الأحد، مارس 08، 2020

آہ ! علامہ ڈاكٹر محمد لقمان سلفی:كچھ یادیں كچھ باتیں


حفظ الرحمن لطف الرحمن تیمی
مكہ مكرمہ

غالبا بائیس سال قبل كی بات ہے میں جامعۃ الامام ابن تیمیہ میں قرآن كریم حفظ كر تا تھا، ایك روز بچوں نے بتایا كہ آج رات میں كسی وقت بانی جامعہ تشریف لا رہے ہیں ، آپ كو دیكھنے اور دیدار كرنے  كا اتنا شوق تھا كہ  پوری رات خود سے اپنے ذہن و تصور میں بانی جامعہ كا  ایك خیالی خاكہ بناتا رہاكہ شیخ محترم ایسے ہوں گے ، ایسے ہوں گے۔ بہر كیف فجر كی نماز ہمارے استاذ قاری نثار صاحب رحمانی نے پڑھائی(قاری نثار صاحب كی تلاوت بانی جامعہ كو بہت پسند تھی، ہمیشہ كہتے: "آپ عرب قراء  كی طرح تلاوت كرتے ہیں" ) نماز كے بعد جب علامہ صاحب درس دینے كے لئے كھڑے ہوئے  تو پہلی بار آپ كو تصورات سے نكل كر حقیقت میں دیكھا، میانہ قد، سرخی مائل گندمی رنگ، گول بھرا ہوا چمكدار چہرہ، كشادہ پیشانی ، سر پر گول ٹوپی اور كرتا پائے جامہ میں ملبوس۔ یہ تھے ہمارے  مربی مشفق روحانی باپ علامہ ڈاكٹر محمد لقمان سلفی۔

سن 2000 عیسوی كی بات ہے میں اس وقت حفظ مكمل كرنے كے بعد  دورۂ قرآن میں  تھاكہ ایك روز بانی جامعہ معہدزید بن ثابت لتحفیظ القرآن الكریم كا جائزہ لینے كےلئے تشریف لائے، آپ معہد كے رئیس قاری نثار صاحب رحمانی كے پاس بیٹھ گئے اور ہر درس سے  چند بچوں كو بلانے كا حكم صادر فرمایاتاكہ ان سے كچھ قرآن سنیں، ان بچوں میں مجھے بھی آپ كے پاس لے جایا گیا،آپ نےسب سے  فرمایا: كہیں سے پڑھیئے !میں نے بھی  پڑھ كر سنایاتو   بہت خوش ہوئے اور سب كو   ڈھیر ساری دعائیں دیں، جب ہم لوگ اٹھ كر واپس جانے لگے تو  قاری نثار صاحب نےآپ كو  میرے بارے میں بتایا كہ یہ ظل الرحمن صاحب كے چھوٹے بھائی ہیں ، آپ نے اپنا ہاتھ بڑھا كر مجھے خود سے قریب كیا ، مجھ پر دست شفقت ركھا مزید  ڈھیر ساری دعائیں دیں  اور بڑے بھائی جان كی طرح بننے كی نصیحت كی۔ 

میں نے جامعہ امام ابن تیمیہ میں گیارہ سال گذارے، جب بھی آپ كی آمد كے بارے میں ہم لوگوں  كو خبر لگتی ہم طلباء میں جشن كا سا ماحول بن جاتا، ہر شخص جامعہ كے مین گیٹ كی طرف ٹكٹكی لگائے رہتا كہ كب آپ كی گاڑی جامعہ میں داخل ہوگی اور كب آپ ہم لوگوں كے درمیان ہوں گے۔آپ جب نماز كے لئے  مہمان خانہ سے مسجد كی طرف تشر یف  لاتے تو ہم لوگ غور سے آپ كو نہارتے ، دوڑ كر آپ سے سلام اور مصافحہ كرتے، مسجد میں آپ كے قریب نماز پڑھنے كی كوشش كرتے خاص طور سے فجر كی نماز كے بعد تاكہ آپ كے درس كے ایك ایك لفظ كو ذہن و دماغ میں اتار سكیں۔یہاں یہ بتاتے چلیں كہ آپ اپنی تقریروں میں مشكل اور دقیق الفاظ استعمال نہیں كرتے تھے، آسان اور عام فہم اسلوب میں درس بھی دیتے اور جمعہ كا خطبہ بھی دیتے تھے، جسے ہر شخص بہ آسانی سمجھ لیتا، اسی طرح آپ میل جول اور بات چیت میں تكلف كے عادی نہیں تھے، آپ مخاطب سے اس كے ذہنی سطح كے مطابق ہم كلام ہوتے۔

فراغت كے فورا بعد بڑے بھائی جان  ڈاكٹر ظل الرحمن تیمی صاحب مجھے اپنے ساتھ دلی لے گئے اور اپنی  خصوصی نگرانی میں  ركھ كر جے این یو اور جامعہ ملیہ كے انٹرنس اكزام  كی تیاری كرائی ۔ اللہ كے فضل و كرم سے میرا نام دونوں جگہ آ گیا اور میں نے جب جے این یو میں داخلہ لے لیا  تو بانی جامعہ نے مجھے فون كرے كے مباركباد دی اور میری حوصلہ افزائی فرمائی، آپ نے ہر حال میں وقت پر نماز پڑھنے كی نصیحت  كی، اور فرمایاكہ آپ اپنے جاننے والے  اور ہاسٹل اور یونیورسیٹی  میں رہنے والے دوسرے مسلم بچوں كو بھی نماز كی دعوت دیں،نماز كا ماحول بنائیں، اپنےكمرے كو ہی مسجد بنائیں، (واضح رہے كہ جے این یو میں كسی بھی مذہب كی عبادت گاہ نہیں ہے)آپ نے فرمایا: "اصل عبادت تو وہی ہے جو جوانی میں كی جائےاور مخالف ماحول میں كی جائے ۔ آپ نے اپنے بارے میں بتایا كہ مجھے جب  بھی سفر كرنا ہوتا ہے تو باوضوء ہوكر موزہ پہنتا ہوں تاكہ  دوران سفرمسح كر سكوں، میں نماز كے سلسلہ میں اس كی ذرہ برابر بھی پروا نہیں كرتا ہوں كہ لندن ایرپورٹ پر نماز پڑھتے ہوئے مجھے كتنے لوگ گھور رہے ہیں۔

جے این یو میں جب میں ایم اے كا طالب علم تھا تو ایك روزمغرب كے بعد آپ نے مجھے فون كیا اور بتایا كہ جامعہ میں ایك كانفرنس ركھی گئی ہے اور ذمہ داران نے یہ طے كیا ہے كہ اس كانفرنس كے سارے مقررین اور مقالہ نگار تیمی حضرات ہی ہوں گے، میں ابھی كچھ جواب دے پاتا اس سے پہلے آپ نے حكم دیا كہ آپ كو بھی اس میں بحیثیت مقالہ نگار شریك ہونا ہے۔ میں بڑے بھائی شیخ ثناء اللہ صادق  تیمی كی معیت میں كانفرنس میں شریك ہوا اور اپنا مقالہ پیش كیا،  پروگرام ختم ہونےكے  بعد اسٹیج پر ہی آپ نے مجھے گلے لگا لیا اور فرمایا: " آپ اپنے نانامولانا ظہور رحمانی كی طرح تقریر كرتے ہیں اور مجمع پر چھا جاتے ہیں "۔رات كے كھانے كے بعد مجھ پر نظر پڑی تواشارے سے  مجھے اپنے كمرے میں بلایا اور  حوصلہ افزائی كے ڈھیر سارے كلمات سے نوازا اور میرے لئے جو خصوصی تحفہ لے كر آئے تھے وہ مجھے عطا كیا۔ 
سعودی عرب آنے كےلئے جب میرا سیلیكشن ہوا تو بڑے بھائی جان ڈاكٹر ظل الرحمن تیمی كے بعد دوسرا فون آپ كا ہی آیا، اتنی خوشی كا اظہار كیااور ڈھیر ساری اتنی مبارك باد اور  دعائیں دیں  كہ والد محترم كی كمی كا احساس نہیں ہونے دیا۔ جب ہم لوگ ریاض پہنچے تو آپ نے ہوٹل كا نمبر ڈھونڈھ كرسب سے پہلے  ہم لوگوں سے رابطہ كیا اور اس وقت تك  ہوٹل كے نمبر پر فون كركے ہم لوگوں كا حال چال لیتے رہے، جب تك كہ ہم لوگوں نے سیم نہیں لے لیا۔چونكہ ہم لوگ  یكایك ہندوستانی ماحول سےاب سعودی ماحول میں بسنے والے تھے ، آپ نے اس موقع سے سعودی تہذیب و لباس سے متعلق  بہت قیمتی رہنمائی  فرمائی۔ 

اسی زمانہ میں ایك روز ہم لوگوں كو  گاڑی بھیج كر اپنے گھر بلایا، خاص طور سے حكم دیا كہ آپ كے ساتھ اور جو لوگ آئے ہیں ان كو بھی لیتے آئیں، بات چیت جاری تھی كہ عشاء كی اذان ہو گئی ، ہم لوگ نماز پڑھنے مسجد میں گئے، واپسی پر فرمانے لگے:عزیزم آپ نے مسجد میں كرسیوں پر بیٹھ كر لوگوں كو نماز پڑھتے  دیكھا؟میں نے كہا:جی، فرمانے لگے : میں ہمیشہ اللہ سے دعا كرتا ہوں كہ پروردگار مجھے جب تك زندہ ركھے جھك كر  اور زمین پر سر ٹكا كر سجدہ كرنے كی توفیق عطا كرے،اس طرح سجدہ كرنے كا  مزہ ہی كچھ اور ہے! (اللہ نےآپ كی اس دعا كو شرف قبولیت بخشا)

میرے نانا مولانا ظہور رحمانی رحمہ اللہ سے   آپ كارشتہ باپ بیٹے جیسا تھا، جس كا تذكرہ آپ نے اپنی سرگذشت "كاروان حیات" میں كیا ہے اور لكھا ہے كہ اسی وجہ سے آپ ہم دونوں بھائیوں سے اپنے بیٹے كی طرح پیار كرتے ہیں اور میری والدہ حبیبہ رحمانی حفظہا اللہ  كو بہن كی طرح سمجھتے ہیں۔آپ جب بھی فون كرتے تو امی كے ساتھ حسن سلوك كرنےكی نصیحت كرتےاور كہتے كہ آپ سب بھائی  اپنی  چھوٹی بڑی ہر كامیابی كو میری بہن  سے منسوب كیجئے اور ان كی دعائوں كا ثمرہ  اور كاوشوں كا نتیجہ سمجھئے اور ان كے لئے سجدے میں دعائیں كیجئے۔ 

میری امی جب بھی مكہ مكرمہ تشریف لاتیں تو آپ خصوصی طور پر ان كا خیال ركھنے كا حكم دیتے ، اور فرماتے میری بہن كو ہفتہ دو ہفتہ كے  لئے ریاض لے كر آئیے، میں اپنی تمام بیٹیوں سے اپنی بہن كو ملانا چاہتا ہوں، لیكن ہر بار والدہ محترمہ ناسازی طبیعت كی بناء پر چاہ كر بھی ارادہ ملتوی كر دیتیں، اس بار جب امی محترمہ دسمبر میں چھ مہینے كے لئے تشریف لائیں تو ہم لوگ  فروری یا  مارچ میں ریاض جانے كا  ارادہ كر رہے تھے لیكن اللہ كو تو كچھ اور ہی منظور تھا۔ڈیڑھ مہینے قبل جب آپ كی ناسازی طبیعت كی اطلاع ملی تویہ بھی بتایا گیا كہ ڈاكٹروں نے چھتیس سے اڑتالیس گھنٹے كو اہم بتایا ہے ، اس مدت كے گذرنے كے بعد ہم لوگوں كو تھوڑی امید بندھ چلی تھی، لیكن لكھے كو كون ٹال سكتا ہے، موت تو اٹل حقیقت ہے نہ ایك گھڑی آگے ہو سكتی ہے اور نہ ایك گھڑی پیچھے۔ 

آپ كی وفات كی خبر كے كچھ دیر بعد یہ بھی  پتہ چل گیا تھا كہ آپ كی نماز جنازہ  جمعہ كے بعد یہیں حرم شریف میں ہوگی اور مقبرہ معلی آپ كی آخری آرام گاہ ہوگی۔  حرم میں آپ كی میت كے پہنچنے كی جب ہم لوگوں كو اطلاع ملی تو ہم لوگ آفس سے نیچے اترے اور آپ كی میت سے چند قدم كے فاصلے پر جمعہ كی نماز ادا كی اور نماز جنازہ پڑھنے كے بعد آپ كو آپ كی آخری منزل كی طرف لے چلے ، معلی قبرستان میں جو لوگ نماز جنازہ پڑھنے سے رہ گئے تھے انھوں نےپھر سے  نماز جنازہ پڑھی، اس كے بعد آپ كو قبر میں اتارا جانے لگا، ایك كنارے كھڑے ہوكر میں یہ دیكھ  رہا تھا كہ ہم لوگوں كے روحانی والد  كو جہاں ركھا جا رہا ہے وہ اب وہاں سے كبھی نہیں لوٹیں گے ، سفید كپڑے میں لپیٹی ہوئی  آپ كی جسدخاكی كو ہمیشہ ہمیش كے لئےجہاں دفن كیا  جا رہا ہےان سے اب جنت الفردوس میں ہی ان شاء اللہ ملاقات ہوگی،اسی دوران اچانك ایسا محسوس ہوا كہ كوئی میرے ٹھیك پیچھے سسك سسك  كر مغفرت كی دعا كر رہا ہے ، مڑ كر دیكھا تو شیخ عزیر شمس تھے ، آپ كی ڈبڈبائی ہوئی سرخ آنكھیں كہ رہی تھیں كہ جس ہیرے كو آپ لوگ بالواور پتھر سے ڈھنك رہے ہیں اس كی اصل قیمت تو یہ جوہری جانتا ہے۔

اللهم اغفر له وارحمه وادخله في جنة الفردوس

ليست هناك تعليقات: