الثلاثاء، ديسمبر 31، 2013

نبذة عن فقيد جماعة أهل الحديث أستاذ اﻷساتذه الشيخ عبدالسلام الرحماني رحمه الله


د. معراج عالم محمد انفاق المدني 

إسمه :
هو الداعية الكبير والعالم الجليل الشيخ أبوعبدالله عبدالسلام الرحماني بن محمدعباس بن حبيب الله بن جمائي بن كريم بخش .

ولادته:
ولد في جمادى اﻵخرة1357-أغسطس1938 في قرية كوندؤ لمديرية غونده (بلرامفور حاليا ) في وﻻية أترابراديش في أسرة معروفة بالعلم والتدين.

تعليمه:
حصل على الدراسة اﻻبتدائية في مدرسة عريقة معروفة جامعة سراج العلوم بونديهار لمدةأربع سنوات.ثم ارتحل للطلب إلى دلهي مع عمه الشيخ محمدعابدالرحماني والتحق في الجامعة الرحمانية وذلك في أغسطس1947 والتحق في السنةاﻷولى المتوسطة إﻻ أنه رجع إلى قريته في نوفمبر1947 بسبب اﻻضطرابات التي حصلت وقت تقسيم الهند إلى دولتين الهند وباكستان. والتحق مرة أخرى في جامعة سراج العلوم ودرس حتى الثانوية اﻷولى ثم سافرإلى بنارس والتحق بالجامعة الرحمانية في الثالثة المتوسطة. كما أنه سافر في هذه اﻷيام على إيعاز من جده إلى لكناؤ والتحق بكلية الطب لكنه رجع إلى بنارس بعد شهرين أو ثلاثة أشهر. وأكمل الدراسة الشرعية في الجامعة الرحمانية وتخرج فيها عام 1958 وباﻹضافة إلى دراسته النظامية قد اختبرباﻻنتساب للإختبارات الحكومية الثانوية والعالمية والفضيلة العالية.

في ميدان العمل:
ومنذ تخرجه بدأ يزاول المهمة التعليمية والدعوية فدرس ثلاثة أشهر في الصفوف اﻷولية في وﻻية مدهيه براديش . ثم انتقل إلى المعهد اﻹسلامي في أكرهرا بوﻻية أترابراديش فدرس فيه سنة فقط. ثم انتقل إلى جامعة سراج العلوم بونديهارفدرس فيها منذ 1960 حتى1963 وفي عام1964انتقل إلى معهد رئيس دي بهمري ودرس فيه المواد الشرعية لمدة سنة فقط. ثم انتقل إلى الجامعة الرحمانية بنارس ودرس فيها حتى 1972. وتولى منصب نائب اﻷمين العام لجمعية أهل الحديث المركزية لعموم الهند في 1972وظل في هذا المنصب داعيا وموجها حتى1975 ثم أختيرلمنصب اﻷمين العام في يوليو1975م وكان رئيس التحرير لجريدة ترجمان أيضا وقد كتب مقاﻻت وبحوث نافعة ومفيدة. ثم استقال في يونيو 1978 من منصب اﻷمين العام وارتحل إلى فيجي داعية ناجحا ومعلما بارعا وموجها ومربيا وبقي فيها حتى 1985 ففي مارس1985 رجع من فيجي. وفي مايو 1985 أقيم مؤتمر عام فحمل عليه منصب اﻷمين العام للجمعية مرةً أخرى إﻻ أنه استقال في 1987 لظروف أحاطت به.  والتحق بجامعة سراج العلوم بونديهار مدرسا و وكيلا للجامعة وظل فيها حتى آخرحياته. كما أنه أختيرلمنصب نائب أميرالجمعية في 1990م وظل في هذا المنصب قرابة عشرسنوات. وكان رحمه الله داعية ناصحا ومدرسا ناجحا ومحباً للخير ومتفانيا في نشر الدعوة والعلم و قد قضى حياته كلها في الدعوة والتدريس والتعليم والتوجيه. ودرس قرابة أربعين سنة واستفاد منه خلق كثيرمنهم: د.عبدالعليم عبدالعظيم البستوي و د.جمال أختر وهما بمكة ود.عبدالرحمن عبدالجبار الفريوائي الأستاذ بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض ود.صغيرأحمد حنيف ود.محمد إقبال بسكوهري والشيخ المحقق عزير شمس بمكة والشيخ شاهد جنيد رئيس الجامعة السلفية بنارس وغيرهم كثيرون.

مؤلفاته:
عمل على إيعاز وترشيح من الشيخ العلامة عبيد الله الرحماني في تحقيق وتعليق تحفة اﻹشراف بمعرفة اﻷطراف في ممبئي. له قرابة عشرين مؤلفا بعضها مطبوع واﻵخرمخطوط فمن مؤلفاته:
1: القصص اﻹسلامية 3 مجلدات
2- حسن بصري حاﻻت وملفوظات
3- المنكرات في العقائد واﻷعمال والعادات
4-محرم الحرام ومسألة حسن ويزيد
5-ماه ربيع اﻷول اورحب الرسول صلى الله عليه وسلم.
6- تزئين مساجد كي شرعي حيثيت
7-خضاب كي شرعي حيثيت
8-اتباع سنت كامفهوم
9- تزئين وتجميل كي شرعي حيثيت
10- فريضة اﻷمربالمعروف والنهي عن المنكر.وغيرها.

عضويته في الهيئات:
اختاره الشيخ العلامة أبوالحسن علي الندوي رحمه الله عضوا في هيئة اﻷحوال الشخصية للمسلمين. كمااختيرعضوا في الهيئة الملية الهندية (ALL INDIA MILLI COUNCIL) من قبل الشيخ مجاهد اﻹسلام القاسمي رحمه الله.

أسفاره الدعوية:
لقد سافر الشيخ رحمه الله في أنحاء الهند وأرجائها لأغراض سامية دعوية وتنظيمية وألقى محاضرات قيمة قبل أن يتولى منصب الأمين العام للجمعية وثم أثناء توليه هذا المنصب وبعد تركه الجمعية أيضاً إضافة إلى ذلك فقد شارك مناسبات دعوية عديدة وألقى محاضرات علمية ودعوية وتوبوية في عدة دول منها المملكة العربية السعودية وباكستان ونيبال وماليزيا وسدني وسنغافور ونيوزي ليند وأمريكا وأستراليا ويابان وإطاليا وأبوظبي والصين وإنجلترا وفرنسا ومصر والكويت ودوبئي والبحرين وعمان والدوحة والشام والأردن وإندونيسيا وكنيدا وجنيف ودنمارك وغيرها. باﻹضافة إلى أعماله الدعوية ومناشطه العلمية والإدارية وكالة الجامعة فقد كان عضوا في مختلف المجالس اﻻستشارية والتنفيذية لمختلف الجامعات اﻹسلامية بالهند منها: - الجامعة السلفية في بنارس. - وجامعة اﻹمام ابن تيمية في بيهار - والجامعة المحمدية منصوره ماليغاؤن.

وفاته :
وقد وافته المنية يوم اﻷحد 29 ديسمبر2013م وله 75سنة. وقد خلف 3 أبناء و3 بنات وزوجة. وبموته رحمه الله وقعت فجوة وثغرة في جماعة أهل الحديث بالهند ونيبال وحدثت ثلمة في اﻷوساط العلمية والدعوية. غفرالله لفقيدنا وأفاض عليه شآبيب الرحمة والرضوان وأدخله الفردوس اﻷعلى من الجنان وألهم ذويه وجميع محبيه الصبر والسلوان. ومالنا إﻻ أن نقول ما يرضي ربنا فإنالله وإنا إليه راجعون. لله ما أخذ وله ما أعطى ولكل أجل كتاب. والحمدلله على قضائه وقدره. 

إعداد: معراج عالم التيمي

الاثنين، ديسمبر 30، 2013

فرصة لإبتعاث خريجي الجامعات السعودية

تعلن إدارة جامعة الإمام ابن تيمية بمدينة السلام عن حاجتها لأعضاء هيئة التدريس على أن يكونوا من خريجي الجامعات السعودية والأولوية لحاملي الماجستير والدكتورة ويتم ابتعاثهم من قبل وزارة الشئون الإسلامية والأوقاف، و المقاعد محدودة فعلى الراغبين التقدم بأسرع وقت ممكن،  للإستفسار يمكن الإتصال على رقم مؤسس الجامعة الدكتورمحمد لقمان السلفي مباشرة : 
00966502714594

الأحد، ديسمبر 15، 2013

بڑے بول کا سر نیچا

رحمت کلیم امواوی (جے این یو)

رحمت کلیم امواوی 
ایک انسان جب شعور و آگہی کی دولت سے سرفراز ہوتا ہے اور دوڑتی بھاگتی دنیا کو ہر لمحہ سرگرداں دیکھتا ہے تو اس کے دل میں بھی ایک طرح کی بیداری پیدا ہوتی ہے اوروہ بیداری صرف اور صرف کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہے ،ہر انسان اپنے طورپر یہ کوشش کرتا ہے کہ اسکی زندگی انتہائی خوشگوار ہو ،کامیابی کے اعلی سے اعلی مقام تک پہنچ جائے،دنیامیں اس کا نام روشن ہواور ایک الگ پہچان بنے،اپنی عزت و عظمت ہر کسی کے دل میں بیٹھا دے،ہر کوئی اسے حسرت بھری نگاہ سے دیکھے،اور دنیااس کے مقام و مرتبہ ،شہرت و مقبولیت اور خدمات کو سراہے۔تاریخ شاہد ہے کہ ازآدم تا ایں دم نہ جانے ایسے کتنی ہستیوں کا وجود مسعود ہوا ہے جنہوںنے اپنی بساط بھر جد و جہد کرکے اپنی الگ شناخت پیدا کیں ہیں ،اور لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنایا ہے،ہم ارسطو،سیکسپیئر،افلاطون،ملٹن،ابو ریحان،جابر ،رابندر ناتھ ٹیگور ،علامہ اقبال،نہرو،آزاداور مہاتما گاندھی جیسے عظیم المرتبت شخصیتوں کو ان کے گذر جانے کے سالوں سال بعد آج بھی محبت و عقیدت کے ساتھ صرف اس لیے یاد کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کارناموں سے دنیا کو مبہوت کردیا ،سبھوںکی نظروں کو خیرہ کردیا ،اور ایسا کار خیر انجام دیا کہ دنیا کا ہر ہرکس و ناکس ان کا گرویدہ ہو گیا ،آج بھی انہیں وہی عزت و شہرت اوراحترام حاصل ہے جو کل تک حاصل تھیں،یعنی ان نابغہ روزگاروں کو مقبولیت دوام حاصل ہے،لیکن تاریخ کا ایک ایسا بھی صفحہ ہے جہاں ہمیں ایسے لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے کمال کی مقبولیت حاصل کیں،دولت وثروت کا پہاڑ حاصل کیا،شہرت کے آسمان تک پہنچے،دنیا انہیں ہدیہ صدتبریک پیش کرنے لگی،بلندی کا نام ان کے نام سے جوڑا جا نے لگا،طاقت و ہمت اور دانشمندی کے حوالے سے پہلے پہل انہیں حضرات کا نام لیا جانے لگا،عوام الناس کے دلوں پر رعب و دبدبہ قائم ہو گیا،ان کا اپنا سکہ چلتا تھا،ہر طرف ان کی طوطی بولتی تھی،اور ہر کوئی انہیں بڑا تسلیم کیا کرتا تھا لیکن ایک ایسا بھی وقت آیا جب ان نامور شخصیتوں کی اہمیت گرد پاکے برابر بھی نہ رہی،ایک آن میں ساری عزت خاک میں مل گئی،اور دیکھتے ہی دیکھتے عظمت کا شیش محل چکنا چور ہوگیا،اس کی مثال ہم نہ فرعون کے عبرت آموز حشر سے دینا چاہیں گے اور ناہی شداد کی فضیحت سے،ہم نہ نمرود کے واقعے کوپیش کریںگے نا ہی ابو جہل کی ہزیمت کو،چونکہ یہ سارے واقعے دقیانوس ہیں ،ہم اکیسویںصدی میںسانس لے رہے ہیں،ہم اسی صدی کے حوالے سے یہ بتانا چاہیں گے کہ کیسی کیسی نامورو شہرت یافتہ ہستیاں ذلیل و خوار ہوگئیں،اور کتنے بڑے بڑے طاقتور شیر ایک ہی جھٹکے میں ڈھیر ہوگئے،اور کتنے قد آور شخصیتوں کا سر نگوں ہو گیا ۔
اکیسویں صدی کا نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ آغازہوتا ہے،امریکہ میں بل کلنٹن صدارتی کرسی پر گذشتہ کئی سالوں سے قابض ہوتا ہے،لیکن جب 2001میں صدارتی انتخاب ہوتا ہے تو پھر بل کلنٹن کو شکست فاش ہوتی ہے،اور جارج ڈبلیو بش زمام صدارت سنبھالتا ہے اور امریکہ کا تینتالیسواں صدر بن کر 20جنوری 2001کو صدارتی آفس میں داخل ہوجاتاہے،اس کے بعد سے امریکہ میں جو ترقی ہوتی ہے وہ یقینا محیر العقول ہے،دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ دنیا کا سوپر پاور ملک بن جاتا ہے،اور اس کی طاقت کا غلبہ دنیا کی تمام ملکوں پر ہوتا ہے،دریں اثنا صدارت کی کرسی پر بیٹھ کر جارج ڈبلیو بش کبھی عراق کی سرزمین کو عراقی باشندگان کے خون سے سیراب کرتا ہے تو کبھی افغانستان کے معصوموں کا قتل کر تا ہے،الغرض طاقت کا بہت حد تک غلط استعمال بھی کرتا ہے،صدارتی دور کا پہلا ٹرم مکمل ہوتا ہے 2005میں پھر صدارتی انتخاب ہوتا ہے اور بش کے مقابلے میں سیاہ فام براک حسین اوبامہ آتا ہے مگر ناکامی ہاتھ لگتی ہے اور دوبارہ امریکہ کا صدر جارج ڈبلیو بش ہی بنتا ہے،اس کے بعد امریکہ کی معاشی اور سیاسی حالت کو مزید مستحکم کر کے امریکہ کو دنیا کا سب سے طاقت ور ملک بنا دیتا ہے،اور اس کا سہرہ اسی جارج ڈبلیو بش کے سر جاتا ہے جس کے ہاتھ عراقی بچوں کے خون سے رنگے ہو ئے ہیں ،جس کے پاں کے نیچے بغداد کے عوام کی لاشیں ہیں، اخیر کار صدارتی دور کا آخری وقت آتا ہے،دسمبر کا مہینہ چل رہا ہوتا ہے،اوراسی مہینے تک اس کی حکومت بھی ہوتی ہے،چونکہ2009میں پھر انتخاب ہوناہوتا ہے، اتفاقیہ طور پر جارج ڈبلیو بش کا آخری صدارتی خطاب عراق کی راجدھانی بغداد میں ہونا طے پاتا ہے جہاں کا ہر یتیم بچہ بش کو اپنے باپ کا قاتل اور ہر ماں اپنے نوجوان بیٹے کا جانی دشمن مانتی ہیں ،14دسمبر2008کو جارج ڈبلیو بش اپنے آخری دورہ کیلئے نکل پڑتا ہے،بغداد میں ان کے لئے ایک تہنیتی پروگرام کا انعقاد عمل میں آتا ہے،پروگرام میں بش کی شان میں قصیدے پڑھے جارہے تھے،بش کا سر اعلی و بالا کیا جا رہا تھا،لیکن جب ڈائس پر خطاب کرنے کیلئے بش کھڑا ہواتو ایک صحافی نے اس کی ساری عظمت و بڑائی کو محض دو چند سکنڈ کے اندر خاک میں ملا دیا،جارج ڈبلیو بش نے جب خطاب کے دوران یہ کہا کہ”یہ ایک حتمی راستہ تھا فتح یاب ہونے کا“تو منتظر زیدی نامی البغدادیہ ٹی وی رپورٹر اپنے پاں کے دونوں جوتوں سے بش پر حملہ بول دیتا ہے،اوریہ کہتا ہے کہ یہ تمھارا اختتامیہ ہے۔یہ صرف چند سکنڈ کے اندر کی بات تھی جب زیدی نے جوتے سے حملہ کیا ،لیکن اسی دو سکنڈ نے بش کی گذشتہ نو سالوں میں حاصل کی گئی ساری عزت و شہرت اورعظمت و بڑکپن کو خاک میں ملا دیا اور پوری دنیا کے سامنے بش کا سر شرم سے ہمیشہ کیلئے جھک گیا۔
تاریخ کا ایک اور صفحہ پلٹیے ،اور دیکھیے کہ معمر قذافی کی کیا آن با ن و شان تھی،کیا الگ مست دنیا تھی،اورکیا طاقت و ہمت ،مگر حشر آخر کار کیا ہوا؟تاریخ کا مطالعہ کرنے والے حضرات اس سے بخوبی واقف ہیں کہ 1964ءسے 2011ءتک مسلسل چالیس سال تک معمر قذافی نے لیبیا کے عوام پر حکومت کی،انہوں نے لیبیا کی عوامی دولت و ثروت کو ذاتی مال سمجھ کر اس قدر عوام کا استحصال کیا کہ لیبیائی باشندے دل کے آنسو رو پڑے،درندگی بنام عیاشی اس طرح ہو رہی تھی کہ کہا جاتا ہے کہ قذافی کے کمرے سے رات بھر میں کئی کئی لڑکیاں اسٹریچر پر نکالی جاتی تھیں،لیبیا کا سونا(GOLD)باپ بیٹا مل کر لٹا رہاتھا،اور عوام بے چاری سوکھی روٹی تور رہی تھی،مذہبی مذاق اس کا عام شیوہ تھا،البتہ ایک خاصیت ضرور تھی کہ یہ کبھی امریکہ کی منہ بھرائی نہیں کرتا تھا،اقوام متحدہ میں بھی اپنی زبان بولا کرتا تھا،کسی سے خوف نہیں کھاتا تھا،امریکہ کی جی حضوری کبھی دیکھنے کو نہیں ملی،اور یہی ایک چیز قذافی کوبڑا بنا دیتی ہے،دولت وثروت کی کمی کسی بھی ناحیے سے نہیں تھی،عالمی پیمانے پر ایک الگ پہچان بھی تھی،لیبیا کے باہر بھی عوام اچھی نگاہ سے دیکھتے تھے،ایک بڑا و کامیاب رہنما تسلیم کرتے تھے،لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا جب پورے مشرق وسطی میں آگ لگی تھی،حکومت کا تختہ پلٹا جا رہا تھا،عوام پوری طرح اپنی طاقت کا استعمال کرنے لگی تھی،درد و کرب اور مسائل سے بے چین عوام سڑک پر نکل کر حاکم وقت کے خون کی پیاسی ہوگئی تھی،دیکھتے ہی دیکھتے اردن ،مصر اور بحرین کاکام تمام ہو گیا ،اور وہان کی عوام کامیاب ہوگئی،اور پھر یہ آگ جب لیبیا تک پہنچی تو پھر قذافی کے گھنگھڑیلے بال میں بھی لگ گئی،عوام کے ہاتھ جب قذافی کے گریبان تک پہنچے تو پھر بھاگنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا،قذافی فوراً اپنے آبائی وطن سرت میں جاکر زمین کے اندر ایک گوفہ میں چھپ گیا،لیکن درد کی ماری لیبیائی عوام کو چین نہیں آرہا تھا،وہ چاہتی تھی کہ قذافی ان کے ہاتھ لگ جائے،بالآخر ایسا ہی ہوا،نیشنل ٹرانجیشنل کونسل فورسیز (NTCF)نے قذافی کو زمین کے نیچے سے بھی ڈھونڈ نکالا ،اور سڑک پر گھسیٹتے ہوئے سرے عام گولی مار دی،اور قذافی امان امان چلاتے ہوئے 20اکتوبر2011کو ہمیشہ کیلئے امان پا گیا۔
بیرون ہند کے بعد جب ہم جب ہم اپنے وطن کی طرف رخ کرتے ہیں اور اکیسویں صدی کا جائزہ جب ہم ہندوستانی پس منظر میں لیتے ہیں تو ہمارے سامنے دو اہم نام جلوہ گر ہو جاتا ہے،جنہیں کل تک ہندوستانی عوام محبتوں اور عقیدتوں کا گل دستہ پیش کرتی تھیں لیکن آج ان کے نام پر طعن وتشنیع کرتی ہیں ۔باپو آشا رام کو شاید ہی کوئی نہیں جانتا ہو ،خصوصاً غیر مسلم طبقہ میں ان کی مقبولیت اور ان کا جو مقام و مرتبہ کل تک تھا وہ یقینا قابل رشک ہے،انہیں جو عزت و شہرت اور جتنی عقید ت ملی وہ یقینا لائق ستائش ہے،آشام رام کامقام اتنا بلند ہوگیا تھا کہ ایک خاص طبقہ انہیں اپنا معبود ماننے لگا تھا،مرادیں پوری کرنے کیلئے ان کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگے تھے،رکشہ چالک اپنی سلامتی کیلئے انکا نام لیکر گاڑی چلانا شروع کرتا تھا ،دوکاندار منافے کیلئے انہیں کا نام لیکر دوکان کھولا کرتے تھے،الغرض ان کو خدا کا درجہ حاصل تھا ،لوگ ایک جھلک دیکھنے کیلئے میلوں کی مسافت طے کرتے تھے،لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ ولی کے لباس میں شیطان ہے،بابا کے نام پر عزت و عصمت کا لٹیرا ہے ،اور مذہبی پیشوا کی شکل میں ایک زانی ہے،لیکن اس سچائی سے کس کو انکار ہے کہ حقیقت ایک نہ ایک دن کھل کر سامنے آہی جاتی ہے،اور جب آشا رام کی حقیقی شکل دنیاکے سامنے کھل کر آئی تو پوری دنیا ناطقہ سر بہ گریباں ہوگئی۔کہا جاتا ہے کہ آشارام نے اپنے مادر وطن گجرات میں1970ءمیں پہلا آشرم بنوایا ،اور اب تک پورے ہندوستان میں چار سو سے زائد چھوٹے بڑے آشرم بنائے جا چکے ہیں،البتہ ان آشرموں کے اندر کیا ہو رہا تھا یہ اب دنیا کے سامنے عیاں ہو چکا ہے،اور فی الوقت آشارام کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے او رکون سا دفعہ لگایا گیا ہے یہ بھی سب کے سامنے واضح ہو چکا ہے،مگر ان تمام معاملات میں گذشتہ چھ اکتوبر کو جو ایف آئی آر درج کرائی گئی وہ کچھ زیادہ ہی خطرناک ہے،اس میں لکھا گیا ہے کہ آشارام نے اپنی بڑی بہن کا ریپ احمد آباد آشرم میں کیا ،اور 2002سے2004 تک سورت میں آشارام کے بیٹے سائی رام نے آشارام کی چھوٹی بہن کی مسلسل عصمت دری کی(نعوذباللہ)
کہنے کی بات یہ کہ آشارام جو کل تک خدا بنا بیٹھاتھا،بلندیاں ان کے قدموں میں تھیں،ان کا سر مذہبی و روحانی پیشوا کی فہرست میں سب سے اونچا تھا لیکن کیا کسی کو یہ بھی پتا تھا کہ ایک دن آشارام کو ذلت کے اس مقام تک آنا پر جائے گاکہ لوگ ان کے نام پر تھوکنے لگیں گے،اور یہاں تک جگ ہنسائی و رسوائی ہو گی جہاں سے ایک انسان خودکشی کرنے میں اپنے لیے عافیت سمجھتا ہو۔علاوہ ازیں ہندوستان کی سرزمین پر ایک اور نام کا تہلکہ مچا ہوا ہے،جن کا مقام و مرتبہ کل تک عوج ثریا پرتھا لیکن آج خاک میں ہے،جن کی عزت ہر چھوٹا بڑا کیا کرتا تھا لیکن اب ہر کوئی الٹے زبان سے اس کا نام لیتا ہے، تہلکہ نیوز پیپر کے فانڈر و ایڈیٹر تیج پال سنگھ آج انتہائی گھنونی حرکت کے پاداش میں سلاخ کے پیچھے ہے کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تیج پال سنگھ کیلئے ایسا تصور تھا ؟تیز پال سنگھ کے ساتھ کیا معاملہ ہے اور کیا جرم ہے سبھوں کے سامنے پوری طرح واضح ہو چکا ہے۔لیکن دل کے نہاں خانے میں ایک سوال یہ بار بار پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ عرش پر کمند ڈال چکے اور دلوں کو جیت چکے بڑے بڑے لوگوں کا ایسا حشر کیوں ہوتا ہے؟
خلاصہ کلام یہ کہ انسان جب تک انسانیت کا علمبردار ہوتا ہے،اور انسانیت کا پوری طرح لحاظ و خیال رکھتا ہے،تب تک وہ انتہائی با وقار ہوتا ہے،اور دنیا اسے پیار و محبت اور عزت و شہرت کے دولت سے بھی خوب نوازتی ہے،لیکن جب وہی انسان انسانیت سے ذرا برابر بھی ہٹتا ہے تو پھر وہی عوام جو کل تک آپ کو محترم سمجھتی تھی آج حقیر و بدترین انسان سمجھ کر اس قدر ذلیل کرتی ہے کہ انسان خود اپنی نظر میں بھی گر جاتا ہے،جارج ڈبلیو بش سے لیکر ترون تیج پال سنگھ تک سبھوں کا حشر ایسا اس لیے ہوا اور ہورہا ہے کہ انہوں نے انسانیت اور انسانی اصولوں سے بغاوت کیں ہیں ، حیوانیت کا روپ دھاڑ لیا تھا اور یہ تو بہت بڑی سچائی ہے کہ حیوانیت کو بقاءنہیں ہے۔
اللہ ہم سب کو ذلت آمیز حرکات و سکنات سے محفوظ رکھے ۔آمین