السبت، أغسطس 04، 2012

حيات طيبہ كے آخرى ايام


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

جب دین کی تبلیغ کا کام پورا ہوگیا ،جزیرہ عرب میں اسلام کا بول بالا ہوگیا اور ایسے افراد تیار ہوگئے جو اس عالمی دین کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا ئیں تو اب اللہ تعالی نے چاہا کہ اپنے نبی کو اس کی محنت کا ثمرہ دکھادے ،جس کے راستے میں اُنہوں نے بیس برس سے زیادہ ہرطرح کی تکلیفیں جھیلیں تھیں،اور اس کی صورت یہ ہوکہ عرب کے سارے قبائل حج کے موقع پر جمع ہوں جو آپ کی آخری باتیں سنیں اور یہ شہادت لیں کہ انہوں نے امانت اداکردی ۔دین کی تبلیغ فرمادی اورامت کی خیرخواہی کا حق ادا کردیا ۔....آپ کوہم بتاتے چلیں کے سن 9ہجری میں حج فرض ہوچکاتھا،اُسی سال اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ  کواپنے چند صحابہ کے ساتھ مکہ روانہ فرمایااور یہ اعلان کرادیاتھا کہ آئندہ سے کوئی مشرک کعبہ کا حج نہیں کرسکتا اور نہ کوئی ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف کرسکتا ہے ۔چنانچہ اُس کے دوسرے سال سن 10ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک لاکھ چوالیس ہزارصحابہ کے ساتھ حج کیا، یہ آپ کی زندگی کا پہلا اور آخری حج تھا ، چونکہ اُس حج کے صرف تین ماہ بعد رسول اﷲاکا انتقال ہوگیا ، اس لئے اس حج کو ” حجة الوداع “کہتے ہیں ، اِس حج میں اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کے ساتھ سارے مناسک اداکئے ،10ذی الحجہ کو عرفہ کے میدان میں ایک لاکھ چوالیس ہزار صحابہ کے سامنے ایک جامع خطبہ دیاجس میں، آپ نے فرمایا:
لوگو! میری بات سن لو ! کیونکہ میں نہیں جانتا ، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی نہ مل سکوں ۔لوگو ! یاد رکھو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ، اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ، لہٰذا اپنے رب کی عبادت کرنا ، پانچ وقت کی نماز اداکرنا، رمضان کے روزے رکھنا ، اور خوشی خوشی اپنے مال کی زکاة دینا ، اپنے رب کے گھر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا ، ایسا کروگے تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوگے ۔
اُسی طرح آپ ﷺ نے اِس خطبے میں رنگ ونسل کی تفریق مٹائی ،جان ومال اورعزت وآبروکے احترام کی تاکید کی ،سودکی حرمت پر گفتگوکی ،معاشرتی زندگی کے استحکام کی طرف توجہ دلائی ،امانت کی ادائیگی پرزوردیا،اورکتاب وسنت کو تھامے رہنے کی تاکید کی ....خطبہ کے بعد آپ نے فرمایا: تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے ، تو تم لوگ کیا کہوگے ؟ صحابہ رضى الله عنهم نے کہا : ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے تبلیغ کردی ، پیغام پہنچادیا اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا :اللھم اشھد،اللھم اشھد،اللھم اشھد ” اے اﷲ ! گواہ رہ “،” اے اﷲ ! گواہ رہ “،” اے اﷲ ! گواہ رہ “۔( مسلم )جب خطبے سے فارغ ہوئے تو آپ پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی :الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی ، اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا “۔( مائدہ :3) عمرفاروق رضى الله عنه نے یہ آیت سنی تو رونے لگے ،پوچھا گیا : آپ کیو ں رورہے ہیں : فرمایا....: اس لیے کہ کمال کے بعد زوال ہی تو ہے ۔ ....حجة الوداع سے واپسی کے بعد سورة النصر نازل ہوئی ، جس میں یہ اشارہ بھی کردیا گیا کہ اب دنیا سے آپ کے رخصت ہونے کا وقت قریب آچکا ہے ، اُسی طرح آپ  ﷺ نے سن 10ہجری کے رمضان میں بیس دن اعتکاف فرمایاجبکہ ہمیشہ دس دن ہی اعتکاف فرماتے تھے ،پھر جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو اس سال دومرتبہ قرآن کا دورہ کرایاجبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دورہ کرایاکرتے تھے ۔کیوں؟ یہ اشارہ تھا اِس بات کا کہ آپ کی رحلت کا وقت قریب آچکا ہے ....
وفات سے تیرہ دن پہلے 29 صفر ، بدھ کے دن سے بیماری شروع ہوئی ، اس وقت آپ ام المومنین سیدہ میمونہ ؓکے گھر میں تھے ، ہردن یہ پوچھتے رہتے کہ میں کل کہاں رہوں گا ؟ امھات المومنین نے سمجھ لیا کہ آپ ام المومنین سیدہ عائشہؓ کے پاس رہنا چاہتے ہیں ، وفات سے ایک ہفتہ پہلے سیدہ عائشہؓ کے گھر منتقل ہوگئے ، کمزوری سے چلا نہیں جارہا تھا ، سیدنا علیؓ اور سیدنا عباسؓ کے کندھوں کے سہارے داخل ہوئے ، حال یہ تھا کہ آپ کے دونوں ہاتھ ان دونوں بزرگوں کے کندھوں پر تھے اور پیر زمین پر گھسیٹتے ہوئے چل رہے تھے ۔ وفات سے چار دن پہلے تک امت کو پانچوں نمازیں بیٹھ کر پڑھاتے رہے ، جمعرات کے دن بعد نماز ظہر آپ انے اپنے آپ کو امت کے سامنے یہ فرماتے ہوئے قصاص کے لئے پیش کیا کہ جس شخص کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو ، وہ مجھ سے اپنا بدلہ لے لے۔اس دن آپ انے مغرب کی نماز پڑھائی ، جب نماز عشاءکے لئے باہر نکلے تو آپ پر غشی کی کیفیت طاری ہوئی ، جب یہ کیفیت دور ہوئی تو سیدنا ابوبکر صدیق صکو حکم دیا کہ وہ امت کو نماز پڑھائیں ۔
وفات سے دو دن پہلے آپ ﷺ نے اپنی طبیعت میں کچھ بہتری محسوس فرمائی ، تو آدمیوں کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے ، اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بائیں جانب بیٹھ کر نماز ظہر کی امامت فرمائی ، عالم یہ تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضى الله عنه کھڑے ہوکر آپ  ﷺ کی اقتداءکررہے تھے اورلوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضى الله عنه کی اقتدا کررہے تھے
وفات سے ایک دن پہلے دنیا نام کی کوئی چیز گھر میں رہنے نہ دی ، جتنے غلام تھے سارے کے سارے آزاد کردئے ، جو ہتھیار پاس تھے وہ امت کے لئے ہبہ کردیا ، ام المومنین سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ گھر میں کہیں کوئی دینار ودرہم تو نہیں ہیں ، تلاشنے کے بعد چھ یا سات دینار نکلے جنہیں وہ کہیں رکھ کر بھول گئی تھیں ، آپ ﷺ نے فورا انہیں صدقہ وخیرات کردینے کا حکم دیا ، زندگی کی آخری رات جو اس دنیا میں بسر کی وہ اس طرح کہ اُس رات گھر میں دیا جلانے کے لئے تیل تک میسر نہیں تھا،سیدہ عائشہؓ پڑوسی سے تیل ادھار لائیں تب اس رات نبی پاک اکے گھرکا چراغ جلا ۔
سموار کے دن کی صبح....جو وفات کا دن تھا .... طبیعت ہلکی محسوس ہوئی، حجرہءمبارکہ مسجد سے ملا ہوا تھا، پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ سیدنا ابوبکر صدیق رضى الله عنه کی اقتداءمیں نماز ادا کررہے تھے ، دیکھ کر مسکرائے ، لوگوں نے آہٹ پاکر خیال کیا کہ آپ امسجد میں آنا چاہتے ہیں ، خوشی سے لوگ بے قابو ہوگئے ، قریب تھا کہ نمازیں ٹوٹ جائیں ،سیدنا ابوبکر صدیق رضى الله عنهجو امام تھے ،انہوں نے چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں ، لیکن آپ ﷺ نے اشارہ سے روکا اور حجرے میں داخل ہوکر پردے گرالئے....یہ وہ الوداعی نظر تھی جو آپ ﷺ نے اپنی وفات سے پہلے امت پر ڈالی
اس دن رسول اکرمﷺ کا جسم اطہر بخار سے ِتپ رہا تھا اور آپ بے چینی کی کیفیت میں.... اپنا ہاتھ مبارک ساتھ رکھے ہوئے ایک پتھر کے برتن میں ڈبورہے تھے اور اپنے چہرے اور پیشانی کو پونچھ رہے تھے ، سیدہ فاطمہ اپنے والد محترم کی اس تکلیف کو دیکھ کر بے چین ہو گئیں ، کہنے لگیں :"واکرب اباہ " ہائے میرے باپ کی تکلیف ۔ آپ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ”لیس علی ابیک کرب بعد الیوم یا بنیة ،، میری بچی ! آج کے بعد تیرے باپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔(بخاری ) پھر آپ نے حسن حسین کوچومااور ازواج مطہرات کوبلاکروعظ ونصیحت کی ۔
آپ نے چہرے پر ایک چادر ڈال رکھی تھی ،جب سانس پھولنے لگتا تو چہرے سے ہٹا دیتے ،اسی حالت میں آپ نے فرمایا: لعنة اﷲ علی الیھود و النصاری اتّخذوا قبور انبیائھم مساجد ” یہود اور نصاری پر اﷲکی لعنت ہو ‘ جنہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو مسجد بنالیا “ ۔مقصود....اُن کے جیسے کام سے روکنا تھا ....پھر فرمایا: سرزمین عرب میں دو دین باقی نہ رہنے دئیے جائیں ۔ اُس کے بعد کئی بار فرمایا:الصلاة الصلاة وماملکت ایمانکم ”نماز کا خیال رکھنا ،نماز کی پابندی کرنا،اوراپنے ماتحت غلاموں کے ساتھ اچھا برتاو کرنا“۔
پھر نزع کی حالت شروع ہوگئی ،حضرت عائشہ ؓ نے آپ کو اپنے سینے اور گلے کے درمیان سہارا لے کر ٹیک لیا، پانی سے بھرا ہوا پیالہ پاس رکھوالیا ، اس پر ہاتھ ڈالتے اور تر ہاتھ چہرہءمبارکہ پر پھیرلیتے، زبان مبارکہ پر آہستہ آہستہ یہ الفاظ جاری تھے : "لااله الاّ اﷲ انّ للموت سکرات " اﷲ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور موت کے لیے سختیاں ہیں ۔کبھی چادر چہرہ مبارک پر ڈال لیتے اور کبھی اتار دیتے،اسی دوران حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضى الله عنه مزاج پرسی کے لئے آئے ، ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی ، آپ اکی نگاہیں مسواک پر جم گئیں ،سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ آپ ﷺ کو مسواک کی خواہش ہے انہوں نے مسواک کا سر چبایا اور اسے کچل کر نرم کیا ، پھر آپ ا کو دے دیں، آپ نے اس سے مسواک کیا ، یہاں تک کہ وہ آپکے ہاتھ سے گرگئی ۔سہ پہر کو سینہءمبارک میں سانس کی گڑگڑاہٹ محسوس ہونے لگی، سیدہ عائشہ رضى الله عنها فرماتی ہیں:قبض روح کا وقت آیاتو آپ  ﷺ کا سر مبارک میرے سینے پر ٹکا ہوا تھا ، اس حالت میں آپ پر بیہوشی طاری ہوگئی ، جب افاقہ ہوا تو آپ اکی نگاہ مبارک چھت کی طرف اٹھی اور فرمایا : اے اﷲ ! مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچادے ،اے اﷲ ! رفیق اعلیٰ“ ۔ یہ فقرہ تین بار دہرایااورروح پرواز کرگئی ۔یہ سموار کا دن ،ربیع الاول کی 12تاریخ اورہجرت کا گیارھواں سال تھا ۔اُس وقت آپ کی عمر شریف 63سا ل پوری ہوچکی تھی ۔اناللہ وانا الیہ راجعون ۔یہ تھا کائنات کا سب سے عظیم سانحہ ،....نہایت تاریک ، المناک اور افسردہ دن ....

محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، سیرت طیبہ کی جھلکیوں کے آخری حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ

ليست هناك تعليقات: