الجمعة، أغسطس 03، 2012

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 15



 الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی قائد  الغر المحجلین نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

نبی پاک ﷺ طائف سے لہولہان ہوکر لوٹ چکے ہیں،اُس سے پہلے بیوی خدیجہ اورچچا ابوطالب بھی جاچکے ہیں،ہر طرف دشمن ہی دشمن ہے ،مکہ کی گلیاں اوروادیاں گویا آپ کو کاٹ کھا رہی ہے ،کوئی ظاہری سہارا نظر نہیں آرہا ہے....اِنہیں دنوں ایک رات ا للہ کے رسول ﷺ اپنے بستر پر سورہے تھے کہ ایک عجیب واقعہ ہوا ....واقعہ کیاتھا؟ اچانک آپ کے گھر کی چھت کھول دی گئی، ایک آدمی آیا ،آپ کو بیدارکیا ،کعبہ کے پاس لے گیا،آپ کا دل چیرا،اسے زمزم سے دھویا،علم وحکمت اورایمان سے بھردیا،اور سلائی کردی ،پھر ایک سواری پیش کی .... ایسی سواری جس کا رنگ سفید تھا ،بجلی کی رفتار سے چلتی تھی ،اُس پر آپ کو سوار کیا،اورلے کر چلے یہاں تک کہ چندلمحوںمیں مکہ سے فلسطین پہنچ گئے .... یہ تھے جبریل امین اور جوسواری پیش کی گئی تھی اُس کا نام تھا براق ۔ اِ س طرح اللہ کے رسول ﷺ بیت المقدس پہنچ جارہے ہیں،وہاں اُترتے ہیں،بُراق کو مسجد کے ایک حلقے سے باندھ دیتے ہیں،اوروہیں پر انبیائے کرام کی امامت کراتے ہیں ۔ یہ وہ قصہ ہے جسے تاریخ  میں ہم ”اسراء“کے نام سے جانتے ہیں۔ اُس کے بعد ایک دوسرے معجزے کا ظہور ہوا ،جسے ہم تاریخ میں معراج کے نام سے جانتے ہیں،یہ دوسرا سفر، فضا اور خلا کا سفر تھا، جبریل امین نے آپ ﷺ کو بیت المقدس سے ساتوں آسمان کا ایک ایک کرکے سفر کرایا ،پہلے آسمان میں حضرت آدم عليہ السلام  سے ملاقات ہوئی ،دوسرے آسمان میں حضر ت عیسی عليہ السلام  اور حضرت یحیی عليہ السلام  سے ملاقات ہوئی ، تیسرے آسمان میں حضرت یوسف عليہ السلام  سے ملاقات ہوئی،چوتھے آسمان میں حضرت ادریس عليہ السلام  سے ملاقات ہوئی ،پانچویں آسمان میں ہارون عليہ السلام  سے ملاقات ہوئی ،چھٹے آسمان میں حضرت موسی عليہ السلام  سے ملاقات ہوئی ،ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم عليہ السلام  سے ملاقات ہوئی ،سبہوں کو سلام کیا سبہوں نے سلام کا جواب دیا اورخوش آمدیدکہا اورآپ کی نبوت کا اقرار کیا ،اُس کے بعد آپ کو سدرة المنتہی تک لے جایا گیا پھر آپ کے لیے بیت المعمور کو ظاہر کیا گیا ....یہ وہی بیت المعمور ہے جو خانہ کعبہ کے بالکل سامنے میں ہے جس میں ستر ہزار فرشتے ایک بارزیارت کے لیے داخل ہوتے ہیں تو دوبارہ پھر انہیں داخل ہونے کا موقع نہیں ملتا ۔........ پھر اُس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ کواللہ کے دربارمیں پہنچایاگیا،اوراللہ تعالی سے اِتنے قریب ہوئے کہ دوکمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا ،اُس کے بعداللہ تعالی نے اپنے بندے پر وحی فرمائی اور پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں ۔
اس کے بعداللہ کے رسول ﷺ واپس ہوئے تو موسی عليہ السلام  کے پاس سے گذرے ،انہوں نے پوچھا : اللہ تعالی نے آپ کو کس چیز کا حکم دیا ہے ،آپ ﷺ نے فرمایا: پچاس نمازوںکا ۔ انہوں نے کہا: آپ کی امت اِس کی طاقت نہیں رکھتی ۔اللہ تعالی کے پاس جائیے اور اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کیجئے ۔ جبریل آپ کو اللہ تعالی کے حضورلے گئے چنانچہ دس نمازیں کم کردی گئیں ،پھر نیچے لائے گئے ،جب موسی سے گذرہوا تو انہوں نے اِس کی خبر دی ،انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس دوبارہ جائیے اور تخفیف کا سوال کیجئے ، اس طرح موسی اور اللہ تعالی کے درمیان آپ ا کی آمد ورفت ہوتی رہی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے پانچ نمازیں باقی رکھیں ۔ ....پانچ وقت کی یہ نمازیں معراج کا تحفہ ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو اپنے پاس بلا کر عطافرمایا۔ افسوس کہ آج یہ تحفہ ہمارے بیچ ناقدری کا شکار ہوکر رہ گیا ہے ۔
اِس سفرمیں پیارے نبی ﷺ کو دوسری کئی چیزیں دکھائی گئیں ،آپ ﷺ کے سامنے دو پیالے پیش کئے گئے ،ایک میں دودھ دوسرے میں شراب تھی ،آپ نے دودھ کا پیالہ اٹھالیا ،حضرت جبریل عليہ السلام  نے مبارک باد دی کہ آپ نے فطرت کو اختیارفرمایا۔ آپ نے جنت میں چار نہریں دیکھیں ،آپ نے داروغہ جہنم مالک کو دیکھا ،وہ بالکل ہنستا نہ تھا اور نہ اُس کے چہرے پر خوشی اوربشاشت تھی ۔ آپ ﷺ نے جنت اور جہنم بھی دیکھی ۔آپ نے اُن لوگوںکو بھی دیکھا جو یتیموںکامال ظلماً کھاتے ہیں اُن کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹ کے جیسے تھے ، وہ اپنے منہ میں پتھر کے ٹکڑوںجیسے انگارے ٹھونس رہے تھے جو دوسری جانب اُن کے پاخانے کے راستے سے نکل رہے تھے۔ آپ نے غیبت کرنے والوںکے انجام کو بھی دیکھا کہ اُن کے ناخن تانبے کے ہیں اوروہ اُن سے اپنے چہرے اور سینوں کو نوچ رہے ہیں ۔
جب اللہ کے رسول ﷺ نے صبح میں قریش کو اِن نشانیوں کی خبر دی جو اللہ پاک نے آپ کو دکھائی تھی تو قریش نے اِسے ہوا بنا لیا۔ زور زور سے ہنسنے اور ٹھٹھاکرنے لگے ، انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی بیت المقدس گئے تھے تو ذرا بیت المقدس کی کیفیت بیا ن کردیں ۔ اس پر اللہ تعالی نے آپ کے لیے بیت المقدس کو ظاہر کردیا اور وہ آپ کی نگاہو ںکے سامنے آگیا ،چنانچہ آپ نے قوم کو اُس کی نشانیاں بتلانا شروع کیں ،لیکن کیااُنہوں نے اِسے تسلیم کرلیا؟ وہ قوم ماننے والی تھی نہیں کہ مانتی ....جب ابوبکر صدیق ؓ کو اِس کی خبر دی گئی تو فوراً آپ نے اِس واقعہ کی تصدیق کی ۔ اِسی موقع پر آپ ﷺ کو صدیق کا خطاب دیا گیا ۔
محترم قارئین ! اسراءومعراج کا یہ واقعہ نبی پاک ﷺ کا ایک معجزہ تھا جس میں ہمارے اور آپ سامنے بے شمار حکمتیں ظاہر ہوتی ہیں :چنانچہ معراج کا فائدہ بیان کرتے ہوئے اللہ پاک نے مختصر جملے میں یہ فرمادیا کہ : لنریہ من آیاتنا ”تاکہ ہم آپ کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں “۔ اوراِس کا مقصد کیا تھا ؟ لیکون من الموقنین تاکہ آپ کے اندر یقین پیدا ہوجائے ۔جی ہاں ! انبیائے کرام پیشانی کی آنکھوں سے کسی چیزکو دیکھ لیتے ہیں تواُن کو عین الیقین حاصل ہوجاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام وہ پریشانیاں جھیل لیتے تھے جسے دوسرے نہیں جھیل پاتے ۔اس طرح معراج کاپہلا فائدہ یہ ہواکہ :
مشکلات میں اللہ پاک اپنے نیک بندوں کی مدد فرماتا ہے اوراُن کے دلوںمیں ٹھوس اعتماد پیدا کرتا ہے ۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب کو اسراءومعراج ایسے وقت میں کرایا جس وقت دنیا والے آپ کو قبول کرنے سے انکاری تھے گویا اسراءومعراج دنیاوالوںکے نام یہ پیغام تھاکہ اگر تم ہمارے حبیب کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہو توآسمان والے ان کا استقبال کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ اللہ پاک آپ ﷺ کو اپنے پاس بلاکر خاص ہدایات دینا چاہتا تھا ،اُس اسٹیٹ کے لیے جو ایک سال بعد مدینہ میں قائم ہونے جارہا تھا ۔اِسی لیے اللہ پاک نے انبیائے کرام سے ملاقات کرائی ،جنت کے مناظر دکھائے ،جہنم کے مشاہدات کرائے تاکہ اِن چیزوں کا آپ پیشانی کی آنکھوں سے مشاہدہ کرلیں،اورآپ کواپنی دعوت پر عین الیقین حاصل ہوجائے۔
تیسری بات یہ کہ اسراءومعراج میں مسجد اقصی کی اہمیت بھی نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب کو اقصی پہنچا یا ،اِس کی اہمیت کی بنیاد پر ....جوبہت سارے انبیائے کرام کا مدفن ہے ،جس میں برکتیں اُترتی ہیں ،اُس کا دفاع گویااسلام کا دفاع ہے ۔زمین کے ہرگوشے کے مسلمان پر اُس کی حفاظت فرض ہے ،اوراُس کی حفاظت میں کوتا ہی کرناگویا اسلام کے سلسلے میں کوتا ہی کرناہے ۔
 چوتھی بات یہ کہ اس واقعے سے اللہ کے رسول ا کی عظمت کا اظہار بھی مقصودتھا کہ آپ جس دعوت کو پیش کرنے والے ہیں وہ ایک عالمی دعوت ہے قل یا ایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا آپ فرمادیجئے کہ اے لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا گیارسول ہوں۔ تب ہی تو آپ ﷺ نے انبیائے کرام کی امامت کرائی ،اورآپ کو اُس مقام تک پہنچنے کا شرف بخشا گیا جس تک کوئی مخلوق نہ پہنچ سکی ،یہاں تک کہ سدرة المنتہی کو پار کرگئے جس سے آگے ملاے اعلی کو بھی پر رکھنے کی ہمت نہیں ۔

محترم قارئین ! انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اسی وقت ”سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھر ملیں گے ۔ان شاءاللہ ۔تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

ليست هناك تعليقات: