الخميس، فبراير 28، 2013


غزل
ساگر تیمی

ہمیں نہیں تو خود ہی کو سوار رہنے دے

کسی کو شہر میں تو با وقار رہنے دے

ہمارے واسطے یہ شہر بے اماں بھی بہشت

میری بلا سے مجھے بے دیار رہنے دے

یہی کرم ہو اگر رکھ مجھے دوا سے الگ

مریض عشق ہوں بس بیقرار رہنے دے

ہمارے پاس جو آے تو دل کے ساتھ آے

اور اپنے گھر میں سبھی کار و بار رہنے دے

تمہاری یاد ہو پر یہ بھی کیا ضروری ہے

خزاں کو رہنے دے اور نہ بہار رہنے دے

شہر سے گاؤں میں آکر وہ کہا کرتا ہے

خدایا یوں ہی فضا خوشگوار رہنے دے

بہت وفا بھی یہاں منہ کی کھائیگی ساگر

چھپا وفا میں تھوڑا کاروبار رہنے دے

هناك تعليق واحد: