الأحد، فبراير 17، 2013

بی جے پی کو معجزے کی تلاش


رحمت کلیم امواوی
9560878428
اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اگر مذہبی سطح پر متشدد ہندں کی اچھی تعداد نہ ہوتی تو شاید بی جے پی 1992ءمیں زمام حکومت نہ سنبھالتی،کیوں کہ اس دور میں بی جے پی کا جو منشور اور جو ہتھکنڈہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے تیارکیا گیا تھا وہ یہی ثابت کرتا ہے کہ متشدد ہندووں نے صرف رام مندر کے نام پر بی جے پی کو اپنا مسیحا مان لیا تھااور اقتدار کی کرسی سونپنے میں بھر پور کامیاب کوشش کی تھی۔سانحہ تازہ تھا،واقعہ بھی تازہ ترین تھا،بابری مسجد شہید کردی گئی تھی،اور رام مندر کی تعمیرکیلئے ہندو تنظیمیں سرگرداں تھیں،ایسے میں الیکشن کا ماحول کچھ زیادہ ہی الٹ پھیر کرگیا،کانگریس رام مندر کے سلسلہ میںکوئی مستحکم قدم اٹھانے سے قاصر رہی اور اس ایشو پر کوئی ٹھوس فیصلہ بھی سنانا مناسب نہیں سمجھی،البتہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں رام مندر کو بہت زیادہ اہمیت دیا اور یہ سیاسی وعدہ بھی کیا کہ ہم اقتدار میںآجائیں گے تو رام مندر کی تعمیراتی کام کا آغا ز کیا جائیگا۔پھر کیا تھا ،کانگریس کو مات کھانی پڑی اور بی جے پی بر سر اقتدار آگئی،لیکن ایک ٹرم مکمل بھی ہوگیا اور بعض دفع تھورے بہت میعادکیلئے کرسی پر براجمان بھی ہوئی لیکن رام مندر کیلئے کچھ نہ کر سکی ،اور اب ہندوں کا وہ متشدد طبقہ بھی جن کو بی جے پی سے قوی امید تھی حرماں نصیبی کے شکار ہوکر ان سے منہ موڑ لیاہے،اب جبکہ 2014ءپارلیمانی انتخابی بہت ہی قریب آچکا ہے،فضا میں سیاسی بادل دھیرے دھیرے ڈیرہ ڈال رہا ہے،ماحول سیاست آمیز بنتا جارہا ہے،ہر پارٹی اپنے بٹوے میں ہاتھ ڈال رہی ہےںاور ایسے جادوئی آلہ کی تلاش میں ہے جو کہ 2014ءکے میدان میں زیادہ سے زیادہ کار آمد ثابت ہو۔
                                ویسے تو انتخاب کے وقت برساتی مینڈک کی طرح نہ جانے کتنی پارٹیاں معرکہ وجود میں آجاتی ہیں،لیکن مضبوط اور مستحکم پارلیمانی انتخاب کیلئے دوہی پارٹیاں ہیں جن میں سے ایک فی الحال بر سر اقتدار ہے اور دوسری بی جے پی کے نام سے اپوزیشن کی صورت میں ہے،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں پارٹیاںجب 2014کی لڑائی کیلئے پوری طرح میدان میں آجائیںگی تو پھر کس کے پاس زیادہ مضبوط ہتھیار ہوگااورٹھوس ہتھکنڈہ ہوگا جس سے یہ معرکہ اپنے نام کیا جا سکے۔بر سر اقتدار پارٹی کانگریس کا حال تو یہ ہے کہ ان سے ہندو بھی خوش اور مسلمان بھی شاداں۔ہندو یہ سوچ کر خوش ہیںکہ یوپی اے حکومت نے دومسلمان افضل و اجمل کو تختہ دار پر پہونچا کر جمہوریت کا سر اونچا کردیاہے،اور مسلمانوں کی بولتی بند کردی ہے،جب کہ مسلمان اس لیے شاداں و فرحاں ہیں کہ مسلسل مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑے جانے کا جو سلسلہ تھا وہ اب ٹوٹتا نظر آرہا ہے،کیوں کہ موجودہ وزیر داخلہ ششیل کمار شنڈے نے خود اپنی زبان سے یہ اعلان کیا ہے کہ آر ایس ایس،بی جے پی، دہشت گردی کو ملک بھر میں فروغ دینے والی تنظیمیں ہیں،اس سے جہاں مسلمان کے نزدیک خوشی کا مظہر دیکھنے کو ملتا ہے وہیںپسماندہ طبقہ کویہ مستحکم یقین ہوگیا ہے کہ کانگریس ہی ہمارا مسیحا ہے۔آئیے ہم اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ یوپی اے کے خلاف بی جے پی کے پاس کون کون سے ہتھیار ہوسکتے تھے جو اب نہیں رہے ان میں سے ایک توبدعنوانی کا مسئلہ ہے لیکن اس کی لڑائی تو انا ہزارے اور اروند کجریوال لڑ رہے ہیں بی جے پی کا اس معاملہ میں کوئی اہم کردار ناہی رہا ہے اور ناہی ہو سکتا ہے کیوں کہ اس معاملے میں دونوں پارٹیاں ایک سکے کے دوپٹ ہیں،ایف ،ڈی ،آئی کے مسئلہ پر بی جے پی بول بھی نہیں سکتی کیوں کہ اس نے بھی اپنے دور اقتدار میں اس کی سفارش کی تھی،ٹوجی ،تھری جی کا واقعہ ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے،تازہ ترین واقعہ عصمت دری کو لیکر اگر بی جے پی اٹھنا چاہے تو بہت ممکن ہے کہ کانگریس الیکشن سے پہلے ہی اس کے مجرمین کو سولی تک پہونچا کر بی جے پی سے یہ ایشو بھی چھین لے،باقی بچامہنگائی کا مسئلہ ،تو اس سلسلہ میں یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی عام بجٹ کا پیش کیا جانا باقی ہے جس کے ذریعے عام طبقہ کا دل جیتنے میں کانگریس کا میاب ہو جائے۔اب یہ مان کے چلنا ہوگا کہ یو پی اے کا سیاسی جال بی جے پی کے بالمقابل کچھ زیادہ ہی مفید اور مضبوط بھی ہے،ایسا لگتا ہے کہ کانگریس کے پاس عمر و کی زنبیل ہے جس میں ہر طرح کی چیزیں موجود ہیں،یا پھر اس کے پاس ایسی جادوئی چھڑی ہے جس کو ایک بار گھمانے پر ہر کوئی مسحور ہوجاتا ہے۔اب ہم اس بات کا بھی جائزہ لیتے چلیں کہ بی جے پی کے پاس 2014ءکے پارلیمانی انتخاب کیلئے مضبوط ہتھکنڈہ کیا ہے،اور اس کے پارلیمانی منشور میں کیا کچھ داخل ہو سکتا ہے،اور کس کس طرح سے فوائد و نقصانات کے امکان ہیں۔بہت دیر تک اسپ خیال کو دور دور تک غور وخوض کے میدان میں دوڑانے کے بعد بھی کہیں سے کوئی مستحکم اور ٹھوس ہتھکنڈہ 2014ءکیلئے نظرنہیں آتا،لے د ے کر صرف ایک رام مندر کا مسئلہ تو نظر آتا ہے اور اسی کا راگ الاپنے کا امکان زیادہ لگتا ہے،کیوں کہ ابھی کمبھ میلہ میں بی جے پی کے صدرراج ناتھ سنگھ جو کہ بابری مسجد شہید کرنے کی تحریک میں پیش پیش تھے نے کھلے لفظوں میں ہزاروں سنتوں کو یہ یقین دلاتے ہوئے کہاکہ ماضی میں بھی میرا عہد تھا رام مندر بنوانے کا اور اب بھی یہ وعدہ ہے کہ میں رام مندر بنواونگا،لیکن یہ کام اسی وقت ہوگا جب 2014ءکے پارلیمانی انتخاب میں ہمیں اکثریت حاصل ہوگی۔تھوری دیر کیلئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ راج ناتھ کا یہ لالی پاپ بیان جزوی طو ر پر چند ہندوں کو خوش کردے اور کچھ ووٹ ان کا بن جائے،لیکن 1992ءکی طرح کا خواب سجانا شاید خام خیالی ہی ہوگی،کیوں یہ لوگ بھی جان چکے ہیںکہ ہر وعدہ کو پورا کرنا بی جے پی کی عادت وفطرت نہیں ہے۔علاوہ ازیںدوسرا کہیںکیا ایشو اور ہتھکنڈہ بی جے پی اختیار کر سکتی ہے کچھ سمجھ میں تو نہیں آتا،بلکہ نقصانات کے بادل تو بہت زیادہ نظر آرہے ہیں۔90%عوام کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ بی جے پی پارلیمانی انتخاب میں ہٹلر مودی کو بطور وزیر اعظم پیش کریگی اور یہی ممکن بھی لگتا ہے،تو پھر اس وجہ کر سب پہلے بغیر کسی تفریق کے سیکولر زہنیت کا حامل ہر فرد اس سے منہ موڑ لے گا وہیں جنتا دل یونائیٹڈ بھی ساتھ چھوڑ دیگی،کیوں کہ مودی کو نتیش کمار کبھی نہیں قبول کر سکتے اور پھر مودی کا نام آتے ہی ہر ہرکس و ناکس مسلم و غیر مسلم کے آنکھوں میں سفاکیت اور درندگی کا خونخوار منظر دوڑنے لگتاہے،اور بطور وزیر اعظم قبول کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے،ایک دوسری بات یہ بھی ہے کہ مودی کو لیکر بی جے پی میں باہمی رسہ کشی کا ماحول بنا ہوا ہے،آر ایس ایس کا بھی ایک حلقہ ایسا ہے جو نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کو تیار نہیں ہے ،رام جیٹھ ملانی ،باپ بیٹا دونوںاور یشونت سنہا مودی کو وزیر اعطم کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہیں جبکہ ادھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے ششما سوراج کیلئے لڑائی لڑ رہے ہیں،اور ان کووزیر اعظم کا تاج پہنانا چاہ رہے ہیں،پھر بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کی تو بات ہی جداگانہ ہے۔لیکن وزیر اعظم کادور تو بعد میں آتا ہے پہلے تو انتخاب جیتنے کا ہے،اس کیلئے بی جے پی کے پاس ایسا کوئی ہتھیار نظر نہیں آتا جس سے کانگریس پرکامیاب وار کر سکے اور اپنا ووٹ بنا سکے۔اور ہاں لوگوں کو تو اب بی جے پی کے کارناموں سے یہ یقین یوچلا ہے کہ بی جے پی صرف مخالفت برائے مخالفت کرتی ہے،اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
                                الغرض دونوں پارٹیوں کی طاقت کا اندازہ لگانے کے بعد اب یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کانگریس کے اندر بہت سی خامیاں ہیں لیکن بی جے پی کے پاس کوئی مضبوط ہتھیار نہیں ہے جس سے وہ حملہ کر سکے،کانگریس زیادہ مضبوط نہ کہ کر اگر یہ کہیں کہ کانگریس ہی مضبوط ہے تو غلط نہ ہوگا،گذشتہ الیکشن کے با المقال اس بار کا جو بی جے پی کا منشور ہے وہ خالی خالی لگتا ہے،اور کہیں دور دور تک امید کی کرن نہین نظر آتی بی جے پی کیلئے کہ شاید یہ پارٹی کانگریس سے بازی مار لے جائے،کانگریس زیادہ مضبوط ہے بی جے پی کے مقابلے میں اور اب بی جے پی کو صرف معجزے کی ضرورت ہے جو شاید کہیں الیکشن تک نمودار ہوجائے۔
rahmatkalim91@gmail.com

ليست هناك تعليقات: