الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی قائدالغر المحجلین
نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد
اللہ کے رسول ﷺ کو جب رسالت سے سرفراز کردیاگیا تو سب سے
پہلے آپ کوجو حکم دیاگیا وہ نماز کا حکم تھا،جی ہاں! یہی نماز جوثبات قدمی کا ذریعہ
ہے ،یہی نماز جو سکون وطمانینت کا سبب ہے،یہی نمازجو اسلام اورکفر کی پہچان ہے ،یہی
نماز جو اللہ کے رسول ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ،یہی نماز جس کی وصیت اللہ کے رسول
ﷺ اخیروقت تک کرتے رہے، ایک مسلمان کی زندگی میں نماز کی بیحد اہمیت تھی ،اِسی
لیے اس کا حکم پہلی فرصت میں دیاگیا، حضرت جبریل تشریف لائے ،اللہ کے رسول اکو وضو
کرکے بتایا،اللہ کے رسول نے جبریل امین سے وضو سیکھا ، پھر جبریل امین نے آپ کو نماز
کا طریقہ سکھایا،آپ نے جبریل امین کے ساتھ نماز ادا فرمائی ،....شروع شروع میں نماز....دو
رکعت صبح.... اوردورکعت شام میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد
ہے : وسبح بحمد ربک بکرة واصیلا ”صبح اور شام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح
بیان کرو “۔ اورایسا ہی رہا یہاں تک کہ اسراءومعراج کے موقع سے پانچ وقت کی نمازیں
فرض کی گئیں
محترم قارئين!صحابہ کرام کو تاکید
کی گئی تھی کہ شروع شروع میںاسلام کو چھپاکر رکھیں ،کہ حکمت کاتقاضایہی تھا ۔نماز ادا
کرنی ہوتی تو نظروں سے دور کہیں چلے جاتے ، کبھی کبھی وادیوں اور گھاٹیوںمیں نمازیں
ادا کرلیتے، اس طرح کرتے کرتے تین برس گذرگئے ،چھپ چھپاکر دعوت کا کام ہوتا رہا ،مجلسوں
اور محفلوںمیں کھلے عام کہیں بھی تبلیغ کا کام نہیں کیاگیا۔اب تک تقریباً ایک سو تیس
لوگوں نے اسلام قبول کرلیاتھا، سب نے اپنے اسلام کو چھپائے ہی رکھا تھا ، البتہ قریش
کو اِس کی خبرمل چکی تھی ،لیکن انہوں نے شروع میں اِس کی طرف توجہ نہیں دیاکیونکہ اُن
کو اندازہ ہوا کہ یہ بھی تو دین اور دھرم کی ہی بات کرتے ہیں، اوردھرم کی طرف لوگوں
کو بلانا اچھی بات ہے ۔مطلب یہ کہ اسلام کے پیغام کو وہ اچھی طرح سے جان نہ سکے تھے
جب کھلے عام دعوت کی گنجائش نکلتی
نظر آئی تواللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمادی : وانذر عشیرتک الاقربین ”اب آپ ﷺاپنے نزدیکی
رشتے داروں کو ڈرائیں ۔ یہ حکم ملتے ہی آپ ﷺ نے اپنے نزدیکی قرابت داروں کو اکٹھا کیا
یعنی بنو ہاشم اور بنو مطلب کو ....یہ کل 45 لوگ
تھے ،اوراُن کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی ، وحدانیت کے ثبوت فراہم کئے ،آپ نے فرمایا:
رہنما اپنے گھر کے لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتا ،اُس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، میں سارے انسانوںکی طرف ....اور خاص کر تمہاری طرف اللہ کا بھیجا گیارسول ہوں۔........اللہ کی قسم ! تم اُسی طرح موت سے دوچار ہوگے جیسے سوجاتے ہو،اوراُسی طرح اُٹھائے جاوگے جیسے سوکر جاگتے ہو،پھر جوکچھ تم کرتے ہواُس کا تم سے حساب لیاجائے گا،اُس کے بعد یاتو ہمیشہ کے لیے جنت ہے ،یاہمیشہ کے لیے جہنم ۔یہ سن کر اور لوگوں نے توکوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ابولہب جو آپ کا چچا تھا ....وہ سب کومخاطب کرکے کہنے لگا کہ دیکھو! اِس کی زبان پر ابھی ہی لگام کس دو،ورنہ بعدمیں ذلت اُٹھانی پڑے گی ۔ ابوطالب وہاں پر موجودتھے ، ابولہب کی یہ باتیں ابوطالب کو خراب لگیں ، ابوطالب نے آپ کو ہمت بندھاتے ہوئے کہا کہ بھتیجے ! تم کو جس کام کا حکم ملا ہے اُسے کر گذرو، میں تمہاری مسلسل حفاظت کرتا رہوں گا۔البتہ مجھے عبدالمطلب کے دین پر رہنے دو ۔
انہیں دنوں اللہ پاک نے ایک دوسری آیت بھی اُتاردی جس میں
کہا گیاتھا کہ فاصدع بما تومر واعرض عن المشرکین ”تمہیں جس بات کا حکم دیاجارہا ہے
اُسے کھلم کھلا بیان کردو ،اورمشرکوں سے منہ پھیر لو۔ اس حکم کا آنا تھا کہ آپ ا صفاچوٹی
پر جاتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں: یا صباحاہ ۔ ہائے صبح یہ پکار اس بات کی علامت تھی
کہ دشمن سر پر ہے یا حملہ کرنے کی تیاری میں ہے ۔اُس کے بعد آپ قریش کے ایک ایک خاندان
اور کنبے کا نام پکارنے لگے ،لوگوں نے پوچھا : کون پکار لگارہا ہے ۔ بتایاگیا کہ : محمد
ہیں ۔ اس پر سب لوگ اکٹھا ہو گئے ،جو نہ آسکتا تھا کسی آدمی کو بھیج دیاکہ دیکھ کر
آئے کہ آخر بات کیا ہے :
جب سب اکٹھا ہوگئے تو آپ نے فرمایا: یہ بتاو اگرمیں یہ کہوں
کہ اِس پہاڑ کے پیچھے وادی میں گھڑسواروںکی ایک جماعت ہے جو تم پر حملہ آورہوا چاہتی
ہے تو کیاتم سچا مانوگے ۔ لوگوں نے کہا : ہاں بالکل کیوںنہیں ہم نے تو ہمیشہ آ پ کو
سچا ہی پایاہے ۔ تب آپﷺ نے فرمایا:ہاں تو میں آپ سب کو ایک سخت عذاب کے دن سے ڈرا رہا
ہوں۔ پھر آپ نے ایک ایک خاندان کا نام لے لے کر انہیں پکارا کہ اپنے آپ کوجہنم کی آگ
سے بچالو ۔ اِ س بیان کے بعد لوگ اِدھر اُدھربکھرگئے نہ کسی نے اِس کی تائید کی اور
نہ مخالفت سوائے ابولہب کے ....اُس نے کہا : تباً لک الھذا جمعتنا تو سارے دن غارت
ہو ، کیا اسی لیے ہم سب کو اکٹھا کیاتھا ۔.... اللہ پاک کو اُس خبیث کی ادا بہت خراب
لگی اور فوراً سورہ لہب نازل فرمائی تبت یداابی لہب وتب جس میں بتایا گیا کہ وہ اور
اُس کی بیوی اوراس کا مال سب غارت ہوجائیں گے ۔
پیارے بھائیو اوربہنو!یہ دعوت کیاتھی ....گویاایک بجلی کا کڑکا تھا جس نے اُن کے سکون کو ہلاکر رکھ دیاتھا،وہ دیکھ رہے تھے کہ اِس سے تو ہماری خاندانی روایت کا صفایاہواچاہتاہے ،اِس سے تو ہمارے بتوں کی تذلیل ہورہی ہے ۔ اِس سے تو اونچ نیچ کے فاصلے مٹ جائیں گے ،ہماری چودھراہٹ جاتی رہے گی ....سارے لوگوں کے اندر یہی کھلبلی مچی ہوئی ہے کہ اِس دعوت کا کیاکیاجائے ، اِس سے کیسے مقابلہ کیاجائے ،اُن کی پریشانی اِس بات سے بھی دوگنی ہورہی تھی کہ ابھی حج کا موسم آرہا ہے ،ٹھیک ہے مکہ والوں کو سمجھا بجھاکر محمد سے دور رکھیں گے لیکن باہرسے آنے والے حاجیوں کو محمد ا سے دور کیسے رکھاجائے ۔
اسی ایجنڈاکو لے کر قریش کی ایک بیٹھک ہوئی ولید بن مغیرہ
کے ساتھ ....جو اُن میں عمردراز بھی تھا اور صاحب مرتبہ بھی ،اُس نے لوگوں کوخطاب کرتے
ہوئے کہا کہ دیکھو ! محمداکے پیغام سے مکہ کے لوگوں کو تو کسی طرح ہم دور رکھ سکتے
ہیں لیکن باہر سے جو لوگ مکہ میں حج کرنے آئیں گے اُن کو محمد سے دور رکھنے کے لیے
ابھی ہی.... کوئی پلان بنالو ۔ تاکہ سب اُن سے ایک ہی بات کہو ....اور اِس طرح محمد
کا جادو کسی پر نہ چل سکے ۔ چنانچہ لوگوں نے کہا کہ ہم اُسے کاہن کہیں گے،لیکن ولید
نے اِس تجویز کو رد کر دیا اورکہا کہ نہیں .... اُس کے اندر کاہنوں کی سی حرکت نہیں
پائی جاتی ۔ لوگوں نے کہا کہ اچھا تو ہم اُسے پاگل کہیں گے ۔ لیکن ولید نے اِس تجویز
کو بھی رد کردیا کہ وہ پاگلوں کی سی باتیں تو نہیں کہتا....لوگوں نے کہا : تب ہم کہیں
گے کہ وہ شاعرہے ،لیکن اُسے بھی رد کردیاکہ اُس کی باتوںمیں شاعری کی جھلک بالکل نہیں
پائی جاتی ....لوگوں نے کہا کہ اچھا تو ہم کہیں گے کہ وہ جادوگر ہے ، لیکن ولید نے
اِسے بھی رد کردیاکہ محمدجادوگروں کا سا کام نہیں کرتا ۔ تھک ہار کر لوگوں نے ولید
سے کہا :: اب آپ ہی بتائیے کہ اُسے ہم کیا کہیں کہ لوگ اُس کے پیغام سے دور ہوجائیں
۔ یہاں ولید نے حق کا اعتراف کیا:.... کیا کہا ؟ ....ولید نے کہا :
محترم قارئين!پھر کیاہوا.... اور کس کس طرح انہوں نے اِس پیغام کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں ....اِس کی ایک جھلک ہم آئندہ پیش کریں گے ....تب تک کے لیے اجازت دیجئے اللہ حافظ
اللہ کی قسم اُس کی بات میں مٹھاس ہے ،اُس میں تازگی اور رونق ہے ،اُس کی مثال ایسے درخت کی سی ہے جس کا نچلا حصہ مضبوط اور اوپری حصہ پھلدا رہے ،یہ کسی انسان کا کلام.... ہوہی نہیں سکتا ۔تم جو بھی کہو واضح ہوجائے گا کہ وہ باطل ہے ۔میرے بھائیو! لیکن باطل کی تائید تو کرنی ہے ....اس لیے اعلان کردیا کہ چلو اُسے جادوگر ہی کہہ کر پکارو ....دیکھتے ہی دیکھتے حج کا موسم آگیا، اتفاق کے مطابق یہ لوگ حج کے لیے آنے والوں کے راستے میں بیٹھنے لگے ،جو بھی اُن کے پاس سے گذرتا اُسے محمدﷺ سے ڈراتے ....اللہ کے رسول ﷺ حاجیوں کے مجمع اورڈیروںمیں جاجاکر انہیں اسلام کی طرف بلاتے اورکہتے یا ایھالناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحو ا ”اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ لو کامیاب ہوجاو گے “لیکن پیچھے سے بدبخت ابولہب پتھر مارتا اورکہتا کہ یہ پاگل اور دیوانہ ہے اِس کی بات مت سنو۔
محترم قارئين!پھر کیاہوا.... اور کس کس طرح انہوں نے اِس پیغام کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں ....اِس کی ایک جھلک ہم آئندہ پیش کریں گے ....تب تک کے لیے اجازت دیجئے اللہ حافظ
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق