الثلاثاء، مارس 10، 2020

ڈاکٹر لقمان سلفی رحمہ اللہ کچھ یادیں کچھ باتیں


عبد الغنی القوفی

ڈاکٹر لقمان سلفی بر صغیر کی جماعت اہل حدیث کا ایک نمایاں نام ہے، پچھلے پچاس سالوں میں جو مرجع خلائق ہستیاں گزری ہیں ان کی آخری کڑی کے طور پر انہیں یاد کیا جاتا رہے گا. اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے لوح جہاں پہ ثبت درخشاں اور تابندہ کارناموں کو شرف قبولیت بخشے، ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے، اور جس دین ومسلک کی خدمت میں اپنی پوری مجاہدانہ عمر صرف کر دی اللہ اس دین ومسلک کے حقیقی علمبرداروں کے ساتھ آپ کا حشر فرمائے. آمین.
کئی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ ان کے تعلق سے جو افکار پراگندہ ذہن ودماغ میں گردش کناں ہیں انہیں دام تحریر میں لاؤں لیکن سانحہ کا اثر اتنا شدید تھا کہ چاہ کر بھی قلم نہیں اٹھا سکا، راقم اچھی طرح سمجھتا اور یقین رکھتا ہے کہ یہی کیفیت بہت سارے احباب کی ہوگی، خاص طور پر وہ لوگ جنہیں ڈاکٹر صاحب سے انس خاص حاصل تھا، آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی یادگاریں موجود ہیں، جامعہ امام ابن تیمیہ جن میں سر فہرست ہے، علمی تصانیف اور اپنے مختلف عہدوں پر رہتے ہوئے جو خدمت خلق آپ نے انجام دی سبھی آپ کے لئے ذخیرۂ آخرت ہیں ان شاء اللہ.

مدینہ طیبہ قیام کے دوران بارہا آپ سے شرف ملاقات حاصل رہا، آپ سے بالمشافہ ملنے سے پہلے ہی اپنے (رشتہ میں) بڑے ابو جناب مولانا نور محمد سلفی صاحب رمول، سرہا، نیپال سے آپ کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا، جو آپ کے یار غار اور بچپن کے دوست تھے، ان کے بقول آپ ابتدائی تعلیم کے زمانے ہی سے ذہانت اور عمدہ صلاحیت کے حامل تھے، بچکانہ شرارتیں بھی وہ ایسی کرتے تھے جن سے تعلیم کے میدان میں بقیہ ساتھیوں سے آگے بڑھنے کی ان کی جستجو کا اندازہ ہوتا ہے، بڑے ابو کے بقول سارے بچوں کو سلا کر چادر یا کمبل کی آڑ لے کر خود پڑھتے رہتے تھے، بادی النظر میں سب یہی سمجھتے تھے کہ وہ بھی سو رہے ہیں، محنتی اور پڑھائی پر زیادہ توجہ کی وجہ سے ساتھیوں کی طرف سے مختلف مزاحیہ القاب سے بھی نوازے جاتے تھے، لیکن تھے اپنی دھن کے پکے، لہذا بقیہ کا تو نہیں پتہ مگر وہ خود ایک نامور شخصیت بن کر ابھرےاور زمانے پر چھا گئے، عمر کے آخری پڑاؤ تک انہوں نے بڑے ابو سے سلسلہ جنبانی برقرار رکھا، اور جب بھی گفتگو ہوتی وہی لہجہ لوٹ آتا جس لہجہ کے وہ بچپن میں عادی تھے، ان کے سامنے وہ دکتور نہیں بلکہ صرف  ایک کلاس فیلو بن کر رہتے تھے،. وہی بے تکلفی سے بھرپور لہجہ، آداب والقاب کی بوجھل پابندیوں سے آزاد انداز گفتگو، پرانی یادیں، پرانی باتیں، ماضی کی تلخیاں ، سخت کوشی کی زندگی کے تذکرے، حالات کی قلابازیاں، نئی اور پرانی نسلوں کے مابین حائل خلیج، بدلتے ہوئے اقدار واطوار اور پھر اپنے حالیہ چیلنجز اور درپیش مسائل سب کچھ اس انداز میں ڈسکس ہوتے تھے جس میں سارے احتیاطی پہلوؤں کو کنارے رکھ دیا جاتا تھا.

مدینہ طیبہ سے ایک بار برادرم ڈاکٹر محمد یوسف تیمی مدنی کی رفاقت میں مع اہل خانہ آپ کے اصرار پر مکہ مکرمہ میں آپ کے گھر ظہرانہ پر جانے کا شرف بھی حاصل ہوا، تواضع اور  خاکساری کی علامت بنے آپ بنفس نفیس وہاں موجود ملے، اس دوران مختلف موضوعات پر کھل کر تبادلہ خیال کا موقعہ ملا، انتہائی مصروف شیڈول کے باوجود یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ کسی قسم کی جلدی ہے، پورے اطمینان کے ساتھ فری ہو کر گفتگو کرتے رہے، مستقبل کے تعلق سے جو اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تھا انہوں نے نیک مشورے بھی دیئے، جس اپنائیت اور بے لوثی کے ساتھ وہ ہم خوردوں سے پیش آئے آج کے دور میں ایسے نمونے خال خال ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، ورنہ عام طور پر بڑے لوگ طلبہ سے اس طرح کھل کر بات کرنا تو درکنار منہ لگانا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں، یہی کچھ معاملہ ان کی اہلیہ کا تھا، گھر کے اندر خادمہ ہونے کے باوجود کچن میں مصروف رہیں، اس قسم کے اعلی شاہکار آخر کس کارخانے میں تیار ہوتے تھے، آج بھی دانشگاہیں موجود ہیں، اور بکثرت پائی جاتی ہیں لیکن ان میں کیا ایسے جواہر پارے اب نظر آتے ہیں.

موصوف نے جو مقام حاصل کیا وہ بھی یونہی نہیں مل گیا بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی معیت نے انہیں دیکھتے ہی دیکھتے بلندیوں کی معراج تک پہنچا دیا ، معاملہ اس قدر آسان بھی نہیں تھا، ترقیوں کا یہ سفر جوکھم بھرا تھا، اہل علم کے درمیان رہ کر اپنی ایک جگہ بنانا بہت بڑا چیلنج تھا وہ بھی ایک اجنبی کے لئے، لیکن اپنی خداداد صلاحیتوں اور بتوفیق الہی آپ کو وہ مقام عنایت ہوا جو تمام بر صغیر کے باشندوں کے لئے لائق صد افتخار ہے.

ليست هناك تعليقات: