صفات عالم محمد زبير تيمي
ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کی ایک چلتی بس میں وحشی درندوں کے
ذریعہ اجتماعی عصمت دری کا شکار ہوئی طالبہ کی موت پر الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا میں
تاہنوز بحث جاری ہے ،اس درمیان مبصرین ، سیاسی قائدین اور تجزیہ کاروں کی عجیب
وغریب رائیں سننے اور پڑھنے کوملیں، کوئی مجرمین کو سخت سے سخت سزا سنانے کی مانگ
کررہا ہے ،تو کوئی ایسی قانون سازی کا مطالبہ کررہا ہے جس کی بنیاد پر کسی کو ایسے
جرم کے ارتکاب کی جرات نہ ہوسکے ، کوئی اس طرح کے ملزمین کو نامرد کرنے کی تجویز
پیش کررہا ہے ،کوئی خواتین کے تنگ لباس پرپابندی کی مانگ کررہا ہے تو دوسری طرف اس
کے ردعمل میں آزادی نسواں کی تنظیمیں اسے اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر
الٹے مردوں کو اپنی سوچ بدلنے کی دعوت دے رہی ہیں ،یہ بحثیں ابھی جاری ہی ہیں کہ
اسی اثناءعصمت دری کے بعد قتل کے کئی دیگرواردات سامنے آئے ہیں،اور آتے ہی رہیں گے،یہ
سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے، جب تک کہ انسان اپنے خالق ومالک کے دئیے ہوئے نظام کی
طرف لوٹ نہ آئے کہ صانع ہی اپنی مصنوعات کی حقیقت کو صحیح طور پر سمجھتا اوراسے
استعمال کرنے کا بہترین طریقہ بتا سکتا ہے ،بعینہ خالق ہی مخلوق کی نفسیات سے پوری
طرح آگاہ ہے، اوراس کی طبیعت سے ہم آہنگ قانون اورضابطہ بنا سکتا ہے ،اس لیے جب ہم
بحیثیت مسلمان اس مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اس کا حل صرف اورصرف اسلام ہی
دکھائی دیتا ہے، اورمجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے حوالے سے نام نہاد مبصرین
جورائے زنی کررہے ہیں وہ مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ یہ محدود انسانی سوچ کا نتیجہ
ہے اور رائے دینے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے خالق کی پہچان نہیں رکھتے اور اس کے
نظام کو سمجھنے سے قاصر ہیں.
جبکہ اسلام دین فطرت ہے ،اس کی
جملہ تعلیمات انسانی طبیعت سے ہم آہنگ ہیں ، چنانچہ اسلام نے مردوعورت کے تئیں
فطری نظام یہ پیش کیا کہ اسلام کی نظر میں عورت اور مرد دونوں برابر ہیں ،اور ان
کی دنیوی واخروی کامیابی کے اصول بھی ایک ہیں، البتہ مرد وں اور عورتوں میں مردوں
کی بنسبت عورتوں کی اہمیت زیادہ ہے اور یہ نازک بھی ہیں اس لیے اِس کی حفاظت کی
زیادہ ضرورت ہوتی ہے، طبعی طور پر ہم اس نزاکت کو سمجھتے ہیں،اسی لیے اگر ایک شریف
باحیا اور باپردہ لڑکی سڑک سے گذر رہی ہو ،اسی کے پیچھے دوسری لڑکی چل رہی ہے جو
بے پردہ ہے ،شوخ اور تنگ لباس زیب تن کی ہوئی ہے تو اوباش لڑکے ظاہر ہے کہ پہلی
لڑکی کی طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہ دیکھیں گے جبکہ دوسری لڑکی کو گھوڑ گھوڑ کردیکھیں
گے ، اس سے چھیڑخوانی بھی کرسکتے ہیں ، کیونکہ نگاہ ہوس فتنہ انگیز حسن کا مشاہدہ
کرچکی ہے ۔
آپ خود سوچیں کہ اگر آپ کا
لڑکا شام چاربجے گھر سے بازار جاتا ہے اور دس بجے رات میں لوٹتا ہے تو آپ کو کسی
طرح کی فکرمندی لاحق نہ ہوگی ،اس کے برخلاف اگر آپ کی جوان لڑکی چار بجے بازار
جاتی ہے اور دس بجے رات سے پہلے بازار سے لوٹ کر نہیں آتی تو آپ پریشان ہوجائیں گے
،کرب واضطراب کی کیفیت طاری ہوجائے گی،اورذہنی الجھنیںچاروںطرف سے گھیرلیں گی کہ
یہ فطرت کی آواز ہے۔ اسی فطرت کی رعایت کرتے ہوئے اسلام عورت کو معاشی جدوجہد سے
آزاد کرکے مردکے سر عورت کی معاشی ذمہ داری ڈالتا ہے اوراس طرح دونوںکا دائرہ
کارمتعین کرتا ہے کہ مردکو باہر کی ذمہ داری اٹھانی ہے اورعورت کو گھر کی ملکہ
اورچراغ بن کر رہنا ہے کیونکہ اسی میں اس کی رونق ہے ، اس کے باوجود عورت اگر اپنے
ذوق اوررجحان کے مطابق اسلامی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی کام کرنا چاہتی
ہے تو اسلام اس پر کوئی قدغن نہیں ڈالتا ،لیکن عورت بہرصورت پردہ ہے اس لیے اس کا
حسن پردہ میںہی جھلکتا ہے ۔
پھراسلام نے خواتین کوتحفظ
فراہم کرنے کے لیے ایسی سنہری ،ہمہ گیر اور ہمہ جہت تعلیم دی کہ اگرانسان اسے عملی
زندگی میں جگہ دے تو سماج اورمعاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن جائے اور جرائم
خودبخود ختم ہوجائیں ۔ اس سلسلے میں اسلام سب سے پہلے دل کی نگہداشت پرزور دیتے
ہوئے اس میں اللہ پاک پر پختہ یقین واعتماد کو بحال کرتا ہے جو سمیع وبصیر ہے ،جو
دلوں کے سربستہ رازوں اورآنکھوں کی خیانت سے بھی آگاہ ہے ،جس کی نگرانی سے انسان
ایک لمحہ کے لیے بھی نکل نہیں سکتا ،جس نے اس پر اپنے اطاعت شعار فرشتوں کو بھی
مقررکررکھاہے جو اس کی ایک ایک حرکت کا ریکارڈ تیار کررہے ہیں،کل قیامت کے دن اس
کی زبان پرمہر ڈال دی جائے گی اوراس کے وہ اعضاء وجوارح بھی اس کے خلاف گواہی دیں
گے جنہیں لذت پہنچانے کے لیے دنیا میں غیرت الہی کو چیلنج کیا کرتاتھا ،پھر وہ
زمین جہاں پر کام ودہن کا سامان فراہم کیاتھا کل قیامت کے دن اس کی حریف بنی کھڑی
ہوگی ۔
یہ احساس پیدا ہونے کے بعد
انسان ایک ذمہ دار ہستی بن جاتا ہے، اس کے دل میں ایک پولس چوکی بیٹھ جاتی ہے،جو
ہمہ وقت اس کی نگرانی کرتی رہتی ہے، یہ فطری بات ہے کہ انسان کے اندرجب کسی گناہ
کاداعیہ پیدا ہوتا ہے تووہ انسانوں کی نگاہ سے بالکل روپوش ہوکر گناہ کرتا ہے کہ
مبادا اگرکوئی دیکھ لے تو ہماری سبکی ہو گی،اب ظاہر ہے کہ جس اللہ کے ساتھ وہ
معاملہ کررہا ہے اس کی نگاہ سے وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی چھپ نہیں سکتا ،ایسی صورت
میں اس کے اندراللہ کے حکم کو پامال کرنے کی قطعاً جرات پیدا نہیں ہوسکتی
،اوراگرنفس امارہ کے بہکاوے میں کبھی چوک ہوگئی تواس کا ضمیر اس کو فوراً ملامت
کرتا ہے ،بالآخر وہ توبہ واستغفار کے ذریعہ اپنے رب کی مغفرت کا طلبگار ہوتاہے،
اسی احساس کی بنیادپر بیداری ضمیر کا ایسابے نظیرنمونہ سامنے آتا ہے کہ ماعز اسلمی
اور غامدیہ جیسے لوگ جن سے خلوت میں زنا ہوگیاتھا کشاں کشاں دربار نبوت میں حاضرہوتے
ہیں اور اپنے گناہ کا اعتراف کرکے اپنے لیے سزاکا مطالبہ کرتے ہیں ،یہاں تک کہ
انہیں سنگسا رکردیا جاتا ہے ۔ اس احساس کے نمونے جہاں تاریخ کے درخشاں صفحات پر
سنہرے حروف میں لکھے ہوئے ملتے ہیں وہیں آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں ایسے
پاکیزہ نفوس پائے جاتے ہیں ۔
چندماہ قبل کا واقعہ ہے کہ
امریکہ کی ریاست اریزونا میں ایک کالج میں زیر تعلیم پانچ لڑکیاں اپنے ہم کلاس ایک
یمنی طالب علم عصام الشرعبی کی رہائش گاہ میں داخل ہوئیں، اندر سے تالے لگا دیے
اور اپنے کپڑے اتار کر اس کے کمرے میں داخل ہوگئیں۔لیکن عصام کھڑکی سے چھلانگ
لگاکر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ عصام نے نکلتے ہی فوراً پولس کو فون لگایا،
پولیس نے موقع پر پہنچ کر پانچوں لڑکیوں کو حراست میں لے لیا، تفتیش کے بعد پانچوں
لڑکیوں نے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسے کئی مرتبہ جنسی تعلقات کی
پیشکش کی تھی، لیکن اُس نے یہ کہہ کر ان کی تجویز مسترد کردی تھی کہ وہ ایک دیندار
مسلمان نوجوان ہے اور اس کا مذہب اسے اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کے ساتھ
جنسی تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔ (روزنامہ العربیہ13مئی2012)
جی ہاں! جب دل میں اللہ کا خوف
اوراپنے رب کے پاس جوابدہی کا احساس پیدا ہوتا ہے تو عفت وعصمت کے ایسے ہی نمونے
دکھائی دیتے ہیں کہ حسن وجمال کی پیکر دعوت گناہ دے رہی ہوتی ہے لیکن بندہ مومن اس
کو یہ کہتے ہوئے خاطر میں نہیں لاتا کہ ’مجھے اللہ کا ڈر ہے ۔ ‘
دل کو بدلنے اوراس میں اللہ کی
نگرانی کا احساس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے
لیے دوسرانظام یہ نافذ کیا کہ زنا کے محرکات پر بھی روک لگادی اورایسے احتیاطی
تدابیر تجویز کیے کہ زنا تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آئے ، چنانچہ اسلام نے
مردوخواتین دونوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا ،عورتوں کے لیے خاص حکم یہ دیا
گیا کہ وہ گھر میں استقراراختیار کریں ،اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آجائے تو پردے
کا پورا خیال رکھیں ،اپنی زینت وزیبائش کا اظہار نہ کریں،کسی غیرمحرم مرد سے بات
کرتے وقت لہجہ میں لچک نہ ہو بلکہ روکھاپن پایاجائے کہ مبادا کوئی بیمار دل غلط
توقع قائم کربیٹھے ،اورنہ اجنبی مردسے خلوت اختیار کریں ، نہ محرم کے بغیر سفر
کریں ۔ پھر اسلام نے نکاح کی ترغیب دلائی اوراس کی راہ میں پیدا ہونے والی رکاوٹوں
کو دورکرتے ہوئے ایسی شادی کو بابرکت قرار دیا جس میں اخراجات بہت کم ہوں، ازدواجی
زندگی میں الفت ومحبت کا ماحول بنے اس کے لیے شادی سے پہلے لڑکی کو دیکھ لینے کا
حکم دیا گیا ، اور شادی کے بعد خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے ایسی پاکیزہ تعلیمات
دی گئیں کہ ازدواجی زندگی جنت نظیر بنی رہے ۔ اوربیوی کے علاوہ کسی دوسری خاتون کی
طرف قطعاً اس کا دھیان نہ جائے ۔ ان ساری تدابیر کے باوجود چونکہ فحاشی میں بذات
خود وقتی لذت ہے ،اور معاشرے میں بیمار طبیعتیں پائی جاتی ہیں جن کے لیے نصیحت
اورتدابیر کوئی کام نہیں دیتیں ،ایسے وقت اگر اسلام نے محض دل کی تربیت اور
احتیاطی تدابیر پر اکتفا کیا ہوتا اورخبیث طبیعتوں کے لیے سزا مقررنہ کی گئی ہوتی
تواسلام کی تعلیم آفاقیت پر مبنی نہیں ہوسکتی تھی ،اسی لیے انسانی فطرت سے ہم آہنگ
اس مذہب نے حدود الہی کو پامال کرنے والوں کے لیے سخت سے سخت جسمانی سزا مقرر کی ،
چنانچہ زناکار مردوخواتین اگر شادی شدہ ہوں تو ان کے لیے رجم کا حکم دیا گیا،
اوراگر غیرشادی شدہ ہوں تو سوکوڑے اور ایک سال کے لیے جلاوطنی کی سزا تجویز کی گئی
۔ اور اس کی تنفیذ کے حوالے سے حکم یہ دیاگیا کہ رنگ ونسل اورامیری وغریبی کی تمیز
کے بغیر ہر مجرم کو مومنوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں سزا دی جائے تاکہ حاضرین
کے لیے نشان عبرت ہو اوربعد میں کسی کو ایسی شرمناک حرکت کے ارتکاب کی جرات نہ
ہوسکے ۔ اسی لیے اللہ پاک نے فرمایا: وَلَکُم فِی القِصَاصِ حَیَاة یَا اولِی
الاَلبَابِ (سورة بقرہ 179) ” اور اے اہل ِعقل! (حکمِ) قصاص میں (تمہاری) زندگانی
ہے“۔
یہ ہے اسلام کا وہ آفاقی نظریہ
جوبالکل ماڈرن اوراپٹوڈیٹ ہے ،ہرزمانے اورہرجگہ اورہرحالت میں اس نظام پر عمل کرکے
خوشگوار زندگی گذاری جاسکتی ہے ،جبکہ موجودہ زمانے میں آزادی نسواں کی جو تحریکیں
منظرعام ہر آئی ہیں ان کی بنیاد اس بات پر ہے کہ عرباینت،فحاشی اوربے راہ روی کو
انسانی معاشرے میں اعلی پیمانے پر فروغ دیاجائے ،ان کا مطالبہ ہے کہ مردوعورت
دونوں کو ایک میدان میں کام کرنے کی بالکلیہ اجازت ہونی چاہیے اس کے بغیر ان کے
درمیان مساوات باقی نہیں رہتا ، اوریہ نعرہ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کا فروغ دیا
ہوا ہے جو مغرب سے اٹھا اورپوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، ورنہ مشرقی تہذیب
میں عورت پردے کی عادی تھی ،یہاں تک کہ ہندووں کی مذہبی کتابوں میں پردے کا حکم
آیا ہے اورآج تک غیرمسلموں کے بعض مذہبی گھرانوں میں اس کا رواج چلا آرہا ہے ،خود
مغرب جو عیسائیت کی دہائی دیتا ہے ان کے مذہب میں مریم علیہا السلام کو باپردہ پیش
کیاجاتا ہے ،لیکن برا ہو سرمایہ دارانہ نظام کا جس نے دھرم اورروایت سب کو بالائے
طاق رکھتے ہوئے عورت کو چراغ خانہ سے شمع محفل بنادیا،اوراپنی تجارت کو فروغ دینے
کے لیے تجارتی اشتہارات میں عورتوں کے حسن کا خوب خوب استعمال کیا، اور خود عورتوں
نے اپنی عزت کی نیلامی کو بسروچشم قبول کرلیا ۔ اب میں پوچھناچاہتا ہوں آزادی
نسواں کی تنظیموں سے جو سوداگروں کے فریب میں مبتلا ہیں کہ اس آزادی نے آپ کو کیا
دیا، مردوں کے شانہ بشانہ چلیں لیکن مغربی ممالک میں بھی سوائے چند کے آپ کو
سربراہی حاصل نہ ہوسکی ،ہاں !آپ کے جسم کے ساتھ کھلواڑ کیاگیا،سرمایہ داروںنے آپ
کے حسن کا خوب خوب استعمال کرکے اپنی تجارت کو فروغ دیا،شہوت پرستوںنے آپ کو
ننگاکرکے شہوت کی آگ بجھائی ،پھر جب یہ فتنہ انسانی معاشرے میں آیا تو آپ پر جنسی
زیادتی عام ہونے لگی ،زنابالجبر کے واردات کثرت سے ہونے لگے ،چنانچہ امریکہ میں
کئے گئے ایک سروے کے مطابق ہرپانچ میں سے ایک عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی جنسی
زیادتی کا نشانہ بنتی ہے ،رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک منٹ کے دوران ۵۲ لوگ جنسی زیادتی ،تشدد
یا تعاقب کا نشانہ بنتے ہیں ۔ ہندوستان کے ایک تازہ جائزے میں برطانوی خبررساں
ایجنسی نے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اوسطا ہر 20
منٹ بعد کسی نہ کسی خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خبرکے مطابق
2011ءمیں بھارت میں ریپ کے واقعات کی تعداد 24 ہزار 206 رہی۔اورپاکستان میں پچھلے
ایک سال میں زنابالجبر اوراجتماعی زیادتی کے 827 واقعات منظرعام پر آئے ہیں ۔ اس
لیے ہمیں کہنے دیاجائے کہ آج اگردنیامیں زنا بالجبر کے واردات سامنے آتے ہیں تو یہ
دراصل استعماری دنیاکا شاخسانہ اورفطرت سے بغاوت کانتیجہ ہے ، قدم قدم پر شہوت کو
ہوا دینے کے سامان مہیا کئے گئے ہیں ،الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا اپنی تجارت کو فروغ
دینے کے لیے عورت کو کم سے کم لباس میں پیش کررہا ہے ،خودلڑکیاں شوخ اور تنگ لباس
زیب تن کئے اٹکھیلیاں کرتیں نگاہ ہوس کو دعوت دے رہی ہوتی ہیں ۔
ایسے حالات میں اگر کوئی کہے
کہ ہم آگ جلائیں گے لیکن اطراف کی چیزیں نہیں جلنی چائییں، سونا اور ہیرے جواہرات
عوامی مقامات پر رکھے رہیں گے ان کی چوری نہیں ہونی چاہیے ،گھر کا دروازہ کھلارہے
گا گھرکا سامان محفوظ رہناچاہیے ، مٹھائیاں کھلی رہیں گی ان پر مکھیاں نہیں لگنی
چاہئیں ،تو ایسا خیال دیوانے کا بر تو ہوسکتاہے ، عقلمند ی کی علامت نہیں ہوسکتی ۔
بہرکیف یہ بہترین موقع ہے دعاة
اورمبلغین کے لیے کہ موجودہ حالات میںآزادی نسواں کے علمبرداروںاورغیرمسلموں کے
سامنے مثبت اندازمیں اسلام کے معاشرتی نظام کی آفاقیت بیان کریں کہ یہی نظام دراصل
عفت وعصمت کا رکھوالا، انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور پرسکون معاشرے کا ضامن ہے ۔اورجب
تک انسانیت اپنے رب کے دئیے ہوئے نظام حیات کی طرف لوٹ کر نہ آئے گی پریشانیاں گھر
ی رہیں گی ، عفت وعصمت کا خون ہوتا رہے گا اورجرائم دن بدن بڑھتے ہی رہیں گے ۔
٭٭٭
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق