ثناء اللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو
یونیورسٹی ، نئی دہلی ۔110067
ہمارے دوست بے نام
خاں اکثر خوش رہتے ہیں ۔ ان کو یوں بھی ہم نے بہت کم روتے ہوئے دیکھا ہے ۔منہ
بنائے رہنا ، بے وجہ ٹینشن پالنا اور صحت خراب کرنے کا عارضہ انہیں نہیں ہے ۔ وہ
اکثر یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اگر انسان STATUS QUO (موجودہ صورت حال)پر راضی ہونا سیکھ لے تو وہ بہت
سی پریشانیوں سے نجات پاجائے ۔قناعت کا مطلب اس کے علاوہ کیا ہے کہ
انسان کم سے کم پر راضی رہے اور اللہ کا شکر بجا لائے ۔ ان کے بقول یہی در اصل
مثبت فکر وعمل کا اظہاریہ بھی ہے ۔ان کو تسلیم کیا جائے تو دنیا میں صرف برائی
نہیں ہے بلکہ اگر کوئی چشم بینا سے کام لے تو یہاں بہت کچھ اچھا ئی بھی ہے۔اور ایک
آدمی اگر اچھائی کے راستے پر چلنا چاہے تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ ایک اچھی زندگی
گزارسکتا ہے ۔ان کے مطابق ہماری سوسائٹی کا کوڑھ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ
زندگی کے غم اندوہ پہلو پر نظر رکھتے ہیں اور اس کو لے کر پریشان رہتے ہیں ۔کمال
تو یہ ہے کہ ایسے لوگ زیادہ تر صرف حالات کا رونا روتے ہیں ۔شکوے کرتے ہیں ۔
تنقیدی گھوڑے دوڑاتے ہیں ۔اور سارا الزام کسی اور کے سر ڈال دیتے ہیں ۔ اور اپنی
دانشمندی پر پھولے نہیں سماتے ۔
ایک روز
انہوں نے مثال کے ذریعہ سمجھاتے ہوئے کہا کہ اب صرف اسلامی دعوت کی مثال لےلو ۔
اللہ کا کرم ہے کہ کام ہو رہاہے ۔اسلام کی کرنیں روشنی بکھیر رہی ہیں ۔دنیا اسلام
سے قریب ہورہی ہے ۔ آئے دن الحمد للہ بہت سے گم گشتہ راہ صراط مستقیم کی نعمت سے
سرفراز ہورہے ہیں ۔یورپ اور امریکہ سمیت دنیا اسلام کی سچائیو ں پر ایمان لارہی ہے
۔خواتین ، بوڑھے ، بچے سب کے سب دائرہ دین میں دیوانہ وار آرہے ہیں ۔تبلیغ کی بابت
غور کرو تو پہلے کے بالمقابل اب لوگ زیادہ اس طرف مائل ہوئے ہیں ۔ پہلے ایک دو
مدارس پائے جاتے تھے آج ہزاروں کی تعداد میں مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے ۔مساجد کی
طرف لوگوں کا رجحان بڑھ رہاہے ۔لوگ آج بھی علماء سے سوالات کرتے ہیں اور اپنی دینی
ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں ۔پہلے جہاں دین و ایمان کا گزر بسر نہیں تھا آج الحمد
للہ وہی دین وایمان کے مراکز بنے ہوئے ہیں ۔
ہم اگر
دنیا کے معاملات پر بھی غور کریں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے ۔پہلے آج
کی طرح سہولتیں نہیں تھیں ۔ اتنی تیز رفتار موٹر گاڑی نہیں تھی ۔اتنے اچھے راستے
نہیں تھے ۔ ٹرینیں نہیں تھیں ۔بسوں کا نظام اتنا اچھا نہیں تھا ۔میٹرو کی نعمت
نہیں تھی ۔ پہلے لوگوں کو فاقہ کرنا پڑتا تھا ۔ موٹے جھوٹے پر گزارہ کرنا پڑتا تھا
۔ جیسے تیسے زندگی کے شب وروز گزرتے تھے۔آج کی دنیا بہت آگے جاچکی ہے ۔آج ہر طرح
کی سہولتیں ہیں لیکن آج کا انسان پریشان ہے اور کل کا انسان خوش تھا ۔ چین وسکون
کی نعمتوں سے ہمکنار تھا ۔اس لیے کہ اس کی خواہشیں مختصر تھیں اور رب پر بھروسہ
زبردست تھا ۔وہ زندگی کے مثبت پہلو پر زیادہ نظر رکھتا تھا اور اگر منفی پہلو کو
دیکھتا تھا تو اس لیے کہ اس سے بچ کراچھا راستہ اپنا سکے ۔ زندگی کو زیادہ کارگر
بنا سکے ۔وہ کام کرتا تھا اور خوش رہتا تھا اور آج بھی کام کرکے نتیجہ اللہ پر
چھوڑنے والے زیادہ مطمئن اور شاد کام ہیں ۔ اس لیے کہ یہی خوشی اور سعادت کا راستہ
ہے ۔اللہ کے رسول ایک حدیث کے اندر ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری اداکرو اور
اپنے حقوق اللہ کے سپرد کردو۔ ہم حقوق کی جنگ لڑتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں سے
مطلب ہی نہیں رکھتے ۔ ہاں ہمیں دوسروں کی ذمہ داریا ں خوب یاد رہتی ہیں ۔
کام نہیں
کیسے ہورہاہے ۔ اللہ کا شکر اداکرنے کا جذبہ نہ ہو تو الگ بات ہے ورنہ اللہ کے
بندے ایسی ایسی جگہوں پر حق کی قندیل روشن کررہے ہیں کہ کیا کہنا ۔یونیورسیٹیوں کے
اندر اللہ کے نیک بندے الحاد ودہریت کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ مسلم بہنیں ان غیر دینی
درسگاہوں کے اندر دعوتی فريضہ انجام دےرہی ہیں ۔اللہ کے بندے کوردہ علاقوں کا دورہ
کرکے شمع توحید جلانے کی کوششیں بروئے کارلارہے ہیں ۔ اور یہ مساعی کارگر ثابت
ہورہی ہیں ۔عاملین بالحدیث کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ۔ صحیح دین کی طرف
لوگوں کا رجحان تیز تر ہے پھر ہم نا امید کیوں ہیں ۔ ہمیں صر ف برائیاں کیوں نظر
آتی ہیں ۔
اس پورے
معاملے کو ہندوستان کے تناظرمیں دیکھو تو اور بھی معاملہ صاف ہوجائیگا ۔یہاں آر
ایس ایس کا خطرہ ہے ۔ یہاں ہندؤں کی اکثریت ہے ۔ یہاں حکومت کارویہ منافقانہ ہے ۔
یہاں تعصب کی دبیز چادرہے ۔ یہاں ڈرایا دھمکایا جاتاہے ۔یہاں ہمارے حقوق غصب کیے
جاتے ہیں ۔یہاں اسلام کو بھی کبھی کبھی نشانہ بنالیا جاتاہے ۔ یہاں علمائے اسلام
کو بھی زدوکوب کردیا جاتاہے ۔اور خاص طور سے وہ پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں جن سے
مسلمانوں کا نقصان ہو ۔ یہ سب کسی نہ کسی حد تک درست اور سچ ہے لیکن اگر اسی پرنظر
رکھی جائے تو یاتو خوف پیدا ہوگا ، نوامیدی آئیگی ، بزدلی او ر منافقت کے رویے
اپنائے جائینگے یا پھر تشدد اور حماقت آمیز جوش و جذبہ پروان چھڑےگا جبکہ سچائی یہ
ہے کہ اسی ہندوستان کے اندر آپ کو پوری طرح یہ حق حاصل ہے کہ آپ اپنے طورطریقے کے
مطابق جیئں اور زندگی گزاریں ۔ اسی ہندوستان میں لیفٹ بھی ہے جو رائٹ ونگ
اکسٹریمزم کا مقابلہ کرتی ہے ۔ اسی ہندوستان میں عدلیہ آزاد ہے اور بے قصور بری
بھی کیے جاتے ہیں ۔ مجرم سزا سے دوچار بھی کیے جاتے ہیں ۔ایک مسلمان بھی ہر طرح سے
لگ بھگ آزاد ہے کہ وہ اپنا کیریئر بنا سکے اور ترقی کرکے اعلی سے اعلی عہدے
پربراجمان ہوسکے ۔ اس کی ہزاروں مثالیں پائی جاتی ہیں ۔اب اگر اس مثبت پہلو کو نظر
میں رکھا جائے تو زیادہ کام ہو سکتا ہے اور عملی اسپرٹ زیادہ پیدا ہوگی ۔لیکن
مسئلہ یہی ہے کہ ہم کسی بھی چیز کو مثبت لینے کوتیار ہی نہیں ہوتے اور بے مطلب کا
رونا روتے رہتے ہیں ۔
میرے
مولانا دوست میرے کہنے کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈال
کر خوش ہو رہیں ۔ میرا مطلب تو صرف اورصرف یہ ہے کہ ہم آگے کی طرف دیکھیں ۔ کچھ
اگر غلط ہے تو اس کو درست کرنے کی کشش کریں نہ یہ کہ شکوہ کا طومارکھڑاکردیں ۔بے
عملی کا جواز تلاش کرتے رہیں ۔ ایسا کرکے ہم صرف اور صرف اپنا نقصان کررہے ہونگے
اور کچھ نہیں ۔رسول کا اسوہ ہر طرح کے حالات میں کام کرنے پر ابھارتا ہے ۔ اس بات
کو سمجھنا ضروری ہے کہ عمل ہی کامیابی کا پہلا اور آخری زینہ ہے ۔ اور اگر ہم یہ
سوچ کر آگے بڑھیں کہ کام ہورہاہے اور ہمیں بھی اپنے حصہ کا کام کرنا ہے تو ان شاء
اللہ اچھی اور بہتر تبدیلی ضرور رونما ہوگی ۔ رہے نام اللہ کا
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق