الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلین نبینا
محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
جب مکہ فتح ہوگیا اورخانہ کعبہ 360
بتوں کی
گندگیوں سے پاک وصاف ہوگیا،تواب
لوگ فوج درفوج اسلام میں
داخل ہونے لگے ،یہ دراصل اللہ رب العالمین کے اِس فرمان
کی تعبیر تھی : اذا جاءنصر اللہ والفتح و را یت
الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا ”جب اللہ کی مدد آئے گی اورمکہ فتح ہوجائے گا
توآپ لوگوںکو دیکھیں گے
کہ وہ اللہ کے دین میں جوق
درجوق درفوج داخل ہورہے ہیں “۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ہوسکا ؟کیابات ہوئی کہ فتح
مکہ کے بعد قبائل اسلام قبول کرنے لگے ؟ اِس سلسلے میں ہم ابھی گفتگو کریں گے لیکن
اِس سے پہلے فتح مکہ کے بعد واقع ہونے والے دواہم غزوات کاتذکرہ کرنامناسب سمجھتے
ہیں ۔
غزوہ حنین :پہلاغزوہ:غزوہ
حنین ہے ،جوشوال سن آٹھ ہجری میں واقع ہوا ،جب مکہ فتح ہوچکا تو ثقیف اور ہوازِن
کے قبائل نے اپنی ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہا ،اورمسلمانوں سے
مقابلہ کرنے کے لیے وادی حنین میں اکٹھاہوگئے ،اللہ کے رسول ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ
بارہ ہزار کا لشکر لے کر حنین پہنچے ،بنوہوازِن عورتوں،
بچوں،اوراونٹ ،بکریوںسمیت نکلے تھے،...جانتے ہیں کیوں؟تاکہ وہ اُن کی حفاظت کے
جذبہ کے ساتھ جنگ کریں ....ادھرصحابہ کو اپنی کثرت تعداد پر غرورہونے لگا،اللہ
تعالی کویہ اداپسندنہ آئی ،مقابلہ ہواتومسلمانوںکی صفوںمیں اضطراب پیدا
ہوگیا،بھگڈرمچ گیا،اورکیوںنہ مچتا کہ اُن کو اپنی تعداد پر ناز ہونے لگاتھا ۔ لیکن
اللہ کے رسول ﷺ....اُس وقت بھی دشمنوںکاسامناکر رہے تھے اورفرمارہے تھے انا النبی
لا کذب انا ابن عبدالمطلب ۔پھر مسلمان اکٹھا ہوگئے اوردشمن پریکبارگی حملہ
کیاتودشمن میدان سے بھاگنے لگے ،کچھ طائف کی طرف بھاگے ،کچھ نخلہ کی طرف بھاگے اور
کچھ نے اوطاس میں پناہ لی ۔ جان کے ڈرسے اپنی عورتوں، بچوں اورجانوروں
کو چھوڑچھاڑکر بھاگے تھے ،....مال غنیمت اور قیدیوں
کو جمع کیاگیا ....اونٹ چوبیس ہزار تھا،بکریاں چالیس
ہزار سے زیادہ ،چاندی چارہزار اوقیہ ،عورتیں اور بچے چھ ہزار،....اُس کے بعد اللہ
کے رسول ﷺنے طائف کا محاصرہ کیا ،یہ محاصرہ بیس دن تک جاری رہا لیکن وہ قلعہ بند
ہوچکے تھے ،اس لیے اللہ کے رسول ﷺنے اُن کے لیے دعا کی ”اے اللہ !ثقیف کو ہدایت دے
اورانہیں مسلمان بناکر لے آ“پھرآپ نے کوچ کا اعلان فرمایا،طائف سے جعرانہ آئے
اوردس دن تک ٹھہرے رہے ،مال غنیمت تقسیم نہ فرمایا،کیوں کہ
آپ کو انتظار تھا کہ ہوازِن توبہ کرکے آجائیں اوراپنے مال اور قیدی لے جائیں ،لیکن
جب کوئی نہ آیا تو تالیف قبل کے لیے کمزورمسلمانوں کو اِس میں سے خوب خوب دیا،ایک
ایک آدمی کو سو سو اونٹ دئیے ۔اِس میں اللہ کے رسول ﷺ کی دوراندیشی تھی کہ اسلام
اُن کے دل میں بیٹھ جائے کہ کچھ لوگ عقل کے راستے نہیں بلکہ پیٹ کے راستے اسلام
میں آتے ہیں، انصارمدینہ یہ سب دیکھ رہے
تھے ،کسی کو سو سو اونٹ مل رہا ہے اورکسی کو کچھ بھی نہیں۔فطری بات تھی.... انصار
میں چہ میگوئیاں ہوئیں،....بعض نے شکایت کالہجہ اپنایاکہ وہ حقیقت کو سمجھ نہ سکے
تھے ،....جب اللہ کے رسول ﷺ کو پتہ چلا تو انصارکے پاس آئے اوراُن سے کہا:
”انصار
کے لوگو!تم اپنے جی میں دنیا کی حقیر سی دولت کے لیے ناراض ہوگئے ،جس کے ذریعہ میں
نے لوگوںکا دل جیتا تاکہ وہ مسلمان ہوجائیں ،اورتم کو تمہارے اسلام کے حوالے
کردیاتھا،اے انصار!کیا تم اِس سے راضی نہیں کہ لوگ اونٹ اوربکریاں لے کر جائیں
اورتم رسول اللہ ﷺ کولے کر اپنے ڈیروںمیں پلٹو،اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد
کی جان ہے ،اگرہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا ،اگر سارے لوگ
ایک راہ چلیں اورانصار دوسری راہ چلیں تو میں بھی انصار ہی کی راہ چلوں
گا ۔ اے اللہ رحم فرماانصار پر اوراُن کے بیٹوں پر
اوراُن کے پوتوں پر
۔ اللہ کے رسول کا یہ خطاب سن کر لوگ اس قدر روئے کہ اُن کی داڑھیاں تر ہوگئیں
،....کہنے لگے ....”ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اورنصیب میں رسول اللہ ﷺ ہوں“۔ اُس کے
بعد رسول اللہ ﷺ واپس ہوگئے اورلوگ بھی بکھر گئے ۔
مال غنیمت تقسیم ہونے کے بعد ہوازِ ن کا وفدبالآخر آہی
گیا،انہوں نے اسلام قبول کیااور بیعت کی۔ اللہ کے رسول ﷺنے اُس وقت ان کو
اختیاردیاکہ قیدی اورمال میں سے جو پسند ہو....ایک چن لو ، انہوں نے کہا : ہماری عورتیں
اورہمارے بچے ہمیں واپس کردیجئے ،چنانچہ اللہ کے رسولﷺ نے ایسا ہی کیا۔
غزوہ تبوک :محترم
سامعین ! ایک دوسرا غزوہ جو فتح مکہ کے بعد سن 9 ہجری میں ہوا ....وہ ہے غزوہ تبوک
....جو رومیوں اورمسلمانوں کے بیچ پیش آیاتھا ....اللہ کے رسو ل ﷺکو جب پتہ چلا کہ
رومی ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاری کررہے ہیں تو آپ ﷺ نے بھی تیاری شروع کردی ،صحابہ
میں اعلان کیاگیا کہ اِس کے لیے جس سے جتنا بن سکتا ہو لے کر آئے ،ابوبکر ؓ نے
اپناسارا مال لاکرخدمت اقدس میں پیش کردیا،عمرفاروق ؓ آدھا مال لائے ،عثمان ؓ نے
دس ہزار دینار،....پالان اور کجاوے سمیت تین سو اونٹ ....اورپچاس گھوڑے دئیے
،یہ دیکھ کر نبی پاک ﷺ نے فرمایا: ماضر عثمان مافعل بعدالیوم
”آج کے بعد عثمان جوبھی کریں انہیں نقصان نہ ہوگا۔ اِس طرح دوسرے صحابہ نے بھی دل
کھول کرتیاری میں حصہ لیا،جب تیاری ہوچکی تو اللہ کے رسول ﷺ تیس ہزار کا لشکر لے
کر تبوک روانہ ہوئے ،سواری اور توشے کی سخت کمی تھی ،اٹھارہ اٹھارہ آدمی ایک اونٹ
پر باری باری سوارہوتے تھے ،لوگ درخت کے پتے کھانے پر مجبورہوئے ،اپنے اونٹوں
کو ذبح کردیا کہ ان کے معدے اورآنتوں
کا پانی پی سکیں ۔ اللہ اکبر کیسی قحط سالی تھی اورکیسے
حالات پیش آگئے تھے مسلمانوں کے
سامنے ....جب رومیوں کو تبوک میں اللہ کے رسول ﷺکے آنے کی خبرملی تو اُن کے حوصلے
ٹوٹ گئے ،مقابلے کی ہمت نہ رہی ،اوراپنے ملک میں ہی بکھر گئے .... وہاں اللہ کے
رسول ﷺ نے بیس روز قیام فرمایااوروفود سے ملاقاتیں کیں ۔ بیس دن کے بعد رسول اللہ
ﷺ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ،مدینہ پہنچنے کے بعد مسجد میں داخل ہوئے ،دورکعت نماز
ادا کی ا ورلوگوں کے
لیے بیٹھ گئے ۔ جو منافقین اِس غزوے سے پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے آکر معذرت کی
،اورقسمیں کھائیں،آپ نے اُن کاظاہر قبول کرلیااورباطن اللہ کے سپرد کردی ۔تین مومن
بھی آئے جو اِس غزوے سے پیچھے رہ گئے تھے ،وہ ہیں کعب بن مالک ،مرارہ بن ربیع
اورہلال بن امیہ ....اُن تینوں نے سچ سچ بتادیا ،اورکوئی عذرنہیں بنایا،اللہ کے
رسولﷺنے اُن تینوں سے کہا کہ اللہ کے فیصلے کا انتظار کریں....اورمسلمانوںکوحکم
دیاکہ اُن سے بات نہ کریں ،اِس طرح اُن کے لیے جانے انجانے بن گئے ،زمین تنگ ہوگئی
،اوردنیا....اندھیر ہوگئی ،....چالیس دن کے بعد حکم آیاکہ اپنی عورتوں
کے قریب نہ جائیں ۔ جب پچاس دن پورے ہوئے تو اللہ نے
اُن کی توبہ ناز ل فرمائی : وعلی الثلاثة الذین خلفوا
حتی اذا ضاقت علیہم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسھم وظنوا ان لا ملجامن اللہ
الا الیہ ثم تاب علیھم لیتوبوا ،ان اللہ ھو التواب الرحیم (التوبة 118)
”اوراللہ نے اُن تین آدمیوں کی بھی توبہ قبول کی جن کا معاملہ مؤخر کردیاگیاتھا
،یہاں تک کہ زمین اپنی کشادگی کے باوجود اُن پر تنگ آگئی ،اوراُن کی جان بھی اُن
پر تنگ ہوگئی ،اورانہوں نے یقین کرلیاکہ اللہ سے بھاگ کر کوئی جائے پناہ نہیں ہے
،پھر اللہ نے اُن پر مہربانی کی تاکہ وہ توبہ کریں ۔یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے
والا رحیم ہے-
محترم قارئین ! فتح مکہ اوراس کے بعد پھرحنین وتبوک کی
جنگوںمیں ....مسلمانوں کی بالادستی نے کفر کی طاقتوںکو جہاں کمزور کیا وہیں اسلام
کے لیے اُن کی ذہن سازی بھی کی ،جس کااثر تھا کہ وفود آنے لگے ، اِن وفود کی تعداد
سترسے زائد بتائی جاتی ہے ،بعض اہل علم نے یہ تعدادسو تک پہنچائی ہے ۔ قریش اور
نبی پاک ﷺ کے بیچ میں جو اختلاف تھا عرب اِسی کے نتیجہ کا
انتظارکررہے تھے ،وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مکہ پر باطل کا قبضہ نہیں ہوسکتا ،چنانچہ
جب اللہ کے رسول کو مکہ پرفتح حاصل ہوگئی تو اب اُن کو یقین ہوگیاکہ یہ رسول برحق
ہیں ،اس لیے فتح مکہ کے بعد ہر طرف سے وفود آنے لگے ،وہ آتے ،اسلام کو سنتے ،اسلام
قبو ل کرتے اور داعی کی حیثیت سے اپنی قوم میں چلے جاتے تھے ۔چنانچہ آپ دیکھیں کہ
کچھ ہی دنوںمیں اسلامی حکومت کا رقبہ بحراحمر کے ساحل سے خلیج عربی کے ساحل
تک،اورجنوب اردن اوراطراف شام کے علاقے سے یمن اورعمان کے ساحل تک پھیل گیا،اِس
طرح اسلام قبول کرنے والوںکی تعداد میں برابراضافہ ہوتا رہا،....جب مکہ فتح ہوا
تھا تو اُس میں مسلمانوںکی تعداد 10 ہزار تھی....لیکن صرف دو سال کے بعد جب اللہ
کے رسول ﷺ آخری حج کے لیے نکلتے ہیں تو حج میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد
ایک لاکھ چوالیس ہزار ہوجاتی ہے ۔ جی ہاں!جو آپ کے خون کے پیاسے تھے آپ کے جانثار
بن گئے ، جو کفر کے سرخیل تھے اسلام کے سرخیل بن گئے ،جنہوں نے اپنی زندگی کفرکی
تائیدمیں لگائی تھی اسلام کے فروغ میں لگانے لگے ۔ کیانظر تھی جس نے مردوں کو
مسیحا کردیا۔
محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے
ہیں ، اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے
ساتھ پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق