الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی
قائد الغر المحجلین
نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
نبوت کا پانچواں سال ہے ،اللہ کے رسول ﷺ اورآپ کے صحابہ
کرام کے ساتھ زیادتیاں بڑھتی ہی جارہی تھیں،مسلمانوں کے لیے مکہ کی زمین اپنی وسعت
کے باوجود تنگ ہونے لگی تھی ،ایسے سنگین حالات ہوگئے کہ مکہ میں رہنا برداشت سے باہر
ہورہا تھا ،انہیں حالات میں سورہ کہف اُتری جس میں چند نوجوانوں کا تذکرہ تھا جو ظالم
بادشاہ کے ظلم وستم سے تنگ آکر کسی غار میں پناہ لی تھی ،اِس کے ذریعہ اشارہ مقصود
تھا کہ اللہ کی زمین کشادہ ہے پریشان نہ ہوں،اِسی بیچ اللہ کے رسول ﷺ نے قریش کی زیادتیوں
سے بچنے کے لیے ارقم رضی اللہ عنہ کے گھر کوپناہ گاہ بنایا،یہ گھر بدمعاشوں کی نگاہوں
سے دورصفا کے دامن میں واقع تھا ، مظلوم صحابہ کرام کولے کر اللہ کے رسول ﷺ اسی گھر
میں اکٹھا ہوتے تھے، قریش کے ظلم وستم سے بچنے کے لیے ایک دوسری ترکیب جو اللہ کے رسول
ﷺکے ذہن میں آئی یہ تھی کہ صحابہ حبشہ میں جاکر پناہ لے لیں۔ آپ کو پتہ چلا کہ حبشہ
کابادشاہ عیسائی ہے ،لیکن انصاف پرور ہے ،اس کے پاس کسی پر ظلم نہیں ہوتا، چنانچہ اللہ
کے رسول ﷺ کے مشورہ سے ایک قافلہ حبشہ کے لیے روانہ ہوا،جس میں بارہ مرد اور چارعورتیں
تھیں ، ان کے سردار سیدناعثمان ؓ تھے اورآپ کے ساتھ آپ کی بیوی سیدہ رقیہ ؓ تھیں جواللہ
کے رسول ﷺ کی صاحبزادی تھیں ،یہ لوگ رات کے وقت لوگوں کی نظروں سے چھپ کر نکلے ،اورجدہ
کے جنوب میں واقع ایک بندرگاہ کے پاس آئے ،اتفاق سے وہاں دو کشتیاں لگی ہوئیں تھی ،اُن
پر سوارہوئے اورحبشہ کے لیے روانہ ہوگئے ....اِن لوگوں کے نکلنے کے بعد کفارقریش کو
پتہ چلا کہ مسلمانوں کا ایک قافلہ حبشہ کے لیے نکل گیاہے ،فوراً پیچھے لگے اور چاہا
کہ جاکر قبضہ میں کرلیں، لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے مسلمان کشتی پر سوار ہوکر نکل چکے
تھے ۔
محترم قارئین ! اس ہجرت کے ابھی دومہینے ہی گذرے تھے کہ
اللہ کے رسول ﷺ ایک روزکعبہ کے پاس تشریف لائے ،کچھ ہی دنوں پہلے آپ پر سورہ نجم اُتری
تھی ،وہاں پر قریش کے بہت سارے لوگ جمع تھے ،آپ نے اُن سب کے سامنے سورہ نجم کی تلاوت
شروع کردی ، اِس سورہ میں جوجاذبیت تھی ،جوکشش تھی ، ا ِس کی طرف لوگ کھینچنے لگے ،اِتنا
نفیس کلام ....سب مبہوت ہیں ۔یہاں تک کہ اللہ کے رسول ﷺ جب سورہ کے اخیرتک پہنچتے ہیں
اورتلاوت فرماتے ہیں کہ فاسجدوا للہ واعبدوا”اللہ کے لیے سجدہ کرو اور عبادت کرو۔“
یہ پڑھ کرآپ نے سجدہ کیاتو کفار اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اورسب کے سب سجدہ میں
گرگئے ۔ ....اس واقعے کی خبر کسی نے حبشہ پہنچادیالیکن افواہ بناکر....افواہ یہ تھی
کہ قریش نے اسلام قبول کرلیاہے حالانکہ انہوں نے اسلام قبول نہیں کیاتھا .... یہ سنتے
ہی صحابہ کرام حبشہ سے مکہ پہنچے ،لیکن جب مکہ سے قریب آئے تو حقیقت معلوم ہوئی کہ
یہ محض افواہ تھی ،....اصل بات یہ تھی کہ قرآن کریم کااُن پر ایسا اثرہوا تھا کہ جذبات
پر قابو نہ رکھ سکے تھے اور سجدہ کے لیے زمین پر گر گئے تھے ۔اُس کے بعد کچھ لوگ تو
وہیں سے حبشہ لوٹ گئے اور کچھ لوگ چھپ چھپاکر مکہ میں داخل ہوئے ۔
محترم قارئين ! اِس کے بعد قریش کی زیادتیاں اور تیز ہوگئیں
،چنانچہ اللہ کے رسول ا نے مسلمانوں کو دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی
۔ اِس باربیاسی یاتراسی مرداور اٹھارہ عورتوں نے ....ہجرت کی ۔.... قریش اب زیادہ فکرمند
ہوگئے کہ یہ لوگ حبشہ میں پناہ لیتے جارہے ہیں ،اِس لیے انہوں نے اپنی میٹننگ میں پاس
کیاکہ حبشہ کے بادشاہ کے پاس ہمارا ایک نمائندہ جاناچاہیے جو اِن مسلمانوں کو وہاں
سے واپس لے آئے ،اِسی ارادہ سے قریش نے عمروبن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو حبشہ بھیجا۔
حبشہ پہنچنے کے بعدان لوگوں نے سب سے پہلے پادریوں سے ملاقاتیں کیں اور مسلمانوں کے
خلاف اُن کے کان بھردئیے ،انہیں تحفے تحائف پیش کئے ،اُس کے بعد نجاشی کے دربارمیں
آئے اوراسے بھی تحفے تحائف پیش کئے اوراس سے گذارش کی کہ بادشاہ سلامت ! آپ کے ملک
میں ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بھاگ آئے ہیں ،انہوں نے اپنی قوم کا دین ترک کرکے ایک
نیادین اپنالیاہے ،اُنہیں ہی لینے کے لیے ہم آپ کے یہاں آئے ہیں،
جب انہوں نے بات مکمل کرلیاتو پادریوں نے اُن کی تائید کی
کہ انہیں تحفے تحائف مل چکے تھے ،لیکن بادشاہ نے کہا : میں جب تک انُ سے نہ سن لوں
گاانہیں تمہارے حوالے نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ مسلمانوں کو بادشاہ کے دربارمیں پیش کیاگیا
،بادشاہ نے اُن سے پوچھاکہ وہ کون سا دین ہے جسے تم لوگوں نے اپنالیا ہے ؟ اِس کے جواب
میں مسلمانوں کی طرف سے سیدنا جعفر بن ابی طالب ؓ نے بات کی.... آپ نے کہا:....
بادشاہ !ہم جاہلیت والی قوم تھے ،بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے،برائیاں کرتے تھے ، ہم میں کوئی خوبی نہ تھی کہ اِسی بیچ اللہ نے ہم میں سے ایک رسول بھیجا ،ہم اس کی امانت وسچائی اورپاک دامنی کو جانتے تھے،اُس نے ہمیں کہا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں ، بتوں کی پوجا نہ کریں،سچ بولیں ،امانت اداکریں،رشتے داروں کے ساتھ اچھامعاملہ کریں،بُرائیوں سے دوررہیں ....سیدناجعفر ؓ نے اسلام کی بہت ساری خوبیاں گنائیں پھرکہا کہ ہم نے اُس پیغمبرکو سچا مانا ،ایک اللہ کی عبادت کرنے لگے ،حرام کو حرام اورحلال کو حلال سمجھنے لگے ،اِس پر ہماری قوم نے ہمیں مجبورکیاکہ ہم انہیں کی طرح مورتیوںکی پوجا کریں اورجوبُرائیاں وہ کرتے ہیں ہم بھی کرنے لگ جائیں ،جب انہوں نے ہم پر بہت قہر اورظلم کیااورزمین تنگ کردی تو آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیااورہمیں امید ہے اے بادشاہ! ....آپ کے پاس ہم پر ظلم نہ کیاجائے گا۔
نجاشی نے جب یہ بات سنی تو سیدنا جعفر سے کہا کہ تم کچھ
قرآن سناو : سیدنا جعفر ؓ نے سورہ مریم کی ابتدائی آیات کی تلاوت شروع کی ،اِس پر نجاشی
اِتنا رویا ....اِتنا رویا کہ اُس کی داڑھی تر ہوگئی ،وہاں موجود پادری بھی روئے ،پھر
نجاشی نے کہا: ”یہ کلام اور وہ کلام جو حضرت عیسی علیہ السلام لے کر آئے تھے دونوں
ایک ہی چراغ سے نکلے ہوئے ہیں “۔ پھر اُسی وقت قریش کے نمائندے کو خطاب کرکے کہا: تم
سب یہاں سے چلے جاو ہم کسی صورت میں اِن مسلمانوںکو تمہارے حوالے نہیں کرسکتے ، بلکہ
نجاشی نے وہ تحفے تحائف بھی لوٹادئے جو یہ لے کر گئے تھے ۔اب کیاتھا.... یہ دونوں منہ
لٹکائے مکہ واپس آگئے اورصحابہ امن وامان کے ساتھ حبشہ میں رہنے لگے ۔
اس طرح اللہ پاک نے اِن مظلوم صحابہ کرام کے لیے ایک ٹھکانہ
مہیا کردیا،یہ ہجرت مسلمانوںکے حق میں بہت نیک فال ثابت ہوئی اورکیوں نہ ہوتی کہ رحمت
عالم ﷺ کے مشورے سے عمل میں آئی تھی ،چنانچہ صحابہ کرام کو حبشہ میں دین کی دعوت کا
موقع ملا،اسلا م کوپھیلانے کے لیے نئی جگہ ملی ، خود حبشہ کا بادشاہ اصحمہ مسلمان ہوگیا،لیکن
اُس نے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا یہاں تک کہ اُس کی موت ہوگئی ،جبریل امین نے آپ ﷺکو
اِس کی خبردی توآپ ﷺنے اُس پر غائبانہ نماز جنازہ ادا کیا۔
محترم قارئين!انہیں
چند کلمات کے ساتھ ہم آپ سے رخصت ہوتے ہیں،اگلے حلقہ میں پھرملیں گے ان شاءاللہ تب
تک کے لیے اجازت دیجئے اللہ حافظ
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق