الاثنين، مارس 04، 2013


ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے

   ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی

پچھلے دنوں علماء صادقپور کی سرزمین پٹنہ میں دوچار دن گزارنے کی توفیق ارزانی ہو‏ئی۔ در اصل السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مختلف قسم کے رفاہی اور دعوتی پروگرامز منعقد کیے گئے ۔ سعودی عرب سے بڑے بھائی جناب ڈاکٹر مولانا معراج عالم تیمی کا حکم ہوا کہ اگر بہار میں ان دنوں رہنا تو پروگرام میں شرکت کرنا اور نظامت کا فریضہ انجام دینا۔  حقیقت  تو یہ ہے کہ یہ شوشہ در اصل میرے دوست اور ساتھی مولانا آصف تنویر تیمی کاچھوڑا ہوا تھا ورنہ

کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
نسیم     صبح   تیری   مہربانی
23 دسمبر سے یہ سفر شروع ہو کر 26 دسمبر تک چلا ۔ اس بیچ الحمد للہ کئی ایک کامیاب اور نہایت مفید پروگرام آرگنائز کیے گئے اور اہالیان پٹنہ نے بھر پور استفادہ کیا ۔  مختلف مساجد میں درس قرآن اور درس حدیث کے علاوہ اس پروگرام کی ایک خاصیت نے بطور خاص مجھے متاثر کیا کہ بڑا  پروگرام بھی  کافی زیادہ لمبا نہیں تھا۔ عصر سے شروع ہوکر عشاء تک ختم ہو گیا ۔ یعنی دعوتی کا م بھی ہو گیا اور معاملات زندگی متاثر بھی نہیں ہوے ۔ ایک دوسری بڑی اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی کہ غریبوں کا نہ صرف خیال رکھا گیا کہ ان کہ درمیان کمبل تقسیم کیے گئے بلکہ دانشمندانہ قدم یہ اٹھایا گیا کہ جھگی جھوپڑی کے اندر ایک دینی مکتب بھی کھولا گیا کہ ان کی تعلیم کا بند و بست بھی ہو اور غریبی کے دیو سے مستقل پیچھا بھی چھوٹے۔ اس پروگرام کی ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ اس کے اندر ایک عرب شیخ  حمد بن محمد المھیزعی بھی شریک تھے ۔ آدمی متواضع اور دعوتی جذبے سے شرشار ۔ کئی ایک مواقع سے ان کے خطابات کو اردو زبان میں پیش کرنے کا خاکسار کو موقع نصیب ہوا۔ ہم پٹنہ سے مظفرپور موٹر کار سے شیخ کے ہمراہ جارہے تھے اور ہمارا ڈرائیور ہندو تھا ۔ مجھے جہاں یہ لکھتے ہوے انتہائی درجے میں خوشی ہو رہی ہے کہ شیخ نے اس آدمی کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی اور الحمد للہ اس شخص کا ریسپانس کافی پازیٹیو (جواب مثبت ) رہا وہیں اس بات کا انتہائی درجے میں افسوس ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمانوں اور بطور خاص  علماء نے اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ ورنہ صورت حال کچھ اور ہی ہوتی۔ آج بھی یہ میدان وسیع ہے ۔ دنیا حق جاننے کو آمادہ ہے لیکن افسوس کہ جن کے پاس حق کی نعمت ہے وہ خود اس سے نابلد ہیں ۔ اللہ خیر کرے ۔ خاص طور سے برادران وطن کے اندر جو مختلف معبودوں کا تصور ہے اور انسانوں کی طبقاتی تقسیم ہے اس کی قلعی کھول کر اور اسلام کا صاف و شفاف چہرہ پیش کرکے ان کو تو اسلام سے قریب کیا ہی جا سکتا ہے ۔
اس تین چار دن کے اندر جس بات کا احساس سب سے زیادہ ہوا وہ یہ تھا کہ مسلم عوام کے اندر حق جاننے کا جذبہ کافی زیادہ ہے خاص طور سے جوانوں کے اندر یہ جوش و جذبہ فراواں بھی ہے اور توانا بھی ۔ ان میں سے بعض کے اندر تو داعیانہ اسپرٹ اور احساس ذمہ داری کی بھی جھلک نظر آئی ۔
ان کے سوالات کرنے کے رنگ ڈھنگ سے ان کے  شوق و رغبت کا اندازہ لگانا کوئی اتنا مشکل بھی نہیں تھا۔ بلا شبہ یہ جوان مضبوط سرمایہ ہیں ، البتہ ان کی تربیت کی ضرورت ہے ۔ افسوس کہ اب ہمارے علماء کا رابطہ عوام سے کمزور پڑتا جارہا ہے اور مجھے ذاتی طور پر یہ ڈر ستا تا ہے کہ کہیں یہ جوش و جذبہ سے بھر پور جوان گمراہ کن عناصر کے شکار نہ ہو جائیں ۔ سلیم الفکر علماء کی غفلت کو نظروں میں رکھا جاے اور دوسرے لوگوں کے تگ و تاز کو بھی دیکھا جاے تو اسے اندیشہ ہاے دور دراز بھی نہیں  کہا جا سکتا ۔ تجربات بتلاتے ہیں کہ اپنی کاوش و لگن اور بغیر علماء کی تربیت کے بالعموم لوگ تشدد کی راہ اپنا لیتے ہیں اور تکفیری نقطہ نظر کے اسیر ہو جاتے ہیں ۔ انہیں ہر جگہ سب کچھ غلط ہی نظر آتا ہے اور اس طرح وہ کسی کو مسلمان تک ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
اس پورے معاملے پر السلام ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے جوائنٹ سکریٹری اور بڑے بھائی مولانا صفات عالم زبیر عالم تیمی سے گفت و شنید ہوئی ۔ ان کے تجربات بھی کچھ ایسے ہی تھے ۔ واضح رہے کہ مولانا صفات عالم تیمی کویت میں دعوتی کاز سے جڑے ہوے ہیں ۔ اس کے علاوہ  آپ کی ادارت میں مقبول عام اردو ماہنامہ' المصباح ' پورے تزک و احتشام کے ساتھ شائع ہوتا ہے اور عوام و خواص میں یکساں دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے ۔
آج کل بالعموم میگزین نکالنے کو دعوتی کام سمجھا جاتا ہے ۔ کچھ لوگ مدارس کو دعوت کا اصل مرکز سمجھتے ہیں اور کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویزن کے سہارے ہی یہ کام کیا جا سکتا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ ان تمام باتوں میں جزوی سچائی ہے جسے ہم نے غلطی سے کلی سمجھ لیا ہے ۔ مدارس علماء پیدا کرتے ہیں جو دعوتی فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ یہ ایک بالواسطہ طریقہ ہے اور ظاہر ہے کہ مدارس کے سارے فارغین دعوتی میدان میں تو رہتے بھی نہیں ۔ رسائل جرائد دعوتی کاز میں ممد و معاون ہوتے ہیں اور ہم اپنے مضامین کے ذریعے بلاشبہ یہ کام انجام دے سکتے ہیں لیکن نہ بھولیں کہ ہمارا ٹارگیٹ کم ہوجا تا ہے اور ساتھ ہی یہ نقطہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام داعی کی سیرت اور اس کی عملی زندگی سے کافی جڑا ہوا ہوتا ہے ۔ مضامین دیرپا ہو سکتے ہیں لیکن وہ سب تک نہیں پہنچ سکتے اور داعی کا عملی رویہ یہاں پر ظاہر نہیں ہو سکتا۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویزن سے استفادہ وقت کی ضرورت ہے اور اس سے انکار نہیں لیکن لوگوں کی دینی تربیت ساتھ ساتھ انجام دینا اس سے کسی درجہ کم اہم نہیں ۔ ہماری تاریخ بتلاتی ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف نے گاؤں گاؤں اور بستی بستی گھوم گھوم کر اس فریضے کو انجام دیا ہے اور الحمد للہ کہ ان کی کوششیں کافی بارآور ہوئی ہیں ۔ ہمیں مولانا ثناءاللہ امرتسری ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی کوششوں اور ان کی جانفشانیوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے ۔
آج یہ بات اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تبلیغی جماعت سب سے فعال اور دعوتی سطح پر کامیاب جماعت ہے ، اس لیے نہیں کہ ان کے یہاں سب کچھ ٹھیک درست ہے بلکہ اس لیے کہ ان کے جیالے لوگوں کے بیچ جاکر کام کرتے ہیں ۔ ان کا اور عوام کا بلاواسطہ رشتہ استوار ہوتا ہے اور پھر جو نتائج رونما ہوتے ہیں وہ دنیا کے سامنے ہے ۔ نہ معلوم کیوں بڑی بڑی تنظیموں کے ذمہ داران بھی اخبار نکالنے اور میگزین شائع کر لینے کو دعوت کا مکمل کام سمجھ بیٹھے ہیں ۔ جس کمیونیٹی کی آدھی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہو ان کے دانشوران کی یہ سوچ کس قدر مضحکہ خیز ہے ۔ یہ سب ہو اور ساتھ ہی لوگوں کے بیچ جاکر دعوتی اور تبلیغی مساعی بھی تو کیا کہنے ۔ اقبال نے کتنا درست کہا ہے ۔
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں  کے لیے

ليست هناك تعليقات: