السبت، أغسطس 04، 2012

غزوه بنو المصطلق


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال ایک غزوہ پیش آیا جوجنگی اعتبار سے کوئی بھاری بھرکم غزوہ نہیں ہے ،لیکن اُس میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ،جس نے اسلامی معاشرے میں اضطراب پیدا کردیا،وہ غزوہ جس میں پہلی بار منافقین نے شرکت کی تھی ، وہ غزوہ جس میں منافقین نے حرم رسول پرتہمت لگائی تھی ،وہ غزوہ جس میں منافقین کا پردہ فاش ہواتھا،جی ہاں! یہی وہ غزوہ ہے جسے ہم غزوہ مریسیع ،یا غزوہ بنی المصطلق کے نام سے جانتے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کو خبر ملی کہ بنوالمصطلق کا سردار حارث بن ضرار مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کرہا ہے ،تحقیق کی گئی تو بات صحیح نکلی ،تب اللہ کے رسول ﷺ اُس کی سرکوبی کے لیے اپنے صحابہ کو لے کر نکلے ،یہاں تک کہ ایک چشمہ کے پاس پہنچے جسے مریسیع کہاجاتا ہے ،وہیں پر دونوں فوجوں کا مقابلہ ہوا ،اللہ پاک نے بنوالمصطلق کو شکست دی ،کچھ مارے گئے ، اُن کی عورتوں کوقیدکرلیاگیا،جن میں حارث کی بیٹی جویریہ بھی تھیں ،وہ ثابت بن قیس کے حصے میں آئیں،ثابت نے انہیں مکاتب بنالیا،پھر رسول اللہ ﷺ نے اُن کی جانب سے مقررہ رقم ادا کرکے اُن سے شادی کرلی ،یہ شادی اس قدربابرکت ثابت ہوئی کہ مسلمانوں نے بنوالمصطلق کے ایک سو گھرانوں کو جو مسلمان ہوچکے تھے آزاد کردیا کہنے لگے :”یہ لوگ تورسول اللہ ﷺ کے سسرال کے لوگ ہیں“ ۔
یہ ہے اِس غزوے کامختصر قصہ ... لیکن اِس میں جو واقعات پیش آئے اُس کی بنیاد ہے منافقوں کا سردارعبداللہ بن ابی ....عبداللہ بن ابی کا کردار ہم نے کئی جگہ پچھلے حلقوںمیں بیان کیاہے ،اُسے اسلام اورمسلمانوں سے کافی جلن تھی لیکن ظاہر میں وہ خو دکو مسلمان ثابت کرتاتھا،یہاں بھی اُس نے دوجگہ نہایت گھٹیااورگندہ کردار اداکیا:
ایک تو اُس وقت جبکہ غزوہ خندق سے فراغت کے بعد اللہ کے رسول ﷺ اورصحابہ کرام مریسیع کے چشمہ پر ہی تھے کہ ایک انصاری اورمہاجر کے بیچ تو تو میں میں ہوگیا ،یہاں تک کہ مہاجرنے انصاری کی پٹائی بھی کردی ،اِس پر انصاری نے آواز لگائی ہائے انصارکے لوگو!مہاجر نے آواز لگائی ہائے مہاجرو ۔ یہ سن کر دونوں طرف کے لوگ اکٹھا ہوئے ،اللہ کے رسول ﷺ بھی پہنچے آپ نے فرمایا:ابدعوی الجاھلیة وانا بین اظہرکم دعوھا فانھا منتة ”میں ابھی تمہارے اندر موجود ہوں اور جاہلیت کی پکار پکاری جارہی ہے ،یہ چھوڑ دو یہ بدبودار ہے “۔ جب منافقین کے سردار عبداللہ بن ابی کو اِس کی خبر ملی تو اُس نے اِس موقع سے فائدہ اٹھایا: کہنے لگا: اچھا ....تو اِن کی اتنی ہمت ہوگئی ہے ،ابھی کل ہم نے اِن کو مدینہ میں بسایا ،رہنے کے لیے گھر دیا اورآج ہمارے مقابل بن گئے ،اِن کی مثال تو یہی ہے جو پہلو نے کہی ہے کہ سمن کلبک یاکلک اپنے کتے کو پال پوس کر موٹا کرو اوروہ ....تم ہی کو کاٹ کھائے ،....سنو ! واللہ ، اگر ہم مدینہ واپس ہوئے تو ہم میں سے عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا ۔
منافق کی یہ بات ایک نوجوان زیدبن ارقم نے سن لی، جاکر اپنے چچا کو بتایا،چچانے اللہ کے رسولﷺ کوباخبرکیا ،آپ نے عبداللہ بن ابی کو بلاکر اِس کی تحقیق کی تو وہ قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا : واللہ میں نے ایسی بات کہی ہی نہیں ہے اور میں کیسے ایسی بات کہہ بھی سکتا ہوں یا رسول اللہ ....،لیکن اُسی وقت اللہ پاک نے سورہ منافقون نازل کردی اوراُسے قیامت تک کے لیے رسوا کردیا ۔ اِس منافق کے بیٹے جن کا نام بھی عبداللہ تھا وہ مومن تھے ،جب سب لوگ مدینہ میں داخل ہورہے تھے تو غیرت ایمانی میں مدینہ کے دروازے پر تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اورعبداللہ بن ابی کو روک لیا ....کہا کہ تم ذلیل ہو اوراللہ کے رسول عزیز ہیں ،تمہیں مدینہ میں اُس وقت تک داخل نہیں ہونے دوںگا جب تک رسول اللہﷺ اجازت نہ دے دیں ۔ رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی تو آپ نے کہلا بھیجا کہ اجازت دے دو ۔

محترم قارئین ! اِس خبیث منافق نے دوسرا جو گھٹیاکردار انجام دیا اِس غزوے میں ....وہ ہے صدیقہ بنت صدیقؓ پر الزام اور تہمت ....جس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کا معمول تھا کہ جب کسی غزوے میں جاتے بیویوںکے بیچ قرعہ اندازی کرتے،جس کانام آتا اُسے ساتھ لے کرجاتے ،اِس غزوے میں سیدہ عائشہ ؓ آپ کے ساتھ تھیں،واپسی پر ایک جگہ پڑاوڈالا،حضرت عائشہ ہودج سے نکلیں اور قضاءحاجت کے لیے چلی گئیں ،جب واپس آئیں تو اُن کا ہارکہیں گرگیاتھا،جہاں غائب ہوا تھا وہیں گئیں،کچھ دیرتلاش کیایہاں تک کہ ہار پالیا....لیکن اُن کے آنے سے پہلے لشکروہاں سے کوچ کرگیا،لوگوں کو سمجھ میں آیا کہ آپ ہودج میں بیٹھی ہیں ،آپ ہلکی پھلکی تھیں،اور ہودج اٹھانے والے کئی لوگ تھے ،اِس لیے کسی کو اندازہ نہیں ہوا ....اس طرح سب چلتے بنے ۔واپس آئیں تو یہ دیکھ کر گھبراگئیں کہ سب جاچکے ہیں ،وہیں بیٹھ گئیں کہ جب ہمیں نہ پائیں گے تو تلاش کرنے تو ضرور آئیں گے ، اِس طرح اُن کی آنکھ لگ گئی ،اِسی بیچ حضرت صفوان بن معطل ؓ آگئے جو پیچھے پیچھے چل رہے تھے ،زیادہ سونے کے عادی تھے ،اس لیے دیر سے اٹھے تھے ،دیکھاکہ عائشہ ؓ اکیلے یہاں سورہی ہیں ، وہ پردے کا حکم آنے سے پہلے اُن کو دیکھ چکے تھے ،دیکھ کر کہا : انا للہ وانا الیہ راجعون ....رسول اللہ کی بیوی ....اُس کے سوا کچھ نہ کہا ۔ حضرت عائشہ اُن کی آواز سن کر بیدار ہوگئیں ،حضرت صفوان نے سواری اُن کے قریب کیااوروہ سوار ہوگئیں ،حضرت صفوان سواری کی نکیل تھامے آگے آگے پیدل چلتے رہے ....یہاں تک کہ لشکر میں آگئے ،....یہ دیکھ کر کمبخت عبداللہ بن ابی نے الٹی سیدھی باتیں پھیلانی شروع کردیں ، رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ بیوی پر تہمت لگادیا،مدینہ آنے کے بعد جس سے ملتا اُس کا کان میں بھرتا ،یہ سب سن سن کررسول اللہ ﷺ بھی پریشان ہوگئے ، کمبخت نے اِسے اس اندازمیںپیش کیاتھاکہ کچھ مومن بھی اُسکی باتوںمیں آگئے،اِدھر عائشہ ؓ وہاں سے آئیں تو بیمارہوگئیںاورایک مہینہ تک مسلسل بیمار رہیں ،پورے مدینہ میں یہ بات پھیل چکی تھی ،لیکن عائشہ ؓ کو اب تک کچھ خبر نہ تھی ،بس اللہ کے رسول کا جو معاملہ پہلے ہوتاتھا ویسا معاملہ نہ دیکھ رہی تھیں ۔ ادھر عائشہ ؓ بیماری سے اٹھیں تو ایک دن قضائے حاجب کے لیے گئیں ،ساتھ میں مسطح ؓ کی ماں تھیں ....مسطح ابوبکر کے خالہ زاد بھائی تھے جو منافقین کے بہکاوے میں آگئے تھے ،ام مسطح کا پاوں پھسلا تو اپنے بیٹے کو بد دعا دی ، عائشہ ؓ نے ٹوکا .... تو ساراقصہ کہہ سنایااوربولیں: کہ مسطح بھی یہی کہتا ہے ۔ یہ خبر کیاتھی گویا بجلی کا شاٹ لگاہو سیدہ عائشہ ؓ کو ....اللہ کے رسول ﷺ کے پاس گئیں اجازت لیں اور والدین کے ہاں آگئیں ،جب بات کی تحقیق ہوگئی تو رونے لگیں ،اورخوب روئیں ،روتے روتے دوراتیں اور ایک دن گذر گئے محسوس ہوتا تھا کہ کلیجہ پھٹ جائے گا ....دوسری رات کی صبح رسول اللہ ﷺ تشریف لائے :اور پہلی بار بات کی سیدہ عائشہ ؓ سے ....اِس موضوع پر ....کہا : عائشہ ! مجھے تمہارے بارے میں ایسا ویسا معلوم ہوا ہے ،اگر تم پاک ہو تو اللہ تعالی تمہاری برات ظاہر کردے گا اور اگر غلطی ہوئی ہے تو توبہ کرلو اللہ مہربان ہے ۔ یہ سننا تھا کہ عائشہ ؓ کے آنسو بالکل تھم گئے ،والدین سے بولیں، آپ : رسول اللہ کو جواب دیں .... والدین کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیاجواب دیں ۔ تب عائشہ ؓ نے خود سے کہا :
”واللہ میں جانتی ہوں کہ یہ بات سنتے سنتے آپ کے دلوںمیں اچھی طرح بیٹھ گئی ہے یہاں تک کہ آپ لوگوں نے اِسے سچ سمجھ لیاہے ،اگرمیں کہوں کہ میں پاک ہو ں اوراللہ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں تو آپ میری بات نہ مانیں گے ،اوراگر میں اعتراف کرلوں حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں پاک ہوں تو آپ اُسے صحیح مان لیں گے ،اس لیے میں وہی کہوں گی جو یوسف علیہ السلام کے والد نے کہا تھا : فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون ۔ (یوسف 18) 
اُس کے بعد عائشہ ؓ پلٹ کر لیٹ گئیں ،اُسی وقت اللہ کے رسولﷺ پر وحی اُتری ،وحی کی کیفیت ختم ہوگئی تو اللہ کے رسول ﷺنے مسکراتے ہوئے فرمایا: اے عائشہ ! اللہ نے تمہیں پاک قرار دیا ہے ۔ اِس طرح اِس تہمت سے دامن عائشہ پاک ہوگیا ،اورہمیشہ ہمیش کے لیے اللہ پاک نے عائشہ ؓ کی برات نازل کردی ....جو صحابہ منافقین کی باتوںمیں آگئے تھے جیسے حسان بن ثابت ،مسطح بن اثاثہ ،اورحمنہ بنت جحش اِن سب کو اسی اسی کوڑے مارے گئے ۔لیکن جھوٹ کے قائد عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو سزا نہ دی گئی کہ اُسے دنیاوی سزا کچھ فائدہ نہ دے سکتی تھی- ....  

ليست هناك تعليقات: