الخميس، فبراير 14، 2013

شام میں صبح کب ہوگی؟



رحمت کلیم امواوی
9560878428
    عنوان پڑھنے کے ساتھ ہی آپ کا ذہن یقینا گھوم گیا ہوگا اور دل ہی دل میں آپ پہلے پہل ضرور کہ رہے ہونگے کہ یہ کیا راقم الحروف کا پاگل پن ہے،کہ شام میں صبح کی بات کرتا ہے،یہ تو بات ایسی ہی ہے جیسے کوئی برفیلی چٹانوں میں آگ لگانے کی بات کرے۔لیکن آپ گھبرائیے نہیں ہم شام و سحر والی شام کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم ملک شام کی بات کرہے ہیں جس کی راجدھانی دمشق ہے۔جس کا ایک شاندار ماضی رہا ہے،جہاں سے تہذیب و ثقافت کے سوتے پھوٹے ہیں، جہاں سے انسانیت نے عروج وزوال کی حقیقت کو سمجھا ہے،جہاں سے انسانوں نے باضابطہ کھانے کیلئے گندم اگانا اور مٹی کا برتن بنا کر استعمال کا طریقہ وضع کیا،جہاں انسانوں نے سماج ومعاشرے کو ایک مہذب رنگ دیا،جہاں سے انسان شہری زندگی بسر کرنے کے اصول وضوابط اورآداب زندگی سے روشناش ہوئے،اور اپنی زندگی کا بھرپور لطف اٹھانا ایسے شہر سے سیکھا جو دمشق کی شکل میںہزار سال پہلے بھی اپنی الگ شناخت رکھتا تھا اور آج بھی عالمی پیمانے پر اس کی الگ پہچان ہے۔شاید آپ کو یہ بھی یاد ہو کہ ملک شام پر اسد خاندان کی حکومت ۰۷۹۱ءمیں قائم ہوئی،اور مسلسل ۰۷۹۱ءسے ۰۰۰۲ءتک حافظ الاسد نے بحیثیت صدر اس ملک پر حکمرانی کی،تاریخی ،تہذیبی،تمدنی اور علمی اعتبار سے اس ملک نے دنیا کیلئے انمٹ تابندہ نقوش چھوڑے ہیں، حافظ الاسد کے عہد میںملک شام بوقت شام بھی صبح کی تیزی کے ساتھ ترقی کے شاہراہ پرگامزن رہا،اور بہت ہی تیزی کے ساتھ کامیابی کے مدار پر پہونچ گیا،جب حافظ الاسد کی حکومت تیس سال کو پہونچی تو اچانک اوپر سے بلاوا آگیا اور حافظ الاسد ۰۰۰۲ءمیں اس خاکدان ارضی سے کائنات لافانی کوچ کر گئے،پھر کیا تھا،پورا عالم سوگوار ہوگیا،شام میں ہر وقت شام کا منظر تھا،پوراملک ماتم میں ڈوبا ہوا تھا،افراتفری کا ماحول تھا،ایسے میں ”البعث“پارٹی نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی،اور حافظ الاسد کے فرزند بشار الاسدکو بحیثیت صدر ملک شام قبول کرنے کی تجویز پیش کی۔تاریخ شاہد ہے کہ ملک شام کے عوام نے بشار الاسد کو اپنا مسیحا مان کر 97:29%ووٹ دیکر صدر قبول کرلیا۔۰۱جولائی ۰۰۰۲ کو بشار الاسد صدارت کی کرسی پر جلوہ افروز ہوئے،اور دس سال گزرجانے کے بعد شامی باشندوں کو پوری طرح یہ یقین ہوگیاکہ جسے ہم نے مسیحا جانا تھا وہ ہمارا دشمن ہے،جسے ہم نے رہبر کے طور پر قبول کیا تھا وہ ہمار ارہزن ہے،اور جسے ہم نے خوددار حاکم جان کر کرسی پر بیٹھا تھا وہ امریکہ کے ہاتھوں ضمیر فروش نکلا۔
                                جب یہ احساس شامی باشندو ں کو ہوگیا کہ حکومت ہماری امید و گمان کے خلاف ہے تب سے ان کے دلوں میں نفرت پیدا ہونے لگی، اور دھیرے دھیرے منافرت کھل کر سامنے آنا چاہ ہی رہی تھی اور دوسر مسیحا کے متلاشی تھی کہ اچانک مشرق وسطی میںاکثر ممالک کے اندر حکومت کے خلاف ایک ایسی چنگاڑی اٹھی جو دیکھتے ہی دیکھتے شعلہ فشاں ہوگئی،اورپھر اس منافرت کے شعلے نے جو کام کیا تاریخ کبھی فراموش نہیںکر سکتی ۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک آن میں مصر،تیونس،یمن ،ترکی،لیبیاجیسے طاقتور ممالک کو جلاکر خاکستر کردیا،اور شام کا کیا کہنا ،شامی حکومت کا کیا کہنا،یہاں مقابلہ بڑا سخت رہا اور اب تک ہے ۔عوام بدلا کا خواب پہلے ہی سے دیکھ رہے تھے،اوراس طرح کے موقع کے متلاشی تھے ،جب ماحول ملا اور یہ دیکھا کہ مشرق وسطی میں آگ لگی ہے تو فوراً شامیوں نے بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش شروع کردی،۵۱ مارچ۱۱۰۰۲کو شامی باشندوں نے مطلق العنانیت اور آمریت کے خلاف سب سے پہلے ملک شام میں ایک قصبے کے اندر نوجوانوںنے بعض گھروں کے دیوار پر حکومت کے خلاف چند نعرے لکھ دیے،نوجوانوں نے اس امید کے ساتھ یہ قدم اٹھایا تھا کہ شاید حکومت اس مسئلے پر غور کریگی اور شرافت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے باعزت عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کریگی،لیکن گمان الٹا نکلا آیا ،شامی فوجیوں نے ان نوجوانوں کو پکڑ ،پکڑ کر اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا کہ ملک شام کے سارے نوجوان بیدار ہوگئے،اور پھر دیگر عوام کو اس بات پر پہلے ہی سے بشار الا سد سے چیڑھ تھی کہ جب اس کے والد محترم حافظ الاسد نے اپنے آخری وقت میں بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے چند ایسے اقدام کی نشاندہی کی تھی جس میں شامی باشندوں کا بھلا تھا لیکن اس پر دس سال گزر جانے کے باوجودایک قدم بھی نہیں بڑھایا گیا،پھر کیا تھا نوجوان اور دیگر شامی عوام ایک پلیٹ فارم پر آکر حکومت کے خلاف مضبوطی کے ساتھ علم مخالفت بلندکردیا،پھر اس کے بعد کیا ہوا،حکومت نے عوام کو کس ہاتھوں لیا،ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟شاید یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ہر کسی کے پاس ہوگا،عالمی منظرنامے پر نظر رکھنے والے حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اب تک کے سروے کے مطابق ملک شام میں ۰۶ ہزار سے زائد شامی باشندوں کے بدن کو گولیوں سے چھلنی کردیا جا چکا ہے، اپنے ہی ملک میں اپنے ہی محافظوں نے اپنے ہی گولیوں سے اپنوں کو بے دریغ بھون ڈالا ہے،اور تقریباًچھ لاکھ سے زائد شہری اقوام متحدہ کے ریسکیو کمیٹی میں اپنا نام درج کرا چکے ہیں اور مزید لوگ موقع کے فراق میں ہیں ۔
                                                تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ جو ملک امن وسکون کا گہوارہ تھا آج ایک سفاک منڈی میں تبدیل ہوچکا ہے،حاکم وقت ایک خونخوار درندہ صفت انسان بنا ہوا ہے جو مزے لے لے کر اپنے ہی شہریوں کا خون پی رہا ہے،شامی باشندے اپنے بچاو کیلئے دنیا کے سامنے دست سوال بلند کررہے ہیں ،شام کی سرزمین اب رہنے کے قابل نہیں رہی ،ہر کوئی وہاں سے نکل بھاگنا چاہتا ہے،اور اس سفاکیت اور درندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا نہیں چاہتا ،ایک اندازے کے حساب سے اب تک زیادہ تر شامی باشندے اپنے ملک سے نکل کر پڑوسی ملک کے کیمپوں میں پناہ گزیں ہیں ،جن میں سے ۴۱ ہزار شامی مصر میں،ایک لاکھ پچپن ہزار ترکی میں،ایک لاکھ ۸۴ ہزار لبنان میں ،ایک لاکھ ۶۴ ہزار اردن میں ،۳۷ ہزار عراق میں پناہ گزیں ہیں۔ایک عام انسان بھی اس اعداد وشمار سے باآسانی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ملک شام میں صبح و شام کا کیا منظر ہوگا جس سے اتنے لوگ بھاگنے پر مجبور ہیں۔شامی فوج اپنے ہی لوگوں کو بے دریغ قتل کر رہی ہے،شہریوں کی عزت و عفت لٹی جارہی ہے،وہاں کے باشندوں کو زبان رکھ کے بھی گونگا بنا دیا گیا ہے،ان کو ہاتھ رکھ کر بھی بے سہارا بنا دیا گیا ہے،آمریت اور انانیت پورے شباب پر ہے،ڈکٹیٹر شپ کی صحیح تصویر شاید بشا ر الاسد دنیا کو دکھانے کو کوشش میں لگا ہوا ہے۔ آج بھی ملک شام میں وہی حالت ہے جو ۱۱۰۰۲ کے شروع میں تھی،اس کے بعد سے مسلسل شہریوں پر یلغار جاری وساری ہے،ہر طرف لاشوں کا ڈھیر ہے،درد و کرب اور آہ و فغاں سے فضا مسموم ہے،شامی باشندے درد کی تاب نہ لاکر چیخ رہے ہیں ،اور چلا،چلا کر یہ کہ رہے ہیں کہ یہ درندگی ہے،یہ حیوانیت ہے،یہ خوفناک قتل عام ہے،یہ انسانیت کا خون ہے،یہ نہتے شامی باشندوں کی منظم نسل کشی ہے،یہ ضمیر کو جھنجھور دینے والی خوں ریزی ہےلیکن افسوس کہ شامی باشندوں کے اس آہ و فغاں کا سفاک صفت صدر پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے اور دنیا بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،کوئی ایسانہیں ہے جو اس کا ہاتھ مڑور سکے۔آج قیامت صغری کا منظر ملک شام میں بپا ہے،ہر طرف ایمبولینس دور رہی ہے،،لاشوں کو کندھے دینے والے کم پر گئے ہیں،انسانیت پوری طرح شرما اٹھی ہے اور اپنے وجود مسعود پر ماتم کناں ہے۔
                ایک ماہ قبل جب ساری دنیا نئے سال کا جشن منانے میں محو تھی تو شامی باشندے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اورصبح صبح اپنے ننھے منے بچوں کے لاشوں کو اپنے ہاتھوں میں اٹھائے دنیا کو سال نو کی مبارکبادی پیش کررہے تھے،اور دنیا بصد خلوص قبول کر رہی تھی۔ آج بھی ملک شام میں ہر وقت شام ہے،درندگی عروج پر ہے،ہر شخص گولیوں اور بموں کی آواز سے خائف ہوکر سوجاتا ہے،اور پھر بم کی آواز پر ہی ان کی نیند ٹوٹتی ہے،ہر شامی یہ سوچ رہا ہے کہ یہ حیوانیت کب ختم ہوگی،کب ہم اپنی زندگی کو محفوظ تصور کریں گے،کب ہم اس سفاک منڈی سے نکلیں گے،اور کب ہم اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق رکھیں گے،آج ملک شام کا ہر شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر کب یہ قیامت ختم ہوگی،اور کب اس خونی رات کو حیات نوکا روشن سورج پارہ پارہ کریگا،ہر شام وہاں کے باشندے اس امید پر اپنی آنکھیں بند کرتے ہیں کہ شاید کل امن کی دنیا کاحسین منظر دیکھنے کو ملے،اور ہر صبح اسی امید پر اپنی آنکھیں کھولتے ہیں کہ اب خوشنما منظر دیکھنے کو ملے گا۔لیکن ہر صبح محرومی اور مایوسی ہاتھ لگتی ہے اوراب وہ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہمارے حصے کا امن و سکون فنا ہوچکی ہے،خونی منظر ہماری نظروں کیلئے مختص ہوگیا ہے،اب تک مسلسل شامی باشندے خونی منظر دیکھتے اور اپنے بچوں ،بھائی ،بہنوں کو اپنے ہاتھوں دفناتے چلے آرہے ہیں ،ساتھ ہی ساتھ شامی خواتین عالم انسانیت کے سامنے دل کے ٹکرے کر دینے والے سوالات بار بار پیش کرتی چلی آرہی ہیں کہ کیا عالم انسانیت کا ضمیر باالکل مردہ ہوچکا ہے؟ان کے جسم میں حرارت پیدا کرنے کیلئے ہمیں مزید کتنی جانوں کا نذران پیش کرنا ہوگا؟ہم کب تک جنازہ ڈھوئیں گے؟نہ جانے کس عمیق گڈھے میں انسانوں کا عموماً اور مسلمانوں کا خصوصاًحس سوگیا ہے،کیا ہمارے اوپر ہورہے ظلم و ستم کا احساس اور ہمارے زخموں کے ٹیس ان کے جذبات میں کچوکے نہیں لگاتیں؟کیا ہماری خاطر اس دنیا میں جینے کی کوئی جگہ ہے؟کیا ہمارے حصے میں کبھی روشن صبح ہے؟کیا ہمارے ملک شام میں صبح کی امید ہے؟؟؟
        ضرورت ہے عالم انسانیت انسانیت کے ناطے بلا تفریق ملک و ملت شامی باشندوں پر ڈھائے جارہے مظالم کے روک تھام کیلئے بیدار مغزی کے ثبوت فراہم کریں۔اور انہیں بھی خوشی کے ساتھ جینے کا موقع فراہم کرنے کی کوشش کریں،اور درندگی کے خاتمے کیلئے اپنی بساط بھر کوشش کریں،اور بھائی چارگی کے ناطے ان کی دنیا پھر سے آباد کرنے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر کھرے ہوجائیں ۔اللہ ہمیں مستحکم قدم اٹھانے کی توفیق دے ۔آمین
rahmatkalim91@gmail.com

ليست هناك تعليقات: