الأحد، مارس 08، 2020

اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا ” اپنے علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی (رحمہ اللہ) کی یاد میں“


     آصف تنویر تیمی
                                                (وکیل الجامعہ)

علامہ موصوف ہم سے دور بہت دور عَالم برزخ میں پہنچ چکے ہیں۔ آپ کی روح کوقبض ہوئے تقریبا اڑتالیس گھنٹے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی بھی ایسا لگ رہا ہے کہ آپ زندہ ہیں۔ آپ کسی وقت ہمیں فون کرسکتے ہیں۔ آپ کی آواز کانوں میں رس گھول سکتی ہے۔آپ جامعہ،اہل جامعہ کے بارے میں کوئی سوال کرسکتے ہیں۔لیکن جب تھوڑا بیٹھ کر سوچتا ہوں، لوگوں کا ملک وبیرون ملک سے فون،تعزیتی خطوط، جمعرات ہی کی شام سے جامعہ میں تعزیت کے لئے آنے والے افراد کی قطاریں یاد کرتا ہوں تو یقین سا ہوجاتا ہے کہ ہمارے علامہ تو راہی ملک بقا ہوگئے۔ اب تو وہ ہمارا وہ پیغام بھی جو میں ان کے موبائل پر بھیجا کرتا تھا پڑھ نہیں پائیں گے۔ کبھی کبھار فجر اور عصر بعد وہ ہمیں فون کرتے اور تادیر مختلف تعلیمی وادارتی امور پر باتیں کیا کرتے تھے اب تو ہمیشہ کے لئے وہ گھنٹیاں اور وہ آواز”میں لقمان بول رہا ہوں“خاموش ہوگئی۔ 

اللہ تعالی بہت کم اپنے بندوں میں ایسی باکمال شخصیات پیدا کرتا ہے جو روئے زمین میں اس کی حجت ہوتے ہیں۔ ان کے اعمال وکردار کو دیکھ اور سن کر اللہ کی یاد آتی ہے۔ انہیں چند نابغہ روز گار،فقیدالمثال شخصیات میں سے ہمارے علامہ بھی تھے۔ اللہ عزوجل نے انہیں گونا گوں صلاحیتوں سے مال مال کیا تھا۔ اعلی علمی لیاقت کے ساتھ وہ مختلف شرعی علوم وفنون میں کامل دسترس رکھتے تھے۔ان کا سب سے پسندیدہ مشغلہ قرآنی فہمی تھا۔ غایت درجہ کتاب الہی سے محبت کرتے تھے۔ ان کی بے پناہ محبت کا ہی نتیجہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کا سلیس ترجمہ اور تفسیر اردوداں طبقے کے سامنے پیش کیا۔ اللہ نے ان کے اس عمل کو عام مقبولیت عطا کی۔ اور اس وقت اردوکی مشہور تفاسیر میں‘‘تیسیر الرحمن لبیان القرآن’’کا شمار ہوتا ہے۔ تیسر الرحمن کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ہمارے علامہ نے اپنے قائم کردہ ادارہ ‘‘مرکز علامہ ابن باز برائے بحث وتحقیق’’ سے اس کا ہندی اور انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے علامہ ایک زیرک منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پائے کے مصنف ومحقق بھی تھے۔ آپ نے تمام تر ادارتی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنا گہرا تعلق شروع سے تحقیق وتالیف سے رکھا۔ اس کی گواہ آپ کی ساری تصنیفات وتالیفات اور تحقیقات ہیں جن سے ایک دنیا اپنی علمی تشنگی بجھارہی ہے۔آپ نے حدیث،فقہ،ادبِ عربی،اسلامیات کے علاوہ نصابی کتابیں بھی تیار کیں۔ جو ہندوستان کے علاوہ دیگر اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں میں شاملِ نصاب ہیں۔ آپ نے بعض اہم عربی کتابوں کا بھی اردو ترجمہ ’مرکز علامہ ابن باز‘سے کرایا اور ان پر قیمی مقدمے اور تعلیقات لگائے ہیں۔آپ کا ترجمہ''رحلة مریم جمیلة الی الاسلام'' اردو سے عربی عربی ادب کا شہ پارہ تصور کیا جاتا ہے.جس کی طباعت کے بعد چند ناعاقبت اندیشوں نے اور علم کے دشمنوں نے ہمارے علامہ پر غلط الزامات بھی عائد کئے جس کی تفصیل ان کو خود نوست'' کاروان حیات'' میں موجود ہے.

آپ کی تصنیفات میں فیوض العلام علی تفسیر آیات الاحکام(عربی)،اهتمام المحدثین بنقد الحدیث سندا ومتنا ودحض مزاعم المستشرقین(عربی)، السنة حجيتها ومکانتها فی الاسلام(عربی،اردو)، تحفة الکرام شرح بلوغ المرام(عربی)، رش البرد فی شرح الادب المفرد(عربی)، السعی الحثیث الی فقه اهل الحدیث(عربی)، الصادق الامین(عربی،اردو)،سیدالمرسلین(عربی،اردو)، السلسلة الذهبية فی القراءة العربیة(عربی،ابتدائیہ تا فضیلت کی درجات کے لئے درسی کتاب)۔ ان کتابوں کے علاوہ درجنوں چھوٹی بڑی کتابیں ہیں جو آپ کے قلمِ گوہر بار سے منظر عام پر آئیں۔ (ان شاءاللہ) قیامت تک آپ کی یہ کتابیں پڑھی جاتی رہیں گی اور آپ کو اس کا اجر پہنچتا رہے گا۔ 

ویسے تو میں اپنے علامہ موصوف کا نام بچپن ہی سے اپنے گاوں میں سنتا تھا، اس لئے کہ میری بستی سے جامعہ کا فاصلہ محض چندکلو میٹر ہے۔ بلکہ ہماری بستی کے کچھ طلبہ مجھ سے قبل جامعہ امام ابن تیمیہ میں داخل ہوئے تھے جس کی وجہ سے جامعہ کا نام شروع سے ذہن میں رہا۔ لیکن اپنے علامہ موصوف کو پہلی دفعہ ملک کی راجدھانی دلی میں1996ءمیں دیکھنے اور خدمت کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے علامہ اپنی جامعہ کی زیارت کے لئے سال میں ایک یا دو مرتبہ دلی ہوتے ہوئے چندنبارہ آیا کرتے تھے۔ جب دلی پہنچتے تو چند دن دلی میں آپ قیام کرتے،اور اپنے دوست شیخ عبدالرشیدازہری بستوی رحمہ اللہ سے ملنے ان کے ادارہ ’مدرسہ ریاض العلوم‘ضرور حاضر ہوتے تھے۔ جہاں پہلے سے جامعہ امام ابن تیمیہ کے کوئی استاذ اور شیخ طاہر مدنی رحمہ اللہ (استاذ دار العلوم احمدیہ سلفیہ،دربھنگہ) موجود ہوتے تھے۔ اور چونکہ میں شیخ علی اختر امان اللہ مکی حفظہ اللہ(استاذ مدرسہ ریاض العلوم) کے روم میں رہتا تھا اس لئے کبھی کبھار چائے وغیرہ کے ذریعہ ان حضرات کی مہمان نوازی کا موقع میسر آجاتا،اور بڑی عمر کے طلبہ کو کہتے ہوئے سنتا کہ یہی (علامہ) ڈاکٹر محمد لقمان سلفی (رحمہ اللہ) ہیں۔ پھر یک لخت ان اصحاب علم وفن کا رعب ذہن ودماغ میں سما جاتا۔
اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ 1999ءکے اخیر اور2000ء کے شروع میں حصول علم کے لئے دلی سے جامعہ امام ابن تیمیہ آگیا۔ پھر تو سال میں کم سے کم دو مرتبہ تو اپنے علامہ محترم کو ضرور دیکھتا۔ ان کے خطابات ودروس سے محظوظ ہوتا۔ جب وہ مسجد سے نکلتے اور مہمان خانہ جاتے تو ہوسٹل کی سیڑھیوں پر ہم طلبہ کھڑے ہوکر اس وقت تک تکتے رہتے جب تک وہ نگاہ سے اوجھل نہ ہوجاتے۔ اس وقت ان کے تعلق سے ذہن میں عجیب وغریب باتیں آتیں۔ سوچتا ایک انسان اتنا بڑا کام کیسے کرتا ہے؟ اتنا بڑا ادارہ،اتنے اساتذہ اور طلبہ کی کفالت، اتنی ساری کتابیں،یہ سب انہوں نے کیسے کیا؟ اس وقت ہم صرف سوچ ہی سکتے تھے۔ ملنے یا پوچھنے کی ہمت ہم میں ہرگز نہ تھی، ان کا علمی رعب اور اپنا بچپنا ہر قسم کے سوال میں حائل تھا۔ خیر چھ سالوں تک دوران طالب علمی ہم اپنے علامہ کو دیکھتے اور دیکھ کر سیکھتے اور مستقل میں کچھ کرنے کا ارادہ کرتے رہے۔

2005ءمیں جامعہ سے فراغت ہوئی، تیمی ہوئے، کم علمی کے باجود پہچان کی ضرورت تھی، تیمی کا لاحقہ نام کے ساتھ لگا لیا۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے قائم کردہ ادارہ ’المعہد العالی للتخصص فی الدراسات الاسلامیہ‘ میں داخلہ لے لیا۔ جس سال داخلہ لیا اسی سال کے کسی مہینے میں ہمارے علامہ دلی آئے اور پھر مدرسہ ریاض العلوم میں ملاقات ہوگئی۔ علیک سلیک کے بعد میں نے اپنا تعارف کرایا۔ انہوں نے پوچھا: کیا کررہے ہیں؟ میں نے بتلایا المعہد العالی میں تخصص کررہا ہوں۔ فورا گویا ہوئے: ”اب کس چیز میں کمی رہ گئی کہ آپ نے تخصص کرنے کا ارادہ کیا ہے؟“۔ ان کے اس جملے پر اس وقت تو بہت زیادہ غور نہیں کیا، لیکن بعد کے مرحلوں میں اندازہ ہوا کہ ہمارے علامہ کا خواب کیا تھا۔وہ ہر تیمی کے بارے میں کتنا حسن ظن رکھتے تھے. وہ اپنے ہر فارغ التحصیل کو اعلی صلاحیت کا حامل دیکھنا چاہتے تھے۔بلکہ انہوں نے ایک بار ہم اخوان کی محفل میں ٹیلفیون پر اس بات کا برملا اظہار کیا کہ:سنئے! میں نے جامعہ صرف سرٹیفیکٹ دینے کے لئے نہیں،بلکہ ’عباقرة‘ پیدا کرنے کے لئے قائم کیا ہے۔

میں نے تخصص کادوسالہ کورس مکمل کیا. اللہ کی توقیق سے جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ بھی پہنچ گیا۔ چار ساڑھے چار سال جامعہ اسلامیہ کی تعلیم حاصل کی۔ اس دروان کبھی اپنے علامہ موصوف سے بات چیت نہیں کی۔ بات بھی کرتا تو کیا کرتا۔ علامہ کا تصور ذہن میں آتے ہی زبان لڑکھڑانے لگتی تھی۔ اور کوئی سبب بنے بھی تو آدمی بات کرے۔ یونہی بات کرنا علامہ کی شان میں بے ادبی سمجھتا تھا۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے علامہ اپنے ان روحانی بیٹوں کو پسندکرتے ہیں جو ان سے راہ ورسم رکھتے ہیں۔بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ فارغینِ جامعہ گاہے بہ گاہے انہیں فون کیا کریں۔ 

جامعہ اسلامیہ سے فراغت کا وقت قریب آیا۔ فراغت کے بعد زندگی گزارنے کی فکر دامن گیر ہوئی۔ مختلف جگہ کام کرنے کا خیال دل میں پیدا ہونے لگا۔ کئی لوگوں سے بات بھی ہوئی۔ اتنی بات ضرور تھی کہ میں ہرحال میں کسی اسلامی ادارے سے منسلک ہوکر کام کرنے کا خواہاں تھا۔ اس مقصد کی خاطر بہت ساری درسی کتابیں اور ان کی شرحیں بھی خریدی تھیں۔ جن سے مسلسل استفادہ کررہا ہوں۔ میرے دوستوں میں ایک نام ثناءاللہ صادق تیمی (حال مقیم،مکہ مکرمہ،مترجم ائمہ حرم مکی) کا ہے۔چونکہ ان سے بے تکلفی تھی۔ملازمت کے تعلق سے ان سے بھی تبادلہ خیال ہوا.بات آئی گئی ختم ہوگئی.پھر میں اپنی تعلیم مکمل کرنے میں مشغول ہوگیا.آخری سمسٹر باقی تھا۔ ان دنوں اتنا معلوم تھا کہ مادر علمی کو چند مدنی اساتذہ کی تلاش ہے۔ چندکے اسما بھی سامنے آنے لگے تھے۔ لیکن دو وجہ سے میں اپنے آپ کو اس کا اہل نہیں سمجھتا تھا۔ ایک تو میں ابھی فارغ بھی نہ ہوا تھا۔ اور جامعہ کو حاملینِ شہادہ کی تلاش تھی۔ جن کے لئے خصوصی سفارش‘‘وزارة الشؤون الاسلامیة’’میں ہونی تھی۔ دوسرا یہ سوچتا تھا کہ مجھ سے کتنے بہتر تیمی وغیر تیمی مدنی طلبہ جامعہ اسلامیہ میں موجود ہیں،ان کے رہتے میں کیسے جامعہ جانے جانے یا اپنا شہادہ پیش کرنے کی سوچ سکتا ہوں۔ لیکن تقدیر ٹالی نہیں جاتی۔ (شیخ)ثناءاللہ صادق تیمی نے پتہ نہیں کب جامعہ کے جنرل ڈائرکٹر(شیخ عبدالرحمن تیمی،حفظہ اللہ) سے بات کی، اور پھر ڈائرکٹر صاحب نے علامہ موصوف سے بات کی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے بزبان ثناءاللہ یہ حکم ملا کہ آپ علامہ موصوف سے بات کریں۔ مَرتا کیا نہ کرتا۔ ڈرٹے ڈرتے ٹیلفون کیا، بھاری بھرکم گرجدار آواز ہمارے علامہ کی آئی۔ علیک وسلیک کے بعد بات شروع ہوئی۔ اور ہوئی تو بند ہونے کا نام نہیں۔ اور ایسا مبارک سلسلہ چل پڑا کہ جب تک ہوش رہا آپس میں جامعہ آنے پر بالمشافہ اور سعودی عرب جانے کے بعد ٹیلیفونک رابطہ رہا۔

الحمد للہ جامعہ اسلامیہ سے فارغ ہوا۔ شہادہ حاصل کی۔ ہندوستان آنے کا ٹکٹ بھی نکال لیا۔ شہادہ کو وہیں جامعہ اسلامیہ کے ڈاک خانہ سے علامہ موصوف کے پتے پر ارسال کردیا۔ جب ہندوستان پہنچا تو علامہ موصوف کو میرا شہادہ موصول ہوا۔ میں نے عیدگھر پر پڑھی۔ عید کے بعد جامعہ آیا۔ علامہ محترم کا حکم نامہ جاری ہوچکا تھا کہ میں جامعہ کے کاوران اساتذہ میں شامل ہوجاوں۔ رمزی طور پر دس ہزار کے مشاہرہ پر میں نے اللہ کا نام لے کر تدریس کے مبارک فریضہ سے اپنے آپ کو باندھ لیا۔ تعلیمی سال کا آغاز ہوا اور میں ’ندوة الطلبہ والطالبات‘ کا صدر نامزد کردیا گیا۔ طلبہ کی خدمت کو میں نے اپنی زندگی کا مشن بنایا۔ شروع میں کافی دشواریاں آئیں مگر رب نے سب کو آسان کیا۔بزرگ اور نوجوان سینئر اساتذہ کا مکمل تعاون حاصل رہا۔ ادھر میں اپنا کام کرنے لگا ادھر ہمارے علامہ اپنا کام کرنے لگے۔ توقع سے بڑھ کر میرے اوپر احسان عظیم کیا۔ میرا تعاقد‘‘وزارة الشؤون’’ سے چند ماہ میں کرادیا۔اور اس کے لئے ایسی محنت کی جو ایک باپ بیٹے کے لئے کرتا ہے.میرا ہی نہیں بلکہ مجھ سے قبل تین اساتذہ اور میرے ساتھ میرے ایک اور ساتھی(شیخ ساجد ولی تیمی) اور میرے بعد بھی ایک اور استاذ(شیخ فہیم الدین تیمی) کا کرایا۔

ہمارے علامہ دھن کے پکے تھے۔ جو ٹھان لیا اسے آخری منزل تک پہنچاکرہی دم لیتے تھے۔ درمیان میں نہ رکتے،نہ تھکتے۔ مسلسل چلتے چلے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے جس کی توقع بھی کسی کو نہ تھی۔ جامعہ کے مفاد،اساتذہ کے مفاد اور طلبہ کے مفاد کی خاطر آپ ہر ممکن قربانی دینے کو تیار رہتے۔ چلچلاتی دھوپ ہو،یا خون کو جامدکردینے والی سردی اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انتھک کوشش کرتے تھے۔ 

بعد میں دل کے آپریشن کی وجہ سے جب ڈاکٹروں نے کثرت سفر سے منع کردیا تو ٹیلیفون پر جامعہ کی ایک ایک خبر رکھتے۔ ایک ایک استاذ اور طالب علم کے بارے میں ذمہ داران سے پوچھتے۔ خاص طور سے نائب مشرف اعلی حفظہ اللہ(شیخ عبدالرحمن تیمی) سے تو یومیہ نہ جانے کتنی بار بات ہوتی تھی۔ ایک ایک پَل کی خبر وہ اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کئی دفعہ ذکر کیا کہ میں رہتا ریاض میں ضرور ہوں لیکن میری جان جامعہ میں ہوتی ہے۔ جب کبھی نائب مشرف اعلی کا موبائل نہ لگتا۔ یا کسی وجہ سے بات نہ ہوپاتی فورا علامہ مجھے فون کرتے اور علیک سلیک کے بعد جامعہ کا حال واحوال دریافت کرتے۔ اور مختصر گفتگو کے بعد سختی کے ساتھ کہتے کہ میں آپ کو حق دیتا ہوں کہ آپ اپنے بھائی(عبدالرحمن تیمی) سے پوچھئے گا کہ وہ فون ریسیو کیوں نہیں کرتے ہیں۔ 
میری بات مبالغہ پر محمول ہرگز نہ کی جائے کہ ہمارے علامہ اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد اپنی جامعہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ اور پھر اپنی جامعہ سے محبت کرنے والوں سے محبت کیا کرتے تھے۔ وہ اساتذہ میں سے جن سے بات کرتے جامعہ کی محبت اس کے دل میں پیدا کرنا چاہتے۔ ہمیں باربار اس بات کا احساس دلاتے کہ عزیزم! یہ جامعہ آپ کی ہے۔ اس کے ایک ایک ذرے کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے علامہ کو ان لوگوں سے شدید نفرت تھی جو جامعہ کے بدخواہ تھے۔اسی طرح اپنے ان ملازمین کے تعلق سے ناگواری کا اظہار کرتے جو محنت سے جی چراتے تھے۔ 

ہمارے علامہ نے مجھ پر بڑا اعتماد کیا۔ایک مرتبہ کا واقعہ ہے ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ ان کی عادت میں شامل تھی کہ جب جامعہ آتے تو مغرب کی نماز اپنی آبائی بستی‘چندنبارہ’کی مغربی مسجد میں اداکرتے اور مختصر درس بھی دیتے۔ ایک دن کسی کام سے میں بستی کی طرف عین مغرب کے وقت جارہا تھا۔ اذان ہوئی۔ میں اسی مسجد میں رک گیا۔ وضو کیا۔مسجد میں داخل ہوا۔ میں ہکا بکا رہ گیا کہ ہمارے علامہ پہلے سے مسجد میں موجود ہیں۔ اس مسجد کے مستقل امام شیخ عبدالرحمن سلفی مدنی حفظہ اللہ(استاذ جامعہ) بھی موجود تھے۔ ساتھ میں شیخ شفیق عالم سلفی بھی تھے۔ صف میں ہم سب لگے۔ موذن اقامت کے لئے تیار کھڑا تھا۔ علامہ موصوف کہنے لگے کہ آج میں درس نہیں دوں گا۔ آپ میں سے کوئی صاحب نماز بھی پڑھائیں اور درس بھی دیں۔ سارے لوگ پریشان۔ علامہ کی موجودگی میں درس کون دے۔ ہر شخص دوسرے کو آگے کرنے لگا۔ آخر کار میں نے پیش قدمی کی۔ امامت بھی کرائی اور درس بھی دیا۔ ایک آیت اور ایک حدیث پڑھ کر فکر آخرت سے متعلق دس پندرہ منٹ گفتگو کی۔ درس کے بعد علامہ موصوف حاضرین سے مخاطب ہوئے۔ اور تقریبا پانچ منٹ تک میری تعریف کرتے رہے۔وہ سارے الفاظ میرے ذہن میں جس کے بیان کا یہ موقع نہیں.

ہمارے علامہ نے مجھے جنرل ڈائرکٹر صاحب کا مساعد نامزد کیا۔اور کہا کرتے تھے: آپ کو سائے کی طرح عبدالرحمن (نائب مشرف اعلی حفظہ اللہ) کے ساتھ رہنا ہے۔ آپ کو بہت دور جانا ہے۔ آپ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ آپ علاقے کے ہیں۔ آپ پر دوہرا نہیں بلکہ تہرا حق ہے۔ اکثر لوگ اس بات سے باخبر ہیں کہ منسوبینِ جامعہ میں سب سے زیادہ ہمارے علامہ کے قریب ہمارے نائب مشرف اعلی تھے،علامہ ان سے اٹوٹ محبت کرتے تھے۔ اپنا بیٹا انہیں سمجھتے تھے۔ دونوں کا غم ایک،دونوں کی خوشی ایک تھی۔ اور دونوں کو خون سے زیادہ ادارے کی محبت اور تعمیر وترقی جوڑتی تھی۔ 

ہمارے علامہ خوبیوں کے مجموعہ تھے۔ ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مردم شناس تھے۔ علم دوست تھے۔ متواضع تھے۔ ایک مرتبہ مجھ سے کسی وجہ سے ناراض ہوگئے۔ فون آنا بند ہوگیا۔ محسوس ہوگیا کہ ہمارے علامہ ناراض ہیں۔ میں نے اپنی طرف سے ناراضگی دور کرنے کی کوشش کی، ناکام رہا۔ اپنا کام کرتا رہا۔ کچھ ماہ کے بعد ان کا فون آیا۔ بات ہوئی۔ اپنی ناراضگی کا شروع میں ذکر کیا۔ پھر دھیرے دھیرے بالکل نرم ہوگئے۔اچھی طرح یاد ہے ہمارے علامہ نے کہا: بابو! غلطی کسی سے ہوسکتی ہے، آپ سے بھی،اور فریق ثانی سے بھی۔ خیر اپنا کام پہلے کی طرح کرتے رہئے۔ کوئی بات دل پر نہ لیجئے۔ اس کے بعد فورا انہوں نے شعبہ مالیات کی تفتیشی کمیٹی کا ایک رکن مجھے نامزد کیا۔

ہمارے علامہ مطالعہ کے شوقین تھے۔ ایک ایک تحریر پر ان کی نگا ہ ہوا کرتی تھی۔ خاص طور سے وہ تحریریں جو جامعہ کے پلیٹ فارم سے نکلتیں۔ یہاں کے اساتذہ اور طلبہ لکھتے اور وہ تحریریں ان سے ہوکر گزرتیں تو بلا پڑھے نہ چھوڑتے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ میں کوئی تحریر لکھتا اور نظر ثانی کئے بغیر جامعہ گروپ میں ڈال دیتا۔ میرے ذہن میں بھی نہیں ہوتا تھا کہ علامہ موصوف اس تحریر کو پڑھیں گے مگر اکثر یہ ہوا کہ پڑھنے کے بعد فون کیا،اور میری غلطیوں کو بطور اصلاح کے بتلایا۔ اس وقت مجھے خوشی بھی ہوتی اور شرمندگی بھی کہ آخر غلطی کیسے رہ گئی۔ ایک مرتبہ’ارب پتی‘ کو ’عرب پتی‘ میں نے لکھ دیا۔فورا پڑھنے کے بعد انہوں نے فون کیا۔ ایک مرتبہ میں نے کسی عراقی رائٹر کا کوئی سفر نامہ جامعہ گروپ پر شئر کیا۔ مضمون عربی میں تھا۔ علامہ موصوف نے باریکی سے پڑھا۔ اور آئندہ کل مجھے فون لگایا۔ اس تحریر میں صاحبِ تحریر نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ علامہ عبیداللہ مبارک پوری (رحمہ اللہ) نے صحیح بخاری کی بھی شرح کی تھی۔ بلکہ صاحبِ تحریر نے مولانا مبارکپوری(رحمہ اللہ) کا مقام علامہ البانی (رحمہ اللہ) سے بڑھا کر پیش کیا تھا۔ ہمارے علامہ محترم کو دونوں چیزوں پر اعتراض تھا۔ مجھے ذمہ داری دی کہ میں خود سے تحقیق کروں کہ ایاں مولانا مبارک پوری نے صحیح بخاری کی کوئی شرح کی تھی یا نہیں۔ میں نے تحقیق کی۔ جامعہ سلفیہ بنارس کے کئی اساتذہ سے رابطہ کیا۔ پتہ چلا کہ علامہ مبارکپوری کی صحیح بخاری کی کوئی شرح اب تک مطبوع نہیں ہے۔علامہ محترم نے دوسری ذمہ داری عائد کی کہ صاحبِ تحریر کا موبائل نمبر تلاش کرکے میں انہیں دوں تاکہ وہ خود ان سے رابطہ کرسکیں۔ شیخ اشفاق سجاد سلفی(سابق استاذ جامعہ امام ابن تیمیہ) سے نمبر لے کر میں نے انہیں دیا۔ اس موقع سے کئی دنوں تک خالص علمی باتیں علامہ محترم سے ہوتی رہیں۔ 

ہمارے علامہ عام بول چال میں بھی کلمات پر توجہ دیتے۔ ایک بار جامعہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ ناشتے کے بعد ہم لوگ جامعہ کے معائنہ کے لئے نکلنے۔ میں بالکل ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ مطعم(ڈائنگ ہال) کے سامنے گھاس بڑی بڑی تھی۔ میری زبان سے ’گھاس‘ کا مذکر استعمال ہوگیا۔ فورا رک کر میری اصلاح کی،پھر آگے بڑھے۔

چندسالوں سے درازئے عمر کے باعث علامہ کے ہاتھ میں لغزش پیدا ہوگئی تھی۔ لکھنے میں دشواری ہوتی تھی۔ طلبہ وطالبات کا سالانہ طوبی شائع ہونے والا تھا۔ علامہ محترم کی جانب سے تہنیتی پیغام لکھنا تھا۔ نائب مشرف اعلی حفظہ اللہ نے یہ کام میرے سپرد کیا۔ میں نے علامہ محترم کی پرانی تحریروں کو سامنے رکھ کر کچھ لکھنے کی کوشش کی۔ فون پر نائب مشرف اعلی حفظہ اللہ نے انہیں پڑھ کر سنایا۔ بعد میں میں نے بھی سنایا۔ میں نے خود سنا علامہ فرمارہے تھے: عبدالرحمن! میرے اسلوب کو چرانے کی کس نے کوشش کی ہے؟۔ بالکل میرے انداز میں بچوں اور بچیوں کو پیغام دیا ہے۔ میں اندر ہی اندر بہت خوش ہوا۔بعد میں نائب مشرف اعلی حفظہ اللہ نے بتلایا کہ میں نے(آصف) ترتیب دی ہے۔بڑی دعائیں دیں۔ 
جامعہ کے آخری سال سے میں نے لکھنا شروع کیا۔مختلف موضوعات پر لکھنے کا اتفاق ہوا۔ جامعہ میں بطور مدرس آنے کے بعد مجلہ طوبی میں مسلسل لکھتا رہا۔ اب تک سوائے ایک شمارے کے بقیہ تمام شماروں میں میرا مضمون شامل رہا۔ اسی سلسلے میں ایک بار علامہ محترم کا فون آیا اور انہوںنے (اللہ کی نعمت پر) نہ اترانے کی نصیحت کے بعد کہا کہ آپ کی تحریر ماشاءاللہ کافی بہتر ہوگئی ہے۔آپ رواں اور سبک لکھتے ہیں.محنت مسلسل جاری رکھیں، ان کے ان جملوں سے مجھے اتنی خوشی ملی کہ انہیں لفظوں میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ 

ویسے تو علامہ موصوف کی زندگی میں اردو کی بے شمار تحریریں جامعہ یا دیگر مسائل سے متعلق میں نے لکھیں اور انہیں بھیجیں ہیں۔ اور انہیں میری ٹوٹی پھوٹی اردو اچھی بھی لگنے لگی تھی۔اسی لئے جب کبھی لکھنے کی ضرورت ہوتی تو فورا نائب مشرف اعلی حفظہ اللہ کو کہتے: آصف سے لکھواکر بھیجو۔

ایک دفعہ ایک بڑے ہندوستانی عالم کی تحریر ایک خاص موضوع سے متعلق ایک رسالے میں شائع ہوئی۔ وہ تحریر کسی طرح ہمارے علامہ محترم کے پاس پہنچ گئی۔ پڑھ کر کافی دکھی ہوئے۔ فورا مجھے فون کیا اور کہا: آصف! اس کا جواب تیار ہونا چاہئے۔ میری طرف سے کچھ تساہلی نظر آئی۔ ناراض ہوئے۔ میں نے جلدہی عملی شکل دینے کی ہامی بھر لی۔ دوتین گزرنے کے بعد دوبارہ فون کیا اور سمجھایا کہ آدمی کو وقت پر کوئی کام کرنا چاہئے۔ آپ لوگ نوجوان ہیں۔ توانائی ہے۔ اس عمر میں علمی کام کرلیجئے گا تو کرلیجئے گا۔بعد میں شاید ہی اتنا موقع ملے۔پھر میں نے وہ تحریر لکھ کر انہیں ارسال کردیں۔

میں نے شروع میں لکھاہے کہ وہ اپنے اساتذہ اور طلبہ کے دکھ کو اپنا دکھ اور ان کے درد کو اپنا درد سمجھتے تھے۔ اور حتی الوسع مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ جب میرے والد صاحب کی طبیعت خراب ہوئی۔ ہارٹ کا پٹنہ میں آپریشن ہوا۔ جب تک آپریشن مکمل نہ ہوگیا،مسلسل خبرخیریت پوچھتے رہے۔ میرے لخت جگر ادیب (رحمہ اللہ) کی طبیعت سخت خراب ہوئی۔ انہیں معلوم ہوا۔ رابطہ شروع کردیا۔آخری دم تک رابطے میں رہے۔ بلکہ وہیں سے دواوں کی تجویز بھی کرتے رہے۔ اور ذکر واذکار کے بارے میں بھی بتلاتے رہے۔ جب بابو کی وفات ہوئی تو مجھے بڑا دلاسا دلایا۔جو آج بھی ذہن میں گردش کررہا ہے۔

ہمارے علامہ کا شوق علمِ حدیث اور سیرت رسول سے بھی بے حد وحساب تھا.اگر یوں کہے کہ علمِ وحدیث کو آپ نے اپنی کتابوں کا موضوع اور سیرت رسول کو آپ نے اپنی تقریروں اور دروس کا موضوع بنایا تو بے جا نہ ہوگا.آپ جامعہ جب کبھی تشریف لاتے طلبہ وطالبات کے اصرار پر جامعہ کی مسجد میں صحیح بخاری کی آخری حدیث کا درس دیتے سند اور متن پر گفتگو کرنے کے ساتھ آپ حدیث کے فوائد، مسائل کے استنباطات کے بارے میں طلبہ کے ساتھ جملہ حاضرین کو واقف کراتے.عبارت پڑھنے میں اگر کسی طالب علم سے غلطی ہوتی تو فورا ٹوکتے. اپنی مرویات کی سند بھی طلبہ وطالبات اور اساتذہ کو مرحمت فرماتے.میں نے علامہ محترم کی زندگی میں ان کے مختلف دروس کا خلاصہ قلم بند کیا اور بعض تو شائع بھی ہوئے.
ہمارے علامہ اونچا علمی مقام رکھنے کے باوجود خوش مزاج بلکہ مرنجا مرنج آدمی تھی.جب جامعہ شریف لاتے تو ان کے پرانے ہم عمر لوگ ملنے ملانے آتے.علامہ محترم سب کے ساتھ خوشی خوشی ملتے.بچپنے اور جوانی کی باتیں بھی ہوتیں.خود ہنستے اور موجود لوگوں کو ہنساتے.بچوں سے بھی اسی ظرف اور وسعت سے پیش آتے.بچوں کو کھیلنے اور ملنے کا موقع دیتے.ایک دفعہ میں ان کے ساتھ مہمان خانے کے پاس بیٹھا بات کررہا تھا.اسی دوران میرا بیٹا ادیب(رحمہ اللہ) مجھے ڈھونڈتے دھونڈتے آگیا.میں چاہ رہا تھا کہ وہ چلا جائے تاکہ علامہ محترم کے ساتھ گفتگو میں حارج نہ بنے.مگر علامہ محترم نے مجھے منع کیا اور کہا: آپ کا بیٹا بڑا بہادر لگتا ہے.یہیں پر یہ بات بھی عرض کردی جائے کہ آپ کو اپنی بستی(چندنبارہ) اور اپنے علاقے سے بڑی انسیت تھی.آپ جتنے شہری،جتنے سعودی،اور جتنے بڑے عالم دین تھے اتنے ہی بڑے چندنبارہ کے باشندہ بھی تھے.جب آپ جامعہ آتے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ آپ سعودی عرب کی راجدھانی ریاض کے شہری ہیں.کھانے پینے،رہنے سہنے اور بولنے چالنے کا وہی انداز جو گاوں کے ایک مہذب آدمی کا ہوتا ہے.آپ کی ہر ایک ادا سے سادگی ٹپکتی تھی.

ہمارے علامہ علم کے غازی ہی نہیں، عمل کے بھی سپاہی تھے.آپ کی تربیت عظیم عالم وزاہد شیخ ابن باز(رحمہ اللہ) کے زیر سایہ ہوئی تھی.اس لئے آپ پر ان کی زندگی کا گہرا اثر تھا.عبادت وبندگی کو زندگی کا اصل مقصد سمجھتے تھے.اور ہر کام پر فرائض کو ترجیج دیتے تھے.خاص طور سے پنجوقتہ کے آپ سختی کے ساتھ عادی تھی.سفر ہو یا حضر ہر چیز کو ٹال سکتے مگر نماز نہیں.دوران سفر جہاں نماز کا وقت ہوجاتا فورا گاڑی رکواتے اور نماز ادا کرہی کر آگے بڑھتے.جامعہ میں آتے تو اساتذہ،طلبہ،ذمہ داران،ملازمین اور دیگر متعلقین کو نماز کی بڑی تلقین کرتے.اور بے نمازی کو بدترین قسم کا انسان سمجھتے تھے.

سلف کی زندگی سے آپ کو بڑا لگاؤتھا.صحابہ،تابعین،تبع تابعین،فقہا کے علاوہ مجددین امت سے حد درجہ محبت کرتے اور ان کی خاک کو اپنانے کی پوری کوشش کرتے.اپنے اساتذہ اور محسنین کو ہمیشہ یاد کیا کرتے تھے.شیخ الاسلام ابن تیمیہ،ابن القیم جوزیہ کے علاوہ معاصرین میں سے شیخ ابن باز،محدث عصر علامہ البانی،شیخ ابن عثیمین اور ہندوستانی علماءمیں امام الہند مولانا آزاد اور اپنے دوستوں اور معاصرین میں علامہ احسان،مولانا حفیظ الرحمن اعظمی،مولانا عبد الوحید رحمانی اور مولانا مختار احمد ندوی(رحہم اللہ) سے کافی متاثر تھے.یہاں تک کہ ایک دفعہ جامعہ میں صرف متجددین پر اجلاس کرایا.
مجھ سے ان کی آخری تفصیلی گفتگو اس دن کی ہے جس دن انہوں نے فون کیا خوب باتیں کیں.اخیر میں ایک بڑی ذمہ داری کی پیش کش کی.جب انہوں نے بھانپ لیا کہ میں کام کرنے کو تیار اور عہدہ قبول کرنے کو راضی نہیں ہوں تو بہت سمجھایا.اور کہا کہ: میری یہ خواہش آج کی نہیں بلکہ ایک زمانے سے تھی.اس لئے قبول کرنا ہوگا.پھر اگلے ہی دن انہوں نے ریاض سے میرے''وکیل الجامعہ'' کا اعلان لکھوا کر اور اپنا دستخط ثبت کرکے بھیج دیا.اور حکم دیا کہ اعلانات کی تختیوں پر چسپا کروایا جائے، جس کی تنفیذگرامی قدر نائب مشرف اعلی حفظہ اللہ نے کی.اس کے بعد دوتین مرتبہ اور گفتگو ہوئی مگر اتنی مفصل نہیں.یہ چیز قابل غور ہے کہ مجھ سے جب کبھی گفتگو ہوتی ادارتی معاملات کے ساتھ علمی موضوعات بھی شامل ہوتے.ایک مرتبہ میں نے کہا کہ'السعی الحثیث' جو (ان کی فقہ کی معرکة الآراءکتاب ہے) پر کام کرنا چاہتا ہوں،منع کردیا.اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں میں کسی کو اپنے بارے میں کچھ لکھنے(جس سے تزکیہ کا پہلو جھلکتا ہو) کی اجازت نہیں دوں گا.بلکہ میرے لئے''شیعیت'' کا موضوع منتخب فرمایا.

آپ کی زندگی سے جڑی ہوئیں بہت ساری یادیں وابستہ ہیں.جتنا زور ڈالتا ہوں کوئی نہ کوئی بات ضرور نکلتی اور لفظ و جملہ کے سانچے میں ڈھلتی چلی جاتی ہے.یادوں کا ایک سمندر ہے بہا جارہا ہے.
پہلی بار ہو یا دوسری بار جب سے وہ بیمار ہوئے میں بھی ذہنی بیمار ہوگیا.ایک ایک گھڑی ان کی یاد آتی اور بے چینی میں مبتلا کرتی.صبح شام طلبہ سے دعاوں کی درخواست کرتا.اور ان کے مشن تعلیم وتربیت کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا رہا.میں میں جامعہ کا کوئی کام محض ڈیوٹی سمجھ کر انجام نہیں دیا.میں ہمیشہ علامہ محترم کی بات کو یاد کرتا کہ ”جامعہ آپ کی ہے“۔ جب جامعہ میری یے تو کام بھی میرا ہے.کوئی کرے نہ کرے مجھے کرنا ہے.

جمعرات کی صبح سویرے اٹھا.فجر پڑھی،دوگھنٹی کرائی.دیر سے کچھ ناشتہ کیا.طلبہ کے چند مضامین پڑھے.اور اپنے چند اخوان(شیخ ساجد،شیخ ثمامہ اور شیخ فیصل) اساتذہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھ کر جامعہ کے صدر دروازے کے قریب بیٹھ گیا.اس دوران متعدد علمی وسیاسی موضوعات زیر بحث آئے.بات ہی بات میں عصر کی نماز ہوئی،ہم لوگوں نے وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دیئے.ہوسٹل کے قریب ہوئے تو میں نے سب کو کہا کہ چلیں ہوسٹل کا مرور کرلیتے ہیں.جمعرات ہونے کی وجہ سے کچھ نگراں گھر بھی چلے جاتے ہیں اور طلبہ میں چھٹی کا مزاج بنا رہتا ہے چنانچہ کچھ طلبہ نماز میں لاپروائی برتتے ہیں.میں سب کو لے کر ہاسٹل چلا گیا.تقریبا دس منٹ ہم لوگ ہاسٹل میں رہے.اس دوران فون کی گھنٹی بار بار بجتی رہی مگر احساس نہ ہوا.جب ہاسٹل سے باہر ہم لوگ آئے تو نائب مشرف اعلی حفظہ اللہ کی موٹر سائکل پر نگاہ پڑی، اور بھی کئی لوگ مسجد کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے.مجھے دیکھ کر وہ بھاری آواز کے ساتھ میری طرف بڑھے اور کہا: کچھ معلوم ہوا؟ میں نے کہا: نہیں.پھنسی آواز سے کہنے لگے.دکتور اللہ کے پیارے ہوگئے.میرا قدم جیسے جہاں تھا رک گیا.بوجھل سا ہوگیا.دل پر گہرا اثر ہوا.عصر کی جماعت کا وقت قریب تھا.مجھے نماز کے بعد اعلان کرنے کے لئے کہا.جیسے تیسے جماعت کے بعد میں نے اساتذہ وطلبہ کو یہ خبر دلگفار میں نے سنائی.پوری مسجد میں سناٹا چھا گیا.صف ماتم بچھ گئی.چہرے اترگئے.پورا ماحول سوگوار ہوگیا.شوسل میڈیا میں علامہ رحمہ اللہ کی موت کی خبر گھومنے لگے.جامعہ سے اس خبر کی تصدیق کی گئی.پھر تعزیتی رسالوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک باقی ہے.درجنوں اعاظم کے مضامین اردو،عربی اور انگریزی میں باضابطہ منظر عام پر آگئے.جماعت وجمعیت اور مسلکی بندشوں سے پرے سارے علاقائی لوگ تعزیت اور اگلے دن  جامعہ میں نماز غائبانہ ادا کرنے پہنچے.

ہمارے علامہ کی خواہش حرم مکی میں دفن ہونے کی تھی.الحمدللہ پوری ہوئی.امام حرم شیخ عبد اللہ عواد جہنی حفظہ اللہ نے جمعہ کا خطبہ دیا اور علامہ محترم کی نماز جنازہ پڑھائی.اور ہزاروں سوگواروں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر مقبرہ معلی میں سپرد خاک ہوگئے.جس وقت پوری دنیا کرونا وائرس سے پریشان تھی.عمرہ اورحرم کی زیارت پر وقتی پابندی تھی ایسے وقت میں ہمارے علامہ کو ریاض سے مکہ لے جانے اور مکہ ہی میں دفن ہونے کی اجازت ملی یہ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں.آپ کے جنازے میں حرم مکی کے عام نمازیوں کے علاوہ تیمی برادران کی ایک جماعت بھی تھی.جن میں ڈاکٹر معراج عالم تیمی،ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی،ثناءاللہ صادق تیمی،عزیز کوثر تیمی،حفیظ الرحمن تیمی،عبد اللہ عطاءاللہ تیمی،محمد حارث تیمی،سیف الرحمن تیمی،حفظ الرحمن تیمی کے علاوہ بہت سارے بر صغیر کے طلبہ واساتذہ موجود تھے.جامعہ میں نماز جنازہ غائبانہ جامعہ کے قدیم استاذ شیخ عبد الرحمن سلفی حفظہ اللہ نے پڑھائی.
ہمارے علامہ کے پسماندگان ورشتہ دار میں مطیع وفرماں بردار بیٹا گرامی قدر ڈاکٹر عبد اللہ سلفی(رئیس جامعہ)،گیارہ بیٹیاں،سارے داماد،پوتے،پوتیاں اور ڈھیر سارے بھتیجے ہیں.جس میں ایک بھتیجا عبد الرحمن عبید اللہ تیمی جامعہ کے نائب نگراں ہےں.اللہ ان سب کو صبر جمیل کی توفیق بخشے.
نیز ہم سب کو جامعہ کے لئے مفید وکار آمد بنائے، ہم سے دین ودنیا کی نیکی وبھلائی کا کام لے.اور علامہ محترم کے مشن، تعلیم وتربیت کو مہمیز لگانے کی توفیق دے.آمین

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

ليست هناك تعليقات: