الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلین نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
مکہ میں اللہ کے رسول ﷺ کی نبوت کوگیارہ سا ل بیت چکے ہیں
،حج کا موسم ہے ،حج کے موسم میں ہرسال باہر سے حاجی لوگ کعبہ کا طواف کرنے آتے تھے
،اللہ کے رسول ﷺ کے لیے مکہ کی دھرتی تنگ ہوچکی ہے ،ضرورت تھی ایسی جگہ کی جہاں آپ
اورآپ کے ساتھی آرام سے رہ سکیں،اللہ کے رسول ﷺ باہر سے آنے والے حاجیوں کے پاس جا
جا کر اُن تک اسلام کا پیغام پہنچارہے ہیں ،آپ ﷺ یثرب کے لوگوں کے پاس گئے ،انہیں حق
کی دعوت دی ،حسن اتفاق چھ لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ،یثرب پہنچ کر ان چھ لوگوں نے
ہرملنے جلنے والوں کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کیا ۔ایک سال بعد یعنی بعثت کے بارہویں
سال یثرب کے بارہ لوگ مکہ آئے جن میں سے کچھ پہلے سال کے مسلمان بھی تھے،اورکچھ نئے
لوگ تھے ، سب نے اسلام کا اقرارکیا۔جب یہ یثرب لوٹنے لگے تو اللہ کے رسول ﷺ نے اُن
کے ساتھ مصعب بن عمیر ؓ کو بھیج دیا تاکہ وہ یثرب کے رہنے والوں کے سامنے اسلام کا
پیغام پیش کریں ۔اللہ کے رسول ﷺ کے یہ پہلے سفیر تھے جو مدینہ گئے تھے ،نومسلموں کی
تربیت کرنے کے لیے اور غیرمسلموں کواسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے .... مکہ کی طرح
مدینہ کی زمین بنجر نہ تھی ،یہاں کے لوگوںمیں حق کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود تھی
۔ چنانچہ مصعب ؓ یثرب کی گلیوں اور بازاروںمیں گھوم گھوم کر اسلام کی دعوت پہنچاتے
ہیں ۔ لوگ اسلام قبول کرتے اور خود مبلغ بن کر دوسروں کو اسلا م کی دعوت دینے لگتے
تھے ۔ جی ہاں!اسلام کا یہی تقاضابھی ہے ،کہ ہم اُسے دوسروں تک پہنچائیں ،بلغوا عنی
ولو آیة ایک آیت بھی معلوم ہے تو اُسے دوسروں تک پہنچاؤیہ ہماری ذمہ داری ہے ....لیکن
افسوس کہ آج ہم نے اسلام کو اپنی ملکیت سمجھ رکھی ہے ۔بہرکیف یثرب میں جو چند مسلمان
تھے انہوں نے اسلام کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردی تھیں ،اٹھتے بیٹھتے ،سوتے
جاگتے ،کھانے پیتے،خلوت اورجلوت....ہرجگہ ان کو یہی فکر ہوتی کہ کیسے اسلام پھیلے ،کیسے
جہالت دور ہو ، کیسے بت پرستی ختم ہو ۔ اس طرح دھیرے دھیرے مدینہ میں اسلام پھیلتا
گیا ۔
بعثت کے تیسرھویں سال یثرب سے72مسلمانوں کا قافلہ مکہ آیا
،سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہوں نے آپ ﷺ کو اورصحابہ کرام کو ہجرت کرنے کی
دعوت دی ۔ جب مدینہ میں مسلمانوں کی تعداداطمینان بخش ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں
کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ۔ مظلوم صحابہ یہ حکم پاتے ہی وطن، گھر بار اور
مال ودولت چھوڑ چھوڑ کر مدینہ جانے لگے ،سب کچھ قربا ن کرکے مدینہ جارہے تھے ،ظاہر
ہے نکلتے وقت اُن کا کلیجہ کٹا ہوگا،جذبات امڈے ہوں گے ،آنکھیں ڈبڈبائی ہوںگی ،لیکن
ان کی نظر میں ایمان کے سامنے املاک وجائیداد کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔
جب قریش کو پتہ چلا کہ یثرب میں بھی مسلمان پناہ لینے لگے
ہیں تو اُن کی پریشانی دوگنی ہوگئی ،اُن کو سمجھ میں ہی نہ آرہا تھا کہ اب کیاکیاجائے
۔ دارالندوہ میں میٹنگ بلائی ،قریش کے سارے لیڈران دارالندوہ میں حاضر ہوئے ،وہاں شیخ
نجدی کی شکل میں ابلیس بھی پہنچ گیاتھا،پلاننگ ہورہی ہے ،محسن انسانیت کے خلاف
....کسی نے کہاکہ اُسے قید کردیاجائے ،کسی نے کہاکہ اُسے جلا وطن کردیاجائے ،لیکن اِس
امت کے فرعون ابوجہل نے کہا :
اُسی وقت اللہ کے رسول ﷺابوبکر کے گھر آئے ،ابوبکر کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا اورکہا کہ ”ابوبکر ! ہجرت کی اجازت مل چکی ہے اور تم میرے رفیق سفر ہوگے “ یہ سننا تھا کہ خوشی سے ابوبکر کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے ۔ عائشہ ؓ یہ منظر دیکھ رہی تھیں کہتی ہیں فرأیت ابابکر یبکی وما کنت أحسب أن احدا یبکی من الفرح میں نے دیکھا کہ ابوبکر رو رہے ہیں ، اُس سے پہلے مجھے اِس بات کا تصور تک نہ تھا کہ ایک آدمی خوشی سے بھی روتا ہے ۔ بہرکیف اللہ کے رسول ﷺ ہجرت کا پروگرام طے کرکے گھر آگئے اور رات کا انتظار کرنے لگے ۔ جب رات کی تاریکی چھا گئی تو یہ لوگ تلوار سونتے ہوئے آئے اور اللہ کے رسول ﷺ کے گھر کی گھیرابندی کرلی،اِ س مجرمانہ سازش کو نافذ کرنے کے لیے رات کے بارہ بجے کا وقت طے تھا ،وہ وقت مقررہ کا انتظار کررہے تھے،اِدھر اللہ کے رسول ﷺ کے نکلنے کی تیاری بھی ہوچکی ہے، لیکن نکلنے سے پہلے حضرت حضرت علی ؓ کو بلایا اور حکم دیا کہ تم میرے بستر پرمیری سبزچادراوڑھ کرسوجاؤاور یہ جو امانتیں میرے پا س ہیں قریش کی ....تم اِن میں سے ایک ایک کی امانتیں لوٹا کر مدینہ پہنچ جانا ۔اورہاں!دشمن تمہیں بالکل نقصان نہ پہنچاسکیں گے۔
پیارے بھائیو!آگے چلنے سے پہلے ذرا ٹھہرئیے ،جانتے ہیں یہ کیسی امانتیں تھیں؟ قریش پیارے نبی کے دشمن ضرور تھے ،لیکن آپ کی دیانت وامانت پر اِتنا اعتماد تھا کہ امانت رکھتے تھے تو آپ ہی کے پاس ۔ قربان جائیے نبی پاک ﷺ کے احساس مانت پر ....کہ دشمن قتل کے درپے ہے اورآپ کو اُن کی امانتوں کی فکر لگی ہوئی ہے ۔....آج کی رات امتحان کی رات تھی ....محمد (ﷺ)کے بسترپر سونا گویا تلواروں کے سایہ میں سونا تھا ۔ لیکن حضرت علی نہایت بے فکری کے ساتھ پیارے نبی ﷺ کے بستر پر سو رہے ہیں ۔ قریش کے نوجوانوں نے گھر کی گھیرابندی کر رکھی تھی ، آپ ﷺ گھر سے باہر نکلے ،ایک مٹھی پتھریلی مٹی لی اوراُن کے سروں پر دے ماری ،اللہ پاک نے اُن کی نگاہوں کو پھیر دیا اور وہ آپ کو دیکھ نہ سکے ۔اس وقت آپ ا یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے وجعلنا من بین ایدیھم سدا ومن خلفھم سدا فاغشیناھم فھم لا یبصرون ”ہم نے اُن کے آگے رکاوٹ ڈال دی ،اوراُن کے پیچھے رکاوٹ ڈال دی ،پس ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے ،اوروہ دیکھ نہیں رہے ہیں ۔ “
میں تو کہتا ہوں کہ اُس چراغ کو ہی بجھا دوجس سے ہرطرف روشنی پھیل رہی ہے ،تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے گی بانسری ۔ابلیس نے اِس تجویز کو پسند کیا،اُن کی مجلس شوری نے یہ خبیث پلاننگ پاس کردی ،اور اِس کے لیے ناپاک ایجنڈابھی تیار کرلیاگیا....ایجنڈا کیاتھا ؟ مکہ کے ہر مشہور قبیلہ سے ایک ایک جوان مرد رات کے اندھیرے میں محمد ﷺ کے گھر کو گھیر لے ،اوربارہ بجے رات میں ایک ساتھ سب اُس پر دھاوا بول دے ۔ قریش اپنے منصوبہ پر خوش ہورہے تھے جب کہ اللہ پاک کا منصوبہ کچھ اور ہی تھا ۔ویمکرون ویمکر اللہ واللہ خیرالماکریں، جبریل امین آئے ،آپ کو قریش کے منصوبے سے باخبر کردیا اور یہ بھی کہہ دی کہ آپ آج کی رات اپنے بستر پر مت گذاریں۔
اُسی وقت اللہ کے رسول ﷺابوبکر کے گھر آئے ،ابوبکر کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا اورکہا کہ ”ابوبکر ! ہجرت کی اجازت مل چکی ہے اور تم میرے رفیق سفر ہوگے “ یہ سننا تھا کہ خوشی سے ابوبکر کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے ۔ عائشہ ؓ یہ منظر دیکھ رہی تھیں کہتی ہیں فرأیت ابابکر یبکی وما کنت أحسب أن احدا یبکی من الفرح میں نے دیکھا کہ ابوبکر رو رہے ہیں ، اُس سے پہلے مجھے اِس بات کا تصور تک نہ تھا کہ ایک آدمی خوشی سے بھی روتا ہے ۔ بہرکیف اللہ کے رسول ﷺ ہجرت کا پروگرام طے کرکے گھر آگئے اور رات کا انتظار کرنے لگے ۔ جب رات کی تاریکی چھا گئی تو یہ لوگ تلوار سونتے ہوئے آئے اور اللہ کے رسول ﷺ کے گھر کی گھیرابندی کرلی،اِ س مجرمانہ سازش کو نافذ کرنے کے لیے رات کے بارہ بجے کا وقت طے تھا ،وہ وقت مقررہ کا انتظار کررہے تھے،اِدھر اللہ کے رسول ﷺ کے نکلنے کی تیاری بھی ہوچکی ہے، لیکن نکلنے سے پہلے حضرت حضرت علی ؓ کو بلایا اور حکم دیا کہ تم میرے بستر پرمیری سبزچادراوڑھ کرسوجاؤاور یہ جو امانتیں میرے پا س ہیں قریش کی ....تم اِن میں سے ایک ایک کی امانتیں لوٹا کر مدینہ پہنچ جانا ۔اورہاں!دشمن تمہیں بالکل نقصان نہ پہنچاسکیں گے۔
پیارے بھائیو!آگے چلنے سے پہلے ذرا ٹھہرئیے ،جانتے ہیں یہ کیسی امانتیں تھیں؟ قریش پیارے نبی کے دشمن ضرور تھے ،لیکن آپ کی دیانت وامانت پر اِتنا اعتماد تھا کہ امانت رکھتے تھے تو آپ ہی کے پاس ۔ قربان جائیے نبی پاک ﷺ کے احساس مانت پر ....کہ دشمن قتل کے درپے ہے اورآپ کو اُن کی امانتوں کی فکر لگی ہوئی ہے ۔....آج کی رات امتحان کی رات تھی ....محمد (ﷺ)کے بسترپر سونا گویا تلواروں کے سایہ میں سونا تھا ۔ لیکن حضرت علی نہایت بے فکری کے ساتھ پیارے نبی ﷺ کے بستر پر سو رہے ہیں ۔ قریش کے نوجوانوں نے گھر کی گھیرابندی کر رکھی تھی ، آپ ﷺ گھر سے باہر نکلے ،ایک مٹھی پتھریلی مٹی لی اوراُن کے سروں پر دے ماری ،اللہ پاک نے اُن کی نگاہوں کو پھیر دیا اور وہ آپ کو دیکھ نہ سکے ۔اس وقت آپ ا یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے وجعلنا من بین ایدیھم سدا ومن خلفھم سدا فاغشیناھم فھم لا یبصرون ”ہم نے اُن کے آگے رکاوٹ ڈال دی ،اوراُن کے پیچھے رکاوٹ ڈال دی ،پس ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے ،اوروہ دیکھ نہیں رہے ہیں ۔ “
اُس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ ابوبکر رضى الله عنه کے گھر تشریف لائے اور وہیں سے دونوں یمن کے راستے رات کے اندھیرے میںمکہ سے نکلے
،اللہ کے رسول ﷺ نے مکہ کی طرف الوداعی نظر ڈالی اور گرم آنسووں کے ساتھ فرمایا: اے
مکہ ! اللہ کی قسم ! اگر تیرے باسی مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کرتے تومیں کبھی
تجھ سے نہ نکلتا،اُس کے بعد چلے یہاں تک کہ غار ثور پہنچے ،صدیق اکبر نے عرض کیا :
آپ ذرا باہر ٹھہریں ، میں اندرجاکر غار کو آپ کے لیے صاف اور محفوظ کردوں،اِس طرح ابوبکر
غار میں داخل ہوئے ،میل کچیل کو صاف کیا ،اندھیرے میں ٹٹول ٹٹول کر ایک ایک سوراخ اور
ایک ایک بِل کو بند کیا ۔ غار میں ایک بِل رہ گیاتو ابوبکر نے اُس پر اپنا پیر رکھ
دیا کہ ایسا نہ ہو کہ اُس سے کوئی موذی جانور نکل کر آپ کو کاٹ لے ۔ اُس کے بعد آپ
ﷺ کو آواز دی کہ آپ اندر تشریف لے آئیں ۔آپ ﷺ اندر تشریف لے گئے اورابوبکر کی آغوش
میں سر رکھ کر سوگئے ،اِدھر ابوبکر کے پاوں میں کسی چیز نے ڈس لیا،مگر اِس ڈر سے ہلے
بھی نہیں کہ رسول اللہ ا جاگ نہ جائیں،لیکن اُن کے آنسورسول اللہ
ﷺ کے چہرے پر ٹپک
گئے جس سے آپ کی آنکھ کھل گئی ۔آپ نے فرمایا: ابوبکر ! تمہیں کیا ہوا ؟ عرض کیا: میرے
ماں باپ آپ پر قربان!مجھے کسی چیز نے ڈس لیاہے ،رسول اللہ ا نے فوراً اُس جگہ پر اپنے
منہ کا لعاب لگادیا اور تکلیف جاتی رہی ۔ اِدھر گھر کی گھیرابندی کرنے والے خوشی سے
مچل رہے تھے کہ شکار کا وقت قریب ہوا چاہتا ہے ،لیکن اُن نادانوں کو کیا پتہ تھا کہ
رحمت عالم اُن کے بیچ سے نکل چکے ہیں ۔
محترم قارئین ! جب دشمنوں کو آپ ﷺ کے گھر سے نکل جانے کا
پتہ چلا تو اُن کا کیا ردعمل ہوا، اُن کی اگلی کاروائی کیا رہی ، اور رسول پاک ﷺ نے
کیسے مدینے کا سفر طے کیا ؟ یہ ساری باتیں ہم آپ کے گوش گزار کریں گے لیکن اگلے حلقہ
میں ....تب تک کے لیے اجازت دیجئے اللہ حافظ ۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق