الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلین نبینا
محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام مکہ سے نکل چکے تھے ،مدینہ
میں پناہ لے لی تھی ،قریش نے اُن کے اموال ضبط کرلیے تھے ،اُن کے گھروں پر قبضہ کرلیا
تھا ....اب تو کم سے کم اُن ظالموں کو زیادتی سے باز آجانا چاہیے تھا لیکن ....نہیں
انہوں نے میٹنگ کی اور عبداللہ بن ابی کو خط لکھا ....یہ وہی عبداللہ بن ابی ہے جویہودی
تھا جس کو لوگ بادشاہ بنانے کی تیاری میں تھے ،اور بعد میں چل کر دکھاوے کے لیے اسلام
بھی قبول کیاتھا ۔قریش نے خط میں لکھا تھا کہ تم نے ہمارے لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے
،اگر تم اُن سے نہیں لڑتے تو سمجھ لو کہ ہم تمہارا ہی ستیاناس کردیں گے ،تم پر ہی حملہ
کریں گے اور تمہارے نوجوانوں کو قتل کردیں گے اورتمہاری عورتوں پرقبضہ کرلیں گے ۔ یہ
خط پڑھتے ہی مدینہ کے کفارنے سارے عہد وپیمان کو بھلا دیااور اللہ کے رسول ﷺ سے جنگ
کرنے کے لیے تیاری کرنے لگے ،اللہ کے رسول ﷺ کو پتہ چلا تو اُن کے پاس گئے انہیں سمجھایابجھایا
اِس طرح یہ معاملہ دب گیا،لیکن قریش برابر مدینہ کے مشرکین اور یہود سے سازباز کرتے
رہے اور اُن کو اُکساتے رہے کہ تم محمد اور اُس کے ساتھیو ں سے جنگ کرو۔ عبداللہ بن
ابی بھی غصہ ہی میں تھا کہ اللہ کے نبی ﷺ کے مدینہ آجانے کی وجہ سے اُس کی تاج پوشی
نہ ہوسکی تھی ۔اِدھر مہاجرین کو بھی قریش نے دھمکی آمیز پیغام بھیجا کہ تم اِس خوش
فہمی میں مبتلا نہ ہونا کہ ہم سے بچ نکلے ہو بلکہ ہم یثرب پہنچ کر ہی تم سب کا ستیاناس
کردیں گے ۔ باربار ایسی خبریں آتی رہتی تھیں ،اور مدینہ کے مشرکین اور یہود بھی خطرہ
بنے ہوئے تھے جس سے اللہ کے رسول ﷺ کو خود گھبراہٹ لاحق ہوگئی تھی ، کبھی کبھی پور
ی رات جاگ کر گذار دیاکرتے تھے ،یاصحابہ کرام کے پہرے میں سوتے تھے ۔ یہاں تک کہ اللہ
پاک نے یہ آیت نازل فرمائی واللہ یعصمک من الناس اللہ آپ کو لوگو ں سے محفوظ رکھے گا
۔
قریش کی زیادتی کا ایک نمونہ دیکھئے کہ ہجرت کے دوسرے سال
ربیع الاول کے مہینے میں قریش کے سرداروںمیں سے ایک شخص کرز بن جابر الفہری مدینہ پہنچا
اورمدینے والوں کے جانور جو باہر میدان میں چررہے تھے لوٹ کر چلا گیا ۔ گویا وہ اپنی
طاقت کا اظہار کرنا چاہتا تھا کہ ہم مکہ میں رہ کر بھی تم پر دھاوا بول سکتے ہیں اورتمہارے
مویشیوں کو لوٹ کر لے جاسکتے ہیں ۔
ہجرت کا دوسراسال ہے ،مہینہ رمضان کا ہے ، ابوجہل نے مکہ
میں یہ مشہور کردیا کہ ہماراقافلہ جو مال ودولت سے مالامال ہے ،اور شام سے لوٹ کرآرہا
ہے ،مسلمانوں نے اُسے لوٹنے کی تیاری شروع کردی ہے ،اِس سے اُس کا مقصد لوگوں کو مسلمانوں
کے خلاف اُبھارنا تھا خاص کر اُن لوگوں کو جن کے قریبی اُس قافلے میں تھے اورجن جن
لوگوں کا مال اُس میں لگاتھا ۔چانچہ ہوا بھی ایساہی ،ابوجہل نے پوری تیاری کی ، اور
ایک ہزار بہادرفوج لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوگیا کہ محمداور اُن کے ماننے والوں کا
صفایاکردے ،اِس فوج میں سات سو اونٹ تین سو گھوڑے تھے ۔ حالانکہ جس قافلے کا بہانا
کرکے ابوجہل نے لوگوں کو اُکسایاتھا اور جنگ کے لیے تیار کیاتھا وہ قافلہ بخیریت مکہ
پہنچ بھی گیا....اس وقت ابوجہل مردود کو کیامعلوم تھا کہ جس فوج کو وہ مسلمانوں کے
خلاف اکٹھا کررہا ہے وہی فوج اُسے موت کے منہ میں لے جارہی ہے۔ ........اِدھر اللہ
کے رسول ﷺ کو خبر ملی کہ قریش پوری تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادہ سے نکل
چکے ہیں ،اس لیے آپ نے مسلمانوں سے مشورہ کیا کہ ایسے حالات میں کیاکیا جائے ، اُس
پر حضرت ابوبکر ؓ اٹھے اور اچھی بات کہی ،پھر عمر ؓ اٹھے اور اچھی بات کہی ،پھر مقداداُٹھے
اور انہوں نے کہا : اللہ کی قسم یا رسول اللہ ! ہم وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل
نے موسی علیہ السلام سے کہی تھی فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون کہ تم اور تمہارا
رب جاواور قتال کرو ،ہم یہیں بیٹھے ہیں ۔ بلکہ ہم آپ کے دائیں اور بائیں سے ،آگے اور
پیچھے سے لڑیں گے ۔ اِس سے رسول اللہ ﷺ کا چہرہ دمک اٹھا اورآپ خوش ہوگئے ،اُس کے بعد
آپ نے پھر فرمایاکہ مسلمانو! مجھے مشورہ دو ، اِس پر انصار کی طرف سے حضرت سعد بن معاذ اُٹھے اور عرض کیا: اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ،اگر آپ ہمیں
سمندر میں لے چلیں اور اُس میں کودنا چاہیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ چھلانگ لگادیں گے
۔ ہماراایک آدمی بھی پیچھے نہیں رہے گا ........یہ حوصلہ افزا باتیںسن کراللہ کے رسول
ﷺ نے اطمینان کا سانس لیا اور آپ کا چہرہ خوشی سے کھِل گیا۔ آپ نے فرمایا: چلواور خوش
ہوجاوکیونکہ مجھ سے اللہ نے دو گروہوںمیں سے ایک گروہ کا وعدہ فرمایاہے ،واللہ اِس
وقت میں گویا قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں۔
اب تک مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہیں تھی ،کیونکہ اسلام
کو جنگ سے کوئی واسطہ ہی نہیں ،اسلام لفظ کا مادہ سلم ہے جس کے معنی امن وشانتی اور
صلح کے آتے ہیں ۔ لیکن سوال یہ تھاکہ مسلمانوں کو گھر سے نکال دیاگیا تھا ، املاک چھین
لیے گئے تھے ،اوراب مدینے پر بھی دھاوا بولا جارہا تھا .... اگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے
بیٹھے رہتے تو دشمن بکریوںکی طرح سب کو ذبح کردیتا اسی لیے اللہ پاک نے آیت اُتارا
اذن للذین یقاتِلون بانھم ظلموا وان اللہ علی نصرھم لقدیر جنگ کرنے والوں کو اجازت دی
جاتی ہے کیونکہ اُن پر ظلم ہوا اور اللہ اُن کی مدد پر بیشک قادر ہے ۔
بہرکیف اللہ کے رسول ﷺ تین سو تیرہ مسلمانوںکو لے کر بدرکے
مقام پر پہنچے ،سواری میں صرف دو گھوڑے اور ستراونٹ تھے ، مشرکین بھی اُسی رات پہنچے
۔
سترہ رمضان المبارک 2ہجری کی صبح دونوں فوجوں کا
آمنا سامنا ہوا ،آپ نے صفیں برابرکیں اور فرمایا: جب تک میرا حکم نہ آجائے جنگ شروع
نہ کریں ،اُس کے بعد آپ خیمہ میں واپس آگئے ،آپ کے پاس ابوبکر ؓ بھی تھے ،آپ نے اللہ
پاک سے نہایت گریہ وزاری سے دعا کی یہاں تک کہ فرمایا:اللھم ان تھلک ھذہ العصابة الیوم
لاتعبدابدا،اللھم ان شئت لم تعبد بعد الیوم ابدا ”اے اللہ اگرآج یہ جماعت ہلاک ہوگئی
تو کبھی تیری عبادت نہ کی جاسکے گی ،اے اللہ اگر تو چاہے تو آج کے بعد کبھی تیری عبادت
نہ کی جائے “۔ آپ نے اِس سوز سے دعا کی کہ آپ کی چادر تک گردن سے نیچے گرگئی تھی ۔
اُس کے بعد جنگ کا آغاز ہوا ،قریش کی طرف سے بہترین شہسوارعتبہ
،شیبہ اور ولید بن عتبہ آیا، مسلمانوںکی طرف سے اُن کا مقابلہ عبیدہ بن حارث ،حمزہ
اورعلی ثنے کی ،حضرت حمزہ نے شیبہ کو مارا ،حضرت علی نے ولید کو مارا ،البتہ عبیدہ
اور عتبہ کے درمیان ضربوں کا تبادلہ ہوتا رہا ،یہاں تک کہ حضرت علی اور حضرت حمزہ دونوں
نے عتبہ کو بھی مار گرایا۔ مشرکین غصہ سے بے قابوہوکر مسلمانوں کی صفوںمیں داخل ہوگئے
اور پامردی کے ساتھ لڑنے لگے ۔ مسلمان بھی اُن کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے تھے ،اُسی وقت
اللہ پاک نے مسلمانوں کی مددکے لیے ایک ہزار فرشتوں کو نازل فرمایا،اللہ کے رسول ﷺ
اُس وقت یہ آیت کریمہ تلاوت کررہے تھے سیھزم الجمع ویولون الدبر ”عنقریب یہ لشکر ہارجائے
گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا ۔ اللہ کے رسول ﷺ اُن کے بیچ تھے ،آپ نے ایک مٹھی کنکری
لی اور مشرکین کے چہروں پر دے ماری ااورکہا: شاھت الوجوہ۔ اللہ کے رسول صحابہ کو ہمت
دلارہے ہیں ،فرشتے بھی مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں ، عجیب منظر ہے مشرکین کے لیے ،کسی
کی گردنیں کٹ رہی ہیں ،کسی کا ہاتھ کٹ رہا ہے تو کسی کا سرکٹ کر گررہا ہے ۔ اورپتہ
بھی نہیں چل رہا ہے کہ کس نے کاٹا ہے ۔ جی ہاں ! یہ غیبی مدد تھی مسلمانوں کی ....فرشتوں
کے ذریعہ ....اِدھردونوعمر بچے عفراءکے بیٹے معاذ اور معوذ ابوجہل کی تلاش میں تھے،عبدالرحمن
بن عوف سے پوچھا کہ چچا جان !مجھے ابوجہل کو دکھادیجئے ، پوچھا :ابوجہل کو کیاکروگے
؟ کہا: مجھے بتایاگیاہے کہ وہ رسول اللہ ﷺکو گالی دیتا ہے ۔ اِتنے میں ابوجہل دکھائی
دیا، عبدالرحمن بن عوف نے اُس کی طرف اشارہ کیا،دونوں اُس پر جھپٹ پڑے اور تلوار سے
مار کر قتل کردیا۔جب اُس کا سر اللہ کے رسول ﷺکی خدمت میں پیش کیاگیا تو آپ ﷺنے تکبیرکہی
اورفرمایا: یہ اِس امت کا فرعون ہے ۔
محترم قارئین ! یہ ہے جنگ بدر جو 17رمضان کو ہجرت کے دوسرے سال
واقع ہوئی ، جس میں چودہ مسلمان شہید ہوئے ،سترمشرکین مارے گئے اور ستر قید ہوئے ،قیدیوں
کے ساتھ کیامعاملہ کیانبی رحمت نے ؟ اگردیکھیں تو اُس زمانے کا قانون جنگ ،مظلوم مسلمانوں
کا جوش انتقام اور دوسرے قبیلوں پر رعب بیٹھانے کی ضرورت اِس بات کا تقاضا کررہی تھی
کہ اِن ظالموں کا سر جسم سے الگ کردیا جائے لیکن نبی رحمت نے جرمانہ لے کر اُن کو رہا
کردیا،اورجولوگ پڑھے لکھے تھے اُن کے لیے یہ مقررفرمایاگیاتھا کہ وہ انصار کے بچوں
کو لکھناسکھادیں۔اِس جنگ نے کفر اورایمان کے بیچ فیصلہ کردیا۔ بھائی نے بھائی سے جنگ
کیا، باپ نے بیٹے سے جنگ کیا،اللہ پاک نے ایمان کو کفر پر غلبہ دیا،اسی لیے اس جنگ
کانام یوم الفرقان پڑگیا،یعنی فیصلے کا دن ، حق کو باطل سے جدا کرنے کا دن ....
محترم قارئین! انہیں چند کلمات کے ساتھ ہم آپ سے رخصت ہوتے
ہیں ،اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ”سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھر ملیں
گے ، ان شاءاللہ ، تب تک کے لیے اجازت دیجئے۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق