السبت، أغسطس 04، 2012

صلح حديبيہ


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

 ذوالقعدہ سن 6ہجری کی بات ہے،ایک رات اللہ کے رسول ﷺ سورہے تھے ،خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ پرامن طریقے سے بیت اللہ میں داخل ہوئے،طواف کیا ،سرمنڈوایا اورقصرکرایا،....ویسے بھی اللہ کے رسول ﷺ کو مکہ سے نکلے 6 سا ل کاعرصہ ہوچکاتھا ،خواہش بھی تھی کہ عمرہ کا موقع ملتا ....صحابہ سے بتایاکہ ہم عمرہ کا ارادہ رکھتے ہیں ،لوگوںمیں اعلان کردیاگیا ،اِس طرح اللہ کے رسول ﷺ چودہ سوصحابہ کو لے کر مکہ کے لیے روانہ ہوئے ،اپنے ساتھ قربانی کے جانور بھی لے لیے ،تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ آپ جنگ کے لیے نہیں بلکہ عمرہ کے لیے جارہے ہیں ،ذوالحلیفہ آئے ،احرام باندھا اور آگے چلے ،عسفان پہنچے تو آپ کے کسی جاسوس نے خبر دی کہ قریش آپ سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں ۔اللہ کے رسول ﷺنے صحابہ سے مشورہ کیا،ابوبکر صدیق ؓ نے کہا : ہم تو عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں کسی سے الجھنے نہیں آئے ....اورجو الجھنے کی کوشش کرے گا اُس کی خیریت پوچھیں گے “۔ بہرکیف اللہ کے رسول ﷺ حدیبیہ میں پہنچے ،وہاں پر ٹھہرے ،وہیں پر قریش کے کئی نمائندے آئے بات کرنے کے لیے ....لیکن کسی سے بات نہ بن سکی ....اللہ کے رسول ﷺنے خود طے کیا کہ اپنا سفیر بھیجیں قریش کے پاس.... اور اُن کو یقین دلائیں کہ ہم صرف عمرہ کے ارادہ سے آئے ہیں ہمارا دوسرا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت عثمان ؓ کو قریش کے پاس بھیجا ،آپ نے مکہ جاکر قریش کے لیڈروں سے بات کی ،انہوں نے کہا کہ آپ چاہیں تو عمرہ کرلیں لیکن ہم ....سب کو اجازت نہیں دے سکتے ،عثمان ؓ نے کہا کہ ہم عمرہ کریں گے تو ایک ہی ساتھ، اکیلے نہیں کرسکتے ،یہ سن کر قریش نے حضرت عثمان ؓ کو اپنے پاس روک لیا ،ادھر صحابہ کے بیچ یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان ؓ قتل کردئیے گئے اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کو خطاب کرکے فرمایا: اگر یہ بات صحیح ہے تو ہم اِس جگہ سے ٹل نہیں سکتے یہاں تک کہ عثمان ؓ کے خون کا بدلہ نہ لے لیں ۔ اِسی کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرام سے ایک درخت کے نیچے بیعت کی جسے بیعت رضوان کہاجاتاہے۔ جب بیعت مکمل ہوچکی تو حضرت عثمان ؓ آگئے ،اِسی پس منظر میں اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی : لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرة ۔اللہ مومنین سے راضی ہوا جبکہ وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ قریش کو جب اِس کی خبر ملی تو اُن پر رعب طاری ہوگیااورانہوں نے صلح کے لیے سہیل بن عمرو کو بھیجا ۔ لمبی گفتگو ہوئی اوراخیرمیں چار باتوں پر اتفاق ہوا :
پہلی بات : اِس سال آپ لوگ مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں ،اگلے سال مکہ آئیں،تین روز قیام کریں،اس دوران آپکے ساتھ کوئی ہتھیانہ ہوگا ،تلوار بھی ہوگی تو میان میں ۔
دوسری بات : دونوں فریق میں دس سال کے لیے جنگ بند رہے گی ۔تیسری بات: جو محمدﷺ کے عہد میں داخل ہوناچاہتا ہے ہو سکتا ہے اور جو قریش کے عہد میں داخل ہونا چاہتا ہے ہوسکتا ہے ۔ چوتھی بات : قریش کا جوآدمی مسلمانوںکی پناہ میں جائے گا اُسے قریش کے حوالے کرناہوگا لیکن مسلمانوںکا جو آدمی قریش کی پناہ میں جائے گا قریش اُسے مسلمانوں کے حوالے نہیں کرسکتے ۔
ابھی صلح نامہ لکھا ہی جارہا تھا کہ قریش کے نمائندے سہیل بن عمروکے بیٹے ابوجندل بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے پہنچے ،قریش اُن کو اسلام لانے کے جرم میں یہ سزا دے رے تھے ،اللہ کے رسول سے منت سماجت کرنے لگے کہ ہمیں قریش کے ظلم سے بچایاجائے ،اللہ کے رسول ﷺ نے کہا کہ ابھی صلح نامہ لکھا ہی نہیں گیا ہے ۔ ابوجندل کو ہمارے حوالے کرو۔ اِس پر سہیل تُل گیا کہ تب تو ہم صلح ہی نہیں کرتے ۔ تب اللہ کے رسول ﷺ نے ابوجندل سے کہا : صبر کرو،ثواب کی امید رکھو،اللہ تمہارے لیے اور دوسرے تمام کمزور مسلمانوں کے لیے جلدہی آسانی پیدا فرمائے گا “۔
صلح کا معاہدہ طے ہونے کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے سارے صحابہ سے کہا کہ اُپ لوگ اُٹھیں اور اپنے اپنے جانور ذبح کرلیں اور بال منڈوالیں ،مگر کوئی نہ اُٹھا کہ چوتھی شرط بہت سخت تھی مسلمانوں کے لیے .... آپ نے تین بار کہا ،پھربھی سب کے سب اپنی جگے بیٹھے رہے،اُس وقت ام سلمہ ؓ نے مشورہ دیاکہ آپ اٹھیںاپنا جانور ذبح کریں اور بال حلق کرالیں،اورکسی سے کچھ مت کہیں ۔آپ نے ایسا ہی کیا ،چانچہ آپ کو دیکھ کر سارے صحابہ نے اپنے جانور ذبح کئے اور بال حلق کرایا ۔
محترم قارئین !اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے غم کی دو وجہیں تھیں....ایک تو یہ کہ ہمیں عمرہ کرنے کا موقع نہیں دیاجارہا ہے ،دوسری بات یہ کہ صلح میں برابر ی نہیں تھی ،عمر فاروق کو اِس کا اتنا احساس ہوا کہ آکر رسول اللہ ﷺ سے بحث کرنے لگے : یارسول اللہ کیاہم حق پر نہیں اور وہ باطل پر نہیں ،آپ نے فرمایا: کیوںنہیں ۔ کہا: کیاہمارے مقتولین جنت میں اوران کے مقتولین جہنم میں نہیں ۔ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں ۔ کہا: تو پھر ہم کیوں اپنے دین کے بارے میں دباوقبول کریں ۔آپ نے واضح لفظوںمیں کہا : خطاب کے صاحبزادے ! میں اللہ کا رسول ہوں،اُس کی نافرمانی نہیں کرسکتا وہ ہماری مدد کرے گا اورمجھے ضائع نہ کرے گا ۔ اُسی کے بعد اللہ پاک نے یہ آیت ناز ل فرمائی : انا فتحنا لک فتحا مبینا کہ ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا فرمائی ہے ۔ اِس صلح کو اللہ پاک نے فتح مبین قرار دیاتھا ۔چنانچہ عمرفاروق کواللہ کے رسول ﷺنے بلاکریہ آیت سنائی اور کہا کہ اللہ نے اِس صلح کو فتح مبین قرار دیا ہے ۔ اس سے اُس کے دل کو سکون ملا اور وہ واپس چلے گئے ۔

معزز قارئین ! آئیے ذرا غور کرتے ہیں کہ حدیبیہ کی صلح آخر فتح کیسے ثابت ہوئی ؟ جی ہاں ! صلح کے بعد دعوت کو پھیلنے اور پھولنے کا موقع ملا ۔ اب تک جنگ کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے بالکل دور تھے ،صلح ہونے کے بعد ایک دوسرے سے ملنے لگے ، قریش کے لوگوںنے مدینہ کے مسلمانوں کوقریب سے دیکھا ،اُن کی باتیں سنیں،اُن کے اخلاق سے متاثر ہوئے ،پھرانہیں اسلام کی تعلیمات سننے کا موقع ملا ،چنانچہ خالد بن ولید،عمروبن عاص ،اور عثمان بن طلحہ جیسے قریش کے لیڈران ایسے ہی وقت اسلام لائے ،....تب اللہ کے رسول ﷺ نے کہا : مکہ نے اپنے جگرگوشوںکو ہمارے حوالے کردیا ہے ۔
اُسی طرح یہ نکتہ بھی قابل غورہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ صلح کے بعدقریش کے فتنے سے مطمئن ہوگئے تو آپ کو موقع ملا کہ اِس دین کی عالمیت کا اعلان کریں ،اب تک محدود پیمانے پر دین کی تبلیغ ہوسکی تھی ،لیکن صلح حدیبیہ کے بعد آپ نے بادشاہوں اور امراوں کو مخاطب کیا ۔حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو دعوتی خط لکھا اوراپنی دوہری ذمہ داری یاد دلائی،جب اُس کے پاس خط پہنچا تو اُس نے خط کو اپنی آنکھوں پر رکھا،تخت کے نیچے اُترآیااوراسی پر بس نہیں بلکہ جعفر بن ابی طالب کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا ۔اللہ کے رسول ﷺنے دوسرا خط اسکندریہ اور مصرکے بادشاہ مقوقس کو لکھا : جس میں لکھا تھا ”میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں....اسلم تسلم ....اسلام لاوسلامت رہو گے “۔ جب یہ خط مقوقس کو ملا تو اُس نے خط کی عزت کی اور اُسے ہاتھی کے دانت کے ڈبے میں رکھ کر اُس پر مہر لگائی ،لیکن وہ مسلمان نہ ہوا ،تحفے میں ماریہ اور سیرین دو لونڈیاںبیج دیں ۔ تیسرا خط فارس کے بادشاہ خسروپرویز کے نام لکھا : جب یہ خط کسری کے سامنے پڑھاگیا تو اُس نے اُسے چاک کردیااورکہا میرے رعایامیں سے ایک حقیر غلام اپنا نام مجھ سے پہلے لکھتا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺکو اِس کی خبرملی تو فرمایا: اللہ اُس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کرے ۔ اورہوا بھی ویسا ہی ،اُسی کے بیٹے نے اُس کو قتل کردیا اور بادشاہت پر قبضہ کرلیا ۔ چوتھا خط روم کے بادشاہ قیصر کے پاس بھیجا ،قیصر کو جب خط ملا تو اُس نے اپنے ہرکارے بھیجے کہ کسی عرب کو بلاوجس سے اِس نبی کی تحقیق کی جاسکے ،اتفاق سے ابوسفیان کی سربراہی میںقریش کا ایک قافلہ اُدھر گیاتھا ، ابوسفیان کودربارمیںحاضر کیاگیا،ہرقل نے اُس سے چند سوالات کئے ،جواب سن کر نتیجہ نکالا کہ یہ واقعی نبی برحق ہیں چنانچہ اُس نے اخیر میں کہا : اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں اُس کے پاس پہنچ سکوں گا ،تواُس سے ملاقات کی زحمت اٹھاتا، اوراگر اُس کے پاس ہوتا تو اُس کے دونوں پاوں دھوتا ۔ ابوسفیان نے جب یہ جواب سنا تو باہر آکر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا : ”ابوکبشہ کے بیٹے کا معاملہ بہت آگے جاچکاہے ،اِس سے تو بنواصفریعنی رومیوں کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے ۔....اُس کے علاوہ بھی آپ ﷺ نے کئی دوسرے بادشاہوںاورحاکموں کے نام خط لکھے جیسے دمشق کے امیر کے نام ،امیربصری کے نام ، یمامہ کے حاکم کے نام ،بحرین کے حاکم کے نام ،شاہان عمان جیفراوراُس کے بھائی کے نام ،جن میں سے کچھ نے اسلام قبول کیا،اورکچھ اسلام کو سراہنے کے باوجود رعایاکے ڈراورحکومت کی محبت میں اسلام سے محروم رہے۔ صرف امیر بصری نے اللہ کے رسول ﷺ کے قاصد حضرت حارث بن عمیرازدی کو ....جو خط لے کر گئے تھے ،قتل کردیا، یہ نہایت گھٹیاحرکت تھی ،اللہ کے رسول ﷺنے اِس پر سخت غصے کا اظہار فرمایااور یہی واقعہ جنگ موتہ کا سبب بنا ، جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔

محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

ليست هناك تعليقات: