ثناءاللہ صادق تیمی
ریسرچ اسکالر،
جواہرلال نہرو یونیورسٹینئی دہلی-67
09013588985
sagartaimi@gmail.com
اگر مختصر لفظوں میں
یہ کہا جاے کہ مدارس کا بنیادی مقصد دعاۃ الی اللہ تیار کرناہے تو غلط نہ ہوگا ۔
اس سلسلے میں اگر ہم مدارس کی تاریخ نظر میں رکھیں تو اور بھی آسانی ہوگی اس حقیقت
کو سمجھنے میں ۔ بر صغیر میں جب مغلیہ سلطنت کا زوال عمل میں آیا اور ہمارے علماء کو حالات کی گردش نے سمجھادیا کہ اب حکومت واپس
ملنے والی نہیں اور اب ہم دوسروں کے رحم و کرم پر جینے پر مجبور ہیں تو انہوں نے
اپنی فراست و بصیرت سے اس کا اندازہ لگایا کہ ان کے دین ، ان کے ایمان اور ان کی
تہذیب کی حفاظت بھی انہیں خود ہی کرنی پڑیگی اس کے بغیر ان کا سارا سرمایہ ضائع ہو
جائیگا اور سارے حسیں نقوش محو ہوجائینگے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت
علماء نے جس فہم و فراست کا ثبوت دیا وہ خود علماء کی تاریخ میں بہت کم دیکھنے کو
ملا۔
پھر دیکھتے
دیکھتے مدارس کا جال بچھ گیا اور یہ تو مدارس کے مخالفین تک کو ماننا پڑیگا کہ
مدارس نے برصغیر کے اندر دین اسلام کو زندہ و تابدار رکھنے میں سب سے اہم کردار
ادا کیا ۔ ایک لمبی مدت تک مدارس اپنے اختیار کیے ہوے راستے پر چلتے رہے اور ان سے
امت کا فائدہ بھی کسی نہ کسی شکل ہوتا رہا۔ لیکن جیسا کہ حالی نے کہا
ثبات اک
تغیر کو ہے زمانے میں
سو حالات
بدلے اور مادیت نے تھوڑا زیادہ ہی ہوا بولنا شروع کردیا ۔ اور یہ مطالبے بڑھنے لگے
کہ مدارس کی جدید کاری عمل میں آنی چاہیے اور اب فارغین مدارس اسلامیہ بھی دنیاوی
اعتبارسے مضبوط ہوں ، اس کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس کا
مطالبہ پہلے پہل مدارس کے خوشہ چینوں کی طرف سے نہیں کیا گیا بلکہ روشن خیالان امت
مرحومہ کی طرف سے یہ پرزور آواز آئی اور بیچارے مولانا کہ احساس کمتری کی دولت سے
تو مالا مال ہوتے ہی ہیں جھٹ اس آواز پر لبیک کہ اٹھے اور اندھادھوند تبدیلیاں عمل
میں آگئیں ۔ اور اب رونا اس بات کا ہے کہ مدارس کے فارغین بھی دین کے علمبردار
نہیں رہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان کو بنایا کب گیا دین کا علمبردار؟ جو بو کر انار کی
تمنا کرنا عقلمندی نہیں ہوتی ۔
حالات کے
مطابق حصول مقاصد کے ذرائع تبدیل کیے جاتے ہیں خود مقاصد نہیں ۔ ہم مدارس والوں کا
جرم یہ ہے کہ ہم نے مقاصد تبدیل کردیئے اور ذرائع ہی کو مقصد سمجھ لیا ۔ اس اجمال
کی تفصیل یہ ہے کہ بلا شبہ حالات کی مانگ تھی کہ ہم اپنے یہاں طلبہ کو کمپیوٹر کی
تعلیم دیں اور ان کو انگریزی زبان میں ماہر کریں اور منطق وفلسفہ کی جگہ جدید
سائنس کی تعلیم کا نظم کریں لیکن ہم اپنے بچوں کی یہ تربیت بھی کریں کہ ان تمام کا
بنیادی مقصد در اصل زیادہ بہتر طریقے سے دین کی اشاعت و تبلیغ کا کام لینا ہے ۔ ہم
نے اس کی بجاے اپنے بچوں کا یہ ذہن بنانا شروع کردیا کہ دین کے راستے میں کیا رکھا
ہے ، لوٹا پچکاکر کیا کروگے ، باہر نکلو، دنیا دیکھو، پیسے ہونگے ، دولت ہوگی تو
لوگ عزت کرینگے اور تمہاری بات سنی جائيگی ۔ کیا یہ سوچنے کی بات نہیں ہے کہ ایک
بڑے دینی ادارہ کا شیخ الحدیث اپنے اس شاگرد کا مذاق اڑاے جو دعوت کا کاز سنبھالنا
چاہتا ہو۔ انسان کا فارغ البال ہونا اچھی بات ہے لیکن اس پر تعلیم دین کی ساری
عظمتوں کو قربان کردینا کہاں کا انصاف ہے اور پھر ہم کیا توقع باندھ سکتے ہیں ؟
سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیاوی ترقی اورجاہ و حشمت ہی درکار تھی تو
مدارس کا قصد کیوں کیا گیا ؟ ایسے ادارے کیوں نہ اختیار کیے گئے جوعلی الاعلان
انسان کو دنیاوی طور پر بہتر کریئر دینے کی بات کرتے ہیں ؟؟؟
اہل مدارس
کو یہ طے کرنا پڑیگا کہ ان کا مقصد اصلی کیا ہے اور اگران کو دعوت و تبلیغ کے
علاوہ کچھ اور مقصد نظر آتا ہے توان کو بلا جھجھک یہ مشورہ دیا جانا چاہیے کہ پھر
اللہ کے واسطے مدارس کو تو بد نام مت کیجیے ۔ یہ کس قدر منافقانہ روش ہے کہ ہم
چلاتے ہیں دینی ادارے اور چاہتے ہیں کہ دنیاوی کاریگر، صنعت کار اور بزنیس مین
پیدا کریں ۔ پھر ذرا ان کے بارے میں سوچاجاے جو مدارس کی تاسیس کے پیچھے اپنے
دنیاوی مقاصد کارفرما رکھتے ہیں اور خطا معاف کہ ایسے بہی خواہان امت مرحومہ کم
نہیں ہیں ۔ یاد آتے ہیں اقبال
مجھکو تو
میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا
بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
نذرانہ
نہیں سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہ
ثالوث میں روپوش مہاجن
لیکن ظاہر
ہے کہ ہم مادیت کو صرف گندگی یا لعنت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے بہر حال مادہ انسان
کی ضرورت بھی ہے اور اس ضرورت کی تکمیل ضروری بھی ہے ۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ
کیا ہم اپنے علماء و دعاۃ کی اس ضرورت کی تکمیل کرپاتے ہیں ؟ کیا ہم انہیں معاشی
اعتبار سے فارغ کرپاتے ہیں ؟ کیا ہم ان کو ان کا واجب احترام دے پاتے ہیں ؟ کیا
ہمارا معاشرہ جس طرح علماء کو نماز میں امام مانتا ہے کیا اسی طرح وہ دوسرے سماجی
معاملات میں بھی علماء کی اقتداء کرنے کو تیار ہے ؟؟؟
ایک طرف ہم
علماء کے اندر در آئی دنیاداری پرآنسو بہاتے ہیں اور دوسری طرف ہمارا رویہ یہ بھی
ہے کہ ہم ایک عالم کی بنیادی ضرورت تک کا خیال نہیں کرتے ۔ اگر دیندار لیکن نسبتا
معاشی اعتبار سے کمزور عالم کا پیغام ہماری بچی کے لیے آئے تو ہم آسانی سے
ٹھکرادیتے ہیں بلکہ انصاف تو یہ ہے کہ اس کو اس کی جراءت بیجا سمجھتے ہیں اور کبھی
کبھی تو چراغ پا بھی ہو جاتے ہیں ۔ اس لیے علماء بھی احساس کمتری کے شکار ہو جاتے
ہیں ۔ میں ذاتی طور پر کئی ایک عالم کو جانتا ہوں جو اپنی دینی تعلیم کو اپنی
منحوسیت کا سبب مانتے ہیں اور مدرسوں سےفارغ ہونے کے باوصف خود کو فارغ کہنے سے
کتراتے ہیں کہ ان کی اہمیت گھٹ جائیگی ۔ اساتذہ اگر اپنے طلبہ کو مدارس میں دنیا
کمانے پر اکساتے ہیں تو دراصل اس کے ڈانڈے بھی ان کے انہیں تلخ تجربات سے ملتے ہیں
کہ ان کی مضبوط صلاحیت نے ان کوسماج میں ان کا جائز مقام نہیں دیا اور رد عمل کے
شکار ہوگئے ۔ لیکن ظاہر کہ اس رد عمل کو کبھی بھی درست نہیں کہا جا سکتا لیکن کیا
کیا جاے کہ بہر حال علماء بھی سماج ہی کا حصہ ہوتے ہیں ۔
اس پوری
تفصیل کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہمیں کئی سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تب جا کر
ہمارے مدارس اپنا کردار ادا کر پائینگے ۔
1- ہم یہ طے رکھیں کہ ہمارا مقصد بنیادی طور پر دین
کی اشاعت و تبلیغ ہے ۔
2- ہم اس کا انتظام کریں کہ ہم اپنے اساتذہ کو اتنی
تنخواہ ضرور دینگے جس سے ان کی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور وہ قلاشیت کے شکار نہ ہوں
۔
3- ہم عمارتوں کی بجاے اپنے طلبہ کی بہتر ذہنی تربیت
پر دھیان دیں اور اچھی صلاحیت کے اساتذہ کی تقرری عمل میں لائیں ۔ اگر غیر ضروری
اخراجات پر قابو پا لیا جائے تو یہ اتنا مشکل بھی نہیں ۔
4- نصاب تعلیم کو حالات کے مطابق ضرور ڈھالیں لیکن
ایسا بالکل بھی نہ ہو کہ ہم اپنا اصل مقصد ہی فراموش کردیں ۔ یاد رہے کہ ہمارا
مقصد دعاۃ تیارکرنا ہے کلرک یا بزنس مین نہیں ۔
5- بڑے بڑے سپنے تھبی شرمندہ تعبیر ہو پائینگے جب
ہمارے پاس وسائل بھی مضبوط ہوں ۔ اس کے لیے ہماری یہ کوشش ہو کہ ہم اداروں کو
معاشی اعتبار سے خود مختار بنا پائیں ۔ بعض دینی اداروں نے اس سلسلے میں بہتر پیش
رفت کی ہے
6- ہم اپنا رابطہ عوام سے مضبرط رکھیں تاکہ ان کے
اندر در آئی خرابیوں کا بر وقت علاج کیا جا سکے ۔
7- عملی طور پر خاص طورسے مدارس کے منسوبین علماء کی
قدردانی کے نمونے پیش کریں اور سماج کو اس کے لیے تیار کریں
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق