الأحد، مارس 08، 2020

محقق اسلام چلتے چلتے یہ بتاگئے!!! (علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ سےفون پر آخری علمی گفتگو)



ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی

بانئ جامعہ امام ابن تیمیہ علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی ایک عظیم محقق واسکالر اور فقید المثال مصلح ومربی بھی تھے۔ آپ نئی نسل کی تربیت واصلاح پر خصوصی توجہ مبذول فرماتے تھے، آپ متلاشیان علم وفن کو اپنی دل پذیر نصیحتوں اور حوصلہ افزائیوں کے ذریعہ تصنیف وتالیف اور تدریس ودعوت کی دنیا میں پرواز بھرنے کا ہنر سکھاتے تھے۔ جامعہ امام ابن تیمیہ کے اساتذہ وطلبا ء اور علماء ودعاۃ آپ کی اس خوبی کے بہترین گواہ ہیں۔ایسا ہو بھی کیوں نا جبکہ آپ کی ہر ادا نرالی، ہر گفتگو مؤثر، ہر اصلاح دلوں میں اثرکرنے والی اورہر تحریر متوجہ کرنےوالی ہوتی تھی۔

جب بھی آپ سے ملاقات ہوتی علمی موضوعات اور تعلیم وتربیت کسی نہ کسی طور پر موضوع گفتگو بن ہی جاتا، آپ سیرت نبوی اور علوم اسلامیہ کے متعلق کچھ نہ کچھ اہم معلومات ضروردے دیتے۔ ادھر جب میں نے اسکول وکالج کے بچوں کےلیےسیرت کے موضوع پر ایک کتاب تیار کرنی شروع کی، تو سیرت نبوی پر چند کتابیں حاصل کیں، ان میں دوسری کتابوں کے ساتھ بطور خاص: الرحیق المختوم ،اور ڈاکٹر صاحب کی مایہ ناز تالیف الصادق الأمین ، ہمیشہ میرے سامنے کھلی رہتی تھی۔اس بار میں دونوں مؤلفوں کی کتابوں کا ایک ایک کلمہ بڑے غور سے پڑھ رہاتھا، تاکہ سیرت کے موضوع پر صحیح معلومات حاصل کرکے انہیں اپنی کتاب میں جمع کرسکوں اور ان میں کوئی کمی وکوتاہی نہ رہنے پائے،اس دوران دونوں مایہ ناز سیرت نگاروں کے خاص اسلوب وانداز کو گہرائی سے دیکھنے اوران سے لطف اندوز ہونے کاموقع بھی مل رہاتھا۔ لیکن دونوں کتابوں کےمطالعہ کے دوران جب میں پہلی وحی کے نزول اور پہلی وحی کے بعد کچھ مدت تک کےلیے وحی کے انقطاع کے موضوع پر پہنچا، تو حیرت و تعجب میں پڑ گیا،یہ کوئی الصادق الأمین کا صفحہ 153 اور الرحیق المختوم کا صفحہ :62 (شائع شدہ: دارالسلام للنشر والتوزیع، ریاض)تھا۔ ایک طرف بانئ جامعہ کی کتاب میں نبی کریمﷺ کے سلسلے میں پہلی وحی کے بعد وحی رک جانے کی حالت میں آپ کے پہاڑ سے کودنے کے واقعہ کو ظلم وجھوٹ اور بہتان لکھا گیا تھا، تو دوسری طرف مبارکپوری صاحب رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ کی کتاب میں اس کی توثیق وتائید صحیح بخاری کی روایت کے حوالے سے کی گئی تھی۔

ہم بچپن سے بھی یہی پڑھتے آئے تھے کہ پہلی وحی کے بعد جب وحی کا سلسلہ رک گیا تو آپﷺ کافی پریشان ہوئے، وحی رک جانے کے بعد آپ نے رنج کے مارے یہ چاہا کہ پہاڑ کی چوٹی سے کود جائیں، لیکن جب آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر اس ارادے سے چڑھتے تو جبریل علیہ السلام نمودار ہوتے اور کہتے :تم تو اللہ کےسچے پیغمبر ہو ،یہ سن کر آپ کو ایک گونہ قرار آ جاتا ،کچھ تسلی ہو جاتی اور آپ لوٹ آتے۔ فضیلت سال آخر میں بخاری شریف میں بھی یہ حدیث نمبر: (6581 ) كتاب " التعبير " ، باب " أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة، میں آئی، مشہور سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی شہرہ آفاق کتاب " الرحیق المختوم " میں بھی اس واقعہ کی توثیق کی گئی تھی.اس کے علاوہ بھی کئی سیرت کی کتابوں میں اس تعلق سے جو کچھ پڑھا تھا وہ اس کے بالکل برعکس تھا جو بانی جامعہ نے تحریر کیا تھا، کیونکہ صاحب رحیق نے پوری صراحت کے ساتھ یہ لکھا ہے:

"وقد بقي رسول الله صلى الله عليه وسلم في أيام الفترة كئيبًا محزونًا تعتريه الحيرة والدهشة، فقد روى البخاري في كتاب «التعبير» ما نصه‏:‏
وفتر الوحي فترة حزن النبي صلى الله عليه وسلم فيما بلغنا حزنًا عدا منه مرارًا؛ كي يتردى من رءوس شواهق الجبال، فكلما أوْفى بذِرْوَة جبل؛ لكي يلقي نفسه منه تَبدَّى له جبريل فقال‏:‏ يا محمد، إنك رسول الله حقًا، فيسكن لذلك جأشه، وتَقَرّ نفسه، فيرجع، فإذا طالت عليه فترة الوحي غدا لمثل ذلك، فإذا أوفي بذروة الجبل تبدى له جبريل فقال له مثل ذلك"۔ (الرحیق المختوم: ص:62)
ترجمہ:"نبیﷺ وحی کےرک جانے کے ایام میں رنجیدہ وغمزدہ رہے، آپ پر حیرت ودہشت چھائی رہی، جیساکہ بخاری نے کتاب التعبیر میں لکھا ہے جس کا نص یہ ہے: نبیﷺ کو وحی کے رک جانے کا سخت رنج رہا، کئی بار تو آپ نے رنج کے مارے یہ چاہا کہ پہاڑ کی چوٹی سے خود کو گرادیں، آپ جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر اس ارادے سے چڑھتے تو جبریل نمودار ہوتے اور کہتے :تم تو اللہ کےسچے پیغمبر ہو، یہ حال دیکھ کر آپ کو ایک گونہ قرار آ جاتا، کچھ تسلی ہو جاتی، آپﷺ لوٹ آتے،جب ایک مدت گزر جاتی اور وحی بند ہی رہتی تو آپﷺ اسی ارادے سے ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے، اتنے میں جبریل نمودار ہوتے اور یہی کہنے لگتے"۔

بانی جامعہ کی کتاب " الصادق الأمین" میں اس واقعہ کی تردید کو پڑھ کر پریشانی اس لیے بھی زیادہ بڑھ گئی یہ صرف بچپن سے جو کچھ پڑھتے آئے تھے اس کی تردید کامسئلہ نہیں تھا، صرف الرحیق المختوم میں جو کچھ لکھا تھا، اس کی تردید کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ صحیح بخاری کی کسی روایت کی تردید کا مسئلہ تھا، اب میں سوچنے لگا کہ کیا کروں، کس سے پوچھوں ؟ کس سےاس اشکال کا ازالہ کراؤں، کبھی سوچتا کہ علامہ موصوف موجود ہیں، خود ان سے فون کرکے دریافت کرلوں،اسی بیچ میں نےمکہ میں موجود ایک بڑے اسکالر کو فون کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا صحیح بخاری کی وہ حدیث جس میں پہلی وحی کے بعد وحی کے رکنے کی صورت میں نبی کریم ﷺکی بےچینی اور پہاڑ پر چڑھ کر نیچے کودنے کا خیال کرنے کا ذکر ہے، کیا وہ واقعہ صحیح نہیں ہے اور کیا اس کی تردید کی جاسکتی ہےاور کسی بنیاد پر ؟تو انہوں نےبھی زور دے کر کہا کہ اس واقعہ کی تردید صحیح نہیں ہے، اور روایت میں جو کچھ آیا ہے اس پر ہمیں یقین کرنا چاہیے۔اب میرے لیے کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ میں علامہ موصوف کو فون کرکے اس سلسلے میں تحقیق کروں، چنانچہ میں نے ظہر کی نماز کے بعد ان سے رابطہ کیا، انہیں میں نے بخاری شریف کی اس روایت کے ٹکرے کی طرف توجہ مبذول کرائی جو اس طرح ہے:
 (قَالَ الزُّهْرِيُّ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ : ... وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ ، فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا ، فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ ، وَتَقِرُّ نَفْسُهُ ، فَيَرْجِعُ ؛ فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ فَتْرَةُ الْوَحْيِ غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ ، فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ "(صحيح البخاري "حدیث نمبر:( 6581 ) ، كتاب " التعبير " ، باب " أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة)
ترجمہ :"زہری کہتے ہیں کہ ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ نبیﷺ کو نبیﷺ کو وحی کے رک جانے کا سخت رنج رہا ،کئی بار تو آپ نے رنج کے مارے یہ چاہا کہ پہاڑ کی چوٹی سے خود کو گرادیں، آپ جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر اس ارادے سے چڑھتے تو جبریل نمود ہوتے اور کہتے :تم تو اللہ کےسچے پیغمبر ہو، یہ حال دیکھ کر آپ کو ایک گونہ قرار آ جاتا، کچھ تسلی ہو جاتی، آپﷺ لوٹ آتے،جب ایک مدت گزر جاتی اور وحی بند ہی رہتی تو آپؐ اسی ارادے سے ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتے،اتنے میں جبریل نمود ہوتے اور یہی کہنے لگتے"۔ (صحیح بخاری/6581)

 پھر میں نے بڑے ادب سے کہا کہ بخاری شریف کی اس روایت کے باوجود کیوں اپنی کتاب میں اس کی تردید کی ہے ، میں نے آپ کی کتاب کے اس پیراگراف کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی جس میں آپ نے پرزور انداز میں اس واقعہ کی تردید کی ہے، جو کچھ اس طر ح ہے:
 "كنت أقرأ هذه الرواية وتلك التي نسب فيها إلى رسول الله (ظلما وزورا وبهتانا) أنه صلى الله عليه وسلم عقد عزمه على قتل نفسه بإلقاء نفسه من فوق الجبل، وكان عقلي يأبى من قبوله، لأنه لا يمكن أن يصدر مثل هذا التفكير المريض إلا من شخص مريض عقليا، لأن الرجل العاقل الرزين الهادي يواجه الظروف الصعبة بتعقل ويسعى جاهدا للتغلب عليها ولا يفكر أبدا مثل هذا التفكير المريض الذي يدل على أن صاحبه ليس برجل مواقف وأنه لا يستأهل أي احترام وإكبار، وهذا بالنسبة إلى الرجل العاقل العادي، فكيف إذا نسب مثل هذا التفكير المريض المشين إلى خاتم الأنبياء والرسل الذي اعتبره عقلاء الدنيا أعقل الناس كما مر عند ذكر صفاته صلى الله عليه وسلم.وإذاً نسبة هذا التهور المريض إلى النبي صلى الله عليه وسلم مزورة و باطلة ، أيا كان السبب وأيا كان ذلك المزور وأيا كان غرضه. (الصادق الأمین: ص:154)
"میں اس روایت کو اور اس کے علاوہ اس روایت کو پڑھتا تھا جس میں (ظلما اور جھوٹ اور بہتان لگاتے ہوئے)رسو ل اکرمﷺ کی نسبت اس بات کی طرف کی گئی ہے کہ آپ نے پہاڑ کے اوپر سے کود کر اپنے نفس کو قتل کرنے کا عزم کرلیا تھا، لیکن میری عقل اس واقعہ کو قبول کرنے سے انکار کرتی تھی، اس لیے کہ اس طرح کی بیمار سوچ ذہنی طور پر بیمار شخص کے اندر ہی پیدا ہوسکتی ہے، سنجیدہ ، سمجھدار اور عقلمند انسان مشکل حالات کا سامنا بھی عقلمندی وسمجھداری سے کرتا ہے اور حالات پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے، کبھی وہ ا س طرح کی بیمار سوچ میں مبتلا نہیں ہوتا جو یہ بتاتی ہے کہ ایسا شخص فيصلے کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ احترام وتعظیم کا اہل ہے، یہ جب ایک عام عقلمند انسان کے تعلق سے ہے تو اس گھناؤنی بیمار سوچ کی نسبت خاتم الانبیاء والرسل کی طرف کرنا کیسا ہوگا، جنہیں دنیا کے عقلاء نے سب سے بڑاعقل مند انسان مانا ہے، جیسا کہ ان کی صفات کے ذکر کے باب میں گذر چکا ہے۔
تو اس لایعنی اور بیمار سوچ کی نسبت نبی کریم ﷺکی طرف کرنا جھوٹ اور باطل ہے،اس کا سبب جو بھی، ایسا جھوٹ بولنے والا جو بھی ہو، اور اس کا مقصد جو بھی ہو۔"

آپ نے میری پوری بات سننے کے بعد اپنی بات بتانی شروع کی جو کچھ ا س طرح ہے:

1- آپ یہ بالکل صحیح کہ رہے ہیں کہ یہ روایت بخاری شریف میں موجود ہے۔

2- حدیث کا وہ ٹکڑا جس سے مجھے اختلاف ہےوہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا ٹکڑہ اور ان کا کلا م نہیں ہے بلکہ امام زہری کا کلام اور بلاغ ِزہری ہے، زہری تابعین میں سے ہیں جنہوں نے اس حادثہ کے وقت کو نہیں پایا ہے، صحابہ کرام میں سے کسی نے اس طرح کے کسی حادثہ کا ذکر کیا ہے،تو ایسی صورت میں زہری کے ذریعہ اس اضافہ کو نہیں مانا جاسکتا جس کا ذکر کسی صحابی نے نہیں کیا ہے۔

3- علامہ ابن حجر نے بھی فتح الباری ( 12 / 359) میں اس بات کی تائید کی ہے کہ یہ بلاغات زہری میں سے ہے اور موصول نہیں ہے۔

4- ہمارے شیخ علامہ ناصر الدین البانی نے بھی اس اضافہ کو رد کیا ہے۔ میں نے اپنی اسی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ ہمارے شیخ واستاذ علامہ محدث البانی رحمہ اللہ نے (صحیح السیرۃ النبویہ ) میں صراحت کے ساتھ ذکر کیاہے کہ نبی کریمﷺ کی جانب منسوب کیا جانے والا یہ فقرہ صحیح بخاری کی شرط پر نہیں ہے، یہ بلاغات زہری میں سےہے، یہ موصول نہیں مدرج ہے، اسی لیے مسلم نے اس اضافہ کو اپنی صحیح میں بیان نہیں کیا ہے، اس لیے وہ اس حدیث کا جزء نہیں ہے جسے عائشہ رضی اللہ نے روایت کیا ہے۔

5- علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس اضافہ میں دو علت بیان کی ہے۔ ایک تو یہ کہ "معمر "اس زیادتی میں تنہا ہیں، یونس وعقیل اس میں شامل نہیں ہیں، تو یہ شاذ ہوا اور دوسرا یہ کہ وہ مرسل ومعضل ہے اس لیےکہ بیان کرنے والے زہری نے اسے "فیمابلغنا" سے ذکر کیا ہے۔

6- مذکورہ تمام وجوہات کی بناء پر میں اپنی کتاب میں نبی کریمﷺ کی جانب منسوب کیے جانے والے اس واقعہ کی تردید کی ہے۔

قارئین کرام ! یہ بیمار پڑنے سے بس چند ہفتے قبل کی ٹیلی فونک گفتگو ہے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ آخری وقت تک آپ کا حافظہ کتنا مضبوط تھا، آپ کتنا مطالعہ کرکے کوئی موقف اختیار کرتے تھے، آپ حق کے کس قدر جویا تھے کہ حق جہاں مل جاتا اسے فورا اختیار کرلیتے تھے اور اس میں کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے، آپ بیدار مغز انسان تھے او رصحیح کو سقم سے اچھے کو خراب سے پرکھنے کا ہنر جانتے تھے۔

آج جبکہ اسی جگہ پر میں اپنی یہ تحریر حوالۂ قرطاس کررہاہوں جہاں علامہ سے میری یہ گفتگو ہوئی تھی ، تو میرا پورا وجود سہما جارہا ہے، آنکھیں اشکبار او ردل بوجھل ہو ا جاتا ہے، کہ کیا اب وہ وقت دوبارہ نہیں آئے گا جب مجھے کوئی اشکال پیش آئے اور میں مولانا سے دوبارہ فون پر رابطہ کرسکوں، کیا واقعتاوہ وقت نہیں آئےگا، دل ماننے او ریقین کرنے کو تیار نہیں ہورہا ہے ، لیکن قضاء ربانی پر ایمان ، ایمان کا حصہ ہے، اس لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کی مغفرت فرمائے، اعلی علیین میں جگہ عنایت فرمائے، انہیں انبیاء، صلحاء اور متقین کے ساتھ جمع فرمائے۔ آمین یارب العالمین.


ليست هناك تعليقات: