الجمعة، مارس 06، 2020

*آہ! وہ مشفق و مربی کہاں سے لاؤں؟*

تابش تيمى 

عالم اسلام کے مایہ ناز سپوت، قد آور وعظیم شخصیت، مفسر قرآن، محدث کبیر، ادیب بے مثال، فقیہ زماں، درجنوں کتابوں کے مصنف ومترجم، جامعہ امام ابن تیمیہ، بہار کے بانی وروح رواں اور علامہ ان باز اسلامک اسٹدیز سنٹر کے  مؤسس ومشرف اعلیٰ،  ہمارے مشفق و مربی *علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ* کے سانحۂ ارتحال کی  افسوسناک و جانکاہ خبر کل جمعرات کی شام کو ملی تو رونگٹے کھڑے ہو گئے، ہاتھوں میں لرزش طاری ہو گئی،  بدن نقاہت کی دنیا میں کھو گیا،  آنکھوں کے  سامنے اندھیرا چھا گیا، آنکھیں اشکبار ہوگئیں، آپ کا پورا سراپا نظروں میں گھوم گیا اور سوچنے لگا اب وہ مشفق و مربی کہاں سے لاؤں،  ہمت نہ ہوئی کہ کچھ زیادہ لکھ سکوں پھر بھی لرزتے ہاتھوں سے تعزیت کے چند کلمات لکھ کر ارسال کر دیا، دوسرے دن غم و اندوہ سے تھوڑی راحت ملی تو چند سطور قرطاس کے حوالے کر نے کی جسارت کر رہا ہوں۔
آپ کا پورا نام ابو عبد اللہ محمد لقمان بن محمد تبارک بن یاسین بن سلامت اللہ بن عبد الکریم صدیقی سلفی ہے، آپ کی پیدائش ہندستان کے مشرق میں واقع بہار کے مشہور ضلع مشرقی چمپارن کے معروف گاؤں مدینۃ السلام چندنبارہ میں تقریبا ۱۹۴۱ ء میں ہوئی،  آپ نے اپنے والدین کی آغوش میں پرورش پائی، آپ کے والدین بہت صالح و نیک  تھے  جن کی صالحیت و تقوی کی شہادت لوگ دیا کرتے ہیں، چونکہ آپ کا خاندان مالداری و غنی سے دور تھا، لیکن دیندار اور صالح گھرانہ تھا، جس کا گہرا اثر آپ کی شخصی زندگی پر بہت گہرا رہا، اسلیے آپ نے دوران طالب علمی میں نہایت غربت کی زندگی گزاری ہے، اور وہی تواضع و خاکساری اور اخلاص  ان کی پوری زندگی میں نمایاں رہا۔
آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنے گاؤں کے مکتب سے کیا جہاں آپ نے قرآن کریم پڑھا، ابتدائی تعلیم مولانا محمد الیاس سے حاصل کیا، پھر شہر ڈھاکہ میں مدرسہ اسلامیہ میں داخلہ لیا اور وہاں نحو، صرف، فارسی ، اردو، حساب اور فقہ حنفی کی تعلیم حاصل کی، ۱۹۵۵ء میں وہاں سے دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ منتقل ہوگئے، جہاں آپ نے ماہرین علوم و فنون سے  علوم شرعیہ کی تعلیم حاصل کی، ۱۹۶۱ء میں  وہاں سےسند فراغت حاصل کی، ۱۳۸۲ھ میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے ان کی ترشیح ہوئی جہاں انہوں نے کلیۃ الشریعہ سے لیسانس کی ڈگری حاصل کی اور عظیم محدث علامہ البانی رحمہ اللہ اور مفتی مملکہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے خاص شاگرد رہے، ۱۳۸۷ھ میں اپنے شیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے اشارہ پر  ریاض آنے کے بعد المعہد العالی للقضاء سے تین سال گذارنے کے بعد حجیۃ السنۃ فی التشریع الاسلامی نامی رسالہ لکھ کر ماجستیر کی ڈگری حاصل کی، پھر چند سالوں کے بعد   جامعہ امام محمد بن سعود سے اہتمام المحدثین بنقد الحدیث سندا و متنا نامی رسالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اس درمیان آپ علامہ ابن باز کی زیر نگرانی ان کے مکتب میں باحث کی حیثیت سے کام کرتے رہے، وہاں کے مختلف جالیات و مکاتب میں دروس و محاضرہ کا اہتمام کرتے رہے، بڑے بڑے کانفرنسوں میں شرکت کے لیے کویت، امریکہ، پاکستان اور ہندستان کے دور دراز علاقوں کا سفر کیا،  آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے شیخ و مرشد علامہ ابن باز کے ایما پر چندنبارہ میں ایک عظیم الشان اسلامی قلعہ جامعہ امام ابن تیمیہ کی بنیاد رکھی اور   اپنی دن رات کی محنت و لگن سےاسے عروج و ارتقاء کی شاہراہ پر گامزن کیا، یہاں تک کہ اسے عالمی شہرت یافتہ ادارہ بنا دیا جس کی زندہ و جاوید مثال تیمی برادران کا دنیا کے گوشے گوشے میں اپنی علمی خدمات پیش کرنا ہے،  مدینۃ السلام چندنبارہ ہی مین آپ نےعلامہ ابن باز اسلامک اسٹدیذ سنٹر قائم کیا جہاں سے مجلہ طوبی و مجلہ الفرقان پابندی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں، نیز آپ کی علمی خدمات کا اندازہ آپ کی تصنیفات سے بھی لگایا جاسکتا ہے، چاہے تفسیر کا میدان ہو یا حدیث کا، فقہ کا مجال ہو یا ادب کا، سیرت  نگاری کا میدان ہو  ترجمہ نگاری کا، ہر میدان میں آپ کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں، بعض تصنیفات تو ہر خاص و عام میں مقبول ہیں، بعض توہندستان کے دینی مدارس میں د اخل نصاب بھی ہیں ، تیسر الرحمن لبیان القرآن اور الصادق الامین نے تو  ہند و بیرون ہند میں آپ کی شہرت میں چار چاند لگا دیا۔
       حقیقت یہ ہے کہ آپ کی جتنی بڑی قد آور شخصیت تھی اللہ تعالی نے آپ کو اتنی ہی خاکساری  سے نوازا تھا، میری آپ سے پہلی ملاقات ۱۹۹۸ء میں ہوئی جب میں طلب علم کی غرض سے جامعہ میں داخل ہوا تھا، استاد محترم شیخ ارشد مدنی کے توسط سے ڈاکٹر صاحب سے لقا کا شرف سال میں کم سے کم دو دفعہ ہو ہی جاتا تھا،    آپ بڑے پیارے اور شفقت بھرے انداز میں نصیحت کرتے ، محنت کی تلقین کرتے ، خاکساری  و تواضع پر ابھارتے ہوئے کہا کرتے تھے عزیزم! آپ ذہین ہیں، لیکن کبھی بھی اپنی ذہانت پر فخر نہیں کیجیے گا کیونکہ میں نے بہت سے ایسے ذہین و فطین طلبہ کو دیکھا ہے جنہوں نے فخر و تعلی کو اختیار کیا، تو پتہ نہیں انہیں کس زمین نے نگل لیا یا کس آسمان نے اچک لیا، آپ  کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ غریب و نادار طلبہ کی پوشیدہ انداز  میں مالی تعاون کیا کرتے تھے، متفوقین طلبہ کو خصوصی نصیحت کرتے،  عام طلبہ کے ساتھ بڑی تواضع کے ساتھ پیش آتے تھے،  مجھے بھی مسلسل آٹھ سالوں تک  سال میں دو مرتبہ آپ کے دروس  سے استفادہ کا موقع ملا، آپ کی خاکساری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے سے کم تر درجہ کے علماء حتی کہ اپنے طلبہ کو بھی  کبھی تم کے لفظ سے یاد نہیں کرتے تھے، آج کے بڑے لوگ چھوٹے علما کو کال  کرنے میں سبکی محسوس کرتے ہیں، لیکن  قربان جائیے ڈاکٹر صاحب کے تواضع پر کہ وہ خود اپنے طلبہ و فارغین کو فون کرتے ، ان کے احوال دریافت کرتے تھے، جامعہ سے  محبت کی تلقین کرتے،  اپنے فارغین کی سرگر میوں و نشاطات کی تعریف کرتے، مجھے وہ دن آج تک یاد ہے، جب میں ۲۰۰۹ء کے اخیر میں جامعہ میں تدریس کی خدمت پر  مامور ہوا اور ڈاکٹر صاحب کی آمد مبارک ہوئی تو خصوصی طور پر بلاکر مولانا طاہر مدنی رحمہ اللہ اور ان کے ہمراہ دیگر علما سے تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے بیٹے جیسے ہیں، جامعہ میں مسلم شریف کی تعلیم دے رہے ہیں، یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے، پھر نصیت بھی کہ یہ آپ کی مادر علمی ہے، یہاں جم کر استقامت کے ساتھ کام کیجیے، لیکن افسوس کچھ نامساعد حالات کی بنا پر میں زیادہ دن تک نہ رہ سکا اور مادر علمی سے  جدائیگی کا غم سہنا پڑا ، قدر اللہ ما شاء فعل۔
طلبہ سے آپ کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہمیشہ انہیں اپنے بیٹے اور عزیز طلبہ کہ کر خطاب کرتے،  اگر کوئی مسئلہ ہوتا تو فورا حل کرتے اور کراتے، جامعہ سے لگاؤ پر ابھارتے تھے، جس سال میری فراغت ہوئی سن ۲۰۰۴ء میں تو اس سال سالانہ پروگرام میں علامہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے بذات خود شرکت کی،  اس موقع پر میں نے ایک نظم پڑھی تھی جس  میں ہر بندکا آخری  شعر تھا:‘‘ ہم سبھوں کا ملن آخری بار ہے’’، جب میں نے نظم مکمل کی تو ڈاکٹر صاحب نے  ابتسامانہ لہجے حاشیہ چڑھاتے ہوئے کہا تھا‘‘ عزیزم! آپ یہ نہ کہیں کہ ہم سبھوں کا ملن آخری بار ہے بلکہ یوں کہیں کہ ہم سبھوں کا ملن بار بار ہو’’
   صرف یہی نہیں بلکہ  آپ کی شخصیت واقعی عظیم تھی، علم اتنا گہرا تھا کہ کسی بھی موضوع پر کہیں بھی کسی وقت گھنٹوں بولنے لگتے تھے، مسائل کا ادراک بہت پختہ تھا، زباں بہت شیریں تھی اور آپ بہت ملنسار اور خوش مزاج تھے۔  آپ کی تحریر بہت عمدہ تھی، اہل عرب بھی آپ کی تحریر پر اشک کیا کرتے تھے، اللہ جل شانہ آپ کی مغفرت فرمائے، نا قابل شمار جلیل قدر اعمال وخدمات کو شرف قبولیت بخشے، آپ کو اعلی علیین میں  جگہ مرحمت فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطاء کرے اور آپ کے بسائے ہوئے امن وآگہی کے شہر "مدینہ السلام" کو آباد رکھے، آپ کے ہاتھوں لگاا ئے گئے شجرہ طیبہ جامعہ امام ابن تیمیہ اور مرکز کی حفاظت فرمائے  اور جامعہ کی در ودیوار کو آپ کی بخشش و رفع درجات کا ذریعہ، اور صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین!(تابش تیمی )
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

ليست هناك تعليقات: