الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلین
نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
ابوطالب اورخدیجہ کا انتقال ہوچکا ہے ،قریش اب اذیت پہنچانے
میں بہت ڈھیٹ ہوچکے ہیں،انتہائی ذلیل حرکتیں کررہے ہیں،کوئی راستے میں کانٹے بچھا رہا
ہے،تو کوئی دروازے پر گندگیاں پھینک رہا ہے ،کوئی گلے میں چادر لپیٹ کر اس قدر اینٹھتا
ہے کہ آپ کا دم گھٹنے لگتا ہے ۔راستہ چل رہے ہوتے ہیں اورپیچھے سے کوئی بدبخت بدن پر
گندگی پھینک دیتا ہے ،کوئی گالیاں دیتا اورپھبتیاں کستا ،بعض بدتمیز تو آپ کے چہرے
مبارک پر تھوکنے تک کی جسارت کرتے ،ایک دن ایک احمق نے آپ کے سرپر مٹی ڈال دی ، گھر
آئے ،فاطمہ مٹی کو دھو رہی تھیں اورروتی جاتی تھیں ۔آپ اُنہیں تسلی دے رہے ہیں ،بیٹا
: مت روو اللہ تمہارے باپ کی حفاظت کرے گا۔جی ہاں! حالات ایسے کردئیے گئے کہ مکہ کی
دھرتی ایک سکنڈ کے لیے بھی آپ کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے،اورمکہ کی گلی گلی اجنبی
ہوتی جارہی ہے ،ایسے وقت آپ نے ارادہ کیاکہ طائف جائیں اوروہاں کے لوگوںکو اسلام کی
دعوت دیں ممکن ہے اگروہ اسلام قبول کرلیں گے تو وہاں پناہ مل جائے گی ،اِسی ارادے سے
طائف گئے ،آپ کے ساتھ حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی تھے ،راستے میں جس قبیلے کے پاس سے گذرہوتا
انہیں اسلام کی دعوت دیتے ،اِس طرح طائف پہنچ گئے اور قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں سے
ملے ،ان کو اسلام کی دعوت دی ،انہوںنے صرف یہ نہیں کہ دعوت کو اپنانے سے انکار کیابلکہ
بدتمیزی سے پیش آئے ،چنانچہ اُن کو چھوڑ کر دوسرے سرداروں سے ملے ،اورانہیں دعوت دی
،یوں دس دن گذرگئے لیکن کسی نے آپ کی بات کی طرف دھیان نہ دیا،بلکہ وہاں کی زمین آپ
کے لیے اور زیادہ سخت ثابت ہوئی ،وہاں کے لوگوں نے آپ کے ساتھ بدسلوکی تو کی ہی
.... اپنے اوباشوں کوبھی آپ کے پیچھے لگادیا،جو گالیاں دیتے ،بدزبانی کرتے اور پتھر
مارتے تھے ۔پتھر مارنے والا پورا طائف ہے لیکن پتھر کھانے والاایک ایسا انسان جوانہیں
کی ہمدردی میں پتھر کھارہا ہے ....اِس قدر پتھر برسائی کہ آپ لہولہان ہوگئے ،جوتے خون
سے تر ہوگئے ،جب زخموں سے چورہوکر بیٹھ جاتے تو یہ درندہ صفت لوگ بازو تھام کر آپ کو
اُٹھاتے ،پھر پتھر برسانا شروع کردیتے ۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ آپ کو بچا رہے تھے ،اُن
کے سرپر بھی کئی زخم آئے ۔تھک ہار کر آپ نے ایک باغ میں پناہ لیا،اورایک رقت آمیز دعا
فرمائی ....اللھم الیک اشکو ضعف قوتی وقلة حیلتی وھوانی علی الناس ،یاارحم الراحمین
انت رب المستضعفین ....ایک طویل دعاکی ....یہ دعا کیاتھی ....اِس میں آپ نے اپنی بے
بسی ،کمزوری ،اورلوگوںکے نزدیک اپنی بے قدری کی شکایت کی ،لیکن یہاںبھی اِس بات کا
اظہار کیاکہ بارالہا ! اگر مجھ پر تیراغضب نہیں ،تیرا غصہ نہیں،توُمجھ سے راضی ہے تو
مجھے اِ ن کمبختوں کے سلوک کی کوئی پرواہ نہیں ۔
اُس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ باغ سے نکلے اورمکہ کے راستے
پر چلنے لگے ،جب قرن منازل پہنچے تو ایک بادل نے سایہ کیا جس میں جبریل امین تھے ،اوران
کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ تھا،انہوں نے آپ کو پکارا اورعرض کیا کہ اللہ نے آپ کے پاس
پہاڑوں کافرشتہ بھیجا ہے ،آپ انہیں جو چاہیں حکم دیں ،اُسی وقت پہاڑوں کے فرشتہ نے
آپ کو سلام کیا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! اگر آپ حکم دیں تو میں انہیں دو پہاڑوں
کے بیچ پیس دوں۔لیکن قربان جائیے نبی رحمت کے رحم وکرم پر کہ ارشادہوتا ہے : بل ارجو
ان یخرج اللہ من اصلابھم من یعبد اللہ لایشرک بہ شیئا ۔ بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ
تعالی اُن کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی ،اورا س کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔
پتھروں کے زخم کھاکر بھی دعائیں جس نے
دیں
ایسا پھر شیریں سخن شیریں زباں وہ کون
تھا
پھروہاں سے نکلے اور مقام نخلہ میں اُترے ،جہاں چند دنوں
تک قیام فرمایا،اِسی بیچ اللہ پاک نے آپ کے پاس جنوں کی ایک جماعت بھیجی جنہوں نے آپ
سے قرآن سنا ،اسلام لے آئے اوراپنی قوم کے پاس داعی بن کر لوٹے ،جس کا ذکر اللہ پاک
نے سورہ احقاف میں یوں کیاہے : واذصرفنا الیک نفرا من الجن یستمعون القرآن فلما حضروہ
قالوا،انصتوا فلما قضی ولوا الی قومھم منذرین اورجب ہم نے آپ کی طرف جنوں کے ایک گروہ
کو پھیرا کہ وہ قرآن سنیں تو وہ جب قرآن کی تلاوت کی جگہ پہنچے تو انہوں نے آپس میں
کہا کہ چپ ہوجاو ۔پھر جب اُس کی تلاوت پوری کی جاچکی تو وہ اپنی قوم کی طرف عذاب الہی
سے ڈرانے والے بن کر پلٹے ۔ جی ہاں! جنوں کا اسلام قبول کرنا اوراپنی قوم میں داعی
بن کر لوٹنا اللہ کے رسول ﷺ کے لیے تسلی کا سامان تھا کہ اگرتمام انسان اس پیغام کو
رد کردیں پھر بھی ہماری مخلوقات ایسی موجود ہیں جو آپ کا ساتھ دینے کے لیے ہروقت تیار
ہیں ۔اللہ کے رسول ﷺ آگے چلے ، زید ساتھ ہیں ،مکہ والوں نے تو آپ کو نکال دیا ہوا ہے
،مکہ میں داخل کیسے ہوسکیں گے، مکہ کے قریب حرا کے دامن میں پہنچ کر ٹھہر گئے ، کئی
لوگوں سے گذارش کی کہ آپ کو پناہ دیں لیکن سب نے انکار کیا ،البتہ مطعم بن عدی نے آپ
کو پناہ دیا ،اِس طرح آپﷺ مکہ میں داخل ہوسکے ۔
مکہ میں پناہ تو مل چکی تھی لیکن قریش اب تک آپ کے پیچھے
لگے ہی تھے ،اب آپ کو حیران اور پریشان کرنے کے لیے طرح طرح کی نشانیاں طلب کرنے لگے
تھے،کبھی کہتے کہ اگر تم نبی ہو تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کردو، یاہم پر آسمان
ٹکڑے ٹکڑے کراکر گرادو،یاتمهارے لیے سونے کا گھر بن جائے ،اللہ پاک نے فرمایاکہ آپ
اُن سے کہہ دیجئے قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا ، آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب پاک
ہے ،میں تو اُس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک انسان اور رسول ہوں۔ جب قریش نے دیکھا کہ محمد
ﷺ اُن کی طلب پر کوئی نشانی ظاہر نہ کرسکے تو اخیر میں کہاکہ کوئی بھی ایسی نشانی آخر
ہمارے سامنے پیش کردو جس سے ہم جان سکیں کہ آپ اللہ کے رسول ہو ۔ اللہ کے رسول ا نے
اُن ہٹ دھرموں کے اصرار پر اللہ سے گذارش کی چنانچہ اللہ پاک نے یہ نشانی دکھائی کہ
”چاندپھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا“۔
ایک ٹکڑا جبل ابوقبیس کے اوپر اورایک اُس سے نیچے ،یہاں
تک کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا ۔قرآن نے کہا اقتربت الساعة
وانشق القمر ”قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا“ قریش نے یہ نشانی اپنی پیشانی کی آنکھوںسے
دیکھی تھی ....لیکن وہ ایمان لانے والے تھے نہیں کہ ایمان لاتے وہ تو محض عاجز کرنا
چاہتے تھے ،کہنے لگے : ”یہ ابوکبشہ کے بیٹے کا جادوہے ،ہم پر محمدنے جادو کردیاہے
“۔
بہرکیف طائف سے لوٹنے کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے مختلف قبیلوںکو
اسلام کی دعوت دی، اُن کے پاس تشریف لے گئے اوراسلام کا پیغام پہنچایالیکن کسی نے اسلام
قبول نہ کیا ۔البتہ باہر کے کئی لوگوں نے اسلام قبول کرلی ،جیسے سوید بن صامت ہیں یہ
یثرت کے تھے اور شاعر تھے ،آپ ﷺ نے اُن کو قرآن پڑھ کر سنایا ،بولے : یہ تو بہت اچھا
کلام ہے اوراسلام قبول کرلیا۔
ابوذرغفاری ؓجو یثرب کے اطراف میں رہتے تھے ،جب اللہ کے
رسول ﷺ کے بارے میں سنا تو مکہ آئے اور اسلام کی معلومات حاصل کرکے اسلام قبول کرلی
۔ طفیل بن عمر والدوسی جو یمن میں قبیلہ دوس کے سردار تھے ، مکہ آئے تو قریش نے انہیں
اِتنا بہکایاکہ کان میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ محمد ﷺ کی کوئی بات سنائی نہ دے ،جب
کعبہ میں گئے اور اُس کے ایک جانب نبی پاک کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تواُن
سے رہا نہ گیا اور روئی ہلکا سا کھسکایاکہ دیکھیں آخر اِس کی بات ہے کیا ....آواز سریلی
تھی ....جاننے کی خواہش پیدا ہوئی بالآخر اللہ کے رسول اکے پاس بیٹھے،اسلام سے متاثر
ہوئے اوراسلام قبول کرلیا۔
باہر کے لوگوںمیں سے ایک نام ضماد اَزدی کا آتاہے ،یہ یمن
کے رہنے والے تھے اورجنوںاورآسیب کا علاج کرتے تھے ۔مکہ آئے تو وہاں کے احمقوں نے بتایاکہ
محمدپاگل ہیں،فوراً اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے اِس ارادے سے کہ ممکن ہے مجھ سے اُن
کی بیماری ٹھیک ہوجائے ۔اورآپ سے کہا کہ محمد! میں جھاڑپھونک کا کام کرتا ہوں،اگر آپ
کہیں تو آپ کامفت میں علاج کردیتا ہوں: جانتے ہیں آپ نے جواب میں کیا فرمایا: آپ نے
خطبہ مسنونہ شروع کردی : ان الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ من یھدہ اللہ فلامضل لہ ومن یضللہ
فلاھادی لہ اخیرتک پڑھا ،ضماد نے کہا : ذرا اپنے یہ کلمات مجھے پھر سنادیجئے ، اللہ
کے رسول نے تین با راِسے دہرایا، یہ کلمات کیاتھے ،اُس کے دل میں پیوست ہورہے تھے بالآخر
اُسی وقت کلمہ شہادت کی گواہی دی : اشھد ان لاالہ الا اللہ واشہد ان محمدا رسول اللہ
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق