غزل
وہ قتل کرتے ہیں پھر بھی خطا نہیں کرتے
امیر لوگ کبھی بھی برا نہیں کرتے
یہ کیسا کوڑھ ہے اے عہد نو معاذاللہ !
شریف لوگ بھی وعدہ وفا نہیں کرتے
وہ اچھے ہو بھی اگر جائیں تو بھلا کیسے
دوا تو کرتے ہیں لیکن دعا نہیں کرتے
تو کیسے مان لیں یہ اہل علم و دانش ہیں
اندھیرا بڑھتا ہے روشن دیا نہیں کرتے
ہمارے عہد کے انسان بھی خدا کی قسم
کچھ ایسے جیتے ہیں جیسے جیا نہیں کرتے
وہ سچی بات کہیں وہ بھی برسر منبر
جناب شیخ تو ایسی خطا نہیں کرتے
اسی لیے تو میں اکثر اداس رہتا ہوں
ہمارے ساتھ وہ ویسی جفا نہیں کرتے
یہی سب سوچ کر میں چپ لگاے رہہتا ہوں
جو بات کرتے ہیں عملا کیا نہیں کرتے
سنا ہے گاؤں میں ساگر ابھی بھی اہل وفا
جفائیں سہتے ہیں لیکن دغا نہیں کرتے
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق