الأحد، مارس 08، 2020

لگتا ہے اس جہاں میں اب ہم بھی نہیں رہے: روحانی والد علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کی رحلت پر


            شاہنواز صادق عبداللہ
جامعہ امام ابن تیمیہ
5مارچ 2020 کی صبح چڑیوں کی چہچہاہٹ،کلیوں کی مہک،نسیم صبح کی لطافت اور سورج کی ہلکی کرنوں کے باوجود پتہ نہیں کیوں پھیکی پھیکی لگ رہی تھی۔ ناشتہ کے بعد لائبریری میں السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی،السنۃ قبل التدوین اور اہتمام المحدثین بنقد الحدیث سندا متنا وددحض مزاعم المستشرقین وغیرہ میں مطلوبہ مواد کے جستجو کی خاطر محو مطالعہ تھا دو گھنٹہ تک کتاب سے چپکنے کے باوجود بھی اداسی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی چائے کی چسکی کی خاطر باہر گیا کہ شاید اداسی جان چھوڑ دے مگر یہاں بھی ناکام رہا ظہر اور ظہرانہ کے بعد لاکھ کروٹ بدلنے کے باوجود نیند کا آنکھوں سے یکسر غائب ہونا اضطراری کیفیت میں اضافے کا باعث بن رہی تھی خلاف معمول عصر کی نماز کی خاطر کچھ پہلے ہی مسجد چلا گیا نماز کے بعد جونہی استاد مکرم شیخ آصف تنویر مدنی/حفظہ اللہ مائک لے کر کھڑے ہوئے حمد و صلاۃ کے بعد “کل من علیھا فان” کی تلاوت کی اور کہا کہ اب ہمارے بانی محترم حفظہ اللہ نہیں رحمہ اللہ ہوگئے یہ خبر حاضرین مسجد پر بجلی بن کر گری یکدم مسجد میں سناٹا سا چھا گیا زبان گنگ بدن ساکت اور آنکھیں برسنے لگیں لڑکھڑاتی زبان سے بمشکل انا للہ و انا الیہ راجعون کے کلمات جاری ہوگئے ہمارے پدر روحانی کی خدمات جلیلہ ایک ایک کرکے آنکھوں میں گردش کرنے لگیں مادر علمی آنے کے بعد پابندی سے دئے گئے فجر کے بعد کے دروس کا ایک ایک لفظ یاد آنے لگا آپکے دست مبارک سے حاصل کئے گئے انعامات کے وقت کی مسکراہٹ اور دعائیہ کلمات پھر سے تازہ ہونے لگےجامعہ کے ایک ایک درودیوار سے سسکیوں کی آواز سماعت سے ٹکراتی اور سب یہ گواہی دیتی نظر آتی کہ شہر میں ایک چراغ تھا جو نہ رہا اسی وقت سے ہم استاد مکرم شیخ شکیل احمد اثری/حفظہ اللہ کے اس شعر کے مصداق ہیں
چادر نے غم کی ڈھانپ لی ہے ہمکو اسطرح
لگتا ہے اس جہاں میں اب ہم بھی نہیں رہے
یقینا ہمارے روحانی والدعصر حاضر کےمحدث زماں، ادیب باکمال، فقیہ بے مثال، شیر زباں،تصنیف و تالیف میں قلم کے شہسوار،قوم کی ڈوبتی ہوئی کشتی کے پتوار،محافظ سنت اورعظیم داعی اسلام تھے جن کا تعلق اس سرزمین سے تو ضرور تھا لیکن وہ مستقبل طور پر پر مملکت سعودی عرب میں وہاں کی شہریت کے ساتھ سکونت پذیرتھے،لیکن آپ کے دعوتی کا رناموں کے اثرات سعودی عرب سے ہندوستان تک پھیلے ہوئے ہیں،آئندہ سطور میں آپ کی دعوتی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی ولادت اور تعلیمی اسفار :
غالبا 23 اپریل 1943ء کو آپ کی ولادت باسعادت ہوئی آپ کا نام و نسب کچھ اس طرح ہے محمد لقمان سلفی بن بارک اللہ بن محمد یاسین بن محمد سلامت اللہ بن عبد العلیم صدیقی آپ نے اپنی عمر کی پانچ بہاریں دیکھنے کے بعد گاؤں کے ہی مکتب میں حافظ عثمان صاحب کے پاس بنیادی کتابیں پڑھیں پھر مولانا الیاس صاحب نے پورنیہ کے ایک بستی چھراماری میں ایک مدرسے میں داخل کردیا مگر وہاں آپ دوسال بھی مکمل نہ کر سکے کے سخت بیمار پڑ گئے اور گھر آگئے صحتیابی کے بعد آپ نے مدرسہ آزاد دھاکہ کو کو اپنی علمی تشنگی کا مسکن بنایا
مگر یہاں بھی مکمل تعلیم حاصل کیے بغیر 1956ءمیں دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ چلے گئے اس درمیان آپنے زندگی میں آئی پریشانیوں کا ہنس ہنس کر مقابلہ کیا احمدیہ سلفیہ میں دوران تعلیم آپ نے بہار ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سےمولوی امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور اتنے نمبرات سے جتنا کے پچھلے دس سالوں تک کسی کو نہیں ملا تھا اسی بنیاد پر آپ کا انتخاب مملکت توحیدوسنت سعودی عرب کی یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہوا وہاں آپنے کلیہ الشرعیہ سے بی اے کیا پھر MA المعھد العالی للقضاء سے کیا آپ کے مقالہ کا موضوع تھا السنۃومكانتها في التشريع الاسلامي اس کے بعد جامعۃ الامام محمد بن سعود ریاض سے اهتمام المحدثين بنقد الحديث سندا ومتنا ودحض مزاعم المستشرقين کے عنوان پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی آپ نے وہاں امام ابن باز اور امام البانی رحمہ اللہ جیسی شخصیات سے کسب فیض کیا۔
ڈاکٹر محمد لقمان سلفی بحثیت عظیم داعی و مبلغ اسلام :
یہ حقیقت جگ ظاہر ہے کہ داعی کبیر، بانی جامعہ امام ابن تیمیہ ،محدث زماں، محقق شہیر، مفسرِ قرآن علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی اپنی علمی بصیرت، خداد فراست،تفقہ فی الدین اور حسن کردار و عمل کی بنیاد پر ایک معروف ومشہور داعی تھےآپ کی ہمہ گیر شخصیت علم و کمال کے ان تمام بلندیوں پر فائز تھیں جو کسی بھی انسان کے لئے سرمایہ افتخار ہو سکتی ہے آپ بیک وقت میدان خطابت کے مردے جرار تھے توتصنیف و تالیف میں قلم کے شہسوار غرض یہ کہ آپ نے دعوت کے تمام گوشوں کو اجاگر کرنا اپنی زندگی کا مشن بنایا تھاآپ نے دعوت الی اللہ کا آغاز زمانہ طالب علمی سے ہی جمعہ کے خطبے اور تحریری کاوشوں کے ذریعے شروع کیا تھا اور آج الحمدللہ برصغیر ہندوپاک میں صف اول کے داعی و مبلغ کی حیثیت سے جانے جارہے تھےآپ ایک ایسے داعی حق اور ترجمان قرآن تھے جنہوں نے ہزاروں سینوں میں دعوت اسلام کی حرارت بھر دی تھیں آپ نے اپنے قلم کی نوک سے امت کو وہ درنایاب تحفہ کتابوں کی شکل میں دیا ہے جسکا انکار کسی بھی صاحب عقل و خرد کے لئے حقیقت سے منہ موڑنے کے مترادف ہوگا آپ نے جامعہ امام ابن تیمیہ جیسا دینی علوم کا منبع قائم کیا ہے جسکی اہمیت وافادیت کا دوست دشمن سبھی قائل ہے
 ڈاکٹر صاحب بحیثیت بانی جامعہ امام ابن تیمیہ: بلاشبہ مدارس وجامعات دین کے قلعے ہیں جہاں سے دعوت کا کام بحسن وخوبی انجام پاتا ہے آپ نے 1964ء میں مدینۃ السلام چندنبارہ ڈھاکہ کے ضلع مشرقی چمپارن کی سرزمین میں ایک معہد اسلامی کی بنیاد رکھی پھر یہ مرکزالعلوم الاسلامیہ میں بدلا حتی کہ یہی مرکز 1988 ء میں جامعہ امام ابن تیمیہ بن کر ابھراجو بہت ہی قلیل مدت میں ہندوپاک کے سلفی اداروں میں صف اول کا ادارہ بن گیا جس کے ماتحت مختلف شعبے دعوت دین کی نشرو اشاعت میں منہمک ہیں جن میں سےکلیۃ سید نذیر محدث دہلوی لاصول الدین ،کلیۃ خدیجۃ الکبری لتعلیم البنات ،المنجم الاسلامی،معھد زید بن ثابت لتحفیظ القرآن الکریم ،ڈی ایم ایل پبلک اسکول ،مکتبہ ابوالکلام آزاد سینٹرل لائبریری اور مرکز علامہ ابن باز للدراسات الاسلامیہ وغیرہ اس کے زیرنگرانی چلنے والے وہ تعلیمی شعبے ہیں جہاں طلبہ و طالبات علوم و فنون سے لیس ہوکر دین متین کی نشر و اشاعت میں منہمک رہتے ہیں
 ڈاکٹر صاحب کی تصنیفی خدمات ایک عمومی جائزہ:
دعوت دین کے بےشمار ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ صحافت بھی ہے جس کا استعمال خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ملکوں میں متعدد بادشاہوں کے نام جو خطوط ارسال کیے تھے وہ بھی دراصل صحافت کی شکل میں آپ کی دعوتی سرگرمیوں کا ایک حصہ تھاصحافت کی اسی اہمیت کے پیش نظر ڈاکٹر صاحب نے جامعہ امام ابن تیمیہ کے قیام کے ساتھ مرکز العلامہ ابن باز للدراسات الاسلامیہ کی بنیاد ڈالی اور اس حوالے سے تصنیف وتالیف کے ذریعہ اپنے دعوتی مشن کو آگے بڑھایاجب ہمارے پدر روحانی نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو دیکھتے ہی دیکھتے متعدد کتابوں کے مؤلف و مصنف اور مترجم بن گئے وہ کونسا ایسا فن ہے جس پر آپ کا قلم حرکت میں نہیں آیا ہو جب آپ نے خدمت حدیث کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو تحفةالكرام شرح بلوغ المرام اور ہدی الثقلین فی احادیث الصحیحین جیسی کتابیں ہمارے سامنے آئیں جب آپ نے فقہ اسلامی سے اپنا رشتہ جوڑا تو آپنے نے اپنے قلم و قرطاس سے السعی الحثیث الی فقہ اھل الحدیث اصحاب علم کو بطور تحفہ دیا۔جب آپ نے سیرت رسول پر قلم اٹھایا تو آپ الصادق الامین سیدالمرسلین اور ہمارے نبی کی جلوہ افشانی ہوئی تینوں کتابوں میں سے سید المرسلین تو سمندرکو کوزہ میں بند کر دینے کی ایک روشن مثال ہے جہاں تک عربی زبان و ادب کی بات ہے تو ملک عزیز میں علماء اہل حدیث نے اس کی نشر و اشاعت میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے مگر کسی نے بھی مدارس اسلامیہ کے لیے ایسی کتابیں تیار نہ کی تھیں جو ابتدائیہ سے فضیلت تک داخل نصاب ہو سکےمگر الحمدللہ ہمارے پدر روحانی نے جب عربی زبان و ادب پر اپنے قلم کی روشنائی کھپائ تو السلسلۃ الذهبيۃ للقراءه العربيۃکی شکل میں مکمل 12 جلدیں منظر عام پر آئیں جو ابتدائیہ تافضیلت داخل نصاب ہے اسکے علاوہرش االبرد شر ح ادب المفرد، أركان الإسلام ، رحلة مريم جميلة من الكفر إلى الاسلام،(انگریزی سے عربی ترجمہ)کتاب التوحيد کی شرح صلاۃ الرسول، (جمع وترتیب اردو ترجمہ)عقيدة المسلم، (جمع وترتیب واردو ترجمہ)مسائل الزكاة والصوم، (جمع وترتیب واردو ترجمہ)مسائل الحج والعمرۃ، (جمع وترتیب واردو ترجمہ)فتاوی العلامة عبدالعزيز بن باز، مشعل راہ، (اردو ترجمہ)العلاج بالرقية الشرعية من السحر والمس والعين،بستان المحدثين عبدالعزيز بن ولي الله الدهلوي ،(فارسی)فضل الصلاة على النبي للإمام ابن القيم رحمه الله ،(اردو ترجمہ)
الرحمة المهداة في سيرة سيد المرسلين ،(جمع وترتيب)دليل الحاج والمعتمر ،الأذكار والأدعية ،(اردو) ترجمہ وتفسیر العشر الأخير من القرآن الكريم،بيان عقيدة المسلم ودينه ،(اردو)المرشد إلى آيات القرآن الكريم، (تصحيح)صلاة الرسول، (تصحيح ومراجعه وتخريج الأحاديث)اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات، مناظر قیامت شیخ خورشید سلفی، (تصحیح ومراجعہ علمیہ) تقوية الإيمان ،(تصحيح ومراجعة علمية دقيقة)اتباع قرآن وسنت، (تنقیح و تصحیح وترجمہ نصوص عربیہ) اسی طرح آپنے اپنے قلم سیال سے اپنی ذاتی زندگی کی حقیقت پر ایک کتاب تحریر فرمائی جسے کاروان حیات کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے مگر یہ تو محض ایک جھلک ہے اگر آپ کے تمام تصانیف کا تذکرہ کیا جائے تو سینکڑوں صفحات کم پر جائیں گے۔
ڈاکٹر صاحب بحیثیت مفسر قرآن:
یوں توہمارے پدر روحانی کی تمام تصانیف دعوت دین کا حسین گلدستہ ہیں مگر جس کتاب نے آپ کو نصف النہار کے سورج کی طرح روشن کردیا۔جس نے آپ کو چودہویں چاند کی طرح چمکا دیا ۔جس نے آپ کو آسمان کی رفعت اور ہمالیہ کی بلندی عطا کی اور دعوت دین کے میدان میں نمایاں مقام عطا کیا وہ قرآن کی بے مثال و بے نظیر اردو تفسیر تیسیر الرحمن لبیان القرآن ہے۔اس کی زبان اورتحریر ایسی ہے کہ پڑھتے جائیے اور لفظ لفظ دل کی زینت بنتی جائے گا، اگر ایک طرف یہ تفسیر ہندوپاک کے مساجد کی رونق بنی ہوئی ہے تو وہیں امت اسلامیہ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ اُردو داں طبقے کے لیے اتنی جامع تفسیر کسی نے نہیں لکھی اور ساتھ ہی مدرسین مادہ تفسیر کے لیے مرجع کی حیثیت بھی اختیار کر چکی ہے۔ آپ کے نوک قلم سے نکلنے والی ایک دوسری تفسیر فیوض العلام علی تفسیر آیۃ الاحکام ہے جو جامعہ امام ابن تیمیہ اور دیگر مدارس اسلامیہ میں داخل نصاب ہے۔
ڈاکٹر صاحب کےدعوتی اسفار:
دعوت دین متین کی خاطر قریہ قریہ،صوبہ صوبہ اور ملک ملک کا چکر لگانا اسلاف کرم کی سنت رہی ہےاسی طریقے کے پیش نظر ہمارے پدر روحانی نے متعدد ممالک کا سفر کیاجب آپ صرف 32 یا 33 سال کے تھے تو آسٹریلیا دعوت دین کی خاطرگئے پھر نیوزی لینڈ بھی دین مستقیم کی ترویج واشاعت کے لیے تشریف لے گئے بعینہ جزائر فیجی بھی آپ دعوت اسلامی کو پھیلانے گئے اس کے علاوہ آپ جب بھی اپنے آبائی وطن تشریف لاتے تھے تو علاقہ کے بیشتر بستیوں کا دورہ کرکے لوگوں کو دین اسلام کی حقیقی روشنی سے منور کرتے تھے پھر یہ کہ برصغیر ہندوپاک میں جتنی بھی بڑی کانفرنسیز منعقد ہوتی ان میں ڈاکٹر صاحب کو دعوت ملتی تھی تو آپ اس پرلبیک ضرور کہتے تھے سچ تویہ ہے کہ آپکے دعوتی میدان کے احاطے کی خاطر ہزاروں صفحات کم مائیگی کی شکایت کریں گے
وفات: 9 رجب 1441ھ بمطابق 5 مارچ 2020ء
بروز جمعرات تقریبا 3 بجے دن علم وعمل کا یہ روشن ماہتاب ہمیشہ ہمیش کے لئے عالم اسلام کو مغموم کرکے غروب ہوگیا کل ہوکر یعنی بروز جمعہ بعد نماز جمعہ حرم مکی میں فضیلۃ الشیخ عبداللہ الجہنی کی امامت میں نماز جنازہ اداکی گئی جامعہ ابن تیمیہ اور اسکے علاوہ پورے عالم میں غائبانہ نماز جنازہ بھی ہوئ تعزیت پروگرام کا عالم اسلام میں سلسلہ جاری ہے غرض یہ کہ
بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
اللہ پاک کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین

ليست هناك تعليقات: