الجمعة، يونيو 12، 2015

دہشت گرد
ساگر تیمی
گھوپ اندھیرا تھا ۔ تنگی ہی تنگی تھی ۔ جیل کی اس کوٹھری میں حیات کے لیے نہیں موت کے لیے ہی جگہ ہو سکتی تھی ۔ جلال الدین کو اندر زنجیروں میں مقید گھسیٹ کر لایا گیا ۔ چہرے پر بھر کلا داڑھی ، آنکھوں میں چمک اور پیشانی پر سجدے کا نشان جس سے اس کے چہرے کی دمک اور بھی بڑھتی جارہی تھی ۔
جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے کوٹھری کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا : اب سمجھ میں آئے گا کمینے کہ دیش کو بگاڑنے کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہم کیا برتاؤ کرتے ہیں ۔ جلال الدین کے ہونٹوں پہ پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی جو بہت جلد معدوم بھی ہوگئی ۔ سپرنٹنڈنٹ کے جانے کے بعد جلال الدین نے اپنےنزدیک کانسٹبل سے ایک لوٹے پانی کی درخواست کی ۔ کانسٹبل نے بادل نخواستہ حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے جلال الدین کو پانی کا لوٹا لاکر دیا ۔ جلال الدین نے وضوبنا کر نماز ادا کی اور اپنی جگہ بیٹھ کر قرآن حکیم کی تلاوت میں مصروف ہوگیا ۔ آہستہ آہستہ اس نے لوگوں سے اپنے مراسم بنانے شروع کیے ۔ کانسٹبل جو اس کی دیکھ ریکھ پر مامور تھا ، نسبۃ بڑی عمر کا آدمی تھا ۔ جلال الدین نے اس سے کہہ دیا کہ اسے اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ وہ اپنے کام خود کرسکتا ہے بلکہ اس نے اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا شروع کردیا ۔ اس کوٹھری کے اندر موجود دوسرے قیدیوں کی بھی جلال الدین نے خدمت کرنی شروع کردی ۔ بالعموم وہ دو کام کرتا ۔ یا تو رب کی عبادت کرتا یا لوگوں کی خدمت ۔ جیل کے سارے قیدی رفتہ رفتہ اس کے گرویدہ ہوگئے ۔
   چنو کانسٹبل یہ تو دیکھ رہا تھا کہ جلال الدین رب کا گن گاتا ہے اور رب کے بندوں کی سیوا کرتا ہے ۔ لیکن اسے ایسا لگتا تھا کہ یہ آدمی ہے تو بہت خطرنا ک ۔ یہ تو دیش دروہی ہے ۔ معصوم لوگوں کی جان لیتا ہے ۔ ایسا یہ اس لیے کررہا ہے کہ ہمیں اپنے بس میں کرکے جیل سے بھاگ سکے ۔ در اصل یہ اس کی سازش ہے ۔ لیکن اسے ایک بات کھائے جارہی تھی کہ آخر جلال الدین شرماجی کی اتنی خدمت کیوں کررہا ہے ۔ کیا اسے یہ بات نہیں معلوم ہے کہ اسی شرما نے اسے جیل کی اس کال کوٹھری میں بھجوایا ہے اور نہ جانے کیوں خود اسے بھی اسی جیل میں آنا پڑ گیا ہے ۔
جلال الدین کے لیے وہ دن سخت ہوتا جب اعلا افسران کی پوری ٹیم آکر اس سے پوچھ تاچھ کرتی اور مختلف قسم کی گالیوں سے اسے نوازا جاتا۔ وہ سب کی سنتا اور بس اتنا کہتا کہ جن گناہوں کی بات آپ کرتے ہیں وہ نہ اخلاقی اعتبار سے اور نہ ہی دینی اعتبار سے جائز ہیں ۔ میں ایسا نہیں کرسکتا اور نہ میں نے ایسا کیا ہے ۔ اعلا افسران کہتے کہ  پھر جو مسلمان تمہاری طرح داڑھی والے یہ سب کرتے ہیں ان کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ جلال الدین کا ایک ہی جواب ہوتا : غلط کرنے والا چاہے جس نام کا ہو ، غلط غلط ہی ہوتا ہے ، وہ صحیح نہیں ہو سکتا ۔ معصوموں کی جان لینا حیوانیت ہے ، انسانیت نہیں ۔ اسلام تو اعلا انسانیت کا درس دیتا ہے ۔
چنو کانسٹبل یہ باتیں سنتا اور پھر اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات گردش کرنے لگتے ۔ وہ سوچتا کہ یہ آدمی اتنے دن سے ہے ، دہشت گرد ہے تو پھر یہ اتنا اچھا کیوں ہے ؟ افسروں کے پاس بھی یہ کوئي غلط بات نہیں بولتا ۔ آج تک اس نے مجھ سے کچھ بھی غلط نہیں کہا ، الٹے میری خدمت کیا کرتا ہے ۔ اس کے ذہن میں ایک بات آئی کہ کیوں نہ شرما کے بارے میں اسے بتایا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ وہ نندو کے ساتھ کس قسم کا رویہ اپناتا ہے ؟ اس نے ایک دن جب کہ وہ اس کی خبر خیریت اور اس کے بچوں کی تعلیم وغیرہ سے متعلق دریافت کررہا تھا ۔ چنو نے بات کاٹ کر بتلایا کہ آپ کو مولانا صاحب! شرماجی ہی کی وجہ سے یہاں آنا پڑا ہے ۔ اسی نے آپ کے بارے میں باضابطہ گواہی دے کر آپ کو پھنسایا ہے ۔ جلال الدین نے خاموشی کے ساتھ اس کی بات سنی اور کہا کہ مجھے تو یہ بات نہیں معلوم تھی اور اگر ایسا تھا بھی تو آپ نے بتاکر اچھا نہیں کیا ۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اب شرما جی کے بارے میں میرا اخلاقی رویہ خراب نہ ہو جائے ۔ انہوں نے ضرور غلط فہمی میں ایسا کیا ہوگا ۔ میری ان کی تو پہلے کی ملاقات بھی نہیں ہے ۔ خیرچلیے کوئي بات نہیں ۔
چنو نے نوٹ کیا کہ اس اطلاع کے باوجود جلال الدین کا رویہ شرما کے بارے میں بدلا نہیں ہے ۔ وہ پہلے ہی کی طرح بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ شرما کا خیال رکھ رہا ہے ۔ اب چنو کے دل کی دنیا بدلنے لگی ۔ اسے لگنے لگا کہ اس آدمی کو ضرور پھنسایا گیا ہوگا ورنہ اتنا اچھا آدمی معصوم لوگوں کی جان کیسے لے سکتا ہے ؟
     اس نے شرما جی  سے ایک روز پوچھ دیا کہ آپ نے جس دہشت گرد کے خلاف گواہی دی تھی وہ کیسا آدمی تھا ؟ وہ بہت خطرناک ، دیش دروہی اور معصوموں کی جانیں لینے والا آدمی تھا ، خونخوار اور نہایت گھٹیا ۔ چنو نے پھر سوال کیا تو کیا آپ نے اس کو دیکھا تھا ؟ تم اس قسم کے سوالات کیوں کررہے ہو ؟ یہ نہ تو تمہاری ذمہ داری ہے اور نہ تمہارا منصب ۔ تم اپنے کام سے کام رکھو ۔ چنو نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا وہ تو آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔ ویسے اس آدمی جلال الدین نے میرے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ انتہائی درجے میں خراب آدمی ہے ۔ بے ہودہ اور درندہ قسم کا ہے ۔ میں ۔۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چپ رہو ، وہ تو کتنا شریف ، سشیل ، نیک ، خدمت گزار اور اخلاق مند آدمی ہے ۔ سب کی خدمت کرتا ہے اور بقیہ وقت میں پوجا پاٹ میں لگا رہتا ہے ۔ تم کانسٹبل لوگ کسی اچھے انسان کی اچھائی قبول نہیں کرسکتے ۔ بولتے بولتے شرماجی کی آواز میں جوش کی کارفرمائی بڑھتی چلی گئی ۔ چنو نے کہا یہی تو مسئلہ ہے شرما جی کہ یہ وہی آدمی ہے جس کے خلاف گواہی دے کر آپ نے اسے دہشت گردی کے جرم میں پھنسوایا ہے ۔
شرما : کیا ؟ ایسا نہیں ہو سکتا ۔
چنو : ایسا ہی ہے !
شرما : کیا اسے معلوم ہے کہ میں نے اس کے ساتھ ایسا کیا ہے ؟
چنو : اسے تو میں نے ہی بتایا تھا آپ کے بارے میں ۔
شرما: کب ؟
چنو : کئی دن ہوگئے ۔
شرما : لیکن وہ تو میری خدمت پہلے سے بھی کہيں زيادہ کررہا ہے ۔
چنو : اسی لیے تو میری بھی سمجھ میں نہیں آرہا ۔ آپ نے ضرور کوئی بھول کی ہوگی ۔
شرما : اس کا مطلب ہے ان لوگوں نے مجھے بے وقوف بناکر ایک شریف آدمی کو پھنسا دیا ۔ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ وہ معصوموں کی جانیں لیتا ہے ، بم پھوڑتا ہے اور جہاں کہیں مسجد کے علاوہ کوئي دوسری عبادت گاہ دیکھتا ہے اس کا خون کھول جاتا ہے ۔ وہ دیش میں کسی غیر مسلم  کو جینے نہیں دینا چاہتا ۔ مجھ سے تو گھور پاپ ہوگیا ۔
چنو : یعنی آپ نے خود آنکھوں سے اسے جرم کرتے نہیں دیکھا تھا ؟
شرما : اب تم زيادہ تفصیل میں مت جاؤ ۔ میں بھگوان سے صرف یہ پرارتھنا کرتا ہوں کہ اب کی بار مجھے سب کچھ سچ سچ بولنے کی شکتی پردان کردے ۔ میں اس بھلے منش کو اس طرح پھنساکر چین کی زندگی نہیں جی پاؤنگا ۔
دوسرے دن اخبارات کی سرخی تھی کہ جلال الدین کے بارے میں نندو کا سنسنی خیز بیان ۔ نندو نے بتایا کہ جلال الدین نردوش ہے اور مجھے غلط طریقے سے استعمال کیا گیا تھا۔ جیل میں بہت قریب سے اس آدمی کو دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ تو آدمی نہيں فرشتہ ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔  












الأربعاء، يونيو 10، 2015

چندہ : تصویر کا دوسرا رخ
ثناءاللہ صادق تیمی ،  مکہ مکرمہ ، سعودی عرب
 ایک ایسا لفظ جس کے بولتے ہی انسان ایک دوسرے ہی احساس کے تلے دب جاتا ہے ۔ مدارس کے وہ طلبہ جو فراغت کے کنارے کھڑے ہوتے ہیں انہیں سب سے زيادہ کوئي لفظ گھبراہٹ میں ڈالتا ہے تو وہ یہی لفظ ہے ۔ ایسے کمال یہ بھی ہے کہ بالعموم اس سے زیادہ گھبرانے والے طلبہ ہی بعد کے زمانے میں اس کی زد میں آتےہیں یا یوں کہیے کہ چندے کی یہ دیوی ان پر ہی زیادہ مہربان ہوتی ہے ۔ مدارس و جامعات کے اندربالعموم اساتذہ چندہ کے دوران کے وہ دلسوز اور پریشان کن تجربات طلبہ سے شيئر کرتے ہیں کہ تھوڑی بہت غیرت رکھنے والا طالب علم بھی رات دن یہ دعا نہیں کرتا بھی تو سوچتا ضرور ہے کہ وہ اس صورت حال کی زد میں نہ آئے ۔ لفظ چندہ در اصل نئے فارغین مدارس کے لیے بڑے باپ کی ایک ایسی بد صورت دوشیزہ ہوتی ہے جس سے وہ کسی صورت میں شادی نہیں کرنا چاہتا لیکن اسے اپنی سماجی صورت حال کی وجہ سے ماں باپ کے آگے ہتھیار ڈال دینا پڑتا ہے ۔
     لیکن تھوڑا ٹھہر کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا چندہ کو لے کر اپنایا گیا یہ رویہ بجا ہے ؟ کیا چندہ واقعۃ ایک نامعقول اور غیر شریفانہ عمل ہے ؟ کیا چندہ سے منسلک ہماری کوئي تاریخ رہی ہے ؟ یہ ایک سماجی تفاعل ہے یا بنی نوع انسان کی باضابطہ ضرورت ؟
         زیادہ دور نہ جاکر اگر رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کر لیاجائے تو پتہ چلے کہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چندہ کیا ۔ غزوہ تبوک کے موقع سے عام منادی اور تمام لوگوں سے چندے کی درخواست کا ہمیں علم ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بعض دوسرے مواقع سے بھی سماجی ضرورتوں کے تحت عہد نبوی میں چندہ کیا گیا ۔ زکوۃ کو چھوڑ دیجیے ۔ صدقے پر اسلام میں باضابطہ ابھارا گیا اور بہت سے مسلمان اپنی اس صفت کی وجہ سے مشہور بھی ہوئے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بطور مثال دیکھا جاسکتا ہے ۔     
          سچی بات یہی ہے کہ مشترک خیر پر مشتمل سماجی کاموں کے لیے چندہ کرنا ہی پڑتا ہے ۔ زيادہ بڑا کام ہمیشہ چندے سے ہی ہوتا آیا ہے ۔ حکومت اگر بہت مضبوط ہو تو اور بات ہے ورنہ چندہ کے بغیر کام چلتا کب ہے ۔ آج کی جمہوری دنیا میں بھی چندے کا کاروبار بہت زوروں پر ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اب نام تھوڑے خوب صورت گڑھ لیے گئے ہيں ۔ این جی اوز کیا کرتے ہیں ؟ مختلف ادارے جو فلاحی کاموں کے لیے بنائے گئے ہيں وہ مختلف طریقوں سے چندے وصول کرتےہیں اور پھر مستحقین تک پہنچانے کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ بڑی بڑی جمہوریتوں میں چندے بہت معنی رکھتے ہیں ۔ امریکہ کی ہر بڑی سیاسی پارٹی الیکشن لڑنے کے لیے چندہ کرتی ہے ۔ ہندوستان میں سیاسی پارٹیاں یہی کرتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں چندے دھونسیا کربھی لیے جاتےہیں اور آہ و زاری کرکے بھی اور یہ منحصر ہوتا اس بات پر ہے کہ دینے والے کی حیثیت کیا ہے ۔ شریفوں والی ڈھب ہے کیا غنڈوں والا طرز۔ خیر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چندہ سے کہیں چھٹکارا نہیں ہے ۔
سر سید احمد خان نے جب علی گڑھ کالج بنانے کا پروگرام بنایا تو چندہ کے لیے نکلے ۔ بیان کیاجاتا ہے کہ ایک سیٹھ نے یہ کہہ کر ان کے منہ پر تھوک دیا کہ اکثر مولوی ملا ٹائپ کے لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں اور سرسید نے اپنی دستی سے تھوک صاف کرکے کہا کہ سیٹھ جی میں ایک اچھے کام میں آپ کا تعاون مانگ رہا تھا ۔ آگے آپ کی مرضی اور پھر سیٹھ جی نے معافی مانگی اور خطیر رقم سے نوازا ۔
         ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے سقوط کے بعد جب دینی اداروں کا جال بچھایا گیا تو ان کے چلانے کا ذریعہ یہی عوامی چندے بنے ۔ اصحاب خیر اور صاحبان دولت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بڑے بڑے تعلیمی اور تصنیفی اور دوسرے رفاہی ادارے قائم ہوئے اور ان سے مسلم سوسائٹی کا فائدہ ہوا ۔ تقسیم ہند وپاک کے بعد ہندوستانی مدارس کے پاس سوائے عوامی چندہ کے اور کوئی ذریعہ نہ بچا اور وہ بھی ایسی صورت حال میں جب قوم تباہی و بربادی کے نہ جانے کیسے کیسے سیاہ دن دیکھ رہی تھی لیکن اللہ کے نیک بندوں کی کوشش اور اہل خیر کی سخاوت سے یہ کام ہوتا رہا ۔
 یہاں غور کرنےوالی بات یہ بھی ہے کہ مدارس کے وہ اساتذہ یا منسوبین جو چندہ کرنے کے لیے نکلتے تھے ان کے لیے سفیر کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا ۔ اور ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سفیر کسی بھی ملک میں اپنے ملک کا نمائندہ ہوتا ہے ۔ مدارس کے یہ سفیر اپنی عملی زندگی میں دعوت و تبلیغ اور حق و صداقت کے سفیر ہوا کرتے تھے ۔ ہمارا ماضی بتلاتا ہے کہ یہ سفراء دین و دعوت کا کاز سنبھالتے تھے ۔ یہ لوگوں کے بیچ وقت لگاتے تھے ۔ مدرسے کا چندہ بھی ہو جاتا تھا اور ان لوگوں کی دین سے جڑی اصلاح اور تزکیہ بھی ۔ کچھ بڑے مدارس کے ذمہ داران اسی لیے نکلتے تھے کہ دعوت کا کام ہو سکے گا ۔ اس سے رابطہ گہرا رہتا تھا ۔ اپنائیت اور محبت کے گلاب کھلے رہتے ہيں ۔ عوام علماء کی خدمت کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے تھے ۔
       لیکن جب حالات نے ایک اور موڑ لیا ۔ اللہ نے خلیجی ممالک کو تیل کی دولت سے مالا مال کیا اور ان ملکوں نے غریب مسلمانوں کا خیال کرنا شروع کیا ۔ اپنی دولت کے خزانے رفاہ عام کے لیے کھول دیے تو ان کا اچھا خاصا حصہ مدارس اسلامیہ ہندیہ کے ذمہ داران کو بھی ہاتھ لگا ۔ پھر ہوا یوں کہ رفتہ رفتہ پورا اعتماد باہری ڈالروں پر ہوگیا اور ملکی پیمانے پر عوامی چندے کی رفتار دھیمی ہوتے ہوتے نہ کے برابر ہوگئی ۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بالعموم چھوٹے مدارس کے اساتذہ جاتے ہیں یا پھر وہ حضرات جاتے ہیں جنہیں ان کی اپنی ضرورت کھینچ لے جاتی ہے ۔ اللہ کے ان بندوں کی بات نہیں کررہا جنہوں نے بھیک مانگنے کا یہ ایک خوبصورت رستہ چن لیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے " قلندران باصفا " کی تعداد دن بدن بڑھتی ہی جاتی ہے ۔
بڑے ادارے اور ان کے ذمہ داران کو اب عوام کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ اور مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کا ذہن اس طرح بنا دیا جاتا ہے جیسے چندہ کرنا کوئی نہایت گرا ہوا کام ہو۔ اپنی طالب علمی کے زمانے میں اپنے ایک استاذ سے جو شاعر بھی تھے اور جنہوں نے ہمیں کچھ دن انگلش بھی پڑھایا تھا اور جن کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ چندہ کرنے کے گڑ سے واقف ہیں ، ہم نے ایسے مزاحیہ اندازمیں جس کے اندر ایک قسم کا طنزبھی پوشیدہ تھا، پوچھا تو سر! خوب چندہ کیا آپ نے ؟ انہوں نے ہمارا منشا بھانپ لیا اور کہا : جی جناب ! ہم نے خوب کیا ۔ ایسے آپ کے رئيس الجامعۃ بھی سعودی عرب میں چندہ کرتے ہیں تبھی آپ کا ادارہ چل رہا ہے !!! اور ہم بالکل چپ ہوگئے تھے ۔
       سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہندوستانی جامعات کے ذمہ داران ہندوستان کے باہر چندہ کرسکتے ہیں تو عوامی رابطہ بحال رکھنے کے لیے اور دعوتی نقطہ نظر سے ہندوستان کے اندر یہ کام کیوں نہیں کیا جا سکتا ۔
           چندہ صرف اقتصادی پہلو نہيں رکھتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اعتبار سے بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہے ۔ جس ملک میں مسلمانوں کا اپنا نظام نہیں ہو ، جہاں بیت المال طرح کی کوئي صورت نہ بن پارہی ہو اور جہاں زیادہ تر لوگ مادیت میں ڈوبے ہوئے ہوں وہاں اگر چندہ کرنے کے لیے نہ نکلا جائے تو صدقہ اور خیرات تو چھوڑ دیجیے لوگ زکوۃ تک نہیں نکالینگے ۔ اور ایسا ہو رہا ہے جب قوم کی بڑی تعداد اپنے مال میں واجب زکوۃ نہيں نکالتی ۔ مجھے نہیں معلوم لیکن کیا اس پوری صورت حال پر طبقہ علماء کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب صاحبان مال و منال کو مدارس کے ذمہ داران سے یہ شکایت ہے کہ وہ مدارس کی چہار دیواری سے نہیں نکلتے ۔ کیفیت ایسی ہے کہ پہلے لوگ چندہ کرنے والے علماء سے پریشان تھے اور اب اچھے علماء کے چندہ نہ کرنے سے پریشان ہیں ۔
ایسے اس پورے معاملے میں لفظ کے اندر آئی تبدیلی سے بھی سبق سیکھا جا سکتا ہے ۔ پہلے سفیر پھر محصل اور اب تو دھڑلے سے مچند بولاجاتا ہے ۔ ایسے ہماری رائے میں اپنے لوگوں اور اپنی مٹی سے ٹوٹتا ہوا یہ منظر نامہ اہل مدارس کبیرہ کے دانشمندانہ رویے کے زمرے میں نہیں آتا !!!





الثلاثاء، يونيو 09، 2015

غزل
ساگر تیمی
ہوا کی سمت ضرورت کا اعتبار کرو
بہت ہے فائدہ اس میں تو بار بار کرو
تمہاری عادت ہے کھانے کی کوئی بات نہیں
مگر ہماری بھی دعوت کبھی کبھار کرو
اگر ہے ظلم کی تقدیر ہی فنا ہونا
تو مٹ ہی جائے گا کچھ دن توانتظار کرو
خزاں کی اپنی سیاست ہے ، تم کرو اپنی
جفا کا زور گھٹاؤ ، وفا بہار کرو
کروگے عشق تو مٹنے کا غم نہیں ہوگا
ہماری مانو ، محبت کا کارو بار کرو
امیر ہونے سے سودا ضمیر کا ہوگا
تو یوں کرو کہ فقیری کو تاجدار کرو
وہ خود تو ظلم کے جویا ہیں ، بے مروت ہیں
مجھے یہ کہتے ہیں ساگر وفا شعار کرو


السبت، يونيو 06، 2015

تنہائی ! تنہائی ! تنہائی !
ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ ، سعودی عرب
اردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب نے جانے کیا سوچ کر رکہا تھا ۔ مجھے تو لگتا ہے وہ بھی مجلسی آدمی تھے ۔ ٹھیک ہے ان کی زندگی میں مسائل بہت تھے اور انہوں نے لوگوں کو قریب سے دیکھا تھا اس لیے بنی نوع انسان کی بے وفائیوں اور جفاؤں سے تنگ آکر انہوں نے کہا ہوگا ۔ جناب اب چاہے انہوں نے جو سوچ کر بھی کہا ہو لیکن جو انہوں نے کہا وہ میرے لیے بڑا عجیب واقع ہوا ۔ ہوا یوں کہ ہم نے غالب کا شعر پڑھا ۔
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئي نہ ہو
ہم سخن کوئي نہ ہو اور ہم زباں کوئي نہ ہو
بے درودیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئي ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئي نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئي نہ ہو
سعودی عرب آئے تو ہم اکیلے تو تھے نہیں ، اس لیے غالب کے مشوروں پر عمل کرپانے سے معذور تھے ۔ ہم رحمان برادران (ڈاکٹر ظل الرحمان تیمی اور حفظ الرحمن تیمی ) کے ہمراہ تھے اور ٹھیک سے ایک ہفتے ہوئے نہ تھے کہ مولانا نور عالم سلفی بھی ہم سے آملے تھے اور یوں پوری انجمن سی سج گئی تھی ۔ اوپر سے جناب عاصم صاحب سلفی کی کٹیا جہاں محفلیں ہی محفلیں تھیں ۔  ہم 19 جنوری کو سعودی عرب پہنچے تھے ۔ تب سے ابھی سے چار دن پہلے تک ہم سب ساتھ تھے ۔ اس لیے غالب کا شعر یاد تو آتا تھا لیکن ہم جھٹک دیا کرتے تھے ۔ لیکن ہوا یوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی محترمہ کو بلانے کا پورا انتظام کیا اورادھر مولانا نورنے بھی ان کے نقش قدم کی پیروی کی ۔ (اس وقت پہلی مرتبہ ایسا لگا کہ اے کاش ! ہمارے پاس بھی کم از کم ایک عدد بیوی ہوتی ! ) ہم نے سوچا تھا کہ یہ بندھے ہوئے پرندے جائینگے لیکن ہم تو آزاد پنچھی ہیں اور اس     "  ہم "میں ہم نے مولانا حفظ الرحمن تیمی کو بھی شامل رکھا تھا لیکن جب ان دو بزرگوں کی دیکھا دیکھی مولانا حفظ الرحمن تیمی بھی نکل کھڑے ہوئے تو ہم نے من ہی من غالب کو یاد کیا کہ چلو اب وہ کیفیت آہی گئی ہے جب ان کے مشوروں کو عملی جامہ پہنایا جاسکے ۔
آپ سے کیا پردہ ہم ان کے جانے سے بہت خوش تھے ۔ یوں بھی ایک ساتھ رہنے میں اچھے اچھوں کے ساتھ گڑ بڑ ہونے کے اندیشے رہتے ہیں ۔ عام حالات میں رقابت نہیں ہوتی لیکن ایک ساتھ رہنے میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی غیر ضروری اہمیت اختیار کرجاتی ہیں اور بد مزگی پھیل جاتی ہے ۔ اللہ کا کرم رہا ایسا مرحلہ نہ کے برابر آیا اور ہم نے ایک ساتھ خوب گزارے ۔ " نہ کے برابر" کی ترکیب زیر غور رہے ! بعد میں الزام مت دیجیےگا کہ آپ نے تو سچ کہا ہی نہیں !!!
     خیر ان کے جانے کے بعد ہم نے خوب جھوم جھوم کر غالب کے مذکورہ اشعار پڑھے ۔ ہم خوب خوش تھے جناب کہ شاید پہلی مرتبہ غالب کے ان اشعار کو مکمل عملی پیکر نصیب ہوگا ۔ سب سے الگ ، غریب الدیار ، زبان کا مسئلہ اور وہ تمام کلپنائیں جو غالب کے ان اشعار میں ہیں ہمارے پاس موجود تھیں ، ہم نے اپنی قسمت پر ناز کیا اور غالب بے چارے پر ترس کھاتا رہا کہ بے چارے کو یہ عظیم فرصت مل ہی نہ پائی لیکن جناب عالی ! ہمیں کب خبرتھی کہ تنہائي کی یہ مٹھائی اتنی بھی میٹھی نہیں ہوتی ۔ یہ تو زہر کی گھونٹ ہے جو گلے سے اتارنی پڑتی ہے ۔ ہماری مجبوری یہ کہ ہم دو حیثیتیں رکھتے ہیں ایک شاعر اور ایک مولوی ہونے کی اور آپ مانیں یا نہ مانیں ان دونوں حیثییتوں کے لوگ مجلسی ہوتے ہیں ۔ باتوں کی کمائی کھاتے ہیں ۔ مولوی اگر وعظ نصیحت نہ کرے اور شاعر اگر اپنا دیوان کھول کر اپنی شاعری نہ سنائے تو دونوں بے چارے بے موت مر جائیں ۔ آپ سوچیے کہ اگر یہ دونوں کمی ایک ہی شخص میں جمع ہو جائے اور پھر اس پر تنہائی لاد دی جائے تو اس پر کیا بیتے گی ۔ دوچار دن کے اندر ہی کیفیت ایسی ہے کہ اگر غالب مل جائيں تو انہیں کو یاد رہے کہ کس سے ملاقات ہوئی تھی !!!
شروع شروع میں تو ہم خوب خوش تھے کہ اب کوئي پابندی نہیں ، جو جی میں آئے گا کرینگے ، جب طبیعت چاہے گی لائٹ آن کرینگے اور جب طبیعت چاہے آف کرینگے ۔ من کرے گا تو زور زور سے غزلیں گننگائینگے اور جی میں آئے گا تو دھیمے سروں میں گائینگے لیکن جناب جب پہلی غزل ہوئی ہے اور ادھر ادھر کوئی نظر نہيں آیا ہے تو اب آپ سے کیا بتاؤں کیا قیامت آئی ہے ۔ ایک وقت کو تو ایسا محسوس ہوا کہ درو دیوار ہاتھ جوڑے کھڑیں ہیں کہ اب بس بھی کریں ۔ ہمیں تو معاف کردیں !!!
مجلسی ہونے کا نقصان یہ ہے کہ آدمی خلوتی نہیں ہو پاتا اور جب خلوت آجاتی ہے جیسے ابھی ہمارے اوپر آئی ہوئی ہے تو بڑی اذیت ناک ہوتی ہے ۔ صورت حال ایسی ہوتی ہے کہ ذرا سا کہیں کچھ کھٹکا اور آدمی دروازہ کھولتا ہے کہ کوئی آیا ہوگا ۔ ہم کئی بار اسے تجربے سے گزر چکے ہیں ۔ کیف بھوپالی کے شعر کی گہرائی ان دنوں زیادہ ہی سمجھ میں آرہی ہے ۔
کون آئے گا یہاں کوئي نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا
اور جناب ! فرصت اور تہنائی جب دونوں اکٹھے ہوجائیں تو اور بھی عذاب آتا ہے ۔ کاموں میں تو پتہ نہیں چلتا لیکن فرصت کے اوقات میں یہ آوارہ ذہن عجیب و غریب سیاحتیں کرتا رہتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرصت اور صحت کے بارے میں کہا ہے کہ ان کے اندر اکثر لوگ غفلت برتتے ہیں تو ایسے تھوڑے ہی کہا ہے ۔ یہ ایک سچ  ہے اور اتفاق سے ان دنوں جبکہ ہم یہ سطور قلمبند کررہے ہیں ، فرصت کے لمحات ہی سے گزر رہے ہیں ۔ کسی وقت کیف بھوپالی کا مذکورہ شعر دہراتے ہیں اور کسی وقت فیض کی عظیم نظم " تنہائی " کی مالا جپتے ہیں ۔
پھرکوئی آیا دل زار نہیں کو ئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانےلگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندھلا دیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھادو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہين آئے گا
ہمارے دوست بے نام خاں ہماری موجودہ صورت حال پر خوب خوش ہیں ۔ کہتے بیٹے ! تم اس لیے پریشان ہو کہ اللہ والے نہيں ہو ورنہ خلوت تو اللہ والوں کے لیے سکون کا ذریعہ ، دل کے آباد کرنے کا وسیلہ اور خود کو سمجھنے کا سب سے اہم مرحلہ بن کر آتی ہے ۔ تنہائی تو ان کے لیے رحمت ہی رحمت ہوتی ہے ۔ وہ ذکر و اذکار اور عبادت و ریاضت میں لگے رہتے ہیں اور اپنے درجات بڑھاتے رہتے ہیں اور تم کج فہم ہو ورنہ غالب بھی اپنے مذکورہ شعر میں اللہ والوں کی اسی صف میں شامل ہونے کی کلپنا کررہا ہے ۔ تمہيں یہ سنہری موقع ملاہوا ہے لیکن تم اس سے پریشان ہو۔ تم وہ پہلے بے وقوف آدمی ہو جو اس خلوت کو عذاب کے طور پر دیکھ رہا ہے ۔ تم شاید بھول رہے ہو ، معاف کرنا! تمہیں یاد کب رہتا ہے کہ تم بھولوگے ! ورنہ اسی خلوت نے مہاتما بدھ کو گیان دلایا ، غار حراء کی گوشہ نشینی ہی میں رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہم نے بیچ میں بے نام خاں کو روکتے ہوئے کہا لیکن خان صاحب ! اسی خلوت میں شیطانوں کا حملہ بھی خوب ہوتا ہے اور کیسے کیسے کشف و کرامات کے نمونے سامنے آتےہیں جو اول وہلہ ہی میں سمجھ میں آجاتے ہیں کہ شیطانی وساوس ہیں لیکن جنہيں دین و ایمان کی بلندی سمجھ کر اپنا لیا جاتا ہے !! بے نام خاں نے برا سا منہ بنایا اور بولے : تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم مثبت پہلوؤں کو دیکھنے کو تیار ہی نہیں ہو ۔ میں تو چلا ۔ اب تم اس تنہائی کو عذاب سمجھ کر جھیلو یا رحمت سمجھ کر خود احتسابی اور ذکروفکر کی دنیا بسالو یہ تمہارے ہاتھ میں ہے ۔ بے نام خاں ۔۔۔۔۔ بے نام خاں ۔۔۔۔۔ لیکن تب تک بے نام خاں جا چکے تھے ۔ نہ جانے کس گوشے سے رگھوپتی سہائے فراق کورکھپوری کا شعر زبان پر آگیا ۔
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
تو ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں