السبت، أغسطس 04، 2012

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 17


 الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

نبوت کاتیرہواں سال ہے ،ربیع الاول کے آغاز کی بات ہے ، ایک رات دنیا کا سب سے عظیم انسان ....اپنے ایک ساتھی کے ساتھ غار میں چھپا ہوا ہے جان کے ڈر سے .... اُسے جان سے مارڈالنے کے لیے اسی کے خاندان کے 13جانباز تلوار سونتے اُس کے گھرکو گھیر چکے تھے،اورآدھی رات کا انتظارکر رہے تھے ، لیکن اُن نادانوں کو کیا پتہ تھاکہ جن کے قتل کا وہ انتظار کررہے ہیں وہ اُن کے بیچ سے نکل چکے ہیں ، یہ ہیں ہمارے حبیب ،محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم جو آج کی رات غار غار ثور میں چھپے ہوئے ہیں ۔جب دشمنوں کے لیے انتظار کے لمحات لمبے ہوگئے ،تو گھر میں جھانکا ،دیکھتے ہیں کہ ایک انسان چادر اوڑھے سورہا ہے ،لیکن وہ حبیب نہیں تھے بلکہ حبیب کے چچا زاد بھائی امام علی ؓ تھے ،جب قریش کو یقین ہوگیا کہ ہمارا شکار نکل چکا ہے ، توانہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علی پر اُتارا ،گھسیٹ کر کعبہ کے پاس لے گئے اورکچھ دیر کے لیے اُن کو قید کردیاکہ ممکن ہے محمداورابوبکر کی خبر لگ جائے ،جب حضرت علی سے کچھ بھی معلومات نہ حاصل ہوسکی تو کاٹے ہوئے کتے کے جیسے ابوبکر کے گھر آئے ، دروازے پر دستک دیا، اسماءنکلیں ،اُن سے پوچھا : تمہارے ابا کہاں ہیں ،انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا توکمبخت ابوجہل نے ان کو اِس زور سے طمانچہ ماراکہ اُن کے کان کی بالی گر گئی ۔
قریش کے سارے لیڈران باولے ہوچکے تھے ، فوراً انہوں نے ہنگامی میٹنگ بُلائی اور یہ طے کیا کہ جوکوئی محمد اورابوبکر کو یااُن میں سے کسی ایک کو زندہ یا مردہ حاضر کرے گا اُسے ہرایک کے بدلے سو اونٹوں کا قیمتی انعام دیاجائے ۔ یہ انعام کوئی معمولی انعام نہ تھا ، انعام کی لالچ میں لوگ ہر طرف پھیل چکے ہیں ، کچھ لوگ غارثور کے ٹھیک دروازے پر جاپہنچے ،جب اُن کی کانا پھوسی ابوبکر ؓ کے کانو ںتک پہنچی تو گھبراگئے ،کہ کہیں یہ ظالم غار میں داخل نہ ہوجائیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسی نازک صورتحال میں بھی اُن کو تسلی دی کہ ابوبکر!ایسے دوآدمیوں کے بارے میں آپ کا کیاخیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔ جی ہاں! یہ اللہ کے نبی ﷺ کا معجزہ تھا کہ وہ چند قدم کے فاصلہ پر پہنچنے کے باوجود آپ کو نہ دیکھ سکے ،اور واپس لوٹ گئے ۔ تین دن تک اللہ کے رسول ا ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ غار میں چھپے رہے،کفار قریش کی ایک ایک حرکت سے آگاہی حاصل کرتے رہے ،ادھر ابوبکر ؓ کے گھر سے دو تیز رفتا ر اونٹنیاں آگئیں ،ایک اونٹنی پر نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر سوار ہوئے اور دوسری پر ابوبکر کے غلام عامر بن فہیرہ اور عبداللہ بن اریقط ....، عبداللہ بن اریقط راستوںکا ماہر تھا ،اس لیے اُسے ابوبکر ؓ نے گائڈ کے طور پر رکھ لیاتھا۔ اِس طرح ہجرت کایہ عظیم سفر شروع ہوا ،راستے میں بہت ساری جگہوں پر رُکے ،آرام فرمایا،اورچلتے بنے ۔
سفرکے دوسرے دن راستے سے گذررہے تھے کہ ایک خیمہ دکھائی دیا ،یہ خیمہ ایک خاتون کا تھا جس کا نام ام معبد تھا ،آپ ﷺ نے اُس سے پوچھا کہ کیا اُس کے پاس کھانے کے سامان وغیرہ ملیں گے ؟ اُس نے معذرت کردی ،کہ بکریا ں بہت دور گئی ہوئی ہیں،ایک بکری ہے بھی تو اُس کا تھن سوکھا ہوا ہے ۔واقعی اُس میں دودھ کا ایک قطرہ نہ تھا،اللہ کے رسول ﷺ نے اُس سے اجازت لی کہ کیا اُسی بکری کو دوہ سکتا ہوں، خاتون کوتعجب ہواکہ میری بات پر اِن کو یقین نہیں ہورہا ہے ....کہا: یہ لیجئے ....یہ ہے بکری ....اللہ کے رسول ﷺ نے اُسے دوہا تو ایک بڑا برتن بھرگیا،جسے ایک جماعت مشکل سے اٹھاسکتی تھی ،آپ ﷺ نے ام معبد کو پلایا،وہ آسودہ ہوگئی ،اپنے ساتھیوںکو پلایا،جب سب آسودہ ہوگئے تو خود پیا اور دوبارہ دوہ کر برتن بھر دیا۔اورام معبد کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ جب ابومعبد آئے تو یہ دودھ انہیں دے دینا اور وہاں سے چلتے بنے ۔ جب ام معبد کا شوہر آیاتو دودھ کے بھرے ہوئے برتن دیکھ کر حیران رہ گیا ،پوچھا: اِتنا دودھ کہاں سے آگیا؟ ام معبد نے کہا:
اللہ کی قسم ! یہاں سے ایک مبارک آدمی کا گذر ہوا ہے ،پھر ساراواقعہ کہہ سنایا۔ ابومعبد نے کہا: ذرااُس کا حلیہ تو بتانا، کہنے لگیں : میں نے ایک ایسا شخص دیکھا جس کا حسن وجمال نمایاں تھا ،چہرہ روشن تھا ،اخلاق پاکیزہ تھا،بدن نہ بھاری تھا ،نہ کمزور ،خوبصورت اور نرم انداز تھا،آنکھوںمیں گہری سیاہی تھی ،پلکیں لمبی تھیں ،آواز بلند تھی ،مگر سخت نہ تھی ،بال بالکل سیاہ تھے ،گردن لمبی تھی ،ڈاڑھی گھنی تھی ،خاموش ہوتا تو وقار نمایاں تھا،بولتا تو معلوم ہوتا کہ اُس کی آواز اردگردپر چھا گئی ہے میٹھی گفتگو، واضح الفاظ ، گفتگو جیسے زبان سے موتیوں کی لڑی بکھیر رہے ہوں،اُس پر جان دینے والے ساتھی اُس کو گھیرے رہتے تھے ، اُس کی خدمت کرتے تھے ،اُس کی اطاعت کرتے تھے ،نہ تُرش رو تھا نہ سخت کلام ۔
ابومعبد یہ سن کر بول اٹھا: اللہ کی قسم یہ تو وہی صاحب قریش تھے جن کا ذکر ہم سنتے رہتے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ اُس کے بعد اُن دونوں نے ہجرت کی اور مدینہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے ۔
جب اللہ کے رسول ﷺ قدید سے آگے نکلے تو سراقہ بن مالک نے آپ کا پیچھا کیا،یہ انعام کی لالچ میں نکلنے والوںمیں سے ایک تھا ،وہ اپنے گھوڑے پر بیٹھا ہوا تھااورآپ کا پیچھا کر رہا تھا،جب قریب پہنچا تو گھوڑا پھسل گیااور سراقہ نیچے گرگیا۔ دوسری بار کوشش کی تو اِس بار سواری گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئی ۔ اِس سے وہ ڈرگیا،اُس کی ہمت ٹوٹ گئی اور معافی مانگنے لگا ۔ آپ ﷺ نے سراقہ کے ہاتھوںکی طرف دیکھااورفرمایا: کیف بک یا سراقہ اذا لبست سوار کسری سراقہ ! آج تو تم اونٹ کی لالچ میں پاگل بنے تھے لیکن اُس وقت تمہاری کیسی شان ہوگی جب تم کسری کے کنگن پہنوگے ۔
کسری کے کنگن ! یہ تو عجیب بات تھی ،سراقہ جیسا انسان ....کسری کے کنگن پہنے یہ تو بہت دور کی بات ہے ،کسری کے درباریوںمیں حاضری کاتصوربھی نہ کرسکتا تھا ....لیکن یہ پیشین گوئی کسی عام انسان کی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی تھی جن کی زبان سے وحی کے پھول گرتے تھے ،عمرفاروق کے دورخلافت میں پوری ہوکر رہی ۔ جب ایران فتح ہوا تو کسری کے کنگن سراقہ کے ہاتھوںمیں پہنائے گئے ۔ .... راستے میں بریدہ اسلمی سے بھی ملاقات ہوئی جو انعام کی لالچ میں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر کے سر کے لیے نکلے تھے ،لیکن جب سامنا ہوا تو نقددل دے بیٹھے اور اپنی قوم کے ستر آدمیوں کے ساتھ وہیں مسلمان ہوگئے ۔
8 ربیع الاول سموار کے دن رسول اللہ ﷺ قبا پہنچ جاتے ہیں ،کلثوم بن ھدم کے ہاں ٹھہرتے ہیں ،اِ س مدت میں آپ نے وہاں ایک مسجد بنائی ،یہ پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی ، آج بھی یہ مسجد ’مسجدقبا ‘کے نام سے مشہور ہے ۔ ادھر یثرب میں یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ رسول اللہ ﷺ قبا پہنچ چکے ہیں ،اورجلد ہی یثرب تشریف لائیں گے ،یثرت والے نبی پاک ﷺ کے لیے آنکھیں بچھائے ہوئے تھے ،یہاں تک کہ وہ دن آگیا جس کا ایک ایک لمحہ وہ گن رہے تھے ،اورنبی پاک ﷺ یثرب پہنچ چکے تھے ،آپ کے استقبال کے لیے پورا مدینہ امڈ پڑا تھا،یہ ایک تاریخی دن تھا جس کی مثال مدینہ کی دھرتی نے کبھی نہ دیکھی تھی ،جمعہ کے دن نبی امدینہ تشریف لے گئے تھے ،اُسی دن سے یثرب کانام مدینہ الرسول ہوگیاتھا۔ گلی کوچے میں تکبیر وتحمید کے کلمات گونج رہے تھے اورانصار کی بچیاں خوشی سے یہ اشعار گارہی تھیں :
اشرق البدر علینا
من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا
مادعاللہ داع
ایھاالمبعوث فینا
جئت بالامر المطاع
اِن پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب چودھویں کا چاند ہے ہم پرچڑھا ۔ کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے ،شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا ....ہے اطاعت فرض تیرے حکم کی بھیجنے والا ہے تیرا کبریا

 محترم قارئين ! انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ،اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شاءاللہ سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھر ملیں گے تب تک کے لیے اجازت دیجئے اللہ حافظ 

ليست هناك تعليقات: