الاثنين، سبتمبر 27، 2010

مجلس کاسب سے لذیذ گوشت


تحرير: صفات عالم محمد زبیر تیمی


(وَلَا یَغتَب بَّعضُکُم بَعضاً اُيحِبُّ أَحَدُکُم أَن یَاکُلَ لَحمَ اخِیہِ مَیتاً فَکَرِہتُمُوہُ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ تَوَّاب رَّحِيم ) (سورة الحجرات 12)
ترجمہ: اور تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے ،کیا تم میں سے کوئی اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے‘ تمہیں تو گھن آئے گی۔ اللہ سے ڈروبیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
تشریح : زیرنظر آیت کریمہ میں اللہ پاک نے زبان کی آفات میں سے ایک خطرناک آفت غیبت سے منع کیا ہے ۔ غیبت کیا ہے ؟ ا یک مرتبہ نبي پاك صلى الله عليه وسلم نے اپنے اصحاب سے پوچھا: تم جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں ؟ لوگوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمہارا اپنے بھائی کا اس انداز میں ذکر کرنا جو اسے برا لگے، لوگوں نے پوچھا : اگرمیرے بھائی میں وہ عیب ہے جو میں بیان کررہاہوں تو؟ آپ نے فرمایا: اگراس کے اندر واقعتاًوہ عیب پایا جاتا ہے تب ہی توغیبت ہے ، اگراس کے اندر وہ عیب پایا ہی نہیں جاتا تب تویہ بہتان ہے“۔ (مسلم)
مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ پاک نے غیبت سے روکتے ہوئے اس کی قباحت اس انداز میں بیان کی ہے جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،ایک ایسے انسان کا تصور جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو، مردارکاگوشت کھاناخودہی گھناونی بات ہے جس سے ہر انسانی طبیعت نفرت کرتی ہے ، پھر گوشت بھی کسی مردار جانور کا نہیں بلکہ انسان کا اور انسان بھی کوئی غیر نہیں بلکہ اپنا بھائی ، تصور کریں کہ کسی کاسگا بھائی اسکے سامنے مرا پڑا ہو اوروہ اس کے گوشت کو نوچ نوچ کرکھا رہا ہو ‘ دل دہلادینے والی مثال بیان کرکے اللہ تعالی نے اس جرم کی قباحت کی طرف اشارہ کیا ہے-
لیکن صدحیف آج ہماری مجلسو ں کا سب سے لذیذ گوشت یہی سمجھا جاتا ہے ،مزے لے لے کر اپنے سگے اورمردہ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کرکھاتے اور ڈکار لگاتے ہیں،ہمیںاس میں اتنا لطف ملتاہے کہ باربارکھانے کے باوجود طبیعت نہیں اکتاتی،منہ سے مردے کا خون ٹپک رہا ہوتا ہے ، گھناونی بدبو آرہی ہوتی ہے لیکن نشہ ہے کہ چھوٹے نہیں چھوٹتا ۔ العیاذ باللہ ۔ اورظاہر ہے جس کی دنیا میں ایسا ذائقہ دار گوشت کھانے کی عادت بن گئی ہو آخر آخرت میں اس سے کیونکرمحروم رکھا جائے گا لیکن وہاں تو کوئی انسان ملے گا نہیں کہ اس پر حملہ کرے ، اس لیے اپنا ہی چہرہ نوجتا پھرے گا- سنئے یہ حدیث:
”معراج کی شب میرا گذر ایک ایسی قوم سے ہوا جن کے ناخن تامبے کے تھے جن سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے میں نے جبریل امین سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے اور ان کی غیبت کرتے تھے“۔(ابوداؤد)
حضرت صفیہ رضى الله عنها پست قد تھیں ،ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضى الله عنها نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے کہہ دیاکہ صفیہ میں سے فلاں فلاں چیز آپ کے لیے کافی ہے۔( مراد قد کا چھوٹا ہونا ہے) نبی کریم نے فرمایا، لقد قلت کلمة لو مزجت بماءالبحر لمزحتہ۔ (ترمذی)"تم نے ایسا کلمہ کہا کہ اگر اسے دریا کے پانی میں ملادیا جائے تو اس کی حالت کو بدل دے"۔
توآئیے آج ہی سے عہد کریں کہ ہم سب کسی صورت میں اپنے مردہ بھائی گا گوشت نہ کھائیں گے یعنی کسی کی غیبت ہرگز نہ کریں گے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین یا رب العالمین

الأربعاء، سبتمبر 22، 2010

تذكير

يقول النبي صلى الله عليه وسلم " من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر" (مسلم) بشارة نبوية للصائمين ستا من شهر شوال ونحن في هذا الشهر، بالإضافة إلى ذلك أهل علينا أيام البيض التي يوافق بدايتها من هذا اليوم الموافق 22 سبتمبر 2010 فأيام البيض في هذا الشهر يوم الأربعاء والخميس والجمعة ، كما يدخل في هذه الأيام يوم الخميس ، ثلاث مناسبات إجتمعت مرة واحدة ، فرصة لمن لم يصم ستا من شوال حتى الآن أو بقيت بعضها يستغل هذه الأيام للصيام وينوي الثلاثة كلها -

ولا تنسوا المسجد البابري في دعائكم سائلين المولى عزوجل أن ينصر دينه وشعائره ويحفظ عرض نبيه من من الروافض المجرمين وأن يحرر أخواتنا من أديرة الكفار الظالمين وأن يحفظ المسجد الأقصى وأن يكشف راية النفاق وأن يدمر الصهاينة اليهود الحاقدين والشيوعيين والعلمانيين ومن عاونهم تدميرا هو ولي ذلك والقادر عليه
وفقنا الله لما يحب ويرضى ويقبل منا صالح أعمالنا آمين يا رب العالمين

الأحد، سبتمبر 19، 2010

أين نحن من هؤلاء ؟

قبل أيام جاء ني في اللجنة أخ كويتي معه غير مسلم نيبالى يرغب دخوله في الإسلام فرحبت بهما ثم توجهت إلى الأخ وسألت عن أحواله وظروفه والديانة التي يتدين بها فعرفت من خلاله أنه ولد في الأسرة الهندوسية إلا أن الكنيسة غلبت عليه فـتنصر (للمزيد إضغط هنا)

الخميس، سبتمبر 16، 2010

تعريف بجامعة الإمام ابن تيمية بمدينة السلام (الهند)

يمكن التعرف على جامعة الإمام ابن تيمية وأنشطتها بالضغظ على هذه الروابط






التعريف بمجلة "طوبى" ومجلة "الفرقان" بقلم فضيلة الشيخ ظل الرحمن التيمي 

إلحاق ومعادلة الجامعة بقلم فضيلة الشيخ سميع الله العمري 

أسلوب الجامعة والمركز التعليمي والدعوي بقلم : فضيلة الشيخ أبو القيس عبد العزيز المدني 


إنطباعات المشائخ عن الجامعة


جامعة الإمام ابن تيمية في نظر الدكتور مقتدى حسن الأزهري رحمه الله



وإنطباعات الدكتور الأزهري رحمه الله باللغة العربية يمكن قراءتها بالضغط هنا

الأربعاء، سبتمبر 15، 2010

پاکستان کے سیلاب زدگان ہماری ا مدادکے منتظرہیں


آج کل پوری دنیا میں مسلمان داخلی وخارجی مسائل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، عراق وفلسطین ،افغانستان اورکشمیر میں آئے دن مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے ، مصر میں متعدد نومسلم خواتین حکومت کی صہیونیت نوازی کی بدولت قبول اسلام کے جرم میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جسمانی استحصال کا شکار ہو رہی ہیں، مغربی ممالک میں حجاب، قرآن اور نبی رحمت کے ساتھ کھلواڑ کوترقی پسندی اور حدود الہی کی تنفیذ کو رجعت پسندی کا نام دیا جا رہا ہے ، ہندوستان میں بابری مسجد کا فیصلہ الہ آباد ہائی کورٹ سے 24 ستمبر کو آنے والا ہے ، فیصلہ خواہ مسلمانوں کے حق میں ہو یا نہ ہو ہر دوصورت میں معاملہ نہایت سنگین اور صبر آزما ہے ، پاکستان میں ایک طرف دہشت گردی اور شدت پسندی کے حادثات نے پاکستانی قوم کوسسکیاں لینے اور آہیں بھرنے پر مجبور کردیاہے تودوسری طرف فی الوقت سب سے بڑی مصیبت بدترین سیلاب کی تباہ کاری کی صورت میں ہمارے سروں پر آئی ہوئی ہے، جس نے 80 سال کا ریکارڈ توڑتے ہوئے چار صوبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ آج پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے ، ایک اندازے کے مطابق دو کروڑ سے زائد لوگ سیلاب سے متاثر ہیں، وہ کھلے آسمان تلے حسرت کی تصویربنے ہمیں دیکھ رہے ہیں، ان کے آشیانے زیر آب ہوگئے ، ان کے زراعتی اراضی دریا برد ہوگئے، ذرائع روزگار ختم ہوچکے ، سڑکیں تباہ ہوچکیں ، کتنی مائیں جگرگوشوں سے محروم ہوگئیں، کتنے بچے یتیم ہوگئے، کتنی بیویاں سروں کا تاج کھو بیٹھیں، کتنی سہاگنوں کا سہاگ لٹ گیا، کل تک وہ ہمارے ہی جیسے تمنائیں اور آرزوئیں لیے ہوئے تھے لیکن آج ان کے خوابوں کے شیش محل چکناچور ہوچکے ہیں ،الکٹرانک میڈیا جب ان کے دلدوز مناظرپیش کرتا ہے توآنکھیں اشک بارہوجاتی ہیں، تباہی ایسی ہے کہ امیر وغریب کا فرق مٹ چکا ہے، دینے والا ہاتھ لینے والا ہاتھ بن چکا ہے، غذائی اشیاءکی شدید قلت ہے، صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں، اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بانکی مون نے جب اپنے ایک روزہ دورہ میں تباہی کے مناظر دیکھے تو اعتراف کیا کہ میں نے ایسی تباہی اپنی زندگی میں کبھی نہ دیکھی پھر انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ سیلاب زدگان کی تعمیر نو کے لیے تمام ممکنہ وسائل کے ساتھ آگے آئیں ۔ پاکستان کی ساری ملی تنظمیں انسانی اور قومی ہمدردی کا ثبوت دےتے ہوئے ہرممکن تعاون کررہی ہیں، بیرون ملک سے بھی تعاون آرہا ہے لیکن تباہی اتنی شدید ہے کہ اس کی بھرپائی نہیں ہوپا رہی ہے ، سیلاب زدگان کی داد رسی ہماری اولیں ترجیح ہونی چاہیے۔ انہیں ضرورت ہے ہماری مدد کی ، ہمارے تعاون کی،ہماری ہمدردی اورغم خواری کی۔

بفضلہ تعالی ہم کویت میں برسرروزگارہیں، خوشحال وفارغ البال ہيں یا کم ازکم ہمیں بے نیازی حاصل ہے ، ہم آرام سے ایرکنڈیشن فلیٹ  میں رہ رہے ہیں، ہمیں صحت مند زندگی میسرہے ، من پسند اور مرغن غذائیں کھارہے ہیں جبکہ ہمارے ہی بھائی بہن سرچھپانے کے لیے سائبان کے محتاج ہیں ، بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ادویات کے ضرورتمند ہیں،زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی کے احتیاج مند ہیں، ہمیں شاید اس کا شعور نہیں کہ ہماراجسم لہولہان ہے ،درد وکرب سے کراہ رہا ہے،ذراغورکیجئے اس حدیث پر:
”مسلمانوں کی مثال آپسی ہمدردی ،محبت اور رحم دلی میں ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک عضو کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بخار اور بے خوابی سے پورا جسم مثاتر ہوتا ہے “ (بخاری ومسلم)
اس حدیث پاک میں مسلمانوں کے مابین قائم ہونے والے تعلق کو جسد واحد سے تشبیہ دے کر واضح فرمایا گیا کہ امت مسلمہ منتشراجزاءاور مختلف اقوام کا نام نہیں بلکہ ایک ہیکل اور جسم کانام ہے ، اور ایک جسم میں ایک ہی دل اور ایک ہی روح ہوتی ہے ، اس طرح مومن کی سوچ اور اس کا ارادہ ایک ہوتا ہے ، مختلف اجسام ہونے کے باوجود ایک قالب ہوتے ہیں،اسکے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے سارے اعضاء تیماردار بن کر تکلیف کا ساتھ دیتے ہیں اور بے خوابی کا شکار ہوجاتے ہیں ، ویسے ہی ایک مسلمان کو کوئی مصیبت آتی ہے یا تکلیف پہنچتی ہے تو قومیت ، رنگ ونسل اور ذات پات کی تمیز کے بغیر اسے فوری احساس ہوناچاہیے کہ اس کے جسم کا ایک عضو بیمار ہے ،اس کی تیمارداری کرے،اس کی مدد کرے ، اور اس کی مصیبت کو دور کرنے میں لگ جائے ۔
ہمارے پاس مال اللہ پاک کا عطیہ ہے ،اس نے ہمیں وقتی طو رپر اس پر ملکیت عطاکی ہے اور اس میں فقراءومساکین کا بھی حق رکھا ہے ،کل قیامت کے دن اس کی بابت پوچھ گچھ ہوگی(ترمذی) پھر صدقات وخیرات کے بے شمار فوائد بھی بتائے گئے ہیں چنانچہ صدقہ غضب الہی کو دور کرتا اور بری موت سے بچاتا ہے (ترمذی) گناہوں اور معاصی کومٹاتا ہے ( صحیح الجامع ) میدان محشر کی ہولناکی میں ہمیں سایہ کیے ہوگا (صحیح الجامع ) جبکہ کتنے لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے ، آج ہم اپنے بھائی کی مصیبت کودورکریں گے تو کل قیامت کے دن ہمارا خالق ومالک ہماری مصیبت کودور فرمائے گا (بخاری ) پھرصدقہ وخیرات کرنے سے مال میں حسی ومعنوی دونوں طرح افزائش ہوتی ہے(البقرة 274) ،کیا دنیا میں کوئی ایسا بنک ہے جو ایک کا سات سوگنا دیتاہو لیکن رب عرش عظیم کے بنک نے ہم سے ایک دینار کے بدلے سات سو دینار دینے کا وعدہ کیا ہے بلکہ بعض لوگوں کواس سے بھی زیادہ ملے گا :
”جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن (کے مال) کی مثال اُس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اُگیں اورہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس(کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتاہے اور وہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے“۔(سورہ بقرہ 241)
ہرروز جب بندہ صبح کرتا ہے دوفرشتے نازل ہوتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں ، ایک کہتا ہے ”یا اللہ نہ خرچ کرنے والے کے مال کو ضائع کردے“ دوسرا کہتا ہے ”اے اللہ خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما “ (بخاری )
اوراللہ تعالی کو کمیت سے زیادہ کیفیت مطلوب ہے ،معمولی تعاون کوبھی حقیر نہ سمجھیں ”جہنم کی آگ سے بچو گوکہ آدھی کھجور کے ذریعہ ہی سہی“ (بخاری ومسلم) ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایاتھا ”ایک درہم ایک لاکھ درہم پر سبقت لے گیا“ایک شخص نے کہا:یا رسول اللہ! ایسا کیسے ہوا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: (وہ اس طرح کہ ) ایک آدمی جس کے پاس وافرمقدارمیں مال ہے اس سے ایک لاکھ نکال کر صدقہ کردیتا ہے جبکہ دوسرا شخص دو درہم کا مالک ہے اس میں سے ایک درہم صدقہ کردیتا ہے “(نسائی ، ابن ماجہ ،ابن خزیمہ،حاکم)
عزیز قاری ! یقیناً سیلاب زدگان کے لیے یہ آزمائش کی گھڑی ہے تاہم ہمارے لیے بھی آزمائش ہے کہ ہم کس قدر ان کی مدد میں ہاتھ بٹاتے ہیں ،تو آئیے ایک جسم ہونے کا ثبوت دیجئے،سیلاب زدگان کے درد کو محسوس کیجئے ،اگر آپ نے ان کی مدد کی ہے تو مزید کی ہمت کیجئے کیونکہ ان کی پریشانیاں سوا ہوتی جارہی ہیں اور اگر اب تک نہیں کی ہے تو اپنی استطاعت اور وسائل کے مطابق پہلی فرصت میں ان کاتعاون کیجئے ،کیا معلوم کے کل ہمیں بھی وہی دن دیکھنا پڑے جس سے آج وہ گذر رہے ہیں ۔

السبت، سبتمبر 11، 2010

كل عام وأنتم بخير

العيد جاءتنا وكيف لا تأتي وقد أنتهى شهر رمضان ، شهرالصيام والقيام ولكن الأسف الأمة الإسلامية في العالم الإسلامي بأسره في حالة بؤس وإضمحلال، في قلق واضطراب ، تحيطها من كل جانب عفريت الهم والخوف، تعاني مشاكل داخلية وخارجية، فما بال المسلين مهمومين في عراق وأفغانستان وفلسطين وكشمير؟ ألا ترى ما يحدث في فلسطين من القتل والتشريد لأهل فلسطين من قبل الصهاينة اليهود وفي مصر أخواتنا في الإسلام تعذب في السجن في بلد المسلمين من قبل الكنيسة المتعصبة وهي صابرة محتسبة حالها كـحال آسية زوجة فرعون ، وانظر حال المسلمين وبؤسهم في باكستان كيف دمرت الفيضانات بيوتهم،ولكن الجرحى والقتلى تتقاطر دمائهم يوميا إثر قنبلات إنفجارية، والسوال الذي يطرح نفسه هل المسلم يضرب أعناق المسلم في شهر رمضان المبارك وهوصائم ؟ من وراء ثلاثة إنفجارات خلال نصف ساعة في مسيرة نظمها الشيعة في غرب باكستان، وبالتالى إنفجارات في يوم فلسطين؟ أ هم مسلمون ؟ فقد شهد شاهد من أهلها و كشفت الدراسات الأمريكية حاليا أن مثل هذه الإنفجارات يتم تنفيذها من قبل سي آي أي وموساد ، لا كما يطرأ في الذهن بالبداهة إرهاب طالبان والقاعدة ، فليكن المسلم على بصيرة من أعداءه ،
هذا وإن قضية المسجد البابرى تحت المناقشة في محكمة الدستورية العليا بإله آباد وسيعلن إستحقاقه 24 من سبتمبر الجاري، لا أدرى هل الحكم يكون للمسلمين أم عليهم .
ونحن لا نملك في هذه الظروف الحرجة الا أن نتضرع إلى الله تعالى أن يحفظ الإسلام والمسلمين وأن يفرج كرب المكروبين إنه نعم المولى ونعم النصير. كل عام وأنتم بخير تقبل الله منا ومنكم صالح الأعمال