الأربعاء، ديسمبر 29، 2010

المـؤتـمـر العالمي الأول عن جهود المملكة العربية السعودية في خدمة القضايا الإسلامية

عقدت الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة المؤتمر العالمي الأول تحت عنوان "جهود المملكة العربية السعودية في خدمة القضايا الإسلامية" خلال فترة 13 محرم إلى 15 محرم 1432 وقد شارك فيه عدد من العلماء والمفكرين من داخل البلاد وخارجها منهم ثلاثة وفود من جامعة الإمام ابن تيمية بمدينة السلام وقدموا بحوثهم في المؤتمر وهم كل من
(1) د. محمد لقمان السلفي رئيس جامعة الإمام ابن تيمية وعنوان بحثه : جهود المملكة في تعليم أبناء المسلمين «بناء المؤسّسات التعليمية في العالم»
(2) د. محمد بن أرشد المدني نائب رئيس جامعة الإمام ابن تيمية وعنوان بحثه " الدور الريادي لعلماء المملكة في بيان ونشر العقيدة الصحيحة"
(3) أ.ظل الرحمن بن لطف الرحمن رئيس تحرير مجلة "طوبى" الشهرية الصادرة بالجامعة وعنوان بحثه "إسهامات المملكة العربية السعودية في برنامج الأغذية العالمي"
وللتفضيل إضغط هنا

الأربعاء، ديسمبر 22، 2010

هل تستطيع أن تتبرع براتب اليوم الواحد من دخلك السنوى لنشر الهندوسية والقومية؟

هل نريد منكم التبرع لنشر الهندوسية ؟ كلا، ونعوذ بالله من ذلك ، فالهندوسية ديانة وثنية باطلة والإسلام هو الدين الرباني الشامل الكامل الحق الذي لايقبل الله من الإنسان دينا سواه ولكنك تتساءل ما قصدك بصياغة الموضوع بهذه الطريقة ؟ إذا ترغب أن تعرف الحقيقة فاضغط هنا "هل تستطيع أن تتبرع براتب اليوم الواحد من دخلك السنوى لنشر الهندوسية والقومية؟"

الخميس، ديسمبر 09، 2010

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے


نومبراوردسمبر کا مشترکہ شمارہ پیش خدمت ہے، رسالے کی اشاعت کے دوسال ہوچکے ہيں،اس کا پہلا شمارہ نومبر2008 میں منظرعام پر آیا تھا، تب سے مسلسل اللہ کی توفیق سے یہ شائع ہورہا ہے، جس وقت رسالے کی اشاعت کا خاکہ تیارکیا گیا ہم نے اصلاح معاشرہ کے ساتھ ساتھ قوم مسلم میں دعوتی شعورپیدا کرنے کو اپنی اولیں ترجیحات میں شامل کی، کیونکہ ایک طرف اسلام کی آفاقیت اور دورجدید کے تقاضوں کے سامنے قوم مسلم کی بے حسی ہمارے ضمیر کو کچوکے لگا رہی تھی تو دوسری جانب رسالہ لجنة التعریف بالاسلام کا نقیب اور ترجمان تھا جس کا بنیادی مقصد غیرمسلموں کے بیچ اسلام کا تعارف عمدہ اسلوب اورجدید ٹکنالوجی کی روشنی میں کراناتھا،چنانچہ ہر شمارے میں ایسے مقالات شائع کیے جو ہمارے خواب کو شرمندہ تعبیرکرسکیں-

آج پچیسواں شمارہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد اپنا احتساب کرنے بیٹھے ہیں کہ کیا ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے اورکیا ہمیں مسلمانوں کی ذہن سازی کرنے میں کامیابی مل سکی ۔ اس کا صحیح فیصلہ تو ہمارے قارئین ہی کرسکتے ہیں البتہ ہم اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بڑی حد تک ایسے افراد تیار کرلیے ہیں جو اسلام کی آفاقیت کو سمجھتے ہیں، قوم مسلم کے تئیں اپنی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں، دعوت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں،دعوتی لٹریچر اور رسالوں کی تقسیم میں ہمارا بھرپور تعاون کرتے ہیں، ہمیں دعوت کے لیے کتنے ایسے دیوانے ملے ہیں جو کرایے کی ٹیکسی سے اردو رسالے کارٹون کے کارٹون لے جا کرلوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی ڈیوٹی کے تقاضے ہیں ،ذاتی مصروفیات ہیں ، گھریلومسائل ہیں لیکن انہوں نے دعوت کی لذت حاصل کرلی ہے،اپنی ذمہ داری کا شعور پا لیا ہے ، اپنے اعلی مقام کو پہچان لیا ہے،اپنے منصب کی معرفت حاصل کرلی ہے ۔

لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت تاہنوزفرقہ بندی اورفروعی اختلافات میں پھنس کر اسلام کی عالمگیریت اور آفاقیت سے ناآشناہے ، ہم انسانیت کے رہبر اور قائد بناکر بھیجے گئے تھے،اگر ہم نے اپنا آغوش وا کیا ہوتا تودنیا ہماری ہوسکتی تھی،آج بھی انسانیت پیاسی ہے ،آب حیات کی متلاشی ہے ،افسوس کہ جام حیات پلانے والے نایاب نہیں توکمیاب ضرور ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ جام شیریں کے نام پرانسانیت کو زہریلاشراب پلایاجارہاہے، قادیانیت اورعیسائیت کو فروغ دینے کے لیے ہرممکن وسائل استعمال کئے جارہے ہیں، قادیانی اور عیسائی مبلغین دنیا کے کونے کونے میں پہنچ کر دین کے بازارمیں اپنے کھوٹے سکوں کی خوب خوب تشہیر کررہے ہیں ۔ ان کے اہل ثروت اور مالیاتی ادارے ارتدادی مہم پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں-

جب وہ باطل کے پرچار میں جان ومال کھپا رہے ہیں تو ہمیں حق کے فروغ کے لیے کس قدر محنت، لگن اور جذبے کی ضرورت ہے اس کا اندازہ ہر شخص لگا سکتا ہے ۔ اسلام کے سپوت جہاں کہیں بھی ہوں اورجس میدان میں ہوں انہیں اسلام کاصحیح نمائندہ بننا ہوگا، اپنے قول ،عمل اور کردارسے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا ہوگی ۔ کویت کی سرزمین دعوت کے لیے نہایت سازگار ہے ، یہاں مسلم وغیرمسلم تارکین وطن کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے ، ہم يہاں ملازمت کے لیے ضرور آئے ہیں لیکن ایک مسلمان جہاں کہیں بھی ہوپہلے مسلمان ہوتا ہے اس کے بعد ملازم ،اسلام کے فروغ میں تارکین وطن کا کلیدی رول رہا ہے ، تاریخ بھی گواہ ہے کہ مسلمان تاجروں کے اخلاق سے متاثر ہوکربے شمار ملکوں اور قوموں نے اسلام کو گلے لگایا ہے ، آج بھی مغربی ممالک میں قبول اسلام کی شرح میں جونمایاں اضافہ ہورہاہے، اس کے پیچھے تارکین وطن کی محنت اور لگن کا بڑادخل ہے-

اس مناسبت سے میں اپنے قارئین کو سرزمین کویت کے ایک تارک وطن کا قصہ سنانا چاہوں گا جنہوں نے ملازمت کے لیے ترک وطن نہیں کیا بلکہ محض دعوت کے لیے کیا ہے ۔ تیس سال کے عرصہ میں چالیس ممالک کے اندر پچاس لاکھ سے زائد افراد نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ، یہ کوئی خیالی بات نہیں بلکہ امر واقعہ ہے،انہیں ہم ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط کے نام سے جانتے ہیں جوکویت کی ایک مشہور رفاہی جمعیت ”جمعیة العون المباشر“ کے بانی اور مؤسس ہیں جو پیشے کے اعتبار سے الصباح ہاسپیٹل میں طبیب تھے لیکن جسمانی علاج کرنے کی بجائے روحانی علاج میں لگ گئے ، وزارة الاوقاف کویت کی طرف سے بحیثیت مندوب جب افریقی ممالک کا ایک بار دورہ کیا تو وہاں عیسائی مشینریز کی سرگرمیوں اورارتدادی مہم نے ان کی دینی غیرت کو للکارا، بالآخر علاج ومعالجہ اور کویت کی آرام پسند زندگی کو چھوڑ کر افریقی ممالک کے شہروں، دیہاتوں اور کوردہ علاقوں میں گھوم گھوم کر دعوت کا کام کرنے لگے، کتنے پادریوں اور عیسائی مبلغوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اورعیسائیت کی تبلیغ چھوڑ کر اسلام کے فروغ میں لگ گئے ۔ ڈاکٹر السمیط کی ہمت مردانہ کو سلام کہ متعدد بار ان پر حملہ کیا گیا ،اغوا کرنے کی کوششیں ہوئیں ،ذیابیطس کے مسلسل مریض ہیں،تین بارسراوردل کا دورہ پڑا ، لیکن جنت کی جستجو میں نہ دشمنوں کا خوف ہے نہ بیماری کا احساس۔ اس مرد مجاہد نے دعوت کے لیے اپنی زندگی کیوں وقف کی اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ بعض نومسلموں نے قبول اسلام کے بعد مجھ سے شکایت کی کہ” اے مسلمانو! تم کہا ں تھے ،تم نے اتنے دنوں تک اسلام ہم تک کیوں نہ پہنچایا یہاںتک کہ ہمارے والدین کفرپر مرچکے ، کاش کہ تم نے اس وقت ہمیں اسلام کی دعوت دی ہوتی جب کہ ہمارے والدین باحیات تھے“ ۔

مجھے یاد آتا ہے میں نے ماہنامہ راہ اعتدال کے کسی شمارہ میں مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کا کچھ ایسا ہی بیان پڑھا تھا ،انہوںنے جامعہ دارالسلام عمرآباد کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا کہ مجھے پچھلے دنوں ایک نومسلم کا مکتوب موصول ہوا جس میں اس نے تمام مسلم برادری کو کوستے ہوئے لکھاہے کہ جب میں کسی مسلمان کو دیکھتا ہوں تو دل کرتا ہے اس کا چہرہ نوچ لوں، کیونکہ انہوںنے مجھے اسلام اس وقت بتایا جب کہ میرے والدین فوت پاگئے،اگر اسلام کی آفاقی تعلیمات مجھ تک والدین کی حیات میں پہنچی ہوتیں تو میرے والدین جہنم سے بچ سکتے تھے ۔

اللہ اکبر ! یہ باتیں جہاں دل دہلا دینے والی اور ضمیر میں ہلچل مچادینے والی ہیں وہیں ہمارے سمند ہمت کے لیے تازیانہ بھی ، میری آپ سے گزارش ہے انہیں دوبارہ اور سہ بارہ پڑھیں اور اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھیں ،اپنا جائزہ لیں کہ ہم بحیثیت مسلمان کس حدتک دین کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ، ہرشخص اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر دین کی خدمت کرسکتا ہے، ابھی ہم سال نو کا استقبال کرنے والے ہیں،نئے سال کی آمد سے قبل اگلے سال کے لیے اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائیں اور دعوت کو اس میں سرفہرست جگہ دیں ،اگر آپ قلم کارہیں تواپنی سنجیدہ تحریر سے دین کی خدمت کریں،اگرآپ مقررہیں تو اپنی شیریں بیانی سے دین کی خدمت کریں، اگر آپ صحافی ہیں تو میدان صحافت میں دین کی خدمت کریں ،اگر آپ انٹرنیٹ اور الکٹرونک میڈیا سے واقفیت رکھتے ہیں تو آلات جدیدہ کے ذریعہ دین کی خدمت کریں ،اگر آپ مالدار ہیں تواپنے پاکیزہ مال سے دین کی خدمت کریں،حتی کہ اگرآپ ایک رسالہ بھی دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں تویہ بھی دین کی عظیم خدمت ہوگی۔ ہمیں ہر میدان میں دعوت کے شہسواروں کی ضرورت ہے ،ہم جس قدر افرادی قوت کے مالک ہوںگے اسی قدر دعوت کو فروغ ملے گا ، اس رسالہ کو اپنے لیے دعوت سمجھیں ،یہ رسالہ آپ کاہے،اور آپ کے دینی جذبات کا ترجمان ہے ، پس وپیش نہ کریں، کمرہمت باندھیں اوردعوت کے فروغ میں جس طرح کا بھی تعاون پیش کرسکتے ہوں‘فوراً ہم سے رابطہ کریں ۔ ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں ۔


والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صفات عالم محمد زبیر تیمی
ایڈیٹر ماہنامہ مصباح(كويت)

الخميس، نوفمبر 25، 2010

ذیابیطس اور بلڈ پریشر ہندوستان میں صحت انسانی کے لئے دو بڑے چیلنج

تحرير: ظل الرحمن تيمي / ايڈيٹرمجلہ طوبى

اسلام نے نظافت و صفائی کا خصوصی خیال رکھنے کی تلقین کی ہے۔ طہارت کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ دل کی صفائی سے لے کر جسم کی نظافت کا خیال رکھنے کو ضرور بتایا ہے۔ برے خیالات سے دور رہنے، حقد و حسد سے کلی احتراز کرنے، نفاق و کینہ کے مرض سے محفوظ رہنے اور غیبت و چغل خوری سے اپنے دامن کو پاک رکھنے کی جا بجا تاکید کی گئی ہے۔
آج جب کہ مغربی و یورپی طرز زندگی نے انسان کے سکون و چین کو غارت کر دیا ہے ،بلا تفریق مسلک و مذہب ہر شخص مشین کی طرح کام کرنے لگا ہے۔ نہ اپنے پرائے کا خیال ہے نہ افراد خانہ کی فکر، نہ رشتہ داروں سے مطلب رہ گیا اور نہ ہی ضرورت مندوں و محتاجوں کی داد رسی کی کوئی پروا ۔ جائز و ناجائز کی تفریق کرنے کی گویا لوگوں کے پاس فرصت ہی نہیں ہے۔ مخلوط تعلیم، اباحيت پسندی اور بے پردگی نے جس طرح زنا کاری، ہم جنس پرستی اور شراب و کباب کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے اس سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔ ان برائیوں کے نتیجے میں دنیا بے شمار بیماریوں کی آماجگاہ بنتی جا رہی ہے۔ آج ایڈز، ایچ آئی وی، انفلوئنزا، ڈینگو، چکن گنیا، ٹیوبر کلاسس، بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر سمیت نہ جانے کتنی معلوم و نامعلوم بیماریوں نے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایسے حالات میں انسان کے لئے ضروری ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے واقف رہیں۔ خاص طور پر دو امراض بلڈ پریشر اور ذیابیطس سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ یہ دونوں امراض عام انسانوں کو خطرناک طور پر اپنی لپیٹ میں لیتے جا رہے ہیں۔ آئے دن لاکھوں افراد ان کے شکار ہو رہے ہیں اور ان امراض کی وجہ سے اموات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
عالمی سطح پر ذیابیطس کے بڑھتے واقعات کو دیکھتے ہوئے 14 نومبر کو ”عالمی ذیابیطس دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ہندوستان تو پہلے ہی ذیابیطس کی دنیا کی راجدھانی بن چکا ہے۔ سروے کے مطابق 2010 کے اخیر تک 285 ملین افراد عالمی سطح پر اس کے شکار ہوں گے۔ تخمینہ ہے کہ 2030 تک اس خطرناک مرض کے شکار افراد کی تعداد 438 بلین تک پہنچ جائے گی۔
ہندوستان، چین، جاپان، امریکہ اور آسٹریلیا ان دس ممالک میں سرفہرست ہیں جن کو یہ مرض خاص طور پر اپنا شکار بنا رہا ہے۔ ان ممالک میں گنجان آبادی ہے۔ ہندوستان میں اس مرض کے 5 کروڑ معاملات سامنے آ چکے ہیں جب کہ چین میں 4 کروڑ تیس لاکھ افراد اس کے شکار ہو چکے ہیں۔ ہائپر ٹینشن (Hypertension) بھی اسی تیز رفتاری سے انسانوں کی صحت پر اپنا شکنجہ کستا جا رہا ہے۔ ان دونوں خطرناک امراض سے محفوظ رہنے کے لئے طرز حیات کو معمول پر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ڈاکٹر پی کے ششی دھرن، جو کالیکٹ میڈیکل کالج میں ڈپارٹمنٹ آف میڈیسن کے صدر اور پروفیسر ہیں، کہتے ہیں ”ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن سالوں تک طرز حیات میں لا ابالی پن اور معمول سے ہٹ کر زندگی گذارنے کا نتیجہ ہے۔ غذا کا مناسب وقت پر اور مناسب مقدار میں نہ لیا جانا بھی اس کا سبب ہے۔ اسی لئے ان دونوں امراض کا فوری طور پر علاج بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں۔ بلکہ ان پر قابو پانے کے لئے سالوں کی محنت درکار ہوگی۔ ڈاکٹر موصوف کا ماننا ہے کہ صرف "ذیابیطس دن" (Diabetes Day) منا لینے سے ذیابیطس پر قابو نہیں پا لیا جائے گا بلکہ اس کے لئے طرز حیات میں تبدیلی لانے کے مسئلے پر غور کرنا ہوگا۔ غذا، پانی، آب و ہوا اور ماحول کے صاف ستھرا رکھنے کے سلسلے میں غور کرنا ہوگا تبھی جا کر دنیا ان بیماریوں سے نجات پانے کا راستہ ڈھونڈ سکتی ہے“۔
محققین کا ماننا ہے کہ ذیابیطس ضرورت سے زیادہ کھانے، جسمانی طور پر کم سے کم حرکت کرنے اور سست بن کر زندگی گذارنے اور تناﺅ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ذیابیطس کے پانچ اساسی اسباب بتائے جاتے ہیں۔ ان میں Pancreas میں انسولین بنانے والے سیل (Cell) کا ناتلافی نقصان، قلت غذا، Malnutrition اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گوناگوں انفیکشن اور جسم میں داخل ہونے والے نوع بہ نوع زہریلے مادے (Toxin) شامل ہیں۔ مذکورہ پانچوں اسباب ہر طرح کے ذیابیطس کے لئے ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح ہائپر ٹینشن بھی غذا اور طرز حیات میں معمول کی مخالفت کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ فاسٹ فوڈ میں ضرورت سے زیادہ نمک کا استعمال ہوتا ہے۔ جنک فوڈ اور Preserved فوڈ کا بہت زیادہ استعمال، موٹاپا، ورزش سے اپنے آپ کو دور رکھنا، تناﺅ، تمباکو نوشی، الکحل کا استعمال اور پھلوں و سبزیوں کا کم سے کم استعمال مذکورہ دونوں بیماریوں ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن کو دعوت دیتا ہے۔
ہمارا ملک ہندوستان ذیابیطس و بلڈ پریشر سمیت مختلف بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہمارے ہیلتھ کئیر نظام کو دو طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک تو انفیکشن اور دوسرے لائف اسٹائل میں تبدیلی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں ہمارے آغوش میں جنم لے رہی ہیں۔ مالدار سے لے کر غریب تک یا تو قلت غذا یا غلط قسم کی غذا لینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے طرز زندگی کا خیال رکھیں، معمول کے ساتھ متوازن زندگی گذاریں، غذا میں ہری سبزیوں، پھلوں اور مناسب مقدار میں نمک تیل وغیرہ کا استعمال کریں۔ اگر ہم ان تجاویز پر عمل کرتے رہیں گے تو ایک حد تک ہم اپنے آپ کو مذکورہ خطرناک امراض سے ضرور بچا سکتے ہیں۔
مدارس و اسلامی جامعات کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ اپنے اداروں میں تیزی سے بڑھ رہے ان خطرناک امراض کے سلسلے میں مناسب معلومات مہیا کرائیں۔ ان امراض کے متعلق لیکچرز، پروگرام اور مناسب تحریروں کے ذریعہ اساتذہ و طلباءکو حالات سے باخبر رکھیں۔ انہیں بلڈ پریشر و ذیابیطس کی علامات سے آگاہ کر دیں تاکہ اگر کوئی طالب علم یا استاد ایسی کوئی علامت اپنے اندر دیکھے تو وہ فوراً ڈاکٹر کی طرف رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ پوری دنیا کے مسلمانوں اور ساری انسانیت کو ہر طرح کے امراض سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

الأحد، نوفمبر 07، 2010

أفضل أيام الدنيا

ابدأ صفحة جديدة مع الله.. في خير أيّام الله..انتبه أخي في الله..إنّها أعظم فرصة في حياتك..إنّها صفحة جديدة مع الله..إنّها أفضل أيّام الله..تخيل أنّها أفضل من العشر الأواخر من رمضان!!
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من أيّام العمل الصالح فيها أحب إلى الله من هذه الأيام»، يعني أيّام العشر، قالوا: يارسول الله ولا الجهاد في سبيل الله؟ قال: «ولا الجهاد في سبيل الله إلاّ رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشىء».
انظر كيف يتعجب الصحابة حتى قالوا: ولا الجهاد؟!!إنّها فرصة هائلة..فرصة لبدء صفحة جديدة مع الله..فرصة لكسب حسنات لا حصر لها تعوض ما فات من الذنوب..فرصة لكسب حسنات تعادل من أنفق كل ماله وحياته وروحه في الجهاد..فرصة لتجديد الشحن الإيماني في قلبك..ماذا أعددت لهذه العشر وماذا ستصنع؟؟إذا كان الأمر بالخطورة التي ذكرتها لك:فلابد من تصور واضح لمشروعات محددة تقوم بها لتكون في نهاية العشر من الفائزين..دعك من الارتجال والاتكال وحدد هدفك..
إليك هذه المشاريع، لا أعرضها عليك عرضًا.. وإنّما أفرضها عليك فرضًا..افعلها كلها ولو هذه المرة الواحدة في حياتك:
مشروع ختم القرآن
{وَنُنَزِّلُ مِنَ القُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلاَّ خَسَاراً} [الإسراء :82]..قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ حرفا من كتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر أمثالها لا أقول آلم حرف ولكن ألف حرف ولام حرف وميم حرف»..لابد من ختمة كاملة في هذه العشر على الأقل.. بدون فصال..وأنت تتلو القرآن.. أنزل آيات القرآن على قلبك دواء..ابحث عن دواء لقلبك في القرآن.. فتأمل كل آية .. وتأمل كل كلمة.. وتأمل كل حرف..ولكي تختم القرآن في هذه العشرة أيّام عليك أن تقرأ ثلاثة أجزاء يوميًا..ولكي تتحفز أبشرك أنّ ثلاثة أجزاء على حساب الحرف بعشرة حسنات تعادل نصف مليون حسنة يوميًا..هيا انطلق.. نصف مليون حسنة مكسب يومي صافي من القرآن فقط ..ثم مفاجأة أخرى أنّه في هذه الأيّام المباركة تضاعف الحسنات..قرآن.. وملايين.. هيا.. هيا..
مشروع وليمة لكل صلاة
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من غدا إلى المسجد أو راح أعد الله له نُزُلا في الجنّة كلما غدا أو راح»، والنُزُل هو الوليمة التي تعد للضيف..تعال معي.. أعطيك مشروع الوليمة:أن تخرج من بيتك قبل الأذان بخمس دقائق فقط بعد أن تتوضأ في بيتك..ثم تخرج إلى المسجد وتردد الأذان في المسجد، ثم تصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، والدعاء له صلى الله عليه وسلم بالوسيلة والفضيلة، ثم صلاة السنة القبلية بسكينة وحضور قلب ثم جلست تدعو الله لأنّ الدعاء لا يرد بين الأذان والإقامة.وما أحلاك لو اصطفاك ربّك واجتباك ودمعت عيناك...ثم صليت في الصف الأول على يمين الإمام وقرت عينك بتلك الصلاة فجلست قرير العين تستغفر الله وتشكره وتذكره، ثم صليت السنة البعدية بعد أن قلت أذكار الصلاة، إذا فعلت ذلك، فإليك الثمرات:- ثواب تساقط ذنوبك أثناء الوضوء.- كل خطوة للمسجد ترفع درجة وتحط خطيئة.- ثواب ترديد الأذان مغفرة للذنوب.- ثواب الدعاء للرسول صلى الله عليه وسلم نوال شفاعة الرسول صلى الله عليه وسلم.- ثواب صلاة السنة القبلية.- ثواب انتظار الصلاة فكأنّك في صلاة.- ثواب الدعاء بين الأذان والإقامة.- ثواب تكبيرة الإحرام، صلاة الجماعة، الصف الأول، ميمنة الصف.- ثواب أذكار الصلاة، والسنة البعدية، وثواب المكث في المسجد، و..... و...... بالله عليكم.. أليست وليمة؟!!.. بالله عليكم من يضيعها وهو يستطيعها .. ماذا تسمونه؟!
مشروع الذكر
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من أيّام أعظم عند الله، ولا أحب إلى الله العمل فيهن من أيّام العشر، فأكثروا فيهن من التسبيح والتحميد والتهليل والتكبير»..فأعظم كلمات الذكر عموما في هذه الأيام: ((سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلاّ الله، والله أكبر)) وهن الباقيات الصالحات، وقد أخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أنّ لكل كلمة منها شجرة في الجنّة، وأنّ ثواب كل كلمة منها عند الله كجبل أحد..وإنّني أعتقد أيّها الأحبة أنّه كما أنّ رمضان دورة تربوية مكثفة في القرآن، فالعشر الأوائل دورة تربوية مكثفة في الذكر..وتقول لي: ومتى أقول هذه الكلمات؟؟أقول لك: عود نفسك.. عود نفسك.. عود نفسك..أثناء سيرك في الطريق لأي مشوار.وأنت مستلق على السرير قبل النوم.أثناء الكلام اقطع كلامك واذكرها، وأثناء الأكل.أن تذهب للمسجد مبكرا وتنهمك في هذا الذكر حتى تقام الصلاة.إذا التزمت وتعودت ما قلته لك لن تقل يوميا غالبا على حسب ظنّي ذكرك عن ألف مرة، ممّا يعني 4000 شجرة في الجنّة يوميا، هل تعلم أنّك لو واظبت على هذا في الأيّام العشرة كلها كيف ستكون حديقتك في الجنّة؟؟هل تتخيل 100 ألف فدان في الجنّة تملكها في عشرة أيّام!! أليست هذه فرصة المغبون من يضيعها؟!!
مشروع الصيام
عن هنيدة بن خالد عن امرأته عن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة، ويوم عاشوراء، وثلاثة أيام من كل شهر أول اثنين من الشهر والخميس» [صحيح أبي داود 2129].فصم هذه التسعة كلها إيّاك أن تضيع منها يوما واحدا..وإن ثبطك البطالون وقالوا لك: الحديث ضعيف فالحديث العام: «من صام يوما في سبيل الله بعد الله وجهه عن النّار سبعين خريفا»، ومع فضيلة هذه الأيّام، على كل حال.. أنت الكسبان!!
مشروع الحج والعمرة
وفر 50 ألف جنيه.. وخذ 50 ألف حسنة.. بل أكثر ممّا طلعت عليه الشمس..من خلال المكث في المسجد بعد صلاة الفجر حتى الشروق ثم صلاة ركعتين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر الله حتى تطلع الشمس ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة تامة تامة تامة».وفي هذه الجلسة:- تلاوة قرآن.- أذكار الصباح.- تجديد التوبة.- الدعاء في خفاء.- العفو عن أصحاب المظالم لديك.- طلب العفو من الله.- عبادات جديدة.
مشروع قناطير الفردوس
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قام بعشر آيات لم يكتب من الغافلين، ومن قام بمائة آية كتب من القانتين ومن قام بألف آية كتب من المقنطرين»..فإذا قمت الليل بألف آية فلك في كل ليلة قناطير جديدة من الجنّة، وإذا كنت من العاجزين وقمت بمائة آية كتبت من القانتين.
مشروع الأخوة في الله
قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إنّ من عباد الله لأناسا ما هم بأنبياء ولا شهداء يغبطهم الأنبياء والشهداء يوم القيامة بمكانهم من الله تعالى»، قالوا: يارسول الله تخبرنا من هم؟ قال: «هم قوم تحابوا بروح الله على غير أرحام بينهم ولا أموال يتعاطونها فو الله إنّ وجوههم لنور، وإنّهم على نور لا يخافون إذا خاف النّاس ولا يحزنون إذا حزن النّاس وقرأ هذه الآية {أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ}»فأقترح عليك على الأقل مرة واحدة في الأيّام العشر تدعو فيها أصحابك للإفطار عندك، وقبل المغرب بنصف ساعة الذكر والدعاء، وبعد الإفطار نصف ساعة التذكير والاستماع للقرآن أو مشاهدة اسطوانة تذكر بالله، ثم تهدي إليهم إذا استطعت ما عندك من كتب وشرائط، واكسب:- ثواب تفطير صائم.- ثواب الدعوة إلى الله.- ثواب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر.- ثواب الإعانة على خير.- ثواب التثبيت للمترددين.
مشروع صلة الأرحام
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أيّها النّاس أفشوا السلام وأطعموا الطعام وصلوا الأرحام وصلوا بالليل والنّاس نيام تدخلوا الجنّة بسلام»، وقال صلى الله عليه وسلم: «الرحم معلقة بالعرش تقول: من وصلني وصله الله ومن قطعني قطعه الله».فاحرص على:- كل يوم نصف ساعة على الأقل أو ما تيسر من الوقت أي عمل تبر به والديك.- زيارة لأحد الأقارب.- أبسط إكرام للجيران.- سرور تدخله على مسلم.
مشروع يوم عرفة
أولا: أيّها الأخ الحبيب .. هل تدرك خطورة هذا اليوم؟قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صيام يوم عرفة إنّي أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والتي بعده».إذن احسبها معي: صيام 12 ساعة = مغفرة 24 شهر.حبيبي.. احسبها معي مرة أخرى: اليوم 24 ساعة، إذن كل ساعة في اليوم = مغفرة شهريعني كل 60 دقيقة = 60 يوم.إذن: كل دقيقة = يوم.فهل هناك عاقل يضيع دقيقة واحدة في هذا اليوم، ماذا ستفعل؟؟- الذهاب إلى المسجد قبل الفجر بنصف ساعة والابتهال إلى الله أن يوفقك في هذا اليوم ويعصمك.- نية الصيام.- نية الاعتكاف فلا تخرج من المسجد أبدا إلاّ عند الغروب.- الاجتهاد في الدعاء والذكر.
مشروع يوم العيد
اعلم أنّ يوم العيد هو أفضل أيّام السنة على الإطلاق، لحديث النبي صلى الله عليه وسلم: «أفضل الأيّام عند الله يوم النحر ويوم القر»، خطتك:- ابدأ بصلاة العيد وكن بشوشا سعيدا في وجوه المسلمين.- صلة الرحم: الوالدين، الأفارب، الأصحاب.- الأضحية، ستقول: إنّها غالية الثمن، اشترك أنت وأصحابك في ذبح شاة حسب الإمكانيات المادية.لا تنس هذه الفرصة الذهبية: - بناء بيت في الجنّة كل يوم إن صليت 12 ركعة من النوافل فقط، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من عبد مسلم يصلي لله كل يوم ثنتي عشرة ركعة تطوعا غير فريضة إلاّ بني الله له بيتا في الجنّة»، وفي 10 أيّام = عشرة بيوت في الجنّة.- اقرأ سورة الإخلاص 10 مرات كل يوم يبني الله لك قصرا في الجنّة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ قل هو الله أحد عشر مرات بني له بها قصر في الجنّة»، فنكون قد أعددنا لك الحديقة، وبنينا لك الفيلات..- لا تنس إدخال البهجة على أسرة فقيرة تذهب إليها قبل العيد: نقود، لحوم، ملابس.- حاول تحقيق وعد رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن فعل في اليوم الواحد: صيام، اتباع جنازة، عيادة مريض، صدقة، تفتح لك أبواب الجنّة جميعها.للمشغولين فقط بعد كل هذه الفرص التي ذكرتها لك لا أظن أنّ أحدا سيعتذر لي أنّه مشغول جدا ولن يستطيع، ولكنّي لن أحرم أمثال هؤلاء من الأجر، مثل الذين يرتبطون بامتحانات نصف العام..لا أطلب منك إلاّ نصف ساعة في المسجد قبل كل صلاة أو بعدها، وساعة قبل الفجر لكي تفعل الآتي:- في النصف ساعة التي قبل كل صلاة تلاوة القرآن والذكر.- الصيام يوميا، ولك دعوة مستجابة عند كل إفطار.- قيام الليل في الساعة التي قبل الفجر."لا تحرم نفسك الخير" لا.. لا.. لا..تذكر كل ساعة في هذه الأيّام بل كل دقيقة، بالحساب فعلا كل دقيقة تساوي مغفرة يوم قضاه الإنسان من أوله لآخره في معصية الله لم يضيع فيه دقيقة واحدة من المعصية، أي 86400 معصية في يوم تمحى بدقيقة واحدة في هذه الأيّام المباركة، فلا تضيع دقيقة من أغلى كنز في حياة المؤمن.. في أفضل أيّام الله..( منقول)
ماذا إستفدت أخي الكريم !!! وإليك مادة أخري كتبتها على مدونتي الخاصة أضواء على الطريق بإسم " فرصة لا تعوض" لا يفوتك قراء تها والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته

السبت، نوفمبر 06، 2010

سیدنا ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے چند اسباق

تحرير : صفات عالم محمد زبیر تیمی
ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے سبق کیوں؟

بادی النظر میں کسی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ جب گذشتہ شریعتیں منسوخ ہوچکیں اورآج جن وانس کی نجات شریعت محمدی کی تابعداری پر موقوف ہے توپھررحمت عالم صلى الله عليه وسلم کی زندگی سے سبق حاصل کرنے کی بجائے ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے سبق حاصل کرنا کیوں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے خود حضرت ابراہیم عليه السلام کی زندگی کو رحمت عالم صلى الله عليه وسلم کے بعد پوری انسانیت کے لیے اسوہ ونمونہ بنا دیا ہے ۔ [دیکھیے النحل(123 (الممتحنة 4)( البقرہ 130)]
چنانچہ آج خانہ کعبہ، مقام ابراہیم، حج، قربانی، صفا ومردہ کی سعی ، آب زمزم اوررمی جمرات امت مسلمہ کے لیے ابراہیمی یادگار ہيں۔

پھرآج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اس کی اکثریت گو علمی ، تمدنی اورمادی اعتبار سے ترقی کے بام عروج پر پہنچ چکی ہے تاہم ابراہیمی دور کی ساری روایتیں آج بھی ان میں کوٹ کوٹ کر پائی جارہی ہیں۔ بت پرستی، شمس پرستی ، قمرپرستی ،قبرپرستی ، رجال پرستی ، بادشاہ پرستی اور نہ جانے کون کون سی پرستیاں آج بھی انسانی سماج میں رائج ہیں۔ ظاہر ہے آج معاشرے کی اصلاح کے لیے اب کوئی نبی آنے والا ہے اور نہ رسول بلکہ نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ،اور یہ ذمہ داری امت محمدیہ کے ہرفرد پر عائد ہوتی ہے کہ اسلام کے آفاقی پیغام کو ساری انسانیت تک پہنچائے۔ تو آئیے ایسے وقت جبکہ ہم ابراہیمی سنت کو زندہ کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں ‘ابراہیم ں کی دعوتی زندگی سے کچھ سبق سیکھیں اوراسوہ ابراہیمی کی روشنی میں دعوت کے ممکنہ اسالیب کی جانکاری حاصل کریں ۔

سیدنا ابراہیم عليه السلام کی دعوتی زندگی سے چند اسباق

ذیل کے سطور میں پیش خدمت ہے ابراہیم عليه السلام کی داعیانہ زندگی سے چند دروس :


اسلام وراثتی مذہب نہیں


ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے سب سے پہلا سبق یہ ملتا ہے کہ اسلام وراثتی مذہب نہیں، وراثت میں زمین اور جائیداد مل سکتی ہے لیکن اسلام نہیں ملتا بلکہ اسے اپنی محنت سے حاصل کیا جاتا ہے islam is by choice, not by chance
کیونکہ اسلام نسبت کا نام نہیں بلکہ دل کے یقین کانام ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکثر انبیائے کرام کفر وشرک کے ما حول میں پیدا ہوئے جن میں ایک ابراہیم عليه السلام بھی ہیں جو عراق کے شہر بابل میں آزرنامی بت گر وبت فروش پروہت کے گھر پیدا ہوے۔ گویاغیرمسلم گھرانے میں پیدا ہونا کوئی عیب کی بات نہیں اور نہ داعی بننے کے لیے مسلم گھرانے میںپیدا ہونا ضروری ہے۔جولوگ مسلم گھرانے میں پیدا ہونے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہوے نومسلموں کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں انہیں اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ ہم تو اتفاقی مسلمان ہیں ،بغیر کسی محنت کے ہمیں یہ دین مل گیا جبکہ ہمارے ان بھائیوں نے حقیقت کی کھوج کی ، معاشرے کے طعنے سہے اوراس راہ میں مختلف قسم کی قربانیاں پیش کیں‘تب انہیں یہ آفاقی دین حاصل ہوسکا ہے۔

دعوت کے اولیں مخاطب نوجوان ہیں

ابرہیم عليه السلام کی زندگی سے ہمیں دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ دعوت کی ذمہ داری کے اولیں مخاطب ہمارے نوجوان ہيں، اللہ تعالی نے اصحاب کہف کی بابت فرمایا: اِنَّہُم فِتیَة آمَنُوا بِرَبِّہِم (الکھف 13) ”و ہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے“ ۔ اور ابراہیم عليه السلام جب بتوں کو پاش پاش کرکے نکلے اور قوم نے بتو ں کواوندھے منہ گراہوا دیکھا تو پکار اٹھے سَمِعنَا فَتًی یَذکُرُہُم یُقَالُ لَہُ ِبرَاہيمُ (الانبیاء60) ” ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سنا تھا جس کا نام ابراہیم ہے۔“۔
مذکورہ دونوں آیات میں نوجوانوں کا کردار واضح کیا گیا ہے ، اورحقیقت یہ ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی میںاس کے نوجوانوں کا بڑا رول ہوتاہے ، اسلام بھی اقصائے عالم میں نوجوانوں کے عزم راسخ ،یقیں محکم ،عمل پیہم اور اعلی کردارکی بدولت پھیلا ۔کم عمری میںاسامہ بن زید کا سپہ سالاربننا ، زید بن ثابت کا جامع قرآن ہونا، مصعب بن عمیر کا پہلا سفیربننا،بلال حبشی کا موذن رسول ہونا اور سلمان فارسی کامتلاشی حق بننا اسلام میں نوجوانوں کے گرانقدر کردار کوواضح کرتاہے ۔ اسی طرح عقبہ بن نافع ،طارق بن زیاد،موسی بن نصیراور محمدبن قاسم جیسے اسلام کے جیالے اورسورما نوجوان ہی تو تھے جنہوں نے گلش اسلام کی آبیاری کی اورچہاردانگ عالم میں اسلام کا جھنڈا لہرایا ۔
عصرحاضرمیں اسلام دشمن عناصر نے اس نکتہ کو بخوبی سمجھا ہے اوراپنے اہداف کی تکمیل کے لیے نوجوانوں کوتیار کررہے ہیں جبکہ آج قوم مسلم نوجوانوں کے تئیں اپنی ذمہ داریوں سے لاپرواہ ہے،نتیجہ ظاہر ہے ہمارے نوجوان پست ہمت ،کاہل اور اورکام چور بنتے جا رہے ہیں ، ان کی قوت فکر وعمل سلب ہوتی جا رہی ہے ،ابراہیم عليه السلام نے عین شباب میں دعوت کی ذمہ داری اٹھائی تھی ،آج بھی وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے نوجوان دین کی دعوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور اس طوفان بلاخیز میں اسلام کی سچی اور خالص تعلیمات انسانیت تک پہنچائیں۔ جب تک ہمارے نوجوان کوہساروں کا سا عزم لے کر میدان عمل میں نہ اتریں گے تب تک ہم اپنی عظمت رفتہ کی بازیافت نہیں کرسکتے۔ امید کہ میری آواز صدا بحرا ثابت نہ ہو گی اور نوجوانان اسلام ان گذارشات پر کان دھریں گے ۔

معاشرے سے سمجھوتہ کرنا داعی کی شان نہیں

کفروشرک سے اٹے سماج میں ابراہیم عليه السلام نے آنکھیں کھولی تھیں،باپ پروہت تھا، باپ نے اپنے بیٹے کے لیے اسی گدی کا خواب دیکھا رہا ہوگا، اور آپ کے لیے بھی بہت آسان تھا کہ سماج کے دیرینہ روش پرچل پڑیں لیکن کیا ابراہیم عليه السلام سماج میں ضم ہوگیے ؟ نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ،اور دعوت کا آغاز اپنے پروہت باپ سے کرتے ہوئے گویا ہوئے : ”ابوجان! آپ ایسی چیز کی عبادت کیوں کررہے ہیں جو نہ سن سکیں ، نہ دیکھ سکیں اور نہ آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں ....“ (مریم 42-43) ابراہیم عليه السلام نے باپ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہایت شفقت اور پیار سے سمجھایا تھا لیکن باپ نے ایک نہ سنی اوردھمکی دی تو قوم سے مخاطب ہوکرگویا ہوئے: مَا ہَذِہِ التَّمَاثِیلُ الَّتِی انتُم لَہَا عَاکِفُون (الانبیاء52) ”یہ مورتیاں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ‘کیا ہیں“ ۔ ان کا صرف یہی جواب تھا کہ وَجَدنَا آبَاءنَا لَہَا عَابِدِینَ ”(الانبیاء53) ہم نے اپنے باپ دادا کو انہیں کی پوجا کرتے ہوئے پا یااس لیے ہم بھی کررہے ہیں “۔
آج بھی جہالت اور شرک وبدعت میں پھنسے مسلمانوں کو شرک وبدعت سے روکا جاتا ہے تو فورا جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں کیسے ترک کردیں جبکہ ہمارے آباؤ اجداد بھی یہی کچھ کرتے آرہے ہیں ۔ آپ نے فرمایا: لَقَد کُنتُم ا نتُم وَآبَاکُم فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ﴿ (الانبیاء54) ”تم اور تمہارے آباو اجداد کھلی گمراہی میں تھے یعنی ہمارا اعتراض جو تم پر ہے وہی تمہارے اگلوں پر ہے ، ایک گمراہی میں تمہارے اگلے مبتلا ہوں اور تم بھی اس میں مبتلا ہوجاؤ تو وہ بھلائی بننے سے رہی ۔
جب بت پرست باپ اور قوم پر آپ کی دعوت کا اثر ظاہر نہ ہوا توچاند، ستاروں اور سورج کی پوجا کرنے والوں کوسمجھانے کے لیے اک دوسرا منطقی انداز میں اپنایا : رات میں ستارہ کو نکلا ہوا دیکھا توان کے جم غفیرکے سامنے گویا ہوئے ” یہ میرا رب ہے“ لیکن جب ستارہ ڈوب گیا توکہا : ”یہ میرا رب نہیں ہوسکتا “۔ کل ہوکر چاند کو نکلا دیکھا تو کہا” یہ میرا رب ہے“ ،لیکن جب چاند بھی ڈوب گیا تو کہا کہ ”یہ میرا رب نہیں ہوسکتا “۔ صبح میں سورج کو نکلتا ہوا دیکھا تو کہا : ”یہ لگتا ہے میرا رب ہوگا کیونکہ یہ بہت بڑا ہے “لیکن جب شام میں وہ بھی غروب ہوگیا تو کہا : ”یہ بھی میرا رب نہیں ہوسکتا “۔ (الانعام 76-79) ابراہیم علیہ السلام اصل میں قوم کو بتانا چاہتے تھے کہ جو چھپتا ہو ظاہر ہوتا ہو، جو ڈوبتا ہو پھر طلوع ہوتا ہو ۔۔ وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے

آنکھ والا تیری قدرت کا تماشہ دیکھے
دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے

داعی کفر کی شب دیجور سے مایوس نہیں ہوتا بلکہ منصوبہ بندی کرتا ہے

ابراہیم عليه السلام نے اپنے باپ اور قوم کو حکمت کے ساتھ اور منطقی اندازمیں سمجھایا لیکن جب ان پر آپ کی بات کا کوئی اثر نہ ہوا تو مایوس ہونے کی بجائے دعوت کے اسلوب کوبدلا اور مدعو کی عقل کو اپیل کرنے والا دوسرازوداثرطریقہ اپنایاجس کی کیفیت یہ تھی کہ مندر کے سارے بتوں کو کلہاری سے پاش پاش کردیا اور بڑے بت کو چھوڑکراس کی گردن میں کلہاری لٹکادی۔ مقصد کفارومشرکین کی عبادتگاہوں کو منہدم کرنا نہیں تھا بلکہ ان کے ذہن کی پرتیں کھولنا تھا چنانچہ جب چہ میگوئیاں شروع ہوئیں اور ابراہیم عليه السلام کو بحیثیت ملزم پیش کیا گیا اور آپ سے دریافت کیا گیا کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ لغو حرکت تم نے کی ہے ؟ اس پر آپ نے جواب دیا ”بلکہ اس کام کو ان کے بڑے بت نے کیا ہے تم اپنے ان معبودوں سے ہی پوچھ لو اگر یہ بولتے چالتے ہوں“ اس تحکمانہ جواب نے ان کو تھوڑی دیر کے لیے لاجواب کردیا پھربول اٹھے :” تم تو جانتے ہی ہو کہ وہ بولتے نہیں ہیں “ ۔ اب ابراہیم عليه السلام کو خاصا موقع مل گیا ، اپنے صبروبردباری کے باوجود ذرا تلخ لہجے میں ان سے مخاطب ہوئے :
” افسوس کہ تم ان کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع پہنچاسکیں نہ نقصان ، تُف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو ، کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں “۔ (الانبیاء67)
یہاں داعیان دین کو یہ سبق ملتاہے کہ جب مدعو ان کی بات پر دھیان نہ دے رہاہوتو مایوس ہونے کی بجائے ایسی پلاننگ کرنی چاہیے جو پہلے سے زیادہ زودا ثر ہو۔
ابراہیم عليه السلام کی دعوتی منصوبہ بندی میں بادشاہ وقت نمرود تک اللہ کا پیغام پہنچانا بھی تھا ‘ جوالوہیت کا مدعی تھا اور رعونت وانانیت اسکے رگ وپے میں پیوست تھی ، آپ نے مناظرانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے بادشاہ کو دعوت دی تو اس نے وجود باری تعالی پر دلیل مانگی چنانچہ آپ نے فرمایا: میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے ، نمرود نے جواباً کہا : یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں ، یہ کہہ کر دو شخصوں کو بلوایا ‘ جو واجب القتل تھے ،ایک کوقتل کردیا اور دوسرے کو رہا کردیا ۔ ابراہیم علیہ السلام نے اس کی کندذہنی اورلچرپن دیکھ کر اس کی دلیل کا تجزیہ کرنے کی بجائے دوسری دلیل پیش کردی جو ظاہر پرستوں کے لیے صورة ً بھی مشابہت نہیں رکھتی تھی،آپ نے کہا: میرا رب سورج کو مشرق سے نکا لتا ہے اب تو اسے مغرب سے نکال دے ۔ اس کا ظاہری ٹوٹا پھوٹا جواب بھی اس سے نہ بن سکا اور وہ بے زبان ہوکر بغلیں جھانکنے لگا ۔
یہاں داعی کے لیے یہ سبق ہے کہ اگراس کا مخالف یا حریف ضداورہٹ دھرمی پر اترآئے توداعی کوچاہیے کہ الفاظ کے پیچوں میں پھنسنے کی بجائے واضح اورمبرھن دلیل پیش کرے ،نمردونے لچرپن میں ایسی بودی دلیل پیش کی تھی ورنہ یہ لغوی ،شرعی یا عقلی کسی اعتبار سے مردہ یا زندہ کرنانہیں تھا اس لیے ابراہیم عليه السلام نے اس کی دلیل کا تجزیہ کرنے کی بجائے دوسری واضح دلیل پیش کردی کہ ماشاءاللہ جب تم زندہ اور مردہ کرسکتے ہوتو سورج کو پچھم سے نکال کرتو دکھادو۔اسی کو بلاغت کی اصطلاح میں افحام یعنی عاجز کردینا کہتے ہیں۔

راہ حق کے سپاہیوں کی آزمائش ہوتی ہے

ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے ایک سبق یہ ملتا ہے کہ راہ حق کے سپاہیوں کی آزمائش بھی ہوتی ہے ، جتنا ایمان مضبوط ہوگا اسی کے تناسب سے آزمائش بھی ہوگی ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں: اشَدُّ النَّاسِ بَلاءً الانبِیَاءُ ثُمَّ الصَّالِحُونَ ثُمَّ الامثَلُ فَالامثَلُ (ترمذی ) ”لوگوںمیں سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاءکی ہوتی ہے،پھر صالحین کی،پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے بند گان خدا کی ہوتی ہے“ ۔
حضرت ابراہیم عليه السلام گھر سے بے گھر کر دئیے گئے ، قوم کی سازش سے آگ میں ڈالے گئے۔ مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہوئے جب اپنی بیوی سارہ کے ہمراہ مصر پہنچے تو وہاں کے ظالم بادشاہ نے اپنی عادت کے مطابق سارہ پر بدنیتی سے ہاتھ رکھنا چاہا۔ دین کی خدمت کے لیے پوری زندگی وقف کردی تھی پھربھی تمنا کے باوجود بڑھاپے تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے ۔ کبرسنی میں ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل پیدا ہوئے تو آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ، حکم ہوا کہ اپنی بیوی ہاجرہ اور او راپنے لخت جگر اسماعیل کو مکہ کے لق ودق ریگستان میں رکھ آئیے جہاں انسان تو کجا چرند وپرند کا بھی بسیرا نہ تھا ۔ پھر قرآن کے بیان کے مطابق جب اسماعیل عليه السلام چلنا پھرنا سیکھ گئے توایک بڑی آزمائش یہ ہوئی کہ خواب میں حکم دیا گیا کہ اپنے نورچشم اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کردیجئے ۔ غرضیکہ ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دعوت کی راہ میں پھولوں کی سیج نہیں بچھائی جاتی بلکہ پریشانیاں آتی ہیں ،مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اللہ والوں کی وقتی طور پر آزمائش ہوتی ہے البتہ اس کا نتیجہ ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے ۔خود،ابراہیم عليه السلام کی زندگی میں ہمیں یہ نمونہ کئی جگہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔چنانچہ آتش نمرود آپ کے لیے گل گلزار بن گئی ۔ بدطینت بادشاہ نے تین بار بدنیتی سے سارہ ؑ کی طرف ہاتھ اٹھایااورتینوں باراس کے ہاتھ پاؤں اینٹھنے لگے ، بالآخر ظالم بادشاہ سے نجات ملی اور ہاجرہ خدمت کے لیے آپ کے حوالے کر دی گئیں،اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اسماعیل اور ان کی ماں ہاجرہ کو مکہ کی بے آہ وگیاہ سرزمین پر بسا آئے تو اللہ پاک نے ان کے لیے ”آب زمزم“ نامی چشمہ جاری کیا جو چارہزار سال سے اب تک ہر مرض وغرض کے لیے کافی ہے۔ جب ابراہیم عليه السلام تعمیل حکم میں اسماعیل عليه السلام کی حلقوم پر چھری پھیرنے لگے توآواز آئی:” اے ابراہیم تونے خواب کو سچ کر دکھایا“ اور جانور کی قربانی کی شکل میں اسے رہتی دنیا تک کے لیے یاد گار بنا دیا۔

ثبات قدمی کے لیے ہجرت ناگزیرہے

ابراہیم عليه السلام جب اپنے باپ ، اور اپنی قوم سے بالکل ناامید ہوگئے اور دعوت کے لیے آبائی سرزمین سازگار نہ رہی تو سیدہ سارہ اورحضرت لوط عليه السلام کے ہمراہ سرزمین بابل کوالوداع کہتے ہوئے شام جاتے ہیں،وہاں سے حران،پھر فلسطین،پھر مصرپہنچتے ہیں ، اس کے بعدمکہ کی وادیوں میں کئی مرتبہ آپ کی آمد ہوتی ہے۔ اس طرح آپ کی پوری زندگی ہجرت اور سفر میں گذرتی ہے ۔اس سے عام مسلمانوں کو بالخصوص نومسلموں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ جس سرزمین پر اسلامی احکام کی بجا آوری میںرکاوٹ پیدا ہورہی ہو وہاں سے ہجرت کرکے ایسے مسلم معاشرہ میں منتقل ہوجاناچاہیے جہاں امن وامان سے دینی احکام کی بجاآوری کرسکیں اور خاطرخوا طریقے سے اہل خانہ اوربچوں کی تربیت ہوسکے ۔علامہ البانی رحمه الله نے سلسلة الاحادیث الصحیحة میں اس موضوع پربڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے آپ فرماتے ہیں :
”اس حدیث سے بعض احکام مستنبط ہوتے ہیں .... نومسلموں کو چاہیے کہ وہ مشرکین سے مفارقت اختیار کرکے مسلمانوں کی آبادی کی طرف ہجرت کرجائیں، اس سلسلے میںبے شمار احادیث آئی ہیں جن کا مفاد دراصل نومسلموں کو غیرمسلموں سے علیحدگی اختیار کرنے پر ابھارنا ہے چنانچہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: انا برءی من کل مسلم یقیم بین اظھرالمشرکین ....”میں ہر اس مسلمان سے براءت کا اظہار کرتا ہوں جو مشرکوں کے درمیان قیام پذیر ہے“ ۔ بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ عليه السلام نے بعض لوگوںسے بیعت لیتے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ وہ مشرکوں سے علیحدگی اختیار کرلیں گے ۔ اسی طرح اللہ کے رسول عليه السلام کا فرمان ہے لایقبل اللہ من مشرک بعدما اسلم عملاً او یفارق المشرکین الی المسلمین ”جو مشرک اسلام قبول کرلے اس کا عمل اللہ پاک اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ مشرکو ں کے بیچ سے ہجرت نہ کرلے“ ۔
اس قبیل کی بے شمار احادیث آئی ہیں جن کی تخریج میں نے ارواءالغلیل 5/29۔33 میں کردی ہے اسی طرح حدیث نمبر636 میں بھی اس کی تفصیل گذرچکی ہے۔
اس کے بعد علامہ البانی رحمه الله عصر حاضر میں نومسلموں کی ہجرت سے بے اعتنائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بڑے افسوس کی بات ہے کہ عصر حاضر میں جولوگ اسلام قبول کرتے ہیں الحمدللہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود غیرمسلموں سے مفارقت کے اس حکم کی بالکل پرواہ نہیں کرتے سوائے چند لوگوں کے ۔ میں سمجھتاہوں کہ اس کی دو وجہ ہوسکتی ہے
(۱) آسائش دنیاکی لالچ : جولوگ اپنے اپنے آبائی وطن میں روحانیت سے خالی پرتعیش زندگی گذار رہے ہوتے ہیں‘ ایسے لوگوں کے لیے بالعموم مسلم علاقوں کی طرف منتقل ہونا مشکل ہوتا ہے۔
(۲) دوسری وجہ جو اہم ہے کہ اکثر لوگ ہجرت کے حکم سے ناواقف ہیں، اس میں وہ معذور سمجھے جائیں گے کیونکہ انہوں نے اس قبیل کی باتیں نہ ان داعیان دین سے سنی ہيں جن کی مترجم باتیں ان کی زبان میں عام ہورہی ہیں، نہ ان کی زبان بولنے والے داعیوں سے ‘جو ان کے پاس دعوت کے لیے جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثرلوگ فقہی بصیرت نہیں رکھتے ہوتے.... “ ( سلسلة الاحادیث الصحیحة )
بہرکیف ابراہیم عليه السلام کی زندگی میں ان نومسلموں اور مسلمانوں کے لیے بہترین پیغام ہے جو غیرمسلم آبادیوں میں رہنے کی وجہ سے اسلامی شعائر کی کماحقہ ادائیگی نہ کرسکتے ہوں‘وہ ہجرت کرکے مسلمانوں کی آبادی میں آجائیں ۔

توکل اسباب کے منافی نہیں

ابراہیم علیہ السلام کی زندگی توکل واعتماد کا عظیم شاہکار تھی ،اللہ کی ذات پر ایسا یقین واعتماد کہ دہکتی ہوئی آگ میں منجنیق کے ذریعہ ڈال دیا جارہا ہے لیکن آپ كيچہرے پر ذرا برابر شکن نہیں آتاہے اور مسلسل زبان پر یہ الفاظ جاری ہیں ”حسبی اللہ ونعم الوکیل “ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے “ ۔ پھر مائی ہاجرہ اپنے شیرخوار بچے کے ہمراہ بسائی جارہی ہیں جہاں آب ودانہ تو درکنار دور دور تک سبزی کا بھی نام ونشان نہیں ہے ۔ لیکن پھربھی اللہ کے حکم کا واسطہ سنتے ہی کمال توکل سے فرماتی ہیں ”تب تو اللہ ہمیں ضائع نہ کرے گا“ سبحان اللہ ! کیسے بچائے گا ؟ بچانے کی نوعیت کیسی ہوگی ؟ کیا بھیجے گا ؟ یہ سب اہم نہیں ہے البتہ یہ ہے کہ جب حکم اللہ کا ہے تو وہ ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا ۔سچ فرمایااللہ پاک نے : ومن یتوکل علی اللہ فھو حسبہ (سورة الطلاق ۳) جو شخص اللہ پر اعتماد کرے گا اللہ اس کے لیے کافی ہوگا ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ہرجگہ ان کی داد رسی فرمائی اور کسی جگہ اس خاندان کو ضائع نہیں کیا ۔
ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ توکل اسباب کے منافی نہیں ،چنانچہ آپ نے دعوت کے لیے مختلف ممالک کی طرف ہجرت کی،قوم کو دعوت دینے کے لیے متنوع اسالیب اختیار کیا ،اولاد نہ ہونے پر دوسری شادی کی ۔وغیرہ
کچھ لوگوں نے ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے چند واقعات اخذ کرکے انہیں ترک اسباب کے لیے دلیل بنایا ہے جبکہ ان کی زندگی میں ترک اسباب کا کہیں وجود نہیں ملتا ۔
یہ جوکہاجاتا ہے کہ ابراہیم عليه السلام کے آگ میں ڈالے جانے کے بعد جبریل امین نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ کو میری ضرورت ہے ؟ توابراہیم عليه السلام نے جواب دیا:” تیری مدد کی ضرورت نہیں البتہ اللہ کی مدد ضروردرکار ہے“
اس سلسلے میں علامہ یوسف القرضاوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں” اولاً یہ روایت صحیح سند سے ثابت نہیں اور اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو بدیہی بات ہے کہ یہاں اسباب بالکل منقطع ہوچکے تھے اور محض اللہ تعالی کا سہارا باقی رہ گیا تھا ،اس لیے جبریل امین کو درمیان میں لانے کی قطعی ضرورت نہ رہی تھی ،اللہ تعالی کا خلیل کی حالت سے آگاہ ہونا جبریل کو درمیانی بنانے سے بے نیاز کررہا تھا ، پھرخلیل اللہ آگ میں ڈالے جانے کے بعد سے مسلسل یہ کہے جا رہے تھے حسبی اللہ ونعم الوکیل ”اللہ میرے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے “ (التوکل ، یوسف القرضاوی)
ترک اسباب پر حضرت ابراہیم عليه السلام کے اس قصے کو بھی دلیل بنایا جاتا ہے کہ آپ عليه السلام اپنی بیوی ہاجرہ عليها السلام اور شیرخوار بچے اسماعیل عليه السلام کو مکہ کی بے آب وگیاہ سرزمین میں بسا آئے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کام اللہ کے حکم اور اس کی وحی کی بنیاد پر تھا اور جو کام اللہ کے حکم اور اس کی وحی کی بنیاد پر ہو بندہ اس کی تعمیل کا مکلف ہے گوکہ اس کی حکمت سمجھ میں نہ آرہی ہو ۔ اسی لیے آج اگر کوئی آدمی اپنی بیوی اور شیرخوار بچے کو کسی غیراًباد جگہ پر اللہ کے بھروسے بسا آئے تو وہ زیادتی کرنے والا ٹھہرے گا۔ (التوکل : یوسف القرضاوی)

توریہ جائز ہے

توریہ ایسے ذو معنی بات کو کہتے ہیں جس کا ظاہری مفہوم کچھ ہو جبکہ بولنے والا کچھ اور مراد لے رہا ہو اور اس کا اصول یہ ہے کہ اگر مقصود اچھا ہو اور توریہ کے بغیر حاصل نہ ہوسکتا ہو تو ایسا کرنا جائز ہے،مثلاً کوئی کہے کہ میرے جیب میں ایک بھی روپئے نہیں، اس سے سننے والا سمجھے کہ اس کے پاس مال نہیں ہے جبکہ اس کا قصد ہو کہ اس کے پاس روپے نہیں البتہ دینار ہیں ۔چنانچہ ضرورت کے لیے توریہ جائز ہے اور بغیر ضرورت مکروہ ہے۔ کیونکہ اس میں جھوٹ کی مشابہت ہے۔ابراہیم عليه السلام نے بھی تین جگہ پر توریہ کا استعمال کیا تھا(1) انی سقیم (میں بیمار ہوں) یعنی دلی طورپر بتوں کو دیکھ کربیمار ہوں۔(2) بل فعلہ کبیرھم ھذا (بلکہ بڑے بت نے ایسا کیا ہے) اس تحکمانہ انداز سے ان کی آنکھوں کی پرتیں کھولنا مقصودتھا۔(3) ھذہ اختی (یہ میری بہن ہے) یعنی اسلام کے ناطے میری بہن ہے ۔ علامہ انور شاہ کشمیري رحمه الله فرماتے ہیں ” علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ یہ تینوں توریہ کے قبیل سے ہیں کذب صریح نہیں “ ۔ (العرف الشذی 3/387)

ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے معاشرتی سبق

معاشرتی زندگی میں ایک مسلمان کی کیا ذمہ داریاں ہیں ، اہل خانہ کی کن خطوط پر تربیت ہونی چاہیے ،تربیت اولاد میں والدین کا کیا رول ہوناچاہیے، اولاد پر والدین کے حقوق کا معیار کیا ہے ؟ اس سلسلے میں ابراہیم عليه السلام کی پاکیزہ معاشرتی زندگی سے چند نمایاں نقوش پیش خدمت ہیں۔

اولاد سے محروم لوگ مایوس نہ ہوں

ابراہیم عليه السلام کی زندگی سے اولاد کی نعمت سے محروم لوگوں کے لیے سبق ہے کہ جس نبی نے اپنی پوری زندگی دین کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی وہی خواہش کے باوجود اولاد کی نعمت سے محروم رہا تھا ،ناامیدی کی عمرکوپہنچ چکے تھے لیکن اللہ کی رحمت سے مایوس نہ تھے چنانچہ دوسری شادی کی اور اللہ کے دربار میں ہاتھ اٹھایا﴾ رَبِّ هَب لِی مِنَ الصَّالِحِینَ﴿(الصافات 100)”اے میرے رب ! مجھے نیک اولاد عطا فرما“ ۔ دل سے نکلی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے اورہاجرہ عليها السلام کے بطن سے اسماعیل عليه السلام آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر گھر کو روشن کرتے ہیں ۔ پھر سن رسیدہ بیوی سارہ عليها السلام کے بطن سے بھی اسحاق عليه السلام پیدا ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ابراہیم عليه السلام کے آٹھ صلبی بیٹے تھے ۔ (فتح القدیر )

اہل خانہ کی اصلاح پہلے ہونی چاہیے

ابراہیم عليه السلام نے جب دعوت واصلاح کا بیڑا اٹھایا تو قوم کو دعوت دینے سے پہلے اپنے بت پرست باپ تک اسلام کا پیغام پہنچایا ،جیساکہ اللہ تعالی نے محمد صلى الله عليه وسلم کوبھی حکم دیا ”اپنے قریبی رشتہ داروںکوڈرائیے “ (الشعراء214) اسی چنانچہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے سب سے پہلے اپنے قریب ترین لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جس سے داعیان دین کو یہ سبق ملتا ہے کہ دعوت کا آغاز اپنے گھر کی اصلاح سے ہوناچاہیے۔

کافر والدین کے ساتھ حسن سلوک

ابراہیم عليه السلام اخیر وقت تک اپنے باپ کا خیال کرتے رہے ، یہاں تک کہ ان کے لیے دعا بھی کی (ابراہیم :41) لیکن جب آپ پر ظاہر ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے توان سے اظہار برا ت کردی (التوبة 114) جس سے پتہ چلتا ہے کہ والدین گوکہ کافر ہوں ان کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کا معاملہ ہونا چاہیے ۔ البتہ اگر وہ کفروشرک پر آمادہ کرنا چاہیں یا اسلام کے دشمن بن جائیں تو ان سے اظہار برات لازمی ہے ۔

اہل خانہ اور اولاد کی تربیت

ابراہیم عليه السلام کی زندگی میں اہل خانہ کی تربیت کا بہترین نمونہ ملتا ہے ، وہ ہاجرہ عليها السلام جو کل تک ظالم بادشاہ مصر کے پاس تھیں ،لیکن جب آپ کے پاس آتی ہیں تو توکل واعتمادکا پیکر بن جاتی ہيں جس کا ظہور اس وقت ہوا جبکہ ابراہیم عليه السلام بیوی ہاجرہ اور شیرخواربچے اسماعیل عليه السلام کو بے آب وگیاہ سرزمین میں بساکر چلنے لگے جہاں ہوکا عالم تھا۔ پکار رہی ہیں :” ابراہیم ! مجھے اورننھے اسماعیل کوچھوڑ کرکہاں جارہے ہو؟ “کچھ جواب نہیں مل رہا ہے ، بالآخر پوچھتی ہیں:”کیا اللہ کا حکم ہے ؟“ اثبات میں جواب ملتے ہی بے ساختہ بول اٹھتی ہیں:”تب تو اللہ مجھے ضائع نہ کرے گا“۔ سبحان اللہ ! تصور کیجیے کیسی تربیت کی تھی ابراہیم عليه السلام نے ہاجرہ عليها السلام کی کہ خود کو گویاموت کے منہ میں دیکھ رہی ہیں ، پھر بھی اللہ پر پورا یقین ہے کہ وہ انہیں ضائع نہ کرے گا ۔ اسی طرح ننھے اسماعیل عليه السلام کی قربانی اورفدائیت دیکھیے کہ جب ابراہیم عليه السلام تین روز تک لگاتار اسماعیل عليه السلام کوخواب میں ذبح کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اورلخت جگرسے مشورہ لینے آتے ہیں تو ننھااسماعیل پیکر تسلیم بناجواب دیتا ہے﴾ یَا اَبَتِ افعَل مَا تُومَرُ سَتَجِدُنِی ان شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ﴿ (الصافات102) ”ابوجان! آپ کو جس کام کا حکم ملا ہے کر گذریے ان شاءاللہ آپ مجھے صبرکرنے والوں میںسے پائیں گے“۔

یہ فیضان نظرتھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی

غرضیکہ ابراہیم عليه السلام نے اہل خانہ کی تربیت پربہت زور دیا چنانچہ ایک طرف اگر آپ نے اپنی اولاد کو دین حق پرثابت قدم رہنے کی وصیت کی (البقرة 132) تو دوسری طرف نہایت عاجزی وگریہ وزاری کے ساتھ اللہ پاک سے اپنی اولاد کے لیے دعائیں کیں:
٭اے ہمارے پروردگار ! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کے جنگل میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے ، اے ہمارے پروردگار ! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم کریں ، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں “ (ابراہیم 37)
٭”اے میرے پروردگار ! اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا....“۔ (ابراہیم 35)
٭”اے میرے پالنہار! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی ، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما “
٭ا ”اے میرے رب ، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندو ں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں ، انھیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے۔“ (البقرة 126)
٭ ” اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم ،مطیع ، فرمان بنا ، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو “۔ (البقرة 128) ٭” اے رب ، ان لوگوں میں خود انھیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو ، جو انھیں تیری آیات سنائے ، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ “(البقرة 129)
ان پرسوزدعاؤں میں ابراہیم ںنے اپنی اولاد کو تادم حیات دین اسلام پر قائم رہنے کی وصیت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے دعا بھی کی کہ مجھے اور میری اولاد کو شرک وبت پرستی سے بچائیو۔ انہیں نماز قائم کرنے کی توفیق دیجیو ۔ انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرمائیو ، اور سرزمین مکہ کو امن وامان کا گہوارہ بنا دیجیو۔جس سے ایک داعی اور مربی کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اولاد کی ایمان اور صلاح وتقوی پر تربیت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ پاک سے توفیق اور ہدایت کا سوال کیا جائے ۔ پھرآپ نے سرزمین مکہ کے لیے رب دو جہاں سے دعا کرتے وقت زندگی کے دو لازمی عناصرسائکلوجی اور فیسیولوجی (Physiologi) کومدنظر رکھا،یعنی اک امن وامان اور دوسرے خوشحالی ۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنی ساری دعاؤں پر امن وامان کو مقدم کیا کہ اے اللہ اس شہر کو امن وامان والا بنادے ‘ یہ اسلیے کہ امن کے بغیر زندگی کی ساری سہولتیں سونی پڑجاتی ہیں ،تمام آسائشوں اور اسباب زندگی کی فراہمی کے باوجود ہر وقت خوف ودہشت کا ماحول بپا رہتا ہے جیسا کہ آج عصر حاضرمیں اکثر ممالک کا حال ہے ۔

محبت اولاد اور اطاعت والدین کا معیار

محبت اولاد کا معیار کیا ہونا چاہیے اور اطاعت والدین کے تقاضے کیا ہیں یہ دونوں نمونے ہمیں ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں بحسن وخوبی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کو ئی فرشتہ نہ تھے بلکہ انسان تھے ،ان کے پاس وہی دل تھا جو عام انسانوں کے پاس ہوتا ہے جس میں اولاد کی محبت ہوتی ہے ،پھر اولاد بھی عام اولادوں کے جیسے نہ تھی بلکہ بڑی تمناؤں کے بعد جگر کا ٹگڑا بنی تھی ،اس پر مستزاد یہ کہ اسماعیل علیہ السلام ایسے نودمیدہ گنچے تھے جس میں اپنے تو اپنے بیگانے بھی نقددل وجان گنوا بیٹھتے ہیں،اس کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے اولاد کی محبت ہیچ ثابت ہوتی ہے اور ایثار وقربانی کا اعلی نمونہ پیش کرنے کے لیے ہرجگہ تیار رہتے ہیں،اسی طرح اسماعیل علیہ السلام بھی باپ کے اشارے پر اپنی جان کانذرانہ پیش کرنے کے لیے بلا پس وپیش تیار ہوجاتے ہیں جس سے ایک طرف محبت اولاد کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے تو دوسری طرف باپ کی اطاعت وفرماں برداری کااعلی شاہکار دیکھنے کو ملتا ہے ۔اور یہ دو حقیقتیں دراصل اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہیں جنہیں حقوق اللہ اور حقوق الباد کا نام دیا جاتا ہے ۔ یعنی اللہ کی خالص عبادت اور اس کے لیے فداکاری کا مظاہرہ اور والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام ۔گویا ابراہیم علیہ السلام نے امت محمدیہ کے ہر فرد کوو یہ پیغام دیا کہ اولاد کی محبت ، اللہ کی محبت پر غالب نہیں آنی چاہیے۔محبت اولاد میں کبھی بھی حقوق الہی پامال نہیں ہونے چاہئیں۔ جبکہ دوسری طرف اسماعیل علیہ السلام نے ساری کائنات کے لیے یہ نمونہ چھوڑا کہ والدین کی اطاعت ہرحال میں لازمی اور ناگزیر ہے،الا یہ کہ والدین کی بات رکھنے میں شریعت کی مخالفت لازم آتی ہو۔ اس لیے قربانی کرنے والی اولاد اور والدین سے گذارش ہے کہ ابراہیمی سنت کو تازہ کرنے سے پہلے بحیثیت اولاداور بحیثیت والدین اپنے دل کا جائزہ لیں کہ ہم کہا ں ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ اور کیا کرنا چاہیے ۔

والدین کے کہنے پربیوی کو طلاق دینا

ابراہیم عليه السلام اسماعیل عليه السلام اور ہاجرہ عليها السلام کو مکہ کی بے آب وگیاہ سرزمین پر بسا کر چلے گئے تو یہاں قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ آبسے ،پھر اسماعیل عليه السلام نے انہیں کی ایک لڑکی سے شادی کی،پھرہاجرہ ؑ بھی فوت پاگئیں ، ادھر حضرت ابراہیم عليه السلام کو خیال ہوا کہ اپنا ترکہ دیکھنا چاہئے چنانچہ وہ مکہ تشریف لے گئے لیکن حضرت اسماعیل عليه السلام سے ملاقات نہ ہوئی، بہو سے حالات دریافت کئے، اس نے تنگ دستی کی شکایت کی،چنانچہ آپ رضي الله عنه نے وصیت کی کہ اسماعیل آئیں تو کہنا اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔اس وصیت کا مطلب حضرت اسماعیل عليه السلام سمجھ گئے بیوی کو طلاق دیدی اور ایک دوسری عورت سے شادی کرلی ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا والدین کے کہنے پر بیوی کو طلاق دی جا سکتی ہے ۔ تووالدین کا اپنے بیٹے سے یہ کہنا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ، دو حالتوں سے خالی نہیں :
(۱) والدین سبب بتائيں مثلاً کہيں کہ میں نے اسے کسی غیر سے عشق ومحبت کی باتیں کرتے دیکھا ہے بشرطیکہ والدین سنجیدہ طبیعت کے ہوں اور نیک ہوں تو ایسی صورت میں والدین کی بات مانی جائے گی ۔
(۲) اگر والدین ”بہو بیٹے “کی آپسی محبت سے غیرت کھا کرطلاق دینے کا حکم دیں ،جیسا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے تو کسی صورت میں ان کی بات نہیں مانی جائے گی ، البتہ والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک ضروری ہوگا ۔ اس لیے ابراہیم عليه السلام کا یہ عمل ہر باپ کے لیے حجت نہیں بن سکتا ،ایسا کرنے سے پہلے باپ کو ابراہیم عليه السلام کا نمونہ بننا پڑے گا ،یہی وجہ ہے کہ ایک شخص امام احمد بن حنبل رحمه الله کے پاس آکر عرض کیا کہ کیا باپ کے کہنے پر بیٹا اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : نہیں ،اس نے کہا : عمرفاروق رضي الله عنه نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر رضي الله عنه کو حکم دیاتھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں تو اللہ کے رسول صلى الله عليه نے عمر رضي الله عنه کی بات کو نافذ کردیا تھا ۔ آپ نے دوٹوک جواب دیا : پہلے کوئی عمر بن کر تو دکھا ئے ۔
ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے متعلقہ چند مسائل

سب سے پہلے
(1) کعبہ کی تعمیر :اہل علم کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ سب سے پہلے خانہ کعبہ کی تعمیرکس نے کی ؟ جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ حضرت ابراہیم عليه السلام اور حضرت اسماعیل عليه السلام نے سب سے پہلے کعبہ کی تعمیر فرمائی جبکہ دیگر اہل علم کا قول ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کعبہ کی تعمیر عمل میں آچکی تھی،البتہ پہلے بانی کون ہیں اس سلسلے میں اختلاف ہے بعض نے کہا کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کے لیے کعبہ کو بنابنایا اس سرزمین پر رکھ دیا تھا ،بعض نے کہا کہ آدم علیہ السلام سے قبل فرشتوں نے اس کی تعمیر کی تھی جبکہ بعض کہتے ہیں کہ شیث بن آدم عليه السلام نے سب سے پہلے اس کی تعمیر کی،بہرکیف یہ مسئلہ معرکة الآراءہے البتہ ابراہیم علیہ السلام کو بانی کعبہ کہنے والوں کے دلائل زیادہ قوی ہیں ۔
(2) لقب پانے والے : سب سے پہلے لقب پانے والے ابراہیم عليه السلام ہیں جن کو فرشتوں کی ضیافت میں ایک بچھڑا ذبح کرکے پیش کرنے کی وجہ سے ” ابوالضیفان“ کالقب ملا ۔
(3) ختنہ کرانے والے : ابراہیم عليه السلام نے سب سے پہلے80سال کی عمر میں ختنہ کرایا۔اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ان ابراہیم علیہ السلام اختتن بعد ان مرت علیہ ثمانون سنة واختتن بالقدوم ” حضرت ابراہیم عليه السلام نے اسی سال کی عمر میں آلہ ختان کے ذریعہ اپنا ختنہ کیا ۔ ( بخاری ومسلم)

ذبیح کون تھے ؟

علمائے محققین کے بقول ذبیح حضرت اسماعیل عليه السلام تھے نہ کہ اسحاق عليه السلام ، قرآن کریم سے اسی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورہ الصافات (99۔102 ) میں قصہ ذبح کا تذکرہ کرنے کے بعد اسحاق عليه السلام کی ولادت کی بشارت دی ہے۔ خود موجودہ بائبل نے بھی ذبیح کی صفت ”اکلوتا فرزند “ (پیدائش 1۔22۔2) ذکر کی ہے اورظاہر ہے کہ اسماعیل عليه السلام ہی اس وقت اکلوتے فرزند تھے۔ پھر ذبیح کی صفت ”حلیم “ (بردبار ) بتائی گئی ہے جوقصہ ذبح سے مطابقت رکھتا ہے جبکہ اسحاق کی صفت ”علیم “ (الذاریات 28) بتائی گئی ہے ۔
اس سلسلے میں علامہ ابن قیم رحمه الله فرماتے ہیں ”صحیح قول کے مطابق ذبیح اسماعیل ہیں ، یہی رائے علمائے صحابہ وتابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا ہے اوراسحاق عليه السلام کے ذبیح ہونے کا قول بیس وجوہات سے باطل ہے ،میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ كو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ قول اہل کتاب سے ماخوذ ہے جبکہ ان کی کتاب سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے کیونکہ اس میں آیا ہے کہ اللہ تعالی نے ابراہیم کو اپنے اکلوتے فرزند کو ذبح کرنے کا حکم دیا اوراہل کتاب کے ساتھ سارے مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اسماعیل ہی ان کے اکلوتے فرزندتھے“ (زاد المعاد 1/72) (تفصیل کے لیے دیکھیں : ٭ اکلوتا فرزند ذبیح ‘ اسحاق یا اسماعیل عبدالستار غوری ،لاہور
٭ الرائی الصحیح فی من ھو الذبیح مولانا حمید الدین فراہی جس کا اردو ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی نے ” ذبیح کون ہے ؟ “کے عنوان سے کیا ہے )
چھپکلی کومارنے کا حکم :
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب ابراہیم عليه السلام کو آگ میں ڈالا گیا ‘ اس وقت چھپکلی آگ پر پھونک مار رہی تھی ، چنانچہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اسے مارنے کا حکم دیا ۔ (بخاری مسلم )
خانہ کعبہ میں کسی بھی نبی کی میت مدفون نہیں ہے

تاریخ مکہ اور اخبار مکہ پر تصنیف شدہ بعض کتابوں میں بتایا گیاہے کہ مسجد حرام کی فلاں فلاں جگہ میں فلاں فلاں انبیاء مدفون ہیں،اور اسماعیل عليه السلام کی قبربھی وہیں ہے حالانکہ یہ سب قطعی بے ثبوت ہیں ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب "تحذیرالساجد عن اتخاذ القبورمساجد" میں تحریرفرماتے ہیں:-
”حضرت اسماعیل عليه السلام وغیرہ انبیائے کرام کے مسجد حرام میں مدفون ہونے کی بات کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہے- حدیث کی مستند کتابوں صحاح ستہ ،مسند احمد اورمعاجم طبرانی وغیرہ مشہور دواوین حدیث میں کسی میں اس کے متعلق کوئی حدیث وارد نہیں ہے – یہ بہت سے محققین کے نزدیک کسی حدیث کے ضعیف بلکہ موضوع ہونے کی علامت ہے ،اس سلسلہ میں بعض آثاراور روایات جن کو ازرقی نے " اخبارمکہ " میں ذکرکیا ہے وہ سب واہی تباہی سندوں سے مروی ہیں “۔ (تحذیرالساجد 75)
( تفصیل کے لیے شيخ محفوظ الرحمن فیضی صاحب کی کتاب : ”مسجد حرام میں بعض انبیاءکے مدفون ہونے کی مزعومہ روایات کا تنقیدی وتحقیقی جائزہ “ کا مطالعہ کریں )

ابراہیم عليه السلام کی مجاہدانہ اور داعیانہ زندگی سے مستفاد یہ تھے چند دروس جنہیں سپرد قلم کرنے کامقصد اس کے علاوہ اورکچھ نہیں کہ ہم ان پاکیزہ دروس کواپنی عملی زندگی کے لیے مشعل راہ بنائیں، اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

الثلاثاء، أكتوبر 19، 2010

الشيخ أصغر علي إمام السلفي الأمين العام لجمعية أهل الحديث بالهند في اجتماع الهيئة العليا لجائزة سمو الأمير نايف العالمية مع سموه الأسبوع المقبل!!!!

يرأس صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبد العزيز النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء وزير الداخلية رئيس الهيئة العليا لجائزة نايف بن عبد العزيز العالمية للسنة النبوية والدراسات الإسلامية المعاصرة، مساء السبت 22/ 11/ 1431هـ، اجتماع الهيئة العليا للجائزة بالرياض.
وأوضح صاحب السمو الملكي الأمير سعود بن نايف نائب الرئيس، المشرف العام على الجائزة، أن الهيئة العليا ستنظر في الموضوعات المرشحة للجائزة في دورتها الثامنة، التي اختيرت في اجتماع لجان الجائزة في شهر رجب الماضي، حيث رشحت ثمانية موضوعات لفرعي الجائزة "للسنة النبوية، والدراسات الإسلامية المعاصرة" من بين 188 موضوعاً، منها 80 موضوعاً في مجال السنة النبوية، و 108 موضوعات في مجال الدراسات الإسلامية المعاصرة، وقد حرصت الأمانة العامة في اختيار الموضوعات على أن تكون ذات أهمية، وأن تتناسب مع قضايا العصر كما كانت موضوعات الجائزة في الدورات السابقة.
وأبان سموه أن الهيئة العليا ستنظر في تقرير اللجنة العلمية لأبحاث الدورة الخامسة، وسيعلن صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبد العزيز راعي الجائزة عن الفائزين بجائزة نايف بن عبد العزيز العالمية للسنة النبوية والدراسات الإسلامية المعاصرة في دورتها الخامسة. وموضوعات الجائزة في هذه الدورة هي: فرع (السنة النبوية):
الموضوع الأول: مكانة الصحابة وأثرهم في حفظ السنة النبوية وواجب الأمة نحوهم.
الموضوع الثاني: التعامل مع غير المسلمين في السنة النبوية.
فرع (الدراسات الإسلامية المعاصرة):
الموضوع الأول: الاستثمار المالي في الإسلام.
الموضوع الثاني: الجهاد في الإسلام (مفهومه وضوابطه وأنواعه وأهدافه).
يذكر أن الهيئة العليا للجائزة التي يرأسها صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبد العزيز، تضم في عضويتها كلاً من صاحب السمو الملكي الأمير سعود بن نايف: نائب الرئيس، المشرف العام على الجائزة، وصاحب السمو الملكي الأمير محمد بن نايف: نائب المشرف العام على الجائزة، وعضوية كل من صاحب السمو الملكي الأمير عبد العزيز بن سعود، وصاحب السمو الملكي الأمير نواف بن نايف، وصاحب السمو الملكي الأمير فهد بن نايف، وصاحب السمو الملكي الأمير محمد بن سعود بن نايف، إضافة إلى نخبة من العلماء البارزين من داخل المملكة وخارجها من الشخصيات العلمية التي لها مكانة مرموقة وثقل علمي متميز في العالم الإسلامي، وهم: الدكتور صالح بن حميد رئيس المجلس الأعلى للقضاء، والشيخ عبد الله المنيع المستشار بالديوان الملكي، والدكتور عبد الله نصيف نائب رئيس مجلس الشورى سابقاً، والدكتور أكمل الدين إحسان أوغلو رئيس منظمة المؤتمر الإسلامي، والشيخ أصغر علي إمام، الأمين العام لجمعية أهل الحديث بالهند، والدكتور أبو بكر دكوري مستشار رئيس جمهورية بوركينا فاسو الإسلامية، والدكتور عادل المعاودة عضو مجلس النواب البحريني، والدكتور ساعد العرابي مستشار النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء وزير الداخلية الأمين العام للجائزة، والدكتور محمد العقلا مدير الجامعة الإسلامية.

الاثنين، أكتوبر 11، 2010

بابری مسجد اراضی ملکیت : حقائق اور ہماری ذمہ داریاں

تحرير: صفات عالم تيمي ایڈیٹر ماہنامہ مصباح
شدت سے انتظار کرتے کرتے بالاخر وہ دن آہی گیا جس دن بابر کی تاریخی یادگاربابری مسجد کی قسمت کا فیصلہ سنادیا گیا ، اورمسجد کی اراضی قانون ،اصول اورتاریخی حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض آستھا کی بنیاد پر تین حصوں میں بانٹ دی گئی ،دوحصہ کے مالک ہندو ٹھہرائے گئے تو ایک حصہ مسلمانوں کی تحویل میں کیا گیا گویا یہ کسی جائیدادکی تقسیم کا معاملہ تھا جس کے ذریعہ دوفریق کو منانا مقصود ہو ،حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں عدلیہ کے جانبدارانہ فیصلہ نے سیکولرزم کی دھجیاں بکھیر دی ہیں،ایک عام آدمی کو نفسیاتی کرب اور ذہنی الجھن میں مبتلا کردیا ہے،مسلمان تومسلمان انصاف پسند ہندومؤرخین اور دانشور بھی اس فیصلہ پر انگشت بدنداں ہیں،ہندوستان کی مشہور مؤرخ رومیلا تھاپر نے اس فیصلہ کو سیاسی نوعیت کا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اس قدر خطرناک ہے کہ اس کے دور رس نتائج ہوسکتے ہیں،جب کسی زمین کو ہڑپ لینا ہوتو فسطائی تنظیمیں اسے کسی مقدس شخصیت کا جنم استھان قرار دیں گی ، اس طرح فیصلہ ان کے حق میں چلا جائے گا۔

یہ تبصرہ ہے ایک غیرمسلم مؤرخ کا ،اب ذرا زمینی حقائق پر نظر ڈال کر دیکھئے، توسیعی ذہنیت کے علمبردار یہ فرقہ پرست عناصر اسلام اور اہل اسلام کوایک لمحہ کے لیے دیکھنا نہیں چاہتے ،کیونکہ ان کی جڑ یہودیت سے ملنے لگی ہے ، یہ صرف ایک بابری مسجد کا مسئلہ نہیں ہے‘ وشوہندوپریشد نے کاشی اور متھراسمیت تین ہزار مسجدوں کی لسٹ تیار کررکھی ہے جن کے بارے میں وہ ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ تمام مساجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 3 اکتوبر کے اخبارات میںمذکورہ تنظیم نے بیان دیا ہے کہ مسلمان متھرا اور بنارس کی مساجد سے دستبردار ہوجائیں۔ اس کے لیے انہوں نے باضابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اورادھر ہمارے بعض بھولے بھالے دانشور ہیں جوہندومسلم اتحاد، قومی یکجہتی اور نام نہاد حب الوطنی کے نام پر مسجد سے دست برداری کا راگ الاپ رہے ہیں، کچھ منافقین نے تو رام مندر کی تعمیر کے لیے پندرہ لاکھ روپئے کے عطیہ کا اعلان بھی کرڈالا تھا، مسلمانوں کے آستین میں چھپے ہوئے یہ سانپ ہیں جو اس طرح کی ہذیان گوئی کرتے رہتے ہیں،ہمیں کہنے دیا جائے کہ اگر ہم نے فرقہ پرست عناصر کی بروقت نوٹس نہ لی ، اوران کے ہر فیصلے پر ایسے ہی سر جھکاتے گئے تو ہندوستان میں ہمارا عرصہءحیات تنگ کردیا جائے گا ، صرف ایک بابری مسجد کا مسئلہ رہتا تو ہم اسے انگیز کرلیتے لیکن اب مسائل پہ مسائل اٹھیں گے ،یہ ہندوستان میں ہمارے مستقبل کا مسئلہ ہے،ہمارے تشخص کا سوال ہے، مسلمان عزت کی زندگی گزارتا ہے ذلت کی نہیں ، اور اس سے بڑھ کر ذلت کیا ہوگی کہ ہم اپنے مقدسات کو غیروں کے حوالے کردیں ،اورہم کون ہوتے ہیں ان کے حوالے کرنے والے ،یہ تو اللہ کے گھر ہیں ،یہ توحید اور شر ک کا مسئلہ ہے ۔ حالات بہت نازک ہیں،یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے ارباب حل وعقد مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اوردانشمندانہ طریقے سے معاملہ سپریم کورٹ تک لے جائیں،انصاف پسند غیرمسلم ماہرین قانون سے بھی مشورہ کریں کیونکہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔

پھراگراس دستبرداری کی کوئی قانونی حیثیت ہو تی تو ایک بات تھی، جس رام کی جائے پیدائش کے نام پر فسطائی طاقتوں نے 6دسمبر1992ء میں بابری مسجد کوشہید کیا تاریخی حقائق سے کہیں اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام کی کوئی نشانی تھی۔ گذشتہ دنوں جب بابری مسجد کا معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ میں تھا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ نے روزنامہ منصف میں ایک مضمون لکھا تھا ”ایک مظلوم عدالت کے کٹہرے میں “ جس میں انہوں نے تاریخی شواہد اور حقائق کی روشنی میں ثابت کیا تھا کہ بابری مسجد کا رام کی جائے پیدائش سے کوئی تعلق نہیں،اور بابر کو ظالم وجابر ٹھہرانا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے ، وہ کیسے ؟ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ رام جی کا صحیح معنوں میں وجود بھی تھا یا نہیں، تو بڑے بڑے ہندو دانشوروں نے کہا ہے کہ رام جی دراصل ایک افسانوی اور دیومالائی کردار ہے کسی حقیقی شخصیت کانام نہیں ہے ، اگرمان لیاجائے کہ رام جی کا صحیح معنوں میں وجود تھا اور وہ اجودھیا میں پیدا ہوئے تو سوال یہ ہے کہ اجودھیا سے کون سا علاقہ مراد ہے، آثارقدیمہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایم وی کرشنا راؤ نے ثبوتوں کی بنیاد پر دعوی کیا ہے کہ اصل اجودھیا ہریانہ کا مقام ”بناؤلی“ ہے جبکہ دوسری طرف رامپور کے ایک پنڈت جی نے ثبوتوں کی بنیاد پر یہ دعوی کیا ہے کہ رام جی کی پیدائش کی اصل جگہ رام پور ہے،بعض مؤرخین کا یہ بھی ماننا ہے کہ رام کی سلطنت کی جگہ اجودھیا کے بجائے بنارس ہے ،ہندوؤں کی مذہبی کتاب رامائن میں اجودھیا کا ذکر ملتا ہے لیکن اجودھیا کس مقام پر تھی اور رام جی کہاں پیدا ہوئے بالمیکی کے رامائن کے مطابق اجودھیا ساڑھے تیرہ میل کے فاصلے پر تھی اور مشرقی سمت میں تھی جبکہ آج کا اجودھیا لب سمندر اور مغربی سمت میں واقع ہے ۔ پروفیسر سری واستو نے لکھا ہے کہ1902 ء میں رام جی کی جائے پیدائش کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے کافی تحقیق کے بعد دو مقامات کے بارے میں اندازہ لگایاکہ شاید یہ رام جی کی جائے پیدائش ہو ، ان میں سے ایک کانام رام جنم استھل اور دوسرے کا نام رام جنم بھومی ہے اور یہ دونوں جگہیں بابری مسجد کے علاوہ ہیں ۔ بابری مسجد پانچ سو سال سے وہاں موجود ہے ،تاریخ کے مختلف ادوار میں بڑے بڑے مؤرخین گذرے ہیں ،بڑے بڑے رام بھکت پیداہوئے لیکن کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ رام کی جائے پیدائش پر مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ہے ۔ پھرجس کے بارے میں یہ دعوی کیا جارہا ہے اس کا مزاج بھی تو ویسا ہونا چاہیے جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ بابر مذہبی رواداری کا قائل تھا ،ہندو پنڈتوں سے بہت عقیدت سے پیش آتاتھا ،یہاں تک کہ بابر نے اپنے وصیت نامہ میں گاؤکشی سے منع کیا ہے تاکہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں ۔ پروفیسر سری واستو نے اپنی پوری تحقیق کے بعد لکھا ہے کہ بابر پر الزامات اس کی شخصیت اور کردار سے قطعی میل نہیں کھاتے ۔ یہاں تک کہ برطانوی سامراج کادور آیاجنہوں نے پھوٹ ڈالوحکومت کروکی پالیسی کے تحت جہاں اپنے بطن سے مرزاغلام احمد قادیانی کو جنم دیا تودوسری طرف تاریخی حقائق کو توڑمروڑکر پیش کیا جس میں مسلم سلاطین پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے ہندوقوموں کو جبراً مسلمان بنایا اور ان کی مذہبی یادگاروں کومسجد میں تبدیل کردی تاکہ ایک طرف دنیا کوباور کرایا جاسکے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تو دوسری طرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ پھوٹ ڈال کر سیاست کی کرسی پر براجمان رہیں۔

بہرکیف یہ چند حقائق تھے جنہیں اس مناسبت سے پیش کرنا نہایت ناگزیر تھا تاکہ ہماری نئی نسل تاریخی شواہد اور موجودہ حالات سے باخبر رہے ،جہاں تک پیش آمدہ مسئلے سے نمٹنے کا سوال ہے تو اس کے لیے ملت کے قائدین موجود ہیں جو اپنی دور اندیشی سے مناسب فیصلہ کریں گے البتہ انفرادی طور پر ہرمسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ موجودہ حالات سے سبق سیکھے اور مساجد سے ہماری اکثریت کاجو تعلق ٹوٹ چکا ہے اسے مستحکم کرے تاکہ ہم اپنے دعوی میں سچے ثابت ہوسکیں ۔اسی طرح غیرمسلموں میں دعوت كا كام کرنے کے لیے خود کو تیار کریں تاکہ گم کردہ راہ انسانیت کو بتایا جاسکے کہ انہوں نے جس شاخ نازک پراپنا آشیانہ بنارکھا ہے ہوا کا ایک جھونکا اسے زمین بوس کرنے کے لیے کافی ہے ۔

الاثنين، أكتوبر 04، 2010

بہار اسمبلی انتخابات مسلمانوں كے شعور كا فقدان

تحرير: ظل الرحمن تيمي / ايڈيٹرمجلہ طوبى

بہار اسمبلی انتخاب دن بدن قریب آتا جارہا ہے۔ اس مہینے اور اگلے مہینے کی مختلف تاریخوں میں یہاں چھ مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ریاست کے پانچ کروڑ 44لاکھ عوام کے ذریعہ 243 اسمبلی حلقوں میں سیاسی طالع آزماﺅں کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس مرتبہ کا اسمبلی انتخاب کافی دلچسپ اور اہم ہے۔ کون سی پارٹی واضح اکثریت سے ہمکنار ہوگی اس سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی تبصرہ نگاروں اور انتخابی نتائج کے سلسلے میں پیش گوئی کرنے والوں کی مشکلوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وہ اگلی حکومت کے سلسلے میں کسی نتیجے تک پہنچنے کے بجائے شس وپنج کا شکار ہیں۔ بہار کی 20 سالہ تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ نتائج کے تئیں اس قدر بے یقینی کی کیفیت ہے۔ اس الیکشن میں تينوں بڑے محاذ اپنی اپنی کامیابی اور حکومت سازی کے بلند وبانگ دعوے کر رہے ہیں۔ مرکز میں برسرِ اقتدار کانگریس پارٹی کا ماننا ہے کہ راہل گاندھی کا کرشمہ اور ان کی انتخابی مہم کانگریس سے لوگوں کو جوڑنے میں اہم رول ادا کرے گی۔ جبکہ لالو- پاسوان اتحاد مسلم يادو اور دلت ومہادلت ووٹوں کے بل بوتے واضح اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اس اتحاد کے ذریعہ لالوپرساد کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔ بہار میں برسرِاقتدار جے ڈی یو بی جے پی اتحاد بھی اپنی حوصلہ افزا کاميابی اور حکومت سازی کے تئیں متيقن ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا ماننا ہے کہ انہوں نے جس محنت ومشقت سے پچھڑاپن کے دلدل میں پھنسے ہوئے بہار کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کاتاریخی کارنامہ انجام دیا ہے ،اس سے بہار کی شان اور آن بان میں اضافہ ہوا ہے۔ سڑک، اسپتال، نظم ونسق اور قانون وانتظامیہ وغیرہ ہر سطح پر اصلاح کی شبانہ روز کوششوں کے بعد گویا بہار کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ نتیش کمار کا ماننا ہے کہ انہوں نے جامع حکمتِ عملی کے ذریعہ سماج کے ہر طبقے کی ترقی اور بلا تفریق مسلک ومذہب اور ذات پات ہرگروپ کے مفاد کے لئے مساوی کام کیا ہے، اور یہ کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔موجودہ اپوزیشن راشٹریہ جنتادل اور اس کے اتحادی ایل جے پی نتیش حکومت کی کارکردگی کے سلسلے میں اس کے دعووں کو لگاتار رد کرتے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نتیش کمار میڈیا کے ذریعہ اپنے کاموں کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بہار کے عوام ذات برادری کے نام پر ووٹ کرتے ہیں۔ اور ان کو چونکہ یادو، دلت اور مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے ،اس لئے اسے حکومت سازی میں ضرور کامیابی ملے گی۔ بہرحال حقیقت تو یہ ہے کہ 15سالوں تک بہار کو تنزلی وپچھڑاپن کا شکار بنانے اور ووٹنگ میں دھاندلی کرنے پر ضلع انتظامیہ کو مجبور کرنے والے لالو پرساد آج بھی ترقی کے بجائے ذات پات کی بنیاد پر ووٹ کی امید کر کے غلط فہمی کے شکار بنے ہوئے ہیں۔ بہار کے عوام اب جاگ چکے ہیں۔ مذہبی جذبات کے نام پر وہ بار بار دھوکہ نہیں کھا سکتے۔ وہ انتخابی اعلانات،جذباتی بیان بازیوں اور ووٹ کی سیاست کرنے والے سیکولرزم کے علمبرداروں کو بھی پہچان چکے ہیں،اس لیے وہ اس مرتبہ انتخاب میں پورے شعور کا مظاہرہ کرناچاہتے ہیں۔نتیش کمار کی سربراہی والی حکومت کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود بہار لالو کے 15 سالہ پچھڑاپن کے دور کو نہیں بھلاپایا ہے۔ فی کس مجموعی آمدنی (GDP) کے معاملے میں بہار ملک کی سب سے پچھڑی ریاست ہے۔ یہاں 55 فیصد سے زیادہ آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس ریاست کا جنسی تناسب دوسری ریاستوں کے بہ نسبت بہت کم ہے۔ بجلی کا استعمال ملک کی ساری ریاستوں میں سب سے کم یہیں ہوتا ہے۔ لیکن ان کمیوں کے باوجود نتیش کے ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر بہار کے عوام کو حوصلہ ملا ہے۔ اور وہ اس سلسلے کو لگاتار جاری رہتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پری میٹرک، پوسٹ میٹرک اور پروفیشنل وٹیکنیکل کورسزمیں زیادہ سے زیادہ اقلیتی طلباءکو اسکالرشب دی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں کی گئی ہے۔ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے ملحق مدارس کے اساتذہ کی تنخواہوں میں300 فیصد کا تاریخی اضافہ کرکے گویا نتیش کمار نے ایک نیا اقدام کیاہے۔ یہاں پوری ریاست میں سڑک کا نقشہ ہی گویا تبدیل ہوچکا ہے۔ اب گھنٹوں کی دوریاں منٹوں میں طے کی جاسکتی ہيں۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دواﺅں کی مفت تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پروفیشنل وٹیکنیکل کورسز میں مسلم بچوں کے داخلے میں بھی غیرجانبداری وحق پسندی کا ثبوت دیا گیا ہے۔راقم الحروف نے خود دربھنگہ میڈیکل کالج ميں سال 2010-11 ميں داخلہ لينے والوں کا سروے کیا تو پتہ چلا کہ 90طلباءمیں 7 مسلم طلباءکو داخلہ ملا ہے۔ یہ تناسب ملکی سطح پر ایک ماڈل اور کافی حوصلہ افزا ہے۔ بہار میں جہاں میڈیکل میں داخلہ دھاندلی کا اڈہ بنا ہوا تھا۔ جہاں حکومتی میڈیکل اداروں میں ڈاکٹروں کے بچوں یا وزیروں کے رشتہ داروں یا رشوت خور گروپ کے مافیاﺅں تک رسائی حاصل کرنے والوں کے بچوں کو داخلہ مل پاتا تھا ،آج یہاں غریب ، مزدور اور کسانوں کے لعل بھی اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، یہ ریاست میں رونما ہونے والی اہم تبدیلی ہے اور اس کے لئے نتیش کمار قابل صد مبارکباد ہیں۔ ریاست میں اغوا کے واردات میں زبردست کمی آئی ہے۔ قانون وانتظامیہ کو بھی کافی چست درست بنا دیا گیا ہے۔ لوگ آزادانہ طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ آیا جایا کرتے ہیں۔ تعلیمی نظام کو بھی درست کيا گیا ہے ۔لالو کے زمانے میں بہار کے تقریباً 99 فیصد کالجوں ويونيورسیٹیوں ميں 5 یا 6 سال میں گریجویشن مکمل ہوتا تھا جواب صرف تین سال میں ہو رہاہے۔ نتیش حکومت نے سارے مؤخر سيشنوں کا امتحان کرا کر تعلیمی نظام کو ملکی نظام سے جوڑ دیا تاکہ بچوں کا سال برباد نہ ہونے پائے۔ نتیش حکومت نے کچھ ایسے فیصلے بھی کیے جن کی بنیاد پر عوام میں انہیں کافی مقبوليت نصيب ہوئی۔ انہوں نے خواتین ، زیادہ پچھڑے طبقات (MBCs) اور مہا دلتوں کو ریاست کے علاقائی انتخابات ميں ریزرویشن سے نوازا۔ نتیش کمار کی سلجھی ہوئی کرشماتی شخصیت کے باوجود انہیں اپنے اتحادی بی جے پی سے ہندتوا کے مسئلے پرجنگ چھڑنے کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا ہے، فیصلہ کے بعد بی جےپی کا تیور کیسا ہوتا ہے، اور ان حالات میں نتیش کمار کس راہ پر چلتے ہیں، یہ بہار کے انتخابی مرحلے کے لئے بہت اہم ہوگا۔حاليہ اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں کو بڑی منصوبہ بندی، حکمت عملی اور شعور وآگہی سے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ نہ تو ہند توا وادی طاقتوں کو فائدہ پہنچے اور نہ ہی جذباتی استحصال کرنے والوں کو سر اٹھانے کا موقع مل سکے۔ جب تک مسلمان اپنی تعلیمی واقتصادی اور سیاسی وسماجی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے کوئی منظم اقدام نہیں کریں گے اور اس کے لئے سیاسی شعور کا مظاہرہ نہیں ہوگا، اس وقت تک وہ اپنی عظمت رفتہ اور شوکتِ گذشتہ کو نہیں پاسکتے۔

الأحد، أكتوبر 03، 2010

تهئنةللأمين العام لجمعية أهل الحديث المركزية لعموم الهندالشيخ أصغر علي السلفي!!!!!

لقد وافق سمو النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء وزير الدخلية بالمملكة على ترشيح الشيخ أصغر علي إمام مهدي السلفي ليكون أحد أعضاء الهيئة العليا لجائزة سمو الأمير نايف بن عبد العزيز العالمية للسنة النبوية والدراسات الإسلاميةفي دورتها الثالثة وفيما يلي الخبر من جريدة "سبق" الإلكترونية:
صدرت موافقة صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبد العزيز النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء
وزير الداخلية رئيس الهيئة العليا لجائزة نايف بن عبد العزيز العالمية للسنة النبوية والدراسات الإسلامية المعاصرة، باعتماد التشكيل الجديد للهيئة العليا للجائزة برئاسة سموه في دورتها الثالثة، وذلك على النحو التالي:
صاحب السمو الملكي الأمير سعود بن نايف بن عبد العزيز ـ نائباً للرئيس ومشرفاً عاماً على الجائزة.
صاحب السمو الملكي الأمير محمد بن نايف بن عبد العزيز ـ نائباً للمشرف العام.
صاحب السمو الملكي الأمير عبد العزيز بن سعود بن نايف بن عبد العزيز ـ عضواً.
صاحب السمو الملكي الأمير نواف بن نايف بن عبد العزيز ـ عضواً.
صاحب السمو الملكي الأمير محمد بن سعود بن نايف بن عبد العزيز ـ عضواً.
صاحب السمو الملكي الأمير فهد بن نايف بن عبد العزيز ـ عضواً.
إضافة إلى عضوية عدد من أبرز العلماء والشخصيات الإسلامية، وهم:
الدكتور صالح بن عبد الله بن حميد ـ إمام الحرم المكي الشريف رئيس المجلس الأعلى للقضاء.
الشيخ عبد الله بن منيع ـ المستشار بالديوان الملكي عضو هيئة كبار العلماء.
الدكتور عبد الله نصيف ـ نائب رئيس مجلس الشورى سابقاً.
الدكتور أكمل الدين إحسان أوغلو ـ رئيس منظمة المؤتمر الإسلامي.
الشيخ أصغر علي إمام ـ الأمين العام لجمعية أهل الحديث بالهند.
الدكتور أبو بكر عبد الله دكوري ـ مستشار رئيس جمهورية بوركينا فاسو الإسلامية.
الدكتور عادل المعاودة ـ عضو مجلس النواب البحريني.
الدكتور ساعد العرابي الحارثي ـ مستشار سمو النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء وزير الداخلية الأمين العام للجائزة.
الدكتور محمد بن علي العقلا ـ مدير الجامعة الإسلامية.
الدكتور زين العابدين الركابي ـ الباحث والمفكر الإسلامي.
وقد وجه صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبد العزيز شكره وتقديره لأعضاء الهيئة العليا للجائزة الذين انتهت عضويتهم بانتهاء الدورة الثانية للجائزة التي استمرت أربعة أعوام على ما بذلوه من جهود مخلصة أسهمت بعد توفيق الله في نجاح مسيرة الجائزة وبلوغ أهدافها، مهنئاً من تم اختيارهم لعضوية الهيئة العليا للجائزة في دورتها الثالثة بما أتيح لهم من فرصة المساهمة في أعمال الجائزة تجاه خدمة السنة النبوية المطهرة، متمنياً لهم سموه التوفيق والسداد فيما سيقومون به من جهود في هذا الشأن الإسلامي المهم. صرح بذلك مستشار سمو النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء وزير الداخلية الأمين العام للجائزة الدكتور ساعد الحارثي.
ونوه الحارثي بما حققته جائزة نايف بن عبد العزيز العالمية للسنة النبوية والدراسات الإسلامية المعاصرة من نجاح في مسيرتها تجاه بلوغ الأهداف السامية التي أنشئت من أجلها، وهي خدمة السنة النبوية المطهرة باعتبارها المصدر التشريعي الثاني بعد كتاب الله سبحانه وتعالى، وذلك من خلال دعم البحث العلمي وإذكاء روح التنافس بين الباحثين والمفكرين والمهتمين بهذا الشأن الإسلامي العظيم، وصولاً إلى تبيان محاسن الدين الإسلامي الحنيف ومقاصده السامية الرامية لسعادة الإنسان في الدنيا والآخرة، وتجلية ما اعترى فهم البعض عن هذا الدين على نحو خاطئ، وتعميق فهم المسلمين لهذا المصدر التشريعي المهم في حياتهم وكافة شؤونهم.
واختتم تصريحه راجياً لسمو راعي هذه الجائزة جزيل الأجر والمثوبة من الله، وأن يجعل هذا العمل خالصاً لوجهه الكريم، وأن يسدد بالتوفيق جهود من أسهم ويسهم في نجاح هذا الجهد الإسلامي الرفيع، والله ولي التوفيق.
وبهذه المناسبة أهنئ الشيخ أصغر على نيله الثقة الغالية من قبل سمو النائب الثاني وزير الداخليةرئيس الهيئة العلياللجائزةداعياً الله عز وجل أن يوفقه لما فيه الخير والصلاح للإسلام والمسلمين،وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا.
كتبه/معراج عالم محمد إنفاق التيمي

السبت، أكتوبر 02، 2010

منارة مسجد فى نيبال

تصفحت كثيرا من المنتديات والشبكات الإخبارية عن القصة التي إشتهرت عن منارة مسجد فى نيبال حيث إرتفعت وصعدت حين عجز المتولى و رفض أحد الكفار عن رفعها كما هي مذكورة فى إحدى المنتديات
" في النيبال بنى بعض المسلمين مسجداً ليصلوا فيه على نفقتهم الخاصة و عندما أرادوا أن يضعوا القبة العلوية للمنارة و لم يكن لديهم رافعة ليرفعوها ذهبوا إلى مالك رافعة ليس على الدين الاسلامي ليساعدهم و يقرضهم رافعته رفض مساعدتهم و نهرهم بقوله أنتم مسلمون وتقولون ان الله قادر على كل شي هيا فاذهبوا اليه لكي يساعدكم ويرفعها لكم .. و بعد وقت قصير فوجئ الحاضرون بأن القبة بدأت في الصعود وحدها و هي ملفوفة بقطعة قماش حيث استمرت في الصعود إلى أن استقرت في مكانها وسط ذهول كل الحاضرين الذين أخذوا يكبرون الله و يذكرونه ."

لاشك أن الله سبحانه تعالى قادر على كل شيء يفعل مايشآء لاراد لقضائه ولكن يبقي الأمر عن صحة القصة فأنا من سكان نيبال وقبل شهر كنت فى البلاد ولكن ما سمعت مثل هذه القصة من أى شخص،
والسوال الموجه إلى إخوتي :
متى وقعت هذه القصة ؟ وأين وقعت ؟ وأى مسجد هذا ؟ وأين يقع فى البلاد؟ وما اسم رجل ذهب إلى الكفار لطلب المساعدة؟ والصورالمنشورة من أى منطقة فى نيبال؟ أوجه أسئلتى هذه إلى الإخوة النيباليين لعلي أجد عندهم الإجابة مع الشكر والتقدير .

الاثنين، سبتمبر 27، 2010

مجلس کاسب سے لذیذ گوشت


تحرير: صفات عالم محمد زبیر تیمی


(وَلَا یَغتَب بَّعضُکُم بَعضاً اُيحِبُّ أَحَدُکُم أَن یَاکُلَ لَحمَ اخِیہِ مَیتاً فَکَرِہتُمُوہُ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ تَوَّاب رَّحِيم ) (سورة الحجرات 12)
ترجمہ: اور تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے ،کیا تم میں سے کوئی اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے‘ تمہیں تو گھن آئے گی۔ اللہ سے ڈروبیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
تشریح : زیرنظر آیت کریمہ میں اللہ پاک نے زبان کی آفات میں سے ایک خطرناک آفت غیبت سے منع کیا ہے ۔ غیبت کیا ہے ؟ ا یک مرتبہ نبي پاك صلى الله عليه وسلم نے اپنے اصحاب سے پوچھا: تم جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا اس انداز میں ذکر کرنا جو اسے برا لگے، لوگوں نے پوچھا : اگرمیرے بھائی میں وہ عیب ہے جو میں بیان کررہاہوں تو؟ آپ نے فرمایا: اگراس کے اندر واقعتاًوہ عیب پایا جاتا ہے تب ہی توغیبت ہے ، اگراس کے اندر وہ عیب پایا ہی نہیں جاتا تب تویہ بہتان ہے“۔ (مسلم)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ پاک نے غیبت سے روکتے ہوئے اس کی قباحت اس انداز میں بیان کی ہے جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،ایک ایسے انسان کا تصور جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو، مردارکاگوشت کھاناخودہی گھناونی بات ہے جس سے ہر انسانی طبیعت نفرت کرتی ہے ، پھر گوشت بھی کسی مردار جانور کا نہیں بلکہ انسان کا اور انسان بھی کوئی غیر نہیں بلکہ اپنا بھائی ، تصور کریں کہ کسی کاسگا بھائی اسکے سامنے مرا پڑا ہو اوروہ اس کے گوشت کو نوچ نوچ کرکھا رہا ہو ‘ دل دہلادینے والی مثال بیان کرکے اللہ تعالی نے اس جرم کی قباحت کی طرف اشارہ کیا ہے-
لیکن صدحیف آج ہماری مجلسو ں کا سب سے لذیذ گوشت یہی سمجھا جاتا ہے ،مزے لے لے کر اپنے سگے اورمردہ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کرکھاتے اور ڈکار لگاتے ہیں،ہمیںاس میں اتنا لطف ملتاہے کہ باربارکھانے کے باوجود طبیعت نہیں اکتاتی،منہ سے مردے کا خون ٹپک رہا ہوتا ہے ، گھناونی بدبو آرہی ہوتی ہے لیکن نشہ ہے کہ چھوٹے نہیں چھوٹتا ۔ العیاذ باللہ ۔ اورظاہر ہے جس کی دنیا میں ایسا ذائقہ دار گوشت کھانے کی عادت بن گئی ہو آخر آخرت میں اس سے کیونکرمحروم رکھا جائے گا لیکن وہاں تو کوئی انسان ملے گا نہیں کہ اس پر حملہ کرے ، اس لیے اپنا ہی چہرہ نوجتا پھرے گا- سنئے یہ حدیث:
”معراج کی شب میرا گذر ایک ایسی قوم سے ہوا جن کے ناخن تامبے کے تھے جن سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے میں نے جبریل امین سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے اور ان کی غیبت کرتے تھے“۔(ابوداؤد)
حضرت صفیہ رضى الله عنها پست قد تھیں ،ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضى الله عنها نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے کہہ دیاکہ صفیہ میں سے فلاں فلاں چیز آپ کے لیے کافی ہے۔( مراد قد کا چھوٹا ہونا ہے) نبی کریم نے فرمایا، لقد قلت کلمة لو مزجت بماءالبحر لمزحتہ۔ (ترمذی)"تم نے ایسا کلمہ کہا کہ اگر اسے دریا کے پانی میں ملادیا جائے تو اس کی حالت کو بدل دے"۔
توآئیے آج ہی سے عہد کریں کہ ہم سب کسی صورت میں اپنے مردہ بھائی گا گوشت نہ کھائیں گے یعنی کسی کی غیبت ہرگز نہ کریں گے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین یا رب العالمین

الأربعاء، سبتمبر 22، 2010

تذكير

يقول النبي صلى الله عليه وسلم " من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر" (مسلم) بشارة نبوية للصائمين ستا من شهر شوال ونحن في هذا الشهر، بالإضافة إلى ذلك أهل علينا أيام البيض التي يوافق بدايتها من هذا اليوم الموافق 22 سبتمبر 2010 فأيام البيض في هذا الشهر يوم الأربعاء والخميس والجمعة ، كما يدخل في هذه الأيام يوم الخميس ، ثلاث مناسبات إجتمعت مرة واحدة ، فرصة لمن لم يصم ستا من شوال حتى الآن أو بقيت بعضها يستغل هذه الأيام للصيام وينوي الثلاثة كلها -

ولا تنسوا المسجد البابري في دعائكم سائلين المولى عزوجل أن ينصر دينه وشعائره ويحفظ عرض نبيه من من الروافض المجرمين وأن يحرر أخواتنا من أديرة الكفار الظالمين وأن يحفظ المسجد الأقصى وأن يكشف راية النفاق وأن يدمر الصهاينة اليهود الحاقدين والشيوعيين والعلمانيين ومن عاونهم تدميرا هو ولي ذلك والقادر عليه
وفقنا الله لما يحب ويرضى ويقبل منا صالح أعمالنا آمين يا رب العالمين

الأحد، سبتمبر 19، 2010

أين نحن من هؤلاء ؟

قبل أيام جاء ني في اللجنة أخ كويتي معه غير مسلم نيبالى يرغب دخوله في الإسلام فرحبت بهما ثم توجهت إلى الأخ وسألت عن أحواله وظروفه والديانة التي يتدين بها فعرفت من خلاله أنه ولد في الأسرة الهندوسية إلا أن الكنيسة غلبت عليه فـتنصر (للمزيد إضغط هنا)

الخميس، سبتمبر 16، 2010

تعريف بجامعة الإمام ابن تيمية بمدينة السلام (الهند)

يمكن التعرف على جامعة الإمام ابن تيمية وأنشطتها بالضغظ على هذه الروابط






التعريف بمجلة "طوبى" ومجلة "الفرقان" بقلم فضيلة الشيخ ظل الرحمن التيمي 

إلحاق ومعادلة الجامعة بقلم فضيلة الشيخ سميع الله العمري 

أسلوب الجامعة والمركز التعليمي والدعوي بقلم : فضيلة الشيخ أبو القيس عبد العزيز المدني 


إنطباعات المشائخ عن الجامعة


جامعة الإمام ابن تيمية في نظر الدكتور مقتدى حسن الأزهري رحمه الله



وإنطباعات الدكتور الأزهري رحمه الله باللغة العربية يمكن قراءتها بالضغط هنا

الأربعاء، سبتمبر 15، 2010

پاکستان کے سیلاب زدگان ہماری ا مدادکے منتظرہیں


آج کل پوری دنیا میں مسلمان داخلی وخارجی مسائل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، عراق وفلسطین ،افغانستان اورکشمیر میں آئے دن مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے ، مصر میں متعدد نومسلم خواتین حکومت کی صہیونیت نوازی کی بدولت قبول اسلام کے جرم میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جسمانی استحصال کا شکار ہو رہی ہیں، مغربی ممالک میں حجاب، قرآن اور نبی رحمت کے ساتھ کھلواڑ کوترقی پسندی اور حدود الہی کی تنفیذ کو رجعت پسندی کا نام دیا جا رہا ہے ، ہندوستان میں بابری مسجد کا فیصلہ الہ آباد ہائی کورٹ سے 24 ستمبر کو آنے والا ہے ، فیصلہ خواہ مسلمانوں کے حق میں ہو یا نہ ہو ہر دوصورت میں معاملہ نہایت سنگین اور صبر آزما ہے ، پاکستان میں ایک طرف دہشت گردی اور شدت پسندی کے حادثات نے پاکستانی قوم کوسسکیاں لینے اور آہیں بھرنے پر مجبور کردیاہے تودوسری طرف فی الوقت سب سے بڑی مصیبت بدترین سیلاب کی تباہ کاری کی صورت میں ہمارے سروں پر آئی ہوئی ہے، جس نے 80 سال کا ریکارڈ توڑتے ہوئے چار صوبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ آج پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے ، ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ سے زائد لوگ سیلاب سے متاثر ہیں، وہ کھلے آسمان تلے حسرت کی تصویربنے ہمیں دیکھ رہے ہیں، ان کے آشیانے زیر آب ہوگئے ، ان کے زراعتی اراضی دریا برد ہوگئے، ذرائع روزگار ختم ہوچکے ، سڑکیں تباہ ہوچکیں ، کتنی مائیں جگرگوشوں سے محروم ہوگئیں، کتنے بچے یتیم ہوگئے، کتنی بیویاں سروں کا تاج کھو بیٹھیں، کتنی سہاگنوں کا سہاگ لٹ گیا، کل تک وہ ہمارے ہی جیسے تمنائیں اور آرزوئیں لیے ہوئے تھے لیکن آج ان کے خوابوں کے شیش محل چکناچور ہوچکے ہیں ،الکٹرانک میڈیا جب ان کے دلدوز مناظرپیش کرتا ہے توآنکھیں اشک بارہوجاتی ہیں، تباہی ایسی ہے کہ امیر وغریب کا فرق مٹ چکا ہے، دینے والا ہاتھ لینے والا ہاتھ بن چکا ہے، غذائی اشیاءکی شدید قلت ہے، صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں، اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بانکی مون نے جب اپنے ایک روزہ دورہ میں تباہی کے مناظر دیکھے تو اعتراف کیا کہ میں نے ایسی تباہی اپنی زندگی میں کبھی نہ دیکھی پھر انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ سیلاب زدگان کی تعمیر نو کے لیے تمام ممکنہ وسائل کے ساتھ آگے آئیں ۔ پاکستان کی ساری ملی تنظمیں انسانی اور قومی ہمدردی کا ثبوت دےتے ہوئے ہرممکن تعاون کررہی ہیں، بیرون ملک سے بھی تعاون آرہا ہے لیکن تباہی اتنی شدید ہے کہ اس کی بھرپائی نہیں ہوپا رہی ہے ، سیلاب زدگان کی داد رسی ہماری اولیں ترجیح ہونی چاہیے۔ انہیں ضرورت ہے ہماری مدد کی ، ہمارے تعاون کی،ہماری ہمدردی اورغم خواری کی۔

بفضلہ تعالی ہم کویت میں برسرروزگارہیں، خوشحال وفارغ البال ہيں یا کم ازکم ہمیں بے نیازی حاصل ہے ، ہم آرام سے ایرکنڈیشن فلیٹ  میں رہ رہے ہیں، ہمیں صحت مند زندگی میسرہے ، من پسند اور مرغن غذائیں کھارہے ہیں جبکہ ہمارے ہی بھائی بہن سرچھپانے کے لیے سائبان کے محتاج ہیں ، بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ادویات کے ضرورتمند ہیں،زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی کے احتیاج مند ہیں، ہمیں شاید اس کا شعور نہیں کہ ہماراجسم لہولہان ہے ،درد وکرب سے کراہ رہا ہے،ذراغورکیجئے اس حدیث پر:
”مسلمانوں کی مثال آپسی ہمدردی ،محبت اور رحم دلی میں ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک عضو کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بخار اور بے خوابی سے پورا جسم مثاتر ہوتا ہے “ (بخاری ومسلم)
اس حدیث پاک میں مسلمانوں کے مابین قائم ہونے والے تعلق کو جسد واحد سے تشبیہ دے کر واضح فرمایا گیا کہ امت مسلمہ منتشراجزاءاور مختلف اقوام کا نام نہیں بلکہ ایک ہیکل اور جسم کانام ہے ، اور ایک جسم میں ایک ہی دل اور ایک ہی روح ہوتی ہے ، اس طرح مومن کی سوچ اور اس کا ارادہ ایک ہوتا ہے ، مختلف اجسام ہونے کے باوجود ایک قالب ہوتے ہیں،اسکے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے سارے اعضاء تیماردار بن کر تکلیف کا ساتھ دیتے ہیں اور بے خوابی کا شکار ہوجاتے ہیں ، ویسے ہی ایک مسلمان کو کوئی مصیبت آتی ہے یا تکلیف پہنچتی ہے تو قومیت ، رنگ ونسل اور ذات پات کی تمیز کے بغیر اسے فوری احساس ہوناچاہیے کہ اس کے جسم کا ایک عضو بیمار ہے ،اس کی تیمارداری کرے،اس کی مدد کرے ، اور اس کی مصیبت کو دور کرنے میں لگ جائے ۔
ہمارے پاس مال اللہ پاک کا عطیہ ہے ،اس نے ہمیں وقتی طو رپر اس پر ملکیت عطاکی ہے اور اس میں فقراءومساکین کا بھی حق رکھا ہے ،کل قیامت کے دن اس کی بابت پوچھ گچھ ہوگی(ترمذی) پھر صدقات وخیرات کے بے شمار فوائد بھی بتائے گئے ہیں چنانچہ صدقہ غضب الہی کو دور کرتا اور بری موت سے بچاتا ہے (ترمذی) گناہوں اور معاصی کومٹاتا ہے ( صحیح الجامع ) میدان محشر کی ہولناکی میں ہمیں سایہ کیے ہوگا (صحیح الجامع ) جبکہ کتنے لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے ، آج ہم اپنے بھائی کی مصیبت کودورکریں گے تو کل قیامت کے دن ہمارا خالق ومالک ہماری مصیبت کودور فرمائے گا (بخاری ) پھرصدقہ وخیرات کرنے سے مال میں حسی ومعنوی دونوں طرح افزائش ہوتی ہے(البقرة 274) ،کیا دنیا میں کوئی ایسا بنک ہے جو ایک کا سات سوگنا دیتاہو لیکن رب عرش عظیم کے بنک نے ہم سے ایک دینار کے بدلے سات سو دینار دینے کا وعدہ کیا ہے بلکہ بعض لوگوں کواس سے بھی زیادہ ملے گا :
”جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن (کے مال) کی مثال اُس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اُگیں اورہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس(کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتاہے اور وہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے“۔(سورہ بقرہ 241)
ہرروز جب بندہ صبح کرتا ہے دوفرشتے نازل ہوتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں ، ایک کہتا ہے ”یا اللہ نہ خرچ کرنے والے کے مال کو ضائع کردے“ دوسرا کہتا ہے ”اے اللہ خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما “ (بخاری )
اوراللہ تعالی کو کمیت سے زیادہ کیفیت مطلوب ہے ،معمولی تعاون کوبھی حقیر نہ سمجھیں ”جہنم کی آگ سے بچو گوکہ آدھی کھجور کے ذریعہ ہی سہی“ (بخاری ومسلم) ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایاتھا ”ایک درہم ایک لاکھ درہم پر سبقت لے گیا“ایک شخص نے کہا:یا رسول اللہ! ایسا کیسے ہوا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: (وہ اس طرح کہ ) ایک آدمی جس کے پاس وافرمقدارمیں مال ہے اس سے ایک لاکھ نکال کر صدقہ کردیتا ہے جبکہ دوسرا شخص دو درہم کا مالک ہے اس میں سے ایک درہم صدقہ کردیتا ہے “(نسائی ، ابن ماجہ ،ابن خزیمہ،حاکم)
عزیز قاری ! یقیناً سیلاب زدگان کے لیے یہ آزمائش کی گھڑی ہے تاہم ہمارے لیے بھی آزمائش ہے کہ ہم کس قدر ان کی مدد میں ہاتھ بٹاتے ہیں ،تو آئیے ایک جسم ہونے کا ثبوت دیجئے،سیلاب زدگان کے درد کو محسوس کیجئے ،اگر آپ نے ان کی مدد کی ہے تو مزید کی ہمت کیجئے کیونکہ ان کی پریشانیاں سوا ہوتی جارہی ہیں اور اگر اب تک نہیں کی ہے تو اپنی استطاعت اور وسائل کے مطابق پہلی فرصت میں ان کاتعاون کیجئے ،کیا معلوم کے کل ہمیں بھی وہی دن دیکھنا پڑے جس سے آج وہ گذر رہے ہیں ۔