غزل
ساگر تیمی
ہمیں نہیں تو
خود ہی کو سوار رہنے دے
کسی کو شہر میں
تو با وقار رہنے دے
ہمارے واسطے یہ
شہر بے اماں بھی بہشت
میری بلا سے
مجھے بے دیار رہنے دے
یہی کرم ہو اگر
رکھ مجھے دوا سے الگ
مریض عشق ہوں بس
بیقرار رہنے دے
ہمارے پاس جو آے
تو دل کے ساتھ آے
اور اپنے گھر
میں سبھی کار و بار رہنے دے
تمہاری یاد ہو
پر یہ بھی کیا ضروری ہے
خزاں کو رہنے دے
اور نہ بہار رہنے دے
شہر سے گاؤں میں
آکر وہ کہا کرتا ہے
خدایا یوں ہی
فضا خوشگوار رہنے دے
بہت وفا بھی
یہاں منہ کی کھائیگی ساگر
چھپا وفا میں
تھوڑا کاروبار رہنے دے
هناك تعليق واحد:
بہت خوب ،
إرسال تعليق