الأحد، مارس 08، 2020

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے


                                         
شرف الدین تیمی
مدھوبنی، بہار

یہ حقیقت ہے کہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں انسان روزانہ اس دار فانی میں اپنی آنکهیں کھولتا ہے وہیں لاکھوں کی تعداد میں ہر روز انسان اس دار فانی سے کوچ کر دار بقا کا سفر باندهتا ہے اس میں کچھ اپنی پوری زندگی جی کے جاتا ہے تو کچھ کچی عمر میں ہی ملک عدم کا سامان سفر بانده لیتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو درمیانہ عمر کے ساتھ اپنے مالک حقیقی کے حضور میں حاضری دیتا ہے.ویسے تو انسان جب اس آب وگل میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے اسی دن اس کے گھر کے آس پڑوسی اور رشتے داروں کے یہاں خوشخبری پہنچتی ہے یا پہونچائ جاتی ہے کہ فلاں خاندان میں ایک ننھے مہمان کی آمد ہوئ ہے،جس کو اپنوں کے ذریعہ درازئ عمر کی دعاؤں سے نوازا جاتا ہے.خوشیاں منائ جاتی ہیں اور مٹھائیاں تقسیم کرکے مبارکبادیاں دی جاتی ہیں.یہی دستور زمانہ ہے جسے امرا سے لے کر غربا تک بخوبی اپنی حیثییت کے مطابق انجام دیتے ہیں لیکن یہ بات جو ہمیشہ میرے ذہن کو جھنھوڑتی ہے اور اکثر وبیشتر دیکھنے کو ملتا بھی ہے کہ کچھ لوگ اس دنیا میں اپنی زندگی جی کر انتہائ ضعیف العمری میں رخت سفر باندهتے ہیں جن کی موت اور تجہیز وتکفین کی خبر گرد ونواح کی مساجد سے دی جاتی ہے،جب لوگ اس شخص کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ کون تھے؟کہاں رہتے تھے؟کیا کرتے تھے؟ان کے گھر کا لوکیشن کدہر ہے؟فلاں محلے میں برگد کے پیڑ سے کدھر ہے؟اسکول سے کس جانب؟فلاں ٹرانسفر کے آگے یا پیچھے؟دائیں یا بائیں وغیره وغیره،تو بہت حیرانی ہوتی ہے اور میں تڑپ اٹھتا ہوں کہ اس شخص نے صد سالہ زندگی پائ اور جی بھر کر جیا،لیکن اس کی شناخت برگد کے پیڑ،اسکول کی بلڈنگ،اور الیکٹرک پول کے ٹرانسفرمر جتنا بھی نہیں ہوا.میرے جیسے قلب وجگر کے آدمی کا یقینا چین وسکون چھین لیتا ہے اور بہت مضطرب کردیتا ہے.جب پیدا ہوا تو گھر،گاؤں محلہ اور رشتے داروں کو علم ہوا اور جب مرا بھی تو گھر،محلہ ،گاؤں اور رشتے داروں کو ہی معلوم ہوا تو پھر یہ صد سالہ  زندگی کس کام کی.علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا تھا:
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پر و از میں کوتا ہی
یہ سچ ہے کہ جس دن آئے اس دن گرچہ کوئ نہیں جانا اور دنیا میں اپنی کوئ مرضی بھی نہ چلی بلکہ مالک حقیقی نے اپنی مرضی سے بھیج دیا اور ہم آگئے.لیکن جب اس دنیا سے جائیں تو ایسے جائیں،اس شان وشوکت اور اس جم غفیر کے ساتھ جائیں تاکہ دیکھنے والا،راستے کا مسافر،گاؤں اور شہر کے لوگ،ریاستی سطح سے ملکی سطح تک جو جہاں ہے وہیں سے اس آخری سفر کا گواه بننے کے لئے جنازے میں شریک ہوکر اپنے قیمتی آنسوؤں سے کہے،الوداع،اے اثاثہ قوم الوداع......
اور اس کے جانے کا غم اس کے شیشئہ دل پر اتنا اثر انداز ہو جیسے سچ مچ اس کا کوئ اپنا ہمسفر،ہمنوا،ہمدرد،غم گسار،دکھے دلوں کا سہارا،برے وقت کا ساتھی،آنسوؤں کو پونچھنے والا،گرتے کو تھامنے والا آج لاکھوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر دے کر چلا گیا.جس کی جدائ نہ سکون سے سونے دے اور نہ ہی سکون سے جگنے دے.ایسی ہی زندگی جی کر اور ہم آشناؤں کو روتا بلکتا چھوڑ کر،شان وشوکت کے ساتھ،قوم وملت کا بیش قمیتی سرمایہ،اتحاد ملت کا علمبردار،غریبوں کا مسیحا،یتیموں کا سہارا جماعت اہل حدیث کا تابنده ستاره، بانئ جامعہ امام ابن تیمیہ اور ہم تیمی اخوان کے روحانی والد علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ بروز جمعرات بتاریخ 5/3/2020 کو ہندوستانی وقت کے مطابق ایک بجے ریاض میں جماعت اہل حدیث اور ابنائے تیمیہ کے تمام نونہالوں کو غموں کے سیلاب میں ڈوبا ہوا چھوڑ کر عالمِ جاودانی کی طرف کوچ کرگئے."اناللہ وانا الیه راجعون".یہ ایک ایسی اندوہناک خبر تھی جو پورے ملک میں موبائل فون،واٹس ایپ اور فیس بک وغیره پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئ،اور ہر دل درد وکرب سے کراه اٹھا.یا اللہ یہ کیا ہوگیا.اب کیا ہوگا.ہر دل،کیا آشنا اور کیا ناآشنا،کیا دوست اور کیا دشمن،کیا اپنے اور کیا پرائے،کیا رشتے دار،کیا غیر رشتے دار،کون مسلم،اور کون غیر مسلم.ہر منہ سے آه اور ہر آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب،ایک ایسا سماں بانده رہا تها کہ اس درد و کرب کے ماحول میں بھی ایک لافانی لذت کا احساس کرا رہا تھا کہ
موت ہو ایسی کرے جس پہ زما نہ افسو س
ورنہ  دنیا  میں  سبھی  آئے ہیں مرنے کے لئے
آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی جامعہ امام ابن تیمیہ کے تمام اساتذه اور طلبا وطالبات کی زبانیں یک لخت گونگی ہوگئیں،آنکھیں آنسوؤں کا سیلاب لئے ہوئے اپنے آپ سے یہ پوچھ رہی تھی کہ مولیٰ آج جماعت اہل حدیث کا ایک اور روشن ستاره غروب ہوگیا۔

رہنے  کو   سدا   دہر   میں  آتا  نہیں  کوئ
آپ جیسے گئے ویسے بھی جاتا نہیں کوئ

موصوف زہد ورع اور تقوی وطہارت کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھی.زمانہ طالب علمی کے دوران کئ بار شیخ مکرم سے ملاقات اور شیخ کے قیمتی دروس کو بہت قریب سے سننے اور اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، یقینا شیخ کی ذات سراپا اخلاق اور پابند شرع کی مکمل حامل شخصیت تھی.یہی وجہ ہے کہ آج جامعہ امام ابن تیمیہ، خدیجۃ الکبریٰ لتعلیم البنات اور ڈی ایم ایل کی در ودیوار بزبان حال یہ کہہ رہی ہے کہ آج اس گلشن کا مالی، اور بے مثال سرمایہ کہاں گُم ہوگیا،ہمیں یونہی سسکتا چھوڑ کیوں چلے گئے، گرد ونواح کے تمام افراد آپ کے اخلاق کریمانہ اور آپ کی بے لوث خدمات کا چرچا کرتے ہوئے نہیں تھک رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئ
اک  شخص  سارے  شہر  کو  ویران  کر گیا

بانئ جامعہ قوم وملت کی رہنمائ ورہبری کو اپنا فریضہ سمجھتے تھے،نہایت ہی اخلاق مند،نیک صالح،توحید کے علمبردار،قاطع بدعت اور شائق سنت تھے.دینِ اسلام کی صحیح تبلیغ اور قوم وملت کی خدمت کا جذبہ آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔کتاب وسنت کی اشاعت آپ کا محبوب مشغلہ تھا.اللہ تعالی نے آپ کو بے پناه خوبیوں کا مالک بنا کر پیدا کیا تھا.حقوق اللہ،حقوق العباد اور صلہ رحمی کے فلسفے کو آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا.صبر وتحمل اور توکل کا جیتا جاگتا نمونہ تھا. چاہے مہمان نوازی کی باتیں ہو یا شکر گزاری کی،نادار ومفلس بچوں کی مدد ہو یا غریبوں مسکینوں کی دستگیری یا اپنے ماتحتوں کی امداد کی ضرورت ہو،زبان کی نرمی وخوش کلامی سے اس قدر روبرو کرتے کہ ان کے ایک ہاتھ کو علم ہی نہیں ہوتا کہ دوسرے ہاتھ نے کیا دیا.ان کی سخاوت وفیاضی کا یہ عالم تھا کہ جو کوئ ان سے مل کر نکلتا اس کے چہرے کی بشاشت کو دیکھ کر ہی عیاں ہوجاتا کہ ضرورت مند کو اس کی ضرورت سے بڑھ کر ملا ہے. 
اخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ یا بار الہا تو ہمارے روحانی والد کی لغزشوں کو معاف فرما،ان کے حسنات کو قبول اور سیئات کو درگزر فرما،جامعہ ام ابن تیمیہ کے اوپر اپنی خاص رحمت نازل فرما اور ابنائے تیمیہ،ذمہ داران جامعہ اور اہلِ خانہ کو صبر جمیل کی توفیق دے.آمین


ليست هناك تعليقات: