السبت، أغسطس 04، 2012

تعمير مسجد ، مواخات اور معاہدے


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

اب تک کے سفرمیں ہم نبی پاک ﷺ کی مکی زندگی کو پارکرچکے ہیں،اب ہم مدینہ میں داخل ہوں گے کہ اللہ کے رسول ﷺ مدینہ میں تشریف لاچکے ہیں،آپ کی اوٹنی مدینہ میں قدم رکھ چکی ہے ،سب کی خواہش تھی کہ ہمیں محسن انسانیت کی مہمانی کا شرف حاصل ہوتا ،لیکن آپ کا ارشاد تھا کہ اونٹی کو چلنے دو یہ اللہ کی طرف سے مامورہے ،یہاں تک کہ جب اونٹنی اُس مقام پر پہنچی جہاں آج مسجد نبوی ہے تو بیٹھ گئی ،اب لوگوں نے اپنے اپنے گھر لے جانے کے لیے گذارش شروع کردی ،آپ ﷺ کی اونٹنی جہاں بیٹھی تھی اُسی کے قریب حضرت ابوابوب انصاری ؓ کا گھرتھا ،اِس طرح اللہ کے رسول ﷺ ابوابوب انصاری رضى الله عنه کے مہمان بنے جو اُن کے لیے بہت بڑی سعادت کی بات تھی 
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺ نے دعوت کے ساتھ ساتھ جو اہم کام کئے اُن میں پہلا کام تو یہ تھا کہ آپ نے مسجد نبوی کی تعمیرشروع کی ،اوراُس کے لیے وہ زمین خریدی جس پر آپ کی اونٹنی بیٹھی تھی ،یہ دویتیم بچوںکی زمین تھی ،اِس میں مشرکین کی چند قبریں تھیں ،آپ ﷺنے پہلے زمین کو اچھی طرح سے صاف کروادیا،اُس کے بعد تعمیر کا کام شروع ہوا ،دیواریں مٹی اورکچھی اینٹوں سے اُٹھوائیں ،دروازے کے دونوں بازوں پتھر کے لگائے گئے ،چھت کھجور کی شاخوں کی اور شہتیر کھجور کے تنوں کے بنائے گئے ۔ فرش پر ریت اور کنکریاں بچھائی گئیں ۔اللہ کے رسول ﷺ مہاجریں وانصار کے ساتھ خود پتھر اور اینٹ ڈھوتے تھے ۔ ............مسجد کے بازومیں دو گھر بھی بنائے گئے،اُس میں سے ایک سودہ بنت زمعہ ؓ کے لیے اوردوسرا حضرت عائشہ ؓ کے لیے کیونکہ اُس وقت آپ کے عقد میں یہی د وبیویاں تھیں ۔ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اللہ کے رسول ﷺکی ہجرت کے چھ مہینے بعد اللہ کے رسول ﷺاورابوبکر  کے گھر والے بھی مدینہ آگئے ،جس میں سیدہ عائشہ ؓ بھی تھیں ۔ یہاں آنے کے کچھ ہی دنوں کے بعد شوال کے مہینے میں حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی ہوئی

محترم قارئین!  جب تک مسلمان مکہ میں تھے ،جماعت سے نماز ادا کرنے کا منظم بندوبست نہ تھا ،مدینہ آنے کے بعد جب مسجد بن گئی اور جماعت سے نماز کی ادائیگی ممکن ہوگئی ، تو اَب یہ مسئلہ پیش آتا کہ نماز کا وقت ہونے کے بعد لوگوں کو اطلاع کیسے دی جائے ؟ مشورہ ہوا کہ کوئی ایسی علامت اختیار کی جائے جس سے سب کو پتہ چل جائے کہ نماز کا وقت ہوچکا ہے ۔ مختلف باتیں آئیں کسی نے کہا کہ جھنڈا نصب کردیاجائے ،کسی نے کہا کہ ناقوس بجا دیاجائے ....کسی نے کہا کہ پکار لگانے والا بھیج دیاجائے جو نماز کے لیے پکار لگائے ۔ اِسی بیچ ایک رات عبداللہ بن زید نے خواب میں اذا ن کے کلمات سنے او رآکر اللہ کے رسول ﷺ کو خبر دی تو اللہ کے رسول ﷺ نے اِس کی تائید کی او ربلال ؓ  کو حکم دیا جن کی آواز بلند اور سریلی تھی کہ وہ اذان کہیں ۔ چنانچہ بلال ؓ نے اذان دینا شروع کردیا۔

معزز قارئین!  آپ جانتے ہیں کہ جو صحابہ مکہ سے آئے تھے وہ اپنے گھر بار اور زمین جائیداد سب سے محروم تھے ،خالی ہاتھ آئے تھے ،مدینہ میں آنے کے بعد اُن کو مددکی بیحد ضرورت تھی ،چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے جس طرح مسجد بنائی تاکہ مسلمانوں کا ایک مرکز ہو اُسی طرح آپ ﷺ نے مکہ کے مسلمانوں اور مدینہ کے مسلمانوںکے بیچ بھائی چارہ بھی قائم کیا ۔ یہ کل نوے لوگ تھے جن کے لیے مدنی نوے بھائیوں کو چنا گیا اور ایک مکی اورایک مدنی بھائیوں کے بیچ بھائی چارگی بنادی گئی ۔ اِسی لیے ہم مکی مسلمانوں کو مہاجر کہتے ہیں کہ انہوں نے ہجرت کی تھی اورمدنی مسلمانوں کو انصارکہتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کی ہر طرح سے مدد کی تھی ۔ انصاراورمہہاجرین نے واقعی بھائی چارے کا حق ادا کردیا۔ اِس بھائی چارے کا ایک نمونہ دیکھئے ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ حضرت سعدبن ربیع ؓ  کے بھائی بنائے گئے تھے ،حضرت سعد ؓ نے عبدالرحمن بن عوف سے کہا: انصارمیں میں سب سے زیادہ مالدار ہوں ،آپ میرامال دو حصوں میں بانٹ کر آدھا لے لیں ،اورمیری دو بیویاں ہیں دیکھ لیں اُن میں آپ کو جو زیادہ پسند ہو میں اُسے طلاق دے دوں اور عدت گذرنے کے بعد آپ اُس سے شادی کرلیں ۔ حضرت عبدالرحمن ؓ نے کہا : اللہ پاک آپ کے مال اوراہل میں برکت دے ۔ بس ہمیں بازار کا راستہ بتادیجئے ،لوگوں نے اُنہیں بنوقینقاع کا بازار بتادیا۔ وہ گھی اور پنیر بیچنے اور خریدنے لگے ،یہاں تک کہ اپنے انصاری بھائی سے بے نیاز ہوگئے ،ایک روز آئے تو اُن پر زردی کا اثر تھا ،نبی اکرم ﷺ نے پوچھا : یہ کیاہے ،انہوں نے کہا کہ میں نے شادی کی ہے ۔پوچھا:مہر کتنادیا؟ کہا : سوا ایک تولہ سونا ۔آپ نے فرمایا: اولم ولو بشاة ولیمہ کرو گرچہ ایک بکری ہی سہی ۔ یہی عبدالرحمن بن عوف ہیں جن کا کاروبار اِتنا ترقی کرتا ہے کہ کہتے ہیں جب میں مٹی اُٹھاتا تو وہ میر ے لیے سونا بن جاتی تھی ۔ بہرکیف اِس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ انصارنے کس طرح آگے بڑھ کر اپنے مہاجربھائیوں کی مدد کی ،پھر مہاجرین نے بھی اُس کا غلط فائدہ نہ اٹھایا۔

محترم قارئین! مدینہ کی دھرتی مکہ کے مقابلے میں کچھ الگ حیثیت رکھتی تھی ،مکہ میں مسلمان پِسے ہوئے تھے ، اوراُن کے حریف صرف قریش تھے ،لیکن مدینہ میں مسلمانوں کے بیچ مشرکین بھی تھے ،یہود بھی تھے اور کچھ عیسائی بھی ۔ اوریہاں اللہ کے رسولﷺ کو ایک اسلامی اسٹیٹ کی بنیاد رکھنی تھی ۔ اِس کے لیے اللہ کے رسول ﷺ نے سب سے پہلے مسلمانوں کے لیے کچھ عہدومیثاق کے قوانیں بنائے،جس کے اہم دفعات کچھ یوں تھے :پہلے نمبرپرانصاراورمہاجرین باقی لوگوں کے خلاف ایک متحد امت ہوں گے ،دوسرے نمبرپرجو بھی ظالم اورباغی ہواُس کے خلاف سب لوگ ایک ہوجائیں گے چاہے اُن کی اولاد میں سے ہی کیوں نہ ہو ،تیسرے نمبرپرمومن کافرکے بدلے قتل نہ کیاجائے گا ۔چوتھے نمبرپر یہود مسلمانوں کے پیروکارہوجائیں تو وہ مسلمانوں کا ایک حصہ شمار ہوں گے ۔ یہ معاہدہ کے چنددفعات تھے جو اللہ کے رسول ﷺ نے مسلمانوں سے لیے تھے ۔.....رہے مشرکین تو اُن سے آپ نے یہ معاہدہ لیا کہ کوئی مشرک قریش کی جان ومال کو پناہ نہ دے گا اورنہ کسی مومن کے آگے اُس کی حفاظت کے لیے رُکاوٹ بن سکے گا ۔ اِس معاہدے کے بعد اُن کی طرف سے کوئی اندیشہ نہ رہا ۔.....رہے یہودتو اللہ کے رسول ﷺ نے اُن کے ساتھ بھی معاہدہ کیا جنکے اہم نکا ت یہ تھے
پہلے نمبر پر یہود مسلمانوں کے ساتھ ایک امت ہوں گے ،اُن کے لیے اُن کا دین اورمسلمانوں کے لیے مسلمانوں کا دین ہوگا ،اُن کے ذمہ اُن کا خرچ ہوگا اور مسلمانو ں کے ذمہ مسلمانوں کا خرچ ۔
دوسرے نمبر پر : جو لوگ اِس معاہدے کے کسی فریق سے جنگ کریں گے یا مدینہ پر حملہ کریں گے سب کی ذمہ داری ہوگی کہ اُس کے خلاف آپس میں مدد کریں۔
تیسرے نمبر پر : اِس معاہدے کے شرکاءکے بیچ خیرخواہی ،خیراندیشی اور نیکوکاری کا سلوک کیا جائے گا ۔
اِس معاہدے کے بعد مدینہ کے باشندے چاہے وہ مسلمان ہوں....یا مشرکین ہو ں....یا یہود ہوں.... ایک وحدت بن گئے ۔ ایک اسٹیٹ قائم ہوگیا جسے ہم مدنی اسٹیٹ کہتے ہیں جس کے حاکم رسول اللہ ﷺ تھے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے یہاں مسلمانوںمیں اخلاقی خوبیاں پیداکرنے کی کوشش کی ۔ایثار وقربانی کا سبق سکھایا،صلہ رحمی کی تاکید کی ،پڑوسیو ں کے ساتھ اچھا برتاوکا حکم دیا،آپ نے یہ تعلیم دی کہ ”مسلمان وہ ہیں جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں “  ” تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔آپ ﷺ لوگوںکو صدقہ وخیرات پر ابھارتے ہیں اور مانگنے اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے منع کرتے ہیں ۔ اِ س طرح کی تعلیم سے اللہ کے نبی ﷺ نے ایسامعاشرہ بنادیا جو تاریخ کا سب سے بہتر معاشرہ تھا۔

محترم قارئین!  مسلمان مکہ میں 13 سال تک ستائے گئے تھے ،اپنا سب کچھ خیربادکہہ کرمدینہ میں پناہ لے لی تھی ،....کیا اب مسلمان مدینہ میں امن وسکون سے رہنے لگے تھے؟....کیا ان پر کسی طرح کاباہری دباونہ تھا ،اِسے ہم جانیں گے اگلے حلقہ میں ان شاءاللہ .... تب تک کے لیے اجازت دیجئے اللہ حافظ ۔ 

ليست هناك تعليقات: