الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی قائد الغر المحجلین نبینا
محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
جنگ احدختم ہوچکی ہے ،اِس جنگ میں وقتی طورپر مسلمانوں کوجو
نقصان ہوانبی پاک کے حکم کونہ ماننے کی بناپر ہواتھا ، معمولی کوتاہی کی مسلمانوں کو
بہت بھاری قیمت چکانی پڑی ،احد کے بعد کے حالات دیکھیں کہ دشمن بہت زیادہ جری ہو گئے
تھے ،ہم اُس سلسلے میں تین واقعات آپ کے سامنے میں رکھیں گے جن سے آپ خوداندازہ لگاسکتے
ہیں کہ حالات کتنے سنگین ہوگئے تھے ۔
پہلا واقعہ :
ایک دن کی بات ہے ،اللہ کے رسول ﷺ مدینہ میں تشریف رکھتے تھے ،عضل اورقارہ کے چند لوگ
آئے اور انہوں نے ذکر کیاکہ ہمارے ہاں اسلام کا بہت چرچا ہے ،لیکن اسلام بتانے والا
ایک بھی نہیں ہے،کیاہی اچھا ہوتا کہ ہمارے پاس اپنے کچھ لوگوںکو بھیجتے جولوگوں کو
اسلام بتاتے ....آپ ﷺ کو خوشی ہوئی اور آپ ﷺ نے دس صحابہ کرام کو وہاں بھیجا اورعاصم
بن ثابت کو اُن کا امیر بنادیا۔ جب صحابہ رجیع پہنچے تو اِ ن لوگوں کی خباثت کا اندازہ
ہوا ،اُنہوں نے غداری کی اورایک سو تیراندازوں کو اُن کے پیچھے لگادیا، کہاں دس اورکہاں
ایک سو تیرانداز ،آٹھ صحابہ وہیں پر شہید کردئے گئے ،اورباقی دو کو مکہ لے کر آئے ،یہ
دونوں خبیب بن عدی ؓ اور زید بن دثنہ ؓ تھے ۔ اِن دونوں کو مکہ لے جاکر بیچ دیا۔صفوان
بن امیہ نے زید بن دثنہ ؓ کو خریدا اور اُنہیں قتل کردیا اورخبیب ؓ کوحارث کے بیٹوں
نے خریدلیا،اُنہیں کچھ دنوں تک قیدرکھا،اُس کے بعد مکہ والے اُن کو سولی پر چڑھانے
کے لیے تنعیم لے گئے ،جب سولی پر لٹکاناچاہا تو انہوں نے کہا ”مجھے دورکعت نماز ادا
کرلینے دو “۔مشرکین نے موقع دیا، آپ نے دو رکعت نماز ادا کی ، جب سلام پھیر چکے تو
فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ نہ کہتے کہ میں جو کچھ کررہا ہوں گھبراہٹ کی وجہ سے
کررہاہوں تو میں کچھ اور طول دیتا ۔ جب سولی پر بٹھایاگیاتو اُس وقت آپ یہ شعر کہہ
رہے تھے :
ولست ابالی حین اقتل مسلما
علی ای شق کان للہ مضجعی
وذلک فی ذات الالہ وان یشاء
یبارک علی اوصال شلو ممزع
جب مجھے بحیثیت مسلمان مارا جارہا ہے تو کچھ پروا نہیں کہ
کس پہلو قتل کیاجاوں گا ،یہ تو اللہ کی ذات کے لیے ہے ،اگر وہ چاہے گا تو بوٹی بوٹی
کئے ہوئے اعضاءکے ٹکڑوںمیں برکت نازل کرے گا “۔
اُس کے بعد ابوسفیان نے حضرت خبیب ؓ سے کہا : کیاتمہیں یہ
بات پسند آئے گی کہ تمہارے بدلے محمد ہمارے پاس ہوتے ،ہم اُن کی گردن مارتے اور تم
اپنے اہل خانہ میں ہوتے ،انہوں نے کہا : ہرگز نہیں ،واللہ مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں
کہ میں اپنے گھروالوں میں رہوں اور اُس کے بدلے محمدﷺکو جہاں آپ ہیں وہیں رہتے ہوئے
کانٹا چبھ جائے “۔ مشرکین نے حضرت خبیب ؓ کو سولی پر لٹکا دیااور ہرطرف سے اُن کے جسم
کو نیزے سے چھیدنا شروع کردیا ،ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ اُن کی روح جسم سے جدا
ہوگئی ۔
دوسرا واقعہ :محترم
قارئین ! اِس واقعہ کو ابھی چنددن ہی گذرے تھے کہ اِسی مہینے میں ایک دوسرا واقعہ پیش
آیا،قبیلہ کلاب کا سردار ابوبراءعامر بن مالک ....اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں آیا ،آپ
نے اُسے اسلام کی دعوت دی تو اُس نے اسلام قبول تو نہ کیا لیکن دوری بھی اختیار نہ
کی ،اُس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول : اگرآپ اپنے ساتھیوںکو نجد والوں کے پاس بھیجیں
تو ممکن ہے کہ وہ لوگ اسلام قبول کرلیں ،آپ نے فرمایاکہ : مجھے نجدوالوں سے خطرہ ہے
،ابوبراءنے کہا: اندیشہ کی کیابات ہے وہ ہماری پناہ میں ہوں گے ۔ اللہ کے رسول اکو
جب اُس کی بات پر اعتماد ہوگیا تو آپ
ﷺ نے اُس کے ساتھ اپنے ستر صحابہ کو بھیجا جو
قاری اور فاضل تھے ،وہ سب معونہ کے کنویں پر پہنچے ۔وہاں پڑاوڈالا اور حرام بن ملحان رضى الله عنه کو رسول اللہﷺ کا خط دے کراللہ کے دشمن عامر بن طفیل کے پاس بھیجا ،اُس نے خط کو
دیکھا تک نہیں ،اور اُسی بیچ ایک آدمی کو اشارہ کردیاکہ اِس کا کام تمام کردو ،چنانچہ
ایک شخص نے اُن کوپیچھے سے اِس زور سے نیزہ مارا کہ وہ نیزہ آرپارہوگیا ،حرام ؓنے خون
کے فوارے بدن سے بہتے ہوئے دیکھا تو بول اٹھے :اللہ اکبرفزت ورب الکعبة،اللہ اکبر رب
کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔
محترم قارئین !
ذرا غورکریں آخر یہ کونسی کامیابی تھی ،جی ہاں! انہوں نے اپنے مقصود کو پالیاتھا
شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی ....
جباربن سلمی جس نے حرام بن ملحان ؓ کو نیزہ مارا تھا ُس کے ذہن میں یہی سوال گردش کرنے
لگا وہ سوچنے لگا: ابھی توہم نے اِسے قتل کردیاہے آخر کامیاب کیسے ہوگیا؟ اُ س سے بتایاگیاکہ
یہ مسلمانوں کی نظر میں شہادت ہے ۔اب وہ پریشان ہوگیا،بھاگابھاگا مدینہ آیااوراسلام
قبول کرلی ،اِس طرح قاتل اور مقتول دونوں جنتی ٹھہرے ۔
بہرکیف اللہ کے دشمن عامر کے اشارے پر حضرت حرام کوشہید
کردیاگیا ،اس کے بعد اُس نے دوسرے صحابہ کو شہید کرنے کے لیے اپنے قبیلہ بنوعامر کو
آواز دی ،لیکن کوئی تیارنہ ہوا ،تب اُس نے بنو سُلَیم کے تین قبیلوں عصیہ رعل اورذکوان
کو آواز دی،جنہوں نے فوراً صحابہ کرام کوگھیرلیا ،صحابہ کرام نے بھی اُن کا مقابلہ
کیا ،مگر سب کے سب شہید کر دئیے گئے ۔اِسی کے آس پاس میں دو صحابی اونٹ چرارہے تھے،عمروبن
امیہ ضمری اور منذربن عقبہ ؓ ،دونوںوہاں پہنچے ،ان میں سے منذرتو مقابلہ کرتے ہوئے
شہید ہوگئے لیکن عمروبن امیہ ؓ کو گرفتار کرلیا
گیا،لیکن وہ قبیلہ مضر سے تھے اس لیے عامر نے اُن کو اپنی ماں کی طرف سے آزاد کردیا۔
عمروبن امیہ نے ہی مدینہ آکر اِس واقعے کی خبر دی ۔
محترم قارئین ! اللہ کے رسول ﷺ کو بئر معونہ اور رجیع کے
اِن دو واقعات سے اس قدرغم لاحق ہوا کہ آپ ایک مہینہ تک لگاتار اِن قبائل کے لوگوں
پر فجر کی نماز میں بددعا کرتے رہے ،اورغم لاحق ہوتا کیسے نہیں کہ ابھی احد میں ستر
صحابہ شہید کئے جاچکے تھے ،اور اِدھر اَسی صحابہ کو دشمنوں نے دھوکہ دے کر شہید کردیاجو
قرآن کے حافظ اور قاری تھے۔
بہرکیف ہم عرض کررہے تھے عمر وبن امیہ جنہوں نے مدینہ آکر
اللہ کے رسول کو اِس واقعے کی خبر دی .... وہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ بنوکلاب کے
دو آدمیوں کو دیکھا ،سمجھا کہ یہ لوگ دشمن کے آدمی ہیں،دونوں کوقتل کردیا،حالانکہ دونوں
کے پاس اللہ کے رسول ﷺ کا عہد تھا ،مدینہ آکر اللہ کے رسول ﷺ کو یہ رپورٹ سنائی تو
اللہ کے رسول ﷺ کو غصہ آیا ،آپ نے فرمایا: تم نے ایسے دوآدمیوں کو قتل کیاہے جن کی
مجھے لازماًدیت دینی ہوگی ۔ سبحان اللہ!یہ ہے نبی رحمت کا فیصلہ، اپنے ستر صحابہ کی
شہادت کوبرداشت کرلے رہے ہیں،لیکن دو آدمی کے قتل کی دیت دینے کے لیے تیار ہیں جی ہاں!
یہی اسلام کی عظمت ہے جو آیاہی ہے دنیا میں انصاف قائم کرنے کے لیے ....اُس کے بعد
اللہ کے رسول ا دیت کی رقم جمع کرنے میں جٹ گئے ،چونکہ قبیلہ بنونضیر بھی آپ کا حلیف
تھا ،اس لیے ان کے پاس گئے کہ اِس دیت میں وہ مدد کریں .... یہاں پر ایک تیسرا واقعہ
پیش آیا ....واقعہ کیاتھا ....قوم یہودکی سازش اور غدار ی تو مشہور ہی ہے ، حلیف ہونے
کے ناطے دیت میں اُن کے لیے بھی ضروری تھا کہ مدد کریں ،لیکن انہوں نے کیاکیا ....؟
اللہ کے رسول ﷺ سے کہا ابوالقاسم ! آپ یہاں تشریف رکھئے ،ابھی ہم آپ کی ضرورت پوری
کئے دیتے ہیں ۔ آپ اُن کے ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے،یہودی آپس میں اکٹھا
ہوئے اورطے کیاکہ ایک آدمی چکی اٹھاکر اوپر لے جائے اورمحمد (ﷺ) کے سر پر گرادے ،تاکہ
اِن کا صفایاہی ہوجائے ،اُسی وقت جبریل امین آئے اورآپ کو یہودکے ارادے سے باخبرکیا،آپ
تیزی سے اٹھے اور مدینہ چلے گئے ۔ مدینہ آنے کے بعد آپ ﷺ نے بنونضیر کے نام ایک نوٹس
بھیجا کہ دس دن میں پورا مدینہ خالی کردو ،اگر نہیں کرتے تو سب کی گردن ماردی جائے
گی ۔ یہ خبر سنتے ہی سب کے رونگنے کھڑے ہوگئے ،اورمدینہ خالی کرنے کی تیاری کرنے لگے
،لیکن اُسی بیچ منافقین کے سردارعبداللہ بن اُبی نے اُن کو اُکسایاکہ تم ہمت کیوںہارتے
ہو،ڈرومت ،ڈٹے رہو،ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ،اب کیاتھا؟انہوں نے اللہ کے رسول ا کو کہلا
بھیجا کہ آپ کو جو کرنا ہے کرلیجئے ہم نہیں نکل سکتے ۔ یہ پیغام جب اللہ کے رسول ﷺ
کو ملا تو آپ نے صحابہ کو جمع کیا ،نکلے اور اُن کا محاصرہ کرلیا ،محاصرہ کے بعد عبداللہ
بن ابی نے ہاتھ کھینچ لیا،بنوقریظہ بھی الگ تھلگ ہوگئے ،اب بنو نضیر اکیلے رہ گئے ،محاصرہ
چھ رات یا پندرہ رات رہا ،اِس دوران اللہ پاک نے اُن کے دلوںمیں رعب ڈال دیا،اُن کی
ہمت پست ہوگئی ۔چنانچہ انہوںنے اللہ کے رسول اکو کہلوابھیجا کہ ہم مدینے سے نکلنے کے
لیے تیار ہیں ،آپ رضامند ہوگئے ، اِس طرح سب خیبر میں جاکر بس گئے ۔
محترم قارئین !انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے
ہیں ، اگلے حلقہ میں کل ٹھیک اِسی وقت ان شا ءاللہ سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ
پھر ملیں گے ۔ تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق