا ہے بعض حضرات تو ان پر اس سلسلے میں زبان درازی کے بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ مولانا کا کوئی ایک اسلوب نہیں ۔ وہ موقع اور محل کے اعتبار سے اسلوب اپناتے ہیں ۔ تذکرہ علما کے لیے لکھا تو اس زمانے کے علما کے اسلوب و آہنگ میں لکھا ، الھلال اور البلاغ کا مقصد امت کو بیدار کرنا اور عمل پر ابھارنا تھا تو اسی جوش وآہنگ کا سہارا لیا گیا ، ترجمان القرآن عام آدمی کے لیے لکھا گیا تو بالکل سلیس اور سادہ زبان استعمال کی گئی اور غبار خاطر کے اندر دل و نگاہ کی داستان چھیڑنی تھی تو رنگین ادبی اسلوب اختیار کیا گیا ۔اور یہ اگر کسی چیز کا پتہ دیتا ہے تو اس بات کا کہ مولانا کا لسانی زاویہ کتنا روشن اور ادبی بصیرت کتنی پختہ تھی ۔ آپ کے دفتری احکامات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے کس طرح انگلش کے بر محل الفاظ کے استعمال سے اردو کو  عام غیر اردوداں  انسان کے لیے بھی قابل فہم بنانے کی کا میاب کوشش کی ہے ۔
یہاں چند مثالوں کے ذریعہ اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تذکرہ کے اندر مولانا کا جاہ وجلال ،  زبان وبیان کا جوش وخروش اور ان کا عربی فارسی آمیز رویہ دیکھیے ۔
'پس حقیقت وہی ہے جس کو وحی الہی اور حاملین منصب نبوت علی الخصوص آخرھم و اعظمھم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب و اتباع نے دنیا کے آگے پیش کیا اور شک و ظن کی ظلمت و محجوبیت کی جگہ علوم سماویہ و نبویہ کی یقینیات وبراہین کا دروازہ نوع انسانی پر کھول دیا ، اور جس کے علم و عمل کا نمونہ سلف صالح و اوائل امت مرحومہ من السابقون الاولون من المھاجرین و الانصار والذین اتبعھم باحسان من ورثہ الانبیاء و خلفاء الرسل و ائمۃ الھدی ، رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ نے اخلاف و آخرامت کو ہمیشہ کے دکھلادیا ۔ اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون۔'(تذکرہ ص 177 )
اب ذرا دیکھیے  کیا ایک یہی عبارت اس بات کے اثبات کے لیے کافی نہیں کہ در اصل اس کتاب کا مخاطب وہ طبقہ علماء ہے جس کے اندر عقیدے کی خرابیاں در آئی ہیں لیکن وہ اپنے کو علم و دانش کے میدان میں پیچھے نہیں سمجھتا ۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ایسے ہی طرز خطاب کی ضرورت تھی ورنہ وہ سرے سے کمتر سمجھ کر درخور اعتنا ء ہی نہ سمجھتے لیکن مولانا کا یہی اسلوب غبار خاطر میں ہمیں نہیں ملتا ۔
             'میں آپ کو بتلاؤں ، میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہتر تصور کیا ہوسکتاہے !جاڑے کاموسم ہو ، اور جاڑا  بھی قریب قریب درجہ انجماد کا ، رات کا وقت ہو ، آتشدان میں اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں ، اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھاہوں ، اور پڑھنے لکھنے میں مشغول ہوں
من ایں مقام بدنیا و عاقبت ندہم
اگرچہ در پیم افتند خلق انجمنے
معلوم نہیں بہشت کے موسم کا کیا حال ہوگا ! وہاں  کی نہروں کاذکربہت سننے میں آیا ہے ، ڈرتا ہوں کہ کہیں گرمی کا موسم نہ رہتا ہو!
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے ، وہ تری جلوہ گاہ  ہو
عجیب معاملہ ہے ۔ میں نے بارہا غور کیا کہ میرے تصور میں آتشدان کی موجودگی کو اتنی اہمیت کیوں مل گئی ہے ! لیکن کچھ بتلانہیں سکتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ سردی اور آتشدان  کا رشتہ چولی دامن کا رشتہ ہوا ۔ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے ۔ میں سردی کے موسم کا نقشہ اپنے ذہن میں کھینچ ہی نہیں سکتا ، اگر آتشدان نہ سلگ رہا ہو ، پھر آتشدان بھی وہی پرانی روش کا ہو نا چاہیے ، جس میں لکڑیوں کے بڑے بڑے کندے جلائے جاسکیں ، بجلی کے ہیٹر سے میری تسکین نہیں ہوتی ، بلکہ اسے دیکھ کر طبیعت چڑ سی جاتی ہے ۔'  (غبار خاطر ص 172 )
         اب ذرا فیصلہ کیجیے کہ دونوں اسلوب  میں کس قدر فرق پایا جاتا ہے ۔ جہاں تذکرہ میں گھن گرج اور جوش وخروش کے ساتھ علمیت کی گہری چھاپ ہے وہیں یہاں گفتگو کا طرز و انداز ہے  اور وہ بھی چاشنی اور لطف کے ساتھ ۔کیا اس کے بعد بھی اس اعتراض کو درست سمجھا جاسکتا ہے کہ مولانا کے یہاں  لفاظی اور ثقالت کا طومارہے ۔ اور اگر ترجمان القرآن پر ایک نظر ڈال لی جائے تو یہ حقیقت اور بھی روشن ہو جائیگی ۔
مولانا لکھتے ہیں ۔
' خدا کی سچائی ، اس کی ساری باتوں کی طرح ، اس کی عالمگیر بخشش ہے ۔ وہ نہ تو کسی خاص زمانے سے وابستہ کی جاسکتی ہے ، نہ کسی خاص نسل و قوم سے ، اور نہ کسی خاص مذہبی گروہ بندی سے ۔تم نے اپنے لیے طرح طرح کی قومیتیں اور اور جغرافیائی اور نسلی حد بندیاں بنالی ہیں ، لیکن تم خدا کی سچائی کے لیے کوئی ایسا امتیاز نہیں گھڑ سکتے ، اس کی نہ تو کوئی قومیت ہے ، نہ نسل ہے ، نہ جغرافیائی حد بندی ،نہ جماعتی حلقہ بندی ۔وہ خدا کے سورج کی طرح ہر جگہ چمکتی اورنوع انسانی کے ہر فرد کو روشنی بخشتی ہے ۔ اگر تم خدا کی سچائی کی ڈھونڈھ میں ہو تو اسے کسی ایک ہی گوشے میں نہ ڈھونڈھو ۔ وہ ہر جگہ نمودار ہوئی ہے اور ہر عہد میں اپنا ظہور رکھتی ہے ۔ تمہیں زمانوں کا ،قوموں کا ، وطنوں کا ، زبانوں کا اور طرح طرح کی گروہ بندیوں کا پرستار نہیں ہونا چاہیے۔صرف خدا کا اور اس کی عالمگیر سچائی کا پرستار ہونا چاہیے اس کی سچائی جہاں کہیں بھی آئی ہو اور جس بھیس میں بھی آئی ہو ، تمہاری متاع ہے اور تم اس کے وارث ہو ۔(ترجمان القرآن جلد اول ص 411 )۔
مالک رام ترجمان القرآن میں پیش کیے گئے ترجمہ پر اپنی کتاب ' کچھ ابوالکلام کے بارے میں ' میں اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں :
'   یہ ترجمہ  ادبی لحاظ سے بھی  اتنا حسین اور برجستہ ہے کہ اسے ادبی تخلیق کا درجہ دیا جانا چاہیے تھا ۔افسوس کہ اس پہلو سے کوئی توجہ نہیں کی گئی ۔ مثال کے طور پر صرف سورہ فاتحہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو :
اللہ کے نام سے جو الرحمان الرحیم ہے ۔
ہر طرح کی ستائش اللہ ہی کے لیے جوتمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے ۔ جورحمت والاہے ، اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالا مال کررہی ہے ، جو اس دن کا مالک ہے ، جس دن کاموں کابدلہ لوگوں کے حصے میں  آئیگا۔ (خدایا!) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے ، جس سے (اپنی ساری احتیاجوں میں ) مدد مانگتے ہیں ۔ (خدایا !) ہم پر سعادت کی سیدھی راہ کھول دے ، وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہوئی جن پر تونے انعام کیا ۔ ان کی نہیں جو پھٹکارے گئے ۔ اور نہ ان کی جو راہ سے بھٹک گئے ۔
اس پر ترجمہ کا گمان ہی نہیں ہوتا ۔ بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مصنف نے اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے اسے اصل میں لکھا ہی اس طرح ہو ۔'(ص83 )
 مولانا آزاد کا اسلوب ضرورتوں اور مواقع اور محل کے اعتبار سے بدلتارہاہے اور جس مصنف اور ادیب کو اس کی قدرت  ہو اور سامعین کی سمجھ کے مطابق باتیں رکھنے کا  اسے گڑ آتا ہو اس کی ادبی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ مولانا کی ادبی بصیرت کے اس بحث کو ہم مولانا کے  اس اقتباس پر ختم کرنا چاہینگے جس کے اندر مولانا کا لسانی شعور بھی جلوہ گر ہے اور ادبی نیرنگی بھی ۔ اصطلاح     و ظائف کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں :
اصلی عبارت میں لفظ function ہے ۔انگریزی میں فنکشن اور ڈیوٹی دوایسے لفظ ہیں جن کے معنی اگرچہ متحد ہیں مگر محل استعمال مختلف ہے ۔عربی میں فنکشن کے لیے بحالت مفرد ' وظیفہ ' اور بحالت جمع 'وظائف ' آتا ہے ۔ ڈیوٹی کے لیے بحالت مفرد 'واجب ' اور بحالت  جمع ' واجبات ' استعمال کیا جاتا ہے  ۔ لیکن اردو میں فنکشن اور ڈیوٹی دونوں کے لیے لفظ ' فرض' ہی بولاجاتاہے جو اگرچہ اصولا غلط نہیں ہے مگر توسیع زبان اور تدقیق علمی کے لحاظ سے صحیح نہیں ۔اسی لیے ایک  عرصے سے ہم وظیفہ اور وظائف کو فرائض کےمعنوں میں استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنے صحیح معنوں میں یہ الفاظ رائج ہو جائیں ۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ اردو کے بڑے بڑے مترجموں نے بھی آج تک اس فرق کو محسوس نہیں کیا ، اور ہر جگہ فرض ہی کا لفظ لکھتے رہے ۔ جب تک ملک میں عربی داں مترجم علوم جدیدہ پیدا نہ ہوں گے ، اردو کی بد بختی لاعلاج رہے گی ۔ اس حقیقت پر روئیے تو بہت سے مدعیان علم وتراجم کو شاق گذرتا ہے ۔ یہ دوسری مصیبت ہے ۔' (مولانا ابوالکلام آزاد  فکرو عمل کے چند زاویے :ڈاکٹر وہاب قیصرص62 )

الاثنين، فبراير 25، 2013


غزل

وہ قتل کرتے ہیں پھر بھی خطا نہیں  کرتے

امیر لوگ کبھی بھی برا نہیں کرتے

یہ کیسا کوڑھ ہے اے عہد نو معاذاللہ !

شریف لوگ بھی وعدہ وفا نہیں کرتے

وہ اچھے ہو بھی اگر جائیں تو بھلا کیسے

دوا تو کرتے ہیں لیکن دعا نہیں کرتے

تو کیسے مان لیں یہ اہل علم و دانش ہیں

اندھیرا بڑھتا ہے روشن دیا نہیں کرتے

ہمارے عہد کے انسان بھی خدا کی قسم

کچھ ایسے جیتے ہیں جیسے جیا نہیں کرتے

وہ سچی بات کہیں وہ بھی برسر منبر

جناب شیخ تو ایسی خطا نہیں کرتے

اسی لیے تو میں اکثر اداس رہتا ہوں

ہمارے ساتھ وہ ویسی جفا نہیں کرتے

یہی سب سوچ کر میں چپ لگاے رہہتا ہوں

جو بات کرتے ہیں عملا کیا نہیں کرتے

سنا ہے گاؤں میں ساگر ابھی بھی اہل وفا

جفائیں سہتے ہیں لیکن دغا نہیں کرتے

الأحد، فبراير 17، 2013

مدارس : اہداف و مقاصد اور چیلینجیز



ثناءاللہ صادق تیمی
ریسرچ اسکالر، جواہرلال نہرو یونیورسٹینئی دہلی-67
09013588985
sagartaimi@gmail.com

اگر مختصر لفظوں میں یہ کہا جاے کہ مدارس کا بنیادی مقصد دعاۃ الی اللہ تیار کرناہے تو غلط نہ ہوگا ۔ اس سلسلے میں اگر ہم مدارس کی تاریخ نظر میں رکھیں تو اور بھی آسانی ہوگی اس حقیقت کو سمجھنے میں ۔ بر صغیر میں جب مغلیہ سلطنت کا زوال عمل میں آیا اور ہمارے علماء کو حالات کی گردش نے سمجھادیا کہ اب حکومت واپس ملنے والی نہیں اور اب ہم دوسروں کے رحم و کرم پر جینے پر مجبور ہیں تو انہوں نے اپنی فراست و بصیرت سے اس کا اندازہ لگایا کہ ان کے دین ، ان کے ایمان اور ان کی تہذیب کی حفاظت بھی انہیں خود ہی کرنی پڑیگی اس کے بغیر ان کا سارا سرمایہ ضائع ہو جائیگا اور سارے حسیں نقوش محو ہوجائینگے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت علماء نے جس فہم و فراست کا ثبوت دیا وہ خود علماء کی تاریخ میں بہت کم دیکھنے کو ملا۔
پھر دیکھتے دیکھتے مدارس کا جال بچھ گیا اور یہ تو مدارس کے مخالفین تک کو ماننا پڑیگا کہ مدارس نے برصغیر کے اندر دین اسلام کو زندہ و تابدار رکھنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ۔ ایک لمبی مدت تک مدارس اپنے اختیار کیے ہوے راستے پر چلتے رہے اور ان سے امت کا فائدہ بھی کسی نہ کسی شکل ہوتا رہا۔ لیکن جیسا کہ حالی نے کہا 
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں 
سو حالات بدلے اور مادیت نے تھوڑا زیادہ ہی ہوا بولنا شروع کردیا ۔ اور یہ مطالبے بڑھنے لگے کہ مدارس کی جدید کاری عمل میں آنی چاہیے اور اب فارغین مدارس اسلامیہ بھی دنیاوی اعتبارسے مضبوط ہوں ، اس کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس کا مطالبہ پہلے پہل مدارس کے خوشہ چینوں کی طرف سے نہیں کیا گیا بلکہ روشن خیالان امت مرحومہ کی طرف سے یہ پرزور آواز آئی اور بیچارے مولانا کہ احساس کمتری کی دولت سے تو مالا مال ہوتے ہی ہیں جھٹ اس آواز پر لبیک کہ اٹھے اور اندھادھوند تبدیلیاں عمل میں آگئیں ۔ اور اب رونا اس بات کا ہے کہ مدارس کے فارغین بھی دین کے علمبردار نہیں رہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان کو بنایا کب گیا دین کا علمبردار؟ جو بو کر انار کی تمنا کرنا عقلمندی نہیں ہوتی ۔
حالات کے مطابق حصول مقاصد کے ذرائع تبدیل کیے جاتے ہیں خود مقاصد نہیں ۔ ہم مدارس والوں کا جرم یہ ہے کہ ہم نے مقاصد تبدیل کردیئے اور ذرائع ہی کو مقصد سمجھ لیا ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ بلا شبہ حالات کی مانگ تھی کہ ہم اپنے یہاں طلبہ کو کمپیوٹر کی تعلیم دیں اور ان کو انگریزی زبان میں ماہر کریں اور منطق وفلسفہ کی جگہ جدید سائنس کی تعلیم کا نظم کریں لیکن ہم اپنے بچوں کی یہ تربیت بھی کریں کہ ان تمام کا بنیادی مقصد در اصل زیادہ بہتر طریقے سے دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام لینا ہے ۔ ہم نے اس کی بجاے اپنے بچوں کا یہ ذہن بنانا شروع کردیا کہ دین کے راستے میں کیا رکھا ہے ، لوٹا پچکاکر کیا کروگے ، باہر نکلو، دنیا دیکھو، پیسے ہونگے ، دولت ہوگی تو لوگ عزت کرینگے اور تمہاری بات سنی جائيگی ۔ کیا یہ سوچنے کی بات نہیں ہے کہ ایک بڑے دینی ادارہ کا شیخ الحدیث اپنے اس شاگرد کا مذاق اڑاے جو دعوت کا کاز سنبھالنا چاہتا ہو۔ انسان کا فارغ البال ہونا اچھی بات ہے لیکن اس پر تعلیم دین کی ساری عظمتوں کو قربان کردینا کہاں کا انصاف ہے اور پھر ہم کیا توقع باندھ سکتے ہیں ؟ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیاوی ترقی اورجاہ و حشمت ہی درکار تھی تو مدارس کا قصد کیوں کیا گیا ؟ ایسے ادارے کیوں نہ اختیار کیے گئے جوعلی الاعلان انسان کو دنیاوی طور پر بہتر کریئر دینے کی بات کرتے ہیں ؟؟؟
اہل مدارس کو یہ طے کرنا پڑیگا کہ ان کا مقصد اصلی کیا ہے اور اگران کو دعوت و تبلیغ کے علاوہ کچھ اور مقصد نظر آتا ہے توان کو بلا جھجھک یہ مشورہ دیا جانا چاہیے کہ پھر اللہ کے واسطے مدارس کو تو بد نام مت کیجیے ۔ یہ کس قدر منافقانہ روش ہے کہ ہم چلاتے ہیں دینی ادارے اور چاہتے ہیں کہ دنیاوی کاریگر، صنعت کار اور بزنیس مین پیدا کریں ۔ پھر ذرا ان کے بارے میں سوچاجاے جو مدارس کی تاسیس کے پیچھے اپنے دنیاوی مقاصد کارفرما رکھتے ہیں اور خطا معاف کہ ایسے بہی خواہان امت مرحومہ کم نہیں ہیں ۔ یاد آتے ہیں اقبال
مجھکو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی 
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن 
نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا 
ہر خرقہ ثالوث میں روپوش مہاجن
لیکن ظاہر ہے کہ ہم مادیت کو صرف گندگی یا لعنت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے بہر حال مادہ انسان کی ضرورت بھی ہے اور اس ضرورت کی تکمیل ضروری بھی ہے ۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم اپنے علماء و دعاۃ کی اس ضرورت کی تکمیل کرپاتے ہیں ؟ کیا ہم انہیں معاشی اعتبار سے فارغ کرپاتے ہیں ؟ کیا ہم ان کو ان کا واجب احترام دے پاتے ہیں ؟ کیا ہمارا معاشرہ جس طرح علماء کو نماز میں امام مانتا ہے کیا اسی طرح وہ دوسرے سماجی معاملات میں بھی علماء کی اقتداء کرنے کو تیار ہے ؟؟؟
ایک طرف ہم علماء کے اندر در آئی دنیاداری پرآنسو بہاتے ہیں اور دوسری طرف ہمارا رویہ یہ بھی ہے کہ ہم ایک عالم کی بنیادی ضرورت تک کا خیال نہیں کرتے ۔ اگر دیندار لیکن نسبتا معاشی اعتبار سے کمزور عالم کا پیغام ہماری بچی کے لیے آئے تو ہم آسانی سے ٹھکرادیتے ہیں بلکہ انصاف تو یہ ہے کہ اس کو اس کی جراءت بیجا سمجھتے ہیں اور کبھی کبھی تو چراغ پا بھی ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے علماء بھی احساس کمتری کے شکار ہو جاتے ہیں ۔ میں ذاتی طور پر کئی ایک عالم کو جانتا ہوں جو اپنی دینی تعلیم کو اپنی منحوسیت کا سبب مانتے ہیں اور مدرسوں سےفارغ ہونے کے باوصف خود کو فارغ کہنے سے کتراتے ہیں کہ ان کی اہمیت گھٹ جائیگی ۔ اساتذہ اگر اپنے طلبہ کو مدارس میں دنیا کمانے پر اکساتے ہیں تو دراصل اس کے ڈانڈے بھی ان کے انہیں تلخ تجربات سے ملتے ہیں کہ ان کی مضبوط صلاحیت نے ان کوسماج میں ان کا جائز مقام نہیں دیا اور رد عمل کے شکار ہوگئے ۔ لیکن ظاہر کہ اس رد عمل کو کبھی بھی درست نہیں کہا جا سکتا لیکن کیا کیا جاے کہ بہر حال علماء بھی سماج ہی کا حصہ ہوتے ہیں ۔
اس پوری تفصیل کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہمیں کئی سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تب جا کر ہمارے مدارس اپنا کردار ادا کر پائینگے ۔
1- ہم یہ طے رکھیں کہ ہمارا مقصد بنیادی طور پر دین کی اشاعت و تبلیغ ہے ۔
2- ہم اس کا انتظام کریں کہ ہم اپنے اساتذہ کو اتنی تنخواہ ضرور دینگے جس سے ان کی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور وہ قلاشیت کے شکار نہ ہوں ۔
3- ہم عمارتوں کی بجاے اپنے طلبہ کی بہتر ذہنی تربیت پر دھیان دیں اور اچھی صلاحیت کے اساتذہ کی تقرری عمل میں لائیں ۔ اگر غیر ضروری اخراجات پر قابو پا لیا جائے تو یہ اتنا مشکل بھی نہیں ۔
4- نصاب تعلیم کو حالات کے مطابق ضرور ڈھالیں لیکن ایسا بالکل بھی نہ ہو کہ ہم اپنا اصل مقصد ہی فراموش کردیں ۔ یاد رہے کہ ہمارا مقصد دعاۃ تیارکرنا ہے کلرک یا بزنس مین نہیں ۔
5- بڑے بڑے سپنے تھبی شرمندہ تعبیر ہو پائینگے جب ہمارے پاس وسائل بھی مضبوط ہوں ۔ اس کے لیے ہماری یہ کوشش ہو کہ ہم اداروں کو معاشی اعتبار سے خود مختار بنا پائیں ۔ بعض دینی اداروں نے اس سلسلے میں بہتر پیش رفت کی ہے 
6- ہم اپنا رابطہ عوام سے مضبرط رکھیں تاکہ ان کے اندر در آئی خرابیوں کا بر وقت علاج کیا جا سکے ۔
7- عملی طور پر خاص طورسے مدارس کے منسوبین علماء کی قدردانی کے نمونے پیش کریں اور سماج کو اس کے لیے تیار کریں 

کام ہو رہا ہے



ثناء اللہ صادق تیمی 
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی ۔110067
ہمارے دوست بے نام خاں اکثر خوش رہتے ہیں ۔ ان کو یوں بھی ہم نے بہت کم روتے ہوئے دیکھا ہے ۔منہ بنائے رہنا ، بے وجہ ٹینشن پالنا اور صحت خراب کرنے کا عارضہ انہیں نہیں ہے ۔ وہ اکثر یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اگر انسان STATUS QUO (موجودہ صورت حال)پر راضی ہونا سیکھ لے تو وہ بہت سی پریشانیوں سے نجات پاجائے ۔قناعت کا مطلب اس کے علاوہ کیا ہے کہ انسان کم سے کم پر راضی رہے اور اللہ کا شکر بجا لائے ۔ ان کے بقول یہی در اصل مثبت فکر وعمل کا اظہاریہ بھی ہے ۔ان کو تسلیم کیا جائے تو دنیا میں صرف برائی نہیں ہے بلکہ اگر کوئی چشم بینا سے کام لے تو یہاں بہت کچھ اچھا ئی بھی ہے۔اور ایک آدمی اگر اچھائی کے راستے پر چلنا چاہے تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزارسکتا ہے ۔ان کے مطابق ہماری سوسائٹی کا کوڑھ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ زندگی کے غم اندوہ پہلو پر نظر رکھتے ہیں اور اس کو لے کر پریشان رہتے ہیں ۔کمال تو یہ ہے کہ ایسے لوگ زیادہ تر صرف حالات کا رونا روتے ہیں ۔شکوے کرتے ہیں ۔ تنقیدی گھوڑے دوڑاتے ہیں ۔اور سارا الزام کسی اور کے سر ڈال دیتے ہیں ۔ اور اپنی دانشمندی پر پھولے نہیں سماتے ۔
ایک روز انہوں نے مثال کے ذریعہ سمجھاتے ہوئے کہا کہ اب صرف اسلامی دعوت کی مثال لےلو ۔ اللہ کا کرم ہے کہ کام ہو رہاہے ۔اسلام کی کرنیں روشنی بکھیر رہی ہیں ۔دنیا اسلام سے قریب ہورہی ہے ۔ آئے دن الحمد للہ بہت سے گم گشتہ راہ صراط مستقیم کی نعمت سے سرفراز ہورہے ہیں ۔یورپ اور امریکہ سمیت دنیا اسلام کی سچائیو ں پر ایمان لارہی ہے ۔خواتین ، بوڑھے ، بچے سب کے سب دائرہ دین میں دیوانہ وار آرہے ہیں ۔تبلیغ کی بابت غور کرو تو پہلے کے بالمقابل اب لوگ زیادہ اس طرف مائل ہوئے ہیں ۔ پہلے ایک دو مدارس پائے جاتے تھے آج ہزاروں کی تعداد میں مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے ۔مساجد کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھ رہاہے ۔لوگ آج بھی علماء سے سوالات کرتے ہیں اور اپنی دینی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں ۔پہلے جہاں دین و ایمان کا گزر بسر نہیں تھا آج الحمد للہ وہی دین وایمان کے مراکز بنے ہوئے ہیں ۔
ہم اگر دنیا کے معاملات پر بھی غور کریں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے ۔پہلے آج کی طرح سہولتیں نہیں تھیں ۔ اتنی تیز رفتار موٹر گاڑی نہیں تھی ۔اتنے اچھے راستے نہیں تھے ۔ ٹرینیں نہیں تھیں ۔بسوں کا نظام اتنا اچھا نہیں تھا ۔میٹرو کی نعمت نہیں تھی ۔ پہلے لوگوں کو فاقہ کرنا پڑتا تھا ۔ موٹے جھوٹے پر گزارہ کرنا پڑتا تھا ۔ جیسے تیسے زندگی کے شب وروز گزرتے تھے۔آج کی دنیا بہت آگے جاچکی ہے ۔آج ہر طرح کی سہولتیں ہیں لیکن آج کا انسان پریشان ہے اور کل کا انسان خوش تھا ۔ چین وسکون کی نعمتوں سے ہمکنار تھا ۔اس لیے کہ اس کی خواہشیں مختصر تھیں اور رب پر بھروسہ زبردست تھا ۔وہ زندگی کے مثبت پہلو پر زیادہ نظر رکھتا تھا اور اگر منفی پہلو کو دیکھتا تھا تو اس لیے کہ اس سے بچ کراچھا راستہ اپنا سکے ۔ زندگی کو زیادہ کارگر بنا سکے ۔وہ کام کرتا تھا اور خوش رہتا تھا اور آج بھی کام کرکے نتیجہ اللہ پر چھوڑنے والے زیادہ مطمئن اور شاد کام ہیں ۔ اس لیے کہ یہی خوشی اور سعادت کا راستہ ہے ۔اللہ کے رسول ایک حدیث کے اندر ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری اداکرو اور اپنے حقوق اللہ کے سپرد کردو۔ ہم حقوق کی جنگ لڑتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے مطلب ہی نہیں رکھتے ۔ ہاں ہمیں دوسروں کی ذمہ داریا ں خوب یاد رہتی ہیں ۔
کام نہیں کیسے ہورہاہے ۔ اللہ کا شکر اداکرنے کا جذبہ نہ ہو تو الگ بات ہے ورنہ اللہ کے بندے ایسی ایسی جگہوں پر حق کی قندیل روشن کررہے ہیں کہ کیا کہنا ۔یونیورسیٹیوں کے اندر اللہ کے نیک بندے الحاد ودہریت کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ مسلم بہنیں ان غیر دینی درسگاہوں کے اندر دعوتی فريضہ انجام دےرہی ہیں ۔اللہ کے بندے کوردہ علاقوں کا دورہ کرکے شمع توحید جلانے کی کوششیں بروئے کارلارہے ہیں ۔ اور یہ مساعی کارگر ثابت ہورہی ہیں ۔عاملین بالحدیث کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ۔ صحیح دین کی طرف لوگوں کا رجحان تیز تر ہے پھر ہم نا امید کیوں ہیں ۔ ہمیں صر ف برائیاں کیوں نظر آتی ہیں ۔
اس پورے معاملے کو ہندوستان کے تناظرمیں دیکھو تو اور بھی معاملہ صاف ہوجائیگا ۔یہاں آر ایس ایس کا خطرہ ہے ۔ یہاں ہندؤں کی اکثریت ہے ۔ یہاں حکومت کارویہ منافقانہ ہے ۔ یہاں تعصب کی دبیز چادرہے ۔ یہاں ڈرایا دھمکایا جاتاہے ۔یہاں ہمارے حقوق غصب کیے جاتے ہیں ۔یہاں اسلام کو بھی کبھی کبھی نشانہ بنالیا جاتاہے ۔ یہاں علمائے اسلام کو بھی زدوکوب کردیا جاتاہے ۔اور خاص طور سے وہ پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں جن سے مسلمانوں کا نقصان ہو ۔ یہ سب کسی نہ کسی حد تک درست اور سچ ہے لیکن اگر اسی پرنظر رکھی جائے تو یاتو خوف پیدا ہوگا ، نوامیدی آئیگی ، بزدلی او ر منافقت کے رویے اپنائے جائینگے یا پھر تشدد اور حماقت آمیز جوش و جذبہ پروان چھڑےگا جبکہ سچائی یہ ہے کہ اسی ہندوستان کے اندر آپ کو پوری طرح یہ حق حاصل ہے کہ آپ اپنے طورطریقے کے مطابق جیئں اور زندگی گزاریں ۔ اسی ہندوستان میں لیفٹ بھی ہے جو رائٹ ونگ اکسٹریمزم کا مقابلہ کرتی ہے ۔ اسی ہندوستان میں عدلیہ آزاد ہے اور بے قصور بری بھی کیے جاتے ہیں ۔ مجرم سزا سے دوچار بھی کیے جاتے ہیں ۔ایک مسلمان بھی ہر طرح سے لگ بھگ آزاد ہے کہ وہ اپنا کیریئر بنا سکے اور ترقی کرکے اعلی سے اعلی عہدے پربراجمان ہوسکے ۔ اس کی ہزاروں مثالیں پائی جاتی ہیں ۔اب اگر اس مثبت پہلو کو نظر میں رکھا جائے تو زیادہ کام ہو سکتا ہے اور عملی اسپرٹ زیادہ پیدا ہوگی ۔لیکن مسئلہ یہی ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو مثبت لینے کوتیار ہی نہیں ہوتے اور بے مطلب کا رونا روتے رہتے ہیں ۔
میرے مولانا دوست میرے کہنے کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈال کر خوش ہو رہیں ۔ میرا مطلب تو صرف اورصرف یہ ہے کہ ہم آگے کی طرف دیکھیں ۔ کچھ اگر غلط ہے تو اس کو درست کرنے کی کشش کریں نہ یہ کہ شکوہ کا طومارکھڑاکردیں ۔بے عملی کا جواز تلاش کرتے رہیں ۔ ایسا کرکے ہم صرف اور صرف اپنا نقصان کررہے ہونگے اور کچھ نہیں ۔رسول کا اسوہ ہر طرح کے حالات میں کام کرنے پر ابھارتا ہے ۔ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ عمل ہی کامیابی کا پہلا اور آخری زینہ ہے ۔ اور اگر ہم یہ سوچ کر آگے بڑھیں کہ کام ہورہاہے اور ہمیں بھی اپنے حصہ کا کام کرنا ہے تو ان شاء اللہ اچھی اور بہتر تبدیلی ضرور رونما ہوگی ۔ رہے نام اللہ کا

بی جے پی کو معجزے کی تلاش


رحمت کلیم امواوی
9560878428
اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اگر مذہبی سطح پر متشدد ہندں کی اچھی تعداد نہ ہوتی تو شاید بی جے پی 1992ءمیں زمام حکومت نہ سنبھالتی،کیوں کہ اس دور میں بی جے پی کا جو منشور اور جو ہتھکنڈہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے تیارکیا گیا تھا وہ یہی ثابت کرتا ہے کہ متشدد ہندووں نے صرف رام مندر کے نام پر بی جے پی کو اپنا مسیحا مان لیا تھااور اقتدار کی کرسی سونپنے میں بھر پور کامیاب کوشش کی تھی۔سانحہ تازہ تھا،واقعہ بھی تازہ ترین تھا،بابری مسجد شہید کردی گئی تھی،اور رام مندر کی تعمیرکیلئے ہندو تنظیمیں سرگرداں تھیں،ایسے میں الیکشن کا ماحول کچھ زیادہ ہی الٹ پھیر کرگیا،کانگریس رام مندر کے سلسلہ میںکوئی مستحکم قدم اٹھانے سے قاصر رہی اور اس ایشو پر کوئی ٹھوس فیصلہ بھی سنانا مناسب نہیں سمجھی،البتہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں رام مندر کو بہت زیادہ اہمیت دیا اور یہ سیاسی وعدہ بھی کیا کہ ہم اقتدار میںآجائیں گے تو رام مندر کی تعمیراتی کام کا آغا ز کیا جائیگا۔پھر کیا تھا ،کانگریس کو مات کھانی پڑی اور بی جے پی بر سر اقتدار آگئی،لیکن ایک ٹرم مکمل بھی ہوگیا اور بعض دفع تھورے بہت میعادکیلئے کرسی پر براجمان بھی ہوئی لیکن رام مندر کیلئے کچھ نہ کر سکی ،اور اب ہندوں کا وہ متشدد طبقہ بھی جن کو بی جے پی سے قوی امید تھی حرماں نصیبی کے شکار ہوکر ان سے منہ موڑ لیاہے،اب جبکہ 2014ءپارلیمانی انتخابی بہت ہی قریب آچکا ہے،فضا میں سیاسی بادل دھیرے دھیرے ڈیرہ ڈال رہا ہے،ماحول سیاست آمیز بنتا جارہا ہے،ہر پارٹی اپنے بٹوے میں ہاتھ ڈال رہی ہےںاور ایسے جادوئی آلہ کی تلاش میں ہے جو کہ 2014ءکے میدان میں زیادہ سے زیادہ کار آمد ثابت ہو۔
                                ویسے تو انتخاب کے وقت برساتی مینڈک کی طرح نہ جانے کتنی پارٹیاں معرکہ وجود میں آجاتی ہیں،لیکن مضبوط اور مستحکم پارلیمانی انتخاب کیلئے دوہی پارٹیاں ہیں جن میں سے ایک فی الحال بر سر اقتدار ہے اور دوسری بی جے پی کے نام سے اپوزیشن کی صورت میں ہے،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں پارٹیاںجب 2014کی لڑائی کیلئے پوری طرح میدان میں آجائیںگی تو پھر کس کے پاس زیادہ مضبوط ہتھیار ہوگااورٹھوس ہتھکنڈہ ہوگا جس سے یہ معرکہ اپنے نام کیا جا سکے۔بر سر اقتدار پارٹی کانگریس کا حال تو یہ ہے کہ ان سے ہندو بھی خوش اور مسلمان بھی شاداں۔ہندو یہ سوچ کر خوش ہیںکہ یوپی اے حکومت نے دومسلمان افضل و اجمل کو تختہ دار پر پہونچا کر جمہوریت کا سر اونچا کردیاہے،اور مسلمانوں کی بولتی بند کردی ہے،جب کہ مسلمان اس لیے شاداں و فرحاں ہیں کہ مسلسل مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑے جانے کا جو سلسلہ تھا وہ اب ٹوٹتا نظر آرہا ہے،کیوں کہ موجودہ وزیر داخلہ ششیل کمار شنڈے نے خود اپنی زبان سے یہ اعلان کیا ہے کہ آر ایس ایس،بی جے پی، دہشت گردی کو ملک بھر میں فروغ دینے والی تنظیمیں ہیں،اس سے جہاں مسلمان کے نزدیک خوشی کا مظہر دیکھنے کو ملتا ہے وہیںپسماندہ طبقہ کویہ مستحکم یقین ہوگیا ہے کہ کانگریس ہی ہمارا مسیحا ہے۔آئیے ہم اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ یوپی اے کے خلاف بی جے پی کے پاس کون کون سے ہتھیار ہوسکتے تھے جو اب نہیں رہے ان میں سے ایک توبدعنوانی کا مسئلہ ہے لیکن اس کی لڑائی تو انا ہزارے اور اروند کجریوال لڑ رہے ہیں بی جے پی کا اس معاملہ میں کوئی اہم کردار ناہی رہا ہے اور ناہی ہو سکتا ہے کیوں کہ اس معاملے میں دونوں پارٹیاں ایک سکے کے دوپٹ ہیں،ایف ،ڈی ،آئی کے مسئلہ پر بی جے پی بول بھی نہیں سکتی کیوں کہ اس نے بھی اپنے دور اقتدار میں اس کی سفارش کی تھی،ٹوجی ،تھری جی کا واقعہ ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے،تازہ ترین واقعہ عصمت دری کو لیکر اگر بی جے پی اٹھنا چاہے تو بہت ممکن ہے کہ کانگریس الیکشن سے پہلے ہی اس کے مجرمین کو سولی تک پہونچا کر بی جے پی سے یہ ایشو بھی چھین لے،باقی بچامہنگائی کا مسئلہ ،تو اس سلسلہ میں یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی عام بجٹ کا پیش کیا جانا باقی ہے جس کے ذریعے عام طبقہ کا دل جیتنے میں کانگریس کا میاب ہو جائے۔اب یہ مان کے چلنا ہوگا کہ یو پی اے کا سیاسی جال بی جے پی کے بالمقابل کچھ زیادہ ہی مفید اور مضبوط بھی ہے،ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے پاس عمر و کی زنبیل ہے جس میں ہر طرح کی چیزیں موجود ہیں،یا پھر اس کے پاس ایسی جادوئی چھڑی ہے جس کو ایک بار گھمانے پر ہر کوئی مسحور ہوجاتا ہے۔اب ہم اس بات کا بھی جائزہ لیتے چلیں کہ بی جے پی کے پاس 2014ءکے پارلیمانی انتخاب کیلئے مضبوط ہتھکنڈہ کیا ہے،اور اس کے پارلیمانی منشور میں کیا کچھ داخل ہو سکتا ہے،اور کس کس طرح سے فوائد و نقصانات کے امکان ہیں۔بہت دیر تک اسپ خیال کو دور دور تک غور وخوض کے میدان میں دوڑانے کے بعد بھی کہیں سے کوئی مستحکم اور ٹھوس ہتھکنڈہ 2014ءکیلئے نظرنہیں آتا،لے د ے کر صرف ایک رام مندر کا مسئلہ تو نظر آتا ہے اور اسی کا راگ الاپنے کا امکان زیادہ لگتا ہے،کیوں کہ ابھی کمبھ میلہ میں بی جے پی کے صدرراج ناتھ سنگھ جو کہ بابری مسجد شہید کرنے کی تحریک میں پیش پیش تھے نے کھلے لفظوں میں ہزاروں سنتوں کو یہ یقین دلاتے ہوئے کہاکہ ماضی میں بھی میرا عہد تھا رام مندر بنوانے کا اور اب بھی یہ وعدہ ہے کہ میں رام مندر بنواونگا،لیکن یہ کام اسی وقت ہوگا جب 2014ءکے پارلیمانی انتخاب میں ہمیں اکثریت حاصل ہوگی۔تھوری دیر کیلئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ راج ناتھ کا یہ لالی پاپ بیان جزوی طو ر پر چند ہندوں کو خوش کردے اور کچھ ووٹ ان کا بن جائے،لیکن 1992ءکی طرح کا خواب سجانا شاید خام خیالی ہی ہوگی،کیوں یہ لوگ بھی جان چکے ہیںکہ ہر وعدہ کو پورا کرنا بی جے پی کی عادت وفطرت نہیں ہے۔علاوہ ازیںدوسرا کہیںکیا ایشو اور ہتھکنڈہ بی جے پی اختیار کر سکتی ہے کچھ سمجھ میں تو نہیں آتا،بلکہ نقصانات کے بادل تو بہت زیادہ نظر آرہے ہیں۔90%عوام کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ بی جے پی پارلیمانی انتخاب میں ہٹلر مودی کو بطور وزیر اعظم پیش کریگی اور یہی ممکن بھی لگتا ہے،تو پھر اس وجہ کر سب پہلے بغیر کسی تفریق کے سیکولر زہنیت کا حامل ہر فرد اس سے منہ موڑ لے گا وہیں جنتا دل یونائیٹڈ بھی ساتھ چھوڑ دیگی،کیوں کہ مودی کو نتیش کمار کبھی نہیں قبول کر سکتے اور پھر مودی کا نام آتے ہی ہر ہرکس و ناکس مسلم و غیر مسلم کے آنکھوں میں سفاکیت اور درندگی کا خونخوار منظر دوڑنے لگتاہے،اور بطور وزیر اعظم قبول کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے،ایک دوسری بات یہ بھی ہے کہ مودی کو لیکر بی جے پی میں باہمی رسہ کشی کا ماحول بنا ہوا ہے،آر ایس ایس کا بھی ایک حلقہ ایسا ہے جو نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کو تیار نہیں ہے ،رام جیٹھ ملانی ،باپ بیٹا دونوںاور یشونت سنہا مودی کو وزیر اعطم کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہیں جبکہ ادھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے ششما سوراج کیلئے لڑائی لڑ رہے ہیں،اور ان کووزیر اعظم کا تاج پہنانا چاہ رہے ہیں،پھر بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کی تو بات ہی جداگانہ ہے۔لیکن وزیر اعظم کادور تو بعد میں آتا ہے پہلے تو انتخاب جیتنے کا ہے،اس کیلئے بی جے پی کے پاس ایسا کوئی ہتھیار نظر نہیں آتا جس سے کانگریس پرکامیاب وار کر سکے اور اپنا ووٹ بنا سکے۔اور ہاں لوگوں کو تو اب بی جے پی کے کارناموں سے یہ یقین یوچلا ہے کہ بی جے پی صرف مخالفت برائے مخالفت کرتی ہے،اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
                                الغرض دونوں پارٹیوں کی طاقت کا اندازہ لگانے کے بعد اب یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کانگریس کے اندر بہت سی خامیاں ہیں لیکن بی جے پی کے پاس کوئی مضبوط ہتھیار نہیں ہے جس سے وہ حملہ کر سکے،کانگریس زیادہ مضبوط نہ کہ کر اگر یہ کہیں کہ کانگریس ہی مضبوط ہے تو غلط نہ ہوگا،گذشتہ الیکشن کے با المقال اس بار کا جو بی جے پی کا منشور ہے وہ خالی خالی لگتا ہے،اور کہیں دور دور تک امید کی کرن نہین نظر آتی بی جے پی کیلئے کہ شاید یہ پارٹی کانگریس سے بازی مار لے جائے،کانگریس زیادہ مضبوط ہے بی جے پی کے مقابلے میں اور اب بی جے پی کو صرف معجزے کی ضرورت ہے جو شاید کہیں الیکشن تک نمودار ہوجائے۔
rahmatkalim91@gmail.com

الجمعة، فبراير 15، 2013

زنا بالجبر کا واحد حل اسلام ہے

صفات عالم محمد زبير تيمي 
ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کی ایک چلتی بس میں وحشی درندوں کے ذریعہ اجتماعی عصمت دری کا شکار ہوئی طالبہ کی موت پر الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا میں تاہنوز بحث جاری ہے ،اس درمیان مبصرین ، سیاسی قائدین اور تجزیہ کاروں کی عجیب وغریب رائیں سننے اور پڑھنے کوملیں، کوئی مجرمین کو سخت سے سخت سزا سنانے کی مانگ کررہا ہے ،تو کوئی ایسی قانون سازی کا مطالبہ کررہا ہے جس کی بنیاد پر کسی کو ایسے جرم کے ارتکاب کی جرات نہ ہوسکے ، کوئی اس طرح کے ملزمین کو نامرد کرنے کی تجویز پیش کررہا ہے ،کوئی خواتین کے تنگ لباس پرپابندی کی مانگ کررہا ہے تو دوسری طرف اس کے ردعمل میں آزادی نسواں کی تنظیمیں اسے اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر الٹے مردوں کو اپنی سوچ بدلنے کی دعوت دے رہی ہیں ،یہ بحثیں ابھی جاری ہی ہیں کہ اسی اثناءعصمت دری کے بعد قتل کے کئی دیگرواردات سامنے آئے ہیں،اور آتے ہی رہیں گے،یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے، جب تک کہ انسان اپنے خالق ومالک کے دئیے ہوئے نظام کی طرف لوٹ نہ آئے کہ صانع ہی اپنی مصنوعات کی حقیقت کو صحیح طور پر سمجھتا اوراسے استعمال کرنے کا بہترین طریقہ بتا سکتا ہے ،بعینہ خالق ہی مخلوق کی نفسیات سے پوری طرح آگاہ ہے، اوراس کی طبیعت سے ہم آہنگ قانون اورضابطہ بنا سکتا ہے ،اس لیے جب ہم بحیثیت مسلمان اس مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اس کا حل صرف اورصرف اسلام ہی دکھائی دیتا ہے، اورمجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے حوالے سے نام نہاد مبصرین جورائے زنی کررہے ہیں وہ مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ یہ محدود انسانی سوچ کا نتیجہ ہے اور رائے دینے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے خالق کی پہچان نہیں رکھتے اور اس کے نظام کو سمجھنے سے قاصر ہیں.
جبکہ اسلام دین فطرت ہے ،اس کی جملہ تعلیمات انسانی طبیعت سے ہم آہنگ ہیں ، چنانچہ اسلام نے مردوعورت کے تئیں فطری نظام یہ پیش کیا کہ اسلام کی نظر میں عورت اور مرد دونوں برابر ہیں ،اور ان کی دنیوی واخروی کامیابی کے اصول بھی ایک ہیں، البتہ مرد وں اور عورتوں میں مردوں کی بنسبت عورتوں کی اہمیت زیادہ ہے اور یہ نازک بھی ہیں اس لیے اِس کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، طبعی طور پر ہم اس نزاکت کو سمجھتے ہیں،اسی لیے اگر ایک شریف باحیا اور باپردہ لڑکی سڑک سے گذر رہی ہو ،اسی کے پیچھے دوسری لڑکی چل رہی ہے جو بے پردہ ہے ،شوخ اور تنگ لباس زیب تن کی ہوئی ہے تو اوباش لڑکے ظاہر ہے کہ پہلی لڑکی کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہ دیکھیں گے جبکہ دوسری لڑکی کو گھوڑ گھوڑ کردیکھیں گے ، اس سے چھیڑخوانی بھی کرسکتے ہیں ، کیونکہ نگاہ ہوس فتنہ انگیز حسن کا مشاہدہ کرچکی ہے ۔
آپ خود سوچیں کہ اگر آپ کا لڑکا شام چاربجے گھر سے بازار جاتا ہے اور دس بجے رات میں لوٹتا ہے تو آپ کو کسی طرح کی فکرمندی لاحق نہ ہوگی ،اس کے برخلاف اگر آپ کی جوان لڑکی چار بجے بازار جاتی ہے اور دس بجے رات سے پہلے بازار سے لوٹ کر نہیں آتی تو آپ پریشان ہوجائیں گے ،کرب واضطراب کی کیفیت طاری ہوجائے گی،اورذہنی الجھنیںچاروںطرف سے گھیرلیں گی کہ یہ فطرت کی آواز ہے۔ اسی فطرت کی رعایت کرتے ہوئے اسلام عورت کو معاشی جدوجہد سے آزاد کرکے مردکے سر عورت کی معاشی ذمہ داری ڈالتا ہے اوراس طرح دونوںکا دائرہ کارمتعین کرتا ہے کہ مردکو باہر کی ذمہ داری اٹھانی ہے اورعورت کو گھر کی ملکہ اورچراغ بن کر رہنا ہے کیونکہ اسی میں اس کی رونق ہے ، اس کے باوجود عورت اگر اپنے ذوق اوررجحان کے مطابق اسلامی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی کام کرنا چاہتی ہے تو اسلام اس پر کوئی قدغن نہیں ڈالتا ،لیکن عورت بہرصورت پردہ ہے اس لیے اس کا حسن پردہ میںہی جھلکتا ہے ۔
پھراسلام نے خواتین کوتحفظ فراہم کرنے کے لیے ایسی سنہری ،ہمہ گیر اور ہمہ جہت تعلیم دی کہ اگرانسان اسے عملی زندگی میں جگہ دے تو سماج اورمعاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن جائے اور جرائم خودبخود ختم ہوجائیں ۔ اس سلسلے میں اسلام سب سے پہلے دل کی نگہداشت پرزور دیتے ہوئے اس میں اللہ پاک پر پختہ یقین واعتماد کو بحال کرتا ہے جو سمیع وبصیر ہے ،جو دلوں کے سربستہ رازوں اورآنکھوں کی خیانت سے بھی آگاہ ہے ،جس کی نگرانی سے انسان ایک لمحہ کے لیے بھی نکل نہیں سکتا ،جس نے اس پر اپنے اطاعت شعار فرشتوں کو بھی مقررکررکھاہے جو اس کی ایک ایک حرکت کا ریکارڈ تیار کررہے ہیں،کل قیامت کے دن اس کی زبان پرمہر ڈال دی جائے گی اوراس کے وہ اعضاء وجوارح بھی اس کے خلاف گواہی دیں گے جنہیں لذت پہنچانے کے لیے دنیا میں غیرت الہی کو چیلنج کیا کرتاتھا ،پھر وہ زمین جہاں پر کام ودہن کا سامان فراہم کیاتھا کل قیامت کے دن اس کی حریف بنی کھڑی ہوگی ۔
یہ احساس پیدا ہونے کے بعد انسان ایک ذمہ دار ہستی بن جاتا ہے، اس کے دل میں ایک پولس چوکی بیٹھ جاتی ہے،جو ہمہ وقت اس کی نگرانی کرتی رہتی ہے، یہ فطری بات ہے کہ انسان کے اندرجب کسی گناہ کاداعیہ پیدا ہوتا ہے تووہ انسانوں کی نگاہ سے بالکل روپوش ہوکر گناہ کرتا ہے کہ مبادا اگرکوئی دیکھ لے تو ہماری سبکی ہو گی،اب ظاہر ہے کہ جس اللہ کے ساتھ وہ معاملہ کررہا ہے اس کی نگاہ سے وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی چھپ نہیں سکتا ،ایسی صورت میں اس کے اندراللہ کے حکم کو پامال کرنے کی قطعاً جرات پیدا نہیں ہوسکتی ،اوراگرنفس امارہ کے بہکاوے میں کبھی چوک ہوگئی تواس کا ضمیر اس کو فوراً ملامت کرتا ہے ،بالآخر وہ توبہ واستغفار کے ذریعہ اپنے رب کی مغفرت کا طلبگار ہوتاہے، اسی احساس کی بنیادپر بیداری ضمیر کا ایسابے نظیرنمونہ سامنے آتا ہے کہ ماعز اسلمی اور غامدیہ جیسے لوگ جن سے خلوت میں زنا ہوگیاتھا کشاں کشاں دربار نبوت میں حاضرہوتے ہیں اور اپنے گناہ کا اعتراف کرکے اپنے لیے سزاکا مطالبہ کرتے ہیں ،یہاں تک کہ انہیں سنگسا رکردیا جاتا ہے ۔ اس احساس کے نمونے جہاں تاریخ کے درخشاں صفحات پر سنہرے حروف میں لکھے ہوئے ملتے ہیں وہیں آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے پاکیزہ نفوس پائے جاتے ہیں ۔
چندماہ قبل کا واقعہ ہے کہ امریکہ کی ریاست اریزونا میں ایک کالج میں زیر تعلیم پانچ لڑکیاں اپنے ہم کلاس ایک یمنی طالب علم عصام الشرعبی کی رہائش گاہ میں داخل ہوئیں، اندر سے تالے لگا دیے اور اپنے کپڑے اتار کر اس کے کمرے میں داخل ہوگئیں۔لیکن عصام کھڑکی سے چھلانگ لگاکر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ عصام نے نکلتے ہی فوراً پولس کو فون لگایا، پولیس نے موقع پر پہنچ کر پانچوں لڑکیوں کو حراست میں لے لیا، تفتیش کے بعد پانچوں لڑکیوں نے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسے کئی مرتبہ جنسی تعلقات کی پیشکش کی تھی، لیکن اُس نے یہ کہہ کر ان کی تجویز مسترد کردی تھی کہ وہ ایک دیندار مسلمان نوجوان ہے اور اس کا مذہب اسے اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔ (روزنامہ العربیہ13مئی2012)
جی ہاں! جب دل میں اللہ کا خوف اوراپنے رب کے پاس جوابدہی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو عفت وعصمت کے ایسے ہی نمونے دکھائی دیتے ہیں کہ حسن وجمال کی پیکر دعوت گناہ دے رہی ہوتی ہے لیکن بندہ مومن اس کو یہ کہتے ہوئے خاطر میں نہیں لاتا کہ ’مجھے اللہ کا ڈر ہے ۔
دل کو بدلنے اوراس میں اللہ کی نگرانی کا احساس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے دوسرانظام یہ نافذ کیا کہ زنا کے محرکات پر بھی روک لگادی اورایسے احتیاطی تدابیر تجویز کیے کہ زنا تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آئے ، چنانچہ اسلام نے مردوخواتین دونوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ،عورتوں کے لیے خاص حکم یہ دیا گیا کہ وہ گھر میں استقراراختیار کریں ،اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آجائے تو پردے کا پورا خیال رکھیں ،اپنی زینت وزیبائش کا اظہار نہ کریں،کسی غیرمحرم مرد سے بات کرتے وقت لہجہ میں لچک نہ ہو بلکہ روکھاپن پایاجائے کہ مبادا کوئی بیمار دل غلط توقع قائم کربیٹھے ،اورنہ اجنبی مردسے خلوت اختیار کریں ، نہ محرم کے بغیر سفر کریں ۔ پھر اسلام نے نکاح کی ترغیب دلائی اوراس کی راہ میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دورکرتے ہوئے ایسی شادی کو بابرکت قرار دیا جس میں اخراجات بہت کم ہوں، ازدواجی زندگی میں الفت ومحبت کا ماحول بنے اس کے لیے شادی سے پہلے لڑکی کو دیکھ لینے کا حکم دیا گیا ، اور شادی کے بعد خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے ایسی پاکیزہ تعلیمات دی گئیں کہ ازدواجی زندگی جنت نظیر بنی رہے ۔ اوربیوی کے علاوہ کسی دوسری خاتون کی طرف قطعاً اس کا دھیان نہ جائے ۔ ان ساری تدابیر کے باوجود چونکہ فحاشی میں بذات خود وقتی لذت ہے ،اور معاشرے میں بیمار طبیعتیں پائی جاتی ہیں جن کے لیے نصیحت اورتدابیر کوئی کام نہیں دیتیں ،ایسے وقت اگر اسلام نے محض دل کی تربیت اور احتیاطی تدابیر پر اکتفا کیا ہوتا اورخبیث طبیعتوں کے لیے سزا مقررنہ کی گئی ہوتی تواسلام کی تعلیم آفاقیت پر مبنی نہیں ہوسکتی تھی ،اسی لیے انسانی فطرت سے ہم آہنگ اس مذہب نے حدود الہی کو پامال کرنے والوں کے لیے سخت سے سخت جسمانی سزا مقرر کی ، چنانچہ زناکار مردوخواتین اگر شادی شدہ ہوں تو ان کے لیے رجم کا حکم دیا گیا، اوراگر غیرشادی شدہ ہوں تو سوکوڑے اور ایک سال کے لیے جلاوطنی کی سزا تجویز کی گئی ۔ اور اس کی تنفیذ کے حوالے سے حکم یہ دیاگیا کہ رنگ ونسل اورامیری وغریبی کی تمیز کے بغیر ہر مجرم کو مومنوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں سزا دی جائے تاکہ حاضرین کے لیے نشان عبرت ہو اوربعد میں کسی کو ایسی شرمناک حرکت کے ارتکاب کی جرات نہ ہوسکے ۔ اسی لیے اللہ پاک نے فرمایا: وَلَکُم فِی القِصَاصِ حَیَاة یَا اولِی الاَلبَابِ (سورة بقرہ 179) ” اور اے اہل ِعقل! (حکمِ) قصاص میں (تمہاری) زندگانی ہے“۔
یہ ہے اسلام کا وہ آفاقی نظریہ جوبالکل ماڈرن اوراپٹوڈیٹ ہے ،ہرزمانے اورہرجگہ اورہرحالت میں اس نظام پر عمل کرکے خوشگوار زندگی گذاری جاسکتی ہے ،جبکہ موجودہ زمانے میں آزادی نسواں کی جو تحریکیں منظرعام ہر آئی ہیں ان کی بنیاد اس بات پر ہے کہ عرباینت،فحاشی اوربے راہ روی کو انسانی معاشرے میں اعلی پیمانے پر فروغ دیاجائے ،ان کا مطالبہ ہے کہ مردوعورت دونوں کو ایک میدان میں کام کرنے کی بالکلیہ اجازت ہونی چاہیے اس کے بغیر ان کے درمیان مساوات باقی نہیں رہتا ، اوریہ نعرہ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کا فروغ دیا ہوا ہے جو مغرب سے اٹھا اورپوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، ورنہ مشرقی تہذیب میں عورت پردے کی عادی تھی ،یہاں تک کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں پردے کا حکم آیا ہے اورآج تک غیرمسلموں کے بعض مذہبی گھرانوں میں اس کا رواج چلا آرہا ہے ،خود مغرب جو عیسائیت کی دہائی دیتا ہے ان کے مذہب میں مریم علیہا السلام کو باپردہ پیش کیاجاتا ہے ،لیکن برا ہو سرمایہ دارانہ نظام کا جس نے دھرم اورروایت سب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عورت کو چراغ خانہ سے شمع محفل بنادیا،اوراپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے تجارتی اشتہارات میں عورتوں کے حسن کا خوب خوب استعمال کیا، اور خود عورتوں نے اپنی عزت کی نیلامی کو بسروچشم قبول کرلیا ۔ اب میں پوچھناچاہتا ہوں آزادی نسواں کی تنظیموں سے جو سوداگروں کے فریب میں مبتلا ہیں کہ اس آزادی نے آپ کو کیا دیا، مردوں کے شانہ بشانہ چلیں لیکن مغربی ممالک میں بھی سوائے چند کے آپ کو سربراہی حاصل نہ ہوسکی ،ہاں !آپ کے جسم کے ساتھ کھلواڑ کیاگیا،سرمایہ داروںنے آپ کے حسن کا خوب خوب استعمال کرکے اپنی تجارت کو فروغ دیا،شہوت پرستوںنے آپ کو ننگاکرکے شہوت کی آگ بجھائی ،پھر جب یہ فتنہ انسانی معاشرے میں آیا تو آپ پر جنسی زیادتی عام ہونے لگی ،زنابالجبر کے واردات کثرت سے ہونے لگے ،چنانچہ امریکہ میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ہرپانچ میں سے ایک عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے ،رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک منٹ کے دوران ۵۲ لوگ جنسی زیادتی ،تشدد یا تعاقب کا نشانہ بنتے ہیں ۔ ہندوستان کے ایک تازہ جائزے میں برطانوی خبررساں ایجنسی نے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اوسطا ہر 20 منٹ بعد کسی نہ کسی خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خبرکے مطابق 2011ءمیں بھارت میں ریپ کے واقعات کی تعداد 24 ہزار 206 رہی۔اورپاکستان میں پچھلے ایک سال میں زنابالجبر اوراجتماعی زیادتی کے 827 واقعات منظرعام پر آئے ہیں ۔ اس لیے ہمیں کہنے دیاجائے کہ آج اگردنیامیں زنا بالجبر کے واردات سامنے آتے ہیں تو یہ دراصل استعماری دنیاکا شاخسانہ اورفطرت سے بغاوت کانتیجہ ہے ، قدم قدم پر شہوت کو ہوا دینے کے سامان مہیا کئے گئے ہیں ،الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے عورت کو کم سے کم لباس میں پیش کررہا ہے ،خودلڑکیاں شوخ اور تنگ لباس زیب تن کئے اٹکھیلیاں کرتیں نگاہ ہوس کو دعوت دے رہی ہوتی ہیں ۔
ایسے حالات میں اگر کوئی کہے کہ ہم آگ جلائیں گے لیکن اطراف کی چیزیں نہیں جلنی چائییں، سونا اور ہیرے جواہرات عوامی مقامات پر رکھے رہیں گے ان کی چوری نہیں ہونی چاہیے ،گھر کا دروازہ کھلارہے گا گھرکا سامان محفوظ رہناچاہیے ، مٹھائیاں کھلی رہیں گی ان پر مکھیاں نہیں لگنی چاہئیں ،تو ایسا خیال دیوانے کا بر تو ہوسکتاہے ، عقلمند ی کی علامت نہیں ہوسکتی ۔
بہرکیف یہ بہترین موقع ہے دعاة اورمبلغین کے لیے کہ موجودہ حالات میںآزادی نسواں کے علمبرداروںاورغیرمسلموں کے سامنے مثبت اندازمیں اسلام کے معاشرتی نظام کی آفاقیت بیان کریں کہ یہی نظام دراصل عفت وعصمت کا رکھوالا، انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور پرسکون معاشرے کا ضامن ہے ۔اورجب تک انسانیت اپنے رب کے دئیے ہوئے نظام حیات کی طرف لوٹ کر نہ آئے گی پریشانیاں گھر ی رہیں گی ، عفت وعصمت کا خون ہوتا رہے گا اورجرائم دن بدن بڑھتے ہی رہیں گے ۔
٭٭٭


الخميس، فبراير 14، 2013

نشأة اللغة العربية وتطورها عبر العصور


سليم اختر مطيع الرحمن التيمي
جامعة اللغة الإنكليزية واللغات الأجنبية،حيدرآباد

إن قلمي عاجز عن تعبير نشأة اللغة العربية بعين نشأتها حق التعبير ،لأن التاريخ لم يسايرها إلا وهي في وفرة الشباب والنماء ،والنصوص الحجرية التي أخرجت من بطون الجزيرة لا تزال لندرتها قليلة الغناء ،وأن علماء التاريخ واللغات اختلفوا في أطوار نشأتها الأولى اختلافا كثيرا ،فقال أبو الحسن الأشعري وأحمد بن فارس :"إن اللغة العربية توقيف و إلهام من الله عزوجل ،بدأت من آدم عليه الصلوة و السلام"،واستدلا بالآية الكريمة التي وردت في سورة البقرة :31"وعلم آدم الأسماء كلها" فالمراد بالأسماء :اللغات ،ومنها اللغة العربية، و الآية الأخرى التي وردت في سورة الروم :22 "ومن آياته خلق السموات والأرض واختلاف ألسنتكم وألوانكم"(طرق تدريس اللغة العربية للدكتور جودت الركابي صـ14) وقال بعضهم :"إنها اصطلاح وتواطؤ لا وحى وتوقيف"(المصدر السابق) وقال بعضهم "إن أصل اللغات كلها إنما هو من الأصوات المسموعة كدوي الريح وخنين الرعد و خرير الماء وسحيج الحمارو نعيق الغراب وصهيل الفرس ونحو ذلك ،ثم ولدت اللغات عن ذلك فيما بعد .وقد استحسن إبن جني هذا الرأى وصوبه.(الخصائص،المجلد الأول صـ41) وقال بعضهم : إنها إحدى اللغات السامية ، بدأت من يعرب بن ارفشخذ بن سام بن نوح .(تاريخ الأدب العربي لأحمد حسن الزيات صـ13) ورأي علماء النفس والاجتماع حديثا : أن اللغة العربية كغيرها من الظواهر الاجتماعية نشأت ساذجة ،ثم تطورت بمرور الزمن ،وتتابع التجارب ،وقد أدى اختلاف التجارب والبيئات والطبائع إلى اختلاف اللغات .(معجم علوم اللغة العربية للدكتور محمد سليمان عبد الله الأشقر صـ354) .
     ولكن أصح هذه الأقوال عندي وأتمها القول الأول بإن اللغة العربية توقيف و إلهام بدأت من أبينا آدم عليه الصلوةوالسلام ،لأن هذا معلوم لدى الجميع أن الله عزوجل خلق آدم من التراب ،ومن ضلعه حواء عليهما الصلوة و السلام ،وأسكنهما في الجنة ،وقال لهما ،كلا منها رغدا حيث شئتما ،ولا تقربا هذه الشجرة ،فكان يتكلم كل واحد منهما مع الآخر خلال القيام فيها بلغة الجنة وهى اللغة العربية ،ولكنهما عصا ربهما بأكل الثمر الذي نهيا عن أكله ،فهبطا منها إلى الأرض ،ومازالا يبكيان حتى علمهما الله التواب الرحيم الدعاء باللغة العربية للاستغفار والتوبة النصوح والرجوع إليه سبحانه وتعالى من ارتكاب المعاصي و الذنوب،"ربنا ظلمنا أنفسنا وإن لم تغفرلناوترحمنا لنكونن من الخاسرين"(الأعراف:23) ، وأخرج إبن عساكر في التاريخ عن إبن عباس أن آدم عليه السلام كان لسانه في الجنة لسانا عربيا ،فلما عصى سلبه الله عزوجل اللغة العربية ،فتكلم بالسريانية ،فلما تاب رد الله عليه اللغة العربية .وقال عبد الملك بن حبيب :كان اللسان الأول الذي نزل به آدم من الجنة ،عربيا .(المزهر في علوم اللغة وأنواعها للعلامة السوطي:1/30) .
وأن علماء التاريخ قسموا العرب إلى ثلاث طبقات :
1-بائدة:كعاد وثمود وطسم وجديس وجرهم الأولى ،وهؤلاء هم الذين درست أخبارهم وطمست آثارهم ،ولم يسجل لهم التاريخ إلا صفحات مشوهات لا تنفي ظنا ولا تثبت حقيقة .
2-عاربة:هم عرب اليمن المنتمون إلى يعرب بن قحطان المذكور في التوراة باسم يارح بن يقطان ،وتقال لهذه الطبقة طبقة قحطانية انشعبت منها عدة قبائل سكنت في الحيرة والأزد والمدينة والشام و اليمن و عمان و تهامة و غيرذلك .
3-مستعربة:ولد إسماعيل بن إبراهيم عليهما الصلوة و السلام ،ونزل بالحجاز حوالى القرن التاسع قبل الميلاد ،ثم صاهر ملوك جرهم ،فكان له بنون وأعقاب ضلوا في مجاهل الزمن ،فلم يعرف التاريخ منهم على التحقيق إلا عدنان ،وإليه ينتهي عمود النسب العربي الصحيح ،وتقال لهذه الطبقة طبقة عدنانية خرجت منها قبائل كثيرة ،منها قبيلة مضر ،ومن مضر بطون إلياس ،ومن إلياس بطون كنانة ،ومن كنانة قريش ،ومن قريش محمد بن عبد الله صلى الله عليه وسلم .(الإسلام والحضارة العربية لمحمد كرد، تاريخ الأدب العربي لأحمد حسن الزيات بتصرف)
   وأن الله البارك بارك في ذريات القحطانيين و العدنانيين ،وبث منهم قبائل كثيرة سكنت في الأماكن المختلفة ،واصطفاهم لنشر اللغة العربية في العالم كله وتحفظها من التبدل و التغير متأثرة بلغات العالم ،وخلق فيهم فحول الشعراء في الحقبة الجاهلية الذين جهودهم المبذولة في التراث العربي ، تتلألأ مع مرور العصور كالنجوم المتلألئة إلى يومنا هذا ،كمهلهل بن ربيعة وإمرئ القيس وزهير بن أبي سلمى وطرفة بن العبد وغيرذلك، الخطباء المصاقع ذوي ذلاقة اللسن ونصاعة البيان وأناقة اللهجات وطلاقة البديهات الذين خدماتهم الجليلة في ترويج اللغة العربية كقس بن ساعدة الإيادي وأكثم بن صيفي التميمي والحارث بن عباد البكري وغيرذلك ،كما جعل الله عزوجل منهم الكتاب و القراء نحو لقيط بن يعمر الإيادي كاتب كسرى بالعربية وترجمانه،(معجم ما استعجم للبكري) وعدي بن زيد أول من كتب ديوان كسرى بالعربية ،(تاريخ ابن خلدون) ومرارة بن مرة أول من كتب بالعربية في جزيرة العرب .(الأغاني للأصفهاني)
   وأن القحطانيين والعدنانيين كانوا يتكلمون لغة واحدة ذات فروق طفيفة ،وهي بون بعيد في الإعراب و الضمائر و أحوال الاشتقاق والتصريف ،كما قال أبوعمرو بن العلاء :"مالسان حمير بلساننا ولا لغتهم بلغتنا "(تاريخ الأدب العربي لأحمد حسن الزيات صـ16) .فلغة القحطانيين لم تزل غالبة على لغة العدنانيين إلى القرن السادس للميلاد ،ولكن دولتهم لما أخذت تدول ،وسلطانهم يزول بتغلب الأحباش على اليمن طورا، وتسلط الفرس عليه طورا آخر،فغلبت لغة العدنانيين على لغتهم بفضل الأسواق ومكة المكرمة التي كانت مثابة للناس من كل فج عميق لوجود البيت ،ومجمع الثروة لوقوعها في الطريق القوافل الآتية من الجنوب تحمل متاجر الهند و اليمن إلى الشام ومصر ، ولكنها كانت محصورة في جزيرة العرب ،ثم جاء الإسلام ،وساعدها على لقي الانتشار والقبول في العالم كله بسرعة فائقة.
    وأن الله عزوجل أنزل القرآن الكريم بلغة العدنانيين ،وهي لغة قريش ،وجعلها أقوى اللغات وأفصحها لسانا ة و أعذبها لفظا وأبلغها أسلوبا و أوسعها مادة ، فلم تمض على نزوله مدة حتى بدأ القوم الدخول في دين الله أفواجا ،وازداد أتباعه يوم بعد يوم ،وانتشر الصحابة لفتوح الممالك المترنحة تحت عبادة غيرالله الذي لا إله إلا هو العزيز الحكيم ،وفرضوا عليهم تعاليم الإسلام وأحكامه ، فاتسعت رقعة الإسلام بكثرة الفتوح وبمن دان الإسلام ، وجنبا لجنب اتساع دولة الإسلام انتشرت اللغة العربية لكون القرآن الكريم فرضا تلاوته في الصلوة على كل من يؤمن بالله لا شريك له ،إلى أرجاء المعمورة ،كالشام والعراق ومصر و الروم وشمال أفريقا والأندلس وما إلى ذلك من الأصقاع المتتحة ،وأصبحت هذه اللغة اللغة العامة في هذه الأقطار.
    وأما الهند ،فمن المعلوم لدى الجميع أن العلاقات التجارية كانت قائمة بين العرب والهند منذ آلاف السنين قبل الإسلام ،وكانت الجاليات العربية تقيم حينئذ في شبه جزيرة الهند لتمارس التجارة بين الهند و العرب وغيرها ،فبذلك دخلت اللغة العربية في الهند ،ولقيت الانتشار و القبول العام فيها بدفع أهلها إلى تعلمها والتكلم بها لتوطيد علاقاتهم التجارية بالعرب .ولما بعث النبي صلى الله عليه وسلم إلى العالمين بشيراونذيرا ،ففاض خبره في الهند كالبلاد الأخرى ،فأسلم بعضهم في عهده صلى الله عليه و سلم في سواحل مالابار وسواحل إقليم السند ، كما كتب المؤرخون أن ملك الهند أهدى إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم جرة فيها زنجبيل ، فأطعم أصحابه قطعة قطعة .(المستدرك للحاكم ،المجلد الرابع صـ135) وفي عهد عمر بن الخطاب رضى الله عنه وصل المسلمون إلى ساحل الهند الغربي تانة (مومبائ)وبهروج عام 15هـ ،وبدأ فتح السند في عهد عثمان بن عفان رضى الله عنه.(فتوح البلدان للبلاذري صـ607،الدعوة الإسلامية في الهند لمسعود الندوي صـ3) وتم هذا الفتح في عهد الوليد بن عبد الملك بالشباب اليافع محمد بن قاسم ،وما بقيت أي أرض الهند إلا انتشر فيها أشعة الإسلام المتألقة بسرعة أقصى، وجنبا لجنب انتشار الإسلام لقيت اللغة العربية الشيوع و الذيوع في المسلمين الهنود لكونها مصدر علوم الإسلام ومنبعه ، ولما قامت في هذه الأراضي الحبيبة حكومة عربية خالصة لله الواحد القهار ، فجاءت جماعة كبيرة من الصحابة للقيام بتيظيمها و تنسيقها في ضوء الكتاب والسنة ، ووجهوا عناياتهم كل توجيه إلى تعليم أجيال المسلمين الهنود في المساجد و الكتاتيب . فولد فيهم المتبحرون في مختلف العلوم ،المتفننون في شتى الفنون ،فبعضهم يعدون في صفوف التابعين ،و بعضهم في المحدثين ،وبعضهم في الأدباء ، حتى كتب المؤرخون مسعود البشاري و المقدسي و ابن حوقل :أن علماء السند كانوا يتكلمون باللغة العربية و السندية بالسلاسة و السيولة .(الأنساب للمقدسي ،صـ48-79) وكتب أبن بطولة أن رعاة السند أيضا يتكلمون باللغة العربية ،(فتوح البلدان للبلاذري). وعلى رأسهم :الشيخ الإمام مكحول الهندي والشيخ أبو معشر نجيح بن عبد الرحمن السندي المتوفى 170هـ صاحب المغازي والشيخ أبو العطا السندي المتوفى 180هـ والشيخ حلف بن سالم السندي المتوفى 231هـ.(خلافت راشده اور هند صـ222).
      ولما انقضت الحكومة العربية من الهند في القرن الرابع للهجرة بتغلب الإسماعليين عليهم بالغصب ،بدأ خمود النشاط العربي بخمود علم القرآن الكريم والحديث النبوي ،لأن الإسماعليين كانوا هدموا المساجد والمراكز و المدارس التي كان أقامها مسلموالعرب لتعليم أولاد المسلمين ، ولكن دولة إسماعلية ماإن ظهرت في الهند حتى قضى عليها الغزنويون عام 402هـ (الطرزي ،المجلد الأول صـ310) ،وجددوا إنشاء المساجد و الكتاتيب و المدارس ليتزين فيها أجيال المسلمين بزينة مختلف العلوم والفنون كما كان من قبل ،ورتبت الأجورالكبيرة والمكافات العظيمة للمعلمين والمؤدبين ،كما سجل التاريخ أن السلطان محمود بن سبكتكين الغزنوي عندما فتح بهاطيه عام 395هـ ،استخلف بها من يعلم من أسلم من أهلها ما يجب عليهم تعلمه .(الكامل لإبن الأثير ، المجلد السابع صـ 284)
     وفي القرن السابع للهجرة تأسست دولة دلهي القديمة سنة 602هـ ،وتولى عرشها مختلف السلاطين مرة بعد مرة ، وركز كل منهم إلى تعليم الشباب المسلمين الهنود بإقامة كثيرمن المساجد والمدارس والمعاهد التي كانت منتشرة في مختلف البلاد ،كمدرسة فيروز ومدرسة النصيرية ومدرسة المعزى بدلهي وغيرذلك .والجديربالذكر أن جنكيز خان لما قام بشن الغارة التدميرية والتخريبية على آسيا الوسطى ، فقصد علماءها إلى الهند ،واجتمعت فيها جماعة حاشدة من المحدثين والمفسرين والأدباء ،وبمجئهم اتسعت دائرة التعلم والتعليم من غرب الهند إلى شرقها ،وصارت مدينة دلهي مركزا للعلوم والفنون ،فشاب أجيال المسلمين عباقرة العلماء ،ماهرين في شتى العلوم والفنون .
      وفي القرن الثامن والتاسع للهجرة تولى عرش دلهي السلطان محمد تغلق وفيروز تغلق وسكندر شاه ،وكل منهم كان عالما كبيرا فاضلا عبقريا محبا للعلم والعلماء ،حريصا على العلم ، مبادرا في طلبه .فهذه الخصائل السليمة والأوصاف الحميدة دفعتهم إلى إنفاق ما في خزائنهم من الأموال في إنشاء المدارس و المراكز في كل مكان فيه المسلمون الهنود في أشد حاجة إلى التعليم ، فولد في هذين القرنين جهابذة العلماء الربانيين الذين لهم القدح المعلى في ترويج اللغة العربية مع تعميم أمور الدين الحنيف .وإليكم نبذة يسيرة فيما يلي:الشيخ شمس الدين محمد بن يححى الأودهي المتوفى 747هـ والشيخ نصيرالدين جراغ الدهلوي المتوفى 757هـ والشيخ حسين بن المعز البيهاري المتوفى 844هـ والشيخ القاضي شهاب الدين دولت آبادي المتوفى 849هـ والشيخ لنكردريا المتوفى 891هـ وغيرذلك .
     وفي القرن العاشر للهجرة قامت الدولة المغولية في الهند ،ومازالت إلى القرن الحادي عشر للهجرة ،و في هذه الفترة المغولية راجت العلوم العربية أكثر من القرن الماضي لدخول محدثي العرب وأدبائها على الهند ،واختيار الطلاب الهنود صحبتهم العلمية الصالحة لطلب علم القرآن الكريم والحديث النبوي والأدب العربي .فهذه الشخصيات العظيمة المملؤة بالعلوم الغزيرة خلقت خلقا كثيرا من أولاد المسلمين الهنود بلابل بستان العلم والعرفان ، وفي مطلعهم الشيخ زين الدين المالاباري المتوفى 928هـ صاحب فتح المعين والشيخ رفيع الدين الشيرازي المتوفى 954هـ والشيخ علي المتقي المتوفى 975هـ صاحب كنزالعمال والشيخ جمال الدين محمد بن ظاهر البتني المتوفى 986 هـ صاحب المغني في ضبط الرجال والشيخ طاهر بن يوسف السندي الرهانفوري المتوفى 1000 هـ صاحب تلخيص شرح أسماء الرجال البخاري للكرماني والشيخ يعقوب بن حسن الصرفي الكشميري المتوفى 1003هـ صاحب تفسير القرآن ،وما إلى ذلك .(مساهمة الهند وباكستان في الحديث بالأردية للدكتور إسحاق بهتي بتصرف)
     وفي القرن الثاني عشر للهجرة بدأت تتغير الظروف عقب دخول القوات البريطانية إلى شبه القارة الهندية باسم الشركة ،فإن الغزو الإنجليزي للهند لم يكن غزوا سياسيا فقط ،وإنما غزوا ثقافيا أيضا،ولتحقيق هذا أنهم قاموا بإحراق بيوت المسلمين بوجه خاص وإضاعة أموالهم وإراقة دمائهم ونفيهم وإعدام علمائهم الربانيين وإغلاق مدارسهم ومراكزعلومهم ،فأحاط بهم البؤس والشقاء ،وبلغ الشر منتهاه والاضطهاد مبتغاه ،وأخذت شعائر الإسلام تنطمس ،وينحت صوته وتنتهي حميته .وفي هذه الأوضاع القاسية استيقظ العلماء الربانيون والقواد الهنود من نومهم العميق ومسحوا عينيهم بأيديهم وحثوا الهنود ضد القوة الاستعمارية واستبدادها عليهم وأحرقوا دماءهم وأضحوا نفوسهم ، وأسسوا المدارس  العربية الإسلامية بعدد كبير في أرجاء الهند لمواجهة التحديات الحضارية والحكومة الاستعمارية ونشر العلوم الإسلامية والعربية والمحافظة عليها،فأول مدرسة عربية لهم دارالعلوم ديوبند ،أسست في 1866م وتولى مهام إدارته محمد قاسم النانوتوي رحمه الله عزوجل ،وبعد ذلك أسست معاهد كثيرة في أرض الهند مثل ندوة العلماءوالجامة السلفية ببنارس وجامعة فيض عام وجامعة الفلاح بأعظم كره والأحمديةالسلافية بدربنجة ،بيهار وجامعة الإمام البخاري بكشنكنج ،بيهار وجامعة الإمام ابن تيمية بجمبارن الشرقية ،هي أكبر جامعة دينية عربية في بيهار ،أسسها المفسرالكبير والمحدث العظيم والأديب الأريب العلامة الدكتور محمد لقمان السلفي/حفظه الله عزوجل ،وغيرها من الجامعات الدينية ،وفي هذه الجامعات والمعاهد تدرس علوم القرآن والسنة النبوية واللغة العربيةوآدابها ،ويتخرج منها كل سنة مئات الطلاب الماهرين بالأدب العربي ،المتفننين بمختلف الفنون .وجنبا لجنب هذه الجامعات الدينية أسست الجامعات والكليات العصرية في أنحاء الهند ،وفي كل منها يوجد قسم خاص للغة العربية وآدابها والدراسات الإسلامية ،ويتخرج فيها الطلبة والطالبات بالكالوريوس والماجستير والدكتوراة في الأدب العربي واللغة العربية والدراسات الإسلامية ،وفي كل جامعة توجد مكتبة ضخمة مخصصة للغة العربية والدراسات الإسلامية ،ومن أشهر هذه الجامعات العصرية جامعة جواهر لال نهروبدلهي والجامعة الملية الإسلامية بدلهي و جامعة دلهي الوطنية وجامعة عليكرة الإسلامية وجامعة اللغة الإنكليزية واللغات الأجنبية بحيدرآباد وجامعة مولانا آزاد الأردية الوطنية بحيدرآباد والجامعة العثمانية بحيدرآباد وجامعة كاليكت بكيرلا وجامعة بتنة بولاية بيهاروغيرها .
   ومما يجدربالذكر أن الصحافة العربية لعبت ولا تزال تلعب دورا أساسيا في ترويج اللغة العربية وآدابها في أرجاء معمورة الهند ،ولكنها ظهرت متأخرة بعد أن ظهرت الصحافة الإنكليزية والهندية والأردية والفارسية ،فأول جريدة عربية في الهند صدرت باسم "النفع العظيم لأهل الإقليم" من لاهور،وقد أنشأ هذه الجريدة الأستاذ شمس الدين في 27 من أكتوبر 1871م ،بعد هذه الجريدة صدرت مجلة عربية باسم "البيان" في سنة 1902م من لكناؤ،ونالت قبولا في الأوساط الأدبية في الدول العربية ،ثم صدرت جريدة "الجامعة" من كلكتا تحت إشراف مولانا أبوالكلام آزاد في عام 1932م ،ثم أنشأ الأديب مسعود عالم الندوي مجلة عربية باسم "الضياء" عام 1932م ،وبعد هذه المجلة أصدر المجلس الهندي للعلاقات الثقافية بالهند مجلة عربية سنوية باسم "ثقافة الهند" سنة 1950م ،ثم ظهرت مجلة "البعث الإسلامي"من دارالعلوم لندوةالعلماء التي أسسها الستاذ محمد حسني سنة 1955م ،وبعد ذلك صدرت مجلة "دعوة الحق" عام 1965م من دارالعلوم بديوبند ،ومجلة "صوت الأمة"سنة 1968م من الجامعة السلفية ببنارس ،ومجلة "الداعي" من  دارالعلوم بديوبند عام 1976م ،ومجلة"الفرقان"الشهرية سنة 2000م من جامعة الإمام إبن تيمية بجمبارن الشرقية بولاية بيهار،وهي أول مجلة عربية في بيهار أنشأها الأديب الأريب العلامة الدكتور محمد لقمان السلفي/ حفظه الله وتعالى ،ومجلة عربية نالت في مدة قليلة أكثرشيوعا وذيوعا في الأوساط الأدبية والعلمية في الداخل والخارج ، من المجلات العربية الأخرى الصادرة من أنحاء الهند ،وأن هذه المجلة تشتمل على المقالات الأدبية والعلمية والدينية والاجتماعية والسياسية وغيرها التي أعجب بها أدباء العرب والعجم ،ويرأس هذه المجلة الآن الأستاذ الكريم العطوف الشيخ سميع الله المدني /حفظه الله وتعالى ،ويقوم بمسؤليته ومهماته العظيمة بالصدق والأمانة .