السبت، أغسطس 04، 2012

غزوه بدرکے بعد


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

جنگ بدرمیں مسلمانوں کی جیت کے بعد کا واقعہ ہے ،قریش کے دو شیطان عمیربن وہب الجمحی اورصفوان بن امیہ حطیم میں بیٹھے بدر کے مقتولین کے بارے میں بات کررہے تھے،صفوان نے کہا : اللہ کی قسم ایسی ذلت کے بعد جینے کا کوئی مزہ نہیں ۔ عمیر نے ہاں میں ہاں ملایااورکہا : بالکل تم سچ کہتے ہو ،دیکھو! واللہ !اگرمیرے پاس قرض نہ ہوتا جس کی ادائیگی کے لیے میرے پاس کچھ نہیں اوراہل وعیال نہ ہوتے ، جن کے بارے میں اندیشہ ہے کہ میرے بعد ضائع ہوجائیں گے تومیں سوار ہوکر محمد کے پاس جاتا اوراُس کاکام تمام کردیتا ۔ اورویسے بھی میرے وہاں جانے کی ایک وجہ بھی بن سکتی ہے کہ میرا بیٹا اُن کے ہاں قید ہے ۔ خبیث صفوان نے اُسی وقت فوراً کہا کہ ہم تیرے قرض کی ذمہ داری لیتے ہیں اور تمہارے اہل وعیال کی بھی ذمہ داری لیتے ہیں ،جاومنصوبے کو نافذ کرکے آو “
عمیر نے کہا:اچھا تو ٹھیک ہے ،بس معاملے کو رازمیں رکھنا ،کسی تیسرے کو معلوم نہ ہونے پائے ۔ صفوان نے کہا: ٹھیک ہے میں ایساہی کروں گا۔ عمیر نے تلوار کو تیز کرایا،زہرآلودکرائی اورمکہ سے روانہ ہوگیا،مدینہ پہنچا اورمسجد نبوی کے دروازے پر اونٹنی بٹھا ہی رہا تھا کہ عمر فاروق ؓ نے اُسے دیکھ لیا ۔سوچا: یہ اللہ کا دشمن کسی بُرے ارادہ سے آیاہے ،فوراً اللہ کے رسول ﷺ کے پاس گئے اور خبردیاکہ عمیر تلوارلٹکائے آیاہے ، آپ نے فرمایا: اُسے میرے پاس لاو۔ عمر فاروق ؓ نے اُس کی تلوار کو اُس کے گلے کے پاس سے تھامے ہوئے اُسے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا ۔اللہ کے رسول ﷺ نے جب دیکھا کہ عمراُس کی تلوار کو تھامے ہوئے ہیں تو فرمایا: عمر ! اِسے چھوڑ دو ،اور عمیر !تم قریب آواُس نے قریب آکر کہا : صباح الخیر ، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک نے ہمیں ایسے تحیہ سے نوازاہے جو تمہارے تحیہ سے بہتر ہے ،یعنی سلام ۔
اُس کے بعد آپ نے پوچھا: اچھا بتاوعمیر ! تم کیوںآئے ہو، اُس نے کہا : یہ قیدی جو آپ کے قبضے میں ہے اُسی کے لیے آیا ہوں،آپ لوگ اُن پر احسان فرمائیں ۔ پوچھا: توپھریہ تلوارتمہاری گردن میں کیوںلٹکی ہوئی ہے ؟ اُس نے کہا: اللہ اِن تلواروں کا بُرا کرے ،یہ کب ہمیں کام آئی ہیں ؟ آپ نے فرمایا: سچ سچ بتاو،کیوں آئے ہو؟ اُس نے کہا: بس اِسی قیدی کے لیے آیاہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سچ سچ بتاوکیا یہ حقیقت نہیں کہ تم اور صفوان حطیم میں بیٹھے بد ر کے مقتولین کے بارے میں باتیں کررہے تھے،تم نے کہا کہ اگر مجھ پر قرض نہ ہوتا اور اہل وعیال کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں یہاں سے جاتااورمحمدکو قتل کردیتا ۔اُس پر صفوان نے تمہارے قرض اور اہل وعیال کی ذمہ داری لی بشرطیکہ تم مجھے قتل کردو ،لیکن یاد رکھو ! اللہ میرے اور تمہارے بیچ حائل ہے ۔ عمیر یہ سن کر حیران رہ گیا،اوراُسی وقت بول اُٹھا اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ ۔ اُس نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے دین کی ہدایت دی اورمجھے یہاں ہانک کر لے آیا۔ اللہ اکبر دیکھا ! کیسے کیسے لوگوںکو ہدایت ملتی ہے ۔ بہرکیف اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ سے فرمایا: ....اِسے دین سکھاو،قرآن پڑھاو اوراِس کے قیدی کو آزاد کردو۔ ادھر صفوان لوگوں سے کہتا پھرتا تھا کہ چند دنوںمیں تمہیں ایسی خبر سناوں گاکہ تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی ۔ بالآخر اُسے کسی نے بتادیاکہ عمیر مسلمان ہوچکا ہے ،یہ سن کر صفوان نے قسم کھائی کہ اُس سے کبھی بات نہ کرے گا ۔عمیر اسلام سیکھ کر مکہ آئے اور اسلام کی تبلیغ مکہ میں شروع کردی ،اُن کے ہاتھ پر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ۔

محترم قارئین! جنگ بدر کے بعد ایک طرف قریش کے سینوںمیں انتقام اور بدلہ کا لاوا پک رہا تھا ،جس کی واضح مثال یہ واقعہ ہے،کہ کیسے نبی رحمت کے قتل کے ارادہ سے نکلے تھے لیکن اِسلام کے ہوکر رہ گئے ، ایک طرف تو یہ دشمنی تھی تو دوسری طرف بدر کی جنگ نے مسلمانوں کی دھاک بھی بٹھادی تھی ،اِسی لیے مدینہ میں چند یہودیوںنے اپنامفاد حاصل کرنے کے ارادہ سے دکھلاوے کے لیے اسلام قبول کرلیا جس میں عبداللہ بن ابی اوراُس کی جماعت کے لوگ تھے ....مدینہ میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے ،اُن میں سے ایک قبیلہ بنوقینقاع تھا ، اللہ کے رسول ﷺ نے مدینہ میں قدم رکھنے کے بعد یہودیوں سے بھی معاہدہ کیاتھا لیکن سب سے پہلے بنوقینقاع والوں نے عہد شکنی کی ،بدر کے بعدمسلمانوں سے کھل کر دشمنی کا اظہار کرنے لگے ،مسلمانوںمیں خلفشار مچاتے ،جو مسلمان اُن کے بازارمیںجاتا اُن کا مذاق کرتے ، انہیں تکلیف پہنچاتے یہاں تک کہ مسلمان عورتوں سے بھی چھیڑ خوانی شروع کردی ۔اللہ کے رسول ﷺ نے بنوقینقاع کے بازا رمیں یہودکو جمع کیا او راُنہیں نصیحت کی ،معاہدے کی یاددہانی کرائی اور امن قائم رکھنے کی تاکید کی تو اُلٹے اللہ کے رسول ﷺ پر برس پڑے ، کہنے لگے : محمد! آپ خودفریبی میں مبتلا نہ ہوں، قریش جیسے اناڑی لوگوں سے جنگ میں میدان جیت لینا کوئی کمال کی بات نہیں ،اگر ہم سے جنگ ہوگئی تو پتہ چل جائے گا کہ آپ کتنے پانی میں ہیں ۔ بنو قینقاع کے جواب کا صاف صاف مطلب تھا اعلان جنگ ، لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے صبر سے کام لیا اوروہاں سے چلے آئے ۔
ایک دن کی بات ہے ،ایک عرب عورت بنوقینقاع کے بازارمیں کچھ سامان بیچ کر کسی ضرورت کے لیے ایک سنار کے پاس بیٹھی ،وہ یہودی تھا،یہودیوں نے اُس کا چہرہ کھلوانا چاہا ،مگر اُس نے انکار کردیا۔اِس پر اُس یہودی سنار نے چپکے سے اُس کے کپڑے کا نچلا حصہ پچھلی طرف باندھ دیا۔ اور اُسے کچھ خبر نہ ہوئی ،جب وہ اُٹھی تو بے پردہ ہوگئی ، یہ دیکھ کر یہودیوں نے خوب قہقہہ لگایا،اِس پر اُس عورت نے چینخ وپکار لگائی جسے سن کر ایک مسلمان نے اُس سنار پر حملہ کردیااور اُسے مارڈالا ۔ جواب میں یہودیوں نے بھی اُس پر حملہ کرکے اُسے مارڈالا ،دونوں طرف سے شور اور ہنگامہ ہوا ، نتیجہ کے طور پر دونوں فریق میں بلوہ ہوگیا اب رسول اللہ ا نے اُن کا محاصرہ فرمالیا، یہ دو ہجری 15شوال ہفتہ کا دن تھا ۔ پندرہ دن گذرگئے تھے کہ ذی القعدہ کی چاند رات انہوں نے ہتھیارڈال دیا۔ اور رسول اللہ  ﷺ  نے اُنہیں اذرعات شام کی طرف جلاوطن کردیا۔

محترم قارئین !بنوقینقاع کا فتنہ تو ختم ہوگیاتھا لیکن دوسری طرف ایک دوسرے یہودی کعب بن اشرف کا فتنہ ابھی باقی تھا ....کعب بن اشرف اُن یہودیوںمیں سے تھا جن سے اللہ کے رسول ﷺ نے معاہدہ کیا تھا ،لیکن اُس نے معاہدہ شکنی کی ،رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کو گالیاں دیتا ،اورمسلمان عورتوں کے متعلق غزلیہ اشعار کہتا تھا،جب بدر میں قریش شکست کھاگئے تو قریش کو اُکسانا شروع کردیا، باضابطہ وہ مکہ گیا، قریش کے لیڈروں کی غیرت کو جگایا،اُن کی تعریف کی ،اورانہیں مسلمانوں سے جنگ کرنے پر آمادہ کیا، یہ بھی کہا کہ تم تو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت پر ہو ، اُن کا جلد صفایاکرو، اِس طرح جب اُس کی شرارت میں آئے دن اضافہ ہونے لگا تو ایک روز اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ سے فرمایا: کون ہے جو کعب بن اشرف سے نمٹے ، چنانچہ چند صحابہ نے مل کر اُس کا کام تمام کردیا ۔
ایک اور واقعہ جنگ بدر کے بعد کا ہے ....ابوسفیان جو قریش کا سرکردہ لیڈر تھا .... اُس نے بدر کی جنگ میں ہارنے کے بعد یہ نذر مانی تھی کہ جب تک محمد سے جنگ نہ کرلوںگا ہمارے سر کو پانی نہ چھوئے گا ،چنانچہ وہ دو سو سواروں کے ساتھ نکلا ،اورمدینہ کے قریب ”عریض “ نامی ایک جگہ پر چھاپا مارا،کھجورکے کچھ درخت کاٹ دئیے ،کھیتوں کو جلادیا،اور دو آدمیوں کو قتل کرکے بھاگ نکلا ۔ اللہ کے رسول ﷺ کو اِس کی خبر بھی نہ ہوئی تھی ،جب پتہ چلا تو اللہ کے رسول ا نے اُن کا پیچھا کیا،جب تک وہ نکل گئے تھے ،اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے انہوں نے ستو اور توشے جو اُن کے ساتھ تھے راستے میں پھینک دیئے تھے ۔ اورسویق عربی زبان میں ستو کو کہاجاتاہے ، اِسی لیے اِس غزوہ کو غزوہ سویق کہتے ہیں ۔

محترم قارئین ! انہیں چند کلمات پر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں ، اِن شاءاللہ کل ٹھیک اِسی وقت سیرت طیبہ کی تازہ جھلکیوں کے ساتھ پھرملیں گے ،تب تک کے لیے اجازت دیجئے ۔ اللہ حافظ 

ليست هناك تعليقات: