الاثنين، سبتمبر 24، 2012

دنیا بھر میں منشیات کے پھیلاﺅ کا ذمہ دار کون؟



رحمت کلیم امواوی

منشیات کے استعمال کا مسئلہ روزافزوں تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہی انسانیت اور انسانی قدروں کے زوال و فقدان کا سوال بھی منسلک ہے جو ظاہر ہے ہر باشعور فرد اور حساس جماعت کیلے باعث اضطرار واضطراب ہے بظاہر یہ مسئلہ اتنا مہیب ومہلک نظر نہیں آتا کیونکہ اسے اب تک کے صرف ذاتی نوعیت کا ہی سمجھا گیا ہے اور صرف عادی حضرات کیلے باعث ہلاکت تسلیم کیا گیا ہے ۔لیکن اب یہ مسئلہ ذات و فرد سے نکل کر افراد و جماعت کا مسئلہ بن چکا ہے اور اسکے سنگینی و ہلاکت خیزی کا اعتراف دنیا کے ہر گوشے سے کیا جانے لگا ہے اور ہر طرف سے ببانگ دہل یہ آواز لگائی جا رہی ہے کہ اسے فورا قابو میں کیا جاے اور اس وبا کو ختم کیا جاے۔
قارئین کرام:منشیات جو در اصل نشی سے ماخوذ ہے اس کے اندر ہر وہ تمام چیزیں شامل ہیں جس کے استعمال سے ایک عام آدمی کو نشہ آجائے،جب ہم اسکے ابتدا ئی صورت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ نشہ کی دنیا میں سب سے پہلے حسیس نامی نشو آور شئے کا انکشاف حسن بن صباح کے ذریعے کیا گیا اسکے بعد زمانے کے ترقی کے ساتھ ساتھ ان اشیا ءمیں بھی ترقی ہوتی گئی جس کی وجہ کر سگریٹ ،بیڑی، چرس ، گانجہ،بھانگ وغیرہ کا وجود ہوا اور آج کی اسadvanceترقی یافتہ دور میں ان چیزوں میں بھی کچھ زیادہ ہی ترقی ہوئی ہے جس کے مثال کے طور ہر آپ آج اعلی سے اعلی قسم کے شراب اور درگس کو دنیا کے اکثر خطے میںدیکھ سکتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ہلاکت خیز اشیا کے پھیلا کا ذمہ دار کون ہے ؟ جب ہم اس سوال کے تئیں اپنے ذہن پر زور ڈالتے ہیں تو فورا ہما ری نگاہ حکومت کی طرف اٹھتی ہے اور ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اسکے پھیلا کا ذمہ دار حکومت ہے خواہ کوئی بھی ہو۔جبکہ ایساکچھ نہی ہے اور دنیا کی کوئی بھی حکومت اسکے ذمہ دار نہی ہے اور ہو بھی کیسے سکتی ہے ۔ آپ عالمی منظرنامے کا مطالعہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آج دنیا کی عظیم ترین طاقتیں اس مسئلے کے تئین کتنا محتاط ہیں اور کس قدر بیدار مغزی کے عالم میں اس وبا کے روک تھام کیلے سعی پیہم کر رہی ہیں ۔چند مثال سے آپ اس بات کو سمجھیں تاکہ حقیقت سامنے آجائے۔ابھی کچھ دنوں پہلے افغانستان ،ایران ،پاکستان ان تینوں ممالک نے ا سمگلنگ کے روک تھام کیلئے سہ فریقی تعاون کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان تینون ممالک کو اس تعاون مین اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات(UNODC) کی معاونت بھی حاصل ہے ،علاوہ ازیں روس اور پاکستان ان دونوں ملکوں نے مل کر سمگلنگ کے روک تھام کیلے ایک گروپ تشکیل دی ہے اور ساتھ ہی ابھی کچھ دنوں قبل قزاکستان میں ۶ کڑور کے صرفے سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے جسکا مقصد صر ف اور صرف منشیات کے روک تھام کیلے کام کرنا تھا ،اور ابھی ایک ہفتہ قبل پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو منشیات کے الزام میںگرفتار کر لیا گیا ہے اور پھر ہمارے ہندوستان میں ۷ لاکھ روپئے کے جرمانے کے ساتھ دس سال کی سزا صرف اور صرف منشیات کے روک تھام کیلے ہی رکھا گیا ہے ۔اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ جب دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس مسئلے کے تئیں اس قد رفکر مند ہوں اور اس طرح اسکے سنگینی کے خاطر محتاط ہوں پھر اسکے روک تھام کیلے شبانہ روز سعی پیہم بھی کر رہی ہوں تو پھر آپ کا حکومت کو ذمہ دار ٹھرانا کیا انصاف کی بات ہے ؟ میں سمجھتاہوں آپ یقینا اسکے قائل نہی ہونگے ۔تو پھر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ آخر اسکے پھیلاو کا ذمہ دار ہے کون ؟جب ہم شعور و آگہی کے دریچے کھول کر اس کے حقیقی ذمہ دار کو تلاش کرتے ہیں تو ہمیں پس پردہ ایک ایسے لوگوں کا جتھا اور ٹولی دکھائی دیتی ہے جو مادہ پرستی کا خوگر ہے اور انسانیت سے ذرہ برابر بھی لگاو نہی ہے اور صر ف مال و دولت کی خاطر انسانیت کو شرمشار کرنا اور انسانیت سوز حرکت کرنا انکے نزدیک ایک عام بات ہے اور ان لوگوں نے مال و دولت کی حصولیابی کیلے منشیات کے پھیلا کو اپنا ہتھیار بنا رکھا ہے ۔اور یہی حقیقت ہے کہ منشیات کے پھیلا کا ذمہ دار نہی کوئی حکومت ہے نہ ہی کوئی مذہب ۔بلکہ مافیاں اور چند لوگوں کی ایسی جماعت جنہیں انسانیت سے کوئی سروکار نہی ہے اسکے اصل ذمہ دار ہیں اور یہ لوگ انسانی زندگی کا زرہ برابر بھی خیال نہی رکھتے اور مال و دولت کی خاطر باپ ماں بھائی بہن اپنے پرائے سب کو بھول جاتے ہیں اور انہیں کچھ نظر آتا ہے تو صرف اورصرف پیسہ۔اور اسکے لیے اپنے خاندان کا جنازہ نکال دینا کوئی مشکل نہی ہوتا ۔
                                یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اشیاءمنشیات کو متنوع شکل میں پیش کرنے میں مغرب نے اہم رول نبھایا ہے اور بڑی بڑی کمپنیاں کھول کر اس کے فروغ میں اہم کردار نبھایا ہے ۔لیکن سچائی یہی ہے کہ اسکا اصل ذمہ دار چند مافیاںکے گروپ اور انسانیت سوز حرکات کرنے والے لوگوں کی کچھ تنظیمیں اور انسانوں کے بھیس میں شیطانوں کا جتھا ہے جنہیں انسانی جان کی قدر و قیمت کا ذرہ برابر بھی اندازہ نہی ہے ۔ضرورت ہے کہ ہم خود سے خود کی حفاظت کریں اور ان حرام و جان لیوا اشیا کے استعمال سے اجتناب کریں ۔اللہ ہمیں توفیق بخشے۔آمین

الثلاثاء، سبتمبر 18، 2012

الخطابة في العصر الجاهلي


سليم اختر التيمي
السنة الأولى من الماجستير
جامعة اللغةالانكليزيةواللغات الاجنبية،حيدرآباد

تعريف الخطابه :- الخطاب والمخاطبة:مراجعة الكلام,وقد خاطبه بالكلام مخاطبة وخطابا,وهمايخاطبان. والخطبة مصدرالخطيب,وخطب الخاطب على المنبر,وخطب يخطب خطابة,واسم الكلام:الخطبة. -قال الليث:ان الخطبة مصدرالخطيب,لا يجوز الا على وجه واحد,وهوأن الخطبة اسم للكلام الذي يتكلم به الخطيب,فيوضع موضع المصدر.(لسان العرب 1/361 للعلامةابن منظورالافريقي المصري)
تقسيم الخطابة:- مؤرخوالادب العربي يقسمون الخطابة الى ثلاثة اقسام:
 الخطب السياسية :فتتناول الخطب السياسية الموضوعات التي تتعلق بتنظيم الجماعةواقامة الحكم فيها.
 الخطب القضائية: وهي الخطب التي تلقي في دورالمحاكم,وازدهرت كسائر أنواع الخطب في اليونان حيث كان الخطباء يدافعون عن ما لهم وأرزاقهم امام القضاء.
 الخطب الدينية : وهي الخطب التي تلقي في المساجدوالكنائس,متعمدةالتاثير علي السامعين,وحضهم علي الفضيلةوترك متاع الدنيا.(فن الخطابةوتطوره عند العرب:23,24,25)
ميزة الخطابة :-ان الخطابة متصفة بالخصائص والمزاياوالأساليب التي تميزها عن مثيلاتها واخواتها كل تمييز,وهذه المزاياوالاساليب تتلئلئ كالنجوم المتلئلئة في الليلة المقمرة في الكلام الخطاباء بصورة قوة المعاني والألفاظ وقوةالحجة والبرهان وقوة العقل الخطيب وقوة عارضته وسطوع حجته ونبرات صوته وحسن القائه ومحكم اشارته.
 ومن أظهر مميزاتها واساليبها التكرار، واستعمال المترادفات وضرب الأمثال واختيارالكلمات الجزلة ذات الرنين وضروب التعبير من أخبار الى إستفهام الى تعجب الى استنكار.وتخيراللفظ واسلوب التدرج والتمثل بالشعروالتوسل بالايقاع.
أهمية الخطابة: من المعلوم لدي الجميع أن للخطابة أهمية سامية ومكانة مرموقة في الحياة الانسانية,وهي وسيلة هامة من وسائل دعوة الناس من الظلمات الى النور,ومن الشر الى الخير,وعبادةالناس الى عبادةالله الواحدالقهار,كما هي جنة قوية لتجنيب الدول من الاحتلال الى الاستقلال,ومن الثورة الى الأمن و السكون,ومن تفريق كلمة المجتمع الانساني وتشريدهم الى توحيد كلمتهم ووئائهم,وأن الخطابة لها دور هام في تحريض الناس على الحرب وسفك الدماء وقتل النساء,كما لها قدح معلى في الصلح والسلم بين الدول والامراء.
    وكل هذا دفع العرب في العصرالجاهلي الى المساهمة في الخطابة,وكان العرب ذونفوس حساسة وإباء وأولوغيرةونجدة، وكان لهم فيها القدم السابقة والقدح المعلى، وقد دعاهم اليها ما دعا الامم البدويةمن الفخر بحسبها وتجارها,والذود عن شرفها وذمارها,واصلاح ذات البين الحيين,والسفارة بين رؤوس القبائل وإقبالهم,أو بين الملوك وعمالهم. وكانوا يدربون فتيانهم  وأولادهم عليها منذ الحداثة,ويحرصون على أن يكون لكل قبيلة خطيب ليشد أزرها,وشاعر يرفع ذكرهاوربما اجتمع الصفتان في واحد.(تاريخ الادب العربي لحسن الزيات:20).
  ولما اذن الله الواحد القهار لشمس الاسلام ان تطلع ,ولكلمته"لااله الا الله"ان تصدع,لم يخالف الخطابة الرائجة في العصر الجاهلي,ولم يأمر المسلمين بعدم اختيارها في سبيل الدعوةوالارشاد.بل انما نبينا الامي محمد بن عبد الله صلى الله عليه وسلم اختارها واستعملها في بدء نبؤته ورسالته ودعا بها الناس المترنحين تحت الشرك والكفر والفواحش والمنكرات الى عبادة الله عزوجل والصراط المستقيم والطريق القويم,وأرسل نبينا الكريم صلى الله عليه وسلم الصحابة الكرام رضي الله عنهم الى أطراف مكة المكرمة والمدن الأخري كخطباء لدعوة الناس من عبادة العباد الى عبادة الله العزيزالحكيم.فالصحابة الكرام كانو يخطبون خطبا بليغة في المساجد والمجالس والأماكن الأخري,ويدعون الناس بها من الشرك الى عبادة الله,ومن الشر الى الخير,ومن الطلمات الى النور. 

تطور الخطابة في العصر الجاهلي
إن قلمي عاجزعن تعبير تطور الخطابة في العصر الجاهلي بعين تطورها حق التعبير,لأن النصوص التاريخية ماوجدت مكتوبة تدل دلالة على تايخهاحينمابداءت,ونشأتهاكمانشأت ,وتطورها كماتطورت ولكن تاريخ الأدب العربي يدل دلالة على أن للعرب مساهمةكبير ة في الخطابة,ودورا بارزا في ازدهارهاوتطورها,وكل شئ كان عندهم,يؤهلهم لهذاالازدهار,وأنهم استخدموا الخطابةفي ميادين مختلفةلأغراض متنوعة كالمنافرات والمفاخرات بالاحساب والانساب والمآثروالمناقب والمنازعات والخصومات بينهم والدعوة الى الحرب والصلح,والمجالس والأسواق وساحات الأمراءووفادتهم عليهم لاظهاربراعتهم وتفننهم في المقال وحوك الكلام,واسعفتهم في ذلك ملكاتهم البيانيةوما فطروا عليه من خلابةولسن وبيان وفصاحةحضوربديهة.فيكتب الأديب الأريب الجاحظ عن الخطابةفي العرب بكلمه السيال"وكل شئ للعرب فانماهوبديهةوارتجال,وكأنه الهام,وليست هناك معاناة ولامكابدة ولااجالة فكرولا استعانة, وانماهوأن يصرف وهمه الى الكلام.......عندالمقارعةاوالمناقلة اوعندصراع أوفي حرب,فماهوالا أن يصرف وهمه الى جملةالمذهب والى العمودالذي اليه يقصد,فتاتيه المعاني ارسالا وتنثال عليه الالفاظ انثيالا..وكان الكلام الجيد عندهم أظهروأكثر,وهم عليه............الخ(تاريخ الأدب العربي لشوقي ضيف ص:412/1)
    هناك استعرض تلك الوسائل التي لعبت دوراهاما في تطورالخطابةوازدهارها في العصر الجاهلي بالايجازوالاختصار,لابالاطناب والتطويل :
الحرب
فتطلق الحرب على مايجتمع فيه حزبان للقتال وسفك الدماء ذودا عن الأموال والقبائل والدين والوطن.فالخطباءفي ذلك الوقت يلعبون دوراهامافي تحريض الناس على الحرب والتدميروسفك الدماءوالصلح والسلم واصلاح ذات البين وأن تضع الحرب أوزارها,فيقول ربيعةبن مقروم: 
  خطباءنا بين العشيرة يفصل
   ومتي تقم عند اجتماع عشيرة

(تاريخ الادب العربي 1/410 نقلاعن تاريخ الطبري1/1711
ومن المعلوم لدي الجميع أن العرب كانوا ينهمكون في الحرب والقتال الى شهوروسنوات,وبهذا الطريق تطورت الخطابة تطورا فوق حاسب الحسبان.
الأسواق
الأسواق جمع سوق,والسوق يطلق على مكان يجتمع فيه أهل البلادوالقرى في أوقات معينة يتبايعون ويتداولون ويتقايضون.

ومن هذه الأسواق ما ينعقد كل يوم,وبعضها ينعقدكل أسبوع,وبعضها لاينعقد الامرة في الشهر أو السنة,وبعضهاينعقد مرة في بضع سنين.وهذه الأسواق تأخذ مكانهافي المدن المختلفة نحو دومةالجندل في اعالى نجد أول يوم من شهرربيع الأول وحضرموت وصنعاء وعكاظ وصحاروالشحروالمجنة وحباشة والمشقروغيرها.من هذه الأسواق سوق عكاظ الذي لقي الشيوع والذيوع أكثر من الأسواق الأخرى,وكان كل شريف انما يحضر سوق بلدة الا سوق عكاظ,فانهم يتوافدون اليها من كل فج عميق.فالعرب كانو يقيمون في هذه الأسواق مجالس ومحافل للبحث في كل موضوع كالمناشدةوالمفاخرة جنبالجنب البيع والشراء,فينشد الشعراءويخطب الخطباء,ومن كان شعره وخطبته يكون جيدة,فتعطى له الجوائز الثمينة.فلهذه الأسواق الفضل العظيم والأثرالبالغ في تطور الخطابة..
المجالس الأندية:
 كان للعرب مجالس ومحافل يجتمعون فيهالمناشدةالاشعارومبادلةالاخباروالبحث في بعض شئونهم العامة,منها نادي قريش ودارالندوة بجوار الكعبةالشريفةولكل بيت فناء,فالعرب يجتمعون في هذه المجالس ويناشدون ويخاطبون فيها و يفاخرون فيها.فلهذه المجالس الاندية القدح المعلى في ازدهارالخطابة في العصر الجاهلي.
المنافرةوالمفاخرة:
من طبيعة العرب المنافرات والمفاخرات بالأحساب والأنساب والمآثر والمناقب.والمنافرات التي لقيت الشيوع والذيوع في هذا المجال وهي منافرة علقمة بن علاقة إلي هرم بن قطبة الفراري ومنافرة القعقاع بن معبد التميمي وخالدبن مالك الهشلي إلي ربيعة بن حذار الأسري _( تاريخ الادب العربي لحسن الزيات ص:  نقلا عن البيان والتبين /2 272  (
السفارة بين الأمراء : -
وجود السفارة قديم قدم البشرة ذاتها . فالأمراء والحكماء كانوا يستملونها في نيران الحرب والصلح وذات بين البين والمفاخرات والمنافرات بينهم، ويرسلون الوفد إلي المدن وأمرائها وحكماءها ، فيقف رئيس الوفد بين يديهم متحدثا بلسان قومه ويخطب خطبة بليغة تعبيرا عما يجوش في النفوس والقلوب بعبارة فصيحة جذابة تؤثر في الأمراء الحكماء كل تأثير.وبهذا الطريق تطورت الخطابة كل تطور.... فيقول أوس بن حجر في رثاء فضالة بن كلدة :
                        أبادليجة من يكفي العشيرة إذ
                        أمسوا من الخطيب في ناروبلبال
                        أم من يكون خطيب القوم إذحفلوا
                        لدي الملوك ذوي أيد وأفضال
الزواج :
من طبيعة العرب في العصر الجاهلي في الزواج أن يتقدم عن الخاطب سيد من عشيرته وقبيلته ، فخطب باسمه الفتاة التي يريد الاقتران بها ، وخطبة في الزواج أخذها الاسلام من  الحقبة الجاهلية ولم يمنعها والخطابة في الزواج سنة من سنن الرسول صلى الله عليه وسلم، وفي ذلك خطبة أبي طالب السيدة خديجة الجاهلية للرسول مشهور ة جدة (تاريخ الأدب العربي 417-1)ولهذا الزواج الميمون الفضل العظيم في ازدهارالخطابة في العصر الجاهلي ويقول الجاحظ عن خطبة العرب في الزواج ،" كانت خطبة قريش في الجاهلية – يعني خطبة النساء -: باسمك أللهم ذكرت فلانة ، فلان بها مشغوف ، باسمك أللهم لك ماسألت ، ولنا ما أعطيت "، ( البيان وتبين  407- )1 وفي موضع أخر ،" اعلم أن جميع خطب العرب من أهل المدر والوبرو البدو والحضر علي ضربين منها الطوال ، و منها القصار ولكل ذلك مكان يليق به وموضع يحسن فيه، ومن الطوال مايكون مستويا في الجودة ، ومتساكلا في استوار الصنعة ، ومنها ذوات الفقر الحسان والنتف الجياد... ووجدنا عدد القصار أكثر و رواة العلم إلي حفظها أسرع ، ( البيان والتبين 7/2 )
والوصية
        عندما الشيوخ يشعرون بأن ساعة موتهم قد أزفت ، يدعون بينهم ويوصونهم بماينبغي أن يكونو ا عليه في هذه الحياة، موحين لهم بحكمتهم الخاصة ، معبرين  عن ذلك بأسلوب يقارب الأسلوب الذي طالعنا في الخطب الدينية والعزائية ، فهناك وصية أوس بن حارثة لأبنه مالك :" يامالك ، المنية ولاالدنيئة ،والعتاب قبل العقاب ، والتجلد لاالتبلد ، واعلم إن القبر خير من الفقر ، وخير الغني القناعة وشرالفقر الضراعة ...... الخ ( فن الخطابة وتطور ه عند العرب 50.51 ايسلياحاوي )
القبائل التي لها مساهمة كبيرة في تطور الخطابة :-
هذا لايخفي علي كل من له أدني ألمام بتاريخ الأدب العربي أن جميع العرب ساهموا في تطور الخطابة في العصر الجاهلي ، ولكن بعض القبائل ساهموا مساهمة كبيرة في ازدهار الخطابة وبذلوا قصاري مجهوداتهم في تطورها وخلق فيهم الخطباء المصاقع ذوي ذلاقة اللسن ونصاعة البيان ، وأناقة اللهجات وطلاقة البديهات الذين بذلوا قصاري المجهود في ترويج الخطابة بالمشاركة في المجالس والحفلات المنعقدة في الأماكن المختلقة ، فمجهوداتهم المبذولة تتلألأمع مرور العصور كالنجوم المتلألئة إلي يومنا هذا ، التي نقلها المؤرخون بصدق وأمانة ، ومن هذه القبائل المشهورة ، قبيلة عدوان وأسد وتغلب وشيبان وكلب وقضاعة وطي وتميم وإياد و ماإلي ذالك من القبائل الكثيرة.
وممن اشتهروا بالخطابة العلمية الجامعة في هذه القبائل ولقوا الشيوع والذيوع في هذا الميدان عامربن الظراب في عدوان و ربيعةبن حذار في أسد وهاني بن قبيصة في شيبان وزهيربن جناب في كلب وابن عمارفي طئي وأكثم بن صيفي وقس بن ساعدة من إياد وهو الذي قال فيه الني صلي الله عليه وسلم " رأيته بسوق عكاظ علي جمل أحمر وهو يقول : أيها الناس اجتمعوا واسمعوا وعوا، من عاش مات ، ومن مات فات، وكل ماهو آت آت(البيان والتبين 308/1 )
خلاصة القول :
وأن الخطابة مظهر من مظاهر الحرية والفروسية وسبيل من سبيل التأثير و الأقناع ، ومتصف برائع اللفظ وخلاب العبارة واضح المنهج قصيرالسجع وكثير الأمثال ، وتاريخها قديم قدم البشرية ذاتها ، وأنها كانت مزدهرة في الجاهلية ، فقد كانوا في حظ كبيرمن الحرية ،وكانوا يخطبون في كل موقف في المفاخرات وفي الدعوة إلي السلم أو الحرب وفي النصح والأرشاد وفي الصهر والزواج . وابتغوا دائما في كلامهم أن يؤثر في نفوس سامعيهم بما حققواله من ضروب بيان وبلاغة _

 المصادروالمراجع

تاريخ الادب العربي لحسن الزيات 

تاريخ الادب العربي لشوقي الضيف

فن الخطابة وتطوره عندالعرب لأبي سلمان

البيان والتبيين للجاحظ

لسان العرب لإبن منظور

نبی رحمت صلى الله عليہ وسلم کی توہین آمیزفلم اور ہماری ذمہ داری


صفات عالم محمدزبیر تیمی

آج مغرب سمیت پوری دنیا اسلام دشمنی پر کمربستہ ہوچکی ہے ، کبھی وہ مسلمات دین پر کیچڑ اچھالتے ہیں ، توکبھی قرآن کریم کی بے حرمتی کرتے ہیں ،کبھی صدیقہ بنت صدیقؓ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں تو کبھی حرمین شریفین کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، کبھی مسلمانوںکو رجعت پسند اورکٹرپنتھی کا نام دیتے ہیں تو کبھی ہمارے حبیب صلى الله عليه وسلم  کے اہانت آمیز خاکے شائع کرتے ہیں ۔پچھلے دنوں یوٹیوب پر14منٹ کی ایک فلم نشر ہوئی ہے ، یہ فلم سام باسلے نے بنائی ہے ، جس نے خودکو اسرائیلی یہودی کے طورپر متعارف کرایا ہے ، اوردعوی کیاہے کہ اس فلم کی تیاری کے لیے اس نے100یہودیوں سے5 ملین ڈالراکٹھا کئے ہیں ۔ اس توہین آمیزفلم میں اس نے اسلام اور نبی رحمتصلى الله عليه وسلمکودہشت گردی کا علمبردار باور کرایاہے ، برصغیرپاک وہندسمیت پوری دنیامیں اس فلم کی مذمت کی گئی ہے ،اوراس کے ردعمل میں لیبیا میں امریکی سفیر جے کرسٹوفرسمیت تین امریکی اہلکار ہلاک کردئیے گئے ہیں ، مصر میں مشتعل عوام نے امریکی سفارخانے کو آگ لگادی ہے ۔

ظاہر ہے کیا کوئی برداشت کرے گاکہ اس کی ماں کو کوئی گالی دے یا سخت سست کہے ، ایک غیرتمندانسان قطعاً اسے برداشت نہیں کرسکتا ،اورممکنہ حدتک اپنی ماں کا بدلہ لینے کی کوشش کرے گا ،جب ماں کی اہانت پرہرانسان کے اندرغیرت جاگ اٹھتی ہے تو ہمارے حبیب صلى الله عليه وسلمہمیں اپنے ماں باپ سے بھی عزیز ہیں بلکہ ہماری جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں، ان کے ساتھ گستاخی کو ہم کیوںکر برداشت کرسکتے ہیں ۔ لیکن ہرایک مسلمان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ کوئی بھی اقدام شریعت محمدی سے ہٹ کرنہ کرے، جذبات میں آکر بے گناہوں کو قتل کرنا یا آبادجگہوںکو برباد کرنااسلامی تعلیم کے منافی عمل ہے ،خودہم اپنے نبی کی زندگی میں جھانک کردیکھ سکتے ہیں کہ مخالفین کی مخالفت سے آپ کے اخلاق حمیدہ میں مزید اضافہ ہی ہوتا رہا،اورجذباتی اقدام ہمیشہ مثبت اورہمہ گیر اثرات سے خالی ہوتا ہے پھر ہمیں اس طرح کی کاروائیوں کے پیچھے اسلام دشمن عناصر کے اہداف کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ وہ اصل میں اسلام کی آفاقیت اوراسکے فروغ سے بوکھلاہٹ میں مبتلا ہیں،انہیں مسلمانوں کی مذہبی اورسیاسسی ترقی اوران کی یکجہتی ویگانگت ایک آنکھ نہیں بھارہی ہے، اس لیے وہ ایسی مجرمانہ کاروائی میں مشغول ہیں ۔ورنہ کتنے انصاف پسند مغربی مفکرین نے اعتراف کیا ہے کہ انسانیت میں اگرکوئی عظمت کا مستحق ہوسکتا ہے تو وہ محمد صلى الله عليه وسلم  ہیں ،آپ وہ عظیم انسان ہیں جن کے جیسے اس دھرتی پر نہ کوئی پیدا ہوا اورنہ قیامت کے دن تک پیدا ہوسکتا ہے ،آخر اس سے بڑھ کر عظیم انسان کون ہوسکتا ہے جو ایک دن اور دو دن نہیں ۳۲ سال تک انسانیت کی خیرخواہی کے لیے تڑپتا رہا ، پھروہ دن بھی آیا کہ جن لوگوں نے آپ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کی بازی لگائی تھی اپنے کئے پر پشیماں ہوئے اور آپ کے پیغام کو پوری دنیا میں لے کر پھیل گئے۔کیونکہ ان کویقین ہوگیاتھا کہ آپ ساری انسانیت کے لیے رحمت بناکربھیجے گئے ہیں،کیااس انسان سے بڑھ کر رحم وکرم کا پیکر کوئی ہوسکتا ہے کہ جن کی خیرخواہی کی تھی انہوں نے ہی ان پر پتھر برسائے تھے ،یہاںتک کہ خون آلودہوکرزمین پر گرگئے تھے ،جب ہوش آیا اورفرشتے نے ظالموں کو جرم کا انجام چکھانے کی اجازت چاہی تویہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ مجھے امیدہے کہ اللہ پاک ان میں سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرے گی،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔ اس یہودی عورت کو دیکھیں جس نے رحمت عالم ا کے سامنے شدت عنادمیں اس ارادہ سے زہرآلود کھاناپیش کیاتھا کہ اس نبی سے چھٹکارا حاصل کرلیں ،لیکن اسے بھی معاف کردیا ۔پھر جن لوگوں نے 21سال تک آپ کا اورآپکے اصحاب کا جینا دوبھر کردیاتھافتح مکہ کے موقعپر سارے مجرمین آپ کے قبضہ میں تھے ، ایک ایک سے بدلہ لے سکتے تھے لیکن قربان جائیے رحمت عالم کی رحمت وشفقت پر کہ سب کی عام معافی کا اعلان کررہے ہیں ۔ آپ کی رحمت انسانوں توکجا حیوانوںتک کو شامل تھی جس کی تفصیلات سیرت کی کتابوںمیں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ آج ایسے نبی رحمت کو دہشت گردباورکرایاجارہا ہے تو یہ دراصل اس کشمکش اورمعرکہ آرائی کا شاخسانہ ہے جو حق وباطل کے بیچ روزاول سے جاری ہے اورتاقیامت جاری رہے گا ۔یہ مجرمانہ حرکت جناب رسالت مآبصلى الله عليه وسلم کو کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی کہ اللہ پاک نے خودآپ کی شان بڑھائی ہے ، آپ کے ذکرکوبلندکیاہے،آپ کے مخالفین کے لیے ذلت ورسوائی مقدرکی ہے ،تمسخراڑانے والوں کواللہ پاک نے اپنے انجام تک پہنچایاہے،اس لیے جب کوئی گستاخ ہمارے نبیصلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخی کرے گا تواس سے ہمارے نبی کی تنقیص نہیں ہوگی بلکہ ان کے مقام اورمرتبہ میں اضافہ ہوگا ۔ بلکہ آپ صلى الله عليه وسلمکی اہانت کرنے والوں کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے سورج پر تھوکنے کی جرأت کی تو تھوک ان کے چہرے ہی پر آگرا،تجربات بھی شاہد ہیں کہ اس طرح کی نازیبا حرکتوں کا انجام ہمیشہ بہتر ی کی شکل میں سامنے آیا ہے ،ہمیں اللہ پاک کے اس فرمان پر یقین رکھنا ہے کہ : لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیرلکم ”اسے اپنے لیے بُرا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے “۔ البتہ ہمیں اس مناسبت سے اپنے حبیب کے دفاع کے لیے کمرہمت باندھتے ہوئے ذیل کے چندکام کرنے ہیں:
C اللہ کے دشمنوں سے براءت کا اظہار کریں ،دوستی اور دشمنی کا معیاراللہ اوراس کے رسولصلى الله عليه وسلمکی ذات ہونی چاہیے کہ مومنوں کواللہ کے دشمنوں سے محبت نہیں ہوتی ۔
Cدشمن کا اقتصادی بائیکاٹ کریں ،ان کی مصنوعات کی ناکہ بندی کرکے ہم انہیں سخت خسارے سے دوچار کرسکتے ہیں کہ یہ دشمن کو نقصان پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔
 Cاگر ہمارے اندر کسی طرح کی دینی کوتاہی پائی جاتی ہے تو اپنامحاسبہ کریں ،دین سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں ،اپنی سوچ میں فکرآخرت کو جگہ دیں ،سیرت نبوی کاگہرائی سے مطالعہ کریں،سیرت پر مشتمل کتابیں اپنے گھروںمیں لائیں اوربیوی بچوں کو پڑھ کر سنائیں، اپنے معاشرے میں سنت نبوی کو عام کریں۔ اس طرح اپنے نبی کی سنت کو نمونہ بناکر دنیا کوبتادیں کہ ہم اپنے نبی کے حقیقی محب ہیں ۔
 Cہرشخص اپنے اپنے میدان میں اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم  کی طرف سے دفاع کرے ، اصحاب قلم اپنی نگارشات کے ذریعہ ،خطباءاورائمہ مساجدخطبات جمعہ کے ذریعہ ، اصحاب ثروت سیرت پر مشتمل کتابیں شائع کرکے ،اور عام لوگ سیرت کا مطالعہ کرکے اورسیرت کے پیغام کو غیرمسلموں تک پہنچاکر دین کی خدمت انجام دیں کہ یہ وقت کا تقاضا ہے ۔
           

السبت، سبتمبر 15، 2012

شراب کہن پھر پلا ساقیا


رحمت اللہ کلیم اللہ امواوی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی

گلاب کے سدا بہار پھولوں کی طرح اسلام کا شا داب اور روح افزا پودا بھی کانٹوں کے باڑھ ا ور سنگلاخ زمینوں میں نشو ونما پاتا رہاہے۔ہر دور،ہر زمانے،ہر ملک اور ہر علاقے میں اس پودے کی اپنے خون سے آبیاری کرنے والوں نے اسکی ساخت وپرداخت،اسکی نشو ونما اور اسکی آرائش و زیبائش میں کبھی کوئی کسر نہیں رکھی ہے۔گرچہ اس کے نونہالوں کو بے شمار آلام ومصائب کا سامنا کرنا پڑا اسکے باوجود اس ملت کے جیالوںنے کبھی اف نہیں کیا ، کبھی لوٹ کر پیچھے نہیں دیکھا ،اور ہمیشہ کوئے یار سے نکل کر سوئے دار کی طرف چل پڑنے کو اپنا ملی اور مذہبی شعار قرار دیا۔
الغرض اسلام کی ضیاءپاش کرنیں پورے آب و تاب سے مشرق ومغرب کے ہر خطے ،ہر گوشے میں اپنی نور بیز کرنیں بکھیرتی رہیں ۔بالآخر عرب وعجم نعرہءتکبیر سے گونج اٹھا ۔اور دشمنان اسلام ناطقہ سر بہ گریبان اور خاموش تماشائی بنے رہے۔ہر طرف اسلام اور مسلمانوں کابول بالا ہو گیاانکی عظمت و وقار کا آفتاب پوری روشنی کے ساتھ بام عروج پر پہونچ گیا ۔اور بلا شبہ مسلمانوں نے اس غلبہ کو صرف اور صرف کتاب و سنت، ایمان بااللہ اور اطاعت رسول کے ذریعہ حاصل کیا۔اور اسی ہتھیار کے ذریعہ مسلمان دنیا والوں پر حاوی اور فائق رہے۔
                   لیکن جب ہم عہد ماضی اور عصر حاضر کے درمیان موازنہ کرتے ہیں تو معاملہ با لکل بر عکس معلوم پرتا ہے ،ایسا لگتا ہے کہ عنقریب مسلمانوں کی عظمت ووقار کا جنازہ اٹھنے والا ہے ۔تمام اسلام اور مسلمان دشمن طاقتیں متحد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں ،دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر عالم اسلام کے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز پھر سے کیا جا چکا ہے ۔جمہوریت کے قیام کی آڑ میں معاشی بالا دستی کے حصول اور دنیا بھر میں موجود قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،افغان و عراق ،مصر و فلسطین ،لیبیا بحرین اور شام جیسے مسلم ممالک کو تباہ وبرباد کرکے مسلمانوں کے کمر توڑ دیے گئے اور نہ جانے کتنے مسلمانوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا ۔مزید بر آں عالم اسلام کو مسلکی تصادم کی جانب دھکیلنے کی سعی کی گئی اور اب تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔مسلمانوں کا وقار چھین لیا گیا ، مظلومیت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا جبکہ مسلمان فطری طور پر قائد ہوتا ہے ،قیادت و سیادت اس کے خمیر کا عنصر ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس سے رفعت و سر بلندی کا وعدہ کیا ہے، امامت و خلافت کا عظیم منصب اس کے سپرد کیا ہے ،رہنمائی و سربراہی کیلئے اس کو منتخب کیا ہے، قرآن شاہد ہے کہ” اس وقت تک سرفرازی تمھارے ساتھ رہے گی جب تک کہ تم مومن کامل رہوگے “۔اور آج کا مشاہدہ یہی بتا رہا ہے کہ مسلمان آج اس کسوٹی پر پورے نہیں اتر رہے ہیںجسکی بنا پر ان سے ساری سربلندی کو سوں دور ہو چکی ہے۔مسلمان دنیاوی رنگینیوں میں پوری طرح ڈوب چکے ہیںجس میں نہ انسانیت ہے،نہ اصلی زندگی کی رمق،نہ دین کا خیال ہے،نہ اخلاقی حسن،پورا عالم اسلام ایک بے روح جسم کی مانند ہوچکا ہے نہ مذہبی نور ہے نہ انسانیت نوازی کااحساس ،نہ اخوت کا خیال ہے نہ مقصد تخلیق کا احساس ،بس اگر کچھ ہے تو وہ دنیا ہے، ہر شخص مادیت پرست،خواہش پرست اور ہوس پرست معلوم پرتا ہے اور یہی اسباب ووجوہات ہیں جسکی بنا پر آج ہم ذلت و مسکنت کے شکا ر بنے ہوئے ہیں اور ہماری حاکمیت اب محکومیت میں تبدیل ہو چکی ہے۔جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے اسلاف نے دنیا پر حکومت کرنے کیلئے صرف دو ہتھیار اپنائے تھے اور انہیں دونوںکی بدولت پورے عالم پر حکومت کر رہے تھے اور وہ دونوں ہتھیار قرآن اور سنت نبوی تھے۔اور یہی دونوںہتھیار ہم مسلمانوں سے آج معدوم ہو چکے ہیں، ہماری اسلامی تہذیب و ثقافت بالکلیہ ہم سے جدا ہو چکی ہے۔اور ہمارے تہذیبی زوال اور غلامانہ ذہنیت کی جو پیشین گوئی آج سے صدیوں قبل نبی ا نے کی تھی آج وہ حرف بحرف صادق آرہی ہے۔حدیث میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی انے فرمایا کہ تم ہوس پرست اور دین واخلاق سے محروم یہودیوں اورنصرانیوں کی ایسی غلامانہ تقلید کروگے کہ ایک ہاتھ یا ایک بالشت کا بھی فاصلہ نہیں ہوگایہاں تک کہ لوگ اگر احمقانہ طور پر گوہ کے بل میں گھس جائے تو تم بھی دیکھا دیکھی اسکے پیچھے بل میں گھس جاگے ۔(متفق علیہ)
                   یقینانبی صلى الله عليه وسلم کی پیشن گوئیاں آج صد فیصد صادق آرہی ہیں،پورا عالم اسلام مغرب کا مقلد بن چکا ہے ،مسلمانوں کے افکار و خیالات ،تہذیب و ثقافت پر مغرب کا غلبہ ہے، مادیت کا دور دورا ہے، آخرت سے بے خبر ہوکر ہوس کی پیاس بجھانے کے پیچھے رواں دواںہے ،اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر دنیاوی رعنائیوںمیں غرق ہو چکا ہے جسکی پاداش میں آج مسلمان غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ہر محاذ پر ان کے حقوق کی پامالی کی جارہی ہے ۔ضرورت ہے کہ مسلمان پھر سے اسلاف کے اختیار کر دہ ہتھیار کو اپنا کردنیا پر اپنی فوقیت و برتری کو ثابت کر دیں
  1.  شراب کہن پھر پلا ساقیا    
وہی جام گردش میں لا ساقیا

السبت، سبتمبر 08، 2012

جتناہی دباؤگے اتنا ہی یہ ابھرے گا


صفات عالم محمد زبیرتیمی 
آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی جو ناگفتہ بہ صورتحال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، بالخصوص برما،شام ، فلسطین، افغانستان، کشمیر اورآسام میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم وبربریت اور درندگی کاجو ننگا ناچ ناچا جارہا ہے وہ جگ ظاہر ہے ،لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اسلام کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ روزاول سے حق وباطل کا معرکہ چلا آرہا ہے ، اس معرکہ میں وقتی طور پر اسلام کو زک پہنچا ہے ،مسلمانوں نے چوٹیں کھائی ہیں، لیکن یہ تاریکیاں ہمیشہ نہ رہی ہیں نہ رہیں گی ، ہر دورمیں حق کو بالآخر غلبہ نصیب ہوا اور باطل نے منہ کی کھائی ہے، اس لیے آج بھی ہمیں پورایقین ہے کہ باطل جس قدربھی سرچڑھ کربولے پسپا ہوکر رہے گا۔
ہم جس دین کے ماننے والے ہیں وہ دین حق ہے اسے اس لیے برپا کیا گیا ہے تاکہ پوری دنیا میں پھیلے، انسانیت کی رہنمائی کرے ، شروع انسانیت سے آج تک خالق کائنات کا یہی دستور رہا ہے ، پہلے انسان آدم ں کی اولاد دس صدیوں تک توحید پر قائم رہی ، پھر ان میں شرک درآیا تو اللہ پاک نے ان کی ہدایت کے لیے انبیاءورسل کو بھیجا۔ ہر دورمیں انبیاءآتے رہے،اپنی قوم کو حق کی طرف بلاتے رہے ،جن لوگوں نے حق کو اپنایا ان کو سربلندی حاصل ہوئی اور جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ان کو ذلت ورسوائی نصیب ہوئی۔ قوم نوح ، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط ، فرعون ، قارون، ہامان ، شداداوران جیسی دیگرمردود اقوام محض اس لیے برباد ہوئیں کہ انہوں نے حق کا انکار کیا تھا اورباطل کی پشتیبانی کی تھی ۔
سب سے اخیرمیں اللہ پاک نے محسن انسانیت صلى الله عليه وسلم کو ساری انسانیت کا رہبر وقائد بناکر بھیجا ، جس وقت محمد عربی  صلى الله عليه وسلم  نے کفروشرک کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں توحید کی شمع جلائی تھی، پوری دنیا اسے اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانے کے لیے کمربستہ ہوگئی تھی، جن سعید روحوں نے اسلام قبول کیا تھا، اُن کو ظلم وستم کی چکی میں پیسا گیا، آپ صلى الله عليه وسلم کوپاگل اوردیوانہ کہا گیا،آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے،آپ کا اورآپ کے ماننے والوں کا معاشرتی بائیکاٹ کیاگیا، چراغِ نبوت کو بجھانے کی ہرممکن کوشش کی گئی، وطن سے نکلنے پر مجبور کیا گیا، اللہ کے حکم سے اپنے گھرباراور املاک کوچھوڑکرمدینہ میں پناہ لے لی، پھر بھی ظالموں کو چین نہ آیا اور ہر سال آپ کے خلاف محاذ برپا کرتے رہے ، کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آئی رہی ہوگی کہ یہی چراغ ایک دن آفتاب بنے گا اوراس کی روشنی سے پوری دنیا فیضیاب ہوگی۔ اُس وقت یہ بشارت کہ اسلام مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک پھیلے گا،اورقیصروکسری کی سپرپاورحکومتیں اسلام کے زیرسایہ آجائیں گی خواب وخیال کی باتیں تھی، محمد صلى الله عليه وسلم ایک طرف اوردنیائے کفروشرک دوسری طرف،ہمارے دنیاوی پیمانے کے مطابق اسلام کا خاتمہ ہوجانا چاہيے تھا کہ داعی ایک تھا اور مخالفت پرکمربستہ پوری دنیا تھی، معرکہ احزاب میں کفر کے سارے قبائل اسلام کے خلاف متحد ہوکر اکٹھا ہوچکے تھے ، سب کا نعرہ ایک ہی تھا کہ اسلام اور اہل اسلام کا خاتمہ کردیاجائے ،لیکن اسلام مخالف طاقتیں وہاں بھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہوسکیں اوراسلام پھیلتا ہی رہا، یہ محاذآرائی مسلسل21 سال تک چلتی رہی ۔تعجب کی بات ہے کہ 21سال کے طویل عرصہ  کے بعدیہی خون کے پیاسے اسلام کے سایہ تلے جمع ہوگئے ،اوراسلام کے فروغ میں اپنی پوری توانائیاں صرف کرنے لگے،چندسالوں کے بعد نبی پاکصلى الله عليه وسلم کی وفات ہوتی ہے تو اسلام کو غلبہ اورشوکت حاصل ہوچکی تھی، وفات نبوی  صلى الله عليه وسلم کے فوراً بعد مرتدین کا فتنہ سراٹھایااورایک طرف کئی جھوٹے دعویدارانِ نبوت پیدا ہوئے تودوسری طرف کچھ لوگوں نے زکاة کی ادائیگی سے انکار کردیا، لیکن یہ فتنہ بھی چند دنوں میں فرو ہوگیا۔  پھرسن 35 ہجری میں صحابہ کرام کے بیچ اختلافات رونما ہوئے اورکئی فتنوں نے جنم لیا تو اندیشہ پیدا ہونے لگا کہ اسلام کی بالادستی ختم ہو جائے گی، لیکن مرورایام کے ساتھ پھراسلام کی شوکت بحال ہوئی، اورخلافت بنوامیہ اور خلافت بنوعباسیہ میں بہت ساری خامیوں کے باوجود اسلام کا جھنڈا لہراتا ہی رہا۔ پھر وہ دن بھی آیاکہ سن656 ہجری میں تاتاریوں کا حملہ ہوا تو اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ، مسلمانوں کے خون سے دجلہ کا پانی سرخ ہوگیا،اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیاگیا، اورمسلمانوں پر ایسی سراسیمگی طاری ہوئی کہ ایک تاتاری عورت کسی مسلمان کو باہر گذرتے ہوئے دیکھتی ہے تو اس سے کہتی ہے رک جاؤ ابھی میں تلوار لے کر آتی ہو ں، وہ گھر سے تلوار لے کرآتی ہے تب تک یہ مسلمان سہما ہوا وہیں کھڑا رہتا ہے، اورنہایت بے دردی سے اس کا سر قلم کرتی ہے ۔ ایسی ذلت اور سراسیمگی کی حالت کو مسلمان پہنچ گئے تھے لیکن تاریخ نے دیکھا کہ وہی فاتح تاتا رمفتوح قوم کے دین کو گلے لگارہی ہے ، اورپاسباں مل رہے ہیں کعبہ کو صنم خانے سے ،چنانچہ ایک بار پھر اسلام کو غلبہ نصیب ہوتا ہے، اورسن 720ہجری میں خلافتِ عثمانیہ پورے آب وتاب کے ساتھ جلوہ گرہوتی ہے، اور1341ہجری تک اپنی فتح کا جھنڈا لہراتی رہتی ہے، یہاں تک کہ یہودونصاری کی ملی بھگت سے خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اوران کے کٹھ پتلی مصطفی کمال اتاترک نے حکومت کا باگ ڈورسنبھالا تو بھرے مجمع میں حجاب کوپیروں تلے رونددیا، قرآن کی بے حرمتی کی،عربی زبان پر پابندی عائد کردی ، مدارس ومساجد پرقدغن لگادیا، اوراسلام کے سارے نشانات کو مٹانے کی کوشش کی ۔ لیکن اب تک اسلام کا پرچم ساری دنیامیں لہرارہا ہے اورقیامت کے دن تک لہراتا رہے گا۔
عزیزقاری !یہ تاریخی سلسلہ جو ہم نے آپ کے سامنے رکھی ہے دل لگی کے لیے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے کہ حق وباطل کے معرکہ میں وقتی طورپر مسلمانوں کو گزند پہنچا ہے لیکن مسلمانوں نے وہاں پست ہمتی کا مظاہر نہیں کیا بلکہ صبرو شکیبائی کا دامن تھامے ہوئے اسلام کی بالادستی کے لیے لڑتے رہے بالآخر اسلام کو غلبہ نصیب ہوا ۔ اورکیوں نہ نصیب ہو کہ اس دین کے استحکام اورفروغ کی ضمانت اس کے نازل کرنے والے نے لے رکھی ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :
                             
 (سورة التوبة 33)” وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کوہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے ۔“
جی ہاں ! یہ دین‘ دنیا کے کونے کونے میں پھیلنے اور سارے باطل ادیان پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے ،اورہوکر رہے گاکہ یہ وعدہ ‘اِس دین کواُتارنے والی ذات احکم الحاکمین کا ہے۔ 
اسی طرح اللہ پاک ہمیشہ اہلِ ایمان کومادی ومعنوی قوت بہم پہنچاتا رہاہے اورپہنچاتا رہے گاکہ اس کا اعلان ہے :
                                       (سورة الصافات 171۔173) 
”اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی یہ وعدہ کرچکے ہیں کہ یقیناان کی مدد کی جائے گی، اورہمارا لشکر ہی غالب ہوکر رہے گا“۔دوسری جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:              (سورة روم47) ”اورہم پر یہ حق تھا کہ مومنوں کی مدد کریں “۔ 
اہل ایمان سے اللہ گ کایہ وعدہ بھی ہے کہ :
                                                 ﭿ                                    
”تم میں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیکی کا کام کیاہے ،اللہ تعالی وعدہ کرچکا ہے کہ انہیں زمین کی خلافت عطافرمائے گا جیسا کہ ان لوگوںکو عطا فرمایاتھا جو ان سے پہلے تھے ،اوربیشک ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ قائم کردے گاجسے ان کے لیے وہ پسندکرچکاہے ، اوران کے ڈر اورخوف کو امن وسکون میں بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے ، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے ۔“(سورة النور 55)
 ان آیات میں اللہ پاک نے دوٹوک انداز میں بیان فرمادیا ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب اور سربلند رہے گا اور اہل ایمان ہردورمیں فتحیاب اور کامیاب رہیں گے۔
ہمیں اس بات پربھی سوفیصد یقین ہے کہ اہل باطل جس قدر مالی اورجسمانی طاقتیں صرف کریں ان کی ناکامی یقینی ہے ۔ اللہ پاک نے فرمایا: 
                 ﭿ                 (سورة انفال36)
 ”بیشک کفار اپنا مال اس لیے خرچ کررہے ہیں کہ اللہ کے راستے سے روکیں، تو یہ لوگ اپنا مال خرچ کرتے ہی رہیں گے، پھر وہ مال ان کے لیے حسرت کا سبب بن کر رہ جائے گا، پھر وہ شکست کھاجائیں گے ۔ “
کیا یہ واقعہ نہیں کہ آج باطل قوتیں مسلح ہوکرمیدان میں اترچکی ہیں ، شہوات کوہوا دینے کے لیے اربوں ڈالرخرچ کررہی ہیں، الکٹرونک میڈیا کے ذریعہ اس نے گھر گھر رسائی حاصل کرلی ہے، اسی طرح عسکری اورفکری جنگ میں اپنی پوری توانائیاں صرف کررہی ہیں، صرف اس لیے کہ اسلام کو مٹا دیاجائے،لیکن اسلام مٹنے کے لیے نہیں بلکہ کفر کومٹانے کے لیے آیاہے،یہ ان کی خام خیالی ہے، ”یہ دین وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں تک دن اور رات کی پہنچ ہوتی ہے اوردنیاکا کوئی گھر ایسا نہ رہے گا جہاں اسلام کی بالادستی قائم نہ ہو “۔
ایک وقت وہ بھی آنے والا ہے جس کی طرف ہمارے حبیب  صلى الله عليه وسلم نے اشارہ کردیا ہے کہ مسلمان یہودیوں سے برسرپیکارہوں گے اوران کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کردیں گے ، آپ  صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا:” مسلمان یہودیوں کا صفایا کردیں گے ، یہاں تک کہ ایک یہودی اگرکسی پتھر اور درخت کی اوٹ میں روپوش ہوکر پناہ لینا چاہے گا توپتھراور درخت بولے گا :
 ” اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے ، آؤ اور اِسے قتل کردو۔ سوائے غرقد کے درخت کے (وہ نہیں بولے گا) کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے“۔ (مسلم)
ایک مسلمان کو سو فیصد یقین ہونا چاہیے کہ مستقبل اسلام کا ہوگاکہ یہ دین حق ہے اور اسکے ماسوا جتنے ادیان ومذاہب ہیں وہ سب باطل ہیں ۔یہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ دین ہےجو انسانی مصالح کی رعایت کرتا ہے۔ زمان ومکان کی قید سے آزاد ہے، اس کی تعلیمات دین اوردنیا کی ساری ضرورتوں کو اپنے اندرسموئے ہوئے ہے ، انسانوں نے جہالت وضلالت کے جو فلسفے بنائے ایک عرصہ گذرنے کے بعد اپنے آپ مرگئے ،لیکن اسلام نے جن حقیقتوںکی طرف بلایا وہ حقیقتیں برسہا برس گذرنے کے باوجود اٹل ہیں ۔اس نظام کے سامنے انسانوں کے خودساختہ قوانین دم توڑ چکے ہیں ،اشتراکیت کو دیش نکالا دیا جاچکا ہے ، سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں سے انسانیت جوجھ رہی ہے ، وضعی قوانین انسانی مسائل کوحل کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں، اب دنیا ایسے مسیحا کی تلاش میں ہے جو اسے اس  جہنم زارنظام سے نکالے اور یہ مسیحا اسلامی نظام حیات ہے ۔ آج پوری دنیا بالخصوص یورپ اورامریکہ میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلجیکا میں2025 تک پہلا مذہب اسلام ہوگا،جرمن حکومت کی رسمی رپورٹ کے مطابق صرف 2006 میں چارہزارلوگوں نے اسلام قبول کیا۔ دور جانے کی ضرورت نہیں آپ کی پسندیدہ کمیٹی IPC کویت میں غیرمسلم تارکین وطن روزانہ15سے 20 کی تعداد میں اسلام قبول کرتے ہیں، اور پچھلے رمضان میں بارہ سوسے زائد مردوخواتین نے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔ 
خلاصہ یہ سمجھیں کہ آج دنیا اسلام کی طرف لوٹ رہی ہے ،اورغیرمسلموں کو بھی یقین ہونے لگا ہے کہ وہ ایسی شاخ نازک پر اپنا آشیانہ بنائے ہوئے ہیں جو ناپائیدار ہے،جس کا کچھ لوگ اعتراف بھی کررہے ہیں ،ہمارے پاس IPC میں کتنے غیرمسلموں نے اپنے غیرمسلم دوستوں کو لاکر اسلام قبول کرایا ہے،جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ میں اپنے نجی معاملات کے باعث اسلام قبول نہیں کررہا ہوں لیکن اسلام کو دین حق سمجھتا ہوں،اس لیے میری خواہش ہے کہ کم ازکم میرا دوست اسلام کی نعمت سے مالامال ہوجائے ۔ اسی قبیل کا ایک واقعہ ڈاکٹر ناصربن سلیمان العمرنے بیان کیا ہے کہ بعض دعاة دعوتی مہم پر افریقہ گئے ، ان سے کہا گیا کہ اس ملک میں دعوتی کام کرنے کے لیے ملک کے فلاں عہدے دار سے اجازت لینی ہوگی ، چنانچہ دعاة ذمہ دار کے پاس گئے ،وہ عیسائی تھا،اس سے گفتگو کی کہ اگرآپ کی اجازت ہوتو ہم آپ کے ملک میں اسلام کے امن وسلامتی کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں....،ذمہ دارنے کہا: جاؤکل آنا ،جب کل ہوکر دعاة پہنچے توذمہ دار نے اجازت نامہ دینے کے ساتھ ساتھ ایک چیک بھی حوالے کیا ،دعاة نے دریافت کیا: اجازت نامہ توآپ نے عطا کردی لیکن یہ چیک کیسا ہے ؟ عیسائی ذمہ دار نے کہا : مجھے یقین ہے کہ مستقبل اسلام کا ہے ، اس لیے میری خواہش ہے کہ اس میں میرا بھی ایک حصہ شامل ہوجائے ۔
سبحان اللہ ! اس عیسائی کو اندازہ لگ گیاتھا کہ مستقبل اسلام کا ہے لیکن آج کتنے مسلمان ہیں جن کو اسلام کے مستقبل پر شک ہے ،بلکہ بعض کو اسلام کا مستقبل خطرہ میں نظر آرہا ہے ،ایسے میرو جعفرسے ہر دور میں اسلام کونقصان پہنچا ہے،جن کی ہمیں ضرورت نہیں،ہمیں تو ایسے مرد مجاہد کی ضرورت ہے جو اسلام کی بالادستی کے لیے اپنی جان ومال کی قربانیاں پیش کریں،اگر ہم نے یہ کام ترک کردیا تو اللہ پاک ایسی قوم کو وجود بخشے گاجو اس کے دین کو پوری دنیامیں غالب کرکے رہے گی کہ یہ اس کا وعدہ ہے ۔