الخميس، فبراير 14، 2013

'ظفر علی خاں –حیات، شاعری اور صحافت' پر ایک نظر

ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی
           انیسوی اور بیسویں صدی کے ہندوستان سے واقف لوگوں کے لیے ظفر علی خاں کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہوگی ۔ مولانا ظفر علی خاں علم و ادب کے اس شجر پر بہار کا نام ہے جس کے سایے کی افادیت مسلم رہی ہے ۔وہ   چوطرفہ اور ہر فن مولی قسم کی شخصیت کے مالک تھے ۔ شاعری ، خطابت، صحافت ، ترجمہ نگاری  سےلے کر تصنیف تالیف ہر جگہ آپ کے جو ہر کھلتے تھے ۔ اسلاف کے اس گروہ سے آپ کا تعلق تھا جو راست گوئی ، حق بیانی ، صدق و صفا، حرکت ، ایمانداری اور دینی غیرت کے معاملے میں قابل تقلید اثاثہ چھوڑ گئے ۔ہندوسان کی آزادی   کی راہ میں اپنی ساری توانائی صرف کردی ۔ اور جہاں رہے اسلام اور مسلم قوم کے بہادر  سپاہی بن کر رہے ۔
                 مولانا رفیع اللہ مسعود تیمی نے 'ظفر علی خاں  حیات ،شاعری اور صحافت ' جیسی اہم کتاب لکھ کر   ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ خاص طور سے آج کی نوجوا ن نسل جس قسم کی فکری بے راہ روی اور ذہنی آوارگی کی شکار ہے ایسے میں اس قسم کے  علماء ، مصلحین اور دانشوران قوم کو بہتر عصری اسلوب میں  پیش کرنے کی کوشش قابل ستائش ہے اور اس تناظر میں اس کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ 'ظفر علی خاں – حیات،شاعری اور صحافت '  تین  ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب میں مصنف نے ظفر علی خاں کے پیدائش کے وقت میں بر صغیر ہند وپاک کی سماجی ،سیاسی اور ادبی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے  ان کی حالات زندگی کو بیان کیا ہے ۔ اس درمیان  مسلمانوں کے بیچ اٹھنے والی شاہ ولی اللہ دہلوی کی اصلاحی تحریک، سید احمد اور سید اسماعیل دہلوی کی تحریک جہاد ،علی گڑھ تحریک  اور دیوبند تحریک کے ہمراہ ہی مصنف نے راجہ رام موہن  رائے  کی برہمو تحریک  اور دیا نند سرسوتی کی  آریہ سماج تحریک کا بھی  ذکر کیاہے ۔اختصار کے ساتھ تجزیاتی رویہ اپنایا گیاہے ۔ لیکن انصاف کے تقاضے ملحوظ رکھے گئے ہیں ۔تحریک دیو بند کے ذکر میں جہاں یہ لکھ کر تحریک دیوبند کو آئینہ دکھلایا گیا ہے کہ
'تحریک دیوبند رفتہ رفتہ تقلیدی جمود اور موہوم ہندی ویدانتی تصوف کے خول میں سمٹ کر رہ گئی حالانکہ اس کا خمیر بھی وہی تھا جو شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے نے تیار کیا تھا ' وہیں یہ خراج تحسین بھی پیش کی گئی ہے ۔
'تحریک دیوبند کا مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح ، غلط رسوم ورواج کے استیصال ،دین کی ترویج واشاعت ،فرق ضالہ سے مناظرہ، ملک کے علمی و روحانی سرمایے کے تحفظ میں زبردست کردار رہاہے ۔ اس تحریک نے درس وتدریس کے لامتناہی سلسلے کے آغاز میں جو پیہم کوشش کی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فارسی و عربی      زبان وادب کے ساتھ اردو کو بھی فروغ حاصل ہوا۔' 
          لیکن یہی رویہ علی گڑھ تحریک پر قلم اٹھاتے ہوئے نہیں روا رکھا گیا ہے ۔ مصنف نے سرسید کی  دینی کوششوں کو جس انداز میں بیان کیا ہے اس سے ایک قسم کی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے ۔ 'سر سید ایک مذہبی آدمی تھے  اور انہوں نے عقل سلیم کے ذریعہ اسلام کی مدافعت کی اور یہ ثابت کردیا کہ اسلام زمانے کے نئے تقاضو ں کو نہ صرف قبول کرتاہے بلکہ نئے حقا‏ئق کی توضیح کی بھی صلاحیت رکھتاہے ۔ علی گڑھ تحریک نے یہ بھی واضح کیا کہ انگریزی تعلیم اسلام کے بنیادی نظریات پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔چنانچہ فقہ و فلسفہ کے ساتھ ساتھ  اس تحریک نے اسلام کی تفہیم میں عقلی نقطہ نظر بھی استعمال کیا اور اس کی حقانیت کو ایک نیا ثبوت فراہم کیا۔'
         سر سید اپنی جملہ خوبیوں کے باوصف دین کی تفہیم کے  معاملے میں بڑی چوک کے شکار ہوئے ہیں ۔  عقل کے  بے لاگ  استعما ل سے  اسلام کے بنیادی عقائد تک پر حرف آگئے ہیں ۔ان کی تعریف اور ان کے کارناموں کے ذکر کے ساتھ ہی اس طرف اشارہ  بھی بہت ضروری ہے ۔
            باب اول میں مصنف نے ان حالات اور ان کے پڑنے والے اثرات کی روشنی میں مولانا ظفر علی خاں کی شخصیت کو سمجھنے اور سمجھانے کی اچھی کوشش کی ہے ۔ان کی زندگی ، عملی اور علمی کارناموں پر  محبت اور اپنائیت کے ساتھ روشنی ڈالنے کی کامیا ب کوشش کی ہے ۔ خاص طور سے ان کے اخلاق  حمیدہ  کا ذکر دلکش بھی ہے اور مسحور کن بھی ۔ان کی افتاد  طبع اور نفسیات سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے  اور اس طرح ان کی شخصیت کا اچھا مطالعہ سامنے آیا گیا ہے ۔ اس کا کچھ اندازہ ان ذیلی عنوانات سے لگایا جاسکتاہےجو اس طرح ہیں ۔ظفرعلی خاں کا خاندانی پس منظر ، ولادت، نشوونما، تعلیم وتربیت، عقیدہ و فکر، اخلاق و عادات ، ظفر علی خاں میدان عمل میں ، ظفر علی خاں بحیثیت مسلما ن،ظفرعلی خاں بحیثیت انسان ، ظفرعلی خاں بحیثیت سیاسی رہنما ، ظفر علی خاں اور جد وجہد آزادی ، ظفرعلی خاں اور ملکی اور بین الاقوامی مسائل ، تصنیفات وتراجم ، وفات ، اولاد ، ظفر علی خاں معاصرین کی نظر میں  اور ظفر علی خاں مشاہیر کی نظر میں ۔اس باب کی ایک قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ ظفر علی خاں کے ساتھ ساتھ اس عہد کے بہت سے سیاسی ، دینی اورعلمی مباحث کا بھی  ذکر آگیا ہے جو بلاشبہ فائدے سے خالی نہیں ہے ۔
                دوسرے باب میں ظفر علی خاں کی شاعری  سے بحث کی گئی  ہے ۔ان کی حمدیہ شاعری ، نعتیہ شاعری ، جدید نظم ، قصائد ، مراثی ، طنزو مزاح ، غزلیں  اور مناجات کی روشنی میں ان کے فکرو فن کا جائزہ لیا گیا ہے ۔مثالوں اور ناقدین  فن کے آراء نقل کرکے ان کی شاعری کی خصوصیا ت اجاگر کی گئی ہیں ۔اس معاملے میں مصنف پوری طرح کامیا ب  نظر آتے ہیں کہ قاری اس کتا ب کو پڑھنے کے بعد کم از کم ظفر کی شاعری کے مختلف اور متنوع رنگ و آہنگ سے واقف ہو ہی جائے۔ ان کی حمدیہ  اور نعتیہ شاعری کے بارے میں مصنف شورش کاشمیری  کے اس بیان کی تائید کرتے ہیں کہ ان کے یہاں غلو کا نام تک نہیں ۔لیکن جہاں اس قسم کی  خرابیاں در آئی ہیں ، ان کی طرف اشارہ نہیں کرتے  جیسے مولانا کا یہ حمدیہ شعر
نہ ہوتی گر خودی ہم میں تو جو تھا وہی ہم تھے
یہ پردہ کس لیے ڈالا ہے یارب  درمیاں تونے
یا اسی طرح نعت کا ایک شعر
سب سے اونچا پایہ ہے اس کا اور  تیرے اوپر سایہ ہے اس کا
ملت  بیضا‌ء  پھر تجھے  کیا  غم صلی اللہ علیہ وسلم
مصنف نے غالبا اس جانب اس لیے اشارہ کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ ایسی لغزشوں کو  بہت کم راہ  مل پائی ہے ۔ ان کی شاعری ، اس کی خصوصیات اور اردوشاعری میں ان کے مقام و مرتبے کے تعین کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ۔ان کے جوش وجذبہ، فی البدیہ شعر کہنے کی لاجواب صلاحیت ،  رونما ہونے والے حالات وواقعات  پر ایک پر ایک دلکش نظموں کی سوغات اور ان کی شاعرانہ طبیعت کی روانی کا تذکرہ خوب ہے ۔تجزیے کی خاطر جن نظموں ، نعتوں ، حمدیہ کلام ، مراثی اور غزلوں کا انتخاب عمل میں آیا ہے وہ  مصنف کے حسن انتخاب اور بہتر ذوق  کا آئینہ دار ہے ۔یہ اشعار یاد رکھے جانے کے قابل ہیں ۔
قدسیوں میں ہو رہی تھیں آج یہ سرگوشیاں
عنقریب اسلام کی فصل بہار آنے کو ہے
سلیقہ مے کشی ہو کاہو تو کرلیتی ہے محفل میں
نگاہ مست ساقی مفلسی کا اعتبار اب بھی
ہوائیں نشیلی  ، فضائیں رنگیلی
بہار اپنی تصویر کھنچوارہی ہے
انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت لکھے گئے یہ اشعار آج بھی داد کے طالب ہیں ۔
صدر اعظم کی سخاوت میں نہیں ہم کو کلام
لیکن ان سے پوچھتے ہیں ہم کہ ہم کو کیا دیا
کاغذی گھوڑا دیا ہم کو سواری کے لیے
اک کھلونا بھیج کر بچو ں کا دل بہلادیا
میوہ خوری کے لیےچننے لگے جب گول میز
رکھ لیا خود مغز چھلکوں پر ہمیں ٹرخادیا

              تیسرے باب میں ان کی صحافت پرروشنی ڈالی گئی ہے ۔مصنف نے اس سلسلے میں ایک اچھا کام یہ کیا ہے کہ اردو صحافت کی تاریخ پر ایک سرسری لیکن کارآمد نظر ڈالی ہے ۔افسانہ، دکن ریویو ، پنجاب ریویو ، ستارہ صبح، ہفتہ وار زمیندار اور  روزنامہ زمیندار پر قدرے مفصل  گفتگو کرتےہوئے ظفرعلی خاں کی صحافتی خدمات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئ ہے ۔ان کے اسلوب نگارش کے امتیازات تلاشے گئے ہیں اور ان کی اداریہ نویسی کی خصوصیات پر بھی نطرڈالی گئی ہے  اور اردو صحافت میں ان کے مقام و مرتبے کے تعین کی طرف بھی پیش قدمی کی گئی ہے ۔ جو ایک قابل تحسین عمل ہے ۔تیسرا باب اس لیے بھی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ بالعموم ظفرعلی خاں کو صرف زمیندار کی ادارت کے لیے ہی جانا جاتا ہے جب کہ ان کی خدمات صرف زمیندار تک محدود نہیں رہی ہے ۔ مولانا  کی یہ کتا ب ظفر علی خاں کی ادارتی صلاحیتوں کو دوسرے رسائل کی روشنی میں بہتر طریقے سے پیش کرتی ہے ۔ ظفر علی خاں کے یہاں گھن گرج ، جوش ، خروش ،چھاجانےوالا اسلوب  اور خطابت کے جو عناصر پائے جاتے ہیں  ان تمام کا ذکر آیا ہے اور آب وتاب کے ساتھ آیاہے ۔ ہمارا ماننا ہے کہ  تیسرا باب ظفر علی خاں کی صحافتی خدمات پیش کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے ۔  
              مولانا رفیع اللہ مسعود تیمی علمی حلقوں میں اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں ۔ آپ کے تیز رو قلم سے کئی کتابیں منظر عام پر آکر اصحاب ذوق کی علمی  تسکین کا ذریعہ بن چکی ہیں ۔ ان  کی یہ کتا ب ظفر علی خاں کی شخصیت ، ان کی شاعری اور صحافت کی تفہیم کے باب میں ایک  اہم تصنیف ہے ۔  کتاب کا اسلوب علمی ہونے کے باوجود  خشک نہیں ہے ۔ قاری کے اوپر اکتاہٹ کی کیفیت طاری نہیں ہوتی ۔ تحریر میں دلکشی  ہے اور رچاؤ بھی ۔ مصنف نے   قابل قدر مواد  فراہم  کردیا  ہے ۔کتا ب کی ایک بڑی خوبی اس کا حوالہ جات سے مزین ہو نا ہے جو اسے وقار واعتبار عطا کرتا ہے ۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں بھی کم ہیں ۔کتاب کی طباعت عمدہ ہے۔پیش گفتار   میں  پروفیسر ابن کنول نے درست لکھاہے کہ مصنف کا ذہن و مزاج محققانہ ہے ۔ کتاب میں اس کے نمونے بکھرے ہوئے ہیں ۔مقدمہ کے اندر مصنف نے کتاب  اور ظفر علی خاں سے متعلق  اجمالا گفتگو کی ہے ۔ یہ کتاب ظفر علی خاں کے محاسن وخدمات کا بہتریں مرقع ہے  البتہ اگر ان کی فنی یا دینی کمیوں کی طرف بھی اشارے ہو جاتے  تو سونے پر سہاگا ہو جاتا ۔ کتا ب  اس قابل ہے کہ اسے خرید کر پڑھا جائے  ۔ میں مصنف کو اس علمی کاوش پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔


ليست هناك تعليقات: