الأربعاء، فبراير 27، 2013

مولانا ابوالکلام آزاد کی ادبی بصیرت


ثناء اللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی

              مولانا آزاد اپنی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ۔ علم و سیاست کی جس وادی میں آپ نے قدم رکھا اپنے انمٹ نقوش ثبت کردیے ۔قدرت نے آپ کو خلاقانہ ذہن سے نوازاتھا ۔ شعور و فکر کے جتنے گوشے آپ کے افکار عالیہ سے روشن ہوئے وہ آپ ہی کا حصہ ہیں ۔ ایسے بالعموم آپ کو اپنی سیاسی بالغ نظری ، علمی وقار اور دینی خدمات کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن آپ کی ادبی بصیرت اور ادبی خدمات کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے ۔
        مولانا آزاد کی ادبی بصیرت کو سمجھنے کی راہ میں  مولانا آزاد کی زندگی کے کئی سارے پہلو ہماری مدد کرتے ہیں۔ یہ معلوم بات ہے کہ مولانا آزاد نے سب سے پہلے نہایت کم عمری میں ایک ادبی گلدستہ جاری کیا۔ خدنگ نظر کی اہمیت سے اس لیے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہمیں مولانا کے ذہنی اپروچ سے باخبر کرتا ہے ۔ اس سے بڑی ادبی بصیرت کیا ہوسکتی ہے کہ شاعری ایک انسان کے بچپن کا شوق ہو اور تھوڑا بڑا ہوکر وہ اس سے کنارہ کشی اختیار کرلے یہ سوچ کرکہ  اس کے لیے نثر زیادہ بہتر پیرایہ اظہار ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ ہر کوئی مولانا کے اس اقدام کی ستائش کرگا ۔
        مولانا کے رسالے لسان الصدق پر اگر نظر ڈالی جائے تو مولانا کی ادبی بصیرت اور بھی واشگاف ہوکرہمارے سامنے آتی ہے ۔ مولانا نے جس طرح ترجمہ کے مسائل پر اظہار خیال کیا ہے ، اصطلاحات کے اسرار و رموز سے  پردے ہٹائے ہیں اور لسانیاتی گتھیاں جس طرح سے آپ نے سلجھانے کی کوشش  کی ہے  اس سے آپ کی علمیت و گیرائی کے ساتھ ہی آپ کی ادبی بصیرت اور ذوق کا پتہ چلتا ہے ۔
          ارباب علم ودانش کو پتہ ہوگا کہ  مولانا عبد الماجد دریا بادی کے ساتھ حظ و کرب اور درد والم کی  بحث کتنی دلچسپ رہی تھی اور اس معاملے میں مولانا کے کٹر نکتہ چیں ماہر القادری نے  بھی مولانا کے موقف کی ہی تائید کی تھی ۔ مولانا کی ادبی بصیرت کے بہیترے  دلکش نمونے   ان کی کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں ۔ الھلال اور البلاغ سے لے کر تذکرہ ، ترجمان القرآن اور غبار خاطرکی  ایک ایک سطر آپ کے ادبی ذوق اور لسانی شعور کی غمازی کرتی ہے ۔ بر محل اشعار کے استعمال کا معاملہ ہو ، سجے سجائے نک سک سے درست جملوں کو نگینے کی مانند جڑنے کا معاملہ ہو ، اسلوب کی گرمی اور جذبے کی صداقت کا معاملہ ہو ، یا زبان و بیان کے تجدیدی اور خلاقانہ استعمال کا معاملہ ہو ہر جگہ آپ کی یہ بصیرت جلوہ گر ہے ایسےنہیں کہا گیا کہ اگر قرآن کریم نہ نازل ہو چکا ہو تا تو اس کے لیے ابوالکلام کی نثر یا اقبال کی نظم کا انتخاب عمل میں آتا ۔
            یہاں اس بات کا ذکر فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ مولانا نے اپنے گہر بار قلم سے جہاں علم و دانش کے کئی گوشے روشن کیے وہیں زبان وادب کے گلشن بھی آپ کی نظر عنایت سے محروم نہ رہے ۔ آزادیات کے ماہر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کی تحقیق کے مطابق مولانا نے اردو کے اندر تین سو سے زیادہ الفاظ رائج کیے ۔ بادی النظر میں یہ بات بڑی معمولی نظر آتی ہے لیکن غور کرنے پر  اس کی اہمیت و عظمت کا احساس ہوتا جاتا ہے ۔
       زبان وادب کا یہی شعور اور یہی بصیرت تھی جس نے قرآن حکیم کی لازوال تفسیر ترجمان القرآ ن سے ہمیں نوازا ۔ یوں تو قرآن کے  بہت سے ترجمے ہوئے لیکن وہ جو کہتے ہیں  نا
وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
رشید احمد صدیقی نے بجاطور پر یہ بات کہی ہے کہ قرآن کے اسلوب و آہنگ کو اگر اردو میں کسی نے منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے تو وہ مولانا ابوالکلام آزاد ہیں ۔ اور سوچا جاسکتا ہے کہ اس کے لیے کس قدر ادبی بصیرت کی ضرورت ہوگي۔
        مولانا پر عام طور سے مشکل پسندی کا الزام لگایا جاتا ہے اور عربی فارسی کے الفاظ کے بے جا استعمال کا شکوہ کیا جاتا ہے بعض حضرات تو ان پر اس سلسلے میں زبان درازی کے بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ مولانا کا کوئی ایک اسلوب نہیں ۔ وہ موقع اور محل کے اعتبار سے اسلوب اپناتے ہیں ۔ تذکرہ علما کے لیے لکھا تو اس زمانے کے علما کے اسلوب و آہنگ میں لکھا ، الھلال اور البلاغ کا مقصد امت کو بیدار کرنا اور عمل پر ابھارنا تھا تو اسی جوش وآہنگ کا سہارا لیا گیا ، ترجمان القرآن عام آدمی کے لیے لکھا گیا تو بالکل سلیس اور سادہ زبان استعمال کی گئی اور غبار خاطر کے اندر دل و نگاہ کی داستان چھیڑنی تھی تو رنگین ادبی اسلوب اختیار کیا گیا ۔اور یہ اگر کسی چیز کا پتہ دیتا ہے تو اس بات کا کہ مولانا کا لسانی زاویہ کتنا روشن اور ادبی بصیرت کتنی پختہ تھی ۔ آپ کے دفتری احکامات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ نے کس طرح انگلش کے بر محل الفاظ کے استعمال سے اردو کو  عام غیر اردوداں  انسان کے لیے بھی قابل فہم بنانے کی کا میاب کوشش کی ہے ۔
یہاں چند مثالوں کے ذریعہ اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ تذکرہ کے اندر مولانا کا جاہ وجلال ،  زبان وبیان کا جوش وخروش اور ان کا عربی فارسی آمیز رویہ دیکھیے ۔
'پس حقیقت وہی ہے جس کو وحی الہی اور حاملین منصب نبوت علی الخصوص آخرھم و اعظمھم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب و اتباع نے دنیا کے آگے پیش کیا اور شک و ظن کی ظلمت و محجوبیت کی جگہ علوم سماویہ و نبویہ کی یقینیات وبراہین کا دروازہ نوع انسانی پر کھول دیا ، اور جس کے علم و عمل کا نمونہ سلف صالح و اوائل امت مرحومہ من السابقون الاولون من المھاجرین و الانصار والذین اتبعھم باحسان من ورثہ الانبیاء و خلفاء الرسل و ائمۃ الھدی ، رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ نے اخلاف و آخرامت کو ہمیشہ کے دکھلادیا ۔ اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون۔'(تذکرہ ص 177 )
اب ذرا دیکھیے  کیا ایک یہی عبارت اس بات کے اثبات کے لیے کافی نہیں کہ در اصل اس کتاب کا مخاطب وہ طبقہ علماء ہے جس کے اندر عقیدے کی خرابیاں در آئی ہیں لیکن وہ اپنے کو علم و دانش کے میدان میں پیچھے نہیں سمجھتا ۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو سمجھانے کے لیے ایسے ہی طرز خطاب کی ضرورت تھی ورنہ وہ سرے سے کمتر سمجھ کر درخور اعتنا ء ہی نہ سمجھتے لیکن مولانا کا یہی اسلوب غبار خاطر میں ہمیں نہیں ملتا ۔
             'میں آپ کو بتلاؤں ، میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہتر تصور کیا ہوسکتاہے !جاڑے کاموسم ہو ، اور جاڑا  بھی قریب قریب درجہ انجماد کا ، رات کا وقت ہو ، آتشدان میں اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں ، اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھاہوں ، اور پڑھنے لکھنے میں مشغول ہوں
من ایں مقام بدنیا و عاقبت ندہم
اگرچہ در پیم افتند خلق انجمنے
معلوم نہیں بہشت کے موسم کا کیا حال ہوگا ! وہاں  کی نہروں کاذکربہت سننے میں آیا ہے ، ڈرتا ہوں کہ کہیں گرمی کا موسم نہ رہتا ہو!
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے ، وہ تری جلوہ گاہ  ہو
عجیب معاملہ ہے ۔ میں نے بارہا غور کیا کہ میرے تصور میں آتشدان کی موجودگی کو اتنی اہمیت کیوں مل گئی ہے ! لیکن کچھ بتلانہیں سکتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ سردی اور آتشدان  کا رشتہ چولی دامن کا رشتہ ہوا ۔ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے ۔ میں سردی کے موسم کا نقشہ اپنے ذہن میں کھینچ ہی نہیں سکتا ، اگر آتشدان نہ سلگ رہا ہو ، پھر آتشدان بھی وہی پرانی روش کا ہو نا چاہیے ، جس میں لکڑیوں کے بڑے بڑے کندے جلائے جاسکیں ، بجلی کے ہیٹر سے میری تسکین نہیں ہوتی ، بلکہ اسے دیکھ کر طبیعت چڑ سی جاتی ہے ۔'  (غبار خاطر ص 172 )
         اب ذرا فیصلہ کیجیے کہ دونوں اسلوب  میں کس قدر فرق پایا جاتا ہے ۔ جہاں تذکرہ میں گھن گرج اور جوش وخروش کے ساتھ علمیت کی گہری چھاپ ہے وہیں یہاں گفتگو کا طرز و انداز ہے  اور وہ بھی چاشنی اور لطف کے ساتھ ۔کیا اس کے بعد بھی اس اعتراض کو درست سمجھا جاسکتا ہے کہ مولانا کے یہاں  لفاظی اور ثقالت کا طومارہے ۔ اور اگر ترجمان القرآن پر ایک نظر ڈال لی جائے تو یہ حقیقت اور بھی روشن ہو جائیگی ۔
مولانا لکھتے ہیں ۔
' خدا کی سچائی ، اس کی ساری باتوں کی طرح ، اس کی عالمگیر بخشش ہے ۔ وہ نہ تو کسی خاص زمانے سے وابستہ کی جاسکتی ہے ، نہ کسی خاص نسل و قوم سے ، اور نہ کسی خاص مذہبی گروہ بندی سے ۔تم نے اپنے لیے طرح طرح کی قومیتیں اور اور جغرافیائی اور نسلی حد بندیاں بنالی ہیں ، لیکن تم خدا کی سچائی کے لیے کوئی ایسا امتیاز نہیں گھڑ سکتے ، اس کی نہ تو کوئی قومیت ہے ، نہ نسل ہے ، نہ جغرافیائی حد بندی ،نہ جماعتی حلقہ بندی ۔وہ خدا کے سورج کی طرح ہر جگہ چمکتی اورنوع انسانی کے ہر فرد کو روشنی بخشتی ہے ۔ اگر تم خدا کی سچائی کی ڈھونڈھ میں ہو تو اسے کسی ایک ہی گوشے میں نہ ڈھونڈھو ۔ وہ ہر جگہ نمودار ہوئی ہے اور ہر عہد میں اپنا ظہور رکھتی ہے ۔ تمہیں زمانوں کا ،قوموں کا ، وطنوں کا ، زبانوں کا اور طرح طرح کی گروہ بندیوں کا پرستار نہیں ہونا چاہیے۔صرف خدا کا اور اس کی عالمگیر سچائی کا پرستار ہونا چاہیے اس کی سچائی جہاں کہیں بھی آئی ہو اور جس بھیس میں بھی آئی ہو ، تمہاری متاع ہے اور تم اس کے وارث ہو ۔(ترجمان القرآن جلد اول ص 411 )۔
مالک رام ترجمان القرآن میں پیش کیے گئے ترجمہ پر اپنی کتاب ' کچھ ابوالکلام کے بارے میں ' میں اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں :
'   یہ ترجمہ  ادبی لحاظ سے بھی  اتنا حسین اور برجستہ ہے کہ اسے ادبی تخلیق کا درجہ دیا جانا چاہیے تھا ۔افسوس کہ اس پہلو سے کوئی توجہ نہیں کی گئی ۔ مثال کے طور پر صرف سورہ فاتحہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو :
اللہ کے نام سے جو الرحمان الرحیم ہے ۔
ہر طرح کی ستائش اللہ ہی کے لیے جوتمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے ۔ جورحمت والاہے ، اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالا مال کررہی ہے ، جو اس دن کا مالک ہے ، جس دن کاموں کابدلہ لوگوں کے حصے میں  آئیگا۔ (خدایا!) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے ، جس سے (اپنی ساری احتیاجوں میں ) مدد مانگتے ہیں ۔ (خدایا !) ہم پر سعادت کی سیدھی راہ کھول دے ، وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہوئی جن پر تونے انعام کیا ۔ ان کی نہیں جو پھٹکارے گئے ۔ اور نہ ان کی جو راہ سے بھٹک گئے ۔
اس پر ترجمہ کا گمان ہی نہیں ہوتا ۔ بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مصنف نے اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے اسے اصل میں لکھا ہی اس طرح ہو ۔'(ص83 )
 مولانا آزاد کا اسلوب ضرورتوں اور مواقع اور محل کے اعتبار سے بدلتارہاہے اور جس مصنف اور ادیب کو اس کی قدرت  ہو اور سامعین کی سمجھ کے مطابق باتیں رکھنے کا  اسے گڑ آتا ہو اس کی ادبی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ مولانا کی ادبی بصیرت کے اس بحث کو ہم مولانا کے  اس اقتباس پر ختم کرنا چاہینگے جس کے اندر مولانا کا لسانی شعور بھی جلوہ گر ہے اور ادبی نیرنگی بھی ۔ اصطلاح     و ظائف کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں :
اصلی عبارت میں لفظ function ہے ۔انگریزی میں فنکشن اور ڈیوٹی دوایسے لفظ ہیں جن کے معنی اگرچہ متحد ہیں مگر محل استعمال مختلف ہے ۔عربی میں فنکشن کے لیے بحالت مفرد ' وظیفہ ' اور بحالت جمع 'وظائف ' آتا ہے ۔ ڈیوٹی کے لیے بحالت مفرد 'واجب ' اور بحالت  جمع ' واجبات ' استعمال کیا جاتا ہے  ۔ لیکن اردو میں فنکشن اور ڈیوٹی دونوں کے لیے لفظ ' فرض' ہی بولاجاتاہے جو اگرچہ اصولا غلط نہیں ہے مگر توسیع زبان اور تدقیق علمی کے لحاظ سے صحیح نہیں ۔اسی لیے ایک  عرصے سے ہم وظیفہ اور وظائف کو فرائض کےمعنوں میں استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنے صحیح معنوں میں یہ الفاظ رائج ہو جائیں ۔ یہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ اردو کے بڑے بڑے مترجموں نے بھی آج تک اس فرق کو محسوس نہیں کیا ، اور ہر جگہ فرض ہی کا لفظ لکھتے رہے ۔ جب تک ملک میں عربی داں مترجم علوم جدیدہ پیدا نہ ہوں گے ، اردو کی بد بختی لاعلاج رہے گی ۔ اس حقیقت پر روئیے تو بہت سے مدعیان علم وتراجم کو شاق گذرتا ہے ۔ یہ دوسری مصیبت ہے ۔' (مولانا ابوالکلام آزاد  فکرو عمل کے چند زاویے :ڈاکٹر وہاب قیصرص62 )

هناك تعليق واحد:

غير معرف يقول...

من أحسن المقالات وأكثرهاجودة و أحاطة باكمعارف حول البصيرة الصحافية عند امام الهند أبي الكلام آزاد_جزاكم الله أحسن الجزاء